• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجرب وظیفہ کی شرعی حیثیت

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
مجرب وظیفہ کی شرعی حیثیت

تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب

بیماری سے نجات پانے ، مشکل کو دور کرنے اور اپنے کسی مقصد کو پانے کے لئے اکثر آپ نے وظیفہ کا لفظ سنا ہوگاجیسے شادی کا وظیفہ ، اولاد کا وظیفہ، نوکری کا وظیفہ ، میاں یا بیوی کو قابو میں کرنے کا وظیفہ ، نفرت یا محبت پیدا کرنے کا وظیفہ ،ویزہ لگانے کا وظیفہ ، پیٹ کم کرنے کا وظیفہ ، وزن بڑھانے یا گھٹانے کا وظیفہ ، خوبصورت اولاد پانے کا وظیفہ ، بیٹاحاصل کرنے کا وظیفہ، کینسر کاوظیفہ،کورونا کا وظیفہ وغیرہ غرض ہرکام کا الگ الگ بلکہ ایک ایک کام کے سوسووظائف لوگوں میں مشہورہیں ۔
کچھ نمونے آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ بات پوری طرح واضح ہو۔ میں یہاں چھوٹے لوگوں کی بات نہیں کررہاہوں بلکہ بڑے اور عالم طبقہ کی بات کررہا ہوں ۔پاکستان کے ایک بڑے حنفی ادارے جامعہ نبوریہ عالمیہ کی ویب سائٹ پر مجرب وظائف کی ایک لمبی فہرست موجود ہے اس میں سے چند نمونے یہاں پیش کرتا ہوں۔
٭پسند کی شادی کے لئے مجرب وظیفہ :سورہ طہ کی آیت نمبر 131، 132کسی کاغذ پر لکھ کربازو پر باندھ لیں۔
٭چوری شدہ بیک حاصل کرنے کا وظیفہ:سورہ بقرہ آیت نمبر148 کسی گول کٹے ہوئے کپڑے پر لکھ کراس پر بائک کا نام لکھ کرچوری شدہ جگہ پر کسی میخ سے لٹکادےبائک مل جائے گی ۔
٭نوکری کا وظیفہ : عشاء کی نماز کے بعد روزانہ یاوھاب 414 مرتبہ پڑھیں اور "یاوھاب ھل لی من نعمۃ الدنیا والآخرۃ انک انت الوھاب"112 مرتبہ پڑھے ۔
٭نرینہ اولاد کا مجرب وظیفہ:حمل ٹھہرنے کے بعد عورت کے پیٹ پر انگلی سے ستربارگول دارہ کھینچے اور ہردائرہ کے ساتھ "یامتین " پڑھے۔حمل کے شروع میں عورت کے داہنی پسلی پرسورہ الاعلی لکھے۔جب بچہ پیٹ میں ہو تو اس کا نام محمد تجویز کرے۔
٭جیل سے قیدی کی جلد رہائی کا وظیفہ:عصریا مغرب کے بعد سوالاکھ مرتبہ یہ آیت پڑھے "ربنااکشف عنا العذاب انامومنون"۔
٭کینسرکاوظیفہ:"اللھم صل علی محمد بعددکل داء ودواء وبارک وسلم"بعد نماز فجرومغرب دومرتبہ اس طرح پڑھےکہ سوبار پڑھنے کے بعد سات مرتبہ سورہ فاتحہ بغیر آمین اور تین مرتبہ سورہ اخلاص اور پھر سو مرتبہ مذکور درود شریف پڑھے اور اس کا ایصال ثواب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، حضرت مولانا محمدہاشمی سندھی ، اورحضرت مولانا یوسف لدھیانوی کو کرے اور مریض پر دم کرے اور پانی پر دم کرکے پلائے ۔
یہ دوچند نمونے ذکر کیا ہوں ، وگرنہ ان کے یہاں بڑی بڑی کتابیں وظائف پر موجود ہیں ۔ان سب کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے ،بس اتنا سمجھ لیں کہ مسلمانوں کے بعض طبقات (اہل بدعت و اہل تصوف )میں ایک قسم کا دھندا ہے ، اس طبقہ کے اکثرعلماءاس کام میں ملوث ہیں ۔ کورونا کے وقت پاکستان کے ایک بڑے عالم نے ٹی وی پر آکر کورونا بھگانے کاوظیفہ بتایاتھاکہ تین مرتبہ سورہ فاتحہ ، تین مرتبہ سورہ اخلاص اور تین سو تیسرہ مرتبہ حسبنااللہ ونعم الوکیل پڑھوکورونابھاگ جائے گا۔انہوں نے رمضان المبارک 2022 کے موقع سے تیسرے رمضان کا خاص وظیفہ اس طرح بتایا کہ درورد ابراہیم گیارہ بار، سورہ الم نشرح اکیس بار، سورہ قدر اکیس بار اور پھر درود ابراہیم گیارہ بارپڑھو ہرچھوٹابڑامرض دور ہوجائے گا ، اس قسم کے بہت سارے وظائف ان کی طرف سے منقول ہیں۔ یہ حضرت اپنے طبقہ میں شیخ الاسلام سےمشہورہیں ، جب شیخ الاسلام کا یہ حال ہے تو ان سے نیچے کا کیا حال ہوگا؟
آخر کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کہ لوگوں کے یہ بناؤٹی وظیفے شریعت کی روشنی میں کیا حیثیت رکھتے ہیں ؟ شاید کم ہی لوگوں نے اس بارے میں سوچا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولوی یا مولوی نما لوگوں نے ہی اس کام کو بڑھاوا دیا ہےجس سے عوام کو لگتا ہے کہ یہ صحیح عمل ہے ۔ پھر مولویوں میں جب بڑے بڑے مولوی ہرہرکام کا الگ الگ وظیفہ گھڑگھڑ کر لوگوں میں پھیلائے تو چھوٹے چھوٹے مولوی اور مولوی نمامولوی پھر کیوں اس میدان میں پیچھے رہیں گے ۔ گویا بناؤٹی اور خودساختہ وظائف مولوی کی ہی دین ہے مگر یہ بدعتی مولوی ہیں ، سلف کا یہ شیوہ نہیں رہا ہےاور آج نوبت یہ آگئی ہے کہ ایک عام آدمی بھی شہرت اور مال کے لالچ میں وظائف کی دوکان اورکاروبار چلا رہا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ کاروبار دین کے نام پر چل رہا ہے اور اس سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ کتاب وسنت کا علم رکھنے والے بھی کچھ لوگ اس قسم کے وظائف بتانے لگے ۔ بعض علماء کی تقریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دین بس وظائف کا نام ہے، دین کا عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بیحد افسوس کی بات ہے کہ جو دین عمل کرنے کے لئے آیاتھاآج اسے محض وظیفہ کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے اوراس کے نام سے کمائی کی جارہی ہے۔ ایسے میں غیورعلماء کوآگے آکراس قسم کے وظائف اور کاروبار پر روک لگانے کے لئے کوشش کرنی چاہئے یا کم ازکم عوام کو اس کی حقیقت سے روشناس کرانا چاہئے تاکہ بدعات و خرافات سے بچ سکے۔
آئیے میں آپ کو آج اس کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ مجرب وظیفہ کی کیا حیثیت ہے ؟ پہلے یہ جان لیں کہ مجرب وظیفہ کسے کہتے ہیں ۔ مجرب وظیفہ سے مرادکسی کا ایجاد اور تجربہ کیا ہوا وظیفہ یعنی کسی نے اپنی طرف سے کوئی وظیفہ ایجاد کیا ہواس کو مجرب وظیفہ کہتے ہیں ۔اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بناؤٹی وظیفہ کو مجرب وظیفہ کہاجاتا ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین میں کسی کو وظیفہ ایجاد کرنے کی اجازت ہےاور جو متعددقسم کے مجرب وظائف بنائے گئے ہیں اور روزنئے نئے وظیفے بنائے جارہے ہیں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
اس سوال کا جواب کئی جہت سے جاننے کی کوشش کریں چنانچہ یہاں سب سے پہلی بات یہ جان لیں کہ دین اسلام، محمد ﷺ کے زمانہ میں ہی مکمل ہوگیا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا(المائدہ:3)
ترجمہ:آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ ہمارا دین مکمل ہوچکا ہے اس لئے کسی کو دین میں کوئی بات داخل کرنے کی قطعی اجازت نہیں ہے ، جو کوئی بات دین میں اضافہ کی جائے گی وہ بدعت اور مردود ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے: من أَحْدَثَ في أَمْرِنَا هذا ما ليسَ فِيهِ، فَهو رَدٌّ(صحيح البخاري:2697،صحيح مسلم:1718،سنن أبي داود4606, سنن ابن ماجه:14,مشكوة المصابيح:140 )
ترجمہ: جس نے ہمارے دین میں اپنی طرف سے کوئی ایسا کام ایجادکیا جو دین میں نہیں تو وہ مردود ہے۔
اسی حدیث سے جہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دین میں جو بات داخل کردی جائے وہ مردودوباطل ہے، اس کو بدعت کہتے ہیں ، اسی طرح ایک تیسری بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ تجربہ دین میں نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی معاملات میں تجربہ کیا جائے گا۔ دین پر ویسے ہی عمل کیا جائے گا جیساکہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ نے چل کردکھایاہے۔
ان بنیادی تین باتوں کو جان لینے کے بعد اب یہ سمجھیں کہ وظیفہ ذکر ہے اور ذکرعبادت کی ایک قسم ہے لہذا عبادت کے باب میں جو ذکر جیسے وارد ہے اسی طرح کیا جائے گا۔ شریعت میں اذکار دوقسم کے ہیں ۔
پہلی قسم، خاص ذکر:بعض اذکار خاص ہوتے ہیں خواہ وہ وقت کے ساتھ خاص ہویا مرض کے ساتھ خاص ہو یا ضرورت کے ساتھ خاص ہویا تعداد کے ساتھ خاص ہو جیسے صبح وشام کے اذکار، کسی بیماری کی خاص دعا، کسی خاص ضرورت مثلاقرض کی دعا اور اسی طرح بعض ذکر میں تعداد متعین ہوتی ہے مثلا«لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ» دن میں سومرتبہ پڑھنا جس کی بڑی فضیلت وارد ہے ۔
دوسری قسم، عام ذکر:وہ تمام اذکار جو عام ہیں کسی خاص موقع سے نہیں ہیں وہ عام اذکار ہیں ان کو آپ کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں حتی کہ خاص اذکار بھی عام حالات میں کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں کیونکہ ذکر کا مقصد اللہ کی بڑائی بیان کرنا ہے ۔
اب گزشتہ سوال کا جواب یہ ہوا کہ کہ دین میں وظیفہ بنانے اور ایجاد کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہے ، یہ دین کا معاملہ ہے اور دین مکمل ہوچکا ہے ۔ گویا مجرب وظیفہ اسلام کی نظر میں بدعت ہےکیونکہ یہ وحی الہی نہیں ہے بلکہ انسانوں کی طرف سے ایجادکردہ ہے۔ آپ ذرا اندازہ لگائیں کہ مصائب ومشکلات جیسے آج ہیں کل بھی موجود تھے ، عہد صحابہ میں بھی موجود تھے ، کیا صحابہ کرام اپنی طرف سے الگ الگ کام کا الگ الگ وظیفہ ایجادکیا کرتے تھے ۔ فلاں کام کےلئے فلاں آیت یا فلاں ذکر313 مرتبہ فلاں وقت میں پڑھو؟ کیا آپ نے کسی صحابی کا ایسا کوئی عمل سنا یا پڑھا ہے ؟ آپ نے ایسا نہیں سنا یا پڑھا ہوگا کیونکہ صحابہ کرام ایسا کرتے ہی نہیں تھے ۔ وہ اسی طرح سے ذکر کرتے تھے جیسے نبی ﷺ نے تعلیم دی ہے ۔ آخر سب سے پہلے صحابہ نے ہی نبی ﷺ سے دین سیکھا پھر دوسروں کو سکھا یا، تو صحابہ نے دین کو عین اسی طرح پہنچایاجیساکہ نبی سے سیکھا ، اپنی طرف سے کوئی نہ ذکرایجادکیا او ر نہ ہی کسی ذکر کی کوئی تعداد متعین کی ۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سونے کے وقت ایک ذکر جو رسول اللہ ﷺ نے سکھائی ہے اس ذکر میں ایک صحابی نےلفظ"نبی" کی جگہ رسول پڑھ دیا تو نبی ﷺ نے منع فرمایا کہ نبی کہو۔ وہ حدیث دیکھیں اور عبرت حاصل کریں ۔
نبی ﷺ نے سونے کے وقت ایک دعا سکھائی ہے وہ یہ ہے:«اللهم أسلمت وجهي إليك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وفوضت أمري إليك،‏‏‏‏ ‏‏‏وألجأت ظهري إليك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ رغبة ورهبة إليك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم آمنت بكتابك الذي أنزلت،‏‏‏‏ ‏‏‏وبنبيك الذي أرسلت‏»(بخاری:247، مسلم:2710)
اس دعا کے جملہ"وبنبيك الذي أرسلت" میں نبی کی جگہ صحابی نے رسول یعنی «ورسولك‏» کا لفظ کہہ دیا تو نبی ﷺنے فرمایا اس طرح کہو:"وبنبيك الذي أرسلت"۔
جب ایک ذکر میں کوئی صحابی نبی کی جگہ رسول کا لفظ استعمال نہیں کرسکتا ہے اور یہ ممانعت رسول اللہ ﷺ سے وارد ہے پھر کسی عالم یا عام آدمی کواپنی طرف سے وظیفہ گھڑنے یا وظیفہ کی تعداد متعین کرنے یا کوئی وقت خاص کرنے یا کوئی خاص فضیلت بیان کرنے یا کسی خاص ضرورت وحاجت سے جوڑنے کی کیسے اجازت ہوسکتی ہے ؟

اس لئے جان لیں کہ کوئی عالم ہو یا غیرعالم ان کو اجازت نہیں ہے کہ وہ
٭ کسی آیت یا ذکریادعا کو اپنی طرف سے کسی حاجت کے لئے خاص کرے جس کو شریعت نے خاص نہیں کیا ہو۔
٭کسی آیت یا ذکریادعاکی تعداد اپنی طرف سے متعین ومقررکرے جو تعداد شریعت نے نہ بتلائی ہو۔
٭کسی آیت یاذکریادعاکا وقت اپنی طرف سے متعین کرے جووقت شریعت نے متعین نہ کیا ہو۔
٭مذکورہ تین باتوں کے علاوہ بعض ایسے بھی کلمات ذکر کے طور پر کہے جاتے ہیں جو اصلا ذکر ہیں ہی نہیں جیسے یااللہ ، الااللہ ، یاودود، یاوھاب، یالطیف، یامتین وغیرہ ۔ اس قسم کے اذکار رسول اللہ ﷺ سے وارد نہیں ہیں ۔ ذکراس قسم کا ہوتا ہے ، سبحان اللہ ، الحمدللہ ، اللہ اکبر، لاالہ الااللہ ، لاحول ولاقوۃ الاباللہ وغیرہ۔۔یعنی ذکر ایک ایسا کلمہ ہے جس سے کوئی ایک اہم بات سمجھی جاتی ہے جیسے ہم اللہ اکبر کہتے ہیں تو اس سے اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہیں جبکہ اللہ اللہ یا الااللہ میں بات مکمل نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کا ذکرشریعت میں وارد ہے ۔
٭کبھی کبھی لوگ کسی ذکر کو ایک لاکھ مرتبہ مل مل کر آپس میں تقسیم کرتے پڑھتے ہیں مثلا ایک لاکھ مرتبہ درود دس افراد مل کردس دس ہزار کرکے پڑھے ، اس طرح اجتماعی صورت میں ذکر کرنا بھی بدعت ہے کیونکہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
٭کسی ذکر اور وظیفہ کو لکھ کر جسم میں کہیں لٹکانا شرک ہےکیونکہ نبی ﷺ نے ہرقسم کے تعویذکو شرک قرار دیا ہے ۔
٭ کسی عورت یا مرد کے جسم پرقرآن لکھنا قرآن کی بے حرمتی ہے ، العیاذ باللہ ۔عالمی ادارہ کیسےحاملہ عورت کی پسلی پر سورہ الاعلی لکھنے کی تعلیم دیتا ہے اور کیسے پیٹ پر سترمرتبہ گول دائرہ بنانے اور اس پر یامتین پڑھنے کو کہتا ہے ۔دراصل ایسی ہی تعلیمات کی وجہ سے سماج میں ایمان فروش عاملین وافرمقدار میں پیداہوگئے جنہوں رقیہ کے نام پر عورتوں کی عفت وعصمت سے کھلواڑ کیا حتی کہ عورتوں کی شرمگاہ پر بھی اشیاء رکھی جاتی ہیں ، الحفظ والاماں۔
٭ کسی مجرب وظیفہ کو انجام دینے سے اگر کچھ فائدہ نظر آئے تو اس کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ اسی خاص وظیفہ سے فائدہ ہوا ہے بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ فائدہ پہنچانے والا اللہ ہے ، وہ بنامانگے بھی دیتا ہے ۔

خلاصہ یہ ہواکہ ہر قسم کا مصنوعی اور مجرب وظیفہ بدعتی ہے اور بدعتی وظیفہ شریعت کی نظر میں مردود وباطل ہے لہذا آپ لوگ اس قسم کے وظائف سے دور رہیں ۔ بدعت پر عمل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے ، بھلائی اس طریقہ میں ہے جس کو شریعت نے مقررکیا ہے ۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ جیسےہم اپنی زبان میں اللہ سے دعا مانگ سکتے ہیں اسی طرح اپنی زبان میں بھی اللہ کی بڑائی بیان کرسکتے ہیں ،ا س میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے لیکن کسی مقصد اور ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مخصوص وظیفہ ایجاد کرنا، یا وظیفہ میں اپنی طرف سے تعداد اور وقت متعین کرنا بے دینی ، جہالت اور بدعت ہے ۔
آئیے آپ کو پریشانی کا شرعی علاج وحل بتاتاہوں ۔آپ کسی بھی معاملہ میں پریشان ہیں یا بڑی سے بڑی مصیبت میں آپ مبتلا ہیں تو پہلے ایمان درست کریں، گزشتہ برے اعمال سے توبہ کریں اور اللہ سے تعلق جوڑیں اوراس کی بندگی کریں جس کے لئےاس نے ہمیں پیداکیا ہے ،ساتھ ہی اذکار بھی کرتے رہیں، دعابھی کریں خصوصا افضل اوقات میں اور دنیاوی اسباب بھی اپنائیں ۔اس طرح سے ہم شریعت کے دائرےمیں مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں ۔ آج ہمارے اعمال بدسے بدترہیں، پانچ کی نماز تک صحیح سے ادا نہیں کرتے اور دن ورات نہ جانے کتنے کفریہ عمل اور معصیت کے کام کرتے ہیں نتیجتا ہم مشکلات کا شکار ہوتے ہیں تو مشکل سے نکلنے کے لئے ان اسباب کودور کرنا پڑے گا جن کی وجہ سے مصیبت آئی ہے تبھی مصیبت کا صحیح علاج ہوگاورنہ ایک وظیفہ پڑھنے سے ممکن ہے کچھ جھوٹی تسلی مل جائے مگر نجات توبالکل نہیں ملے گی خصوصا اخروی نجات۔
دین پرعمل کرنے والوں کو پریشانی لاحق ہوتی ہے اور اللہ تعالی نے جنت کو پریشانیوں سے گھیررکھا ہے اس جنت میں داخل ہونے کے لئے دنیا میں ہی پریشانی برداشت کرنی ہے اس لئے اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھی جائے ۔ دین قرآن اور حدیث کا نام ہے ، اس پورے دین پر چلنا ہمارا کام ہے ۔اسی پرچل کرہمیں دنیا میں بھی اللہ کی طرف سے نجات و نصرت ، رحمت وشفقت اور فوزوترقی ملتی ہے اورآخرت میں بھی ملے گی ۔
 
Top