• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رگ کاٹنے اور داغنے سے علاج۔
1482: سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا ابی بن کعبؓ کے پاس حکیم کو بھیجا، اس نے ایک رگ کاٹی (یعنی فصد لی)، پھر اس پر داغ دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : زخم کا علاج داغ دینے سے۔
1483: سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن معاذؓ کو اکحل (ایک رگ ہے ) میں تیر لگا، تو رسول اللہﷺ نے ان کو اپنے ہاتھ سے تیر کے پھل سے داغ دیا، ان کے ہاتھ پر سوزش ہو گئی تو آپﷺ نے دوبارہ داغ دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : شراب کے ساتھ دوا (جائز نہیں)۔
اس باب کے بارے میں سیدنا وائل بن حجرؓ کی حدیث کتاب الاشربہ میں گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث: 1279)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب: طاعون کے متعلق

باب : طاعون کے بارے میں، اور یہ کہ یہ ایک عذاب ہے ، اس لئے نہ تو اس (طاعون زدہ بستی) میں داخل ہو اور نہ اس (طاعون زدہ بستی) سے بھاگو۔
1484: سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: یہ بیماری (طاعون ایک) عذاب ہے جو تم سے پہلے ایک امت کو ہوا تھا۔ پھر وہ زمین میں رہ گیا۔ کبھی چلا جاتا ہے ، کبھی پھر آتا ہے۔ لہٰذا جو کوئی کسی ملک میں سنے کہ وہاں طاعون ہے ، تو وہ وہاں نہ جائے اور جب اس کے ملک میں طاعون نمودار ہو تو وہاں سے بھاگے بھی نہیں۔

1485: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ شام کی طرف نکلے۔ جب (مقامِ) سرغ پر پہنچے (جو کہ کنارہ حجاز پر شام سے متصل ایک بستی ہے ) تو ان سے اجناد کے لوگوں نے ملاقات کی (اجناد سے مراد شام کے پانچ شہر ہیں، فلسطین ، اردن، دمشق، حمص اور قنسرین) سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح اور ان کے ساتھیوں نے ان سے بیان کیا کہ شام کے ملک میں وبا پھیل گئی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ میرے سامنے مہاجرین اوّلین کو بلاؤ۔ (مہاجرین اوّلین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہو) میں نے ان کو بلایا۔ سیدنا عمرؓ نے ان سے مشورہ لیا اور ان سے بیان کیا کہ شام کے ملک میں وبا پھیلی ہوئی ہے۔ انہوں نے اختلاف کیا۔ بعض نے کہا کہ آپ ایک اہم کام کے لئے نکلے ہوئے ہیں اس لئے ہم آپ کا لوٹنا مناسب نہیں سمجھتے۔بعض نے کہا کہ تمہارے ساتھ وہ لوگ ہیں جو اگلوں میں باقی رہ گئے ہیں اور رسول اللہﷺ کے اصحاب ہیں اور ہم ان کو وبائی ملک میں لیجانا مناسب نہیں سمجھتے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ اب تم لوگ جاؤ۔ پھر کہا کہ انصار کے لوگوں کو بلاؤ۔ میں نے ان کو بلایا تو انہوں نے ان سے مشورہ لیا۔ انصار بھی مہاجرین کی چال چلے اور انہی کی طرح اختلاف کیا۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ تم لوگ جاؤ۔ پھر کہا کہ اب قریش کے بوڑھوں کو بلاؤ جو فتح مکہ سے پہلے یا (فتح کے ساتھ ہی) مسلمان ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو بلایا اور ان میں سے دو نے بھی اختلاف نہیں کیا، سب نے یہی کہا کہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو لے کر لوٹ جائیے اور ان کو وبا کے سامنے نہ کیجئے۔ آخر سیدنا عمرؓ نے لوگوں میں منادی کرا دی کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہوں گا (اور مدینہ لوٹوں گا) تم بھی سوار ہو جاؤ۔ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے کہا کہ کیا تقدیر سے بھاگتے ہو؟ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ کاش یہ بات کوئی اور کہتا (یا اگر اور کوئی کہتا تو میں اس کو سزا دیتا) }اور سیدنا عمرؓ بُرا جانتے تھے ان کا خلاف کرنے کو{ ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔ کیا اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ایک وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک کنارہ سرسبز اور شاداب ہو اور دوسرا خشک اور خراب ہو اور تم اپنے اونٹوں کو سرسبز اور شاداب کنارے میں چراؤ تو اللہ کی تقدیر سے چرایا اور جو خشک اور خراب میں چراؤ تب بھی اللہ کی تقدیر سے چرایا (سیدنا عمرؓ کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اس چرواہے پر کوئی الزام نہیں ہے بلکہ اس کا فعل قابلِ تعریف ہے کہ جانوروں کو آرام دیا ایسا ہی میں بھی اپنی رعیت کا چرانے والا ہوں تو جو ملک اچھا معلوم ہوتا ہے ادھر لے جاتا ہوں اور یہ کام تقدیر کے خلاف نہیں ہے بلکہ عین تقدیرِ الٰہی ہے )؟ اتنے میں سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ آئے اور وہ کسی کام کو گئے ہوئے تھے ، انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو اُس مسئلہ کی دلیل موجود ہے ، میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپﷺ فرماتے تھے کہ جب تم سنو کہ کسی ملک میں وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تمہارے ملک میں وبا پھیلے تو بھاگو بھی نہیں۔ یہ سن کر سیدنا عمرؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا (کہ ان کی رائے حدیث کے موافق قرار پائی) اور واپس لوٹ آئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب: بدفالی، اور متعدی(اچھوت) بیماری

باب : نہ عدوی کوئی چیز ہے اور نہ طیرہ ، نہ صفر اور نہ ھامہ۔
1486: ابو سلمہ بن عبدالرحمن سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور صف اور ہامہ کی کوئی اصل نہیں تو ایک دیہاتی بولا کہ یا رسول اللہﷺ! اونٹوں کا کیا حال ہے ؟ ریت میں ایسے صاف ہوتے ہیں جیسے کہ ہرن اور پھر ایک خارشی اونٹ ان میں جاتا ہے اور سب کو خارشی کر دیتا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر پہلے اونٹ کو کس نے خارشی کیا تھا؟۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ عدوی، طیرہ، صفر اور ہامہ کوئی چیز نہیں ہیں۔
(عدوی سے مراد کسی بیماری کا متعدی (اچھوت) ہونا، طیرۃکا مطلب کسی چیز سے بدفالی پکڑنا، صفر سے مراد صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھنا، جیسے آج بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں اور ھامہ سے مراد اُلّو ہے کہ جسے عرب منحوس سمجھتے تھے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بیمار اونٹ تندرست اونٹ پر نہ لایا جائے۔
1487: ابن شہاب سے روایت ہے کہ سیدنا ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوفؓ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی (اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی بیماری کسی سے خود بخود نہیں لگتی۔ دوسرے کسی کو بھی لگتی ہے تو اللہ کے حکم سے لگتی ہے۔ اسی لئے بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ لانے کا حکم دیا ہے )۔اور ابو سلمہ یہ حدیث بھی بیان کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بیمار اونٹ تندرست اونٹوں کے پاس نہ لایا جائے۔ ابو سلمہ نے کہا کہ سیدنا ابو ہریرہؓ ان دونوں حدیثوں کو رسول اللہﷺ سے روایت کرتے تھے ، پھر اس کے بعد انہوں نے یہ حدیث کہ "بیماری نہیں لگتی" بیان کرنا چھوڑ دی اور یہ بیان کرتے رہے کہ بیمار اونٹ تندرست اونٹ پر نہ لایا جائے۔ حارث بن ابی ذباب نے جو کہ سیدنا ابو ہریرہؓ کے چچا زاد بھائی تھے ان سے کہا کہ اے ابو ہریرہ! تم اس حدیث کے ساتھ ایک دوسری بھی حدیث بیان کیا کرتے تھے ، اب تم اس کو بیان نہیں کرتے ، وہ حدیث یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے انکار کیا اور کہا کہ میں اس حدیث کو نہیں پہچانتا، البتہ آپﷺ نے یہ فرمایا کہ بیمار اونٹ تندرست اونٹ کے پاس نہ لایا جائے۔ حارث نے ان سے اس بات میں اس حد تک جھگڑا کیا کہ سیدنا ابو ہریرہؓ غصے ہوئے اور انہوں نے حبش کی زبان میں کچھ کہا۔ پھر حارث سے پوچھا کہ تم سمجھتے ہو کہ میں نے کیا کہا؟ حارث نے کہا کہ نہیں۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ میں نے یہی کہا کہ میں اس حدیث کے بیان کرنے کا انکار کرتا ہوں۔ ابو سلمہ نے کہا کہ میری عمر کی قسم! سیدنا ابو ہریرہؓ ہم سے اس حدیث کو بیان کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی پھر معلوم نہیں کہ ابو ہریرہ اس حدیث کو بھول گئے یا ایک حدیث سے دوسری حدیث کو انہوں نے منسوخ سمجھا۔(صحیح بخاری میں نسخ کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف یہ ہے کہ ہم نے ابو ہریرہؓ کو اس حدیث کے سوا کوئی حدیث بھولتے نہیں دیکھا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نوء کوئی چیز نہیں۔
1488: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نہ تو ایک کی بیماری دوسرے کو لگتی ہے ، نہ ہامہ ہے ، نہ نوء کی کوئی حقیقت ہے اور نہ صفر کی۔ (نوء ستارے کے طلوع و غروب کو کہتے ہیں جیسے عربوں کا بھی خیال تھا اور آج کل کے نجومیوں کا بھی کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی وغیرہ)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : غول کوئی چیز نہیں۔
1489: سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک کی بیماری دوسرے کو لگتی ہے ، نہ نحوست کوئی چیز ہے اور نہ غول کوئی چیز ہے۔ (غول سے مراد عوام کا یہ خیال ہے کہ جنگل میں شیاطین ہوتے ہیں جو رات کو چراغ کی طرح چمکتے ہیں کبھی لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور کبھی قتل کر دیتے ہیں)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جذام (کوڑھ پن) میں مبتلا شخص سے دور رہنے کے متعلق۔
1490: سیدنا شریدؓ کہتے ہیں کہ ثقیف کے لوگوں میں ایک جذامی شخص تھا۔ رسول اللہﷺ نے اس سے کہلا بھیجا کہ ہم نے تجھ سے بیعت لے لی تم لوٹ جاؤ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اچھی فال کے متعلق۔
1491: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ بدفالی کوئی چیز نہیں (یعنی کسی کو منحوس سمجھنا) اور بہتر فال ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! فال کیا چیز ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ نیک بات جو تم میں سے کوئی سنے۔
 
Top