- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
نمایاں خدوخال:
٭۔ علماء احناف کی آراء:
پہلی رائے:
امام محترم ؒسے منسوب یہ فقہ اگرچہ عام طور پر فقہ حنفی کہلاتی ہے لیکن درحقیقت وہ چار شخصوں یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام زفرؒبن ہذیل(۱۱۰۔۱۵۸)، قاضی ابویوسفؒ اورامام محمدؒ بن حسن الشیبانی(۱۳۲۔۱۸۹) کی آراء کا مجموعہ ہیں۔ قاضی ابویوسفؒ، وامام محمدؒ نے بیشتر مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔ فقہائے احناف کی اکثر مرویات میں ہے کہ ان صاحبوں کو اعتراف تھا کہ ہم نے جو اقوال امام ابوحنیفہ ؒکے خلاف کہے وہ بھی امام ابوحنیفہؒ ہی کے اقوال ہیں کیوں کہ بعض مسئلوں میں امام ابوحنیفہؒ نے متعدد اور مختلف آراء ظاہر کی تھیں۔
دوسری رائے:
یہ ان فقہاء کا حسن ظن ہے، قاضی ابویوسفؒ اور امام محمدؒ اجتہاد مطلق کا درجہ رکھتے تھے اور انہیں اختلاف کا پورا حق حاصل تھا۔ اسلام ترقی پذیر اس وقت تک رہا جب تک لوگ باوجود حسن عقیدت کے اپنے بزرگوں، اور اساتذہ کی رائے سے اختلاف کرتے تھے اور خیالات کی ترقی محدود نہ تھی۔ یہ لوگ ہر سابقہ حکم اور فیصلہ کو بعد کے فیصلہ اور حکم کی روشنی میں پڑھتے، سمجھتے اور اس پرعمل کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک قانون کی تعبیر وتشریح کا یہ وہ اصول ہے جس کو نہ صرف اسلامی قانون بلکہ آج بھی دنیا کے سارے ہی قوانین تسلیم کرتے ہیں۔ محدثین کا کہنا ہے کہ ان چاروں میں امام ابویوسف ؒ سب سے زیادہ متبع حدیث ہیں۔
تیسری رائے:
فقہ حنفی کے احکام ومسائل ادلہ شرعیہ سے ان اصول اور قواعد سے ماخوذ و مستنبط ہیں جو امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں نے وضع کئے۔ فقہ حنفی کا ایک عام قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ مسائل کے جواز وعدم جواز یا اس کے صحیح یا غلط ہونے میں ائمہ احناف کے مابین آراء کا اختلاف نظر آتا ہے یعنی اگر امام ابوحنیفہؒ کسی چیز کو جائز قرار دیتے ہیں تو ان کے شاگرد اسے ناجائز گردانتے ہیں۔ ایسی صورت میں متأخر ائمہ احناف نے ان اختلافی اقوال میں ترجیح کے کچھ اصول بیان فرمائے ہیں جو فقہ حنفی کی حفاظت کے لئے ان کی ایک اجتہادی کوشش ہے اور حنفی نقطہ نظر کو سمجھنے کے لئے بہت اہم بھی۔
چوتھی رائے:
یہ بات علماء احناف کے ہاں طے شدہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے جو فقہ کے اصول وضع کیے تھے تمام حنفی فقہاء ان کے پابند تھے اور آج بھی ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ کی رائے میں کوفہ کے اصحاب کی روایات، ان کے فتاوی اور ان کے قیاسی مسائل ہی قابل اعتماد ہیں۔ انہی اصولوں کو سامنے رکھ کر فقہی مسائل کی وقت کے ساتھ ساتھ تدوین کی گئی اور تخریج بھی۔ اس لئے اگر امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کے مابین اختلاف رائے ہو تو اس صورت میں کس کی بات قبول کی جائے گی اور کس کی بات غیر مقبول ٹھہرے گی؟ اس سلسلے میں وقتا فوقتا بتدریج حسب ذیل اصولوں اور ضابطوں کو متعارف کرایا گیا جو مختلف اصولی و فقہی کتب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
٭۔ علماء احناف کی آراء:
پہلی رائے:
امام محترم ؒسے منسوب یہ فقہ اگرچہ عام طور پر فقہ حنفی کہلاتی ہے لیکن درحقیقت وہ چار شخصوں یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام زفرؒبن ہذیل(۱۱۰۔۱۵۸)، قاضی ابویوسفؒ اورامام محمدؒ بن حسن الشیبانی(۱۳۲۔۱۸۹) کی آراء کا مجموعہ ہیں۔ قاضی ابویوسفؒ، وامام محمدؒ نے بیشتر مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔ فقہائے احناف کی اکثر مرویات میں ہے کہ ان صاحبوں کو اعتراف تھا کہ ہم نے جو اقوال امام ابوحنیفہ ؒکے خلاف کہے وہ بھی امام ابوحنیفہؒ ہی کے اقوال ہیں کیوں کہ بعض مسئلوں میں امام ابوحنیفہؒ نے متعدد اور مختلف آراء ظاہر کی تھیں۔
دوسری رائے:
یہ ان فقہاء کا حسن ظن ہے، قاضی ابویوسفؒ اور امام محمدؒ اجتہاد مطلق کا درجہ رکھتے تھے اور انہیں اختلاف کا پورا حق حاصل تھا۔ اسلام ترقی پذیر اس وقت تک رہا جب تک لوگ باوجود حسن عقیدت کے اپنے بزرگوں، اور اساتذہ کی رائے سے اختلاف کرتے تھے اور خیالات کی ترقی محدود نہ تھی۔ یہ لوگ ہر سابقہ حکم اور فیصلہ کو بعد کے فیصلہ اور حکم کی روشنی میں پڑھتے، سمجھتے اور اس پرعمل کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک قانون کی تعبیر وتشریح کا یہ وہ اصول ہے جس کو نہ صرف اسلامی قانون بلکہ آج بھی دنیا کے سارے ہی قوانین تسلیم کرتے ہیں۔ محدثین کا کہنا ہے کہ ان چاروں میں امام ابویوسف ؒ سب سے زیادہ متبع حدیث ہیں۔
تیسری رائے:
فقہ حنفی کے احکام ومسائل ادلہ شرعیہ سے ان اصول اور قواعد سے ماخوذ و مستنبط ہیں جو امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں نے وضع کئے۔ فقہ حنفی کا ایک عام قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ مسائل کے جواز وعدم جواز یا اس کے صحیح یا غلط ہونے میں ائمہ احناف کے مابین آراء کا اختلاف نظر آتا ہے یعنی اگر امام ابوحنیفہؒ کسی چیز کو جائز قرار دیتے ہیں تو ان کے شاگرد اسے ناجائز گردانتے ہیں۔ ایسی صورت میں متأخر ائمہ احناف نے ان اختلافی اقوال میں ترجیح کے کچھ اصول بیان فرمائے ہیں جو فقہ حنفی کی حفاظت کے لئے ان کی ایک اجتہادی کوشش ہے اور حنفی نقطہ نظر کو سمجھنے کے لئے بہت اہم بھی۔
چوتھی رائے:
یہ بات علماء احناف کے ہاں طے شدہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے جو فقہ کے اصول وضع کیے تھے تمام حنفی فقہاء ان کے پابند تھے اور آج بھی ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ کی رائے میں کوفہ کے اصحاب کی روایات، ان کے فتاوی اور ان کے قیاسی مسائل ہی قابل اعتماد ہیں۔ انہی اصولوں کو سامنے رکھ کر فقہی مسائل کی وقت کے ساتھ ساتھ تدوین کی گئی اور تخریج بھی۔ اس لئے اگر امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کے مابین اختلاف رائے ہو تو اس صورت میں کس کی بات قبول کی جائے گی اور کس کی بات غیر مقبول ٹھہرے گی؟ اس سلسلے میں وقتا فوقتا بتدریج حسب ذیل اصولوں اور ضابطوں کو متعارف کرایا گیا جو مختلف اصولی و فقہی کتب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔