• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجہول راوی اور توثیق ضمنی ۔

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم۔
انوار الصحیفۃ لشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ صفحۃ ، ضعیف سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 10 :

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ أَبِي مَعْقِلٍ الْأَسَدِيِّ ، قَالَ : " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَتَيْنِ بِبَوْلٍ أَوْ غَائِطٍ " ، قَالَ أَبُو دَاوُد : وَأَبُو زَيْدٍ هُوَ مَوْلَى بَنِي ثَعْلَبَةَ .

شیخ زبیر فرماتے ہیں: قال البوصيري في زوائد ابن ماجة: "ابو زيد مجهول الحال فالحديث ضعيف به"، و ضعفه الحافظ في فتح الباري (١/٢٤٦)

ابو زيد كو كافي محدثین نے مجھول قرار دیا۔ لیکن امام نووی اسی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

338 - وَعَن معقل بن أبي معقل رَضِيَ اللَّهُ عَنْه قَالَ: " نهَى رَسُول الله [11 / أ] صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ أَن نستقبل الْقبْلَتَيْنِ ببول أَو غَائِط " رَوَاهُ أَبُو دَاوُد بِإِسْنَاد حسن.


حوالہ: خلاصۃ الاحکام للنووی: 1/154، الشاملۃ

تو کیا اب یہ راوی حسن الحدیث نہیں؟؟
اور اگر یہ راوی حسن الحدیث ہے، تو اس روایت کے کچھ الفاظ اس طرح بھی ہیں:

[1850] حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، نا أَبُو كَامِلٍ، نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ أَبِي مَعْقِلٍ الأَسَدِيِّ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ K " أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ "، [ ج 13 : ص 4813 ]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَزَّازُ، نا دَاوُدُ بْنُ مِهْرَانَ، نا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِي زَيْدٍ مَوْلَى ثَعْلَبَةَ، عَنْ مَعْقِلٍ، عَنِ النَّبِيِّ K بِمِثْلِهِ.
[ ج 13 : ص 4814 ]
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى، نا الْقَعْنَبِيُّ، نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ عَمْرُو بْنُ يَحْيَى عَنْ أَبِي زَيْدٍ مَوْلَى الثَّعْلَبِيِّينَ، عَنْ مَعْقِلٍ، عَنِ النَّبِيِّ K بِنَحْوِهِ.
[ ج 13 : ص 4815 ]
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ الْمُطَّوِّعِيُّ، نا عَبْدُ الأَعْلَى، نا وَهَيْبٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ مَعْقِلٍ عَنِ النَّبِيِّ K بِنَحْوِهِ


حوالہ: معجم الصحابۃ لا ابن قانع وغیرہ۔

یعنی ان روایات میں "قبلتین" کی جگہ صرف "قبلۃ" ہے۔

تو کون سے الفاظ صحیح ہیں؟؟

------------------------

دوسری روایت:

انوار الصحیفۃ لشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ صفحۃ 14، ضعیف سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 35 :

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنِ الْحُصَيْنِ الْحُبْرَانِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ K قَالَ: " مَنِ اكْتَحَلَ فَلْيُوتِرْ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ مَنْ لَا فَلَا حَرَجَ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ، وَمَنْ أَكَلَ فَمَا تَخَلَّلَ فَلْيَلْفِظْ، وَمَا لَاكَ بِلِسَانِهِ فَلْيَبْتَلِعْ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ، وَمَنْ أَتَى الْغَائِطَ فَلْيَسْتَتِرْ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ إِلَّا أَنْ يَجْمَعَ كَثِيبًا مِنْ رَمْلٍ فَلْيَسْتَدْبِرْهُ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَلْعَبُ بِمَقَاعِدِ بَنِي آدَمَ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ "، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ثَوْرٍ، قَالَ حُصَيْنٌ الْحِمْيَرِيُّ: وَرَوَاهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ ثَوْرٍ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخَيْر، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو سَعِيدٍ الْخَيْر هُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ

شیخ زبیر فرماتے ہیں: "حصین مجھول ہے"

لیکن، امام نووی اسی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:

- وَعَن أبي هُرَيْرَة رَضِيَ اللَّهُ عَنْه، عَن النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ قَالَ: " من اكتحل فليوتر، من فعل فقد أحسن، وَمن لَا، فَلَا حرج، وَمن استجمر فليوتر، وَمن فعل فقد أحسن، وَمن لَا، فَلَا حرج، وَمن أكل فَمَا تخَلّل فليلفظ، وَمَا لاك بِلِسَانِهِ فليبتلع، من فعل فقد أحسن، وَمن لَا، فَلَا حرج، وَمن أَتَى الْغَائِط فليستتر، فَإِن لم يجد إِلَّا أَن يجمع كثيبا من رمل فليستدبره فَإِن الشَّيْطَان يلْعَب بمقاعد بني آدم، من فعل فقد أحسن، وَمن لَا، فَلَا حرج " حَدِيث حسن، رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَغَيره.


حوالہ: خلاصۃ الاحکام: 1/147

تو کیا یہ راوی حسن الحدیث نہیں بنتا؟؟

والسلام!
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
بھائی توثیق ضمنی (تصحیح کردہ سند کے رواۃ کی توثیق) علی الاطلاق قابل قبول نہیں ہونی چاہئے ۔
کیونکہ تصحیح میں بھی کبھی کبھی محدث سے تساہل ہوسکتا ہے بالخصوص متاخرین سے اور ان میں بھی ان لوگوں سے جو نقد رجال میں متخصص نہیں ہیں۔
امام نووی رحمہ اللہ کا تحسین میں تساہل معروف بات ہے ۔
اورجس راوی کو بیشتر محدثین پوری صراحت کے ساتھ مجہول بتلائیں اور اسی سبب اس کی مرویات کو ضعیف قرار دیں ، اور اس کا روای کا مجہول ہونا عام اورمعروف اورمتفق علیہ بات ہو تو ایسی صورت میں امام نووی یا کسی اور امام کی تصحیح یا تحسین سے توثیق ضمنی مراد لینا درست نہیں ہوگا ۔
الایہ کہ سیاق وسباق سے پتہ چل جائے کہ یہاں پر محدث نے جو تصحیح کی ہے وہ پوری ذمہ داری اورپورے اعتماد سے کی ہے مثلا کسی مخالف کا رد کرتے ہوئے کوئی حدیث پیش کرے اور کہے کہ اس کی سند صحیح ہے، کیونکہ ایسے معاملات میں اہل علم کا تساہل سے کام لینا بہت مستبعد ہے ، لہٰذا دریں صورت اس کی تصحیح سے رواۃ کی توثیق سمجھی جاسکتی ہے۔
 
Top