• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فتنۂ انکارِ حدیث از حافظ حسن مدنی

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر8:
قرآن کریم کی دورِ صدیقی میں تدوین کا واقعہ خود اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت اوّلا حافظہ کے ذریعے ہوئی۔ چنانچہ جب تک حفاظِ قرآن کی بڑی تعداد موجود رہی، صحابہ کرام حفاظت ِقرآن سے مطمئن رہے۔ جب جنگ ِیمامہ میں تقریباً۷۰۰ حفاظ قرآن صحابہ کی شہادت پر حضرت عمر ؓبن خطاب کو حفاظت ِقرآن کی فکر دامن گیر ہوئی توانہوں نے خلیفہ اوّل کو تدوین قرآن کا مشورہ دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے قبل جلیل القدر صحابہ کرام حفاظِ قرآن کی کثرت کی و جہ سے مطمئن تھے اور وہ حفاظت سینوں میں تھی، کتابت میں نہیں۔
ہمارے ذہن میں کتابت والے یہ مغالطے اس لئے جنم لیتے ہیں کہ ہم اس دور کو اپنی موجودہ عادات پر قیاس کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں چونکہ معانی کے اوپر دلالت کرنے والے الفاظ کی زیادہ حفاظت مطلوب تھی، اس لئے اس کے باقاعدہ حفظ اور تلاوت کو تعبدی امر قرار دیا گیا۔ جبکہ حدیث میں اصل شے اُسوئہ رسو ل یعنی مرادِ ربانی ہے، جن کو سنت ِرسول کی روایت کرنے والے صحابہ کرام کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔
نوٹ
یعنی قرآن کو براہ راست نسبت تو اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے لیکن اس کے پہلے راوی اور قاری رسول کریم ا ہیں۔ اس طرح حدیث کی براہِ راست نسبت محمد رسول اللہﷺ کی طرف ہوتی ہے لیکن اس کی خبر اور روایت چونکہ صحابہ کرام سے چلتی ہے، اسلئے تعامل رسول ہونے کے باوجود سوائے اَوراد ووظائف کے وہ کلام یا خبر صحابہ ہی کی و جہ سے ’حدیث‘ کہلاتی ہے۔
اسی لئے احادیث کی نسبت اور گنتی راوی صحابی کے اعتبار سے ہوتی ہے یعنی اُسوئہ رسول کی خبر دینے والا صحابی ہی ہوتا ہے۔
لہٰذا اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دورِ نبوی میں نہ صرف حدیث بلکہ قرآن بھی بین الدفتین تدوین نہ ہوا تھا بلکہ دونوں کو اوپر بیان کردہ وضاحت کی رو سے آنے والے ادوار میں احاطہ تحریر میں لایا گیا جو اس دور کے ایک سادہ، جامع اور معمول بہ طریقہ سے تھی۔منکرین حدیث کا قرآن وسنت کی تدوین پر عدمِ اعتماد والا اعتراض دراصل فن تحریر کے موجودہ ارتقا اور یورپی علوم کے طریقہ حفاظت سے مرعوب ہونے کا شاخسانہ ہے، جس میں زمانوں کے بدلتے ہوئے حالات کی رعایت نہیں رکھی گئی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر3:الحاد اور بے عملی

فقہائِ مذاہب کی فقہی تشریحات کو مختلف سیاسی و تمدنی وجوہات کی بنا پر پر بقول شاہ ولی اللہؒ چوتھی صدی ہجری کے بعد اس قدر قبولِ عام حاصل ہوا کہ ہر فرد کے لئے کسی فقہی مسلک کی مناسبت سے متعارف ہونا ضروری ٹھہرا۔ یہ تو ایک انتہاتھی جو صدیوں جاری رہی۔اس میں بھی اصلاح کی ضرورت تھی جس کی طرف شاہ ولی اللہ نے بطورِ خاص توجہ دی اور آزادیٔ فکر اور فقہی توسع کو برصغیر میں پھیلانے کے لئے سرگرمی سے کام کیا۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ مروّ جہ تقلیدی جمود کی اس مبارک اصلاحی تحریک کے ردّ ِعمل میں انتہائی رویہ کے طور پرایک الحادی فکر نے بھی جنم لیا۔ یعنی تفریط کی صورت میں ’تقلید‘ اگر ائمہ کرام کی آرا کی غیر مشروط اطاعت کا تصور دیتی تھی تو اس الحادی تحریک نے مفرطانہ طور پر علماے اُمت کی تمام محققانہ خدمات پر خط ِتنسیخ پھیر دیا۔
شاہ ولی اللہ کی تحریک کے حاملین یعنی تقلید میں اصلاح کے علم بردار تو ائمہ کی خدمات کے معترف اور ان کی علمی تحقیقات کے قدردان ہیں، صرف وہ ان کو نبی کی طرح معصوم قرار دینے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے پیش نظر جذبہ اتباعِ سنت ائمہ کی تشریحات کے تسلسل کو ساتھ لے کر چلنے کا داعی ہے جبکہ اس دوسرے الحادی گروہ نے نہ صرف امام الانبیا ﷺ کی استنادی حیثیت کو بلکہ ان کی احادیث تک کو مشکوک بنایا اور ان علما کی خدمات سے بھی کھلا انحراف کیا۔علومِ اسلامیہ میں تدوین و ارتقا کے تمام مراحل بیک جنبش قلم انہوں نے ختم کرکے رکھ دیئے او رکہا کہ علما کو آج تک اسلام کی سمجھ نہیں آئی، تدوین حدیث ایک عجمی سازش تھی، اور آج اسلام کی ایسی تعبیر نو کرنے کی ضرورت ہے جو علما کی کاوشوں کی آلائشوں سے پاک ہو۔
اس اعتبار سے منکرین حدیث کی یہ الحادی سوچ ہے جس کے بعد اسلام کا حلیہ بالکل مسخ ہوجاتا ہے۔ اپنے پیشرو علما پراندھا دھند اعتراضات نے انہیں بالکل ایک نئے اسلام کا داعی بنا دیا جس میں کوئی بات بھی طے شدہ نہیں۔ پھر بات ائمہ تک نہیں رہی بلکہ صحابہ کرام تک اور پھر وہاں سے رسالت تک پہنچی اور عملاً سارا اسلام بازیچہ اطفال بن کر رہ گیا۔ اب منکرین حدیث کے جتنے گروہ ہیں، اتنے ہی فکری انتشار کا شکا رہیں اور قرآن کے نام پر وحدت کے یہ داعی اہل قرآن خود اتنے فکری مغالَطوں کا شکار ہیں کہ ان کی اس آزادیٔ فکر نے اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
منکرین حدیث کے فاسد اعتقادات اور گمراہ کن نظریات کی تردید چونکہ علمائِ اسلام نے ہی کی اور انہیں علمی و فکری طور پر ان حضرات سے واسطہ پڑا، چنانچہ منکرین حدیث کا ایک مشترکہ ہتھیار یہ بھی رہا کہ علما کو وہ علمائِ سوء قرار دیتے اور ان کے پیش کردہ اسلامی اعتقادات کو وہ مضحکہ خیز قرار دیتے رہتے ہیں۔
علما کی ناقدری اور ان کو نازیبا کلمات سے نوازنے میں بھی منکرین حدیث کی تربیت مغربی لٹریچر نے کی جس نے طویل عرصہ اپنے ہاں کی پاپائیت سے معرکہ آرا ہوکر دینی رہنماؤں کو اجتماعی معاملات سے بے دخل کردیا تھا۔صیہونی اثرات کے زیر تسلط عالمی میڈیا اپنی بھرپور قوت سے علمائِ اسلام کے خلاف سامراجی اَدوار سے سرگرم رہا ہے اور اس کی بھرپور مہم کا نتیجہ ہے کہ ’مولوی‘ اور ’ملا‘ جو کبھی علما کے لئے صیغہ افتخار تھا، اب حرفِ ملامت بن گیا اور شہروں میں کوئی بھی ایسے القاب کو اپنے لئے پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ منکرین حدیث کے لئے میدان ہموار کرنے میں بھی ان کے سرپرست مغرب نے پرزور معاونت کی اور عملاً ان کے ہاتھوں اصلاح کی بجائے الحادی تحریک اور فکری تحریف نے جنم لیا۔
انکارِ حدیث دیگر فروعی مسائل کی طرح ایک معمولی مسئلہ نہیں بلکہ اساسیاتِ دین سے متعلق ہے۔ انکارِ حدیث کے جراثیم اگر کسی میں پختہ ہوجائیں یا وہ استخفافِ حدیث کاارتکاب شروع کردے تو اس سے منصب ِرسالت پر حرف آتا ہے جبکہ رسالت پر غیر مشروط ایمان اسلام کا بنیادی ضروری تقاضاہے۔ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور حدیث پر متزلزل ایمان رکھنے والے کے عقائد و نظریات اور طرزِ زندگی میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔
حدیث ِنبوی کا انکار اکثر ایسے لوگ بھی کرتے ہیں جوصرف نام کے مسلمان رہنا چاہتے ہیں، عملاً اسلام کے کسی شعار سے یا کسی دینی فریضہ کی ادائیگی سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے انکارِ حدیث بدعملی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ قرآنِ کریم میں نماز، زکوٰۃ جیسی بنیادی عبادتوں کی تفصیلات بھی نہیں ملتیں، چنانچہ پڑھے لکھے لوگوں کے لئے یہ بڑا آسان ہوتا ہے کہ وہ کسی بہانے حدیث کا انکار کردیں تاکہ عمل کرنے سے ہی جان چھوٹ جائے۔مقامِ افسوس ہے کہ انکار حدیث کے یہ مسمو م اثرات ہمارے جدید تعلیمی نظام کے پڑھے لکھے لوگوں میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور وہ اپنی معمول کی گفتگو میں اس کا اظہار کسی نہ کسی طرح کرتے رہتے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر
ادارئہ محدث نے یہ ضروری سمجھا کہ ’فتنہ انکارِ حدیث‘ پرایک خاص نمبر شائع کرے جس میں مختلف حوالوں سے نہ صرف منکرین حدیث کے خیالات واعتراضات کی وضاحت کی جائے بلکہ اس کے بنیادی اسباب اور تاریخی تجزیہ کو بھی قارئین کے سامنے لایا جائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تعارف:فتنہ انکارِ حدیث نمبر

جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ گذشتہ سال اگست کا شمارہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ اور ان کے اَخلاف کے استخفافِ حدیث پر مشتمل نظریات پر تبصروں کا حامل تھا۔ احادیث پر اسی نوعیت کے اعتراضات کے جوابات کیلئے ہم نے مزید ایک شمارہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو بعض معمول کے شماروں کے بعد شائع ہوگا، ان شاء اللہ جبکہ موجودہ اشاعت ِخاص میں پرویزیت اور فتنۂ انکارِ حدیث کے متعلق مضامین جمع کئے گئے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر1:
اس اشاعت ِخاص کے بنیادی طور پر چار حصے کئے گئے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پہلا حصہ:
پہلا حصہ بطورِ خاص پرویزی افکار کے بارے میں ہے۔
جس میں مولانا محمد رمضان سلفی (نائب شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ) نے مسٹر غلام احمد پرویز کے عقائد کو ان کی کتب کی مدد سے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ایمان کے بنیادی ارکان ، ایمان باللہ، ایمان بالرسول، ایمان بالملائکہ، ایمان بالآخرۃ اور ایمان بالکتب (القرآن) پر پرویز کانظریہ اس کی اپنی کتب سے پیش کرکے گویا مولانا نے اُن فتاویٰ کے دلائل قارئین کے سامنے رکھے ہیں
جن میں اسلامی عقائد سے انحراف کی بنا پر پرویز کو امام کعبہ اور عالمی مفتیانِ کرام نے دائرئہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسرا حصہ
اس حصہ کا دوسرا مضمون پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی کا ہے جس میں انہوں نے احادیث کو چھوڑنے کی بنا پر نام نہاد اہل قرآن کے باہمی اختلافات کی قلعی کھولی ہے۔
اپنے مقالہ میں دس مثالوں کی مدد سے انہوں نے اس امر کو بھی آشکارا کیا ہے کہ مسٹر پرویز حدیث ِرسول سے انکار کرکے ساری زندگی خود بھی بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہے اور اپنی تردید آپ کرتے رہے۔
مقالہ نگار نے پرویز کے ماہنامہ ’طلوعِ اسلام‘ کی اکثر فائلوں کا بڑی محنت سے مطالعہ کرکے پرویزی تحریروں کے باہمی تضادات اور ’اپنی تردید آپ‘ کی نشاندہی کی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تیسرا حصہ:
اس حصہ کا تیسرا مضمون
پرویز کے رسالہ ’اطاعت ِرسول‘ کے ناقدانہ تجزیہ پر مبنی ہے جس میں پروفیسر منظور احسن عباسی نے اطاعت ِرسول کے تصورِ پرویز اور اس کے نتائج کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اس مقالہ کے مطالعہ سے بخوبی یہ علم ہوجاتا ہے کہ پرویز کا نظریۂ اطاعت ِرسول کتنا پرفریب اور الفاظ کا گورکھ دھندا ہے
جس سے علماے امت کی معروف اصطلاح ’اطاعت ِرسول‘ کی بجائے مرکز ِملت کی اصطلاح گھڑی گئی ہے اور پھر اس کے ذریعے تحریف ِدین کی راہ ہموار کی گئی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
چوتھا حصہ:
اس حصہ کے آخری مضمون میں مذکورہ بالاعقائد کی بنا پر گذشتہ چند سالوں میں اُمت ِاسلامیہ کی صاحب ِعلم و فضل شخصیات کی طرف سے ’پرویزیت‘ کے خارج از اسلام ہونے پر فتاویٰ جمع کئے گئے ہیں
جس میں امامِ کعبہ، حالیہ مفتی اعظم سعودی عرب، حکومت ِکویت اور شیخ عبدالعزیز بن باز ؒکے فتاویٰ کے متن دیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ ۴۰ برس قبل پرویزیت کے خلاف چلائی جانے والی مہم اور ۱۰۲۴ پاکستانی علماء اور عالم عرب کی نامور شخصیات کے فتاویٰ کا مختصر تذکرہ بھی کیا گیا ہے تاکہ یہ اندازہ ہوسکے
کہ ملت ِاسلامیہ کس طرح نصف صدی سے آج تک ان کے کفر پر متفق رہی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر2:
محدث کی اس اشاعت ِخاص کا دوسرا حصہ فتنۂ انکار حدیث کے تجزیہ و تاریخ اور تدوین حدیث کے موضوعات پر مشتمل ہے۔ اس حصہ کے پہلے مضمون میں ’انکارِ حدیث کے لٹریچر‘ پر پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسرڈاکٹر عبداللہ نے برصغیر کے معروف اہل علم کی تحریروں کی مدد سے فتنۂ انکار حدیث کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور معروف منکرین حدیث کا تعارف علماء کرام کی زبانی پیش کیا ہے۔
اس حصہ کے باقی تینوں مضامین تدوین ِحدیث کے حوالے سے ان اعتراضات کے جواب پر مشتمل ہیں جو منکرین حدیث کی طرف سے اکثر کئے جاتے ہیں۔ پہلے مضمون میں عہد ِنبوی میں کتابت ِحدیث کے ثبوت پر دلائل جمع کئے گئے ہیں۔ دوسرا مضمون حفظ ِحدیث کے حوالے سے ہے،
جس میں تدوین حدیث بذریعہ حفظ اور اس پر بعض اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ اس حصہ کا آخری مضمون محترم مدیراعلیٰ کے ایک خطاب کی ترتیب ہے جس میں انہوں نے حفظ و کتابت کے ساتھ تعامل اُمت کو بھی حدیث کی حفاظت کا اہم ذریعہ قرار دیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر3:
تیسرا حصہ منکرین حدیث کی طرف سے کئے جانے والے عمومی اعتراضات و شبہات کے جواب میں لکھے جانے والے مضامین پر مبنی ہے۔
پہلا مضمون محقق شہیر مولانا صفی الرحمن مبارکپوری (سابق امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند) کا ہے جو انہوں نے اس اشاعت ِخاص کے لئے راقم کو ریاض میں ہونے والی ملاقات میں دیا۔ اس میں فاضل مکرم نے ۷،۸ بنیادی اعتراضات کی بڑے متوازن انداز میںوضاحت فرمائی ہے۔ یہ اعتراضات قریباً وہی ہیں جو پرویزیوں کی طرف سے احادیث کے بارے میں کئے جاتے ہیں۔دوسرا مضمون جماعت ِاسلامی کے مؤسس، نامور اسلامی مفکرسید ابو الاعلیٰ مودویؒ کا ہے جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک جسٹس صاحب کے حدیث پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے حجیت ِحدیث کی بحث بڑے خوبصورت اندازمیں کی ہے۔ یہ اعتراضات اکثر وہ ہیں جو دانشور حضرات کے ذہنوں میں حدیث ِنبوی کے بارے میں پائے جاتے ہیں۔
اس حصہ کا تیسرا مضمون مرکزی جمعیت اہل حدیث، کویت کے اہم رہنما مولانا عبد الخالق صاحب کا ہے جنہوں نے کویت میں بزمِ طلوعِ اسلام کی سرگرمیوں اور اس کی بیخ کنی کے لئے علماء حق کی کاوشوں پر روشنی ڈالنے کے علاوہ منکرین حدیث کے بعض شبہات کی عالمانہ انداز میں وضاحت کی ہے۔ آخر میں ادارئہ طلوع اسلام کی کویت میں سرگرمیوں سے متعلق رپورٹ کے علاوہ ان کے مقابل علماء کرام کی سرگرمیوں کاایک مختصر تذکرہ بھی موجود ہے۔ ان سرگرمیوں کے نتیجے میں کویت و سعودی عرب کی حکومتوں نے طلوعِ اسلام کے بانی غلام احمدپرویز کوخارج از اسلام قرار دیا ہے۔آخری مضمون قاری محمد موسیٰ صاحب کا ہے، جس میں نسبتاً عام فہم انداز میں مختصر الفاظ میں حجیت ِحدیث کے تصور کی وضاحت کی گئی ہے۔
 
Top