• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن اور قراء اتِ قرآنیہ کے ثابت و حجت ہونے کا بنیادی ذریعہ خبریاتواتر عملی؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
روایت’ دوری‘ میں بیروت سے شائع ہونے والے ایک مصحف کے آخر میں ہے:
’’پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے احسان اور فضل سے امام ابوعمروبصری ؒکے شاگرد ’دُوری‘ کی روایت میں قرآن کو چھاپنے کی توفیق دی ہے ۔اس مصحف کو شام کے فضیلۃ الشیخ محمد کریم راجح اور محمد فھد خاروف نے علم قراء ات، علم الرسم، علم الضبط، علم الفواصل،علم الوقف اور علم التفسیر کے بنیادی مصادر کی رہنمائی میں تیار کیا ہے‘‘۔
اسی طرح مراکش سے ’وزارۃ الأوقاف والشؤون الاسلامیۃ المملکۃ المغربیۃ‘کے تحت شائع ہونے والے مصحف کے آخر میں بھی قراء کی ایک فہرست بیان کی گئی ہے کہ جنہوں نے اس روایت کی تصدیق کی ہے۔یہ مصحف مراکش کی حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر جاری کیا گیا ہے اور یہ روایت ورش میں ہے کیونکہ مراکش اور افریقہ کے اکثر ممالک میں عامۃ الناس روایت ورش میں قرآن پڑھتے ہیں۔
اسی طرح کا معاملہ مصر اور پاکستان سے شائع ہونے والے مصاحف کا بھی ہے ۔مصر میں جامعۃ الازھر کے ما تحت ادارے ’مجمع البحوث الاسلامیۃ‘ کی تصدیق کے بعد مصاحف شائع کیے جاتے ہیں، جبکہ پاکستان میں ’وزارۃ الأوقاف‘ کی طرف سے مقرر کردہ قراء حضرات کی تصدیق کے بعد قرآن کی طباعت اور نشر واشاعت کی اجازت دی جاتی ہے۔
مکتبہ کلِّیہ القرآن، جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عالم اسلام میں مروج چار قراء ات میں چالیس کے قریب مطبوع مصاحف موجود ہیں، جن میں تمام مصاحف کے آخر میں ماہر قراء کے تصدیق نامے موجود ہیں اور اس کے بعد ہی وہ مصاحف نشر کیے گئے ہیں۔ شائقین حضرات تحقیق کی غرض سے ان مصاحف کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
یہ تو مصاحف کا معاملہ ہے جبکہ دوسری طرف مصاحف سے قرآن پڑھنے کے لیے بھی عامۃ الناس قراء ہی کے محتاج ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ۹۹ فی صد طبقہ ایسا ہے جو آج بھی مسجد کے قاری صاحب سے قرآن حاصل کررہا ہے، نہ کہ اپنے ماں، باپ یا دادا، دادی یا نانا نانی سے۔جس ایک فی صد طبقے نے اپنی نانی و دادی سے قرآن سیکھا بھی ہے تو امر واقعہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کی دو سطریں بھی درست نہیں پڑھ سکتے ہیں۔پس ثابت ہوا کہ اصل قرآن قراء ہی سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ عامۃ الناس سے اور عامۃ الناس قرآن کے حصول میں قراء کے تابع ہیں ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الحمد للہ! آج کسی بھی بریلوی‘ دیوبندی‘ اہل حدیث ‘ حنفی ‘ مالکی‘ شافعی یا حنبلی کو یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ہے کہ روایت حفص کے علاوہ بھی قرآن ہے یانہیں؟ اگر انہیں یہ سوال پیدا ہوبھی جائے تو وہ اپنے علماء اور قراء پر اس مسئلے میں اعتبار کرتے ہیں اور وہ کبھی تمنا عمادی صاحب یا جاوید غامدی صاحب سے پوچھنے نہیں جاتے کہ یہ قرآن ہے یا نہیں۔ اس طرح بیس روایات کے قرآن ہونے پر امت کا اتفاق حاصل ہوجاتا ہے، سوائے ان لوگوں کے، جن کی تعداد ورائے کو امت کے اجماع کے بالمقابل کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ آج اللہ کے فضل سے مرکز اسلام مسجد نبوی اور دنیا کی کئی ایک معروف مساجد میں نماز میں کئی ایک روایات میں قرآن پڑھا جاتا ہے۔
اب ہم اس سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں کہ قرآن خبر متواتر سے ثابت ہے یا نہیں؟اگر ہے تو خبر متواتر سے مراد کیاہے؟خبر کے ذریعہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے بعض اوقات وہ ظنی ہوتا ہے اور بعض اوقات قطعی و یقینی ہوتا ہے۔ایسی خبر کہ جس کے ذریعہ قطعی و یقینی علم حاصل ہو خبر متواتر کہلاتی ہے۔متواتر کے اس مفہوم پر اہل سنت کا اتفاق ہے۔بعض علماء نے خبر متواتر کے لیے ایک جم غفیر کی روایت کو بطور شرط بیان کیا ہے لیکن جمہور علمائے اہل سنت کے نزدیک خبر متواتر کو صرف تعداد رواۃکے ساتھ مقید کرنا غلط ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ [م ۷۲۸ھ] فرماتے ہیں:
’’متواتر کی اصطلاح کا اصل مقصود علم یقینی کا حصول ہے جبکہ بعض لوگ متواتر اس کوکہتے ہیں جس کو ایک بہت بڑی تعداد نے نقل کیا ہو اور علمِ یقینی صرف ان کی کثرت تعداد کی بنیاد پر حاصل ہو رہا ہو۔ان کا کہنا یہ ہے کہ ایک مخصوص تعداد جب ایک واقعے میں علم یقین کا فائدہ دیتی ہے تو وہ تعداد ہر واقعے میں علم یقین کا فائدہ دے گی اور یہ قول ضعیف ہے۔صحیح قول جمہور علماء کاہے ‘جس کے مطابق بعض اوقات علم یقینی مخبرین کی تعداد سے حاصل ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات مخبرین کی (اعلیٰ) دینی صفات اور ضبط سے حاصل ہوتا ہے۔اسی طرح بعض اوقات خبر کے ساتھ کچھ ایسے قرائن ملے ہوئے ہوتے ہیں کہ جن کی موجودگی میں علم یقینی حاصل ہو رہا ہوتاہے جبکہ بعض اوقات ایک گروہ کو ایک خبر سے علم یقینی حاصل ہوتاہے اور دوسرے کو نہیں ہو رہا ہوتا ہے۔۔۔جہاں تک اس عدد کا تعلق ہے کہ جس سے تواتر حاصل ہو جائے تو بعض لوگوں نے اس کے لیے ایک مخصوص عدد مقرر کیا ہے ۔پھر جنہوں نے مخصوص عد د مقرر کیا ہے ان میں اس عدد کی تعیین میں بھی اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک چار سے زائد‘ بعض کے ہاں بارہ‘ بعض چالیس‘ بعض ستر ‘ بعض تین سو اور بعض تین سو تیرہ کے عدد کو تواتر کے حصول کی بنیاد بناتے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی کچھ اقوال ہیں لیکن یہ سب اقوال باطل ہیں کیونکہ یہ دعوی میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں جبکہ صحیح قول یہ ہے کہ تواتر کا کوئی عدد مقرر نہیں ہے ۔۔۔(یعنی یہ ایک آدمی سے بھی حاصل ہو سکتاہے اور بعض اوقات ستر سے بھی حاصل نہ ہوگا)۔(مجموع الفتاوی: ۱۸؍۴۹)
امام ابن جزری رحمہ اللہ متوفی ۸۳۲ ھ نے بھی منجد المقرئین میں تواتر کی اصل‘ تعداد رواۃ کی بجائے علم کے حصول کو قرار دیا ہے۔پس جب علماء قرآن کو متواتر کہتے ہیں تو ان کی تواتر سے مراد تعدد رواۃ نہیں ہوتی بلکہ علم یقینی کا حصول ہوتا ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’جان لو! کتاب اللہ سے مراد وہ قرآن ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ پر نازل کیا گیا ہے‘ مصاحف کے گتوں کے درمیان لکھا گیا ہے اور ہم تک معروف أحرف سبعہ کے ساتھ تواترسے منقول ہے۔‘‘(أصول السرخسی:ص ۲۷۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام غزالی رحمہ اللہ [م ۵۰۵ھ] لکھتے ہیں:
’’کتاب اللہ کی تعریف یہ ہے کہ جو مصحف کے دو گتوں کے درمیان معروف أحرف سبعہ کے ساتھ ہم تک متواتر منقول ہے‘‘۔ (المستصفی:۱؍۸۱)
ان دونوں جلیل القدر فقہاء نے قرآن کی تعریف میں قراء ات متواترہ کو بھی شامل کیا ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قراء ات متواترہ کا تواتر، تعدد رواۃ کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ ایسی سند کی بنیاد پر ہے جو یقینی و قطعی طور پر ثابت ہے،کیونکہ قراء ات سبعہ کو نقل کرنے والے أئمہ بھی منفرد ہیں یعنی أئمہ کے طبقے میں اسنادی تواتر غریب کے درجے کو پہنچ جاتا ہے۔اگرچہ یہ بات درست ہے کہ اَئمہ سبعہ کے طبقات میں ایسے قراء موجود تھے جو ان اَئمہ ہی کی طرح قراء ات نقل کر رہے تھے، لیکن ان کی اسناد آگے منتقل نہ ہو سکیں۔پس یہ عددی تواتر طبقاًعن طبق تو موجود ہے یعنی قراء کے ایک بہت بڑے طبقے نے دوسرے بڑے طبقے سے نقل کیا ہے اور قراء کے ان طبقات کے حالات زندگی طبقات القراء کی کتب میں موجود ہیں لیکن استنادی تواتر کہ ایک ہی سندکے ہر طبقے میں قراء کی ایک بڑی تعداد کسی قراء ت یاروایت کو نقل کر رہی ہو تو ایسا عددی تواتر کتب قراء ات میں ہر طبقے کے حوالے سے محفوظ نہیں ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ طبقات القراء کی کتب کاہر طبقے میں سبعہ عشرہ قراء ات کے نقل میں عددی تواترکو ثابت کرنا، خبر واحد سے منقول بعض قراء ات عشرہ کے ثبوت کے لیے قرائن محتفہ میں سے ہے۔ جو عددی تواتر طبقاً عن طبق ہوتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ایک ہی طبقے مثلا تیسری صدی ہجری کے بارے میں طبقات القراء کی کتابوں میں قراء کے حالات زندگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس صدی میں اتنے قراء تھے جو سبعہ عشرہ کو نقل کر رہے تھے، ان کے اساتذہ کی تعداد اتنی تھی اور ان کے شاگرد اتنے تھے۔اس معنی میں عددی تواتر عشرہ قراء ات کے ہر طبقے میں موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصہ کلام یہ ہے کہ غامدی صاحب اس مسئلے میں تو اہل سنت کے ساتھ ہیں کہ قرآن بنیادی مآخذ دین میں سے ہے، لیکن قرآن سے مرادکیاہے ؟ اس میں غامدی صاحب اور اہل سنت میں اختلاف ہے۔ اہل سنت جمیع قراء ات متواترہ کو قرآن کے مسمی میں شامل کرتے ہیں، جبکہ غامدی صاحب ان قراء ات کو فتنہ عجم قرار دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں قرآن کے منتقل ہونے کے جو بنیادی ذرائع ہیں ‘ ان میں بھی اہل سنت اور غامدی صاحب کے درمیان فرق یہ ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن اجماع صحابہؓ سے ثابت ہوتا ہے اور اجماع ہی کے ذریعے منتقل بھی ہوتا ہے، جبکہ اہل سنت کے نزدیک قرآن صحابہؓ کی طرف سے اللہ کے رسول٪ کی طرف منسوب قطعی خبرواحد سے ثابت ہوتاہے، جو بعض اوقات محتف بالقرائن کے قبیل سے ہوتی ہے اور بعض اوقات اس خبر کے ثبوت پر اجماع امت بھی ہوتا ہے ۔ پس دین قرآن کے منتقل و حجت ہونے کا اصل و واحد ذریعہ خبر ہے۔ قرآن وسنت کی بیسیوں نصوص میں ہر دور میں اللہ کے نبی٪ کی طرف سے پہنچائی گئی ہر اس قطعی خبرمیں قرآن کو تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جس کا اتصال آپ تک ثابت ہو۔ پس آج کے دور میں قرآن تاج کمپنی کے مصاحف میں ہے؟ یامولانا اصلاحی کے تفسیری نکات میں؟ یامنکرین قراء ات کی بے بنیاد تحقیقات میں؟ کہاں ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ آج قرآن قراء کی جماعت کی اس قطعی خبر میں ہے کہ جس کی نسبت قراء کرام اللہ کے رسول ﷺ کی طرف متصل طور پر ثابت کرتے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭​
 
Top