. 15اِس پُرفتن دور میں دُنیا کے مجموعی حالات کو دیکھ کر آپ کیا سوچتی ہیں؟
بہت زیادہ سوچتی ہوں ہر ہر پہلو سے سوچتی ہوں کیونکہ بدلتے حالات میں دنیا کا اصل چہرہ تو روپوش ہی ہو گیا ہے اور ایک بھیانک منظر، لادین تہذیب ہے قسم قسم کے نظریات ہیں اور ان میں نمایاں رب کائنات سے سر کشی ہے ،مادہ پرستی و ہوس زر ہے اور اس کے نتیجے میں انسان کا انسان پہ ظلم ہے اپنوں اور غیروں کی ناانصافیاں ہیں عصبیت و نفرتیں ہیں ،خون و لاشیں ہیں جلتے ہوئے مکانات تباہ حال گلی کوچے ہیں ،بے سکون و اداس دل و چہرے ہیں اور ہماری بے حسی ہے کہ ہم چلتے چلتے بھی یہ نہیں پوچھتے کہ یہ کس کا لہو ہے؟؟؟
یہ کیوں بہہ رہا ہے ؟؟؟
کون ہیں جو یہ سب کر رہے ہیں؟؟
یہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلام کے نام لیواؤں پہ کفر کی یلغار ہے ۔نہتے و مجبور و بے بس مسلمان ان مظالم کی زد میں ہیں ، ان ریشہ دوانیوں کا ذمہ دار کون ہیں ؟؟
جب انفرادی گناہ مل کر اجتماعی صورت اختیار کرنے لگیں اور برائی کی کثرت عام ہوجائے اور بھلائی کی قوتیں مضمحل ہوجائیں تو پھر ذلت و پستی اور محکومیت قوموں کا مقدر بن جاتی ہے ، یہ سوچ کر میں اپنا بھی جائزہ لیتی ہوں کہ اس اجتماعی غفلت میں کہیں میرا کردار بھی شامل تو نہیں ؟ کہیں برائی کے اس عام چلن میں میں خاموش تماشائی تو نہیں ۔لہذا مجھے اپنے حصے کا فرض ادا کرنا ہے اور یہی ذمہ داری دنیا و آخرت میں سرخروئی کا واحد راستہ ہے اسی فرض کو بنھاتے ہوئے اپنے ساتھ ایسی خواتین کا قافلہ تیار کرنا ہے جو اپنے اپنے گلشن میں اپنے سیرت وکردارسے ا ور تربیت اطفال سے روشنی کے چھوٹے چھوٹے ضو پاش دئے جلائیں ۔
بقول شاعر
ایک موج مچل جائے طوفان بن کے
ایک پھول اگر چاہے گلستان بن جائے
ایک خون کے قطرے میں ہے تاثیر کتنی
ایک قوم کی تاریخ کا عنواں بن جائے ۔