القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
السلام علیکم ورحمہ اللہ۔
یہ کیسا "جہاد" ہے کہ جس سے مسلمان پریشان ہے؟؟؟
یہ کیسا "جہاد" ہے جس سے کبھی کفار پریشان نہیں ہوئے؟؟؟
یہ کیسا "جہاد" ہے جو امن کی بجائے بد امنی کی نشانی بن چکا ہے؟؟؟
یہ کیسا "جہاد" ہے کہ جس سے مسلمان پریشان ہے؟؟؟
یہ کیسا "جہاد" ہے جس سے کبھی کفار پریشان نہیں ہوئے؟؟؟
یہ کیسا "جہاد" ہے جو امن کی بجائے بد امنی کی نشانی بن چکا ہے؟؟؟
کراچی – قبائلی عمائدین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں آباد محسود قبائلی دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور وہ عسکریت پسندی سے اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں امن کی بحالی کے لیے پاکستانی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر لے
کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی امان اللہ محسود نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ پوری دنیا امن کی وکالت کر رہی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ طالبان اور ہمارے قائدین مل بیٹھ کر دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل کریں۔
محسود نے جو خود بھی وزیرستان سے تعلق رکھتے ہیں کہا کہ عسکریت پسندی کے نتیجے میں کاروبار، ذرائع معاش اور زراعت کو نقصان پہنچا ہے جس سے وزیرستان کے ہزاروں باشندوں کی زندگیاں منسلک تھیں۔
جنوبی وزیرستان میں غیر سرکاری تنظیموں کے قبائلی نیٹ ورک کے اتحاد کے چیئرمین زر علی خان موسٰی زئی نے اس کوشش کا تخمینہ لگاتے ہوئے کہا کہ محسود قبائلیوں نے جنوبی وزیرستان میں جاری عسکریت پسندی سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے سیاسی رہنماؤں، حکومت اور سیکورٹی فورسز کو آگاہ کیا ہے کہ سیکورٹی فورسز پر حملوں اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں بیرونی عناصر ملوث ہیں۔
محسود قبائلی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں حکومت کے اصلاحاتی منصوبے پر کام کرنے والے موسٰی زئی کے بقول جنوبی وزیرستان کے عمائدین نے اپنے امیر ولی الرحمٰن اور تحریک طالبان پاکستان کے دیگر قائدین سے بھی کہا ہے کہ وہ عسکریت پسندی ترک کر کے امن کے لیے کام کریں۔ ولی الرحمٰن تحریک طالبان پاکستان کا دوسرے نمبر پر بڑا رہنما ہے۔
موسٰی زئی نے کہا کہ جنوری میں ایک محسود وفد نے جمعیت علماء اسلام فضل کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی اور جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے ان کی حمایت طلب کی۔
محسود وفد نے فضل الرحمٰن کو بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں جاری عسکریت پسندی میں ان کا قبیلہ ملوث نہیں تھا اور یہ کہ اس کے ذمہ دار بیرونی عناصر کو سزا ملنی چاہیے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن سے درخواست کی کہ وہ تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کو ایک امن معاہدے پر دستخط کرنے پر قائل کریں۔
خیبر پختونخواہ اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام فضل کے رکن اور جماعت کے ترجمان مفتی کفایت اللہ نے 11 فروری کو سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ جے یو آئی ایف پاکستان میں امن و سلامتی اور اس کی سالمیت کی خاطر تمام تجاویز کی حمایت کرتی ہے۔
کفایت اللہ نے کہا کہ ہم تو شروع سے ہی امن کے حامی رہے ہیں مگر اے این پی کو اس کا احساس اس وقت ہوا ہے جب اس کے متعدد قائدین، کارکن اور ہزاروں بے گناہ پاکستانی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس جنگ میں 50 ہزار سے زائد پاکستانی لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ملک کو اب مزید خونریزی کی ضرورت نہیں ہے۔
موسٰی زئی کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں محسود قبائلیوں سمیت جنوبی وزیرستان کے 6 لاکھ سے زائد رہائشی اپنے گھر بار چھوڑ کر ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی کو نقل مکانی کر گئے ہیں کیونکہ جاری عسکریت پسندی نے ان کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تحریک طالبان پاکستان اور حکام کو جنوبی وزیرستان اور عسکریت پسندی سے متاثرہ دیگر علاقوں میں خونریزی اور تکالیف کا خاتمہ کرنے کے لیے نیک نیتی سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔
رحمان ملک نے مذاکرات کے لیے طالبان سے نام مانگ لیے
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہے مگر وہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے وابستگی کا مظاہرہ دیکھنا چاہتی ہے۔
وزیر داخلہ رحمان ملک نے 11 فروری کو کہا کہ اگر طالبان امن کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اپنے ان مندوبین کی نشاندہی کرنا ہو گی جو مذاکرات میں گروپ کے مفادات کی نمائندگی کریں گے۔ تاہم ان کے بقول طالبان کو سب سے پہلے دہشت گردی کی مذمت کرنا ہو گی، قتل و غارت اور بم دھماکوں کا سلسلہ بند کرنا ہو گا اور ہتھیار ڈالنے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ طالبان نہ تو حکومت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی بم دھماکوں، حملوں اور قتل کی کارروائیوں سے ہمیں بلیک میل کر سکتے ہیں۔ اگر طالبان نے دہشت گردی ترک نہ کی تو حکومت ان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے گی۔
عسکریت پسندی سے پاکستان کو بے انتہا نقصانات کا سامنا
دریں اثناء قبائلیوں اور پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے بڑھتی ہوئی اموات پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
محسود نے کہا کہ پاکستان اور اس کے عوام نے گزشتہ دس سالوں میں عسکریت پسندی کے ہاتھوں بے انتہا نقصانات کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 40 ہزار سے زائد لوگ دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں جن میں 5 ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی نے محسود قبائلیوں کے تصور کو داغ دار کر دیا ہے اور جب بھی خیبر پختونخواہ یا کراچی میں کوئی بم دھماکہ ہو تو وہ خود بخود ملزم تصور کر لیے جاتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق اے این پی اس قتل عام کے خاتمے میں مدد دینے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور اسے کافی امید ہے کہ اسلام آباد میں 14 فروری کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کا کوئی راستہ تلاش کر لیا جائے گا۔
لنک