• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن اور قراء اتِ قرآنیہ کے ثابت و حجت ہونے کا بنیادی ذریعہ خبریاتواتر عملی؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خبرواحد کی بنیاد پراشیاء کی حلت و حرمت بھی ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘ سے قرآن بھی ثابت ہوتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے جب صحابہ رضی اللہ عنہم کو قرآن دیا تویہ خبر واحد تھی۔اس طرح جب صحابہ رضی اللہ عنہم سے تابعین نے قرآن سیکھا تو ایسا نہیں تھا کہ ہر ہر تابعی نے صحابہؓ کے ایک جم غفیر سے مکمل قرآن سنا ہو بلکہ ایک صحابی جب کسی ایک تابعی کو قرآن پہنچا دیتے تھے تو تابعی ؒ ‘ صحابیؓ کی اس خبر واحد کو قبول کرتے تھے ۔تابعین کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے ایک ‘ دو یا تین صحابہؓ سے قرآن حاصل کیا ہے او ر یہ سب خبر واحد ہی ہے ،لیکن یہ ایسی خبر واحد ہے جو کہ ’المحتف بالقرائن‘ہے۔قراء ات اَئمہ عشرہ میں اکثر وبیشتر قراء ات ایسی ہیں کہ جن کی اَسناد میں تابعین نے دو،تین ،چار یا پانچ صحابہ رضی اللہ عنہم سے قرآن حاصل کیا ہے۔ روایتِ حفص جو برصغیر پاک و ہند میں پڑھی جاتی ہے،کی سند میں بھی تین تابعین ہیں جنہوں نے پانچ صحابہ رضی اللہ عنہم سے پڑھا ہے۔ قرآن کی اسناد پر ہم بالتفصیل بحث آگے چل کر کریں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھی دلیل: نویں دلیل کے طور پر امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اسی طرح آپؐ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اسی سال حج پر بھیجا اور انہوں نے مجمع عام میں قربانی کے دن سورہ توبہ کی آیات تلاوت کیں(جو کہ ابھی ابھی نازل ہوئی تھیں)اور مشرکین کے ساتھ کیے گئے معاہدات کو توڑنے کا اعلان کیا اوران کے لیے ایک حد مقرر کی اور انہیں چند کاموں سے منع کیا۔پس ابو بکر ؓ و علیؓ اہل مکہ کے ہاں اپنے فضل‘ دین اور صدق میں معروف تھے اورکوئی حاجی جو کہ ان دونوں صحابہؓ یا ان میں سے کسی ایک سے ناواقف تھا، وہ کسی ایسے شخص کو پا سکتا تھا جو اس کو ان دونوں صحابہؓ کے فضل و صدق کے بارے میں خبر دے سکتا تھا۔اللہ کے رسولﷺ کسی بھی ایک شخص کو اس وقت تک بھیجنے والے نہ تھے جب تک کہ اس ایک شخص کے ذریعے ان پر حجت نہ قائم ہوتی ہو کہ جن کی طرف اس کو بھیجا جا رہا ہو‘‘۔ (الرسالۃ: باب الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ’خبر الواحد المحتف بالقرائن‘ سے قرآن بھی ثابت ہوتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ
اہل سنت کے ہاں دین کے بنیادی مآخذ تین ہی ہیں یعنی قرآن، سنت اور اجماع۔یہ تینوں اصول،خبر ہی سے ثابت ہوتے ہیں۔ذیل میں ہم قرآن کے ثبوت کے بنیادی ذریعہ پر بحث کر رہے ہیں۔
قراء کرام نے ہر دور میں اللہ کے رسولﷺسے بذریعہ خبر سنے ہوئے قرآن کی تصدیق کی ہے اور علماء و جمیع اُمت نے اس خبر پر اتفاق کیاہے ۔آج بھی تمام اُمت قراء ہی سے قرآن حاصل کر رہی ہے اور ہر قاری کے پاس وہ سند موجود ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ تک پہنچتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن تحریری شکل میں بھی ہمارے پاس موجود ہے، لیکن یہ تحریر بھی ایک خبر ہی ہے یعنی ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ مصاحف ہمارے اوپر آسمان سے نازل ہوئے ہیں بلکہ ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمارے پاس موجود مصاحف وہی ہیں جو کہ صحابہ ؓکے پاس تھے اور وہاں سے نقل در نقل ہم تک پہنچے ہیں اور صحابہ نے یہ مصاحف اللہ کے رسولﷺ سے قرآن سن کر ترتیب دیے تھے ۔ پس مصاحف بھی صحابہؓ ‘کی خبر ہی کی بنیاد پر مرتب ہوئے ہیں ۔لہٰذا یہ مصاحف اور اِن مصاحف میں جو لکھا ہوا ہے اسے کیسے پڑھنا ہے،یہ دونوں باتیں ہمیں اللہ کے رسولﷺسے بذریعہ خبر ملی ہیں۔پس ہم ان مصاحف اور ان کے پڑھنے کی سند اللہ کے رسولﷺ تک قطعی و یقینی ذریعے سے پہنچاتے ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج ہمارے پاس موجود قرآن وہی ہے جو آج سے چودہ صدیاں پہلے اللہ کے رسولﷺ پر نازل ہوا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اہل سنت کے نزدیک قرآن اللہ کے رسولﷺ سے ایسی خبر کے ذریعے ثابت ہوتا ہے جو کہ قطعی و یقینی ہو۔اسی لیے جمیع اہل سنت حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنبلیہ، اہل الظاہر اور اہل الحدیث (محدثین) کے علاوہ معتزلہ اور اہل تشیع کے نزدیک بھی قرآن کی وہ تمام روایات قرآن ہی ہیں کہ جن کی نسبت اللہ کے رسولﷺ کی طرف قطعی و یقینی طور پر ثابت ہو جائے، چاہے عامۃ الناس ان سے واقف ہو ں یا نہ ہوں۔قرآن کی یہ روایات بیس ہیں اور علماء و قراء کی اِصطلاح میں انہیں عشرۃ قراء ات کہا جاتا ہے۔فقہائے اربعہ اور ان کے متبعین قرآن کی ان روایات کو قرآن مانتے ہیں، لہٰذا فقہ کی کتب میں ان سے مسائل بھی مستنبط کیے جاتے ہیں۔امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ سے لے کر معاصر مفسرین تک تقریباً تمام مفسرین نے کتاب اللہ کی تفسیر میں ان روایات کا تذکرہ کیا ہے اور ان سے قرآن کی تفسیر کی ہے۔ ہر دور میں اُصولیین نے اپنی کتابوں میں ان روایات پر بحث کی ہے اور ان کو قرآن قرار دیا ہے۔ امام سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’جان لو! کتاب اللہ سے مراد وہ قرآن ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ پر نازل کیا گیا ہے‘ مصاحف کے گتوں کے درمیان لکھا گیا ہے اور ہم تک معروف اَحرف سبعہ کے ساتھ تواترسے منقول ہے‘‘۔ (اُصول السرخسی:ص ۲۷۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام غزالی رحمہ اللہ [م ۵۰۵ھ] لکھتے ہیں:
’’کتاب اللہ کی تعریف یہ ہے کہ جو مصحف کے دو گتوں کے درمیان معروف اَحرف سبعہ کے ساتھ ہم تک متواتر منقول ہے۔‘‘ (المستصفی:۱؍۸۱)
ہر دور میں علماء کی ایک بہت بڑی تعدادقرآن کی ان روایات کو پڑھتی،پڑھاتی اور ان کی اسناد اللہ کے رسولﷺ تک پہنچاتی رہی ہے۔آج بھی علمائے امت کا ایک بڑا طبقہ ان تمام روایات کو بااہتمامِ سند نقل کر رہا ہے اوربعض روایات عوامی سطح پر بھی مختلف ممالک میں پڑھی جا رہی ہیں۔ جامعۃ الأزہر ، مصر میں پی۔ایچ۔ڈی کا ایک مقالہ لکھوا گیا ہے، جس میں قرآن کی جمیع روایات کی اسانید کو نقل کیا گیا ہے ۔ ان اسانید میں سے قرآن کریم کی روایت حفص کی سند ’مجمع البحوث الاسلامیۃ القاھرۃ‘ کی تصدیق سے وزارۃ الأوقاف والشؤون الاسلامیۃ کویت، نے شائع کی ہے جو سرکاری سظح پر عام کی گئی ہے ۔ روایت حفص کی اس سند میں عصر حاضر میں شام، مصر، افریقہ،سعودیہ،بلادِ مغرب اور برصغیر پاک و ہند وغیرہ کے معروف قراء کی تقریبا ڈیڑھ سو اسانید اللہ کے رسول ﷺ تک جتنے واسطوں سے پہنچتی ہے، ان سب کو نقل کیا ہے ۔ یہ ایک بہت ہی نادر علمی کام ہے اور اس نہج پر تمام متواتر قرا ء ات کی اسناد کی طباعت کا معاملہ وزارۃ الاوقاف کے ہاں جاری ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دنیا کے تمام بڑے بڑے اسلامی ممالک مثلاً پاکستان، سعودی عرب، مصر، مراکش، لیبیا، تیونس،شام، انڈونیشیا، ملائشیا، کویت ، سوڈان اور ایران وغیرہ میں ہزاروں ایسے مدارس اور یونیورسٹیاں موجود ہیں جو ان روایات کو قرآن کے طور پر پڑھا رہی ہیں، حالانکہ ان روایات کا ایک بڑا حصہ عوام الناس کے پاس نہیں ہے یعنی عامۃ الناس اس کو عملاً پڑھتے نہیں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے فرمان(کلھا شاف کاف)کے مطابق ان میں سے ہر روایت اپنی جگہ مکمل اور کفایت کرنے والی ہے، اسی لیے عامۃ الناس پر تمام روایات کے پڑھنے پڑھانے کا بوجھ نہیں ڈالا گیا ہے۔
بلادِ اسلامیہ کے بعض علاقوں میں کچھ روایات معروف ہو گئیں، جبکہ بعض دوسرے ممالک میں کچھ اور روایات عام ہو گئیں، مثلاًجن علاقوں میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ نافذ ہو گئی وہاں ان کے استاد امام عاصم رحمہ اللہ کی قراء ت عام ہوئی۔یہ ذہن میں رہے کہ سیدنا حفص رحمہ اللہ، جن کی روایت برصغیر پاک وہند میں پڑھی پڑھائی جاتی ہے، امام عاصم رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں۔ علاوہ ازیں جن ممالک میں مالکی فقہ کو پذیرائی ملی وہاں امام مالک رحمہ اللہ کے استاد امام نافع رحمہ اللہ کی قراء ت رائج ہو گئی، جیسا کہ آج بھی جن افریقی و مغربی اسلامی ممالک میں فقہ مالکی پر عمل ہوتا ہے وہاں روایت قالون اور روایت ورش کا رواج ہے اور یہ دونوں روایتیں امام نافعؒ سے ہی مروی ہیں۔ پس جس طرح بہت سے فقہی مذاہب تاریخی، جغرافیائی، سیاسی اور معاشرتی حالات کی وجہ سے صرف کتابوں میں رہ گئے اور عامۃ الناس میں جاری نہ ہوسکے اسی طرح بہت سی قرآن کی روایات ایک خاص عرصے تک ہی عامۃ الناس میں جاری رہی ہیں۔ امام ابن عطیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’قراء اتِ سبعہ بلکہ عشرہ بھی ہر زمانے اور ہر شہر میں رائج رہی ہیں اور ان کی نماز میں تلاوت کی جاتی رہی ہے کیونکہ یہ اجماع امت سے ثابت ہیں ۔‘‘ (المحرر الوجیزلابن عطیۃ:۱؍۹)
لیکن بعد میں بعض فقہی و جغرافیائی اثرات کی وجہ سے عامۃ الناس میں ان کا پڑھنا، پڑھانا ختم ہو گیا اور صرف قراء و علماء کی حد تک باقی رہا، جبکہ عامۃ الناس میں عموماً وہ روایات باقی رہی ہیں کہ جن کا مروج و معروف فقہی مذاہب کے ساتھ کوئی تعلق قائم تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غامدی صاحب سے جب یہ سوال ہوا کہ قرآن کہاں ہے ؟تو اس کاجواب انہوں نے یہ دیا کہ وہ امت کے پاس ہے۔ اگر قرآن اُمت کے پاس ہے تو اس وقت اُمت میں قرآن کی چار روایات یعنی روایت حفص، روایت ورش، روایت قالون اور روایت دوری پڑھی جا رہی ہیں۔غامدی صاحب کے پاس جو قرآن ہے وہ علماء اہل سنت کی اصطلاح میں روایتِ حفص ہے جبکہ غامدی صاحب اس کو ’روایتِ حفص‘ نہیں مانتے بلکہ’ قراء تِ عامہ‘ کہتے ہیں۔دنیا کے تقریبا چالیس ممالک میں روایت ورش اور پانچ ممالک میں روایت قالون اور بعض ممالک میں روایت دوری میں قرآن پڑھا جاتا ہے۔غامدی صاحب کہتے ہیں کہ قرآن امت کے اجماع اور قولی تواتر سے ثابت ہوتا ہے۔امت تو اس وقت عملا پانچ روایات پڑھ رہی ہے کسی ایک روایت کے پڑھنے پر امت کا اتفاق تو دور کی بات ہے ‘ عامۃ الناس کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ قرآن کی’ روایت حفص‘ کے علاوہ بھی کو ئی روایت ہے جو کہ بعض دوسرے اسلامی ممالک میں پڑھی جاتی ہے اور اس کے پڑھنے کا انداز و اسلوب ’روایتِ حفص ‘سے بہت مختلف ہے۔
ایک نشست میں راقم الحروف نے غامدی صاحب سے جب یہ سوال کیا کہ مشرق میں جو قرآ ن پڑھا جارہا ہے ، بلادِ مغرب کے عامۃ الناس اس کو قرآ ن نہیں مانیں گے اور جو بلادِ مغرب میں پڑھا جارہا ہے، مشرق کے لوگ اس کا انکارکریں گے تو اُمت کا ایک قرآن پر اجماع کیسے ہو گا؟ غامدی صاحب نے اس کا جواب یہ دیا کہ اگرچہ مشرق کے عوام الناس کو یہ معلوم نہیں ہے کہ مغرب میں کیا پڑھا جا رہا ہے اور اگر وہ ان کے سامنے پڑھا جائے تو وہ اپنے علماء سے اس کی تصدیق چاہیں گے اور علماء کی تصدیق کی صورت میں اس کو قرآن مان لیں گے،یعنی عوام الناس کا اجماع در اصل علماء کے تابع ہوتاہے لہٰذا قرآن پر اجماع ہو جائے گا،چاہے و ہ مشرق میں پڑھا جا رہا ہو یا مغرب میں۔ غامدی صاحب نے بہت عمدہ بات کی ہے کہ اجماع سے مراد عوام الناس کااجماع نہیں ہے، بلکہ اہل ِعلم کا اجماع ہے۔پس اہل ِعلم حنفی ‘ شافعی ‘ مالکی‘ حنبلی‘ اہل حدیث ‘ بریلوی اور دیوبندی چودھ صدیوں سے بلا اختلاف قرآن کریم میں متعدد انداز سے پڑھنے کی مشروعیت پر متفق ہیں۔ اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ مشرق و مغرب میں پڑھی جانے والی روایت حفص، قالون، ورش اور دوری قرآن ہیں اور اللہ کے رسولﷺ سے قطعی و یقینی سند سے ثابت ہیں ۔اسی طرح یہ سب اہل علم اس بات پر بھی متفق ہیں کہ عشرہ ائمہ کی قراء ات بھی قطعی و یقینی سندسے اللہ کے رسولﷺ سے ثابت ہیں لہٰذا یہ سب قراء ات امت کے اجماع سے ثابت ہوئی ہیں اور اگر کسی نے ا ن کا انکار کیا بھی ہے تو وہ ایسا ہی ہے کہ جس اختلاف کے لیے محترم غامدی صاحب ’ما لا یُعبأ بہ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔کسی بھی مسئلے میں امت کے اجماع سے مراد درحقیقت اہل علم ہی کا اجماع ہوتاہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’تمام محدثین صحیحین کی اکثر احادیث کوقطعاًصحیح کہتے ہیں اور عوام الناس حدیث کے علم میں محدثین کے متبعین ہیں‘پس محدثین کا کسی خبر کے صدق پر اجماع ایسا ہی ہے جیسا کہ فقہاء کا کسی فعل پر اجماع ہو کہ یہ حلال‘حرام یا واجب ہے اور جب اہل علم کا کسی چیز پر اجماع ہوجائے تو تمام عوام الناس اس اجماع میں علماء کے تابع ہوتے ہیں(پس علماء کا اجماع ‘پوری امت کے اجماع کے قائمقام ہے)پس امت اپنے اجماع میںمعصوم ہے‘پوری امت کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خطا پر اکھٹی ہو‘‘۔(مجموع فتاوی ابن تیمیۃ:۱۸؍۱۷)
علاوہ ازیں جس خبر کو امت میں’تلقی بالقبول‘حاصل ہو ، اس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے۔پس روایت حفص ‘ دوری،ورش اور قالون اگرچہ سند کے اعتبار سے خبر واحد ہی کیوں نہ ہوں لیکن عامۃ الناس میں ان کو ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہے ۔ اسی طرح بقیہ روایات قرآن کو اہل علم میں قبولیت عامہ کا درجہ حاصل ہے لہٰذا یہ تمام قراء ات خبر واحد سے ثابت ہونے کے باوجود علم قطعی و یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔ اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ایسی خبر واحد کہ جس کو ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو علم کا فائدہ دیتی ہے اور یہی جمہور احناف‘ مالکیہ‘شوافع اور اصحاب احمدؒ کا قول ہے اور اکثر اشاعرہ کا بھی یہی مذہب ہے جیسا کہ الاستاذ اسفرائینی رحمہ اللہ اور ابن فورک رحمہ اللہ ہیں۔‘‘ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیۃ:۱۸؍۴۱)
حقیقت یہ ہے کہ قرآن اللہ کے رسولﷺ سے قطعی و یقینی سند کے ساتھ ثابت ہوتا ہے اورمشہور قراء کے اتفاق سے قرآن قرار پاتا ہے ۔باقی اُمت قرآن کے معاملے میں قراء کے تابع ہے لہٰذا قرآن کی جس روایت کو قراء قطعی و یقینی سند کے ساتھ اللہ کے رسولﷺ تک ثابت کر دیں اور اس کے قرآن ہونے پر اتفاق کر لیں تو وہ قرآن ہے۔ جس پر قراء کا اتفاق ہے تبعاً اُمت کے علماء اور عامۃ الناس بھی اس کو قرآن قرار دیتے ہیں لہٰذا اس طرح وہ اُمت کے اتفاق سے قرآن قرار پاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’کتاب اللہ کی تعریف یہ ہے کہ اس سے مراد وہ کلام ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ پر نازل کیاگیاہے‘ مصاحف میں لکھا گیا ہے اور ہم تک تواتر سے منقول ہے…ہم تک تواتر سے منقول ہونے کی شرط لگانے سے قراء ات شاذہ نکل گئی ہیں…اور اس ساری بحث کاحاصل کلام یہ ہے کہ جس پر مصاحف مشتمل ہیں اور معروف قراء کا اس پر اتفاق ہو، وہ قرآن ہے‘‘۔ (ارشاد الفحول:ص۴۶،۴۷)
آج قرآن کہاں ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن اس قطعی و یقینی خبر میں ہے کہ جس کی نسبت قراء حضرات نے اللہ کے رسولﷺ کی طرف کی ہے۔قراء کرام متصل سند کے ساتھ اللہ کے رسولﷺ سے حاصل کیے گئے قرآن کو اُمت تک پہنچاتے ہیں ۔یہ قرآن اگرچہ مصاحف میں بھی لکھا ہوا ہے، لیکن قراء سے سیکھے بغیرکسی شخص کے لیے براہِ راست مصاحف سے اس کو صحیح طور پر پڑھنا ممکن نہیں ہے۔ اُمت ہر دور میں قراء کرام ہی سے قرآن سیکھتی آئی ہے۔
آج بھی تمام اسلامی ممالک میں جو مصاحف شائع کیے جاتے ہیں ان کی طباعت و اشاعت کی اس وقت تک اجازت نہیں ہوتی ہے جب تک کہ اس کی تصدیق ان مستند قراء سے نہ کروالی جائے جوکہ باقاعدہ علم قراء ات اور اس سے متعلقہ فنون سے واقف ہوں اور ان کے پاس اس کی سند بھی اللہ کے رسولﷺ تک موجود ہو۔ پس اس وقت جو بھی مصاحف اسلامی ممالک میں شائع ہو رہے ہیں وہ انہی قراء کرام کی تصدیق سے شائع ہو رہے ہیں جو کہ باقاعدہ قرآن کی سند رکھتے ہیں، لہٰذا عامۃ الناس کے پاس جو مصاحف موجود ہیں وہ قراء کے واسطے سے ہیں اور عامۃ الناس مطبوع قرآن کے حصول میں بھی قراء کے محتاج ہیں۔ مثال کے طور پر’مجمَّع الملک فھد‘ کے زیر نگرانی کروڑوں کی تعداد میں جو بھی مصاحف شائع کر کے پوری دنیا میں بھیجے جاتے ہیں ‘ ان سب مصاحف کی مراجعت جلیل القدر مصری و سعودی علماء کی ایک جماعت کرتی ہے اور اس مراجعت میں کتب قر ا ء ات کو ہی معیار بنایا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف مدنی کے آخرمیں ہے:
’’پس علماء کی اس کمیٹی نے اس مصحف کی نظر ثانی کی ذمہ داری قبول کی ہے اور علمِ قراء ات، علم الرسم، علم الضبط، علم الفواصل، علم الوقف اور علم التفسیر کی بنیادی کتابوں سے اس مصحف کی مراجعت کا کام مکمل کیا ہے‘‘۔
یہ مصحف سعودی حکومت کی نگرانی میں شائع ہوتا ہے۔اسی طرح روایت قالون میں ’لیبیا‘ سے شائع ہونے والے مصحف کے آخر میں ہے:
’’تیونس‘ لیبااور بلاد مغرب کے علماء کی ایک کمیٹی نے اس مصحف کی مراجعت کا کام مکمل کیا ہے جو کہ علم قراء ات‘ علم الرسم اور علم ضبط میں ماہر علماء شمار ہوتے ہیں‘‘۔
یہ مصحف’ لیبیا‘کی حکومت کی نگرانی میں شائع ہوا ہے ۔’لیبا ‘میں عوام الناس میں روایت قالون پڑھی جاتی ہیں اسی لیے وہاں روایت قالون میں مصحف شائع ہوتے ہیں۔
’لیبیا‘ ہی سے سرکاری سطح پر شائع ہونے ولے ایک اور مصحف کے آخر میں ہے:
’’امام قالون رحمہ اللہ کی امام نافع رحمہ اللہ سے مروی روایت تمام طبقات میں متواتر ہے۔۔۔امام قالون رحمہ اللہ کی یہ روایت لیبا‘ تیونس ‘ موریطانیہ اور افریقہ کے دوسرے ممالک میں بہت بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے ۔وہ طریقہ کہ جس کے ذریعے یہ روایت ہمارے ان علاقوں میں پھیلی ہے اور اسکے ذریعے قرآن کو یاد کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ روایت ہم تک روایت کے اعلی درجات سے نقل ہوتے ہوئے پہنچی ہے یعنی اس طرح کہ ایک قاری کسی دوسر ے مقری(پڑھانے والے) سے براہ راست قرآن کو اخذ کرتا ہے اور یہ سلسلہ اللہ کے رسولﷺ تک اور پھر حضرت جبرئیل ﷺاور پھر اللہ رب عز وجل تک پہنچ جاتا ہے جیسا کہ ہم نے روایت کی سند میں اس بات کا تذکرہ کیاہے‘‘۔
 
Top