• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیر مقلدین کو کھلا چلینج

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میرے بھائی جن پر قرآن نازل ہوا (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ان کا حکم ہیں -



اللہ تعالی آپ کو سمجھنے کی توفیق دے - آمین

سیدنا عبادہ بن الصامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز پڑھائی جس میں قرأۃ کی جاتی ہے، آپ نے فرمایا:’’جب میں جہر کے ساتھ کررہا ہوتا ہوں، تو تم میں سے کوئی شخص بھی سورۂ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھے۔‘‘۔

(سنن نسائی، کتاب الافتتاع، حدیث: ۹۲۱۔ دارقطنی، حدیث:۱۲۰۷۔جزء القرأۃ، حدیث:۶۵۔ اس حدیث کو امام بیہقی [المتوفیٰ:۴۵۸؁ھ]دارقطنی [المتوفیٰ:۳۸۵؁ھ]وغیرہ نے صحیح کہا ہے ، دیکھئے الکواکب الدریہ، ص۵۰ تا۵۵)

عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔

( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن )

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔


امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔

اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:


والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام۔

( ترمذی، ج1، ص:41 )

یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔


امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں :

ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔

( مرعاۃ، ج1، ص: 619 )

یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میں طعن کی کوئی گنجائش نہیں۔

میرے بھائی اتنی واضح انداز میں اس حدیث میں وضاحت موجود ہیں کیا یہ آپ کے سمجھ میں نہیں آتی -
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
میرے بھائی جن پر قرآن نازل ہوا (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ان کا حکم ہیں -
اللہ تعالی آپ کو سمجھنے کی توفیق دے - آمین
جی جناب جو میں نے تحاریر لکھی ہیں وہ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم نہیں؟؟؟؟؟
یا جو بات جناب کو بھائے وہ تو ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم (بھلے اس کے متن پر اعتراض ہو کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں بلکہ راوی سے خلط ملط ہو گیا ہے) اور جو اہل السنت والجماعت حنفی قرآن پیش کرے وہ تم لوگوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور جو صحیح سند کی احادیث پیش کریں ان کی طرف دیکھنا گوارا نہیں۔ فوا اسفا
گو کہ یہ اس تھریڈ کا ،وضوع نہیں نگر چونکہ جناب نے اس میں قارئین کو دھوکہ دہی کی کوشش کی ہے لہٰذا اس کو یہیں واضح کرنا ضروری ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ؛

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم؛

سنن ابن ماجه: كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَإِذَا قَالَ: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] ، فَقُولُوا: آمِينَ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا، فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ

حکم : حسن صحیح
سنن ابن ماجه: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ جب امام قرأت کرےتو خاموش رہو
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’امام اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، چنانچہ جب وہ اللہ اکبر کہتے تو تم اللہ اکبر کہو، جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو، اور جب وہ ( غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ ) پڑھے تو آمین کہو، جب وہ رکوع کرے تو رکوع کرو، جب وہ ( سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہے تو کہو(اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) ’’اے اللہ! اے ہمارے رب! تیرے ہی لئے تعریفیں ہیں‘‘جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو‘‘۔
جناب! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اتنا ہی کہہ دیتے کہ جب ’’قراءت کرے تو خاموش رہو‘‘ تو بھی ماننے والے کے لئے اتنی بات کافی تھی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ بڑے بڑے فتنوں کے متعلق بتا دیا گیا تھا اسی لئے فرمایا کہ (اس وقت تک خاموش رہو کہ وہ سورہ فاتحہ کی آخری آیت پڑھ لے اور پھر)جب وہ ( غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ ) پڑھے تو آمین کہو ـــــ الخ
جناب نام نہاد غیر مقلد صاحب! سورہ فاتحہ کی ’’تخصیص‘‘ والی بات بھی اس حدیث نے ملیامیٹ کردی۔

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى O فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى O
وما توفیقی الا باللہ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
بہت خوب! چور مچائے شور۔۔۔ابتسامہ!
جناب نے تحریراً ثابت کر دیا کہ؛
چور مچائے شورچور چور

مقلدین کو جاہل کہنے والے خود کتنے بڑے جاہل ہیں کہ خود ایک حدیث (وہ بھی کئی وجہ سے ضعیف) اور ان کی اصلاح کے لئے قرآن اور صحیح احادیث پیش کی جائیں تو ان کو نظر ہی نہیں آ تیں اور مچاتے ہیں شور۔ابتسامہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مقلدین کو جاہل کہنے والے
آپ اپنے آپ کو مقلد کہنا چھوڑ دیں۔۔۔واللہ ہم آپ کو جاہل نہیں کہا کریں گے۔ بلکے پھر آپ بھی مقلدین کو جاہل ہی کہا کریں گے۔۔۔ابتسامہ!
 
Top