• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن خوانی کی شرعی حیثیت

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
قریب الموت، میت اور قبرپر قرآن پڑھنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں اس کا ہرگز ثبوت نہیں ملتا۔ تیجہ، قل، جمعرات کا ختم اور چہلم وغیرہ بدعات وغیر اسلامی رسومات ہیں۔
واضح رہے کہ قرآن و حدیث اور اجماع سے ایصال ثواب کی جو صورتیں ثابت ہیں، مثلا دعا، صدقہ وغیرہ، ہم ان کے قائل وفاعل ہیں۔ قرآن خوانی کے ثبوت پرکوئی دلیل شرعی نہیں، لہذا یہ بدعت ہے۔ اہل بدعت نے اسے شکم پروری کا بہترین ذریعہ بنا کر اپنے دین کا حصہ بنا لیا ہے۔
مبتدعین کے مزعومہ دلائل کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر۱:
نبی اکرمﷺکا گزر دو قبروں سے ہوا، ان کو عذاب ہو رہا تھا، ان میں سے ایک اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے اجتناب نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔
ثمّ أخذ جریدۃ رطبۃ، فشقّھا بنصفین، ثّمّ غرز فی کلّ قبرواحدۃ، قالوا: یا رسول اللہ! لم صنعت ھذا؟ فقال لعلّہ أن یخفّف عنھما ما لم ییبسا۔۔۔
‘‘پھر آپﷺ نے ایک کھجور کی ایک تازہ ٹہنی لی، اسے دو حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر قبر پر ایک کو گاڑ دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی، اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا ہےِ؟ فرمایا، شاید کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہوں، اللہ تعالی ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کر دے۔’’
(صحیح بخاری:۱۸۲/۱،ح:۱۳٦۱، صحیح مسلم:۱٤۱/۱، ح:۲۹۲)
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
استحبّ العلماء قراءۃ القرآن لھذا الحدیث، لأنّہ إذا کان یرجی التّخفیف بتسبیح الجرید، فتلاوتہ أولیٰ،واللہ أعلم!
‘‘اس حدیث میں علماء کرام نےقرآن کریم کی تلاوت کومستحب سمجھاہے،کیونکہ جب ٹہنی کی تسبیح کی وجہ سےعذاب میں تخفیف کی امید کی جاتی ہےتوقرآن کریم کی تلاوت بالاولٰی ایسےہوگی۔
واللہ اعلم!’’
(شرح صحیح مسلم للنووی:۱٤۱/۱)

تبصرہ:
اس حدیث سے قرآن خوانی کے ثبوت پر استدلال جائز نہیں، کیونکہ خیرالقرون میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں، نیز اس میں کہیں ذکر نہیں کہ عذاب میں تخفیف ان ٹہنیوں کی تسبیح کی وجہ سے ہوئی، لہٰذایہ قیاس مع الفارق ہے، نیزیہ نبی اکرم ﷺ کا خاصہ تھا۔ عذاب میں یہ تخفیف نبی اکرمﷺ کی دعا و شفاعت کی وجہ سے ہوئی، جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إنّی مررت بقبرین یعذّبان، فأحببت بشفاعتی أن یرفّّہ ذاک عنھما، مادام الغصنان رطبین۔
‘‘ میں دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرا، جن (کے مردوں)کو عذاب دیا جارہا تھا۔ میں نے شفاعت کی وجہ سے چاہا کہ یہ عذاب ان سے ہلکا ہو جائے، جب تک دونوں ٹہنیاں تَررہیں۔’’
(صحیح مسلم: ٤۱۸/۲، ح:۳۰۱۲)
ان دو مختلف واقعات میں علت ایک ہی ہے۔ اسی طرح ایک تیسرا واقعہ سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
( صحیح ابن حبان:۸۲٤، وسندہ حسنٌ)

نیز دیکھیں: (مصنف ابن ابی شیبہ:۳ /۳٧٦، مسندالامام احمد:٤٤۱/۲ عذاب القبر اللبیھقی:۱۲۳، وسندہ حسنٌ)
فائدہ: مورّق العجلی کہتے ہیں:
أوصیٰ بریدہ الأسلمّی أن توضع فی قبرہ جریدتان، فکان مات بأذنی خراسان، فلم توجہ إلّا فی جوالق حمار۔
‘‘سیدنا بریدہ الاسلمی رضی اللہ عنہ نےوصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں رکھی جائیں، آپ رضی اللہ عنہ خراسان کے علاقے میں فوت ہوئے، وہاں یہ ٹہنیاں صرف گدھوں کے چھٹوں میں ملیں۔’’
(الطبقات لابن سعد:۸/۷، وسندہ صحیحٌ ان صحٌ سماع مورق عن بریدۃ)
بشرطِ صحت یہ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی اپنی ذاتی رائے معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے قبر پر دو ٹہنیاں رکھنے کا حکم دیا تھا، نبی اکرمﷺ کی طرح عذاب سے تحفیف کی غرض سے گاڑنے کا حکم نہیں دیا۔
فائدہ:
سیدنا ابوبرزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ والی روایت (تاریخ بغداد ١٨٢/١-١٨٣) ‘‘ضعیف’’ ہے۔ اس کے دوراویوں الشاہ بن عمار اور النضر بن المنذر بن ثعلبہ العبدی کے حالات نہیں مل سکے، دوسری بات یہ کہ قتادہ رحمہ اللہ ‘‘مدلس’’ ہیں۔ ان کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں۔ (جامع التحصیل فی احکام المراسیل:۲۵۵)

دلیل نمبر ۲:
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اقرأوا علی موتاکم یٰسین۔
‘‘اپنے قریب المرگ لوگوں پر سورہ یٰسٓ کی قرائت کرو۔’’
(مسند الامام احمد:٥/٢٦ ،سنن ابی داؤد:۳۱۲۱، السنن للنسائی:۱۰۹۱٤، سنن ابن ماجہ: ۱٤٤۸)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان(۳۰۰۲)اور امام حاکم(اتحاف المھرۃ لابن حجر)رحمۃ اللہ علیھما نے ‘‘صحیح’’ کہا ہے۔
یہ امام ابن حبان اور امام حاکم کا تساہل ہے، جبکہ اس کی سند ‘‘ضعیف’’ ہے۔ اس کی سند میں ابو عثمان کے والد، جو کہ ‘‘مجہول’’ ہیں، ان کی زیادت موجود ہے۔ یہ ‘‘المزید فی متصل الاسانید’’ ہے۔ ابو عثمان نے سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح نہیں کی، لہذا سند‘‘ضعیف’’ ہوئی۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أراد بہ من حضرتہ المنیّۃ لا أنّ المیّت یقرأ علیہ، وکذلک قولہ صلّی اللہ علیہ و سلّم: ((لقّّّّنوا موتاکم: لا إلہ إلّا اللہ))۔
‘‘اس حدیث سےآپﷺ نے قریب الموت شخص مراد لیا ہے، نہ کہ میت پر قرآن پڑھا جانا، اسی طرح آپﷺ کا فرمان کہ اپنے مردوں کو لاالہ الااللہ کی تلقین کرو(یہ بھی قریب المرگ کے لیے ہے، میت کے لیے نہیں)۔’’
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کو ترجیح دی ہے۔
(الروح لابن القیم:ص۱۱)

فائدہ نمبر ۱:
قال صفوان(بن عمرو): حدّثنی المشیخۃ أنّھم حضروا غضیف بن الحارث الثّّمالی، قال: فکان المشیخۃ یقولون:إذا قرأت عند المیّت(یعنی یٰسٓ) خفّف عنہ بھا۔
‘‘صفوان بن عمرو نے کہا، مجھے بوڑھوں نے خبردی کہ وہ غضیف بن حارث ثمالی کے پاس حاضر ہوئے، وہ بوڑھے کہتے تھے کہ جب تو میت کے پاس سورہ یٰس کی قرائت کرے گا تواس کی وجہ سے میت کے عذاب میں تخفیف ہوگی۔’’
(مسندلامام احمد:٤/١٠٥)
یہ بوڑھے نامعلوم ہیں لہذا سند‘‘مجہول’’ ہونے کی وجہ سے ‘‘ضعیف’’ ہے۔
اس لیے حافظ ابن حجررحمہ اللہ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ٣/١٨٤) کا اس سند کو ‘‘حسن’’ قرار دینا صحیح نہیں۔
فائدہ نمبر ۲:
سیدنا ابوالدرداء اور سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ما من میّت، فیقرأعندہ یٰسٓ إلّا ھونّ اللہ عزّوجلّ علیہ۔
‘‘جو میت مرتی ہے اور اس پر سورہ یٰس کی قرائت کی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پر آسانی کر دیتے ہیں۔’’
(مسند الفردوس:٦۰۹۹، التلخیص الحبیر لابن حجر:٢/١٠٤)

اس کی سند ‘‘موضوع’’ (من گھڑت) ہے۔ اس میں مروان بن سالم الغفاری‘‘متروک ووضاع’’ ہے۔
دلیل نمبر ۳:
سیدنا علی ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
‘‘جو کوئی قبرستان سے گزرے اور سورہ اخلاص اکیس مرتبہ پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخش دے تواس کوتمام مردوں کی گنتی کے برابر ثواب دیا جائے گا۔’’
(تاریخ قزوین: ۲۹۷/۲)
تبصرہ:
یہ سخت ترین‘‘ ضعیف’’ راویت ہے، اس کے راوی داؤد بن سلیمان الغازی کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔
اس بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
کذّبہ یحیی بن معین، ولم یعرفہ أبو حاتم، وبکلّ حال فھو شیخ کذّاب، لہ نسخۃ موضوعۃ عن علی بن موسیٰ الرّضا، رواھا علیّ بن محمّد بن مھرویہ القزوینّی الصدوق عنہ۔
‘‘ اسے امام یحیٰی بن معین نے کذاب کہاہے، امام ابوحاتم نے ان کو نہیں پہچانا۔ بہر حال وہ جھوٹا شیخ ہے۔ اس کے پاس علی بن موسیٰ الرضا کا ایک نسخہ تھا، جسے علی بن محمد مہرویہ صدوق نے اس سے بیان کیاہے۔’’
(میزان الاعتدال للذھبی:۸/۲ )
اس درجہ کے راویوں کی روایت سے حجت پکڑنا اہل بدعت ہی کی شان ہے!
دلیل نمبر ٤:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
‘‘جوکوئی قبرستان میں داخل ہو اور سورہ یٰسٓ تلاوت کرے تو ان قبرستان والوں سے اللہ تعالی عذاب میں تخفیف فرماتا ہے اور پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے مطابق نیکیاں ملیں گی۔
(شرح الصدور للسیوطی: ص٤۰٤)
تبصرہ:
یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اس کی یہ سند ذکر کی ہے:
أخرجہ الثّعلبّی فی تفسیرہ (۲/۱٦۱/۳) من طریق محمد بن أحمد الرّیاحی، حدّثنا أبی، حدّثنا أیّوب بن مدرک عن أبی عبیدہ عن الحسن عن أنس بن مالک۔۔۔۔
(السلسلۃ الضعیفۃ:۱۲٤٦)
۱۔ اس کے راوی ایوب بن مدرک کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ‘‘کذاب’’ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ ، امام نسائی رحمہ اللہ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ‘‘متروک’’، امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ ، امام یعقوب بن سفیان جوزجانی رحمہ اللہ ، امام صالح بن محمد جزرہ اور امام ابن عدی رحمہ اللہ وغیر ہم نے ‘‘ضعیف’’ کہاہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
روی أیوب بن مدرک عن مکحول نسخۃ موضوعۃ و لم یرہ۔
‘‘ایوب بن مدرک نے امام مکحول سےایک من گھڑت نسخہ روایت کیا ہے، ان کو دیکھا نہیں۔’’
(لسان المیزان لابن حجر:٤۸۸/۱)
اس کے حق میں ادنیٰ کلمہ توثیق ثابت نہیں۔
۲۔ احمد بن ابی العوام الریاحی اور ابو عبیدہ کی توثیق مطلوب ہے۔
۳۔ امام حسن بصری ‘‘مدلس’’ ہیں اور‘‘عن’’ سے روایت کر رہے ہیں۔ سماع کی تصریح نہیں ہے۔
دلیل نمبر۵:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
‘‘جو کوئی قبرستان میں گیا اور پھر سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص اور سورۃ التکاثر پڑھے، پھر یوں کہے، اے اللہ! جو میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا، اس کا ثواب اس قبرستان والے مؤمن مردوں، مؤمن عورتوں کو پہنچا تو وہ تمام اس کی سفارش اللہ تعالیٰ کے ہاں کریں گے۔’’
(فوائد لابی القاسم بن علی الزنجی، بحوالہ شرح الصدور للسیوطی:ص ٤۰٤)
تبصرہ:
یہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود و باطل ہے۔
دلیل نمبر٦:
حماد مکی نے کہا کہ ایک رات کو میں مکہ شریف کے قبرستان میں گیا اور ایک قبر پر سر رکھ کر سو گیا، میں نے دیکھا کہ قبروں والے حلقوں میں تقسیم ہو کر کھڑے ہیں۔ میں نے کہا، کیا قیامت قائم ہوگئی ہے؟ تو انہوں نے کہا، نہیں، لیکن ایک آدمی نے ہمارے بھائیوں میں سے سورہ اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخش دیا۔ ہم ایک سال سے اس کو تقسیم کر رہے ہیں۔
(شرح الصدورللسیوطی: ص٤۰٤)
تبصرہ:
یہ بے سند ہونے کی وجہ سے موضوع(من گھڑت)اورباطل ہے۔ حماد نامعلوم ہے۔ نامعلوم آدمی کا بے سند خواب اہل بدعت کی دلیل بن گیا ہے!
دلیل نمبر۷:
الحسن بن الہیثم کہتے ہیں کہ خطاب (نامی شخص) میرے پاس آیا اور مجھے کہا کہ جب تو قبرستان جائے تو سورۃ اخلاص پڑھ اور اس کا ثواب قبرستان والوں کو بخش دے۔
(الامر بالمعروف و النھی عن المنکر للخلال:۲۵۲)
تبصرہ:
یہ سخت‘‘ضعیف’’ قول ہے۔ اس کے راوی الحسن بن الہیثم کی توثیق مطلوب ہے۔ خطاب نامی شخص کے حالات اور توثیق و عدالت کا ثبوت فراہم کیا جائے۔
دلیل نمبر ۸:
ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ قبرستان میں قرآن پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
(الامر بالمعروف و النھی عن المنکر للخلال:۲٤۵)
تبصرہ:
یہ قول سخت ترین ‘‘ضعیف’’ ہے، کیونکہ
۱۔ اس میں شریک بن عبداللہ القاص‘‘مدلس’’ ہیں اور‘‘عن’’ کے ساتھ بیان کر رہے ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہں ہے۔
۲۔ الری نامی راوی کی تعیین و توثیق مطلوب ہے۔
۳۔ یہ لوگ ابراہیم نخعی کے مقلد ہیں یا۔۔۔۔۔۔۔ انہیں چاہیے کہ اپنے امام سے باسندِ ‘‘صحیح’’ اس کا جواز پیش کریں۔
نامعلوم لوگوں کے بے سند خواب پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
دلیل نمبر۹:
الحسن (بن عبد العزیز) الجروی کہتے ہیں کہ میں اپنی ہمشیرہ کی قبر پر گیا اور وہاں میں نے سورہ تبارک الذی پڑھی۔ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ میں نے تمہاری ہمشیرہ کو خواب میں دیکھا ہے، وہ کہہ رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ میری طرف سے میرے بھائی کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ جو اس نے پڑھا تھا، میں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔
(الامر بالمعروف ولنھی عن المنکر للخلال:ص ۲٤٦)
تبصرہ:
اس خواب کے راوی ابویحییٰ الناقد کی توثیق چاہیے۔ نیز امتی کے خواب شرعی حجت نہیں ہوتے۔
دلیل نمبر۱۰:
الحسن بن الصباح کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ قبرستان میں قبروں پر قرآن پڑھنا کیسا ہے؟ تو فرمایا، کوئی حرج نہیں۔
تبصرہ:
اس میں ایصالِ ثواب کا ذکر تک نہیں ہے۔ اگرچہ قبر پر قرآن کریم کی تلاوت کے جواز پر بھی کوئی دلیل شرعی نہیں ہے۔
دلیل نمبر۱۱:
خثیم نے وصیت کی کہ ان کو قبرستان میں دفن کیا جائے توان کی قوم ان پر قرآن پڑھے۔
(الزھد للامام احمد:۲۱۲۲)
تبصرہ:
اس کی سند ‘‘ضعیف’’ ہے، کیونکہ:
۱۔ اس میں سفیان ثوری ‘‘مدلس’’ ہیں، جو کہ ‘‘عن’’ کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔ سماع کی تصریح ثابت نہیں، لہٰذا سند‘‘ضعیف’’ ہے۔
۲۔ اس میں رجل مبہم موجود ہے۔
دلیل نمبر ۱۲:
سلمہ بن شبیب کہتے ہیں کہ میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس آیا، وہ نابینا امام، جوکہ قبرستان میں قرآن پڑھتاتھا، کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔’’
(الامربالمعروف والنھی عن لمنکر للخلال: ص ۲٤۷)
تبصرہ:
یہ قول ثابت نہیں۔ اس کے راوی العباس بن محمد بن احمد بن عبدالعزیز کی توثیق نہیں مل سکی۔
الحاصل:
قرآن خوانی شرعی دلائل سے ثابت نہیں ہے۔ سلف صالحین میں سے اس کا کوئی بھی قائل نہیں، بلکہ یہ بعد کے بدعتیوں کی ایجاد ہے، جو انہوں نے شکم پروری کے لیے جاری کی ہے۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم امیر بھائی
میں آپ کی رائے سے متفق نہیں ہوں۔ ختم بخاری شریف بھی تو سلف سے ثابت نہیں ہے ۔ پھر اس کو کوئی بدعت کیوں نہیں کہتا۔تلاوت قران مل کر کی جائے یا منفرد کیا اس کا ثواب نہیں ملے گا۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
یہاں یہ بات ہورہی ہے :
قریب الموت، میت اور قبرپر قرآن پڑھنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں اس کا ہرگز ثبوت نہیں ملتا۔ تیجہ، قل، جمعرات کا ختم اور چہلم وغیرہ بدعات وغیر اسلامی رسومات ہیں۔
آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ ہم نے اپنی بات دلائل کے ساتھ لکھ دی ہے ۔ آپ دلائل سے رد کریں ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
یہاں یہ بات ہورہی ہے :

آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ ہم نے اپنی بات دلائل کے ساتھ لکھ دی ہے ۔ آپ دلائل سے رد کریں ۔
محترم
آپ نے تھریڈ کا عنوان قران خوانی کی شرعی حیثیت رکھا ہے اس کے بعد دلائل دئیے ہیں جس سے مجھے یہ تاثر ملا ہے کہ آپ کا موقف یہ ہے کہ قران خوانی کسی بھی شکل میں ہو بدعت ہے۔
میری دلیل یہی ہے کہ قران مفرد پڑھا جائے یا اجتماعی صورت میں اسے بد عت نہیں کہہ سکتے ۔
ابھی شارح مسلم نووی کی تشریح سے آپ مطمئن نہیں کیونکہ وہ آپ کے موقف کے مطابق نہیں ۔ تو کیا یہ نفس کی پیروی نہیں ہے ۔ کہ جہاں اپنا موقف ملے بات مان لو ورنہ اس پر اشکا ل کر دو۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
استحبّ العلماء قراءة القرآن لهذا الحديث، لأنّه إذا كان يرجي التّخفيف بتسبيح الجريد، فتلاوته أوليٰ،والله أعلم!
" اس حدیث میں علماء کرام نےقرآن کریم کی تلاوت کومستحب سمجھاہے،کیونکہ جب ٹہنی کی تسبیح کی وجہ سےعذاب میں تخفیف کی امید کی جاتی ہےتوقرآن کریم کی تلاوت بالاولٰی ایسےہوگی۔"
واللہ اعلم!’’
(شرح صحیح مسلم للنووی:۱٤۱/۱)

تبصرہ:
اس حدیث سے قرآن خوانی کے ثبوت پر استدلال جائز نہیں، کیونکہ خیرالقرون میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں، نیز اس میں کہیں ذکر نہیں کہ عذاب میں تخفیف ان ٹہنیوں کی تسبیح کی وجہ سے ہوئی، لہٰذایہ قیاس مع الفارق ہے،

امام نووی رحمہ اللہ کے الفاظ ہائی لائٹ کردیئے ہیں : غور سے پڑھ لیں ۔ علمائے کرام کی بات کی ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نہیں ۔ اور نہ اپنا قول بتایا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہ اللہ علیہم سے ثابت کریں ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم امیر بھائی
میں آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ قران کی تلاوت پر ثواب ملے گا چاہے وہ مفرد ہو اجتماع کی صورت میں۔ کیا آپ کے نزدیک ہر مسئلہ صرف حدیث سے ہی ثابت ہوتا ہے اور علماء کی رائے یا تشریح کی کچھ حیثیت نہیں ہوتی۔؟
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
بالکل قرآن کی تلاوت پر ثواب ملے گا ایک ایک حرف پر ملے گا ، لیکن پڑھنے والے کو ۔ میت کو نہیں ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔ اور اپنے ہر نیک عمل کو وسیلہ بنا کر کسی مرحوم کیلئے دعا بھی کی جاسکتی ہے ۔ اور نیک عمل کے وسیلے سے دعا کر نا بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

قرآن خوانی کرنے والوں کا اصل مصرف یہی ہوتا ہے کہ اس عمل کا ثواب مردے کو پہنچے - جب کہ ثواب و عذاب کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہونا ہے - تو پھر یہ کہنا کہ میرے فلاں عمل کا ثواب میرے فلاں فوت شدہ رشتہ دار کو پہنچے- یہ کہاں کی عقل مندی ہے؟؟- جس عمل پر یہ یقینی ہی نہیں کہ اس عمل پر ثواب مرتب ہوگا بھی یا نہیں- اس کو ایصال کیسے کیا جا سکتا ہے؟؟- مزید یہ کہ اگر میت کو شرعی نقطہ نظر سے ایصال ثواب ممکن ہے تو پھر اصولی طور پر "ایصال گناہ" بھی ممکن ہونا چاہیے- لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہ سادہ لوح مسلمان اور نام نہاد عالم دین "ایصال ثواب" کی محفلیں سجانے میں تو ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں آگے آگے ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف "ایصال گناہ " کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں-

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی ضروری ہے کہ "مروجہ ایصال ثواب" اور دعا مغفرت میں بہت فرق ہے - میت کے لئے دعا مغفرت جو کہ شرعی نقطۂ نظر سے نا صرف جائز ہے بلکہ حکم نبوی بھی ہے اور ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے اور اس کی دین اسلام میں بہت اہمیت بھی ہے- یہ دعا درحقیقت الله کی بارگاہ میں ایک فریاد ہے ایک مسلمان کی طرف سے دوسرے مسلمان کے لئے کہ : اے الله تو فلاں کے گناہ بخش دے اور اس کے درجات کو الله کی بارگاہ میں مقبول کرے- اب یہ الله پر منحصر ہے کہ وہ اس درخواست کو قبول کرتا ہے یا رد کرتا ہے- اور یہ دعا بھی صرف مردوں (میت) تک محدود نہیں جیسا کہ اہل بدعت اور قرآن خوانی کے دلداہ لوگوں نے سمجھا ہوا ہے اور اس عمل کو ایصال ثواب پر محمول کیا ہوا ہے -دین اسلام میں تو دعا مغفرت زندوں کے لئے بھی منقول ہے جیسا کہ نماز جنازہ کی دعا کے الفاظ پر غور کیا جائے تو پہلے اس میں زندوں کے لئے دعا کی گئی اور بعد میں مردوں کے لئے دعا مغفرت کے درخواست الله سے کی گئی ہے- اللهم اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا- (ترجمہ :اے اللہ،ہمارے زندوں کو اور مردوں کو، حاضر کو اور غائب کو، چھوٹے کو اور بڑے کو، مرد کو اور عورت کو بخش دے) - اہل بدعت کی کتنی زیادتی ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی اس سکھائی گئی عظیم دعا مغفرت کو زندوں کو چھوڑ کر مردوں تک محدود کردیا گیا- مزید یہ کہ میت کے لئے قرآن خوانی کے دلیل پیش کرنے والوں کے لئے عرض ہے کہ اگر وہ قرآن کریم کو بے سوچے سمجھے پڑھنے کے بجانے (جیسا کہ وہ اکثر قرآن خوانی میں کرتے ہیں) سمجھ کر پڑھ لیں- تو انھیں شاید یہ معلوم ہو جائے کہ قرآن اصل میں زندوں کے لئے نازل ہوا ہے- مردوں کے لئے نہیں - قرآن کریم میں الله رب العزت کا واضح فرمان ہے کہ : وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ -لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ سوره یٰسین ٦٩-٧٠ (ترجمہ؛ اور ہم نے (اپنے نبی) کو شعر نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ اس کے شایان شان تھا- یہ تو صرف ایک نصیحت اور واضح قرآن ہے-تاکہ جو زندہ ہے اسے اس کے ذریے ڈریا جائے اور کافروں پر حجت اتمام ثابت ہو جائے)-

الله رب العزت ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا کرے اور بدعتی اعمال سے محفوظ فرماے (آمین)-
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم
ا
پنے نیک عمل کا وسیلہ دینا بھی کہاں کی عقلمندی ہوگا
۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ حدیث بھی ہے ۔ انسان کے مرنے کے بعد اس کے تین اعمال اسے نفع پہنچاتے ہیں جو علم ، نیک اولاد اور ثواب جاریہ کے کام ہیں جو اس نے مرنے سے پہلے کیے۔ یہ بھی ایصال ثواب کی ایک مثال ہے ۔
پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹہنیاں رکھیں اور کہا کہ اللہ ان کے عذاب میں تخفیف کرے گا تو یہ بھی ایک ایصال ثواب کی صورت بن گیا ۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا“۔

قران کی تلاوت پر ثواب ثابت ہے ۔اسے کسی صورت میں بدعت نہیں کہا جاسکتا ۔اب وہ چاہے اجتماعی ہو یا انفرادی ۔

@محمد علی جواد
 
Top