سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہم کی روایت میں تحت السرہ کا اضافہ
حنفی نماز خلاف سنت اُمور پر مشتمل ہے اور احناف کے ہاں نماز میں سنت سے ثابت شدہ اُمور کو اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ نماز کے بجائے صرف اٹھک بیٹھک کی جارہی ہے۔ تعدیل ارکان کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ عام لوگوں کی بات تو چھوڑیئے ائمہ حضرات بھی اس کا بہت کم خیال رکھتے ہیں۔ قرائت کی یہ حالت ہے کہ ائمہ بھی سورۃ الفاتحہ کو ایک دو سانس میں پڑھ جاتے ہیں جبکہ ہر ہر آیت پر رکنا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور تراویح میں تو حفاظ اسپیشل اسپیڈ کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے بعض کی قرائت میں سوائے یعلمون اور تعلمون کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ (کچھ نہ سمجھے اللہ کرے کوئی)۔ ان کے ائمہ تک مسنون قرائت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ انہیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس موقع پر کیا قرأت کیا کرتے تھے۔ ان کی نمازوں میں بعض بدعات تک داخل ہو چکی ہیں مثلاً زبان سے نیت کرنا، فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا وغیرہ۔ بعض من گھڑت دعائیں اور وظائف پڑھنا وغیرہ اور ان اُمور کو نماز کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ حنفی نماز کے اکثر مسائل بے بنیاد ہیں یا ان کی بنیاد ضعیف اور موضوع روایات پر ہے۔ فقہ کے دیگر مسائل کا بھی یہی حال ہے۔ نمازِ باجماعت کے وقت صف بندی ایک بنیادی امر ہے لیکن حنفیوں کے ہاں مل کر کھڑے ہونے کی بجائے درمیان میں فاصلہ رکھ کر کھڑنے ہونے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
حنفیوں کے ہاں نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھا جاتا ہے بلکہ ان کے ہاں مرد حضرات ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں اور ان کی عورتیں سینہ پر ہاتھ باندھتی ہیں۔ اور جب ان حضرات سے اس کی دلیل پوچھی جاتی ہے تو ان کے مولوی بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔
حنفیوں کے پاس ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی کوئی صحیح مرفوع روایت موجود نہیں ہے۔ ابوداو'د میں سیدنا علی رضی اللہ عنہم کی جو روایت ہے اس میں عبدالرحمن بن اسحق الکوفی ضعیف ہے اور بقول امام نووی کے اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کے موقوف اثر میں بھی یہی راوی ہے۔ اور امام ابوداو'د رحمہ اللہ نے اس اثر کے متعلق کہا ہے: ''و لیس بالقوی'' اور یہ اثر قوی نہیں ہے۔ اور اس راوی کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی رائے نقل کی ہے وہ عبدالرحمن بن اسحق الکوفی کو ضعیف کہتے ہیں۔
(ابوداو'د کتاب الصلوٰۃ؛باب۱۲۰ وضع الیمنی علی الیسری فی الصلوٰۃ)۔