• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم غزوۂ تبوک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غزوۂ تبوک

غزوہ ٔ فتح مکہ ، حق وباطل کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ تھا۔ اس معرکے کے بعد اہلِ عرب کے نزدیک رسول اللہﷺ کی رسالت میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا تھا۔ اسی لیے حالات کی رفتار یکسر بدل گئی۔ اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوگئے۔ اس کا کچھ اندازہ ان تفصیلات سے لگ سکے گا جنہیں ہم وفود کے باب میں پیش کریں گے۔ اور کچھ اندازہ اس تعداد سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو حجۃ الوداع میں حاضر ہوئی تھی - بہرحال اب اندرونی مشکلات کا تقریباً خاتمہ ہوچکا تھا اور مسلمان شریعتِ الٰہی کی تعلیم عام کرنے اور اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے یکسو ہوگئے تھے۔
غزوہ کا سبب:
مگر اب ایک ایسی طاقت کا رُخ مدینہ کی طرف ہوچکا تھا جو کسی وجہ جواز کے بغیر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کررہی تھی۔ یہ طاقت رومیوں کی تھی جو اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی فوجی قوت کی حیثیت رکھتی تھی۔ پچھلے اوراق میں یہ بتایا جاچکا ہے کہ اس چھیڑ چھاڑ کی ابتدا شُرَحْبیل بن عمرو غسانی کے ہاتھو ں رسول اللہﷺ کے سفیر حضرت حارث بن عُمیر ازدیؓ کے قتل سے ہوئی جبکہ وہ رسول اللہﷺ کا پیغام لے کر بصریٰ کے حکمران کے پاس تشریف لے گئے تھے۔ یہ بھی بتا یا جا چکا ہے کہ نبیﷺ نے اس کے بعد حضرت زید بن حارثہؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر بھیجا تھا جس نے رومیوں سے سر زمین موتہ میں خوفناک ٹکر لی۔ مگر یہ لشکر ان متکبر ظالموں سے انتقام لینے میں کامیاب نہ ہوا۔ البتہ اس نے دور ونزدیک کے عرب باشندوں پر نہایت بہترین اثر ات چھوڑے۔
قیصر روم ان اثرات کو اور ان کے نتیجے میں عرب قبائل کے اندر روم سے آزادی اور مسلمانوں کی ہم نوائی کے لیے پیدا ہونے والے جذبات کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے لیے یقینا یہ ایک ''خطرہ '' تھا ، جو قدم بہ قدم اس کی سرحد کی طرف بڑھ رہا تھا اور عرب سے ملی ہوئی سر حد شام کے لیے چیلنج بنتا جارہا تھا۔ اس لیے قیصر نے سوچا کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک عظیم اور ناقابل شکست خطرے کی صورت اختیار کرنے سے پہلے پہلے کچل دینا ضروری ہے تاکہ روم سے متصل عرب علاقوں میں ''فتنے '' اور ''ہنگامے'' سرنہ اٹھا سکیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان مصلحتوں کے پیش نظر ابھی جنگ ِموتہ پر ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ قیصر نے رومی باشندوں اور اپنے ماتحت عربوں یعنی آل ِ غسان وغیرہ پر مشتمل فوج کی فراہمی شروع کردی، اور ایک خونریز اور فیصلہ کن معرکے کی تیاری میں لگ گیا۔
روم وغَسّان کی تیاریوں کی عام خبریں:
ادھر مدینہ میں پے در پے خبریں پہنچ رہی تھیں کہ روم مسلمانوں کے خلاف ایک فیصلہ کن معرکے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کو ہمہ وقت کھٹکا لگا رہتا تھا۔ اور ان کے کان کسی بھی غیر مُعتاد آواز کو سن کر فورا ً کھڑے ہوجاتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ رومیوں کا ریلا آگیا۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے کہ اسی ۹ ھ میں نبیﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے ناراض ہوکر ایک مہینہ کے لیے اِیْلَا1کرلیا تھا۔ اور انہیں چھوڑ کر ایک بالاخانہ میں علیحدہ ہوگئے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ابتداء میں حقیقت ِ حال معلوم نہ ہوسکی تھی۔ انہوں نے سمجھا کہ نبیﷺ نے طلاق دے دی ہے اور اس کی وجہسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شدید رنج وغم پھیل گیا تھا۔ حضرت عمر بن خطابؓ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا ایک انصاری ساتھی تھا۔ جب میں (خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ) موجود نہ رہتا تو وہ میرے پاس خبر لاتا۔ اور جب وہ موجود نہ ہوتا تو میں اس کے پاس خبر لے جاتا ...یہ دونوں ہی عوالی مدینہ میں رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے پڑوسی تھے۔ اور باری باری خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوتے تھے - اس زمانے میں ہمیں شاہ غسان کا خطرہ لگا ہوا تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ ہم پر یورش کرنا چاہتا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے سینے بھرے ہوئے تھے۔ ایک روز اچانک میرا انصاری ساتھی دروازہ پیٹنے لگا اور کہنے لگا : کھولو کھولو۔ میں نے کہا : کیا غسانی آگئے ؟ اس نے کہا : نہیں بلکہ اس سے بھی بڑی بات ہوگئی۔ رسول اللہﷺ اپنی بیویوں سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔2
ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ حضرت عمرؓ نے کہا : ہم میں چرچا تھا کہ آلِ غسان ہم پر چڑھا ئی کرنے کے لیے گھوڑوں کو نعل لگوارہے ہیں۔ ایک روز میرا ساتھی اپنی باری پر گیا اور عشاء کے وقت واپس آکر میرا دروازہ بڑے زور سے پیٹا اور کہا: کیا وہ سو گئے ہیں ؟ میں گھبراکر باہر آیا۔ اس نے کہا بڑا حادثہ ہوگیا ہے۔ میں نے کہا : کیا ہو ا؟ کیا غسانی آگئے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ بلکہ اس سے بھی بڑا اور لمبا حادثہ۔ رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ الخ3
اس سے اس صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے جو اس وقت رومیوں کی جانب سے مسلمانوں کو درپیش تھی۔ اس میں مزید اضافہ منافقین کی ان ریشہ دوانیوں سے ہوا جو انہوں نے رومیوں کی تیاری کی خبر یں مدینہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 عورت کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لینا۔ اگر یہ قسم چار ماہ یا اس سے کم مدت کے لیے ہو تواس پر شرعاً کوئی حکم لاگو نہ ہوگا اور اگر یہ ایلاء چار مہینے سے زیادہ مدت کے لیے ہو تو پھر چار ماہ پورے ہوتے ہی شرعی عدالت دخیل ہوگی کہ شوہر یا تو بیوی کو بیوی کی طرح رکھے یا اسے طلاق دے۔ بعض صحابہ کے بقول فقط چار ماہ کی مدت گزر جانے سے طلاق پڑ جائے گی۔
2 صحیح بخاری ۲/۷۳۰
3 ایضا صحیح بخاری ۱/۳۳۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پہنچنے کے بعد شروع کیں۔ چنانچہ اس کے باوجود کہ یہ منافقین دیکھ چکے تھے کہ رسول اللہﷺ ہر میدان میں کامیاب ہیں اور روئے زمین کی کسی طاقت سے نہیں ڈرتے بلکہ جو رکاوٹیں آپ کی راہ میں حائل ہوتی ہیں ، وہ پاش پاش ہوجاتی ہیں۔ اس کے باوجود منافقین نے یہ امید باندھ لی کہ مسلمانوں کے خلاف انہوں نے اپنے سینوں میں جو دیرینہ آرزو چھپا رکھی ہے ، اور جس گردشِ دوراں کا وہ عرصہ سے انتظار کررہے ہیں ، اب اس کی تکمیل کا وقت قریب آگیا ہے۔ اپنے اسی تصور کی بناء پر انہوں نے ایک مسجد کی شکل میں (جو مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہوئی ) دسیسہ کاری اور سازش کا ایک بھٹ تیار کیا ، جس کی بنیاد اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ اندازی اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر اور ان سے لڑنے والوں کے لیے گھات کی جگہ فراہم کرنے کے ناپاک مقصد پر رکھی اور رسول اللہﷺ سے گزارش کی کہ آپ اس میں نماز پڑھ دیں۔ اس سے منافقین کا مقصد یہ تھا کہ وہ اہلِ ایمان کو فریب میں رکھیں اور انہیں پتہ نہ لگنے دیں کہ اس مسجد میں ان کے خلاف سازش اور دسیسہ کاری کی کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں۔ اور مسلمان اس مسجد میں آنے جانے والوں پر نظر نہ رکھیں۔ اس طرح یہ مسجد ، منافقین اور ان کے بیرونی دوستوں کے لیے پُر امن گھونسلے اور بھٹ کاکام دے۔ لیکن رسول اللہﷺ نے اس ''مسجد''میں نماز کی ادائیگی کو جنگ سے واپسی تک کے لیے مؤخر کردیا۔ کیونکہ آپ تیار ی میں مشغول تھے۔ اس طرح منافقین اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے اور اللہ نے ان کا پردہ واپسی سے پہلے ہی چاک کردیا۔ چنانچہ آپ نے غزوے سے واپس آکر اس مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے اسے منہدم کرادیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
روم و غسان کی تیاریوں کی خاص خبریں:
ان حالات اور خبروں کا مسلمان سامناکر ہی رہے تھے کہ انہیں اچانک ملک شام سے تیل لے کر آنے والے نبطیوں 1سے معلوم ہوا کہ ہرقل نے چالیس ہزار سپاہیوں کا ایک لشکر جرار تیار کیا ہے اور روم کے ایک عظیم کمانڈر کو اس کی کمان سونپی ہے۔ اپنے جھنڈے تلے عیسائی لخم وجذام وغیرہ کو بھی جمع کرلیا ہے، اور ان کا ہراول دستہ بلقاء پہنچ چکا ہے، اس طرح ایک بڑا خطرہ مجسم ہوکر مسلمانوں کے سامنے آگیا۔
حالات کی نزاکت میں اضافہ :
پھر جس بات سے صورت حال کی نزاکت میں مزید اضافہ ہورہا تھا وہ یہ تھی کہ زمانہ سخت گرمی کا تھا۔ لوگ تنگی اور قحط سالی کی آزمائش سے دوچار تھے۔ سواریاں کم تھیں۔ پھل پک چکے تھے، اس لیے لوگ پھل اور سائے میں رہنا چاہتے تھے۔ وہ فی الفور روانگی نہ چاہتے تھے۔ ان سب پر مستزاد مسافت کی دوری اور راستے کی پیچیدگی اور دشواری تھی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 نابت بن اسماعیل علیہ السلام کی نسل ، جنہیں ایک وقت پٹرا اور شمالی حجاز میں بڑا عروج حاصل تھا۔ زوال کے بعد رفتہ رفتہ یہ لوگ معمولی کسانوں اور تاجروں کے درجہ میں آگئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رسول اللہﷺ کی طرف سے ایک قطعی اقدام کا فیصلہ :
لیکن رسول اللہﷺ حالات وتغیرات کا مطالعہ کہیں زیادہ دقت ِ نظر سے فرمارہے تھے۔ آپﷺ سمجھ رہے تھے کہ اگر آپﷺ نے ان فیصلہ کن لمحات میں رومیوں سے جنگ لڑنے میں کاہلی اور سستی سے کام لیا ، رومیوں کو مسلمانوں کے زیر اثر علاقوں میں گھسنے دیا ، اور وہ مدینہ تک بڑھ اور چڑھ آئے تو اسلامی دعوت پر اس کے نہایت بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ مسلمانوں کی فوجی ساکھ اکھڑ جائے گی اور وہ جاہلیت جو جنگِ حنین میں کاری ضرب لگنے کے بعد آخری دم توڑ رہی ہے ، دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔ اور منافقین جو مسلمانوں پر گردش ِ زمانہ کا انتظار کررہے ہیں ، اور ابو عامر فاسق کے ذریعہ شاہ روم سے رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں ، پیچھے سے عین اس وقت مسلمانوں کے شکم میں خنجر گھونپ دیں گے ، جب آگے سے رومیوں کا ریلا ان پر خونخوار حملے کررہا ہوگا۔ اس طرح وہ بہت ساری کوشش رائیگاں چلی جائیں گی جو آپ نے اور آپ کے صحابہ ٔ کرام نے اسلام کی نشر واشاعت میں صرف کی تھیں۔ اور بہت ساری کامیابیاں ناکامی میں تبدیل ہوجائیں گی جو طویل اور خونریز جنگوں اور مسلسل فوجی دوڑ دھوپ کے بعد حاصل کی گئی تھیں۔
رسول اللہﷺ ان نتائج کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ ا س لیے عُسرت وشدت کے باوجود آپﷺ نے طے کیا کہ رومیوں کودار الاسلام کی طرف پیش قدمی کی مہلت دیے بغیر خود ان کے علاقے اور حدود میں گھس کر ان کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رومیوں سے جنگ کی تیاری کا اعلان:
یہ معاملہ طے کر لینے کے بعد آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اعلان فرمادیا کہ لڑائی کی تیاری کریں۔ قبائل عرب اور اہلِ مکہ کو بھی پیغام دیا کہ لڑائی کے لیے نکل پڑیں۔ آپﷺ کا دستور تھا کہ جب کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تو کسی اور ہی جانب کا توریہ کرتے۔ لیکن صورت حال کی نزاکت اور تنگی کی شدت کے سبب اب کی بار آپﷺ نے صاف صاف اعلان فرمادیا کہ رومیوں سے جنگ کا ارادہ ہے تاکہ لوگ مکمل تیاری کرلیں۔ آپﷺ نے اس موقع پر لوگوں کو جہاد کی ترغیب بھی دی۔ اور جنگ ہی پر ابھارنے کے لیے سورۂ توبہ کا بھی ایک ٹکڑا نازل ہوا۔ ساتھ ہی آپﷺ نے صدقہ وخیرات کر نے کی فضیلت بیان کی اور اللہ کی راہ میں اپنا نفیس مال خرچ کر نے کی رغبت دلائی۔
غزوے کی تیاری کے لیے مسلمانوں کی دوڑدھوپ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جونہی رسول اللہﷺ کا ارشاد سنا کہ آپﷺ رومیوں سے جنگ کی دعوت دے رہے ہیں جھٹ اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پرے۔ اور پوری تیز رفتاری سے لڑائی کی تیاری شروع کردی۔ قبیلے اور برادریاں ہر چہار جانب سے مدینہ میں اترنا شروع ہوگئیں اور سوائے ان لوگوں کے جن کے دلو ں میں نفاق کی بیماری تھی ، کسی مسلمان نے اس غزوے سے پیچھے رہنا گوار ا نہ کیا۔ البتہ تین مسلمان اس سے مستثنیٰ ہیں کہ صحیح الایمان ہونے کے باوجود انہوں نے غزوے میں شرکت نہ کی۔ حالت یہ تھی کہ حاجت مند اور فاقہ مست لوگ آتے ، اور رسول اللہﷺ سے درخواست کرتے کہ ان کے لیے سواری فراہم کردیں۔ تاکہ وہ بھی رومیوں سے ہونے والی اس جنگ میں شرکت کرسکیں۔ اور جب آپﷺ ان سے معذرت کرتے کہ :
وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ (۹: ۹۲)
''میں تمہیں سوار کرنے کے لیے کچھ نہیں پاتا تو وہ اس حالت میں واپس ہوتے کہ ان آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے کہ وہ خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں پارہے ہیں۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسی طرح مسلمانوں نے صدقہ وخیرات کرنے میں بھی ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کی۔ حضرت عثمان بن عفانؓ نے ملک شام کے لیے ایک قافلہ تیار کیا تھا۔ جس میں پالان اور کجاوے سمیت دوسو اونٹ تھے اور دو سو اوقیہ (تقریبا ًساڑھے انتیس کلو ) چاندی تھی۔ آپ نے یہ سب صدقہ کردیا۔ اس کے بعد پھر ایک سو اونٹ پالان اور کجاوے سمیت صدقہ کیا۔ اس کے بعد ایک ہزار دینار (تقریباً ساڑھے پانچ کلو سونے کے سکے) لے آئے اور انہیں نبیﷺ کی آغوش میں بکھیردیا۔ رسول اللہﷺ انہیں الٹتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے۔ آج کے بعد عثمان جو بھی کریں انہیں ضرر نہ ہوگا۔ 1اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے پھر صدقہ کیا ، اور صدقہ کیا ، یہاں تک کہ ان کے صدقے کی مقدار نقدی کے علاوہ نوسو اونٹ اور ایک سو گھوڑے تک جاپہنچی۔
ادھر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ دوسو اوقیہ (تقریباً ساڑھے ۲۹ کلو ) چاندی لے آئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنا سارا مال حاضرِ خدمت کردیا۔ اور بال بچوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے سواکچھ نہ چھوڑا۔ ان کے صدقے کی مقدار چار ہزار درہم تھی اور سب سے پہلے یہی اپنا صدقہ لے کر تشریف لائے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اپنا آدھا مال خیرات کیا۔ حضرت عباسؓ بہت سا مال لائے۔ حضرت طلحہ ، سعد بن عبادہ اور محمد بن مسلمہ f بھی کافی مال لائے۔ حضرت عاصم بن عدیؓ نوے وسق (یعنی ساڑھے تیرہ ہزار کلو ،ساڑھے ۱۳ ٹن ) کھجور لے کر آئے۔ بقیہ صحابہ بھی پے در پے اپنے تھوڑے زیادہ صدقات لے آئے، یہاں تک کہ کسی کسی نے ایک مُد یا دومد صدقہ کیا کہ وہ اس سے زیادہ کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ عورتوں نے بھی ہار ، بازو بند ، پازیب ، بالی اور انگوٹھی وغیرہ جو کچھ ہوسکا آپﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ کسی نے بھی اپنا ہاتھ نہ روکا، اور بخل سے کام نہ لیا۔ صرف منافقین تھے جو صدقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں پر طعنہ زنی کرتے تھے ، (کہ یہ ریا کارہے) اور جن کے پاس اپنی مشقت کے سوا کچھ نہ تھا ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ (کہ یہ ایک دو مدکھجور سے قیصر کی مملکت فتح کرنے اٹھے ہیں)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 جامع ترمذی : مناقب عثمان بن عفان
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسلامی لشکر تبوک کی راہ میں :
اس دھوم دھام جوش وخروش اوربھاگ دوڑ کے نتیجے میں لشکر تیار ہوگیا تو رسول اللہﷺ نے حضرت محمد بن مسلمہؓ کو اور کہا جاتا ہے کہ سباعؓ بن عرفطہ کو مدینہ کا گورنر بنایا۔ اور حضرت علیؓ بن ابی طالب کو اپنے اہل وعیال کی دیکھ بھال کے لیے مدینہ ہی میں رہنے کا حکم دیا۔ لیکن منافقین نے ان پر طعنہ زنی۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل پڑے اور رسول اللہﷺ سے جالاحق ہوئے لیکن آپﷺ نے انہیں پھر مدینہ واپس کردیا اور فرمایا کہ کیاتم اس بات سے راضی نہیں کہ مجھ سے تمہیں وہی نسبت ہو جو حضرت موسی علیہ السلام سے حضرت ہارون علیہ السلام کو تھی۔ البتہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
بہرحال رسول اللہﷺ نے اس انتظام کے بعد شمال کی جانب کوچ فرمایا (نسائی کی روایت کے مطابق یہ جمعرات کا دن تھا ) منزل تبوک تھی لیکن لشکر بڑا تھا۔ تیس ہزار مردان جنگی تھے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کا اتنا بڑا لشکر کبھی فراہم نہ ہوا تھا۔ اس لیے مسلمان ہر چند مال خرچ کرنے کے باوجود لشکر کو پوری طرح تیار نہ کرسکے تھے بلکہ سواری اور توشے کی سخت کمی تھی۔ چنانچہ اٹھارہ اٹھارہ آدمیوں پر ایک ایک اونٹ تھا جس پر یہ لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ اسی طرح کھانے کے لیے بسا اوقات درختوں کی پتیاں استعمال کرنی پڑتی تھیں جس سے ہونٹوں میں ورم آگیا تھا مجبورا ً اونٹوں کو -قلت کے باوجود - ذبح کرنا پڑا، تاکہ اس کے معدے اور آنتوں کے اندر جمع شدہ پانی اور تری پی جاسکے۔ اسی لیے اس کا نام جیش ِ عُسرت (تنگی کا لشکر ) پڑگیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تبوک کی راہ میں لشکر کا گذر حِجر یعنی دیا ر ثمود سے ہوا۔ ثمود وہ قوم تھی جس نے وادیٔ القریٰ کے اندر چٹانیں تراش تراش کر مکانات بنائے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وہاں کے کنویں سے پانی لے لیا تھا، لیکن جب چلنے لگے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم یہاں کا پانی نہ پینا اور اس سے نماز کے لیے وضو نہ کرنا۔ اور جو آٹا تم لوگوں نے گوندھ رکھا ہے اسے جانوروں کو کھلا دو ، خود نہ کھاؤ۔ آپﷺ نے یہ بھی حکم دیا کہ لوگ اس کنویں سے پانی لیں جس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔
صحیحین میں ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ حِجر (دیار ِ ثمود ) سے گذرے تو فرمایا: ان ظالموں کی جائے سکونت میں داخل نہ ہونا کہ کہیں تم پر بھی وہی مصیبت نہ آن پڑے جو ان پر آئی تھی۔ ہاں مگر روتے ہوئے۔ پھر آپﷺ نے اپنا سر ڈھکا اور تیزی سے چل کر وادی پار کرگئے۔1
راستے میں لشکر کو پانی کی سخت ضرورت پڑی حتیٰ کہ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے شکوہ کیا۔ آپﷺ نے اللہ سے دعا کی۔ اللہ نے بادل بھیج دیا، بارش ہوئی۔ لوگوں نے سیر ہو کر پانی پیا اور ضرورت کا پانی لاد بھی لیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری باب نزول النبیﷺ الحجر ۲/۶۳۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پھر جب تبوک کے قریب پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا : کل ان شاء اللہ تم لوگ تبوک کے چشمے پر پہنچ جاؤ گے، لیکن چاشت سے پہلے نہیں پہنچو گے۔ لہٰذا جو شخص وہاں پہنچے اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگا ئے ، یہاں تک کہ میں آجاؤں۔ حضرت معاذؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ پہنچے تو وہاں دوآدمی پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ چشمے سے تھوڑا تھوڑا پانی آرہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے دریافت کیا کہ کیا تم دونوں نے اس کے پانی کو ہاتھ لگایا ہے ؟ انہو ں نے کہا : ہاں ! آپﷺ نے ان دونوں سے جو کچھ اللہ نے چاہا ، فرمایا۔ پھر چشمے سے چُلّو کے ذریعہ تھوڑا تھوڑا پانی نکالا۔ یہاں تک کہ قدرے جمع ہوگیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے اس میں اپناچہرہ اور ہاتھ دُھلا ، اور اسے چشمے میں انڈیل دیا۔ اس کے بعد چشمے سے خوب پانی آیا۔ صحابہ کرام نے سیر ہوکر پانی پیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : اے معاذ ! اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم اس مقام کو باغات سے ہرا بھرا دیکھو گے۔1
راستے ہی میں یاتبوک پہنچ کر... روایا ت میں اختلاف ہے ... رسول اللہﷺ نے فرمایا : آج رات تم پر سخت آندھی چلے گی لہٰذا کوئی نہ اٹھے اور جس کے پاس اونٹ ہو وہ اس کی رسی مضبوطی سے باندھ دے۔ چنانچہ سخت آندھی چلی۔ ایک شخص کھڑا ہوگیا تو آندھی نے اسے اڑا کر طی ٔکی دوپہاڑیوں کے پاس پھینک دیا۔2
راستے میں رسول اللہﷺ کا معمول تھا کہ آپ ظہر اور عصرکی نمازیں اکٹھا اور مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھا پڑھتے تھے۔ جمع تقدیم بھی کرتے تھے اور جمع تاخیربھی۔ (جمع تقدیم کا مطلب یہ ہے کہ ظہر اور عصر دونوں ظہر کے وقت میں اور مغرب اور عشاء دونوں مغرب کے وقت میں پڑھی جائیں۔ اور جمع تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ ظہر اور عصر دونوں عصر کے وقت میں اور مغرب عشاء دونوں عشاء کے وقت میں پڑھی جائیں۔ )
اسلامی لشکر تبوک میں :
اسلامی لشکر تبوک میں اُتر کر خیمہ زن ہوا۔ وہ رومیوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تیار تھا۔ پھر رسول اللہﷺ نے اہلِ لشکر کو مخاطب کر کے نہایت بلیغ خطبہ دیا۔ آپﷺ نے جوامع الکلم ارشاد فرمائے۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی کی رغبت دلائی۔ اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور اس کے انعامات کی خوشخبری دی۔ اس طرح فوج کا حوصلہ بلند ہوگیا۔ ان میں تو شے ، ضروریات اور سامان کی کمی کے سبب جو نقص اور خلل تھا وہ اس راہ سے پُر ہوگیا۔ دوسری طرف روم اور ان کے حلیفوں کا یہ حال ہوا کہ رسول اللہﷺ کی آمد کی خبر سن کر ان کے اندر خوف کی لہر دوڑ گئی۔ انہیں آگے بڑھنے اور ٹکر لینے کی ہمت نہ ہوئی۔ اور وہ اندرون ِ ملک مختلف شہروں میں بکھر گئے۔ ان کے اس طرزِ عمل کا اثر جزیرہ عرب کے اندر اور باہر مسلمانوں کی فوجی ساکھ پر بہت عمدہ مرتب ہوا اور مسلمانوں نے ایسے ایسے اہم سیاسی فوائد حاصل کیے کہ جنگ کی صورت میں اس کا حاصل کرنا آسان نہ ہوتا۔ تفصیل یہ ہے :
اَیْلَہ کے حاکم یحنہ بن روبہ نے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر جزیہ کی ادائیگی منظور کی اور صلح کا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسلم عن معاذ بن جبل ۲/۲۴۶ 2 ایضاً
 
Top