• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقی حنفی میں ننگے نمازی کی نمازہو جاتی ہے لیکن ---- !!!

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اوہو!! میں مصروفیت کی وجہ سے دو دن غیر حاضر رہا تو اتنے تبصرے!!! اب کس کس کا جواب دوں؟

حافظ عمران الٰہی بھائی اگر آپ ایسا کوئی جزئی واقعہ ڈھونڈ دیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ مزے کی بات ہے کہ صحیح اسناد سے "بالکل" ایسا واقعہ مجھے بھی نہیں ملا۔ اب کیا کیا جائے؟ کیا یہ مقام اجتہاد ہے یا نہیں؟
مجھے امید ہے آپ کا جواب ہاں میں ہوگا۔
یہ اصلا اس صورت کی بات ہے جب کوئی کشتی یا جہاز ڈوب جائے اور جو لوگ بچیں وہ اس حال میں ہوں کہ ستر مکمل ڈھانپنا ان کے بس کی بات نہ ہو۔ اگر اس کے علاوہ کبھی ایسا مسئلہ پیش آ جائے تو بھی یہی مسئلہ ہو گا۔

کیا احناف فارغ تھے جو انہوں نے اتنے ممکنہ مسائل اخذ کیے؟ اگر کسی کے ساتھ ایسا مسئلہ پیش آ جائے تو ساحل سمندر پر وہ حدیث کی کونسی کتاب میں اس مسئلہ کا حل تلاش کرے گا؟؟؟ جب کہ عام کتب حدیث میں اس کا حل ملے بھی نہ؟؟؟ یہ میرا عاجزانہ سوال ہے۔ سوچنے کی درخواست ہے۔

یہی فتوی حسن بصری رح جو جلیل القدر تابعی، فقیہ اور محدث تھے ان کا بھی ہے۔
حدثنا يزيد بن هارون، عن هشام، عن الحسن، في القوم تنكسر بهم السفينة فيخرجون عراة كيف يصلون؟ قال: جلوسا وإمامهم وسطهم ويسجدون ويغضون أبصارهم
مصنف ابن ابی شیبہ 1۔433، الرشد

عریاں نماز پڑھنے کا ذکر کمزور اسناد سے ابن عباس رض اور علی رض سے بھی مروی ہے۔


عن إبراهيم بن محمد، عن داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: «الذي يصلي في السفينة، والذي يصلي عريانا، يصلي جالسا»
مصنف عبد الرزاق 2، 583، مجلس العلمی
عن إبراهيم بن محمد، عن إسحاق بن عبد الله، عن ميمون بن مهران قال: سئل علي عن صلاة العريان، فقال: «إن كان حيث يراه الناس صلى جالسا، وإن كان حيث لا يراه الناس صلى قائما»
مصنف عبد الر زاق 2۔584



اور یہی فتوی حافظ العصر قتادہ رح کا ہے۔ جسے علامہ زیلعی نے اور پھر حافظ ابن حجر عسقلانی رح نے نقل کیا ہے۔
أخبرنا معمر عن قتادة، قال: إذا خرج ناس من البحر عراة فأمهم أحدهم صلوا قعودا، وكان إمامهم معهم في الصف يومئون إيماءا.
نصب الرایہ 1۔301، الریان
وعن معمر عن قتادة إذا خرج ناس من البحر عراة فأمهم أحدهم صلوا قعودا وكان إمامهم معهم في الصف يومئون إيماء
الدرایہ 1۔124، المعرفہ

ممکن ہے یہ سب لوگ بھی فارغ ہوں۔ کیوں شاہد نذیر بھائی کیا خیال ہے؟

اگر کوئی بھی شخص تعصب کی عینک لگا کر دیکھنا ہی چاہتا ہے تو پھر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
میں یہی کہتا ہوں کہ آپ کو اگر کسی بات پر تسلی ہے حتی کہ آپ متبحر عالم ہیں تب بھی مخالف کو برا مت کہیں۔ فقہاء نے اپنی زندگیاں اس لیے نہیں صرف کی تھیں کہ وہ دین کو بدل دیں۔ ان کے پاس دلائل تھے تو ہی کوئی فتوی دیتے تھے۔
واللہ اعلم
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میں یہی کہتا ہوں کہ آپ کو اگر کسی بات پر تسلی ہے حتی کہ آپ متبحر عالم ہیں تب بھی مخالف کو برا مت کہیں۔ فقہاء نے اپنی زندگیاں اس لیے نہیں صرف کی تھیں کہ وہ دین کو بدل دیں۔ ان کے پاس دلائل تھے تو ہی کوئی فتوی دیتے تھے۔
واللہ اعلم
محترم بھائی میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ فقہاء کی نیت پر ہم شک نہیں کرتے مگر ایک اشکال ہے کہ اگرچہ ایک مقلد فقیہ بھی نیک نیتی سے ہی سوچتا ہے اور ایک غیر مقلد فقیہ بھی نیک نیتی سے سوچتا ہے تو پھر اسکا نتیجہ مختلف کیوں نکلتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ نیک نیتی سے سوچنے کے باوجود کسی انسان کا حق کو پہنچنا لازمی نہیں آتا
اس پر سوال آتا ہے کہ پھر ہمیں اس بارے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا تو محترم بھائیو ابھی تک کے میرے علم کے مطابق مندرجہ ذیل ہو سکتا ہے
1-اگر فقیہ کی بات قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل کے خلاف لگ رہی ہے مگر قرآن و حدیث کے ہی کچھ دلائل سے اسکی تاویل بھی کی جا سکتی ہے تو ہمیں پیروی ٹھوس دلائل کی کرنی چاہئے اور انکو اجتہادی غلطی پر سمجھتے ہوئے ان فقہا کو برا نہیں کہنا چاہئے
2-اگر فقیہ کی بات قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل کے خلاف لگ رہی ہے اور قرآن و حدیث کے دلائل سے اسکی کسی قسم کی تاویل بھی نہیں کی جا سکتی تو ہمیں پیروی ٹھوس دلائل کی ہی کرنی چاہئے اور انکے بارے فیصلہ باقی مجموئی حالات کو دیکھ کر کیا جائے
3-اگر فقیہ کی بات قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل کے عین مطابق ہے تو ہمیں پیروی بھی اسی بات کی کرنی چاہئے اور انکو حق پر سمجھنا چاہئے

اگر کسی بھائی کو زیادہ اس بارے علم ہو تو اصلاح کر دے مدلل بات ہو گی تو الحمد للہ میں مان لوں گا کیوں کہ یہ باتیں میں نے اپنے کسی ٹھوس نظریے کی بنیاد پر نہیں لکھیں بلکہ اچانک ایک مسئلہ سامنے آنے پر میرا ناقص ذہن اسکا ممکنہ حل جو سوچ سکتا تھا وہ لکھا ہے
اللہ تعالی ہم سب کو حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے امین
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ فقہاء کی نیت پر ہم شک نہیں کرتے مگر ایک اشکال ہے کہ اگرچہ ایک مقلد فقیہ بھی نیک نیتی سے ہی سوچتا ہے اور ایک غیر مقلد فقیہ بھی نیک نیتی سے سوچتا ہے تو پھر اسکا نتیجہ مختلف کیوں نکلتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ نیک نیتی سے سوچنے کے باوجود کسی انسان کا حق کو پہنچنا لازمی نہیں آتا
اس پر سوال آتا ہے کہ پھر ہمیں اس بارے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا تو محترم بھائیو ابھی تک کے میرے علم کے مطابق مندرجہ ذیل ہو سکتا ہے
1-اگر فقیہ کی بات قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل کے خلاف لگ رہی ہے مگر قرآن و حدیث کے ہی کچھ دلائل سے اسکی تاویل بھی کی جا سکتی ہے تو ہمیں پیروی ٹھوس دلائل کی کرنی چاہئے اور انکو اجتہادی غلطی پر سمجھتے ہوئے ان فقہا کو برا نہیں کہنا چاہئے
2-اگر فقیہ کی بات قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل کے خلاف لگ رہی ہے اور قرآن و حدیث کے دلائل سے اسکی کسی قسم کی تاویل بھی نہیں کی جا سکتی تو ہمیں پیروی ٹھوس دلائل کی ہی کرنی چاہئے اور انکے بارے فیصلہ باقی مجموئی حالات کو دیکھ کر کیا جائے
3-اگر فقیہ کی بات قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل کے عین مطابق ہے تو ہمیں پیروی بھی اسی بات کی کرنی چاہئے اور انکو حق پر سمجھنا چاہئے

اگر کسی بھائی کو زیادہ اس بارے علم ہو تو اصلاح کر دے مدلل بات ہو گی تو الحمد للہ میں مان لوں گا کیوں کہ یہ باتیں میں نے اپنے کسی ٹھوس نظریے کی بنیاد پر نہیں لکھیں بلکہ اچانک ایک مسئلہ سامنے آنے پر میرا ناقص ذہن اسکا ممکنہ حل جو سوچ سکتا تھا وہ لکھا ہے
اللہ تعالی ہم سب کو حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے امین



میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔
ہر فقیہ الگ فیصلے پر کیوں پہنچتا ہے؟ اس کی وجہ ذہنی فرق ہے۔ اللہ پاک نے مختلف انسانوں کے اذہان کی مختلف کیفیت اور بناوٹ رکھی ہے۔ ان کا سوچ کا انداز مختلف ہے۔
اس وجہ سے جب وہ ایک ہی لفظ سے جو دو احتمال رکھتا ہو مسئلہ نکالتے ہیں تو الگ الگ نکالتے ہیں۔
اسی طرح دو احادیث میں ایک فقیہ ایک حدیث کو زیادہ درست سمجھتا ہے اور دوسرا دوسری کو زیادہ قابل عمل۔ اسی کو اصولوں کا اختلاف کہتے ہیں۔
یہ صرف اسی میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر فن میں ہوتا ہے۔

ہم کس پر عمل کریں۔ تو میرے محترم بھائی یہ سمجھ لیجیے کہ کسی واضح اور قطعی قرآن و حدیث کے مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف کبھی بھی نہیں ہوتا۔ جیسے ظہر کی نماز کی پانچ رکعات کوئی بھی نہیں کہے گا۔ اختلاف تب ہوتا ہے جب حکم قطعی نہ ہو یا جب حکم میں دو چیزوں کا احتمال ہو۔

ہم کیا کریں گے؟ تو اس کے لیے ہمیں علمی مضبوطی چاہیے ہوگی۔ ہماری قرآن و حدیث پر گہری نظر ضروری ہوگی۔
اگر کسی مسئلہ پر ہمیں تمام دلائل معلوم ہیں مکمل طور پر، اس قدر مکمل کہ ہر متعلقہ فن پر ہماری دسترس ہے تو ہم خود غور کریں گے اور جو رائے ہمیں درست لگے گی اسے اختیار کر لیں گے۔
لیکن اگر ہمیں علم نہ ہو اتنا کسی مسئلہ میں تو۔۔۔۔۔؟؟ ظاہر ہے فاسئلو اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔
پوچھ کر عمل کرلیں گے۔
(علم واقعی ہونا ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو ہم سمجھ رہے ہوں ہمیں علم ہے اور ہمیں کچھ پتا ہی نہ ہو۔)

ہمیں اتنا علم ہے اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ تو اس کا فیصلہ اہل علم حضرات کرتے ہیں۔ آپ اس دور میں بھی بہت سے عرب علماء اور پاکستان کے بھی چند علماء جن میں ایک مفتی تقی عثمانی صاحب بھی ہیں، ان کو دیکھ سکتے ہیں کہ اہل علم حضرات کی ایک کثیر تعداد ان کی رائے کا احترام کرتی ہے۔ جب ہماری آراء اس قابل ہو جائیں گی تو خود ہی دنیا ان کی طرف متوجہ ہوتی جائے گی۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ارے بھائی اب تو یہ ٹنٹا بھی نہیں رہا، عثمانی صاحب نے "محمود و ایاز" کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے۔۔۔۔۔
اور ہاں "ارباب دیوبند" بھی تو فخریہ فرماتے ہیں کہ "1000 سال سے (انکے) اسلام میں کوئی مفتی پیدا نہیں ہوا۔۔۔۔"


اس مسئلہ کا جواب میں اسی کے اقتباس میں دے چکا ہوں۔

ہاں یہ بات تو واقعی ہے کہ جو باتیں یہاں موجود پرانے "حنفیوں" سے نہیں سنبھل رہی تھیں انہیں خوب اچھے طریقے سے سنبھالا دیا ہے انہوں نے۔۔۔۔۔۔
میں اسے اپنی تعریف سمجھوں یا۔۔۔۔ (ابتسامہ)
میرے بھائی آپ کوئی ایسا مسئلہ ڈھونڈ لائیں جلدی سے جس میں آپ کا موقف احناف کی بنسبت زیادہ درست ہو تو آپ مجھے اپنی صف میں کھڑا پائیں گے۔

بھائی پہلے تو آپ نے کافی محنت لوگوں کو یہ سمجھانے پر صرف کی تھی کہ "عریاں" کا مطلب "الف ننگا" نہیں ہوتا، اور اب جب کہ کم کپڑے کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے "حدیث" دکھا دی گئی تو آپ نے "اپنے جماعتیوں" کو عریاں کرلیا۔۔۔۔۔ ابتسامہ
معذرت چاہتا ہوں دوبارہ سے تھریڈ پڑھیے۔ کسی جگہ میں نے تفصیلا عرض کیا ہے کہ اس کا مطلب ہے اتنے کپڑے نہ ہوں جن سے ستر چھپ سکے۔ چاہے کم ہوں یا پھر بالکل نہ ہوں۔
اور میرے عزیز تھریڈ پڑھنے سے پہلے "عینک" تبدیل کر لیا کیجیے۔ اعتدال کی عینک سے چیزیں صاف نظر آتی ہیں۔

حافظ عمران الٰہی بھائی گھر سے ہی ننگا جانا پڑے گا، وہاں جاکر تو نہیں اتارسکتے نا نماز کے لیے، اور اسی حلیہ میں واپس آنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔۔۔۔۔ ابتسامہ
اگر یہ بطور مزاح کہا ہے تو میں بھی مسکرا لیتا ہوں۔
ورنہ جہاں میں نے جواب عرض کیا ہے وہاں یہ بھی بتایا ہے کہ اصلا یہ کس صورت کی بات ہے۔

اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔
اللہ آپ کو جزا دے امین

ہر فقیہ الگ فیصلے پر کیوں پہنچتا ہے؟ اس کی وجہ ذہنی فرق ہے۔ اللہ پاک نے مختلف انسانوں کے اذہان کی مختلف کیفیت اور بناوٹ رکھی ہے۔ ان کا سوچ کا انداز مختلف ہے۔
اس وجہ سے جب وہ ایک ہی لفظ سے جو دو احتمال رکھتا ہو مسئلہ نکالتے ہیں تو الگ الگ نکالتے ہیں۔
اسی طرح دو احادیث میں ایک فقیہ ایک حدیث کو زیادہ درست سمجھتا ہے اور دوسرا دوسری کو زیادہ قابل عمل۔ اسی کو اصولوں کا اختلاف کہتے ہیں۔
ہم کیا کریں گے؟ تو اس کے لیے ہمیں علمی مضبوطی چاہیے ہوگی۔ ہماری قرآن و حدیث پر گہری نظر ضروری ہوگی۔
محترم بھائی میں اختلاف کی وجوہات والی بات پر آپ سے متفق ہوں اور اختلاف کی وجوہات کے سلسلے میں کچھ اور وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں اسی طرح اس اختلاف میں ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے اس پر بھی تفصیل سے علیحدہ موضوع میں بات کرنا چاہتا ہوں پس مندرجی ذیل موضوع شروع کیا ہے
http://forum.mohaddis.com/threads/اختلاف-ِ-امت-پر-رفع-الملام-عن-الائمۃ-الاعلام-کا-صحیح-اطلاق.19273/#post-145950

تھوڑی فرصت ملی تو انشاء اللہ کچھ اور اپنی معلومات لکھ کر آپ کو دعوت دوں گا اللہ قبول فرمائے امین
 
Top