• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن و حدیث میں تحریف

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5lvrpi.png

اسی بات کو ایضاح الادلہ طبع ایچ ایم سعید کمپنی کراچی میں بھی دہرایا گیا ہے۔ دیکھئے: ص ۷، ۸ اور اسے افسوس ناک غلطی، سبقت قلم اور بقول مولوی حسین احمد مدنی کاتب کی غلطی وغیرہ قرار دے کر راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اصل حقیقت

اصل بات یہ ہے کہ نہ یہ سہو قلم ہے اور نہ ہی کتابت کی غلطی بلکہ موصوف تقلید کے اس قدر دلدادہ تھے کہ ان کے دُھن میں تقلید کی تائید میں اس آیت کی ترتیب یہی تھی اور اس کی دلیل خود ان کا اپنا بیان ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
35lt0s6.png
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس وضاحت سے یہ ثابت ہو گیا کہ موصوف اس خود ساختہ آیت کو قرآن مجید ہی کی آیت تصور کرتے تھے اور نہ صرف یہ کہ وہ اسے قرآن کی آیت سمجھتے تھے بلکہ اسی آیت کو وہ تقلید کی زبردست دلیل بھی تصور فرماتے تھے اسی لئے تو انہوں نے لکھا:
1679v79.png

حالانکہ قرآن کریم کی سورۃ النساء کی یہ ایک ہی آیت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلاً (النساء:۵۹)
اس آیت میں اولوا الامر کی اطاعت کا بھی حکم ہے لیکن اختلاف کی صورت میں صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کا حکم دیا گیا ہے اور یہاں اولوا الامر کی اطاعت ختم ہو جاتی ہے۔ نیز اولوا الامر کی اطاعت مشروط ہے جبکہ اللہ اور رسول کی اطاعت غیر مشروط ہے۔ علاوہ ازیں اولواالامر کی اطاعت عارضی ہے جبکہ اللہ اور رسول کی اطاعت مستقل ہے اور اس آیت پر پچھلے صفحات میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس ایک آیت کو دو آیات باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس طرح دھوکا دینے کی زبردست کوشش کی گئی ہے۔ اور مولانا موصوف کے مریدین میں جو علماء ہیں وہ بھی اس قدر جامد مقلد تھے کہ کتاب کے مطالعہ کے باوجود بھی کسی عالم کو یہ جرأت نہ ہو سکی کہ وہ حضرت جی کو آگاہ فرماتے کہ حضرت قرآن میں اس طرح کی کوئی آیت موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ تقلید جامد کا اثر تھا کہ جس نے کسی مقلد کو لب کشائی کی اجازت نہ دی۔ چنانچہ چالیس سال تک ان کی زندگی میں بھی یہی ہوا اور اب پوری ایک صدی کے بعد اہل حدیث کے آگاہ کرنے سے انہیں فکر لاحق ہو گئی کہ واقعی یہ تو انتہائی افسوسناک غلطی ہو گئی لیکن حضرت والا یہ غلطی نہیں کر سکتے بلکہ یہ ان کے قلم کی شرارت معلوم ہوتی ہے اور اس طرح اپنی پرانی عادت کے مطابق انہوں نے اپنے حضرت جی کو اس غلطی سے بری الذمہ قرار دیے دیا۔ اور اس غلطی کو سبقت قلم اور کتابت کی غلطی قرار دے دیا۔ حالانکہ موصوف نے قرآن کریم میں ایک کھلی تحریف کا ارتکاب کیا ہے اور افسوس کہ جس سے انہیں رجوع اور توبہ کی توفیق بھی حاصل نہ ہو سکی اور تقلید جیسی کل بدعۃ ضلالۃ پر ڈٹے رہنے والے انسان کا اور تقلید کی وجہ سے صحیح احادیث کا انکار کرنے والے کا یہی انجام ہو گا۔ و ذلک جزاء الظالمین۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دیوبندی علماء اور عوام میں اکابر پرستی اس قدر عام ہے کہ وہ اپنے اکابرین کی شرکیہ عبارات، اور غلط عبارات کو بھی غلط ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ ان کی غلط عبارات کی وہ باطل تاویلات پیش کرتے ہیں اور یا پھر ان غلط عبارات ہی کو درست قرار دے ڈالتے ہیں۔ چاہے وہ کتنی ہی بڑی غلطی کیوں نہ کر گئے ہوں۔ قرآنی آیت میں تحریف کے باوجود بھی یہ حضرات اپنے حضرت جی کی غلطی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لیکن آج نہیں تو کل یہ ضرور اپنی غلطی کو تسلیم کر لیں گے لیکن اس وقت غلطی کو تسلیم کرنا انہیں فائدہ نہ دے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
گھر کی گواہی

مولانا عامر عثمانی دیوبندی نے اپنے رسالہ تجلی میں اس تحریر پر جو تبصرہ فرمایا ہے وہ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
''کتابت کی غلطی اس لئے نہیں کہی جا سکتی کہ حضرت شیخ الہند کا استدلال ہی اس ٹکڑے پر قائم ہے جو اضافہ شدہ ہے اور آیت کا اسی اضافہ شدہ شکل کا قرآن میں موجود ہونا وہ شدومد سے بیان فرما رہے ہیں۔ اولی الامر کے واجب الاتباع ہونے کا استنباط بھی اسی سے کر رہے ہیں اور حیرت در حیرت ہے کہ جس مقصد کے لئے یہ اصل آیت نازل ہوئی تھی ان کے اضافہ کردہ فقرے اور اس کے استدلال نے بالکل الٹ دیا ہے''۔ (تجلی دیوبند نومبر۱۹۶۲ء صفحہ۶۱۔۶۲۔ بحوالہ توضیح الکلام ص۲۵۵ج۱)۔
مناظر مقلدین ماسٹر امین اوکاڑوی کی خود ساختہ (من گھڑت) آیت

zkpe2u.png

ojqfcz.png



ماسٹر امین اوکاڑوی صفدر جو مغالطے کا امام ہے
اور اس نے اپنی کتابوں میں ہر جگہ دجل و فریب سے کام لیا ہے اور جھوٹ کو سچ اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے کی زبردست کوشش کی ہے اور حنفیوں کی خلاف سنت اور بے جان نماز کو ثابت کرنے کے لئے جھوٹ و مکاری اور دھوکا بازی کو دلائل کا نام دے کر ذکر کیا ہے اور ہرجگہ دھوکا دینے کی زبردست کوشش کی ہے۔ موصوف نے اپنے رسالہ ''تحقیق مسئلہ رفع یدین'' میں جہاں ضعیف و مردود روایات سے ترک رفع یدین ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہاں قرآن کریم پر ستم ڈھاتے ہوئے قرآنی آیات سے بھی استدلال کر کے رفع یدین کو قرآن و حدیث کے خلاف عمل قرار دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بالکل واضح جھوٹ بھی کہا ہے۔ مثلاً و قوموا ﷲ قانتین کا مطلب یہ بیان کیا ہے: ''دیکھئے خدا اور رسول نے نماز میں سکون کا حکم فرمایااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اندر رفع یدین کو سکون کے خلاف فرمایا''
(تحقیق مسئلہ رفع یدین ص۶۔ تجلیات صفدر۲/۳۵۰)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اورجابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم کی حدیث بیان کر کے لکھتا ہے:
''نماز تکبیر تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے، اس کے اندر کسی جگہ رفع یدین کرنا خواہ وہ دوسری، تیسری، چوتھی رکعت کے شروع میں ہو یا رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے وقت ہو، اس رفع یدین پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا اور اسے جانوروں کے فعل سے تشبیہ بھی دی۔ اس رفع یدین کو خلاف سکون بھی فرمایا اور پھر حکم دیا کہ نماز سکون سے یعنی بغیر رفع یدین کے پڑھا کرو''۔
(تحقیق ص ۵ اور تجلیات ایضاً)۔
خط کشیدہ الفاظ ملاحظہ کیجئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے دھڑک جھوٹ بولنے کا انداز ملاحظہ فرمائیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتے بولتے اس دیوبندی مقلد نے اللہ پر بھی صریح جھوٹ بول دیا اور اس مقصد کے لئے ایک آیت بھی تصنیف کر دی۔ موصوف کی کتاب کا نام تحقیق رفع یدین کے بجائے ''تحریف رفع یدین'' زیادہ مناسب اور موضوع کے عین مطابق بھی ہے۔
سکون کا مطلب اگر یہ لیا جائے کہ نماز میں کوئی حرکت بھی نہ ہو تو پھر رکوع کو جاتے، رکوع سے دوبارہ سر اٹھا کر پھر سجدہ میں جاتے اور سجدہ سے اٹھ کر بیٹھنا اور پھر دوبارہ سجدہ کرنا، پھر سجدہ سے اٹھ کر دوسری رکعت کے لئے اٹھنا ہاتھوں کو کبھی باندھنا، کبھی گھٹنوں پر رکھنا، کبھی زمین پر رکھنا، کبھی رانوں پر رکھنا، کبھی سبابہ سے اشارہ کرنا یہ تمام اُمور بھی سکون کو غارت کر دیتے ہیں۔ اور موصوف خود کیوں وتر میں، عیدین کی نماز میں اور نماز کی ابتداء میں رفع یدین کرتا ہے؟ اگر سکون کا مطلب موصوف نے عقل کی بناء پر بیان کیا ہے تو پھر موصوف کو نماز میں بالکل حرکت نہیں کرنی چاہیئے یہاں تک کہ قرآن کریم کی قراء ت کی بھی اس کو اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ قراء ت کرتے وقت زبان ہونٹ اور داڑھی بھی حرکت کرتی ہے لیکن اگر سکون کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ اور سنت کے مطابق نماز ادا کی جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ابتداء میں، رکوع کے وقت اور رکوع سے اٹھنے کے بعد رفع یدین کیا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) اور دوسری رکعت سے اٹھتے وقت بھی آپ رفع یدین کیا کرتے تھے۔ (بخاری، ابوداو'د، ترمذی) اور مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی ابتداء میں، رکوع کے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے دیکھا۔ (بخاری ۷۳۷ وغیرہ)۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا:
صلوا کما رأیتمونی اُصلی (بخاری:۱/۸۸)
''نماز اس طرح پڑھو جیسا کہ تم مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
گویا آپ کا حکم ہے کہ نماز ہمیشہ رفع یدین کے ساتھ ادا کرتے رہو۔ لیکن موصوف اس قدر غالی مقلد ہے کہ وہ رفع یدین ہی کو سرے سے تسلیم نہیں کرتا اور قرآن مجید میں تحریف کر کے اور مختلف آیات کا غلط سلط مطلب یہ بیان کر رہا ہے کہ نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے۔ حالانکہ ماضی میں جو حنفی علماء گزرے ہیں انہوں نے رفع یدین کی احادیث کو تسلیم کیا ہے اور ترک رفع یدین کی احادیث کو بھی ذکر کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لیکن ایسا کوئی دھوکا باز اور فراڈی مولوی دیکھنے میں نہیں آیا کہ جو احادیث نبویہ کا اس ڈھٹائی سے انکار کرے اور پھر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹا بہتان بھی باندھے جیسا کہ خط کشیدہ الفاظ سے ظاہر ہے۔ ایسے شخص کے متعلق اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا اِرشاد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش خدمت ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰٰیتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ (الانعام:۲۱)
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیات کو جھٹلائے یقینا ظالم فلاح نہیں پاتے۔
اور دوسرے مقام پر اسی طرح کے مضمون کے بعد فرمایا:
اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ (یونس:۱۷)
''یقینا مجرم فلاح نہیں پاتے''۔
جناب مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
ان کذبا علی لیس ککذب علی احد من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما یکرہ من النیاحہ علی المیت رقم:۱۲۹۱، صحیح مسلم مقدمۃ الرقم۵)
''بیشک مجھ پر جھوٹ باندھنا دوسرے لوگوں پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں ہے جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے''۔
رفع یدین کی صحیح احادیث کے خلاف موصوف نے جو ہفوات بکی ہیں ان کا انجام یقینا اس نے دیکھ لیا ہو گا اب اس کے شاگردوں اور مریدوں پر لازم ہے کہ وہ جہنم سے بچنے کی تدابیر اختیار کر لیں ورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھنے والے کا ٹھکانہ یقینا جہنم ہے۔ اور موصوف نماز میں سکون کی بات کر رہے ہیں حالانکہ حنفی نماز میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔
جناب جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم کی حدیث کو موصوف نے رفع یدین کے خلاف پیش کر کے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ جانوروں کا فعل ہے۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جو رفع یدین فرمایا کرتے تھے، موصوف کے بقول جانوروں کا فعل ادا کیا کرتے تھے (نعوذ باﷲ من ذٰلک) حالانکہ اس حدیث میں سلام کے وقت ہاتھوں کو ہلانے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم کی دوسری حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے اور دیوبندی علماء میں سے بھی بعض نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ اس حدیث کا مذکورہ رفع یدین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ موصوف نے گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا بھی ارتکاب کیا ہے۔ (نعوذ باﷲ من ذلک) اگر اس حدیث میں رفع یدین کی ممانعت ہے تو پھر موصوف نماز کے شروع میں، نماز وتر میں اور عیدین کی نماز میں کیوں رفع یدین کرتے ہیں؟ اور کس دلیل کی بنیاد پر وہ ان مقامات پر رفع الیدین کے قائل ہیں؟۔
موصوف نے جس آیت میں تحریف کی ہے ان الفاظ کے ساتھ قرآن کریم میں کوئی آیت موجود نہیں ہے اور اس آیت میں ہاتھوں کو روکنے کے متعلق جو حکم دیا گیا ہے وہ شروع میں جہاد سے رُکنے کا حکم تھا لیکن جب مسلمان مدینہ طیبہ میں مجتمع ہو گئے تو انہیں جہاد کا حکم دیا گیا جیسا کہ اس آیت کے اگلے حصہ میں جہاد و قتال کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جہاد کے متعلق نازل فرمائی لیکن احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انکاری نے اس آیت کو رفع یدین نہ کرنے کی دلیل بنا لیا اور تحریف کے اس فن میں اس نے یہود و نصارٰی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ افسوس!
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود​
اسے کتابت کی غلطی بھی نہیں کہیں گے کیونکہ موصوف نے اس آیت کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ موصوف نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے الذین ھم فی صلوتھم خاشعون کی تفسیر میں من گھڑت تفسیر ابن عباس سے یہ قول نقل کیا ہے کہ جو نمازوں کے اندر رفع یدین نہیں کرتے (وہ خشوع والے ہیں) جبکہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے صحیح سند کے ساتھ رفع یدین کرنا ثابت ہے دیکھئے: مصنف عبدالرزاق۲/۶۹۔ رقم:۲۵۲۳۔ و مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۲۳۵، جزء رفع الیدین للبخاری ص۶۳، مسائل احمد بن حنبل۱/۲۴۴ و اسنادہ حسن صحیح۔ اس کے مقابلے میں تفسیر ابن عباس ساری کی ساری مکذوب و موضوع ہے۔ اس کے بنیادی راوی محمد بن مروان، السدی اور صالح تینوں کذاب ہیں اور موصوف اپنے مثل ان کذابین کی روایت کو خاموشی سے ذکر کر رہے ہیں۔ ہم نے موصوف کے ایک دو صفحوں میں سے اس قدر جھوٹ واضح اور آشکارا کر دیئے ہیں اور ان کے مزید جھوٹ اور کذب بیانیوں کو آشکارا کرنے کے لئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے جو لوگ دین کے معاملے میں ایسے جھوٹے اور فراڈی انسان پر بھروسہ کر رہے ہیں وہ سوچیں کہ اس طرح ان کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو جائیں گی اور قیامت کے دن ان کا جو حال ہو گا اس کا اندازہ ان آیات کے مطالعہ سے ہو گا۔ (الفرقان۲۷تا۲۹، الاحزاب:۶۶،۶۷)۔ اس سلسلہ میں الاستاذ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ردّ میں ایک کتاب ''امین اوکاڑوی کا تعاقب'' تحریر کی ہے جو چھپ چکی ہے۔ نیز الاستاذ موصوف نے اپنے ماہنامہ رسالہ ''الحدیث'' میں ان کے مضامین پر ایک تحقیقی سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور ان کے مضامین قسط وار اس رسالے میں شائع ہو رہے ہیں۔ الاستاذ موصوف نے اپنی علمی اور تحقیقی مضامین کا آغاز امین اوکاڑوی کے مضمون ''تحقیق مسئلہ تقلید'' کے جواب سے شروع کیا ہے اور امید ہے کہ ان کے تمام لٹریچر کا تحقیقی بنیاد پر پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔بہرحال موصوف نے آیت کے ظاہری الفاظ میں بھی تحریف کی ہے اور اس آیت سے جو مفہوم اخذ کیا ہے یہ دوسری تحریف ہے۔ اور موصوف کو اس فن میں اس قدر مہارت حاصل ہے کہ وہ کسی مقام پر بھی تحریف کرنے اور قرآن و حدیث کے مفہوم کو بدلنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے ان بطش ربک لشدید! ایسے جھوٹے اور مکار انسان اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تحقیق یا تحریف

موصوف نے اپنی کتابوں میں تحقیق کا لفظ کثرت سے استعمال کیا ہے اور تحقیق کے نام سے اس نے قرآن و حدیث میں زبردست تحریفات کی ہیں اور جھوٹ بھی بولے ہیں۔ نیز مقلد اور تحقیق یہ دونوں چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ کیونکہ تحقیق کے آتے ہی تقلید غائب ہو جاتی ہے لیکن حیرت ہے کہ موصوف یہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی تحقیق کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ موصوف دراصل تحریف کا ماہر ہے اور احادیث میں تحریفات کرنے اور جھوٹ بولنے میں اسے زبردست ملکہ اور مہارت حاصل ہے۔ اگر موصوف کو تحریفات کا بادشاہ اور امام کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ اور حدیث میں ہے:
انما اخاف علی امتی الائمۃ المضلین
(ابوداؤد کتاب الفتن باب۱، ترمذی(۲۲۲۹) صحیحہ (۱۵۸۲)
''مجھے اپنی اُمت پر گمراہ کرنے والے اماموں کا خوف ہے''۔
اس لئے جہاں کہیں بھی موصوف تحقیق کا لفظ استعمال کرے تو سمجھ لیں کہ وہ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے یا تحریف کرنے والا ہے۔ دراصل یہ بھی ایک چسکا ہے اور جسے یہ چسکا لگ جائے تو بہت مشکل سے اس کی جان اس سے چھوٹتی ہے الا ماء شاء اللہ۔ کسی شاعر نے شراب کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا ہے:
؎ چھٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی۔
نیز موصوف اپنے مذہب کا بھی باغی ہے اس لئے کہ مقلد کو تحقیق کی اجازت نہیں ہے بلکہ اس کے لئے تحقیق شجر ممنوعہ ہے۔
 
Top