• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قاضی نصیر الدین برہان پوری رحمۃ اللہ علیہ

شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
قاضی نصیر الدین برہان پوری

منقول کتاب '' برصغیر میں تحریکِ اھل حدیث - ایک تاریخی جائزہ ''
از قلم محمد تنزیل الصدیقی الحسینی ( غیر مطبوعہ )
قاضی نصیر الدین برہان پوری اپنے عصر کے مشاہیر فضلاء و علماء میں سے تھے ۔ ان کے والد گرامی شیخ سراج محمد بنبانی برہان پوری بھی اپنے عہد کے جید عالم دین تھے ۔ قاضی نصیر الدین کی سنِ ولادت سے آگاہی نہیں ہوتی ۔ انہوں نے کن کن علماء کی زیرِ نگرانی کسبِ علم کے مراحل طے کیے اس کی بھی تفصیل نہیں ملتی ۔ تاہم ان کے اساتذہ میں ان کے والد محترم کے علاوہ حکیم عثمان بوبکانی سندھی ( م ١٠٠٨ھ ) اور مولانا علم اللہ امیتھوی ( م ١٠٢٤ھ ) کا ذکر ملتا ہے ۔ حکیم عثمان بوبکانی اپنے دور کے بہت بڑے عالم و محدث تھے انہوں نے صحیح بخاری پر حاشیہ بھی لکھا تھا ۔ قاضی نصیر الدین کو ان سے نسبتِ تلمذ پر بہت فخر تھا ۔ سیّد مطیع اللہ راشد برہانپوری لکھتے ہیں :
'' قاضی نصیر الدین ابن سراج محمد بنبانی برہانپورکے ممتاز عالم اور سر بر آوردہ فرد تھے ، حکیم عثمان کی شاگردی پر اظہارِ فخر و مباہات کیا کرتے تھے ۔ '' ]برہان پور کے سندھی اولیاء : ٢٨٩[
علامہ عبد الحئی حسنی لکھتے ہیں :
'' و لازم شیخہ عثمان ملازمة طویلة حتی فاق اقرانہ فی العلم ۔ '' ] نزہة الخواطر:٥/٤٥١[
'' اپنے شیخ عثمان کے ساتھ طویل مدت تک منسلک رہے یہاں تک کہ اپنے معاصرین پر علم میں فائق ہوگئے ۔ ''
قاضی نصیر الدین فراغتِ تحصیل علم کے بعد خود مسند علم و فضیلت پر متمکن ہوئے انہیں کم عمری ہی میں شہرت و ناموری حاصل ہوئی ۔ ان کے علمی مقام و مرتبے کا ذکر کرتے ہوئے صاحبِ '' نز ہة الخواطر '' علامہ عبد الحئی حسنی لکھتے ہیں :
''الشیخ العالم المحدث الفقیہ القاضی نصیر الدین بن القاضی سراج محمد الحنفی االبرھانپوری ، أحد العلماء المبرزین فی الفقہ و الحدیث و العربیة ، لم یکن فی زمانہ أعلم منہ بالرجال و الحدیث ، و أطوع منہ للکتاب و السنة ، و أصدق منہ فی لھجة۔''] نزہة الخواطر:٥/٤٥١[
''شیخ عالم محدث فقیہ قاضی نصیر الدین بن قاضی سراج محمد حنفی برہان پوری فقہ ، حدیث اور ادبِ عربی میں یکتائے روزگار تھے ۔ ان کے زمانے میں فن رجال و حدیث میں ان سے زیادہ کوئی جاننے والا نہ تھا ، نہ ان سے زیادہ کوئی کتاب و سنت کا اطاعت گزار تھا اور نہ ان سے زیادہ کوئی صادق القول تھا ۔ ''
مولوی رحمان علی لکھتے ہیں:
'' قاضی نصیر الدین برہانپوری ولد قاضی سراج الدین از مشاہیر فضلای عصر است ۔ '' ]تذکرہ علمائے ہند ( فارسی ) : ٢٣٨[
''قاضی نصیر الدین برہان پوری ولد قاضی سراج ،اپنے زمانہ کے مشہور فاضل تھے۔''
ان کی زندگی میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے جس نے نہ صرف ان کی بقیہ پوری زندگی پر نہایت گہرا اثرا ڈالا بلکہ ان کے مسلک و نظریات کو بھی اہلِ زمانہ پر عیاں کردیا ۔ محض ١٨ برس کی عمر میں انہوں نے اپنے دور کے مشہور شیعہ عالم شکرا للہ شیرازی الملقب بہ افضل خاں کو میدان مناظرہ میں شکست دی ۔ شکر اللہ خاں شیرازی نے اس شکست کو اپنی بے عزتی پر محمول کیا اور طبعاً قاضی صاحب کی مخالفت کو اپنے اوپر لازم کرلیا ۔ چنانچہ جب آگے چل کر قاضی صاحب کی اپنے سسر اور استاذ شیخ علم اللہ سے مخاصمت ہوئی اور اس کے نتیجے میں قاضی صاحب کی نہایت شدت کے ساتھ مخالفت ہوئی تو شکر اللہ شیرازی نے بھی اپنا حقِ مخالفت ادا کیا ۔
جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ قاضی نصیر الدین اپنے سسر مولانا علم اللہ امیتھوی سے بعض کتبِ فقہ کی تحصیل کر رہے تھے ۔ دوران قرأت ایک مقام پر اشکال پیدا ہوا ۔ شیخ علم اللہ نے امام ابو حنیفہ کے قول کو بطورِ حجت پیش کیا ۔ جس پر قاضی صاحب نے فرمایا کہ ھو رجل و انا رجل ( یعنی وہ بھی آدمی ہی تھے میں بھی آدمی ہوں ۔) جس پر شیخ ناراض ہوگئے حتیٰ کہ داماد کو مارنے کے لیے تلوار تک نکال لی ۔ قاضی صاحب نے بھاگ کر اپنی جان بچائی ۔ صاحبِ '' نزہة الخواطر '' قاضی عبد الباقی نہاوندی کی '' مآثرِ رحیمی '' کے حوالے سے مولانا علم اللہ امیتھوی کے حالات میں لکھتے ہیں :
'' ان ختنہ نصیر الدین کان یرجح الحدیث أیا ما کان علی قیاس المجتہد ، و کان ینکر القیاس و یقول ان حدیث '' علماء أمتی کأنبیاء بنی اسرائیل '' موضوع ، فکفرہ علم اللّٰہ و أفتی بقتلہ و احراقہ فی النار و رتب المحضر لذلک ، فاثبت العلماء توقیعاتھم علی المحضر ۔''] نزہة الخواطر:٥/٣٠١[
''ان کے داماد نصیر الدین قیاسِ مجتہد کے بالمقابل حدیث کی ہر قسم کو ترجیح دیتے تھے اور قیاس کا انکار کرتے تھے۔حدیث ''علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل''کو موضوع کہتے تھے۔شیخ علم اﷲ نے ان کے کفر اور قتل کا فتویٰ دیا اور ایک محضرت مرتب کیا ، علماء نے اس محضر کی تائید میں مہریں کیں ۔ ''
مولوی رحمان علی لکھتے ہیں :
''شیخ علم اﷲ جو اپنے زمانہ کے بڑے عالم اور ان کے خسر تھے۔ان سے متفق نہ ہوئے،چونکہ قاضی حدیث کی ہر قسم کو ترجیح دیتے تھے اور قیاس کا انکار کرتے تھے۔حدیث ''علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل''کو موضوع کہتے تھے۔شیخ علم اﷲ نے داماد ہونے کے باوجود ان کو جلانے اور مار ڈالنے کا فتویٰ دیااور ایک محضر لکھا۔شیخ محمد فضل اﷲ اور شیخ عیسیٰ (جو وہاں کے مشائخ کبار سے تھے)کے علاوہ تمام علماء نے اس پر مہر کردی۔خانخاناں محمد قاضی تھے۔چونکہ دونوں عالموں (شیخ محمد فضل اﷲ و شیخ عیسیٰ ) نے مہر نہ کی تھی اس لیے ان کو کوئی مضرت نہ پہنچی۔جب جہانگیر بادشاہ نے خانخاناں پر اعتراض کیااور مدعیوں نے وہ ماجرا بیان کیاتو قاضی نصیر الدین اور شیخ علم اﷲ کی طلبی کے لیے فرمان پہنچا۔شیخ ابراہیم عادل شاہ کے پاس بیجاپور چلاگیا اور قاضی نے عربستان کا راستہ لیا۔'' ]تذکرہ علمائے ہند ( اردو ):٥٢٠-٥٢١[
سیّد مطیع اللہ راشد برہانپوری نے بھی اس واقعے کا ذکر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں :
'' برہانپور کے ایک نوجوان عالم ، قاضی نصیر الدین ابن مولوی سراج الدین بنبانی اور شکر اللہ شیرازی نے علم حدیث کی بحث(کی ، اس ) میں یہاں تک بات بڑھ گئی کہ مجتہد (شکر اللہ )صاحب نے اپنے عقیدے کے خلاف قاضی پر الزام عائد کرکے محضر جاری کیا کہ یہ شخص کشتنی ، گردن زدنی و سوختنی ہے اور ماحول سے متاثر ہوکر متعدد علماء نے بھی موافقت میں رائے لکھ کر مہریں کردیں ۔ لیکن مسیح الاولیاء (قاضی عیسیٰ سندھی)اور حضرت محمد ابن فضل اللہ نائب رسول اللہ نے اختلاف کیا اور قاضی صاحب شرعی سزا سے بچ گئے ۔ خانخاناں عبد الرحیم خان نے قاضی صاحب کے حجاز پاک جانے کا انتظام کردیا اور یہ فتنہ دب گیا ۔ '' ]برہان پور کے سندھی اولیاء :١ ٩[
سیّد مطیع اللہ نے دو واقعات کو گڈ مڈ کردیا ہے ۔ کیونکہ قاضی صاحب پر اصل آفت اپنے سسر کی مخالفت کی وجہ سے آئی تھی ۔ گو اس مخالفت میں شکر اللہ شیرازی بھی شریک ہوگئے تھے ۔ واللہ اعلم بالصواب
عرب اور وہاں سے مراجعت ہند کا ذکر کرتے ہوئے مولوی رحمان علی لکھتے ہیں :
''حرمین شریفین اور مقدس مقامات کی زیارت کی۔ پانچ سال کے بعد وطن کا ارادہ کیا،جہاز فرنگیوں کے ہاتھ پڑ گیا۔فرنگی قاضی کے کمالات سن کر ان کو اپنے حاکم کے پاس لے گئے وہ آداب جو ضروری تھے شیخ نے پورے نہیں کیے۔لوگوں نے پوچھا کہ تم نے حاکم کے آداب کیوں پورے نہیں کیے جواب دیا وہ آداب جو تم بجا لاتے ہوہم نہیں کر سکتے۔ وہاں سے رہائی پاکر بیجاپور پہنچے۔ابراہیم عادل شاہ تین کوس سے استقبال کرکے اپنے ہمراہ لے گیا۔جہانگیر بادشاہ نے جب یہ ماجرا سنا تو ان کی طلبی میں فرمان بھیجا اور حکیم خوشحال پسر حکیم ہمام کوتاکید فرمائی کہ ان کو لشکر میں رو انہ کرے۔طوعاً وکرہاً وہاں (بیجاپورسے)چل دیے اور اپنے وطن برہان پور پہنچے اور پختہ ارادہ کرلیاکہ گھر سے باہر نہ نکلیں گے۔اس زمانہ میں شاہجہاں اپنے والد کی طرف سے دکن کی صوبہ داری پر مامور ہوااور برہان پور میں آیا۔قاضی کو طلب فرمایا،قاضی نے اس سے احتراز کیا۔آخر حیلہ وحوالہ کے بعد شاہزادہ شاہ جہاں کے حضور میں آئے اور آداب پورے نہیں کیے۔شہزادے نے اس کا خیال نہیں کیااور کہا کہ اے قاضی !ہم تو تمہارے مشتاق تھے، قاضی نے کہا کس لیے؟شہزادے نے فرمایا:تمہارے کمالات سن کر ،قاضی نے جواب دیا: وہ حالت اب مجھ میں نہیں رہی۔آخر صحبت میں ناخوش گواری پیدا ہوگئی۔قاضی کو زبردستی دربارِ شاہی میں روانہ کیا۔دارالحکومت آگرہ پہنچے۔بادشاہ کی سواری باغ سے محل شاہی کی طرف جارہی تھی راستہ میں شرف ملازمت حاصل کیا اور تسلیم کا ارادہ کیا۔ بادشاہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی بغل میں لے لیا۔چند روز کے بعد بُرہان پور جانے کی اجازت مل گئی ۔بقیہ عمر اﷲ کی رضا میں بسر کردی۔ ١٠٣١ھ /٢-١٦٢١ء میں انتقال ہوا۔'' ]تذکرہ علمائے ہند:٥٢٠-٥٢١[
قاضی صاحب نے اپنی زندگی احقاقِ حق کے لیے گزاری ۔ انہوں نے اس دور میں جبکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ظہور بھی نہ ہوا تھا کفرزارِ ہند میں توحید و سنت کی شمع روشن کی ۔ اور اس ضمن میں کسی مخالفت کی ذرہ برابر پرواہ نہ کی ۔
قاضی صاحب نے درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا ۔ ان کا منہجِ تدریس بھی ان کے منہجِ فکر کے مطابق ہی تھا ۔ شیخ نظام الدین برہان پوری جو مرتبین ''فتاویٰ عالمگیری''میں سے تھے ،قاضی نصیر الدین کے تلمیذِ رشید تھے۔شیخ عباس برہان پوری قاضی نصیر الدین کے صاحبزادئہ گرامی اور تلمیذِ رشید تھے ۔ سلطانِ شاہجہاں نے انہیں دارالسلطنت دہلی میں بلایا اور بڑے اعزازِ و تکریم سے نوازا۔ افسوس ہے کہ ہم اس عہد میں قاضی صاحب کے مستفدین اور ان کے حلقۂ فکر سے متاثر ہونے والوں سے آگاہ نہیں ہوسکے ۔ کیونکہ یہ تو ظاہر ہے انہوں نے شاہراہِ عام سے الگ راہ اختیار کی ۔ تقلیدی جمود کے برعکس اتباعِ سنت کی جس شاہراہ پر وہ گامزن ہوئے ۔ اس کا اثر اگر بہت زیادہ نہ سہی مگر اس انفرادیت نے اہلِ علم کے ایک محدود حلقے کو تو متاثر کیا ہی ہوگا ۔
دیارِ ہند کے اس جلیل القدر اور عالی حوصلہ عالم دین ، فقیہ و محدث نے ١٠٣١ھ میں وفات پائی۔

ایک گزارش
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کا یہ مضمون ان کی غیر مطبوعہ کتاب سے ماخوذ ہے ۔ یہ مضمون انہوں نے ماہنامہ '' اسوئہ حسنہ '' میں بھی اشاعت کے لیے بھیجا ہے جو عنقریب شائع ہوجائے گا ۔ ان کے متعدد مضامین مختلف حضرات نے سرقہ کیے ہیں ۔ جن میں بعض نامی گرامی اہل علم بھی شامل ہیں ۔ جس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ۔
قاضی نصیر الدین برہان پوری ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے بھی سوا سو سال قبل کی شخصیت ہیں ۔ اس پر اس قدر مواد کو یکجا کرنا بلاشبہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ اور ایسے کارنامے انہوں نے خاصی تعداد میں انجام دے دیئے ہیں جو صرف منتظر طباعت ہیں ۔ مگر کیا کیجئے
جنہیں زندگی کا شعور تھا ، انہیں بے زری نے بچھا دیا
جو گراں تھے سینۂ خاک پر ، وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ ثاقب بھائی جان۔ اس اہم مضمون کی شیئرنگ پر آپ کا ازحد مشکور ہوں۔ اللہ تعالیٰ محمد تنزیل الصدیقی الحسینی بھائی جان کو بھی اس کاوش کے لئے جزائے خیر عطا فرمائیں۔ آمین۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
منقول کتاب '' برصغیر میں تحریکِ اھل حدیث - ایک تاریخی جائزہ ''
از قلم محمد تنزیل الصدیقی الحسینی ( غیر مطبوعہ )
شیخ صاحب اور ان کی تصنیفات کے بارے میں کوئی معلومات مل سکتی ہیں ؟
 
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کی مطبوعہ تصانیف و تالیفات :

١ برصغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق
٢ اسلام اور عصر جدید
٣ اصحاب علم و فضل
٤ مولانا محمد جوناگڑھی
٥ مولانا شاہ عین الحق پھلواروی
٦ بیت المقدس کس کا حق ہے ؟
٧ اللہ کی تلاش میں
تقدیم و حواشی :
١ امام ابن تیمیہ از علامہ شبلی نعمانی و مولانا الطاف حسین حالی
٢ ام المومنین سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا از مولانا حسن مثنیٰ ندوی
٣ غزنوی خاندان از ملک عبد الرشید عراقی
٤ شرفا کی نگری جلد ٢ از سید قیام الدین نظامی
٥ گستاخ کون ؟ از ابو القاسم محمد اسماعیل
٦ کہیں کشتی ڈوب نہ جائے ؟
٧ ولایتی بیویاں ولایتی شوہر از مولانا حکیم محمود احمد برکاتی
مقالات برائے سیمینار :
١ ’’ برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث کا عمومی جائزہ ‘‘ زیر اہتمام ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد ٢٠٠٤
٢ ’’ بہار میں سیرت نگاری کا ارتقا ‘‘ زیر اہتمام ادارہ تحقیقات اسلامی ، دعوہ اسلامی یونی ورسٹی ، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد ٢٠١١
٣ ’’ مخدوم شرف الدین احمد بن یحیٰ منیری اور علم حدیث ‘‘ زیر اہتمام خانقاہ معظم بہار و خدا بخش اوریٹل لائبریری پٹنہ ٢٠١١
اس کے علاوہ ایک کتابی سلسلہ ’’ الانتقاد ‘‘ بھی ان کی زیر ادارت شائع ہوتا ہے جس کا پہلا شمارہ خاص امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ پر طبع ہوا ہے ۔
 
Top