• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لفظ نجد کی دلالت (بحوالہ حدیث نجد)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
نجد کی حدیث میں نجد کا لفظ آیا ہے جس لفظ کا بعض لوگ صرف ایک نجد پر اطلاق ثابت کرتے ہیں اور اسکا فائدہ اٹھا کر شیطان کے سینگوں والی حدیث کی غلط تعبیر کرتے ہیں
اسی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ موضوع شروع کیا ہے کہ لفظ نجد کتنے علاقوں پر دلالت کرتا ہے چنانچہ میں اس موضوع کے دائرہ کارکی اچھی طرح وضاحت کر دیتا ہوں تاکہ غیر متعلق باتوں سے کسی کا وقت ضائع نہ کیا جا سکے
محل نزاع

کیا صحابہ کے دور میں اور قرآن و حدیث میں نجد لفظ ہمیشہ صرف ایک خاص علاقے کے لئے بولا جاتا تھا
انتباہ اور بحث کا طریقہ

-تمام ممبران صرف اوپر کے محل نزاع پر بحث کریں گے
-ہر ممبر اپنی پوسٹ میں صرف اوپر محل نزاع کے حق یا مخالفت میں دلائل لکھ سکتا ہے یا پھر پہلے کسی ممبر کی دلیل کو لکھ کر اسکا رد کر سکتا ہے
-غیر متعلقہ بحث کی نشاندہی پر انتظامیہ سے کہہ کر دوسرے ممبران اس غیر متعلقہ پوسٹ کو حذف کروا سکتے ہیں تاکہ لکھنے والوں کا اور پڑھنے والوں کا وقت برباد نہ ہو
بہرام صاحب کیا منظور ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محل نزاع

کیا صحابہ کے دور میں اور قرآن و حدیث میں نجد لفظ ہمیشہ صرف ایک خاص علاقے کے لئے بولا جاتا تھا
میرا دعوی
صحابہ کے دور میں نجد لفظ صرف سعودی نجد کے لئے نہیں بولا جاتا تھا بلکہ اور بھی علاقے (بشمول نجد عراق) بھی اس میں آتے تھے
میری پہلی دلیل
[
سَمِعْتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم يقول : مُهَلُّ أهلِ المدينةِ ذُو الحُلَيْفَةَ، ومُهَلُّ أهلِ الشأْمِ مَهْيَعَةُ، وهي الجُحْفَةُ، وأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنٌ . قال ابنُ عمرَ رَضِيَ اللهُ عنهما : زعَموا أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم قال - ولم أَسْمَعْهُ - : ومُهَلُّ أهلِ اليمنِ يَلَمْلَمُ .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1528

اس حدیث میں رسول اللہﷺ کے ارشاد کے مطابق اہل نجد کے لئے احرام باندھنے کا مقام قرن منازل ہے جیسا کہ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ اس حدیث میں اہل نجد سے مراد سعودی نجد میں رہنے والے لوگ ہی ہیں اور جو لوگ سعودیہ کے دارخلافہ ریاض سے مکہ آتے ہیں وہ قرن منازل میں ہی احرام باندھتے ہیں


لما فُتِحَ هذان المِصْران[/hl] ، أتَوْا عمرَ ، فقالوا : يا أميرَ المؤمنين ، إن رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم حدَّ لأهلِ نجدٍ قَرْنًا ، وهو جَوْرٌ عن طريقِنا ، وإنا إن أَرَدْنا قَرْنًا شقَّ علينا . قال : فانظروا حَذْوَها مِن طريقِكم . فحدَّ لهم ذاتَ عِرْقٍ .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1531

خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عراق کے شہر بصرہ و کوفہ حضرت عمر کے دور میں فتح ہوئے تب جاکر وہان کے لوگ مسلمان ہوئے تو اب ان کے لئے احرام باندھنے کی جگہ کا مسئلہ حضرت عمر کے پاس آیا تو انھوں نے عراق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق کا تعین کردیا
یہ ہے اصح کتاب بعد کتاب اللہ کی گواہی ۔
بہرام صاحب نے اپنی پوسٹ میں مندرجہ بالا احادیث ذکر کی تھیں جس میں دوسری حدیث کا انھوں نے ترجمہ نہیں کیا کیونکہ وہ ترجمہ بتاتا ہے کہ اہل عراق جب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو اپنے آپ کو اہل نجد میں شمار کرتے ہوئے اپنے لئے اہل نجد والے مقام قرن کو متعین سمجھتے تھے مگر مشقت کی وجہ سے دوسرا مقام متعین کروانا چاہتے تھے یہ ہے اصح الکتاب بعد کتاب اللہ کی گواہی بہرام صاحب کی زبانی
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
میرا دعوی
صحابہ کے دور میں نجد لفظ صرف سعودی نجد کے لئے نہیں بولا جاتا تھا بلکہ اور بھی علاقے (بشمول نجد عراق) بھی اس میں آتے تھے
میری پہلی دلیل

بہرام صاحب نے اپنی پوسٹ میں مندرجہ بالا احادیث ذکر کی تھیں جس میں دوسری حدیث کا انھوں نے ترجمہ نہیں کیا کیونکہ وہ ترجمہ بتاتا ہے کہ اہل عراق جب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو اپنے آپ کو اہل نجد میں شمار کرتے ہوئے اپنے لئے اہل نجد والے مقام قرن کو متعین سمجھتے تھے مگر مشقت کی وجہ سے دوسرا مقام متعین کروانا چاہتے تھے یہ ہے اصح الکتاب بعد کتاب اللہ کی گواہی بہرام صاحب کی زبانی
ایک اور حیلہ بہانہ اب نیا دھاگہ ہی بنالیا

جبکہ ان تمام باتوں کا جواب متعلقہ دھاگے میں عرض کیا جاچکا زحمت فرمالیں
http://forum.mohaddis.com/threads/برائیوں-کی-جڑ-نجد-یا-عراق.8357/page-4
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ایک اور حیلہ بہانہ اب نیا دھاگہ ہی بنالیا

جبکہ ان تمام باتوں کا جواب متعلقہ دھاگے میں عرض کیا جاچکا زحمت فرمالیں
http://forum.mohaddis.com/threads/برائیوں-کی-جڑ-نجد-یا-عراق.8357/page-4
بہرام صاحب نے میری دلیل کا واضح جواب کہیں نہیں دیا تھا اگر دیا ہوتا تو وہ یہاں لگا دیتے اس کی بجائے آپ نے خالی تھریڈ کا لنک دے دیا ہے تاکہ وہاں اتنی زیادہ غیر متعلقہ باتیں کی ہیں کہ نہ تو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی کے مصداق کون وہاں جا کر جواب ڈھونڈے گا
اب میں آپ کا جواب یہاں کاپی کر دیتا ہوں
یہ تمام دلائل اصح کتاب بعد کتاب اللہ سے متصادم ہیں وہ کس طرح کہ اوپر جس حدیث کا ترجمہ آپ کو ضعف بصارت کی وجہ سے نظر نہیں آیا اس روایت میں بیان ہوا کہ جب عراق کے شہر دور عمر میں فتح ہوئے اور یہاں کے باشندے مسلمان ہوئے تو ان کے لئے احرام باندھنے کی جگہ کا مسئلہ حضرت عمر کے پاس آیا تب جاکر حضرت عمر کے دور میں عراق والوں کے میقاد کا مسئلہ حضرت عمر نے حل کیا یعنی اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عراق والوں کے احرام بندھنے کی جگہ کا تعین رسول اللہﷺ نے نہیں فرمایا بلکہ یہ تو حضرت عمر نے کیا
1-بہرام صاحب میں نے اپنے پاس سے اوپر کوئی دلیل نہیں لکھی کہ جو آپ کو بخاری کے خلاف لگ رہی ہے بلکہ اوپر کی احادیث آپ نے ہی پیسٹ کی تھیں اسلئے ذرا چشمہ لگا کر دیکھ لیں کہ وہاں لکھا ہے کہ بہرام نے کہا---------
پس اگر آپ اگر یہ مان لیں کہ میں پہلی دلیل غلطی سے دے بیٹھا تھا تو پھر میں وضاحت کروں گا کہ یہ بخاری کے خلاف ہے کہ نہیں
2-آپ کی دلیل میں یہ واضح لکھا ہے کہ
إن رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم حدَّ لأهلِ نجدٍ قَرْنًا ، وهو جَوْرٌ عن طريقِنا ، وإنا إن أَرَدْنا قَرْنًا شقَّ علينا
یعنی اللہ کے رسول نے اہل نجد کے لئے قرن متعین کیا تھا مگر ہم اگر قرن جاتے ہیں تو ہمارے لئے مشکل ہے
بہرام صاحب اب یہ بات آپ کو مثال سے سمجھاتا ہوں اگر سمجھ آ جائے تو
بہرام کو سمجھانے کے لئے مثال

شاکر صاحب ایک اصول بتاتے ہیں کہ اس فورم پر گدھے روزانہ ایک سے زیادہ پوسٹیں نہ کریں اس پر بہرام صاحب واویلا مچاتے ہیں کہ اس طرح اگر میں ایک پوسٹ روزانہ کروں گا تو بات سمجھانا میرے لئے مشکل ہے میرے اوپر یہ اصول نہ لگائیں تو اس سے ایک بچہ بھی سمجھ جائے گا کہ بہرام صاحب----------
شاکر بھائی میں نہیں کہتا مثال دی ہے مجھے بین نہیں کرنا اللہ آپکو جزا دے امین
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں خطہ نجد اور خطہ نجد میں رہنے والوں کے لئے اہل نجد سے متعلق احادیث

- بعث عليٌّ رَضِيَ اللهُ عنهُ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بذُهَبِيَّةٍ ، فقسَّمَهَا بين الأربعةِ : الأقرعِ بنِ حابسٍ الحنظليِّ ثم المجاشعيِّ ، وعيينةَ بنِ بدرٍ الفَزَاريِّ ، وزيدٍ الطائيِّ ثم أحدِ بني نبهانَ ، وعلقمةَ بنِ علاثةَ العامريِّ ، ثم أحدِ بني كلابٍ ، فغضبت قريشٌ والأنصارُ ، قالوا : يُعطي صناديدَ أهلِ نجدٍ ويَدَعُنَا ، قال : ( إنما أَتَأَلَّفُهُمْ ) . فأقبلَ رجلٌ غائرُ العينينِ مشرفُ الوَجنتينِ ، ناتئُ الجبينِ ، كثُّ اللحيةِ محلوقٌ ، فقال : اتَّقِ اللهَ يا محمدُ ، فقال : ( من يُطِعِ اللهَ إذا عصيتُ ؟ أَيَأْمَنُنِي اللهُ على أهلِ الأرضِ فلا تأمنونني ) . فسأل رجلٌ قَتْلَهُ - أحسبُهُ خالدُ بنُ الوليدِ - فمنعَهُ ، فلما وَلَّى قال : ( إنَّ من ضِئْضِئِ هذا ، أو : في عقبِ هذا قومٌ يقرؤونَ القرآنَ لا يُجاوزُ حناجرهم ، يمرقونَ من الدِّينِ مروقَ السهمِ من الرَّمِيَّةِ ، يقتلونَ أهلَ الإسلامِ ويدعونَ أهلَ الأوثانِ ، لئن أنا أدركتهم لأَقْتُلَنَّهُمْ قتلَ عادٍ ) .
ترجمہ داؤد راز
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (یمن سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے، اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظرانداز کر دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف ان کے دل ملانے کے لیے انہیں دیتا ہوں (کیونکہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں) پھر ایک شخص سامنے آیا، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، کلے پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی اٹھی ہوئی، ڈاڑھی بہت گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! اللہ سے ڈرو ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانت دار بنا کر بھیجا ہے۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے کہ یہ حضرت خالد بن ولید تھے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روک دیا، پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اس شخص کے بعد اسی کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے، جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے، یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا (عذاب الٰہی سے) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔
اس حدیث میں ہائی لائٹ کردہ امور پر وضاحت درکار ہے

1۔ اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے یہ چار لوگ جن کو قریش و انصار نے اہل نجد کہا کیا یہ لوگ عراق کے رہنے والے تھے یا سعودی نجد کے


1۔ اس حدیث میں ایک گستاخ خبیث کا ذکر ہوا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا نام ذوالخویصرہ التمیی تھا اور یہ محمد بن عبدالواھاب کے قبیلے بنی تمیم سی تعلق رکھتا تھا اس کی نسل سے پیدا ہونے والے اس جیسے گستاخ و خبیثوں کا طریقہ واردات رسول اللہﷺ نے بیان کیا ہے کہ " یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے " اور آج کل کے عالم اسلام کے حالات کو دیکھتے ہوئے لوگ یہ کہتے ہیں کہ سعودی نجد سے اٹھنے والے اس فتنے کے سبب ہی سے عالم اسلام میں فتنہ برپا ہے اس فتنے میں مبتلا لوگ ہی مسلمانوں کو خود کش دھماکوں سے بے دریغ قتل کر رہے ہیں جبکہ آج کل بت پرستوں لوگ نہایت امن کی حالت میں ہیں یہاں یہ بات یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے گستا خ و خبیث کا تعلق بھی قبیلہ بنی تمیم سے ہے اور موجودہ دور میں جو اس فتنے کا بانی ہے اس کا تعلق بھی قبیلہ بنی تمیم سے ہے
اور اس حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ " جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے "
اور آج کل ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سعودی نجد سے تعلق رکھنے والے قرآن کے قاریوں کی تلاوت قرآن کی دھوم ہے
اب سوال یہ ہے کہ کیا گستاخ و خبیث ذوالخویصرہ التمیی اور اس کاقبیلہ بنی تمیم عراق میں رہتا تھا یا موجودہ سعودی نجد سے ان کا تعلق تھا ؟


دوسری حدیث اگلی پوسٹ میں ان شاء اللہ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
شاکر صاحب ایک اصول بتاتے ہیں کہ اس فورم پر گدھے روزانہ ایک سے زیادہ پوسٹیں نہ کریں اس پر بہرام صاحب واویلا مچاتے ہیں کہ اس طرح اگر میں ایک پوسٹ روزانہ کروں گا تو بات سمجھانا میرے لئے مشکل ہے میرے اوپر یہ اصول نہ لگائیں تو اس سے ایک بچہ بھی سمجھ جائے گا کہ بہرام صاحب----------
شاکر بھائی میں نہیں کہتا مثال دی ہے مجھے بین نہیں کرنا اللہ آپکو جزا دے امین
دلیل رد ہونے پر آپ کا یہ غصہ کرنا آپ کا حق ہے لیکن اگر نفس عمارہ کی ہی باتیں ماننی ہے تو پھر چاہے قرآن و حدیث کے کتنے ہی دلائل دیئے جائے آپ ان کو نہیں قبول کرنا
لیکن ہوسکتا ہے دوسرے پڑھنے والوں کو اس سے فائدہ ہو اس لئے اس کو بیان کرنا مفید رہے گا یہی سوچ کر اب میں یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اصح کتاب بعد کتاب اللہ کی دلیل سے یہ ثابت کروں گا کہ نجدسے مراد کون سا خطہ ہے امید کرتا ہوں آپ بھی یہی موجود رہیں گے اور کوئی اور دھاگہ بنا کر اس دھاگے سے جان نہیں چھڑائے گے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں خطہ نجد اور خطہ نجد میں رہنے والوں کے لئے اہل نجد سے متعلق احادیث

- بعث عليٌّ رَضِيَ اللهُ عنهُ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بذُهَبِيَّةٍ ، فقسَّمَهَا بين الأربعةِ : الأقرعِ بنِ حابسٍ الحنظليِّ ثم المجاشعيِّ ، وعيينةَ بنِ بدرٍ الفَزَاريِّ ، وزيدٍ الطائيِّ ثم أحدِ بني نبهانَ ، وعلقمةَ بنِ علاثةَ العامريِّ ، ثم أحدِ بني كلابٍ ، فغضبت قريشٌ والأنصارُ ، قالوا : يُعطي صناديدَ أهلِ نجدٍ ويَدَعُنَا ، قال : ( إنما أَتَأَلَّفُهُمْ ) . فأقبلَ رجلٌ غائرُ العينينِ مشرفُ الوَجنتينِ ، ناتئُ الجبينِ ، كثُّ اللحيةِ محلوقٌ ، فقال : اتَّقِ اللهَ يا محمدُ ، فقال : ( من يُطِعِ اللهَ إذا عصيتُ ؟ أَيَأْمَنُنِي اللهُ على أهلِ الأرضِ فلا تأمنونني ) . فسأل رجلٌ قَتْلَهُ - أحسبُهُ خالدُ بنُ الوليدِ - فمنعَهُ ، فلما وَلَّى قال : ( إنَّ من ضِئْضِئِ هذا ، أو : في عقبِ هذا قومٌ يقرؤونَ القرآنَ لا يُجاوزُ حناجرهم ، يمرقونَ من الدِّينِ مروقَ السهمِ من الرَّمِيَّةِ ، يقتلونَ أهلَ الإسلامِ ويدعونَ أهلَ الأوثانِ ، لئن أنا أدركتهم لأَقْتُلَنَّهُمْ قتلَ عادٍ ) .
ترجمہ داؤد راز
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (یمن سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے، اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظرانداز کر دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف ان کے دل ملانے کے لیے انہیں دیتا ہوں (کیونکہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں) پھر ایک شخص سامنے آیا، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، کلے پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی اٹھی ہوئی، ڈاڑھی بہت گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! اللہ سے ڈرو ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانت دار بنا کر بھیجا ہے۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے کہ یہ حضرت خالد بن ولید تھے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روک دیا، پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اس شخص کے بعد اسی کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے، جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے، یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا (عذاب الٰہی سے) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔
اس حدیث میں ہائی لائٹ کردہ امور پر وضاحت درکار ہے

1۔ اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے یہ چار لوگ جن کو قریش و انصار نے اہل نجد کہا کیا یہ لوگ عراق کے رہنے والے تھے یا سعودی نجد کے


1۔ اس حدیث میں ایک گستاخ خبیث کا ذکر ہوا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا نام ذوالخویصرہ التمیی تھا اور یہ محمد بن عبدالواھاب کے قبیلے بنی تمیم سی تعلق رکھتا تھا اس کی نسل سے پیدا ہونے والے اس جیسے گستاخ و خبیثوں کا طریقہ واردات رسول اللہﷺ نے بیان کیا ہے کہ " یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے " اور آج کل کے عالم اسلام کے حالات کو دیکھتے ہوئے لوگ یہ کہتے ہیں کہ سعودی نجد سے اٹھنے والے اس فتنے کے سبب ہی سے عالم اسلام میں فتنہ برپا ہے اس فتنے میں مبتلا لوگ ہی مسلمانوں کو خود کش دھماکوں سے بے دریغ قتل کر رہے ہیں جبکہ آج کل بت پرستوں لوگ نہایت امن کی حالت میں ہیں یہاں یہ بات یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے گستا خ و خبیث کا تعلق بھی قبیلہ بنی تمیم سے ہے اور موجودہ دور میں جو اس فتنے کا بانی ہے اس کا تعلق بھی قبیلہ بنی تمیم سے ہے
اور اس حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ " جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے "
اور آج کل ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سعودی نجد سے تعلق رکھنے والے قرآن کے قاریوں کی تلاوت قرآن کی دھوم ہے
اب سوال یہ ہے کہ کیا گستاخ و خبیث ذوالخویصرہ التمیی اور اس کاقبیلہ بنی تمیم عراق میں رہتا تھا یا موجودہ سعودی نجد سے ان کا تعلق تھا ؟


دوسری حدیث اگلی پوسٹ میں ان شاء اللہ
بہرام نے یہ ثابت کرنا ہے کہ نجد کا لفظ احادیث میں صرف ایک علاقہ کے لئے بولا جاتا ہے پس انہوں نے کوئی ایسی حدیث پیش کرنی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ نجد صرف ایک علاقے کا نام ہے
مگر اوپر کی حدیث یا بحث میں ایسی کوئی نص نہیں ملتی اگر بہرام اوپر کی حدیث سے یہ بات ثابت کر دے تو میں بحث چھوڑ دوں گا ورنہ شاکر بھائی سے گزارش ہے کہ یا تو اس طرح کی پوسٹیں ڈیلیٹ کریں یا پھر میری بحث سے معذرت ہے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بہرام نے یہ ثابت کرنا ہے کہ نجد کا لفظ احادیث میں صرف ایک علاقہ کے لئے بولا جاتا ہے پس انہوں نے کوئی ایسی حدیث پیش کرنی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ نجد صرف ایک علاقے کا نام ہے
بہرام صاحب اوپر ہائی لائٹ کردہ بات کے جواب میں آپ کے پاس جو بھی قوی دلیل ہو، بس ایک دلیل، وہ پیش کر دیجئے، تاکہ مکالمہ کو آگے بڑھایا جا سکے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
2-آپ کی دلیل میں یہ واضح لکھا ہے کہ
إن رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم حدَّ لأهلِ نجدٍ قَرْنًا ، وهو جَوْرٌ عن طريقِنا ، وإنا إن أَرَدْنا قَرْنًا شقَّ علينا
یعنی اللہ کے رسول نے اہل نجد کے لئے قرن متعین کیا تھا مگر ہم اگر قرن جاتے ہیں تو ہمارے لئے مشکل ہے
پہلے آپ نے لأهلِ نجدٍ کا ترجمہ ہمارے نجد کرکے گمراہی پھیلانے کی کوشش کی کچھ اس طرح
آپ کی پیش کردہ دلیل میں عراقی کہتا ہے کہ اللہ کے نبی نے تو ہمارے اہل نجد کے لئے قرن کی جگہ متعین کی ہے مگر وہ ہمارے لئے مشکل ہے تو آپ ہمارے لئے جگہ تبدیل کر دیں یعنی وہ اپنے آپ کو اہل نجد میں سمجھتے تھے یہ میں نے پہلے بھی پوچھا تھا مگر گول مول کر دیا گیا
http://forum.mohaddis.com/threads/برائیوں-کی-جڑ-نجد-یا-عراق.8357/page-4
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میں یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اصح کتاب بعد کتاب اللہ کی دلیل سے یہ ثابت کروں گا کہ نجدسے مراد کون سا خطہ ہے امید کرتا ہوں آپ بھی یہی موجود رہیں گے اور کوئی اور دھاگہ بنا کر اس دھاگے سے جان نہیں چھڑائے گے
محترم شاکر بھائی قرآن میں قربانی کے ذبح کے پس منظر میں یوم کا لفظ آتا ہے جس سے کچھ فقہا کہتے ہیں کہ دن کو صرف قربانی کرنی چاہئے مگر دوسرے کہتے ہیں کہ ہوم اگرچہ دن کو اوپر کسی آیت میں بولا جاتا ہے مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ صرف دن کے ساتھ خاص ہے پس جب قرآن میں آتا ہے کہ
سخرھا علیھم سبع لیال و ثمانیۃ ایام حسوما
یہاں یوم سے مراد صرف دن ہے
تو دوسری جگہ یہ ایسے آتا ہے
فتمتعوا فی دارکم ثلاثۃ ایام
یعنی یہاں دن اور رات دونوں یوم کے معنی میں شامل ہیں
اسی طرح کتاب اللہ کا لفظ صرف قرآن کے لئے عموما آتا ہے مگر کبھی کسی خاص حدیث میں اس سے ہٹ کے بھی آیا ہے

پس بخاری کی حدیث میں کہیں نجد کا لفظ آ جائے جو سعودی نجد پر ہی دلالت کرے تو اس سے یہ تو کوئی عقلمند نہیں سمجھ سکتا کہ اب دوسرا نجد قرآن و حدیث میں ہو ہی نہیں سکتا
پس شاکر بھائی یا تو اس سے اصولوں کی پیروی کرا دیں یا پھر میری معذرت ہے
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top