- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
تیسرا باب:
دور تابعین میں فقہاء کر ام کا فقہی واجتہادی منہج صحابہ کرام کے فقہی واجتہادی منہج کی طرز پر رہا۔عصری مسائل کے حل کے لئے یہ نسل بھی کتاب وسنت کی طرف رجوع کرتی ۔بصورت دیگر وہ اجتہاد میں منہج صحابہ پر انحصار کرتی۔ اس زمانہ میں روایت حدیث بھی عام تھی۔ نئے فرقوں :خوارج وروافض نے بھی سر اٹھایا۔اسلامی مملکت کا دائرہ بھی وسعت پذیر ہورہا تھا۔ بکثرت واقعات بھی رونما ہورہے تھے۔اور نت نئے مسائل بھی ابھر رہے تھے۔ جس سے بے شمار سوالات کھڑے ہوگئے جن کے جواب میں اختلاف طبعاً ہوا۔
اس دور میں فقہاء کرام اپنے فقہی رجحان میں یک جان نہیں تھے بلکہ ان میں کچھ منہج صحابہ پر قائم تھے اور نصوص سے واقف تھے۔یہ فقہاء فتنوں کی وجہ سے رائے دینے میں حددرجہ محتاط تھے۔ مدنی اور حجازی مکتب فکرکی یہی سوچ تھی۔ بعض ایسے بھی تھے جو رائے وقیاس سے اپنے امور نمٹاتے تھے۔اور نصوص میں غور خوض کرکے ان کے معانی کا استخراج کرتے۔ان کی علل سے واقف ہوتے۔ نئے مسائل کے حل کے لئے وہ ان کے معانی اور علل پر غور کرکے وضاحت کرتے۔ وضع حدیث کو بھی انہوں نے رائے کے لئے استعمال کیا۔کوفہ وعراق ایسے فقہاء کی آماجگاہ تھی۔ نتیجتاً دو فقہی مدارس ابھر آئے۔ مدرسہ اہل الحدیث اور مدرسہ اہل الرأی۔
ان دونوں مدارس فقہیہ میں اختلاف سنت سے احتجاج کے بارے میں نہیں تھا بلکہ صرف ان دو چیزوں میں تھا: کیا رائے کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔یا کیا رائے کی بنیاد پر تفریع مسائل کی جاسکتی ہے؟
فقہاء اربعہ
دور تابعین میں فقہاء کر ام کا فقہی واجتہادی منہج صحابہ کرام کے فقہی واجتہادی منہج کی طرز پر رہا۔عصری مسائل کے حل کے لئے یہ نسل بھی کتاب وسنت کی طرف رجوع کرتی ۔بصورت دیگر وہ اجتہاد میں منہج صحابہ پر انحصار کرتی۔ اس زمانہ میں روایت حدیث بھی عام تھی۔ نئے فرقوں :خوارج وروافض نے بھی سر اٹھایا۔اسلامی مملکت کا دائرہ بھی وسعت پذیر ہورہا تھا۔ بکثرت واقعات بھی رونما ہورہے تھے۔اور نت نئے مسائل بھی ابھر رہے تھے۔ جس سے بے شمار سوالات کھڑے ہوگئے جن کے جواب میں اختلاف طبعاً ہوا۔
اس دور میں فقہاء کرام اپنے فقہی رجحان میں یک جان نہیں تھے بلکہ ان میں کچھ منہج صحابہ پر قائم تھے اور نصوص سے واقف تھے۔یہ فقہاء فتنوں کی وجہ سے رائے دینے میں حددرجہ محتاط تھے۔ مدنی اور حجازی مکتب فکرکی یہی سوچ تھی۔ بعض ایسے بھی تھے جو رائے وقیاس سے اپنے امور نمٹاتے تھے۔اور نصوص میں غور خوض کرکے ان کے معانی کا استخراج کرتے۔ان کی علل سے واقف ہوتے۔ نئے مسائل کے حل کے لئے وہ ان کے معانی اور علل پر غور کرکے وضاحت کرتے۔ وضع حدیث کو بھی انہوں نے رائے کے لئے استعمال کیا۔کوفہ وعراق ایسے فقہاء کی آماجگاہ تھی۔ نتیجتاً دو فقہی مدارس ابھر آئے۔ مدرسہ اہل الحدیث اور مدرسہ اہل الرأی۔
ان دونوں مدارس فقہیہ میں اختلاف سنت سے احتجاج کے بارے میں نہیں تھا بلکہ صرف ان دو چیزوں میں تھا: کیا رائے کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔یا کیا رائے کی بنیاد پر تفریع مسائل کی جاسکتی ہے؟