• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم غزوۂ تبوک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
معاہدہ کیا۔ جَرْبَاء اور اَذرُخ کے باشندوں نے بھی خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوکر جزیہ دینا منظور کیا۔ رسول اللہﷺ نے ان کے لیے ایک تحریر لکھ دی جو ان کے پاس محفوظ تھی۔ اہل ِ مقناء نے اپنے پھلوں کی چوتھائی پیداوار دینے کی شرط پر صلح کی۔ آپ نے حاکمِ اَیْلَہ کو بھی ایک تحریر لکھ دی جو یہ تھی :
''بسم اللہ الرحمن الرحیم : یہ پروانہ ٔ امن ہے اللہ کی جانب سے اور نبی محمدرسول اللہ کی جانب سے۔ یحنہ بن روبہ اور باشندگان ِایلہ کے لیے۔ خشکی اور سمندر میں ان کی کشتیوں اور قافلوں کے لیے اللہ کا ذمہ ہے اور محمد نبی کا ذمہ ہے اور یہی ذمہ ان شامی اور سمندری باشندوں کے لیے ہے جو یحنہ کے ساتھ ہوں۔ ہاں ! اگر ان کا کوئی آدمی کوئی گڑبڑ کرے گا تو اس کا مال اس کی جان کے آگے روک نہ بن سکے گا اور جو آدمی اس کا مال لے لے گا اس کے لیے وہ حلال ہوگا۔ انہیں کسی چشمے پر اترنے اور خشکی یا سمندر کے کسی راستے پر چلنے سے منع نہیں کیا جاسکتا۔''
اس کے علاوہ رسول اللہﷺ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو چارسو بیس سواروں کا رسالہ دے کر دومۃ ُ الجُندل کے حاکم اُکَیْدرکے پا س بھیجا۔ اور فرمایا : تم اسے نیل گائے کا شکار کرتے ہوئے پاؤ گے۔ حضرت خالدؓ وہاں تشریف لے گئے۔ جب اتنے فاصلے پر رہ گئے کہ قلعہ صاف نظر آرہا تھا تو اچانک ایک نیل گائے نکلی اور قلعہ کے دروازے پر سینگ رگڑنے لگی۔ اُکَیدر اس کے شکار کو نکلا۔ چاندنی رات تھی۔ حضرت خالدؓ اور ان کے سواروں نے اسے جالیا۔ اور گرفتار کر کے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر کیا۔ آپﷺ نے اس کی جان بخشی کی۔ اور دوہزار اونٹ ، آٹھ سو غلام ، چار سو زِرہیں اور چار سو نیزوں کی شرط پر مصالحت فرمائی۔ اس نے جزیہ بھی دینے کا اقرار کیا۔ چنانچہ آپﷺ نے اس سے یحنہ سمیت دُومہ ، تبوک ، ایلہ اور تیماء کے شرائط پر معاملہ طے کیا۔
ان حالات کو دیکھ کر وہ قبائل جو اب تک رومیوں کے آلۂ کار بنے ہوئے تھے ، سمجھ گئے کہ اب اپنے ان پُرانے سرپرستوں پر اعتماد کرنے کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کے حمایتی بن گئے۔ اس طرح اسلامی حکومت کی سرحدیں وسیع ہوکر براہِ راست رُومی سرحد سے جاملیں اور رُوم کے آلہ کاروں کا بڑی حد تک خاتمہ ہوگیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مدینہ کو واپسی:
اسلامی لشکر تبوک سے مظفر ومنصور واپس آیا، کوئی ٹکر نہ ہوئی۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبیﷺ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت آپ اس گھاٹی سے گذررہے تھے اور آپ کے ساتھ صرف حضرت عمارؓ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمانؓ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے۔ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دُور وادی کے نشیب سے گذررہے تھے۔ اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپﷺ کی طرف قدم بڑھایا۔ ادھر آپﷺ اور آپ کے دونوں ساتھی حسب ِ معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں۔یہ سب چہروں پر ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپﷺ پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپﷺ نے حضرت حذیفہؓ کو ان کی جانب بھیجا۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنے ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا۔ اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جاملے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا۔ اسی لیے حضرت حذیفہؓ کو رسول اللہﷺ کا ''رازداں'' کہا جاتا ہے۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ {وَہَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا } ''انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پاسکے۔''
خاتمہ ٔ سفر پر جب دور سے نبیﷺ کو مدینہ کے نقوش دکھائی پڑے تو آپﷺ نے فرمایا : یہ رہا طابہ ، اور یہ رہا اُحد ، یہ وہ پہار ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور جس سے ہم محبت کرتے ہیں۔ ادھر مدینہ میں آپﷺ کی آمد کی خبر پہنچی تو عورتیں بچے اور بچیاں باہر نکل پڑیں۔ اور زبردست اعزاز کے ساتھ لشکر کا استقبال کرتے ہوئے یہ نغمہ گنگنایا۔1


طلــع البــــدر علینــــا من ثنیــات الــــوداع
وجـب الشکـر علینـــــا مــــا دعـــا للــہ داع


''ہم پر ثنیۃ الوداع سے چودھویں کا چاند طلوع ہوا۔ جب تک پکارنے والااللہ کو پکارے ہم پر شکر واجب ہے۔''
رسول اللہﷺ تبوک سے رجب کے مہینے میں واپس پہنچے۔ 2اس سفر میں پورے پچاس روز صرف ہوئے۔ بیس دن تبوک میں اور تیس دن آمد ورفت میں۔ اور یہ آپﷺ کی حیات ِ مبارکہ کا آخری غزوہ تھا جس میں آپ نے بہ نفس ِ نفیس شرکت فرمائی۔
مخلفین:
یہ غزوہ اپنے مخصوص حالات کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سخت آزمائش بھی تھا۔ جس سے اہل ِ ایمان اور دوسرے لوگوں میں تمیز ہوگئی۔ اور اس قسم کے موقع پر اللہ کا دستور بھی یہی ہے۔ ارشاد ہے :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ ابن قیم کا ارشاد ہے اور اس پر بحث گذر چکی ہے۔
2 یہی صحیح ہے۔ پچھلے ایڈیشنوں میں ابن اسحاق پر اعتماد کرتے ہوئے جو لکھا گیا تھا کہ اس غزوے سے آپﷺ کی واپسی ماہ رمضان میں ہوئی وہ صحیح نہیں۔ کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپﷺ مدینہ سے تبوک کے لیے ماہ رجب کی دوسری جمعرات کو روانہ ہوئے تھے اور یہ جمعرات اکتوبر کی پچیس تاریخ کو پڑتی ہے۔ اور یہ ایام معتدل بلکہ ٹھنڈک سے قریب تر ہوتے ہیں۔ صبح وشام خنکی محسوس ہوتی ہے۔ اور کھجور کی توڑائی پر بھی خاصا وقت گذر چکا رہتا ہے۔ حالانکہ تمام روایات کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ تبوک کے لیے سخت گرمی کے زمانے میں اس وقت نکلے تھے ، جبکہ پھل ، درختوں پر پک کر تیار کھڑے تھے۔ اس کے علاوہ اسی سال جب ماہ شعبان میں آپ کی صاحبزادی ام کلثوم کی وفات ہوئی تو آپﷺ مدینہ میں تشریف فرماتھے۔ اس لیے صحیح یہی ہے کہ آپﷺ ماہ رجب میں مدینہ واپس تشریف لاچکے تھے۔ اور تبوک کے لیے روانگی اس سے پچاس روز پہلے، یعنی ماہ جمادی الاولیٰ میں ہوئی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مَّا كَانَ اللَّـهُ لِيَذَرَ‌ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ (۳: ۱۷۹)
''اللہ مومنین کو اسی حالت پر چھوڑ نہیں سکتا جس پر تم لوگ ہو یہاں تک کہ خبیث کو پاکیزہ سے علیحدہ کردے۔ ''
چنانچہ اس غزوہ میں سارے کے سارے مومنین صادقین نے شرکت کی اور اس سے غیر حاضری نفاق کی علامت قرار پائی۔ چنانچہ کیفیت یہ تھی کہ اگر کوئی پیچھے رہ گیا تھا اور اس کا ذکر رسول اللہﷺ سے کیا جاتا تو آپ فرماتے کہ اسے چھوڑ و۔ اگر اس میں خیر ہے تو اللہ اسے جلدہی تمہارے پاس پہنچادے گا اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اللہ نے تمہیں اس سے راحت دے دی ہے۔ غرض اس غزوے سے یاتو وہ لوگ پیچھے رہے جو معذور تھے یاوہ لوگ جو منافق تھے۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے ایمان کا جھوٹا دعویٰ کیا تھااور اب جھوٹا عذر پیش کرکے غزوہ میں شریک نہ ہونے کی اجازت لے لی تھی اور پیچھے بیٹھ رہے تھے۔ یا سر ے سے اجازت لیے بغیر ہی بیٹھے رہ گئے تھے۔ ہاں ! تین آدمی ایسے تھے جو سچے اور پکے مومن تھے۔ اور کسی وجہ جواز کے بغیر پیچھے رہ گئے تھے۔ انہیں اللہ نے آزمائش میں ڈالا اور پھر ان کی توبہ قبول کی۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ واپسی پر رسول اللہﷺ مدینہ میں داخل ہوئے تو حسبِ معمول سب سے پہلے مسجد نبوی میں تشریف لے گئے۔ وہاں دورکعت نماز پڑھی۔ پھر لوگوں کی خاطر بیٹھ گئے۔ ادھر منافقین نے جن کی تعداد اسی سے کچھ زیادہ تھی،1آآکر معذرتیں شروع کردیں۔ اور قسمیں کھانے لگے۔ آپ نے ان سے ان کا ظاہر قبول کرتے ہوئے بیعت کرلی اور دعائے مغفرت کی، اور ان کا باطن اللہ کے حوالے کردیا۔
باقی رہے تینوں مومنین صادقین ... یعنی کعب بن مالک ، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن اُمیہ ... تو انہوں نے سچائی اختیار کرتے ہوئے اقرار کیا کہ ہم نے کسی مجبوری کے بغیر غزوے میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ ان تینوں سے بات چیت نہ کریں۔ چنانچہ ان کے خلاف سخت بائیکاٹ شروع ہوگیا۔ لوگ بدل گئے، زمین بھیانک بن گئی۔ اور کشادگی کے باوجود تنگ ہوگئی۔ اور خود ان کی اپنی جان پر بن آئی۔ سختی یہاں تک بڑھی کہ چالیس روز گزر نے کے بعد حکم دیا کہ اپنی عورتوں سے بھی الگ رہیں جب بائیکاٹ پر پچاس روز پورے ہوگئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کیے جانے کا مژدہ نازل کیا۔ ارشاد ہوا :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 واقدی نے ذکر کیا ہے کہ یہ تعداد منافقین انصار کی تھی۔ ان کے علاوہ بنی غفار وغیرہ اعراب میں سے معذرت کرنے والوں کی تعدا دبھی بیاسی تھی۔ پھر عبد اللہ بن اُبی اور اس کے پیروکار ان کے علاوہ تھے۔ اور ان کی بھی خاصی بڑی تعداد تھی۔ (دیکھئے : فتح الباری ۸/۱۱۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْ‌ضُ بِمَا رَ‌حُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ (۹: ۱۱۸)
''اور اللہ نے ان تین آدمیوں کی بھی توبہ قبول کی جن کا معاملہ مؤخر کردیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب زمین اپنی کشادگی کے باوجود ان پرتنگ ہوگئی ، اور ان کی جان بھی ان پر تنگ ہوگئی اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ سے (بھاگ کر) کوئی جائے پناہ نہیں ہے مگر اسی کی طرف۔ پھر اللہ ان پر رجوع ہوا تاکہ وہ توبہ کریں یقینا اللہ توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے۔''
اس فیصلے کے نزول پر مسلمان عموماً اور یہ تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً بے حد وحساب خوش ہوئے۔ لوگوں نے دوڑ دوڑ کر بشارت دی۔ خوشی سے چہرے کھل اُٹھے اور انعامات اور صدقے دیے۔ درحقیقت یہ ان کی زندگی کا سب سے باسعادت دن تھا۔
اسی طرح جولوگ معذوری کی وجہ سے شریک ِ غزوہ نہ ہوسکے تھے ان کے بارے میں اللہ نے فرمایا :
لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْ‌ضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَ‌جٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّـهِ (۹: ۹۱)
''کمزوروں پر ،مریضوں پر اور جولوگ خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ پائیں ان پر کوئی حرج نہیں جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیرخواہ ہوں۔''
ان کے متعلق نبیﷺ نے بھی مدینہ کے قریب پہنچ کرفرمایا تھا : مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم نے جس جگہ بھی سفر کیا اورجووادی بھی طے کی وہ تمہارے ساتھ رہے ، انہیں عذر نے روک رکھا تھا۔ لوگوں نے کہا: یارسول اللہ ! وہ مدینہ میں رہتے ہوئے بھی (ہمارے ساتھ تھے) ؟ آپ نے فرمایا: (ہاں) مدینہ میں رہتے ہوئے بھی۔
اس غزوے کا اثر:
یہ غزوہ جزیرۃ العرب پر مسلمانوں کا اثر پھیلانے اور اسے تقویت پہنچانے میں بڑا مؤثر ثابت ہوا۔ لوگوں پر یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اب جزیرۃ العرب میں اسلام کی طاقت کے سوا اور کوئی طاقت زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس طرح جاہلین اور منافقین کی وہ بچی کھچی آرزوئیں اور امیدیں بھی ختم ہوگئیں جو مسلمانوں کے خلاف گردشِ زمانہ کے انتظار میں ان کے نہاں خانہ ٔ دل میں پنہاں تھیں، کیونکہ ان کی ساری امیدوں اور آرزؤں کا محور رومی طاقت تھی۔ اور اس غزوے میں اس کا بھی بھرم کھل گیا تھا۔ اس لیے ان حضرات کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ اور انہوں نے امر واقعہ کے سامنے سپر ڈال دی کہ اب اس سے بھاگنے اور چھٹکارا پانے کی کوئی راہ ہی نہیں رہ گئی تھی۔
اسی صورت ِ حال کی بناء پر اب اس کی بھی ضرورت نہیں رہ گئی تھی کہ مسلمان ، منافقین کے ساتھ رفق ونرمی کا معاملہ کریں۔ لہٰذا اللہ نے ان کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ یہاں تک کہ ان کے صدقے قبول کرنے ، ان کی نماز جنازہ پڑھنے ، ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے اور ان کی قبروں پر کھڑے ہونے سے روک دیا۔ اور انہوں نے مسجد کے نام سے سازش اور دسیسہ کاری کا جو گھونسلہ تعمیر کیا تھا اسے ڈھادینے کا حکم دیا۔ اور ان کے بارے میں ایسی ایسی آیات نازل فرمائیں کہ وہ بالکل ننگے ہوگئے۔ انہیں پہچاننے میں کوئی ابہام نہ رہا، گویا اہل مدینہ کے لیے ان آیات نے ان منافقین پر انگلیاں رکھ دیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس غزوے کے اثر ات کا اندازہ ااس سے بھی کیاجاسکتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد (بلکہ اس سے پہلے بھی ) عرب کے وفود اگرچہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں آنا شروع ہوگئے تھے ، لیکن ان کی بھرمار اس غزوے کے بعد ہی ہوئی۔1
اس غزوے سے متعلق قرآن کا نزول :
اس غزوے سے متعلق سورۂ توبہ کی بہت سی آیا ت نازل ہوئیں۔ کچھ روانگی سے پہلے ، کچھ روانگی کے بعد دورانِ سفر ، اور کچھ مدینہ واپس آنے کے بعد۔ ان آیا ت میں غزوے کے حالات ذکر کیے گئے ہیں۔ منافقین کا پردہ کھولا گیا ہے۔ مخلص مجاہد ین کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور مومنین صادقین جو غزوے میں گئے تھے اور جو نہیں گئے تھے ان کی توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے۔ وغیرہ وغیرہ!!
اس سن کے بعض اہم واقعات:
اس سن ( ۹ ھ ) میں تاریخی اہمیت کے متعدد واقعات پیش آئے :
تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد عُوَیمر عَجلانی اور ان کی بیوی کے درمیان لِعَان ہوا۔
غامدیہ عورت کو جس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر بدکاری کا اقرار کیا تھا، رجم کیا گیا۔ اس عورت نے بچے کی پیدائش کے بعد جب دودھ چھڑالیا تب اسے رجم کیا گیا تھا۔
اَصْحَمہ نجاشی شاہ حبشہ نے وفات پائی اور رسول اللہﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔
نبیﷺ کی صاحبزادی ام کلثوم ؓ کی وفات ہوئی۔ ان کی وفات پر آپ کوسخت غم ہوا۔ اور آپ نے حضرت عثمان سے فرمایا کہ اگر میرے پاس تیسری لڑکی ہوتی تو اس کی شادی بھی تم سے کردیتا۔
تبوک سے رسول اللہﷺ کی واپسی کے بعد راس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے وفات پائی۔ رسول اللہﷺ نے اس کے لیے دعائے مغفرت کی اور حضرت عمرؓ کے روکنے کے باوجود اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ بعد میں قرآن نازل ہوا۔ اور اس میں حضرت عمرؓ کی موافقت اور تائید کر تے ہوئے منافقین پر نماز جنازہ پڑھنے سے منع کردیا گیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اس غزوے کی تفاصیل مآخذ ذیل سے لی گئی ہیں : ابن ہشام ۲/۵۱۵ تا ۵۳۷ ، زاد المعاد ۳/۲ تا ۱۳ ، صحیح بخاری ۲/ ۶۳۳ تا ۶۳۷ وا/۲۵۲ ، ۴۱۴ ، وغیرہ، صحیح مسلم مع شرح نووی ۲/۲۴۶، فتح الباری ۸/۱۱۰تا ۱۲۶۔
 
Top