• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ عشرہ کا تواتراور حدیثِ سبعہ اَحرف کی تشریح

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضورﷺکی قوم قریش تھی، پس ضرور ہے کہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہو اور حدیث میں بھی حضرت عمرو حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کا قول موجود ہے کہ قرآن لغتِ قریش میں نازل ہوا ہے۔
پس اَوّلاً قرآن کانزول لغتِ قریش میں ہوا اور ہجرت سے پہلے چونکہ اِسلام لانے والے زیادہ تر اَہل مکہ تھے جو سب قریش تھے یا قریش کی زبان میں تکلم کرنے والے تھے، اس لیے عرب کے دوسرے لغات میں پڑھنے کی ضرورت نہ تھی، پھر ہجرت کے بعد چونکہ دوسرے قبائل عرب بھی اِسلام میں داخل ہونے لگے تھے اور گو تمام قبائل عرب کی مشترک زبان عربی تھی، مگر تلفظ و اعراب میں بہت کچھ اِختلاف تھا مثلاً قریش ’حَتّٰی حِیْنٍ‘ کو حاء سے پڑھتے تھے اور ھذیل ’عَتّٰی حِیْنٍ‘ عین کے ساتھ پڑھتے تھے، قریش’’ اِنَّآ أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر‘‘ (الکوثر:۱) پڑھتے، اور بعض قبائل ’أَعْطَیْنَا‘ کو ’ أَنْطَیْنَا‘ پڑھتے یعنی بجائے عین کے نون اَدا کرتے تھے ، لغتِ قریش میں حروف مضارع کو فتح یا ضمہ ہوتا ہے بعض قبائل ان کو کسرہ سے پڑھتے تھے مثلاً: ’ تَعْلَمُوْنَ‘ کو ’تِعْلَمُوْنَ‘ کہتے، لغت قریش میں ہمزہ بھی ایک حرف ہے اور بعض قبائل ہمزہ بالکل اَدانہ کرتے تھے،(اور اس اِختلاف کی نظیر ہر زبان میں موجود ہے، مثلاً دہلی اور لکھنو کی اُردو زبان میں اختلاف ہے، ایک کھارا پانی کہتا ہے ایک کھاری پانی بولتا ہے ، کوئی میٹھا دہی کہتا ہے کوئی میٹھی دہی، اسی طرح کسی جگہ چھاچھ بولتے ہیں کہیں مٹھا کسی جگہ چھالیہ بولتے ہیں کہیں ڈلی یا سپاری کہتے ہیں، دہلی والے عموماً ہاء کو یاء بولتے ہیں، مثلاً میں جاریا تھا میں یہ کہہ ریا تھا اور لکھنو والے اس طرح نہیں بولتے) اور قاعدہ ہے کہ مادری زبان کا دفعۃً بدل جانا دشوار ہے، گو پوری کوشش اور اِہتمام سے کام لیا جائے تو ممکن ہے، مگر قدرے دشوار ضرور ہے خصوصاً ایسی قوم کے لیے جس میں لکھنے پڑھنے کا رواج بالکل نہ ہو، بلکہ محض سننے سنانے پر مدار ہو۔ اور ان کے یہاں قرآن کا مدار محض اسی پر تھا، لکھنے پڑھنے والے بہت کم تھے، بس جتنا قرآن جس کے پاس تھا وہ حفظ ہی میں تھا ، اور اس حالت میں دوسرے قبائل اپنے تلفظ ہی کے موافق قرآن کو پڑھتے تھے دفعۃً لغت قریش اور تلفظ قریش کو اَدا نہ کرسکتے تھے (جیسا کہ لکھنو والا دفعتاً دلّی کے محاورات میں گفتگو نہیں کرسکتا، اگر وہ اُردو کا کوئی مضمون لکھ کر دیکھ کر نہ پڑھے بلکہ یادداشت سے پڑھے تو ضرور اپنے لکھنوی تلفظ اور محاورات سے اس کو اَدا کرے گا، ہاں کوشش کے ساتھ یاد کرنے سے بہت جگہ دہلی کے محاورات کوملحوظ رکھنا ممکن ہے ، لیکن کہیں کہیں اس کی مادری زبان کا تلفظ بھی ضرور اَدا ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس لیے حضورﷺ نے اس سے درخواست کی کہ چونکہ اَہلِ عرب زیادہ تر اُمی ہیں اور اُن کے تلفظ و اعراب مختلف ہیں تو دفعۃً سب کو لغتِ قریش کا مکلف کرنے میں اَندیشہ ہے کہ ان سے ان میں کوتاہی ہوگی اور اس کوتاہی کی وجہ سے گناہ میں مبتلا ہوں گے، اس لیے اس میں توسیع فرمائی جائے، چنانچہ درخواست منظور ہوئی اور سات طریقوں سے قرآن پڑھنے کی اِجازت دی گئی اور ان سات طریقوں سے مراد قبائل عرب کی سات لغات ہیں، جن کے نام بھی روایات میں مذکور ہوئے ہیں، یعنی اس کی اِجازت دی گئی کہ جو شخص لغتِ قریش میں قرآن کا تلفظ نہ کرسکے وہ ان قبائل میں سے کسی قبیلہ کے تلفظ میں قرآن کے الفاظ کو اَدا کرلیا کرے اور غالباً سات لغات میں اِنحصار اس لیے کیا گیا کہ ان کے سوا دوسرے قبائل کا تلفظ فصیح نہ تھا، یا یہ کہ ان قبائل کے تلفظ کے تابع دوسرے قبائل تھے، اس لیے زیادہ توسیع کی ضرورت نہ تھی ، اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ لغتِ قریش کے علاوہ جو چھ لغات ان میں تھے ان میں حقیقۃً قرآن کا نزول نہیں ہوا، بلکہ حقیقی نزول لغتِ قریش میں تھا، مگر چونکہ سہولت کے لیے دوسرے چھ قبائل کے تلفظ میں بھی قرآن پڑھنے کی اِجازت دے دی گئی تھی اس لیے حکماً وہ بھی منزل من اللہ ہوگئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’فکل ما ورد فیہ أن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف، أو قال لرجلین قرائتھما مختلفۃ ھکذا أنزلت محمول علی التوسع في الکلام بطریق التجوز، أي أن کلھا منزلۃ حکماً۔‘‘
نیز رِوایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان سات لغات میں پڑھنا ہر شخص کی رائے پرنہ تھا بلکہ رسول اللہﷺسے سن کر پڑھنے کی اِجازت تھی، حضورﷺنے خود دوسرے لغات میں پڑھا کربتلایا تھاکہ لغتِ قریش کے سوا ان لغات میں اس طرح بھی پڑھنا جائز ہے۔
ھــ بخاری کی حدیث میں ’ فاقرئوا ما تیسر منہ‘سے مفہوم ہوتا ہے کہ لغت قریش کے علاوہ دوسری لغات میں پڑھنا واجب نہ تھا صرف جائز تھا اور اس کا منشاء وہی ہے کہ دوسرے لغات کی اِجازت سہولت اور تیسیر کے لیے دی گئی تھی۔
و حضرات صحابہ کرام﷢ کو معلوم تھا کہ قرآن کا نزول اَوّلاً لغتِ قریش میں ہوا ہے اور ہجرت سے پہلے زمانہ قیام مکہ میں تیرہ سال تک ایک ہی قراء ت اور ایک ہی لغت میں حضورﷺکو قرآن پڑھایا گیا اور حضورﷺنے بھی ایک ہی لغت میں مسلمانوں کو قرآن سکھلایا، پھر مدینہ میں ہجرت کے بعد حضورﷺنے اس میں توسع کی درخواست کی جو منظور ہوئی، ان سب اُمور کو صحابہ جانتے تھے کہ قرآن کی اَصلی لغت ،قریش کی لغت ہے اور دوسری لغات کی اِجازت عارضی بغرض تیسیر ہے اور جو حکم عارضی کسی خاص غرض کے لیے ہوتا ہے وہ حصولِ غرض تک محدود ہوتا ہے، پس جب غرض حاصل ہوگئی اور اہلِ عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج ہوگیا، ادھر دوسرے قبائل کا اِختلاط بھی قریش سے زیادہ ہوگیا اور اب سب کو لغتِ قریش میں قرآن پڑھنا آسان ہوگیا ہے، ادھر یہ دیکھا گیا کہ جن لغات میں قرآن پڑھنے کی اِجازت ، سہولت و تیسیر کے لیے دی گئی تھی اب ان کا باقی رکھنا موجبِ اختلاف اور سبب فتنہ بن رہا ہے کہ دوسرے قبائل کے لوگ اپنے ہی طریقہ کو صحیح اور دوسرے طریقوں کو غلط کہتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں تو صحابہ نے اِجماع کے ساتھ اس پر اِتفاق کرلیا کہ اب دوسری قراء توں کوباقی رکھنا مناسب نہیں، بلکہ قرآن کو صرف لغت قریش پر جمع کرنا چاہئے، چنانچہ حضرت عثمان ﷜ کے زمانے میں تمام اَجلّہ صحابہ کے اتفاق سے صرف ایک قراء ت اور ایک ہی لغت پر قرآن جمع کیا گیا کہ یہی قرآن کی اصلی زبان تھی اور بقیہ زبان میں قرآن کا پڑھنا بند کردیا گیا کہ وہ عارضی زبان تھی جو خاص غرض کے لیے جائز کی گئی تھی اور اب وہ غرض حاصل ہوگئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ز اِس تقریر سے معلوم ہوگیا کہ اَحرفِ سبعہ سے مراد وہ قراء ا تِ سبعہ نہیں ہیں جو اس وقت قراء میں رائج اور شاطبیہ وغیرہ میں مدوّن ہیں، کیونکہ یہ قراء اتِ سبعہ سب کے سب لغت قریش کے موافق ہیں، دوسرے لغات عرب ان میں موجود نہیں ہیں۔ رہا یہ سوا ل کہ لغت قریش میں قراء اتِ سبعہ کیوں ہیں، ایک ہی قراء ت کیوں نہ ہوئی، سو اللہ تعالیٰ کے اسرار کو پوری طرح کون سمجھ سکتا ہے۔ لیکن محققین کی برکت سے جو حکمت معلوم ہوتی ہے اس کو عرض کرتا ہوں۔ اس میں ایک حکمت تو یہ ہے کہ تھوڑے لفظوں میں بہت سے اَحکام بیان ہوجاتے ہیں، اگر اختلاف قراء ات نہ ہوتا تو اس حکم کے لیے جو قراء ات کے اِختلاف سے ظاہر کیا گیا ہے، مستقل آیت نازل ہوتی، اور اس طرح قرآن بھی انجیل و تورات کی طرح ضخیم کتاب کی صورت اِختیار کر جاتا، اورقرآن کے حفظ میں دشواری ہوجاتی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سے اَحکام کو ایک ہی آیت میں چند قراء تیں نازل کرکے بیان فرما دیا۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ قرآن کو معجزہ قرار دیا گیا تھا اور بلغاء و فصحاء عرب سے اس کی نظیر کا مطالبہ کیاگیاتھا اور عام طو رپرانسان کے کلام بلیغ و فصیح کا حال یہ ہے کہ اگر اس میں کچھ تغیر کیا گیا تو اس کی فصاحت و بلاغت میں فرق آجاتا ہے، اور یہ تو ضرور ہے کہ تغیر کے بعد دونوں میں ایک درجہ کی بلاغت نہیں رہتی بلکہ ایک میں فصاحت زیادہ دوسرے میں کم ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہمت پست کرنے کے لیے قرآن میں بعض الفاظ کو کئی کئی طرح استعمال فرمایا اور دکھلا دیا کہ کسی کی فصاحت وبلاغت میں ذرہ برابر فرق نہیں اور جس طرح بھی پڑھا جائے ہر حالت میں یہ کلام معجزہ ہے اور یقیناً یہ اَمرمتکلم کی اعلیٰ درجہ کی قدرت کلامی کی دلیل ہے کہ وہ فصاحت و بلاغت پیدا کرنے میں ایک ہی طرز کا محتاج نہیں بلکہ وہ کئی کئی طرح تکلم کرکے بھی کلام کو ایک ہی درجہ پر فصیح و بلیغ رکھ سکتا ہے۔ رہا یہ کہ وہ خاص خاص اَلفاظ کہاں کہاں قرآن میں وَارِد ہیں تو اس کے معلوم کرنے کی ضرورت اب نہیں رہی، کیونکہ حضرت عثمان﷜ ہی کے زمانہ میں تمام اَہل عرب قرآن کو لغتِ قریش میں پڑھنے پر قادر ہوگئے تھے اور یہ حالت دیکھ کر صحابہ نے قرآن کو لغت قریش ہی پر جمع کیا اور بقیہ لغات کو جمع نہیں کیا بلکہ ان میں قرآن کے پڑھنے سے لوگوں کو روک دیا گیا، کیونکہ اس کی اِجازت عارضی تھی اور اب ضرورت باقی نہیں رہی جیسا کہ اُوپر تفصیل کے ساتھ اس کے دلائل مذکور ہوچکے، قراء ت منزل من اللہ صرف ایک تھی، یعنی لغتِ قریش اور حضورﷺ کی درخواست سے جو دوسرے لغات عرب میں قراء ت کی اجازت مل گئی ان کو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے حضورﷺنے بیان فرما دیا اس لیے وہ بھی حکماً منزل تھیں، حقیقۃً ان کا نزول نہیں ہوا، اورنہ ان کے نزول کی ضرورت تھی، کیونکہ اہلِ عرب خود جانتے تھے کہ اس لفظ کو قریش کس طرح بولتے ہیں اور دوسرے قبائل کس طرح۔ نیز حضورﷺ بھی تمام لغات عرب سے واقف تھے کہ وہ کہاں کہاں قریش کے تلفظ سے اختلاف رکھتے ہیں اوراس پر یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے برابر مخلوق کا کلام نہیں ہوسکتا، پھر کلام الٰہی میں حضورﷺ نے کیوں دخل دیا، کیونکہ حضور ﷺ کا یہ دخل خدا تعالیٰ کی اجازت سے تھا، اور اس دخل کا حاصل یہ نہیں تھا، کہ کلام الٰہی میں زیادت یا کمی کی گئی، بلکہ کلامِ الٰہی کے الفاظ میں دوسرے قبائل کو اِجازت دی گئی کہ وہ ان کو اپنے تلفظ کے موافق اَدا کر لیں، (جیسا کہ ہندوستانی مسلمانوںکو اجازت ہے کہ جب تک ان کا تلفظ صحیح ہو اس وقت تک الحمد کو الہمد اور انعمت کو انأمت اور غیر المغضوب علیھم والضالین کو غیر المغذوب علیہم والدوالین پڑھ لیں اور ہر شخص جانتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے غلط تلفظ میں بھی کلام الٰہی کو ہی پڑھتے ہیں، کوئی اور کتاب نہیں پڑھتے، یہی حال اس تلفظ کا تھا جس کی اِجازت حضورﷺ کی دعا سے ہوئی کہ سات لغات میں قرآن کو پڑھ لو، اِتنا فرق ہے کہ اہلِ عرب کے تلفظ میں کہیں لفظ بدلتا تھا، کہیں اِعراب بھی بدلتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رہا یہ سوال کہ قراء ات منزل من اللہ میں کیا تکلیف تھی الخ، تو اس سوال کا جواب ہمارے ذِمہ نہیں، کیونکہ رسول اللہﷺ نے اس تکلیف کا احساس فرمایا اور اس کو تکلیف سمجھا، ہمیں اگر اس کا احساس نہ ہو تو ہمیں اس کے سمجھنے کی بھی ضرورت نہیں، لیکن پھر بھی میں نے تبرعاً اس کی اُوپر مثال لکھ دی کہ جیسے دہلی والوں کے لیے لکھنؤ کا تلفظ اِختیار کرلینا دفعتاً سہل نہیں، یہی حال قبائلِ عرب کا تھا، رہا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ’’لَایُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا‘‘ (البقرۃ:۲۸۶) تو حق تعالیٰ نے اس تکلیف کا لحاظ کیوں نہیں فرمایا، کہ حضورﷺ کی دعا کی ضرورت ہوئی۔ تواس کا جواب یہ ہے کہ ایک لغت میں سب قبائل کا قرآن پڑھنا گو دشوار تھا مگر قدرت و اختیار سے باہر نہ تھا اگر قدرت و اختیار سے باہر ہوتا تو بعد میں سب کو لغت قریش کیونکر آسان ہوگیا اور یقیناً جو کام انسان ایک مہینہ کے بعد کرسکتا ہے وہ پہلے دن بھی اس کے اختیار سے باہر نہیں گو پہلے دن میں اس کا بجا لانا زیادہ دشوار ہو، پس حق تعالیٰ کا حکم ’’لَایُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا‘‘ (البقرۃ: ۲۸۶) کے خلاف ہرگز نہ تھا البتہ حضورﷺنے اس میں زیادہ سہولت کی درخواست کی۔ اور اگر فرض کرلیا جائے کہ لغتِ قریش کا دفعۃً سیکھ لینا دیگر قبائل کی قدرت سے خارج تھا تب بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ’’لَایُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا‘‘ (البقرۃ: ۲۸۶) کے خلاف نہ تھا، کیونکہ اس صورت میں ایک قراء ت کے واجب ہونے کا حاصل یہ ہوتا کہ جب تک یہ قراء ت صحیح طور پر حاصل نہ ہواس وقت تک نمازیں درست نہ ہوں گی، بعد میں ان نمازوں کی قضا واجب ہوگی اور یہ قدرت سے باہر نہ تھا ہاں اُمت پر گرانی ہوتی، حضورﷺ نے اس کو رفع کرنے چاہا۔ یا اس کا حاصل یہ ہوتا کہ جو قبائل قرآن کو قریش کے تلفظ میں اَدا نہیں کرسکتے وہ جب تک قریش کے تلفظ کو نہ سیکھ لیں اس وقت تک خود قرآن نہ پڑھیں، نہ ایسا شخص اِمام بنے، بلکہ ان قبائل کو چاہئے کہ وہ کسی قریشی مسلمان کو اپنے یہاں لے جاکر رکھیں، اس سے قرآن سنا کریں اور اسی کو امام بنایا کریں۔ یہ قدرت سے باہر تو نہ تھا مگر گراں ضرور تھا۔ حضورﷺنے اس مشکل کے رفع کی درخواست کی، جیسا کہ پچاس نمازوں سے پانچ تک تخفیف کی درخواست کی تھی’’لَایُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا‘‘ (البقرۃ: ۲۸۶) کے خلاف وہ حکم بھی نہ تھا ، کیونکہ پچاس نمازیں قدرت سے باہر نہیں ہاں گرانی ضرور ہوتی اسی طرح اس کو سمجھو۔ (امداد الاحکام:ص۲۶۳تا۲۶۷، ص۲۶۹ تا۲۷۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَحرفِ سبعہ سے متعلق ایک دوسرا نظریہ
حضرت علامہ عثمانی﷫کی بیان کردہ اس تفصیل سے قراء اتِ عشرہ کی حجیت و قطعیت اور قرآنیت واضح ہے اور ساتھ ہی حدیثِ سبعہ اَحرف کی جو تشریح آپ نے فرمائی ہے اس کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس سے مراد مختلف قبائل کی لغات ہیں۔ قرآن کریم کا حقیقی نزول اگرچہ ایک ہی لغت، لغت قریش پر ہوا لیکن اُمت کی تیسیر اور آسانی کے لیے اُنہیں اِبتدا میں دیگر لغات میں پڑھنے کی اِجازت بھی دے دی گئی تھی، اس طرح ان کا نزول حکماً تھا۔ بعد میں جب تمام قبائل کے لیے لغتِ قریش میں پڑھنا ممکن ہوا تو باقی لغات میں تلاوت کی اِجازت منسوخ کردی گئی اور صرف لغت قریش میں پڑھنے کا حکم باقی رکھا گیا اور حضرت عثمان﷜ نے حضرات صحابہ کرام﷢ کی مشاورت سے لغت قریش میں ہی جمع فرمایا۔ قراء تِ سبعہ و عشرہ یہ سب اسی لغت قریش پر ہی ہیں۔ حضرت علامہ ابن جریر طبری﷫ وغیرہ کی طرف بھی یہی نظریہ منسوب ہے کہ حضرت عثمان﷫ کے مصحف میں صرف ایک حرف پر قرآن کریم کو جمع فرمایاگیا ہے اور باقی حروف باقی نہیں رہے لیکن حضرت امام مالک﷫ ، علامہ ابن قتیبہ﷫ ، علامہ ابوالفضل راسی﷫ ، قاضی اَبوبکر﷫ ، ابن طیب﷫ ، اِمام ابوالحسن اَشعری﷫ ، قاضی عیاض﷫ ، علامہ ابن حزم﷫ ، علامہ اَبوالولید باجی﷫ ، حضرت امام غزالی﷫ ، ملا علی قاری﷫ (محققِ اعظم فی القرائات محمد بن الجزری﷫ ) جیسے علمائے کرام نے اس نظریے سے شدید اختلاف کیا ہے اور وہ اس پر متفق ہیں کہ ساتوں حروف آج بھی محفوظ اور باقی ہیں۔ عرضۂ اَخیرہ کے وقت جتنے حروف باقی رہ گئے تھے ان میں سے کوئی نہ منسوخ ہوا نہ اُسے ترک کیا گیا بلکہ محقق ابن الجزری﷫ نے اپنے اس قول کو اپنے سے پہلے علماء کا مسلک قرار دیا ہے۔ علمائے متاخرین میں حضرت شاہ ولی اللہ﷫ ، حضرت اَنور شاہ کشمیری﷫ اور علامہ زَاہد الکوثری﷫ کا بھی یہی قول ہے نیز مصر کے مشہور مفتی علامہ محمد بخیت مطیعی﷫ ، علامہ حضرت دمیاطی﷫ ، شیخ عبدالعظیم زَرقانی﷫ نے بھی اس کو اِختیار کیا ہے لہٰذا دلائل سے قطع نظر محض شخصیات سے بھی یہ قول بڑا وزنی ہے۔(علوم القرآن: ص۱۳۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ َاحرف اور اختلافِ قراء ت کے متعلق بحث کرتے ہوئے حضرت محقق العصر علامہ محمد تقی عثمانی ﷾ رقم طراز ہیں:
’’پورے ذخیرۂ اَحادیث میں ہمیں کوئی ایک روایت بھی ایسی نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہو کہ قرآن کریم کی تلاوت میں دو قسم کے اختلافات تھے، ایک سات حروف کا اختلاف اور دوسرے قراء توں کا اختلاف۔ اس کے بجائے بہت سی رِوایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ایک چیز ہیں، کیونکہ ایک ہی قسم کے اختلاف پربیک وقت ’اختلاف قراء ت‘ اور ’اختلافِ اَحرف‘ دونوں اَلفاظ کا اختلاف کیاگیا ہے ۔
مثال کے طور پر حضرت اُبی بن کعب﷜ فرماتے ہیں:
’’کنت بالمسجد، فدخل رجل یصلي فقرأ قرائۃ أنکرتھا علیہ، ودخل آخر فقرأ قرائۃ سوی قرائۃ صاحبہ، فلما قضینا الصلوۃ، دخلنا جمیعا علی رسول اﷲ !۔ فقلت: إن ھذا قرأ قرائۃ أنکرتھا علیہ، ودخل آخر، فقرأ قرائۃ سویٰ قرائۃ صاحبہ، فأمرھما رسول اﷲ ! فقرئا فحسن النبي ! شأنھما فسقط في نفسي من التکذیب ولا إذ کنت في الجاھلیۃ، فلما رأی رسول اﷲ ! ما قد غشیني، ضرب في صدري ففضت عرقا، وکأنما أنظر إلی اﷲ فرقا۔ فقال لي: ’’یَا أُبَيُّ! إِنَّ رَبِّيْ عَزَّوَجَلَّ أَرْسَلَ إِلَيَّ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ عَلـٰی حَرْفٍ، فَرَدَدْتُ إِلَیْہِ أَنْ ھَوِّنْ عَلـٰی أُمَّتِيْ فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّانِیَۃَ، اِقْرَأْہُ عَلـٰی حَرْفَیْنِ، فَرَدَدْتُ إِلَیْہِ أَنْ ھَوِّنْ عَلـٰی أُمَّتِيْ، فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّالِثَۃَ، اِقْرَأْہُ عَلـٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ۔‘‘ (صحیح مسلم: ۸۲۰)
’’میں مسجد میں تھا کہ ایک شخص داخل ہوکر نماز پڑھنے لگا، اس نے ایک ایسی قراء ت پڑھی جو مجھے اَجنبی معلوم ہوئی، پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے پہلے شخص کی قراء ت کے سوا ایک اور قراء ت پڑھی، پس جب ہم نے نماز ختم کرلی تو ہم سب رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچے، میں نے عرض کیا اس شخص نے ایک ایسی قراء ت پڑھی ہے جو مجھے اجنبی معلوم ہوئی، پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے پہلے شخص کی قراء ت کے سوا ایک دوسری قراء ت پڑھی، اس پر آپﷺنے دونوں کو پڑھنے کا حکم دیا، ان دونوں نے قراء ت کی تو حضورﷺ نے دونوں کی تحسین فرما ئی، اس پر میرے دل میں تکذیب کے ایسے وسوسے آنے لگے کہ جاہلیت میں بھی ایسے خیالات نہیں آئے تھے۔ پس جب رسول اللہﷺنے میری حالت دیکھی تو میرے سینے پرہاتھ مارا جس سے میں پسینہ میں شرابور ہوگیا اور خوف کی حالت میں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اللہ کو دیکھ رہا ہوں، پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے اُبی میرے پروردگار نے میرے پاس پیغام بھیجا تھا، کہ میں قرآن کو ایک حرف پر پڑھوں، میں نے جواب میں درخواست کی کہ میری اُمت پر آسانی فرمائیے، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے دوبارہ پیغام بھیجا کہ میں قرآن دو حرفوں پر پڑھوں، میں نے جواب میں درخواست کی کہ میری اُمت پر آسانی فرمائیے، تو اللہ تعالیٰ نے تیسری بار پیغام بھیجا کہ میں اسے سات حرفوں پر پڑھوں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِس روایت میں حضرت اُبی بن کعب﷜ دونوں اَشخاص کے اختلاف تلاوت کو بار بار اختلافِ قراء ت سے تعبیر فرما رہے ہیں اور اسی کو آنحضرتﷺ نے سات حروف کے اختلاف سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے صاف واضح ہے کہ قراء ت کے اختلاف اور حروف کے اختلاف کو عہد ِرِسالت میں ایک ہی چیز سمجھا جاتا تھا اور اس کے خلاف کوئی دلیل ایسی نہیں جو دونوں کی جداگانہ حیثیت پردلالت کرتی ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیزہیں اور جب قراء ات کا محفوظ ہونا تواتر اور اِجماع سے ثابت ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اَحرفِ سبعہ آج بھی محفوظ ہیں۔
مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حروفِ سبعہ کا جتنا حصہ عرضۂ اَخیرہ کے وقت باقی رہ گیا تھا وہ سارے کا سارا عثمانی مصاحف میں محفوظ کرلیا گیا تھااور وہ آج تک محفوظ چلا آتاہے ، نہ اسے کسی نے منسوخ کیا اور نہ اس کی قراء ت ممنوع قرار دی گئی۔ (علوم القرآن:ص۱۳۸تا۱۴۰)
اس پورے بیان سے معلوم ہوگیا کہ حضرت عثمان غنی﷜ نے مصاحف عثمانیہ میں حرف و لغت قریش کے علاوہ دیگر لغات و اَحرف کو بالکلیہ منسوخ نہ فرمایا تھا بلکہ صرف بالجزئیہ فقط اُنہی لغات کو موقوف فرمایا تھا جو قریش کے ہاں معتبر ومتداول و مستعمل نہ تھے۔ باقی بالأغلبیہ ان احرف و لغات ستہ کو یقیناً ثابت و باقی رکھا تھا جو قریش کے نزدیک معتبر ومتداول و مستعمل تھے۔ نیز اس تقریر سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ محض سطحی نظر سے جوبعض علمائے کرام یہ فرما دیا کرتے ہیں کہ عہدِ عثمانی میں صرف ایک ہی لغت باقی رہ گیا تھا اور باقی سب لغات ختم ہوگئے تھے، اس لیے آج اختلاف قراء ت کی گنجائش نہیں، یہ بات سراسر خلافِ واقعہ ہے، کیونکہ جملہ قراء ات عشرہ لغت قریش اور باقی لغات ستہ فصیحہ معتبرہ عند قریش کی روشنی میں عرضۂ اَخیرہ والے سبعہ لغات و سبعہ و جوہ اِختلافِ قراء ت کے مطابق مدوّن ہوئی ہیں، جو حضورﷺ نے آخری سال وفات میں حضرت جبریل امین ﷤ کے ساتھ ماہ رمضان المبارک میں فرمایا تھا۔ اس مضمون کی مزید تفصیلات و تحقیقات ناچیز راقم کی تازہ ترین تالیف ’دفاعِ قراء ات‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک شبہ اور اُس کا جواب
شبہ یہ ہے کہ علامہ ابن جریر طبری﷫ کے بقول دورِ عثمانی میں سبعہ اَحرف میں سے صرف ایک قریشی حرف ہی کو باقی رکھا گیا تھا اور باقی غیر قریشی چھ اَحرف کو موقوف قرار دے دیا گیا تھا پھر سبعہ اَحرف کی بقائیت کا قول کیونکر درست ہوا؟
الجواب: طبری﷫ نے جمع عثمانی میں سبعہ اَحرف میں سے جو صرف ایک ہی حرف قریش کے بقاء کا قول کیا ہے طبری﷫ کے یہاں راجح اور آخری تحقیق کے مطابق اس کا مقصد یہ ہے کہ ابتدائے اِسلام میں بدوی صحابہ کرام﷢ کی رِعایت رکھتے ہوئے سات کلمات و لغات کی حد تک ہم معنی متبادل کلمہ و لغت پڑھنے کی اِجازت تھی۔ لیکن پھر اَوّلاً حضورﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں یہ اِجازت ختم کردی گئی اس کے بعد ثانیاً جمع عثمانی کے وقت ان ستہ مترادفات کی منسوخیت کی مزید اِشاعت و تشہیر کی گئی اَب خاص اس ایک ہی قریشی کلمہ مترادفہ کے پڑھنے کی اجازت ہے جس کے مطابق اَوّلاً قرآن کریم نازل ہوا تھا مثلاً ھلمّ کی جگہ تعال پڑھنے کی اِجازت قطعاً موقوف قرار دے دی گئی۔ علامہ طبری﷫ قطعاً اس کے قائل نہیں کہ ’سبعہ لغات غیرمترادفات‘ اور ’سبعہ وجوہ و اَنواعِ اختلاف قراء ت‘ میں سے بھی صرف ایک ہی قریشی لغت اور صر ف ایک ہی اختلافی وجہ قراء ت پڑھنے کی اجازت ہے اور باقی چھ لغات اور چھ اختلاف وجوہ قراء ات ختم کردی گئی ہیں۔ اس کی قوی ترین دلیل یہ ہے کہ علامہ طبری﷫ نسخ مترادفات ستہ کے باوجود اختلافِ قراء ات کے یقینا قائل ہیں۔ جیسا کہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) تفسیر طبری میں مختلف قراء ات کا تذکرہ موجود ہے ۔
(٢) نیز طبری مقدمہ کتاب المبانی ص۲۳۰ میں فرماتے ہیں:
’’إن القرائات التي تختلف بھا المعاني صحیحۃ منزلۃ من عند اﷲ ولکنھا خارجۃ من ھذہ السبعۃ الأحرف۔‘‘
یہ سب قراء ات جن میں معانی بھی مختلف ہوجاتے ہیں صحیح اور منجانب اللہ نازل شدہ ہیں، لیکن بایں ہمہ یہ ان سبعہ اَحرف (بمعنی کلمات مترادفہ مختلفۃ المادۃ) سے خارج و جداگانہ ہیں۔
(٣) نیز خود طبری قراء ۃِ حمزہ اور رِوایت ورش بطور خاص پڑھا پڑھایا کرتے تھے ۔(مقدمہ تفسیر طبری ص۱۴)
(٤) بلکہ طبری نے ’الجامع‘ نامی ایک بڑی کتاب قراء ات پر تالیف کی جس میں بیس سے زائد قراء ات کا تذکرہ کیا ہے۔ (النشر: ۱؍۳۴)
ظاہر ہے کہ یہ تمام قراء تیں ’سبعہ لغاتِ غیر مترادفہ‘ اور ’سبعہ اَنواع اِختلاف قراء ات‘ کی روشنی ہی میں مدون ہوکر معرض وجود میں آئی ہیں لہٰذا یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ طبری کے یہاں بھی ’سبعہ اَحرف بمعنی سبعہ مترادفات‘ اور ’سبعہ اَحرف بمعنی سبعہ لغات غیر مترادفہ‘ اور ’سبعہ اَحرف بمعنی سبعہ اَنواع اِختلاف قراء ات‘ تین مستقل اَنواع و اَقسام کی اَحادیث ہیں جن میں سے ’سبعہ اَحرف بمعنی سبعہ مترادفات‘ والی اَحادیث تو صرف اِبتدائے اسلام کے زمانے میں معمول تھیں اور اس کے بعد موقوف و منسوخ ہوچکی ہیں۔ لیکن ’سبعہ اَحرف بمعنی سبعہ لغات غیر مترادفہ‘ نیز ’سبعہ اَحرف بمعنی سبعہ اَنواع اختلاف قراء ات‘ والی اَحادیث اب بھی یقینا معمول و باقی ہیں اور یہ لغات و اختلاف قراء اتِ عرضۂ اَخیرہ اور قریشی لغات کی روشنی میں بدستورموجود ہیں،قطعاً منسوخ نہیں ہیں۔ چنانچہ خود علامہ طبری﷫نے ’کتاب القراء ات‘ میں اپنی تحقیقی رائے کی ترجمانی یوں فرمائی ہے :
’’کل ما صح عندنا من القرائات أنہ علمہ رسول اﷲ ! لأمتہ من الأحرف السبعۃ التي أذن اﷲ لہ ولھم أن یقرئوا بھا القرآن، فلیس لنا أن نخطئ من قرأ إذا کان ذلک بہ موافقا لخط المصحف۔‘‘ (الإبانۃ: ص۱۲،۲۰)
’’ہر وہ قراء ت جس کے متعلق بروئے صحت یہ بات ہمارے نزدیک ثابت ہوچکی ہو کہ حضور اَقدسﷺنے اپنی اُمت کو اس کی تعلیم دی ہے وہ ان اَحرفِ سبعہ میں سے ہے جن کے موافق اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کی اُمت کو تلاوت قرآن کی اجازت عنایت فرمائی لہٰذا جب کوئی شخص ایسی قراء ت پڑھے بشرطیکہ وہ رسم عثمانی کی موافقت کرنے والا ہو ہمیں قطعاً اس کی تغلیط کا حق نہیں پہنچتا، واﷲ یقول الحق وھو یھدي السبیل۔ (حیات ترمذی مؤلفہ راقم الحروف:ص۶۸۰ تا۶۸۲)
 
Top