• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قادیانیوں کا’ مسلمان‘ کہلانے پر اصرار!

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قادیانیوں کا’ مسلمان‘ کہلانے پر اصرار!

عطاء اللہ صدیقی​
قادیانی جماعت کی سپریم کونسل کے ڈائریکٹر مرزا غلام احمد قادیانی نے کہا ہے کہ ہم قرآن کو آخری کتاب اور رسول اللہﷺکو آخری نبی مانتے ہیں اور قرآن و حدیث پر عمل کو اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن ۱۹۷۴ء میں نام نہاد پارلیمنٹ اور نام نہاد صدر نے ہمیں آئینی طور پر غیر مسلم قرار دے کر بڑی زیادتی کی۔ بھٹو نے ہمیں غیر مسلم قرار دیا جبکہ ضیاء الحق نے۱۹۸۴ء میں پابندی لگا کر اسے عروج تک پہنچا دیا۔ گڑھی شاہو کی عبادت گاہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ
’’کوئی مانے، نہ مانے، ہمیں مسلمان کہلانے کا حق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور یہ حق ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ تمام احمدی محب ِوطن ہیں اور اُنہوں نے پاکستان کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ دوسری طرف کلمہ طیبہ پڑھنے اور السلام علیکم کہنے پر ہمیں سالوں کی سزائیں سنائی گئیں۔مرزا غلام احمدنے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی مسجد کو مسجد نہیں کہہ سکتے، اذان دینے نہیں دی جاتی۔ حتیٰ کہ قرآنِ مجید کی آیات تک لکھنے کی اجازت نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم اقلیت نہیں بلکہ مسلمان ہیں اور حضرت محمدﷺ کے غلام ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ وہ ہم سے یہ حق چھین سکے۔‘‘ (نوائے وقت:۳۱؍ مئی ۲۰۱۰ء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نوائے وقت نے بجا طور پر قادیانی جماعت کے ڈائریکٹر کے اس بیان کو ’عجیب و غریب دعویٰ ‘ قرار دیا ہے۔ یہ بیان ایک آئینہ ہے جس میں قادیانیوں کی حقیقی سوچ کا واضح عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ قادیانی کی اقلیت کی یہی وہ سوچ ہے جس نے پاکستان میں ان کے لیے مسائل پیدا کئے ہیں اور وہ پاکستانی معاشرے میں ابھی تک اپنے آپ کو ایڈجسٹ نہیں کرسکے۔ان کی اس غلط اور غیر حقیقت پسندانہ سوچ نے پاکستان کے مسلمانوں اور حکومت کو بھی شدید آزمائش میں ڈال رکھا ہے۔ جب تک وہ اس سوچ کو نہیں بدلتے، موجودہ صورتِ حال میں تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اس صور ت حال کے پیدا ہونے میں زیادہ تر کردار قادیانیوں نے ادا کیا ہے، لیکن وہ ہمیشہ سے مسلمانوں کو الزام دیتے آئے ہیں کہ وہ ان پربہت ظلم کررہے ہیں۔
؎ ایں ہمہ آوردۂ تست​
۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دیا تھا، قادیانی اسے ’بڑی زیادتی‘ سمجھتے ہیں۔ ہماری رائے میں اس فیصلے کو ’زیادتی‘ قرار دینا ہی سب سے بڑی زیادتی ہے۔ قادیانی ملت کے بانی مرزا غلام احمد کی تحریریں، کتابیں، اِلہامات، بیانات، اِلزامات اور دعوے اور پھر اُس کے نام نہاد خلفا کے عقائد و بیانات اگر جعلی اور خود ساختہ نہیں ہیں، تو پھر تو قادیانیوں کو ’مسلمان‘ سمجھنے والوں کو اپنے آپ کو ’غیر مسلم‘ قرار دیئے بغیر چارہ نہیں تھا۔یا تو قادیانی ’مسلمان‘ ہیں یا پھر وہ لوگ جو مرزا غلام احمد کی جھوٹی نبوت پر یقین نہیں رکھتے، وہ مسلمان ہیں۔ یہ دونوں بیک وقت مسلمان نہیں ہوسکتے۔ آخر دنیا کی کون سی منطق اور عقلی دلیل ہے جو اسلام کی اصل تعلیمات اور قرآن و سنت پر ایمان رکھنے والے اربوں مسلمانوں کو محض اس بنا پر ’غیر مسلم‘ قرار دے کہ وہ ایک جھوٹی نبوت کے دعویدار کے دعوؤں کو جھٹلاتے ہیں۔ کیا یورپ کے عیسائیوں نے نئے فرقے’ ہارمن‘ کے اس دعوے کو تسلیم کرلیاتھاکہ ’’جوزف سمتھ کوبھی نبی ماننے والے تو حق پر ہیں اور صحیح معنوں میں عیسائی ہیں، مگر رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ سچے عیسائی نہیں ہیں کیونکہ وہ جوزف سمتھ کو نبی نہیں مانتے، نہ ہی اس کی تعلیمات پرایمان رکھتے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پریس کانفرنس میں عجیب وغریب دعوے کرنے والے قادیانی جماعت کے ڈائریکٹر کیا اس بات کی تردید کرسکتے ہیں کہ ان کے ’مسیح موعود‘ اور’ ظلّی بروزی نبوت کے مدعی‘ کاذب نے بارہا تحریر کیا تھا کہ ان کو نہ ماننے والے ’کنجریوں کی اولاد‘ ہیں۔ (نقل کفر، کفر نہ باشد)
جب وہ اپنے ساتھ ہونے والی ’بڑی زیادتی‘ کا رونا روتے ہیں اوراپنے آپ کو بہت بڑا مظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں تو اُنہیں ان ننگے اور ناقابل تردید حقائق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج کے مرزا غلام احمد جس پارلیمنٹ کو ’نام نہاد‘ کہتے ہیں، وہ مذہبی جماعتوں کے ارکان پر مبنی نہیں تھی۔اس پارلیمنٹ میں اکثریت پیپلزپارٹی سے وابستہ ارکان کی تھی جنہوں نے سوشلزم کو اپنی معیشت قرار دے رکھا تھا۔ اِن میں سے بہت سے تو ایسے ارکان تھے جو جانے پہچانے مارکسسٹ اورکیمونسٹ تھے۔پیپلزپارٹی کی قیادت بشمول ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر ارکانِ اسمبلی، سب کادعویٰ تھاکہ وہ لبرل، ترقی پسند اور سیکولر ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حکومت کی طرف سے اُس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے پارلیمنٹ کے سامنے دلائل دیئے تھے۔ یہ معاملہ کئی ہفتے جاری رہا تھا۔ اس وقت کے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر احمد اور اس کے تین دیگر ساتھیوں کوبھرپور موقع دیا گیا کہ وہ اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کریں۔مرزا ناصر احمد نے بہت پہلو بچانے کی کوشش کی مگر وہ اس سوال کاجواب پیش نہ کرسکے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نہ ماننے والے ’کافر‘ کیونکر ہیں؟ آج کے قادیانیوں کو یہ بات پیش نظر ضرور رکھنی چاہئے کہ کوئی کتنا بھی لبرل یاگناہگار مسلمان ہو، وہ یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ ایک قادیانی تو بزعم خویش ’مسلمان‘ ہونے کا دعویٰ کرے اور دوسرے مسلمانوں کو ’مسلمان‘ تسلیم نہ کرے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مرزا غلام احمد نے پریس کانفرنس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم کو اس لیے ’بڑی زیادتی‘ کہا ہے کہ قادیانی قرآن کو آخری کتاب اور رسول اللہﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں۔ بادی النظر یہ دلیل بڑی وزنی دکھائی دیتی ہے۔اگر قادیانیوں کی اس دلیل اور دعویٰ کا اعتبار کرلیا جائے تو پھر یقین کرنا پڑے گا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کی پارلیمنٹ کے ارکان انتہائی متعصب، ظالم اور جھوٹے لوگ تھے۔ عام آدمی یہی سمجھے گا کہ اُنہوں نے’’قرآن کو آخری کتاب اور نبی اکرمﷺ کو آخری نبی ماننے والوں‘‘ کو خوا مخواہ غیر مسلم قرار دے دیا۔ اگر حقیقت یہی کچھ ہوتی تو آج ہم بھی مان لیتے، مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ محض تلبیس کوشی، دھوکہ، فریب اور لفظی بازی گری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیانی حضرت محمدﷺ کو اس طرح آخری نبی نہیں مانتے جس طرح کہ عام مسلمان ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں۔ قادیانی مرزاغلام احمد آف قادیان کو بھی ’محمد‘ اور’احمد‘ سمجھتے ہیں اور اس کی ’نبوت‘ کو حضرت محمدﷺ کی نبوت کا ظل و بروز (سایہ اور عکس) قرار دیتے ہیں۔مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق خاتم الانبیا حضرت محمدﷺ کے بعد کوئی بھی شخص ’ان کی طرح‘ ہوسکتا ہے، نہ ان کی نبوت کا ’ظل وبروز‘ ہونے کادعویٰ کرسکتا ہے۔ ایسا دعویٰ اگر کوئی کرے گا تو اس کے جھوٹا اور مرتد ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ قادیانیوں کے ڈائریکٹر بتائیں کہ کیا وہ مرزا غلام احمد آف قادیان کی ظلی و بروزی نبوت پر ایمان نہیں رکھتے؟ مزید برآں ہمیں وہ سمجھائیں کہ ایک قادیانی شاعر کے ان اشعار کا مطلب کیا ہے؟
محمد پھر اُتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ رہی بات قرآنِ مجید کو آخری کتاب ماننے کی۔ یہ دعویٰ بھی ناقابل اعتبار ہے، کیونکہ قادیانیوں نے قرآنِ مجید کی آیاتِ مبارکہ کی تفسیر کرنے میں جس طرح کی تحریف سے کام لیا ہے ، وہ ان کے کافر ہونے کے لیے کافی دلیل ہے۔ لہٰذا قادیانیوں کا قرآنِ مجید کو آخری کتاب ماننے کا دعویٰ بے معنی ہے، جب تک وہ مرزاغلام احمد کی خرافات اور گمراہ کن تعلیمات سے انکار نہیں کرتے، یہ تعلیمات صریحاً کفر پر مبنی ہیں۔ ہمارے ہاںبہت سارے لوگ قادیانیوں کی اس تلبیس کوشی کا شکار ہوجاتے ہیں اور قادیانیوں سے ہمدردی جتانا شروع کردیتے ہیں۔جس شخص نے قادیانیوں کی کتابوں اور ان کے لٹریچر کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہو، وہ اس طرح کی غلط فہمی میں کبھی مبتلا نہیں ہوسکتا۔ کوئی آدمی اگر قرآن مجید کو آخری کتاب اور سید الانبیا حضرت محمدﷺکو آخری نبی مانتا ہے، تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ مرزا غلام احمد کو مسیح موعود یا ظل و بروزی نبی سمجھے۔ یہ دونوں دعوے ایک وقت میں نہیں کئے جاسکتے!!
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لہٰذا یہ بات مسلّم ہے کہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیئے جانے کا آئینی فیصلہ ہر اعتبار سے درست تھا۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کوبہت پہلے کردینا چاہئے تھا۔ علامہ اقبال نے تو ۱۹۳۵ء میں اپنے مضمون میں تحریر کیا تھا کہ قادیانی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔ اُنہوں نے انگریز حکومت سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ قادیانیوں کو بھی سکھوں کی طرح الگ گروہ قرار دے۔ علامہ اقبال نے دو مفصل مضامین تحریر کئے تھے اور بھرپور استدلال کے ذریعے اور فلسفیانہ اُصولوں کی روشنی میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ قادیانی تو پہلے دن سے غیرمسلم تھے، ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے تو محض رسمی کارروائی کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے مخالف بھی اُن کے اس فیصلے کو سراہتے ہیں اور اُنہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
٭ قادیانی ڈائریکٹر صاحب کہتے ہیں کہ کوئی مانے، نہ مانے، ہمیں مسلمان کہلانے کا حق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ہم بھی اپنی رائے کے اظہار کا حق استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی قادیانی مانے یا نہ مانے، وہ مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان عقائد اور تعلیمات کو نہ اپنا لے جو کسی کے مسلمان ہونے کے لیے بنیادی شرائط کا درجہ رکھتے ہیں۔ قادیانیوں کے عقائد قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کاظلی و بروزی نبوت کانظریہ ایک گورکھ دھندہ ہے اور خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر وہ واقعی خلوصِ دل سے مسلمان کہلانا چاہتے ہیں تو اُنہیں دین اسلام میں پورا پورا داخل ہونا پڑے گا اور قادیانیت کی عینک اتار کر قرآن و سنت کی تعلیمات کامطالعہ کرنا ہوگا۔ یہ ’خدائی حق‘ کا خود ساختہ تصور اتنا ہی باطل ہے جتنا کہ قرونِ وسطیٰ کی پاپائیت اور بادشاہوں کے ’خدائی حقوق‘ کا تصور۔ یہ محض طفل تسلی ہے اور حقائق سے فرار کی ایک صورت، ورنہ اس طریقہ سے زبردستی کوئی مسلمان ہوسکتا ہے، عیسائی نہ یہودی۔ کسی بھی الہامی مذہب کاپیروکار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس مذہب کی مکمل تعلیمات پرایمان لایاجائے۔ ابھی چند ماہ پہلے مرزا ناصر احمد کے ایک پوتے قادیانیت سے تائب ہوکر اسلام لے آئے ہیں۔ دیگر قادیانی بھی اگر’مسلمان‘ کہلانا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی واحد راستہ یہی ہے۔ خود ساختہ و مزعومہ ’خدائی حقوق‘ کی سرنگ Tunnel سے گزر کر وہ اسلام کے صراطِ مستقیم تک نہیں آسکتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مرزا غلام احمد کے بیان کا وہ حصہ سخت قابل اعتراض ہے جس میں اُنہوں نے کہا:
’’ہم اقلیت نہیں، مسلمان ہیں۔ حضرت محمدﷺ کے غلام ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ ہم سے یہ حق چھین سکے۔‘‘
یہ بیان آئین پاکستان سے صریحاً بغاوت ہے۔ آئین پاکستان کی رو سے قادیانی غیر مسلم اقلیت ہیں۔ اگر آج کوئی قادیانی یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اقلیتی کمیونٹی کارکن نہیں، بلکہ اکثریتی جماعت یعنی مسلمانوں کی جماعت میں سے ہے، تو اس کا اعلان غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اسلامی ہے۔ قادیانیوں کی سوچ اور طرزِ عمل بے حد افسوس ناک ہی نہیں، اشتعال انگیز بھی ہے۔ قادیانیوں کی یہی وہ ضد ہے جوبالآخر فساد اور تصادم پر منتج ہوتی ہے۔ جب ان کے بارے میں مسلمانوں کی یہ متفقہ اور سوچی سمجھی رائے کہ وہ ’مسلمان ‘ نہیں ہیں تو پھر وہ ’ مسلمان‘ کہلانے پربضد کیوں ہیں؟ جومسلمان اس معاملے کے متعلق شدید حساس واقع ہوئے ہیں، اس طرح کی باتیں سن کر ان کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں۔ وہ کسی صورت بھی قادیانیوں کو یہ اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ ’مسلمان‘ ہونے کا اس طرح علیٰ الاعلان ڈھنڈورا پیٹیں۔ جب ایک شخص یہ کہتا ہے کہ ’’کسی کی مجال نہیں‘‘ تو فریقِ مخالف بھی رد عمل ظاہرکرسکتا ہے، اچھا تو مجال کی بات کرتے ہو، تم مسلمان ہو کے دکھاؤ۔‘‘ قادیانی ڈائریکٹر کا یہ لب و لہجہ کسی ’مظلوم اقلیت‘ کے نمائندے کا اُسلوب نہیں ہوسکتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ حضرت محمدﷺکے غلام ہونے کادعویٰ بھی محل نظر ہے۔ قادیانی کے مرزا غلام احمد کا غلام کبھی بھی والی ٔمدینہ کا غلام نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ایک مسلمان مرزا غلام احمد کاغلام نہیں ہوسکتا، اسی طرح کوئی قادیانی محمدعربیﷺ کا سچا غلام نہیں ہوسکتا۔ یہ محض سخن سازی اور فریب دہی ہے اور کوئی مسلمان یہ فریب کھانے کو تیار نہیں ہے۔ جب یہ سب کچھ ممکن ہی نہیں تو پھر قادیانی کس کو دھوکہ دیتے ہیں۔اپنے آپ کو یا کسی اور کو؟ اُنہیں ٹھنڈے دل سے یہ سوچنا چاہیے۔
جہاں تک ان سے حق چھین لینے کی بات ہے، یہ بھی مغالطہ آمیز ہے۔ جب اُنہوں نے اپنی مرضی اور خوش دلی سے مرزا غلام احمد کاغلام بننا قبول کرلیاہے، تو پھر ان کے پاس کوئی مسلمانیت کا’حق‘ رہ ہی نہیں جاتا جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ محمدﷺعربی کے غلام ہونے کا دعویٰ کرسکیں۔حق بغیر استحقاق کے متعین نہیں ہوتا۔ قادیانی اس طرح کا کوئی استحقاق سرے سے رکھتے ہی نہیں ہیں تو پھر یہ مبارزتِ طلبی کا انداز کیونکر اپناتے ہیں؟
وہ پاکستان کے شہری ہیں اوربطورِ شہری اُنہیں تمام حقوق حاصل ہیں۔مگر محمدﷺ عربی کی غلامی کا حق حاصل کرنے کے لیے ریاست کی شہریت کا حصول ہی کافی نہیں ہے۔ یہ ایمان و یقین اور عقیدے کا معاملہ ہے، اس کا فیصلہ شہری حقوق کی میزان میں نہیں، بلکہ ایمان بالرسالت اور ختم نبوت کے معروف معیاراور میزان کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ قادیانی اطمینان رکھیں کہ وہ اقلیت تھے، اقلیت ہیں اور اقلیت رہیں گے۔ وہ خوامخواہ ’مسلمان‘ ہونے کی ضد نہ کریں، کیونکہ اس طرح کی باتوں کا فائدہ کچھ نہیں ہے۔ اگر وہ اس طرح کے دعوے کرتے رہیں گے تو صورتِ حال کے بگڑنے کے خدشات ہیں۔ ہمارے دانشور جو قادیانیوں کے مظلوم ہونے کے پراپیگنڈے پر یقین کرتے ہیں، اُنہیں مرزا غلام احمد کے مذکورہ بالا بیان کے اُسلوب پر ضرور غور کرنا چاہئے۔
 
Top