• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی کے مصادر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آپﷺ ہی ارشاد فرماتے ہیں:
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَو بَدَا لَکُمْ مُوسٰی فَاتَّبَعْتُمُوہُ وَتَرَکْتُمُونِیْ لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَائِ السَّبِیْلِ، وَلَوْ کَانَ حَیًّا وَأَدْرَکَ نُبُوَّتِی لاَتَّبَعَنِیْ۔
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ علیہ السلام بھی تم میں تشریف لے آئیں پھر تم ان کی اتباع کرنا شروع کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھی راہ سے بلاشبہ بھٹک جاؤ گے۔ اوراگر موسیٰ علیہ السلام آج زندہ ہوں اور میری نبوت کو وہ پائیں تو وہ بھی ضرور میری اتباع کریں۔( مقدمہ دارمی: ۴۳۵)

٭…آپ ﷺ نے بغیر حدیث وسنت کے قرآن مجید سے شرعی مسائل معلوم کرنا ناممکن فرمایا:
لاَ أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ مُتَّکِئًا عَلَی أَرِیْکَتِہِ یَأتِیْہِ الأَمْرُ مِمَّا أَمَرْتُ بِہِ أَو نَہَیْتُ عَنْہُ فَیَقُولُ: بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْقُرآنُ فَمَا وَجَدْنَا فِیْہِ مِنْ حَلاَلٍ اسْتَحْلَلْنَاہُ وَمَا وَجَدْنَا فِیہِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاہُ۔ أَلاَ وَإِنِّیْ أُوْتِیْتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ۔( سنن ابی داؤد باب لزوم السنۃ: ۴۶۰۴)
میں تمہارے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ مسند پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو ، اس کے پاس میرے احکامات میں سے کوئی حکم آتا ہے جس میں میں نے کوئی حکم دیا ہوتا ہے یا میں نے اس سے روکا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے: ہمارے اور تمہارے درمیان قرآن ہی کافی ہے۔ تو جو کچھ ہم اس میں حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اور جو کچھ حرام پائیں گے اسے حرام جانیں گے۔ لوگو! ہشیار رہنا، بلاشبہ مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس سے ملتی جلتی بات بھی اس کے ساتھ دی گئی ہے۔

٭…خرافات وبدعات اختیار کرنے والے بھی سنتوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ مشہور تابعی فقیہ حسان بن عطیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے:
مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَۃً فِی دِیْنِہِمْ إِلاَّ نَزَعَ اللّٰہُ مِنْ سُنَّتِہِمْ مِثْلَہَا ثُمَّ لاَ یُعِیْدُہَا إِلَیْہِمْ إِلٰی یَومِ الْقِیٰمَۃِ۔
جس قوم نے بھی دین میں کوئی بدعت اختیار کی ، اللہ تعالیٰ نے ان سے اسی قدر سنت اٹھا لی۔ پھر وہ سنت قیامت تک ان لوگوں میں نہیں پلٹتی۔(دارمی)

امام سفیان ؒثوری فرماتے ہیں:
البِدْعَۃُ أَحَبُّ إِلٰی إِبْلِیْسَ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ، اَلْمَعْصِیَۃُ یُتَابُ مِنْہَاوَالْبِدْعَۃُ لاَ یُتَابُ مِنْہَا۔
بدعت ، ابلیس کو گناہ سے زیادہ پسندیدہ ہے اس لئے کہ معصیت پر انسان توبہ کرلیتا ہے مگر بدعت پر وہ توبہ نہیں کرتا۔( شرح السنۃ:۲۱۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یہ آیات ا وراحادیث اس شک کی جڑ کاٹ دیتی ہیں کہ سنت رسول، شرعی دلیل نہیں ۔ایک مومن ان آیات کو پڑھنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو نہ صرف دلی احترام دیتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنا بڑا مقام مل جانے کے بعد اس کے ایمان میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے کہ آپ ﷺ واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی نمائندے ہیں جن کے بارے میں اتنی شد ومد سے آیات میں سمجھایا گیا ہے کہ اگر رسول کو ہر لحاظ سے اہمیت نہ دی تو پھر ہر کوئی اپنے ایمان کی خیر منائے۔

یہی وجہ ہے کہ انہی آیات اور احادیث رسول ﷺ کو پیش نظر رکھ تمام ائمہ کرام نے سنت رسول کی موجودگی میں اپنے اقوال اور رائے کو ترک کرکے سنت رسول پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔

٭…سچ ہے اگر علماء اہل سنت کی یہ غیر معمولی اور دقیق علمی سرگرمیاں جاری نہ رہتیں تو کون تھا جو ان احادیث کے بارے میں یہ مطلع کرتا کہ یہ صحیح حدیث ہے اور یہ ضعیف وموضوع یا اس میں یہ علت خفیہ ہے اور اس میں شذوذ۔ جب کہ حفاظت دین کے معیارات ہی مختلف ہوں اور ضعیف وصحیح احادیث کے مابین فرق کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔ یہی کامیاب کوششیں ہی تو تھیں جن کی وجہ سے ہر ایک کو محتاط رہنا پڑا اور پختہ دلیل کے بغیر استنباط، اجتہاد اور افتاء سے باز بھی۔ یہ ذوق لطیف بن گیا کہ مسائل کے استنباط یا مسائل کی تصحیح کے لئے صحیح حدیث ہی کو معیار بنادیا جائے۔ یوں ضعیف وموضوع حدیث کوصحیح حدیث سے جدا کرنے کے اصول بنے۔ اورکار حدیث میں نااہل اور بد نیت لوگوں کا عمل دخل ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔یہ بھی کوشش ہوئی کہ آپ ﷺ کی طرف منسوب ہر قول وفعل کو اصول حدیث کے میزان پر تولاجائے ۔محض ظن وقیاس کی بناء پر انہیں رد نہ کیا جائے۔یہ جہد مسلسل محض اس لئے ہوئی کہ قرآن مجیدکے چندپیچیدہ مقامات کی وضاحت جو ہادی برحق نے اپنے قول، عمل اور تقریر کے ذریعے فرمادی تھی اور جسے اللہ تعالیٰ نے شریعت کا مصدر اساسی بھی قرار دیا تھا اس کی بخوبی حفاظت کرلی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سنت کا انکار قرآن کا انکار:
سنت کا انکار نہ صرف رسالت کے منصب کا انکار ہے بلکہ قرآن کریم کو نہ ماننے کا بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ انکار سنت سے قرآن کریم کے بے شمار احکام لایعنی ہوجاتے ہیں۔نماز ، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ کی تفاصیل ہوں یا بیع وشراء کے معاملات۔ کیا انہیں حالات وزمانہ کی تبدیلی کے سپرد کردیا جائے یاانہیں شخصی رائے پر اسی طرح چھوڑ دیا جائے۔ اس شخص کی اپنی حیثیت کا تعین کون کرے؟ اور کیسے کرے؟ اور کیوں کرے؟ سنت رسول ہی ایک ایسی حجت ہے جس کے انکار سے قرآن مجید کی بیشتر آیات کا انکار لازم آتا ہے۔ اوپربیان کردہ آیات میں کیا ہماری مرضی، اختیار ، پسند ناپسند، کسی اور کی اتباع وغیرہ کی کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ کیا اس نظریہ کے پس پردہ جدید جاہلیت سے وابستہ رہنے کی خواہش تو نہیں؟

سنت رسول مثالی تہذیب وثقافت کی ایک مشعل راہ ہے۔انکار سنت تو مسلط کردہ تہذیبی لڑائی کا ساتھ دینا ہے۔ اپنی مثالی تہذیب کے تحفظ کا نعرہ تو فرعون اور اس کے گماشتوں کا ہے ۔عمل قوم لوط کوبلکہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر عورت کی عورت سے شادی کو قانونی تحفظ دینا قدیم جاہلیت کی دین ہے ۔ بغیر نکاح کے بچوں کا پیدا ہونا، جوان لڑکی کو ایک سے زیادہ بوائے فرینڈز رکھنے پر اکسانا، بزرگوں کو اولڈہومز میں بھیج دینا اور بچوں کو چلڈرن ہومز میں چھوڑ دینا اسلامی تہذیب نہیں۔سنت رسول نے جوتہذیب برپا کی اس میں نکاح کی ترغیب، زناسے پرہیز، جوان بچیوں کو شرم وحیا کی تعلیم، بوڑھے والدین کا ادب و احترام اور ان کا بھرپور خیال، بچوں کی پرورش اور ان کی دینی ، دنیوی اور اخلاقی تعلیم وغیرہ پر ہی اکسایا ہے۔

سنت رسول ﷺ کی قانونی حیثیت پر آپ ﷺ کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد تمام صحابہ کرام کا اجماع تھا کہ چھوٹے بڑے تمام کاموں میں سنت رسول کی پیروی کی جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے قرآن وسنت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔(اعلام الموقعین۴؍۳۷۵)

اس لئے شریعت یا ریاست وقضاء کے کسی بھی پہلوسے جو کچھ بھی ہمیں صحیح سند کے ساتھ سنت مل جائے وہ اہل اسلام پر حجت ہے۔ اسے ہی شرعی مصدر سمجھنا اور اس سے ہی استنباط احکام کرنا مجتہدین کرام کا فرض ہے۔قرآن کریم کی طرح اس کی اتباع بھی واجب ہوگی۔

سنت میں کچھ تو قطعی الثبوت احادیث ہیں جو متواتر کہلاتی ہیں اور کچھ ظنی الثبوت جنہیں فقہاء آحاد کہہ دیتے ہیں۔ متواتر یا آحاد دونوں میں قطعی الدلالت احادیث ہوسکتی ہیں اور ظنی الدلالت بھی۔مگر سبھی سنت خواہ وہ متواتر ہو یا آحاد جب صحیح ہو گی تو وہ حجت ہوں گی، اور قابل عمل بھی۔ ورنہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قرآن وسنت میں تفریق ناجائز:
قرآن وسنت کے درمیان اس معنی میں تفریق کرنا کہ اگر ایک مسئلہ حدیث صحیح میں ہو مگر وہ قرآن کریم کے خلاف ہو تو حدیث کو چھوڑ دیا جائے گا، درست نہیں۔ قرآن وسنت میں اولاً تو تضاد ثابت کرنے کا سوچنا ہی نہیں چاہئے۔ اس لئے کہ جس رسول محترم پر قرآن اتراہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی سنت قرآن کے خلاف ہو۔کیا یہ اختلاف کسی دماغ کا پیدا کردہ تو نہیں؟ مزید یہ کہ سنت کا جو تعلق قرآن وحدیث سے ہے وہ شخصی رائے سے نہیں ہے۔ اس لئے یہ ہم پر فرض ہوگا کہ کتاب وسنت سے بیک وقت استفادہ کریں اور انہیں ایک ہی مصدر جانیں۔ من حیث الثبوت(Constancy, Steadiness) تو سنت یوں ہے۔ استدلال کی حیثیت سے اس کی اتباع بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح قرآن کریم کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سنت، قرآن کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہے؟ قرآن کے احکام کی مختلف صورتیں علماء نے بیان کی ہیں۔ سنت رسول یا تو ان کی مکمل تائید کرتی ہے یا ان کی وضاحت یا پھر وحی کے ذریعے اضافہ۔ ان کے علاوہ کوئی اور صورت ہے ہی نہیں ۔امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین: ۲؍۳۰۷ میں لکھا ہے کہ قرآن کے احکام کے ساتھ سنت کے احکام کی وضاحت تین طرح سے آئی ہے:

۱۔ سنت موافقت:
قرآن جو پیش کررہا ہے سنت بھی وہی کچھ پیش کررہی ہے۔جیسے زکوۃ، نماز، حج، اعلانیہ وچھپے فواحش کی حرمت، زنا وشراب کی حرمت اور مردار ، خنزیر کا گوشت کھانے کی حرمت ، اسی طرح وضوء کے فرض ہونے کا بیان شرائط وارکان کے ذکر کے بغیر وغیرہ۔جو کچھ قرآن میں ہے اس کے حکم کی تائید اور اسے مزید پختہ کررہی ہے۔جیسے آپ ﷺ کا ارشاد: إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ۔ بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں۔اب یہ حدیث اس آیت کے موافق ہے:{یأیھا الذین آمنوا لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل}(البقرۃ:۱۸۸) اسی طرح اس کے بھی:{ ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم}(النساء:۹۳) اسی طرح دیگر آیات جس میں مومن کے مال وجان کے تحفظ کی بات کی ہے۔ آپ ﷺ کے ارشادات میں انہی کی تائید ملتی ہے۔سنت کے احکام اس اعتبار سے قرآن مجید کے سو فی صد موافق ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۲۔ سنت جو کتاب کی تفسیر کرتی ہو:
اس کی مراد بتاتی ہو۔ اس کے مطلق کو مقید کرتی ہو اور اس کے عام کو خاص کرتی ہو۔جیسے ظلم کو بیان کرنا:{ولم یلبسوا ٌیمانہم بظلم}(الأنعام: ۸۲) ظلم سے مراد شرک ہے۔یا الخیط الأبیض اور الأسود کو واضح کرنا اور اس کی تفسیر صبح کی سفیدی اور رات کی سیاہی کرنا۔ اور یہ اس ارشاد میں ہے: {وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الأبیض من الخیط الأسود من الفجر}۔(البقرۃ: ۱۸۷)

یہ وہ احکام ہیں جو قرآن مجید میں مجمل(summarized) آئے ہیں۔ یعنی وہ تفصیل طلب ہیں۔ انہیں رسول اکرم ﷺ نے اپنے قول اور عمل سے واضح فرما دیااس لئے کہ از روئے قرآن ایسا کرنا آپﷺ کی ذمہ داری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{ وأنزلنا إلیک الذکر لتبین للناس ما نزل إلیہم}۔۔ النحل: ۴۴ ہم نے آپ کی طرف قرآن اس لئے اتارا ہے کہ آپ ﷺ اسے اچھی طرح واضح فرمادیں۔ جیسے نماز کے اوقات کی تفاصیل، نماز کی رکعات، اور دیگر احکام نماز، اموال اور زکوۃ کی مقدار، مناسک حج، ذبح، شکار ، کس جانور کا گوشت کھایا جائے اور کس کا نہیں؟۔ نکاح کی تفاصیل، بیع وشراء، جرائم اور ان کی حدود وغیرہ۔ یعنی جہاں قرآن نے مطلق بات کی تو سنت نے اسے مقید کردیا ، مجمل کہی تو سنت نے اس کی تفصیل بتا دی۔ یا قرآن کی بات عام ہے تو سنت نے اس کی تخصیص کردی۔ مثلاً احکام نماز، روزہ، حج، زکوۃ، لین دین اور خریدو فروخت کے بارے میں قرآن مجید میں پوری تفصیلات نہیں ہیں۔ سنت رسول نے انہیں مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۳۔سنت وہ حکم پیش کرے جس کے بارے میں قرآن کریم خاموش ہو:
سنت کے وہ احکام جن میں قرآن خاموش ہے جیسے پھوپھی بھتیجی یا خالہ بھانجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے کو حرام قرار دیا، شادی شدہ زانی زانیہ کو سنگسار کرایا، اور دو گواہ نہ مل سکنے کی صورت میں قسم کے ساتھ ایک ہی گواہی کو قبول کر لیا ۔ ایسے احکام کسی بھی صورت میں قرآن کے ساتھ نہیں ٹکراتے البتہ وہ قرآنی احکام پر اضافہ ہیں۔ یہ بھی شریعت ہے جسے ماننا فرض ہے اور نہ ماننا کفر۔ یہ نہ قرآن سے آگے بڑھنے والی بات ہے اورنہ مخالفت بلکہ قرآن کے حکم کے عین مطابق ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کرو جو عمل اور ایمان کا نام ہے۔اس سنت کی جو پیروی کرے گا وہ گویا کہ آیات الٰہی کو ماننے کا اقرار کرے گا۔

یاد رکھئے! کسی بھی ضعیف یا موضوع حدیث کو یا احادیث کے ظاہری اختلاف کو بنیاد بنا کر یا قرآن وحدیث میں بظاہر اختلاف کو پاکر یہ اصول بنانا درست نہیں کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے یا قرآن پر اضافہ ہے بلکہ ایسے مواقع پر قرآن وسنت کے بارے میں مزید آگاہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ قرآن مجید میں بھی بہت سی آیات ایسی مل جائیں گی جن میں باہم اختلاف ہے اور تضاد بھی۔

٭…علم مصطلح بھی عظیم علم ہے جس سے ہم صحیح وضعیف، مرفوع وموقوف، مقطوع ومنقطع، متصل ومرسل، اور تدلیس وغیرہ کی پہچان حاصل کرسکتے ہیں او رمراتب حدیث وسنت میں امتیاز بھی قائم کرسکتے ہیں۔ورنہ حق وباطل گڈمڈ ہوجائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کتابت حدیث:
رسول اکرم ﷺ نے ابتدا میں قرآن کے ساتھ کچھ اور لکھنے سے منع فرما دیا تھا مگر جب صحابہ کرام اچھی طرح یہ جان گئے کہ قرآن اور حدیث کی کتابت میں فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے تو آپﷺ نے اپنی احادیث لکھنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ خود بھی لکھوائیں۔ آپ ﷺ کے خطوط، جو آج مل گئے ہیں اور جو حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں دونوں کو ملا کر دیکھا جاسکتا ہے کہ حدیث کی کتابت کے ساتھ اس کو یاد کرکے اور اسے زبانی روایت کرکے کس قدر محتاط طریقے سے روایت کیا گیا ہے۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ آپ کی احادیث تقریبا پچاس صحابہ کرام نے لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرلی تھیں۔ موطا امام مالکؒ دوسری صدی ہجری کی کتاب حدیث آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ، کے شاگرد رشید کا صحیفہ اور انہی کے معاصر معمر بن راشد کا صحیفہ دونوں طبع ہوچکے ہیں یہ پہلی صدی ہجری کی یادگار ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
٭…حدیث وسنت کی تین اقسام ہیں:
سنت قولیہ ، سنت فعلیہ اور سنت تقریریہ۔

٭…سنت ہمیں جس طرح وصول ہوتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ متواتر:
جسے راویوں کی جماعت نے جماعت سے تمام طبقات میں آخیر تک اس طرح روایت کیا ہو کہ عادتاً ان کا جھوٹ پر اتفاق ہونا یا موافقت ہوجانا ناممکن ہو۔ یہ سب روایت حسی یعنی مشاہدہ یا سماع سے ہو۔اس کی لفظی اور معنوی دو قسمیں ہیں۔

۲۔خبر واحد:
جسے کم از ایک اور زیادہ سے زیادہ تین راوی سند کے ہر حصے اور طبقے میں یکے بعد دیگرے بغیر کسی انقطاع کے روایت کریں۔سند کے صحت کے بعد متن کی مخالفت کوئی اوثق نہ کررہا ہو اور نہ ہی سند ومتن میں کوئی علت ہو۔ ایسی حدیث میں روایت کردہ سنت یقینی ہوگی اور اس پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔ اس کی مشہور ، عزیز اور غریب تین قسمیں ہیں۔

خبر واحد ایسا علم ہے جس کا بیان کرنا یاروایت کرنا ممنوع و حرام نہیں۔ ازروئے قرآن اسے مسترد کرنا بھی ممنوع ہے۔ ہاں تحقیق کرنا ضروری ہے۔ اگرراوی عادل وضابط ہو تو اسے قبول کیا جائے اور اگر فاسق وفاجرہو تو تحقیق کے بعد اگراس کی خبر غلط ثابت ہوجائے تو پھر اسے رد کردینا چاہئے۔ ضروری نہیں کہ فاسق کی ہر خبر غلط ہو۔

متواتر: فقہاء کرام نے لفظ متواتر کے حوالہ سے متعدد معنی لئے ہیں۔ کسی نے سنت متواترہ لیا اور کسی نے متواتر کا دعوی کسی فقیہ یا امام کی طرف منسوب کردیا۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ مختلف ائمہ فقہاء متواتر کی اصطلاح کو اس معنی میں استعمال ہی نہیں کرتے جو معنی اصولی حضرات نے لئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اصولی حضرات کے ہاں متواتر کی تعریف یہ ہے کہ ہر دور میں اسے ایک کثیر تعداد نے کثیر تعداد سے روایت کیا ہو کہ ان سب کا جھوٹ پر اتفاق محال ہو۔یہ متواتر علم ضروری کا فائدہ دیتی ہے۔مثلاً استنبول ترکی کا ایک بڑا شہر ہے اور سورج روزانہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔ ان دونوں کے علم میں فرق یہ ہے کہ پہلا تواتر کے ساتھ سننے میں آرہا ہے جب کہ دوسرا مشاہدہ سے حاصل ہوتا ہے۔

احناف کے ہاں اس خبر کو ایسے لوگ اپنے ہی جیسے لوگوں سے رسول اللہ ﷺ تک روایت کریں جن کی کثرت تعداد اور اختلاف اماکن کی وجہ سے جھوٹ پر اتفاق یا اکٹھ کا وہم بھی نہ کیا جاسکے۔ ان کا پہلا طبقہ اپنے آخری طبقہ کی طرح ہو اور درمیانہ اپنے دونوں بازؤوں کی طرح۔ (اصول السرخسی: ۲۸۲)

امام مالک ؒ سنت متواترہ کی اصطلاح استعمال فرماتے ہیں جو ان کے نزدیک عمل اہل مدینہ ہے نہ کہ اصولیوں کی تعریف۔دیگر فقہاء اپنے اسلاف کے عمل کو سنت متواترہ کا نام دے دیتے ہیں۔

امام شافعیؒ نے اس اصطلاح کا استعمال اپنی کتاب الرسالہ میں کیا ہی نہیں۔ بلکہ وہ خبر واحد کے لئے السنۃ المجتمع علیہا اور خبر العامۃ من العامۃ کے لفظ استعمال کرتے ہیں اور اس کا مد مقابل خبر الخاصۃ لکھتے ہیں۔ اصولیوں کے ہاں ان دونوں الفاظ سے مراد غیر متواتر ہے کہ وہ معاملہ جو کتاب اللہ میں نہیں اور اس پر امت اس طرح مجتمع ہوگئی کہ دو شخص یا عالم بھی اس سے اختلاف نہ کرسکیں جیسے نماز ظہر کی چار رکعتیں ہیں اس پر امت کا مجتمع ہونا ایسا ہے جو اصولی حضرات کے ہاں متواتر سے بھی بڑھ کر ہے بلکہ متواتر سے بھی اعلی قسم حدیث ہے۔کیونکہ متواتر میں کچھ علم خواص پر مخفی ہوتا ہے چہ جائے کہ عوام ہوں۔ اور علم متواتر بھی مخفی ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ متواتر کی مذکورہ مثالوں سے جانا جاسکتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ ایسی متواتر حدیث کا وجود بھی ہے جس کی تعریف اہل اصول کرتے ہیں؟ علماء اصول وحدیث اس کی شاہد صرف دو احادیث پیش کرسکے ہیں۔ پہلی حدیث: إنما الأعمال بالنیات ہے اور دوسری من کذب علی متعمدا۔۔۔والی۔ پہلی حدیث میں متواتر کی بیان کردہ شروط موجود ہی نہیں۔ اس لئے کہ محدثین بالاتفاق اس کی سند کو غریب کہتے ہیں۔جو آحاد کی ایک قسم ہے۔ اس میں عدد رواۃ کا تواتر سند کے درمیان میں واقع ہوا ہے سند کے آغاز میں نہیں۔ ابن حجرؒ لکھتے ہیں:
نَعَمْ قَدْ تَوَاتَرَ عَنْ یَحْیٰی بْنِ سَعِیْدٍ : فَحَکٰی مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ سَعِیْدِ النَّقّاشِ الْحَافِظِ أَنَّہُ رَوَاہُ عَنْ یَحْیَی مِائَتَانِ وَخَمْسُوْنَ نَفْسًا وَسَرَدَ أَسْمَائَہُمْ أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ مَنْدَۃَ فَجَاوَزَ الثَّلاثَ مِائَۃٍ۔
ہاں یہ حدیث یحییٰ بن سعید سے متواتر روایت کی گئی ہے محمد بن علی بن سعید النقاش حافظ نے لکھا ہے کہ اسے یحییٰ بن سعید سے دو سو پچاس افراد نے روایت کیا ہے اور ابو القاسم بن مندۃ نے اس کے تین سو سے زائد نام گنوائے ہیں۔فتح الباری ج ۱؍ص:۱۱

رہی دوسر ی حدیث کی دلیل کہ اسے صحابہ کی بڑی تعداد نے روایت کیا ہے اور صحیحین میں صحابہ کی ایک بڑی جماعت سے یہ مروی بھی ہے حافظ ابوبکر البزار نے اپنی مسند میں لکھا ہے کہ تقریباً چالیس صحابہ نے اسے آپ ﷺ سے روایت کیا ہے اور بعض دیگر حفاظ نے اس کی تعداد باسٹھ بتائی ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔
 
Top