• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن و حدیث میں تحریف

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی

نعوذ باﷲ من ذالک
الحمد ﷲ! اہل حدیث وہ جماعت ہے جو کسی شخصیت کی پرستار نہیں اور نہ ہی یہ اپنا ناطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور شخصیت سے جوڑتے ہیں بلکہ ہر معاملے میں یہ قرآن و حدیث پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ اور یہ یہی چیز ماسٹر امین اوکاڑوی کے غیظ و غضب کا باعث بنی ہے، موصوف نے احادیث رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ان کتابوں کو بھی معاف نہیں کیا کہ جن کے متعلق پوری اُمت مسلمہ کا اجماع ہے کہ قرآن مجید کے بعد حدیث کی سب سے زیادہ صحیح کتابیں بخاری و مسلم ہیں۔ موصوف نے بعض ایسی شرمناک باتیں اپنی کتابوں میں تحریر کر دی ہیں کہ کوئی حیادار انسان اپنی زبان اور قلم کے ذریعے ان کا اظہار نہیں کر سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی والی عبارت موصوف کے قلم سے ملاحظہ کریں:
2l8vhon.png

2iveaeb.png
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
موصوف دو مختلف فیہ روایات کو ذکر کر کے ان میں تضاد ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح اس نے منکرین حدیث والا انداز اختیار کر رکھا ہے۔ یہاں بھی وہ کتے کے سامنے سے گزرنے پر نماز ٹوٹنے کا ذکر کر رہے ہیں حالانکہ صحیح مسلم کی حدیث میں کالے کتے کا ذکر ہے، الفاظ یہ ہیں:
فانہ یقطع صلوتہ الحمار والمرأۃ والکلب الاسود (مسلم ج۱ ص۱۹۷)
(اگر نمازی کے آگے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز نہ ہو) اور ا س کے آگے سے گدھا اور عورت اور کالا کتا گزر جائے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔
اور اس روایت کے بعد موصوف نے جو روایت بیان کی ہے لیکن اپ نماز پڑھاتے رہے اور کتیا سامنے کھیلتی رہی اور ساتھ گدھی بھی تھی اور دونوں کی .........
اس روایت کا کوئی حوالہ موصوف نے نہیں دیا۔ بلکہ یہ روایت موصوف کی خود ساختہ ہے کیونکہ موصوف جھوٹی اور من گھڑت احادیث بنانے کے ماہر و ماسٹر ہیں۔ لیکن اس خود ساختہ حدیث میں موصوف نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک عظیم بہتان بھی لگا دیا اور وہ یہ کہ کتیا اور گدھی کی شرمگاہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑتی رہی۔ (نعوذ باﷲ من ذلک) موصوف خود شرمگاہوں کا انتہائی دلدادہ اور شہوت پرست انسان ہے اور بہت سے مقامات پر مزے لے لے کر اس بات کا ذکر کرتا ہے مثلاً: اس کا سوال نمبر۱۹۰ ملاحظہ فرمائیں۔
(۱۹۰) عورتیں نماز میں امام کی شرمگاہ دیکھتی رہیں تو ان کی نماز نہیں ٹوٹتی۔ (بخاری ص۶۹۰ ج۲) اگر مرد عورت کی شرمگاہ دیکھ لے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی یا نہیں؟ صحیح بخاری ج۲ صفحہ۶۱۶ رقم۴۳۰۲)۔ کتاب المغازی باب قبل باب قول اﷲ تعالیٰ (ویوم حنین ...) میں عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنھما کا واقعہ ذکر ہوا ہے۔
جناب عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنھما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا: ''پس جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو شخص تم میں سے قرآن کا زیادہ جاننے والا ہو وہ تمہاری امات کرے''۔ پس لوگوں نے دیکھا تو مجھ سے زیادہ قرآن کا جاننے والا کوئی نہ تھا۔ اس لئے کہ میں قافلوں کے لوگوں سے قرآن یاد کرتا رہتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے مجھے امام بنا لیا اس وقت میری عمر چھ یا سات برس کی تھی اور میرے پاس صرف ایک چادر تھی۔ جب میں سجدہ کرتا تو وہ چادر کھنچ جاتی تھی۔ برادری کی ایک عورت نے قبیلہ والوں سے کہا کہ تم اپنے امام کے چوتڑ ہم سے کیوں نہیں ڈھانپتے؟ پس لوگوں نے کپڑا خریدا اور میرے لئے کرتا بنا دیا اور میں اس کرتے سے بے حد خوش ہوا۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اس قوم کے امام چھ سات سال کے ایک نابالغ بچے تھے اور ان کی چادر چھوٹی تھی اور کھنچ جانے سے ان کے چوتڑ بسا اوقات کھل جاتے تھے اور قبیلہ کی کسی ایک عورت کی اتفاقاً نظر پڑ گئی تو اس نے قبیلہ والوں کو اس کی اطلاع دے دی اور قبیلہ والوں نے اس کا سدباب کر دیا لیکن موصوف اپنی فطرت سے مجبور ہو کر کہتا ہے: ''عورتیں نماز میں امام کی شرمگاہ دیکھتی رہیں''۔ موصوف نے ایسے الفاظ استعمال کئے جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عمل ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور اس طرح اس نے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا ہے۔
جناب سہل بن سعد رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے تہہ بندوں میں گردن پر گرہ لگا کر نماز پڑھا کرتے تھے کیونکہ تہہ بند چھوٹے تھے اور عورتوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ تم اپنا سر (سجدے) سے اس وقت تک نہ اُٹھاؤ جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوۃ۔باب اذکان الثوب ضیقا۳۶۲،۸۱۴،۱۲۱۵)۔
اس حدیث سے واضح ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں غربت کی وجہ سے لوگوں کے پاس کپڑوں کی شدید کمی تھی۔ کیا موصوف اس حدیث کا مطلب یہ لیں گے کہ عورتیں نماز میں مردوں کی شرمگاہیں دیکھتی رہتی تھیں؟۔ اگر یہ حدیث موصوف کے علم میںہوتی تو یقینا وہ اس سے بھی یہی مطلب اخذ کرتا کیونکہ خبیث انسان ہمیشہ خباثت کے متعلق ہی سوچتا رہتا ہے۔...... الخبیثون للخبیثات ......
نیز موصوف نے صحیح بخاری پر چھپے الفاظ میں زبردست طنز بھی کی ہے کہ صحیح بخاری جیسی کتاب بھی فحش باتوں سے خالی نہیں ہے۔ اور اس کی مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔ پھر موصوف سوال۱۹۴ پر لکھتا ہے: ''نمازی کی نظر اپنی شرمگاہ پر پڑ گئی تو نماز ٹوٹ جائے گی یا نہیں؟ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ موصوف ''شرمگاہ دیکھنے کا کس قدر شوقین اور دلدادہ ہے اور یہ چیز موصوف کو اپنے اکابرین سے ورثہ میں ملی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے:
''بھرے مجمع میں حضرت جی کی کسی تقریر پر ایک نو عمر دیہاتی بے تکلف پوچھ بیٹھا کہ حضرت جی عورت کی شرمگاہ کیسی ہوتی ہے؟ اللہ رے تعلیم سب حاضرین نے گردنیں نیچے جھکا لیں مگر آپ مطلق چین بہ جبین نہ ہوئے بلکہ بے ساختہ فرمایا: جیسے گیہوں کادانہ''۔ (تذکرۃ الرشید ج۲ ص:۱۰۰)۔
ان بزرگوں کا تجربہ تھا، مجمع تو واقعی ان علمی نوادرات کو سن کر حیران و ششدر ہوا ہو گا اور ان تجربہ کار اساتذہ کے ہاتھوں تیار ہونے والے امین اوکاڑوی جیسا شاگرد جن کی تجلیات سے آخر عوام الناس کیوں نہ مستفیض ہوئے ہوں گے اور پھر جنہیں حلالہ جیسی سہولت بھی حاصل ہو اور کتنی ہی شرمگاہیں انہوں نے حلالہ کے ذریعے اپنے لئے حلال کی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں:
ولو نظر المصلی الی المصحف و قرأ منہ فسدت صلاتہ لا الی فرج امرأۃ بشہوۃ لأن الأول تعلیم و تعلم فیھا لا الثانی
(الاشباہ والنظائر ص ۴۱۸، طبع میر محمد کتب خانہ کراچی)
اور اگر نمازی مصحف (قرآن) کی طرف دیکھ لے اور اس میں سے کچھ پڑھ لے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، اور اگر عورت کی شرمگاہ کی طرف بنظر شہوت دیکھ لے تو اُس سے نماز فاسد نہ ہو گی اس لئے کہ اول تعلیم ہے اور اس میں تعلیم ہے نہ کہ ثانی (کہ وہ تعلیم سے خالی ہے)۔
غور فرمائیے کہ حنفیوں کے ہاں شرمگاہ کی کتنی اہمیت ہے کہ اسے دورانِ نماز بھی نمازی شہوت کے ساتھ دیکھتا رہے تو حنفی کی نماز کو کچھ نہیں ہو گا۔ البتہ اگر قرآن کریم کی آیت یا قرآن کا کوئی فقرہ پڑھ لیا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ کیا ایمان بالقرآن کا یہی تقاضہ ہے؟
صحیح بخاری میں ہے کہ:
کانت عائشہ رضی اللہ عنہا یومھا عبدھا ذکوان من المصحف (ص۹۶ ج۱)
عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام ذکوان رحمہ اللہ قرآن سے دیکھ کر ان کی امامت کراتا تھا۔
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نماز میں قراء ت مصحف (قرآن) سے دیکھ کر کرتی تھیں۔ (مصنف عبدالرزاق ص۴۲۰ ج۲۔ رقم الحدیث ۳۹۳۰)۔
امام ابی بکر بن ابی ملیکۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ان عائشہ اعتقت غلاما لھا عن دبر فکان یؤمھا فی رمضان فی المصحف
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک غلام تھا جسے بعد میں آپ رضی اللہ عنہا نے آزاد کر دیا تھا وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رمضان المبارک میں امامت کراتا تھا اور قرائت قرآن مصحف (قرآن) سے دیکھ کر کرتا تھا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:۳۳۸، ج۲ و فتح الباری ص۱۴۷ ج۲ و کتاب المصاحف لابن ابی داو'د و۱۹۲)
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس اثر کی سند صحیح ہے۔ (تغلیق التعلیق ص۲۹۱ج۲)۔
امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ قرآن میں دیکھ کر امامت کا کیا حکم ہے؟
قال ما زالوا یفعلون ذلک منذ کان الاسلام کان خیارنا یقرؤون فی المصاحف
ابتداء اسلام سے ہی علماء قرآن مجید کو دیکھ کر (امامت) کراتے رہے جو ہمارے بہتر تھے۔ (قیام اللیل ص۱۶۸ طبع مکتبہ اثریہ)۔
امام سعد، امام سعید بن مسیب، امام حسن بصری، امام محمد بن سیرین، امام یحییٰ بن سعید انصاری، امام مالک، امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ تمام کے تمام اس کے جواز کے قائل ہیں۔ تفصیل کیلئے دیکھئے:
(قیام اللیل ص:۱۶۸ و مصنف ابن ابی شیبہ ص۳۳۸ ج۲ و مصنف عبدالرزاق ص۴۲۰، ج۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قرآن مجید کی توہین

قرآن مجید کی توہین کے متعلق ایک عبارت گزر چکی ہے اب ایک دوسری عبارت ملاحظہ فرمائیں کہ حنفی قرآن مجید کا کس قدر ادب کرتے ہیں:
فتاوٰی قاضی خان میں لکھاہے:
والذی رعف فلا یرقادمہ فاراد ان یکتب بدمہ علی جبھتہ شیئا من القرآن قال ابوبکر الاسکاف یجوز قیل لو کتب بالبول قال لو کان فیہ شفاء لا باس
اگر کسی کی نکسیر بند نہ ہوتی ہو تو اس نے اپنی جبین پر (نکسیر کے) خون سے قرآن میں سے کچھ لکھنا چاہا تو ابوبکر اسکاف نے کہا ہے یہ جائز ہے۔ اگر وہ پیشاب سے لکھے تو اس نے کہا اس میں شفاء ہو تو کوئی حرج نہیں۔
(فتاوٰی قاضی خان علی حامش فتاوٰی عالمگیری ص۴۰۴ ج۳ کتاب الحظر والاباحۃ)
یہی فتویٰ فقہ حنفی کی معروف کتاب (فتاویٰ سراجیہ ص ۷۵ و البحر الرائق ص ۱۱۶ ج۱ و حمومی شرح الاشباد والنظائر ص۱۰۸ ج۱، باب القاعدہ الخامسۃ الضرر لا یذال، و فتاوٰی شامی ص۲۱۰ ج۱ باب التداوی بالمحرم) وغیرہ۔ کتب فقہ حنفی چوتھی صدی سے لے کر بارھویں صدی تک متداول رہا ہے بلکہ فتاوٰی عالمگیری میں لکھا ہے کہ:
فقد ثبت ذلک فی المشاھیر من غیر انکار
یعنی مشاہیر میں یہ فتویٰ بلا انکار ثابت ہے۔
(فتاوٰی عالمگیری ص۳۵۶ ج۵ کتاب الکراھیۃ باب التداوی والمعالجات)
عالمگیری کی اس عبارت سے ثابت ہوا کہ فقہاء احناف کا یہ مفتی بہ فتوی ہے۔ بریلوی مکتب فکر کے معروف مترجم مولوی غلام رسول سعیدی نے کھل کر فقہاء کے ان فتاوٰی کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
''میں کہتا ہوں کہ خون یا پیشاب کے ساتھ سورۃ فاتحہ لکھنے والے کا ایمان خطرہ میں ہے۔ اگر کسی آدمی کو روز روشن سے زیادہ یقین ہو کہ اس عمل سے اس کو شفاء ہو جائے گی تب بھی اس کا مرجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ خون یا پیشاب کے ساتھ سورۃ فاتحہ لکھنے کی جرأت کرے۔ اللہ تعالیٰ ان فقہاء کو معاف کرے جو بال کی کھال نکالنے اور جزئیات مستنبط کرنے کی عادت کی وجہ سے ان سے یہ قول شنیع سرزد ہو گیا ورنہ ان کے دلوں میں قرآن مجید کی عزت و حرمت بہت زیادہ تھی۔
(شرح صحیح مسلم ص۵۵۷ ج۶ طبع فرید بک سٹال لاہور۱۹۹۵ء)
سعیدی صاحب کی اس ہمت مردانہ اور جرأت رندانہ کی داد دیتے ہوئے عبدالحمید شرقپوری برسٹل برطانیہ فرماتے ہیں کہ:
''فقہ کی ایک کتاب (نہیں بھائی تقریباً نصف درجن ابو صہیب) میں لکھا ہے کہ علاج کی غرض سے خون یا پیشاب کے ساتھ فاتحہ کو لکھنا جائز ہے۔ راقم الحروف نے اکثر علماء سے اس کے متعلق پوچھا مگر چونکہ یہ بات بڑے بڑے فقہاء نے لکھی ہے اس لئے سب نے اس مسئلہ پر سکوت اختیار کیا ہے۔ علامہ سعیدی نے پہلی بار اس جمود کو توڑا''۔ (شرح صحیح مسلم بعنوان تاثرات صفحہ۶۶ جلد اول الطبع الخامس۱۹۹۵ء)
یہی ہم نماز میں مصحف سے دیکھ کر قرائت کے سلسلہ میں عرض کرتے ہیں کہ بھائی شرمگاہ تو ایک انسانی عضو ہے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے لہٰذا اس باطل و مردود فتوی کی تردید کرتے ہوئے نماز کو فاسد کہنے سے توبہ کر لیجئے اور صحابہ کرام کو معیارِ حق تسلیم کرتے ہوئے نماز میں مصحف سے قرائت کے جواز کو تسلیم کر لیجئے اور فقہاء کو معصوم عن الخطاء جان کر منہ اٹھا کر ان کے پیچھے نہ لگ جائیے ان کی صحیح بات کو قبول کیجئے اور غلط بات کی تردید کر دیجئے۔ (تحفہ حنفیہ ص:۳۰۷،۳۰۸)۔
اس موضوع پر ہمارے محترم بھائی فضیلۃ الاخ ابوالاسجد محمد صدیق رضا صاحب کا بھی ایک مضمون شائع ہوا تھا جو ایک دیوبندی عالم ''مولانا محمد تقی عثمانی'' کے تعاقب میں تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مجموعہ رسائل کو اب لاہور سے شائع کیا گیا ہے اور دعوی کیا گیا ہے کہ یہ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن ہے اور اس میں سے اب گستاخی والی عبارت خاموشی سے غائب کر دی گئی ہے۔
6paqgo.png

گستاخی والی عبارت کو اگر غائب کر دیا جائے تو پھر سوال تشنہ رہ جاتا ہے کیونکہ سوال کا مقصد دو مختلف طرح کی احادیث میں تطبیق کے بجائے ٹکراؤ اور اختلاف پیدا کرنا ہے۔ لہٰذا اس اختلافی عبارت کا ہونا ضروری ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ یہ عبارت موجود ہے۔ اور اس عبارت سے موصوف کا رجوع کرنا یا اس پر ندامت کا اظہار کرنا اس طرح کی کوئی چیز اس سے ثابت نہیں ہے۔
مجموعہ رسائل جلد سوم کو نعمان اکیڈمی گوجرانوالہ نے جون۱۹۹۶ء میں شائع کیا پھر ادارہ خدام احناف لاہور نے مجموعہ رسائل کو اکتوبر ۲۰۰۰ء میں شائع کیا۔ البتہ یہ عبارت تجلیات صفدر جلد پنجم میں بھی موجود ہے اور تجلیات کو مکتبہ امدادیہ ملتان نے مولانا نعیم احمد (جو مولانا امین اوکاڑوی کے خاص شاگرد ہیں) کی ترتیب، تسہیل اور تصحیح کے ساتھ شائع کیا ہے۔ واضح رہے کہ تجلیات کا یہ سب سے زیادہ تصحیح شدہ ایڈیشن ہے کہ جسے دیوبندیوں کے خاص ادارہ مکتبہ امدادیہ نے شائع کیا ہے اور جس کی خصوصی اجازت بھی امین اوکاڑوی نے انہیں عطاء کر دی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ماسٹر امین اوکاڑوی الجرح والتعدیل کے میزان میں

مجموعہ رسائل جلد سوم (طبع نعمان اکیڈمی گوجرانوالہ) اور تجلیات صفدر جلد پنجم دونوں میں گستاخی والی یہ عبارت موجود ہے۔ شرعی لحاظ سے بھی گواہی کے لئے دو گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ دونوں حوالے موصوف کو مجرم قرار دیتے ہیں۔ اب دیوبندی، امین اوکاڑوی کو چاہے کتنا بڑا علامہ اور عالم قرار دیں لیکن جب وہ جھوٹے، مفتری اور کذاب ثابت ہو چکے ہیں۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اس نے گستاخی کا ارتکاب بھی کیا ہے تو اہل اسلام کے نزدیک اب اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس پر جرح مفسر ثابت ہو چکی ہے اور جو شخص دین کو موصوف کی کتابوں سے اخذ کرے گا تو وہ صراط مستقیم سے منحرف ہو جائے گا اور اس کا دین بھی مشکوک ہو جائے گا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
یکون فی آخر الزمان دجالون کذابون یأتونکم من الاحادیث بما لم تسمعوا انتم ولا آباؤکم فایاکم و ایاھم لا یضلونکم ولا یفتنونکم (صحیح مسلم مقدمہ۱۶، مشکوۃ:۱/۵۵)
آخر زمانے میں فریب دینے والے اور جھوٹے لوگ ہوں گے جو تمہارے سامنے ایسی احادیث (اور باتیں) پیش کریں گے کہ جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے نہ سنی ہوں گی پس ایسے لوگوں سے بچو اور تم انہیں قریب نہ آنے دو کہ وہ تم کو گمراہ نہ کریں اور فتنہ میں نہ ڈال دیں۔
یہ حدیث صاف وضاحت کرتی ہے کہ جیسے جیسے قیامت قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی دنیا دجل و فریب کے ماہرین اور جھوٹے لوگوں سے بھرتی چلی جائے گی اور یہ لوگ اپنی فنکارانہ مہارتوں اور پرفریب اور خوش آئند باتوں سے لوگوں کو نہ صرف گمراہ کریں گے بلکہ فتنہ میں بھی مبتلا کر دیں گے جیسا کہ موصوف ہیں کہ جو احادیث صحیحہ کو ناقابل اعتبار قرار دیتے چلے جا رہے ہیں اور جھوٹی اور من گھڑت احادیث پر مبنی فقہ حنفی کی برتری کے لئے ہر جھوٹ، دھوکا اور فریب سے کام لے رہے ہیں۔ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم
''بیشک (قرآن و حدیث کا یہ) علم دین ہے پس جب تم اسے حاصل کرو تو یہ دیکھ لو کہ تم کس سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو''۔ (صحیح مسلم مقدمہ ۲۶، مشکوۃ:۱/۹۰)
جھوٹ، خیانت، دھوکا و فریب اور کذب بیانی انتہائی گھٹیا صفات ہیں اور ایسے انسان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا کہ جو جھوٹ بولتا ہو اور دھوکا دیتا ہو اور جو انسان قرآن و حدیث میں جھوٹ بولے تو ایسا شخص اللہ کی نظر میں بھی انتہائی لعنتی اور مجرم ہے اور لوگوں کو بھی تاکید کی گئی ہے کہ وہ ایسے انسان سے بچیں لیکن جس انسان کو یہ چیزیں ورثہ میں ملی ہوں تو اس کی کذب بیانی کا کیا حال ہو گا؟ موصوف کے اکابرین کے حوالے ملاحظہ فرمائیں:
بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی اعتراف جرم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''میں سخت نادم ہوا اور مجھ سے بجز اس کے کچھ بن نہ پڑا کہ میں جھوٹ بولوں اور صریح جھوٹ میں نے اسی روز بولا تھا''۔
(ارواح ثلاثہ ص ۳۹۰۔ حکایت نمبر ۳۹۱، و معارف الاکابرین ص۳۶۰)
مولانا رشید احمد گنگوہی نے کہا: ''جھوٹا ہوں''۔ (مکاتیب رشیدیہ ص ۱۰، فضائل صدقات حصہ دوم ص ۵۵۶، امین اوکاڑوی کا تعاقب ص ۱۶، الحدیث ۲۲ ص۵۵)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
موصوف کے مزید جھوٹ

موصوف گستاخی والی عبارت سے قبل سوال نمبر (۱۸۵) کے تحت لکھتا ہے:
(۱۸۵) کسی غیر عورت سے بوس و کنار کر کے نماز پڑھ لے، سب کچھ معاف ہو جاتا ہے۔ (بخاری ص ۷۵، ج۱)۔ کیا آپ اپنی صاحبزادیوں کو اس پر عمل کرنے ، کروانے کی اجازت دیتے ہیں۔ (تجلیات ص۴۸۶، ج۵، مجموعہ رسائل ج۳ ص۱۲۶)
موصوف نے صحیح بخاری کی جس روایت کا حوالہ دیا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک عورت کا بوسہ لیا پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اپنی اس غلطی سے آگاہ کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر (سورۃ ھود کی آیت۱۱۴) نازل فرمائی: ''دن کے دونوں کناروں اور رات کے اوقات میں بھی نماز پڑھا کرو۔ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا ڈالتی ہیں''۔ اس شخص نے عرض کیا کہ کیا یہ حکم خاص میرے لئے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری تمام اُمت کے لئے ہے۔ (بخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ کفارۃ ۵۲۶ ، ۴۶۸۷)۔
صحیح مسلم کی روایت میں یہ وضاحت بھی ہے کہ اس شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر حد قائم کیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے پھر نماز کا وقت ہو گیا اور اس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ نماز کے بعد وہ شخص دوبارہ حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ میں حد تک پہنچ چکا ہوں لہٰذا مجھ پر حد قائم کیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ اس شخص نے کہا کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تیرے گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب التوبۃ باب قولہ تعالیٰ ان الحسنات یذھبن السیئات۷۰۰۱ الی۷۰۰۷)۔ امام مسلم نے اس سلسلہ کی سات احادیث کو یہاں ذکر کیا ہے۔
ان احادیث سے واضح ہوا کہ اس شخص نے اپنے اس گناہ پر نہ صرف انتہائی ندامت کا اظہار کیا تھا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈر رہا تھا کہ اس نے اپنے اوپر حد قائم کرنے کی بھی درخواست کی تھی۔ لیکن موصوف نے اس حدیث کا کیا مطلب اخذ کیا ہے؟
''کسی غیر عورت سے بوس و کنار کر کے نماز پڑھ لے سب کچھ معاف ہو جاتا ہے''
موصوف نے اس جملہ میں حدیث کے مطلب کو جس طرح بگاڑا ہے اور اپنی اصلی فطرت کو جس طرح ظاہر کیا ہے وہ اس کی عبارت سے عیاں ہے، موصوف آگے لکھتا ہے: کیا آپ اپنی صاحبزادیوں کو اس پر عمل کرنے، کروانے کی ''اجازت دیتے ہیں''۔ یہ حدیث گناہوں سے نفرت کا درس دیتی ہے لیکن موصوف نے اس حدیث سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ: ''چور چوری سے جائے لیکن ھیراپھیری سے نہ جائے''۔
موصوف کو قرآن و حدیث میں تحریف کرنے اور ہیراپھیری کی ایسی لت پڑ گئی ہے کہ وہ کسی جگہ بھی حدیث میں ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتا اور بعض جگہ تو اس کی اصلی فطرت مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح بالکل واضح اور نمایاںہو جاتی ہے۔ اب اس عبارت میں موصوف ترغیب دے رہے ہیں کہ ''آپ اپنی صاحبزادیوں کو اس پر عمل کی اجازت دیتے ہیں''۔ لگتا ہے کہ یہ موصوف کے دل کی آواز ہے اور یقینا اس نے اس پر کسی حد تک عمل بھی کیا ہو گا لیکن چونکہ اس سلسلہ میں ہمیں مزید معلومات کا علم نہیں ہے اس لئے اگر کسی کو اس تفصیل کا علم ہو تو برائے مہربانی اس بات سے ہمیں آگاہ کر دے تاکہ اگلے ایڈیشن میں ان مزید معلومات کو بھی موصوف کے اس قول کی شرح میں سپرد قلم کر دیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
علاوہ ازیں موصوف کے ہاں حلالہ تو ویسے بھی جائز ہے بلکہ حنفی مولوی لوگوں کو حلالہ کی طرف دعوت بھی دیتے رہتے ہیں کیونکہ جب بھی کوئی مصیبت کا مارا یکبارگی تین طلاق دینے کے بعد ان سے فتوی طلب کرتا ہے تو یہ اسے تاکید کے ساتھ کہتے ہیں کہ ''حلالہ کرانا ضروری ہے'' لہٰذا موصوف ''حلالہ سینٹر'' کھول کر صاحبزادیوں کو اس کی کافی مشق کروا سکتے ہیں۔ بہرحال موصوف نے اس صحیح حدیث کا جو مذاق اُڑایا ہے اس کی سزا وہ یقینا بھگت رہا ہو گا۔ احادیث کا مذاق اُڑانے اور ان سے ٹھٹھہ کرنے کا عذاب یقینا بہت سخت ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں سے ضرور نمٹے گا۔ یوم الحساب بہت قریب ہے۔ اور ظالم اللہ کے عذاب سے بچ نہ سکیں گے۔ اللہ اور رسول سے مذاق کرنے والے منافقین سے کہا گیا:
لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ (التوبہ:۶۶)
''اب عذر نہ کرو تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے''۔
اور دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
کَیْفَ یَھْدِی اﷲُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِھِمْ وَشَھِدُوْآ اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآئَھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اﷲُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (آل عمران:۸۶)
اللہ ایسے لوگوں کو کیوں کر ہدایت دے گا کہ جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا حالانکہ انہوں نے یہ گواہی بھی دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آگئیں اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا''۔
نیز موصوف کو چونکہ صحیح بخاری سے بھی اللہ واسطے کا بیر ہے اس لئے وہ اس طرح کی عبارات لکھ کر لوگوں کو صحیح بخاری سے بھی متنفر کرنا چاہتا ہے اور اس طرح وہ اپنے خبیث باطن کا بھی مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔
موصوف سوال (۱۹۸) میں کہتا ہے کہ ''آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو اٹھا کر نماز پڑھا کرتے تھے''۔ (بخاری و مسلم) اور اس حدیث پر اختلافات کا ذکر کر کے آگے لکھتا ہے (۱۹۹) آپ کے مذہب میں کتا اور خنزیر پاک ہیں۔ (عرف الجادی ص:۱۰) پھر ان کو اٹھا کر نماز پڑھنا کس حدیث کے خلاف ہے۔
(۲۰۰) آپ کے مذہب میں تو نمازی جس چیز کو اٹھائے اس کا پاک ہونا بھی ضروری نہیں (بدور الاہلہ) آپ کے نزدیک تو کتا اور خنزیر پیشاب پاخانے میں لت پت ہو تب بھی نماز ہو جائے گی۔ (تجلیات ج۵ص۴۸۸،۴۸۹)۔
موصوف فقہ حنفی کے مسائل کو اہل حدیث کے سر تھونپنے کی کوشش کر رہے ہیں لہٰذا کیا چیز پاک ہے اور کیا پاک نہیں ہے؟ فقہ حنفی کی روشنی میں جاننے کے لئے ملاحظہ فرمائیں: حقیقۃ الفقہ کی کتاب الطھارات۔ نیز عرف الجادی وغیرہ کتب سے اہل حدیث پر حجت قائم نہیں کی جا سکتی کیونکہ اہل حدیث کے لئے حجت صرف قرآن مجید اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ موصوف مزید لکھتا ہے:
(۱۸۹) حضور نماز میں بیوی کے پاؤں کو ہاتھ لگا لیتے، آپ نماز پڑھتے تو بیوی آپ کی پنڈلیوں کو ہاتھ لگا لیتی اور نماز نہ ٹوٹتی۔ اگر نمازی عورت کے کسی اور حصے کو ہاتھ لگا لے تو نماز ٹوٹ جائے گی یا نہیں؟
(۱۹۰) آپ نماز سے پہلے بیوی کا بوسہ لیتے، اس سے وضو نہ ٹوٹتا، اگر مرد نماز پڑھتی عورت کا بوسہ لے تو عورت کی نماز ٹوٹ جائے گی یا نہیں۔ جواب حدیث صریح سے دیں۔
(۱۹۱) اگر اس کے برعکس مرد نماز پڑھ رہا تھا عورت نے بوسہ لیا تو مرد کی نماز ٹوٹ جائے گی یا نہیں۔ (تجلیات ج۵ ص۴۸۷)۔
بہرحال موصوف نے اپنے مافی الضمیر کا اظہار ان سوالات کے ذریعے کیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ چھپی ہوئی باتیں اور راز اللہ تعالیٰ ظاہر فرما دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فقہ حنفی کے بعض مسائل کا تذکرہ

موصوف کی فقہ کی کتابوں کی اگر ورق گردانی کی جائے تو وہاں ہر طرح کے گندے اور شرمناک مسائل بھی آسانی سے مل جائیں گے سردست چند مسائل ملاحظہ فرمائیں:
کتا پلید اور حرام جانور ہے فقہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کتے کو ذبح کرے اور اس کی کھال کو رنگ کر جائے نماز بنا لے یا ڈول بنا لے یا اس کی جیکٹ بنا لے یا کتے کا گوشت جیب میں ڈال کر نماز پڑھے تو جائز ہے۔ (درمختار صفحہ۲۰ شامی:۱۹۸)
کتے کے بچے کو اٹھا کر نماز ہو جاتی ہے (در مختار ص:۳۰)
جبکہ دوسری طرف حنفی برادری اہل حدیث پر طعن کرتی ہے کہ اہلحدیث کہتے ہیں چھوٹے بچے کو اٹھا کر نماز ہو جاتی ہے۔ اندازہ لگالو کہ آپ لوگوں میں بندہ دشمنی کتنی ہے اور کتا دوستی کتنی ہے؟
اور مرد نماز پڑھ رہا ہو اور عورت بوسہ لے لے تو نماز فاسد نہیں ہوتی (درمختار ص۲۹۳) عالمگیری ص۱۴۳۔ اور نماز کا سلام پھیرنے کے بجائے اگر جان کر پاد مار کر نماز ختم کر لے تو نماز صحیح ہے اگر پاد زبردستی کھسک گیا تو نماز پوری نہیں ہوئی دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھے۔
اور حدیث میں امامت کا مستحق اس کو بتایا گیا جس کو قرآن زیادہ یاد ہو یا زیادہ قرآن و حدیث کا علم ہو یا ہجرت پہلے کی ہو یا اسلام پہلے لایا ہو یا عمر میں بڑا ہو موقع بموقع ہر ان وجوہات میں سے کسی وجہ سے انسان امامت کا زیادہ مستحق ہو سکتا ہے۔
لیکن فقہ حنفی میں امامت کے استحقاق کی عجیب علامتیں ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں اور فقہ کو داد دیں، لکھتے ہیں:
''امامت کا مستحق وہ ہے جس کی بیوی زیادہ خوبصورت ہو'' (درمختار ص۱۱۷)
جب امامت کے لئے کوئی حنفی کسی علاقہ میں جائے پہلے تو اس کی بیوی اور دوسرے مقتدیوں کی بیویوں کی نمائش کی جائے (یعنی مقابلہ حسن منعقد کیا جائے) اگر حقیقتاً امام کی بیوی زیادہ خوبصورت ہو تو اس کو امامت پر فائز کیا جائے ورنہ اس شخص کو امامت دی جائے جس کی بیوی زیادہ خوبصورت ہو۔
اور درمختار ص۱۱۷ پر آیا ہے کہ ''امامت کا مستحق وہ ہے کہ جس کا سر بڑا ہو اور آلہ تناسل چھوٹا ہو'' ۔
چلوسر چھوٹا تو ظاہری چیز ہے لیکن عضو مخصوص کو کون چیک کرے گا؟ اتنے بیہودہ مسئلے جن کتابوں میں ہوں یا تو ایسی کتابوں کو دفن کر دو یا پھر ایسے مسئلے ان کتابوں سے نکال کر حنفی برادری کو روز بروز کی رسوائی سے بچا لو (بلکہ ان تمام کتابوں کو دریا بُرد کر کے صرف قرآن و حدیث کی راہ پر گامزن ہوا جائے۔ ابوجابر)۔ اور لکھا ہے:
''نماز عربی کی بجائے اگر فارسی یا کسی دوسری زبان میں دعا نماز کا ترجمہ کر کے ادا کر دی جائے تو جائز ہے''۔ (ہدایہ ص۸۴ درمختار ج۱ ص۲۲۵)۔
''اور مرد وعورت دونوں ننگے ہوں اور ان کی شرمگاہیں مل جائیں تو پھر بھی وضو نہیں ٹوٹے گا'' (درمختار ج۱ ص:۶۹ عالمگیری ج۱ ص۱۶)
جبکہ حدیث میں آیا ہے کہ شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (ابوداوٗد:۱۸۱)
''اور زندہ یا مردہ جانور مثلاً گدھی، گھوڑی، گائے، بھینس، بھیڑ، بکری وغیرہ یا کم عمر بچی سے جماع کیا تو وضو نہیں ٹوٹتا''۔ (درمختار ج۱ ص:۳۸)
''اگر کوئی (حنفی) اپنی دبر (پاخانہ کی جگہ) میں انگلی داخل کرے اگر خشک نکل آئے تو وضو نہیں ٹوٹتا'' (در مختار ص۷۰)
''مرد اپنی دبر میں یا عورت اپنی شرمگاہ میں کسی مرد کا آلہ تناسل یا کسی زندہ جانور مثلاً گدھا، گھوڑا، کتا وغیرہ کا آلہ تناسل داخل کرے تو غسل فرض نہیں ہوتا''
(درمختار ج۱ ص:۸۳)۔
''ایک درہم کے برابر پاخانہ یا اس جیسی پلیدی لگی ہو تو نماز ہو جاتی ہے''
(ہدایہ صفحہ۵۸۷)
''انگلی کو پاخانہ یا اس جیسی گندگی لگی ہو تو تین دفعہ چاٹنے سے پاک ہو جائے گی''
(بہشتی زیور صفحہ۱۸۔ اور فتاوی عالمگیری ج۱ صفحہ۶۱)
''اگر کوئی عورت کی شرمگاہ دیکھتا رہا (مزے لیتا رہا) یہاں تک کہ انزال ہو گیا تو وہ روزہ درست رہے گا'' (درمختار صفحہ۵۰۹)۔
''مرد عورت سے یا نابالغ لڑکی سے یا گدھی گھوڑی بکری وغیرہ سے صحبت کرے تو روزہ نہیں ٹوٹتا''۔ (درمختار صفحہ۵۱۵)۔
''ہاتھ سے منی نکال لے تو روزہ خراب نہیں ہوتا'' (درمختار صفحہ۵۲۴)
''اگر سوئی ہوئی عورت یا پاگل عورت سے کوئی جماع کر لے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے'' (درمختار صفحہ۵۱۵)
''اگر عورت خاوند کی منی ہاتھ سے نکالنے میں مدد کرے تو روزہ فاسد نہیں ہوتا''
(درمختار ص۵۱۵)
''اگر اغلام بازی (لڑکے سے بدفعلی) سے اپنی خواہش پوری کر لے تو روزے کا کوئی کفارہ نہیں''۔ (ہدایہ جلد۱ صفحہ۲۰۰)۔
''دبر میں صحبت کرنے سے حج خراب نہیں ہوتا''
(فتاویٰ قاضی خان ص:۱۳۷) (بحوالہ احناف کے۳۵۰ سوالات)۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ یہ تمام مسائل فقہ حنفی کے ہیں لیکن ماسٹر امین اوکاڑوی ان مسائل کو اہل حدیث کے کھاتے میں ڈالنا چاہتا ہے۔ اور اس سلسلے میں ان کتابوں کا سہارا لے رہا ہے کہ جو اہل حدیث کے نزدیک مردود ہیں اور جن کے شائع کرنے والے بھی خود حنفی حضرات ہیں۔ کیونکہ اہل حدیث نے کبھی بھی ان کتب کو شائع نہیں کیا۔
 
Top