• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : توبہ کرنے پر شوق دلانا۔
1917: سیدنا حارث بن سوید کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ (بن مسعود)ؓ بیمار تھے تو میں ان کی عیادت کو ان کے پاس گیا۔ انہوں نے مجھ سے دو حدیثیں بیان کیں ایک اپنی طرف سے اور ایک رسول اللہﷺ کی طرف سے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندہ کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے کوئی اپنی سواری پر کہ جس پر اس کے کھانے پینے کی اشیاء بھی ہوں، ایک ہلاکت خیز سنسان جنگل میں جائے (جہاں نہ سایہ ہو نہ پانی ہو) اور وہ (آرام کے لئے ) سو جائے۔ جب وہ جاگے تو اس کی سواری کہیں جا چکی ہو۔ پھر اس کو ڈھونڈے ، یہاں تک کہ اسے سخت پیاس لگ جائے۔ پھر (مایوس ہو کر)کہے کہ میں لوٹ جاؤں جہاں تھا اور سوتے سوتے مر جاؤں۔(کیونکہ بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی) پھر اپنا سر اپنے بازو پر رکھے اور مرنے کے لئے لیٹ جائے۔ پھر جو جاگے تو اپنی سواری اپنے پاس پائے اور اس پر اس کا توشہ ہو کھانا بھی اور پانی بھی۔ اللہ تعالیٰ کو مومن بندے کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی اس شخص کو اپنے اونٹ اور توشہ کے ملنے سے ہوتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سچی توبہ کا بیان اور اللہ تعالیٰ کے قول ﴿وَعلَی الثَّلاَثَةِ الَّذِیْنَ خلفوا﴾ کی تفسیر۔
1918: ابن شہاب رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہﷺ نے تبوک کا جہاد کیا اور آپﷺ کا ارادہ روم اور شام کے عرب نصرانیوں کے خلاف جہاد کا تھا۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبدالرحمن بن عبد اللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی کہ عبد اللہ بن کعب، جو کہ سیدنا کعب بن مالکؓ کی نابینا ہو جانے کی بناء پر راہنمائی کیا کرتے تھے ، نے کہا کہ سیدنا کعب بن مالکؓ کو میں نے اپنے غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا۔ سیدنا کعب بن مالکؓ نے کہا کہ میں نے غزوۂ تبوک کے علاوہ کسی غزوہ میں پیچھے نہیں رہا، البتہ غزوۂ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا تھا۔ لیکن اس میں رسول اللہﷺ نے کسی پیچھے رہ جانے والے پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ اور بدر میں تو آپﷺ مسلمانوں کے ساتھ قریش کا قافلہ لوٹنے کے لئے نکلے تھے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ساتھ اچانک لڑا دیا (اور قافلہ نکل گیا)۔ اور میں رسول اللہﷺ کے ساتھ لیلۃالعقبہ میں بھی موجود تھا (لیلة العقبہ وہ رات ہے جب آپﷺ نے انصار سے اسلام پر اور آپﷺ کی مدد کرنے پر بیعت لی تھی اور یہ بیعت جمرۃ العقبہ کے پاس جو منیٰ میں ہے دو بار ہوئی۔پہلی بار میں بارہ انصاری تھے اور دوسری بار میں ستر انصاری تھے ) اور میں نہیں چاہتا کہ اس رات کے بدلے میں جنگِ بدر میں شریک ہوتا، اگرچہ جنگ بدر لوگوں میں اس رات سے زیادہ مشہور ہے (یعنی لوگ اس کو افضل کہتے ہیں)۔ اور غزوہ تبوک میں میرا پیچھے رہ جانے کا قصہ یہ ہے کہ اس غزوہ کے وقت میں جتنا قوی جوان اور خوشحال تھا، اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے میرے پاس دو اونٹنیاں کبھی جمع نہیں ہوئیں تھیں اور اس لڑائی کے وقت میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں۔ آپﷺ اس لڑائی کے لئے سخت گرمی کے دنوں میں چلے اور سفر بھی لمبا تھا اور راہ میں جنگل تھے (دور دراز جن میں پانی کم ملتا اور ہلاکت کا خوف ہوتا ہے ) اور بہت سارے دشمنوں سے مقابلہ تھا، اس لئے آپﷺ نے مسلمانوں سے صاف صاف فرمایا دیا کہ میں اس لڑائی کے لئے جا رہا ہوں (حالانکہ آپﷺ کی یہ عادت تھی کہ اور لڑائیوں میں اپنا ارادہ مصلحت کے تحت صاف صاف نہ فرماتے تھے تاکہ خبر مشہور نہ ہو) تاکہ وہ اپنی تیاری کر لیں۔ ان سے کہہ دیا کہ فلاں طرف کو جانا ہے اور اس وقت آپﷺ کے ساتھ بہت سے مسلمان تھے اور کوئی رجسٹر نہ تھا جس میں ان کے نام لکھے جا سکتے۔سیدنا کعب نے کہا کہ بہت کم کوئی ایسا شخص ہو گا جو یہ گمان کر کے اس غزوہ سے غائب ہونے کا ارادہ کرے کہ اس کا معاملہ جب تک وحی نہ آئے گی، مخفی رہے گا۔اور یہ جہاد رسول اللہﷺ نے اس وقت کیا جب پھل پک گئے تھے اور سایہ خوب تھا اور مجھے ان چیزوں کا بہت شوق تھا۔ آخر رسول اللہﷺ نے تیاری کی اور مسلمانوں نے بھی آپﷺ کے ساتھ تیاری کی۔ میں بھی ہر صبح کو اس ارادہ سے نکلنا شروع کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ تیاری کروں، لیکن میں ہر روز لوٹ آتا اور کچھ فیصلہ نہ کرتا اور اپنے دل میں کہتا کہ میں جب چاہوں جا سکتا ہوں (کیونکہ سفر کا سامان میرے پاس موجود تھا) میں یہی سوچتا رہا حتی کہ مسلمانوں نے سامان سفر تیار کر لیا اور ایک صبح رسول اللہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر نکل پڑے۔ اور میں نے کوئی تیاری نہ کی۔ پھر میں صبح کو نکلا اور لوٹ کر آگیا اور کوئی فیصلہ نہیں کر پایا۔ میرا یہی حال رہا، یہاں تک کہ لوگوں نے جلدی کی اور سب مجاہدین آگے نکل گئے۔ اس وقت میں نے بھی کوچ کا قصد کیا کہ ان سے مل جاؤں۔ اے کاش میں ایسا کرتا، لیکن میری تقدیر میں نہ تھا۔ رسول اللہﷺ کے جانے کے بعد جب میں باہر نکلتا تو مجھے رنج ہوتا، کیونکہ میں کوئی پیروی کے لائق نہ پاتا مگر ایسا شخص جس پر منافق ہونے کا گمان تھا یا معذور ضعیف اور ناتواں لوگوں میں سے۔ خیر رسول اللہﷺ نے (راہ میں) میری یاد کہیں نہ کی، یہاں تک کہ آپﷺ تبوک میں پہنچے۔ آپﷺ لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس وقت فرمایا کعب بن مالک کہاں گیا؟ بنی سلمہ میں سے ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ اس کو اس کی چادروں نے روک لیا ہے ، وہ اپنے دونوں کناروں کو دیکھتا ہے (یعنی اپنے لباس اور نفس میں مشغول اور مصروف ہے )۔ سیدنا معاذ بن جبلؓ نے یہ سن کر کہا کہ تو نے بُری بات کہی، اللہ کی قسم! یا رسول اللہﷺ! ہم تو کعب بن مالک کو اچھا سمجھتے ہیں۔ رسول اللہﷺ یہ سن کر چپ ہو رہے۔ اتنے میں آپﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے آ رہا تھا اور (چلنے کی وجہ سے ) ریت کو اُڑا رہا تھا جو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ ابو خیثمہ ہے۔ پھر وہ ابو خیثمہ ہی تھا اور ابو خیثمہ وہ شخص تھا جس نے ایک صاع کھجور صدقہ دی تھی اور منافقوں نے اس پر طعن کیا تھا۔ سیدنا کعب بن مالکؓ نے کہا کہ جب مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہﷺ تبوک سے مدینہ کی طرف لوٹ رہے ہیں، تو میرا رنج بڑھ گیا۔ میں نے جھوٹ باتیں بنانا شروع کیں کہ کوئی بات ایسی کہوں جس سے کل (یعنی آپﷺ کی واپسی پر) آپﷺ کی ناراضگی سے بچ جاؤں اور اس معاملہ کے لئے میں نے اپنے گھر والوں میں سے ہر ایک عقلمند شخص سے مدد لینا شروع کی یعنی اُن سے بھی صلاح لی (کہ کیا بات بناؤں)۔ جب لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ قریب آ پہنچے تو اس وقت سارا جھوٹ کافور ہو گیا اور میں سمجھ گیا کہ اب میں کوئی جھوٹ بنا کر آپﷺ سے نجات نہیں پا سکتا۔ آخر میں نے سچ بولنے کی نیت کر لی اور صبح کو رسول اللہﷺ تشریف لائے اور آپﷺ جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے ، پھر لوگوں سے ملنے کے لئے بیٹھتے۔ جب آپﷺ یہ کر چکے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے اپنے عذر بیان کرنے شروع کئے اور قسمیں کھانے لگے۔ یہ لوگ اسی (80) سے کچھ زیادہ تھے۔ آپﷺ نے ان کی ظاہر بات کو مان لیا اور ان سے بیعت کی اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی اور ان کی نیت (یعنی دل کی بات کو) اللہ کے سپرد کر دیا۔ جب میں آیا، پس میں نے سلام کیا تو آپﷺ مسکرائے لیکن اس طرح جیسے کوئی غصہ کی حالت میں مسکراتا ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ آؤ۔ میں چلتا ہوا آیا اور آپﷺ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو پیچھے کیوں رہ گیا؟ تو نے تو سواری بھی خرید لی تھی۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اگر میں آپﷺ کے سوا دنیا کے شخصوں میں سے کسی اور کے پاس بیٹھا ہوتا تو میں یہ خیال کرتا کہ کوئی عذر بیان کر کے اس کے غصہ سے نکل جاؤں گا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے زبان کی قوت دی ہے (یعنی میں عمدہ تقریر کر سکتا ہوں اور خوب بات بنا سکتا ہوں)، لیکن اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ اگر میں کوئی جھوٹ بات آپﷺ سے کہہ دوں اور آپﷺ مجھ سے خوش ہو جائیں گے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو میرے اوپر غصہ کر دے گا (یعنی اللہ تعالیٰ آپﷺ کو بتلائے گا کہ میرا عذر جھوٹ اور غلط تھا اور آپﷺ ناراض ہو جائیں گے ) اور اگر میں آپﷺ سے سچ سچ کہوں گا تو بیشک آپﷺ غصے ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا انجام بخیر کرے گا۔ اللہ کی قسم! جب آپﷺ سے پیچھے رہ گیا اس وقت مجھے کوئی عذر نہ تھا۔ اللہ کی قسم میں کبھی نہ اتنا قوی اور اتنا مالدار نہ تھا جتنا اس وقت تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کعب نے سچ کہا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا جا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں فیصلہ کر دے۔ میں کھڑا ہو گیا اور بنی سلمہ کے چند لوگ دوڑ کر میرے پیچھے ہوئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ہم نہیں جانتے کہ تم نے اس سے پہلے کوئی قصور کیا ہو، پس تم عاجز کیوں ہو گئے اور رسول اللہﷺ کے سامنے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا جس طرح اور پیچھے رہ جانے والوں نے عذر بیان کئے ؟ اور تیرا گناہ بخشوانے کو رسول اللہﷺ کا استغفار کافی ہوتا۔ اللہ کی قسم وہ لوگ مجھے ملامت کرتے رہے ، یہاں تک کہ میں نے ارادہ کیا کہ پھر رسول اللہﷺ کے پاس لوٹ کر جاؤں اور اپنے آپ کو جھوٹا کروں (اور کوئی عذر بیان کروں)۔ پھر میں نے ان لوگوں سے کہا کہ کسی اور کا بھی ایسا حال ہوا ہے جو میرا ہوا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! دو شخص ایسے اور ہیں انہوں نے بھی وہی کہا جو تو نے کہا اور رسول اللہﷺ نے ان سے بھی وہی فرمایا جو تجھ سے فرمایا۔ میں نے پوچھا کہ وہ دو شخص کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مرارہ بن ربیعہ اور ہلال بن امیہ واقفی۔ ان لوگوں نے ایسے دو شخصوں کے نام لئے جو نیک تھے ، بدر کی لڑائی میں موجود تھے اور پیروی کے قابل تھے۔ جب ان لوگوں نے ان دونوں کا نام لیا تو میں اپنے پہلے حال پر قائم رہا۔ اور رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو پیچھے رہ جانے والے ہم تینوں سے بات چیت کرنے سے منع کر دیا، تو لوگوں نے ہم سے پرہیز شروع کیا اور ان کا حال ہمارے ساتھ بالکل بدل گیا، یہاں تک کہ زمین بھی گویا بدل گئی، وہ زمین ہی نہ رہی جس کو میں پہچانتا تھا۔ پچاس راتوں تک ہمارا یہی حال رہا۔ میرے دونوں ساتھی تو عاجز ہو گئے اور اپنے گھروں میں روتے ہوئے بیٹھ رہے لیکن میں تو سب لوگوں میں نوجوان اور طاقتور تھا۔ میں نکلا کرتا تھا اور نماز کے لئے بھی آتا اور بازاروں میں بھی پھرتا لیکن کوئی شخص مجھ سے بات نہ کرتا۔ اور رسول اللہﷺ جب نماز سے فارغ ہو کر اپنی جگہ پر بیٹھے ہوتے تو آ کر ان کو سلام کرتا اور دل میں یہ کہتا کہ آپﷺ نے اپنے لبوں کو سلام کا جواب دینے کے لئے ہلایا یا نہیں ہلایا؟ پھر آپﷺ کے قریب نماز پڑھتا اور چور نظر سے آپﷺ کو دیکھتا تو جب میں نماز میں ہوتا تو آپﷺ میری طرف دیکھتے اور جب میں آپﷺ کی طرف دیکھتا تو آپﷺ منہ پھیر لیتے۔ حتی کہ جب مسلمانوں کی سختی مجھ پر لمبی ہوئی تو میں چلا اور ابو قتادہؓ کے باغ کی دیوار پر چڑھا، اور ابو قتادہ میرے چچازاد بھائی تھے اور سب لوگوں سے زیادہ مجھے ان سے محبت تھی۔ ان کو سلام کیا تو اللہ کی قسم انہوں نے سلام کا جواب تک نہ دیا (سبحان اللہ رسول اللہﷺ کے تابع ایسے ہوتے ہیں کہ آپﷺ کے ارشاد کے سامنے بھائی بیٹے کی پرواہ بھی نہیں کرتے جب رسول اللہﷺ سے ایسی محبت نہ ہو تو ایمان کس کام کا ہے ؟ آپﷺ کی حدیث جب معلوم ہو جائے کہ صحیح ہے تو مجتہد اور مولویوں کا قول جو اس کے خلاف ہو دیوار پر مارنا چاہئیے اور حدیث پر چلنا چاہئیے )۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابو قتادہ! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم یہ نہیں جانتے کہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت رکھتا ہوں؟ وہ خاموش رہے۔ میں نے دوبارہ ان سے سوال کیا، وہ پھر خاموش رہے۔ میں نے پھر تیسری بار قسم دی تو بولے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں (یہ بھی کعب سے نہیں بولے بلکہ خود اپنے میں بات کی)۔ آخر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور میں پیٹھ موڑ کر چلا اور دیوار پر چڑھا۔میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ ملک شام کے کسانوں میں سے ایک کسان جو مدینہ میں اناج بیچنے کے لئے آیا تھا، کہہ رہا تھا کہ کعب بن مالک کا گھر مجھے کون بتائے گا؟ لوگوں نے اس کو میری طرف اشارہ شروع کیا، یہاں تک کہ وہ میرے پاس آیا اور مجھے غسان کے بادشاہ کا ایک خط دیا۔ میں چونکہ پڑھ سکتا تھا، میں نے اس کو پڑھا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ اما بعد! "ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے صاحب (یعنی رسول اللہﷺ) تم پر ناراض ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت کے گھر میں نہیں کیا، نہ اس جگہ جہاں تمہارا حق ضائع ہو، تو تم ہم سے مل جاؤ، ہم تمہاری خاطر داری کریں گے "۔ میں نے جب یہ خط پڑھا تو کہا کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے اور اس خط کو میں نے تنور میں جلا دیا۔ جب پچاس میں سے چالیس دن گزر گئے اور وحی نہ آئی تو یکایک رسول اللہﷺ کا پیغام لانے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہﷺ تمہیں حکم کرتے ہیں کہ اپنی بی بی سے علیحدہ رہو۔ میں نے کہا کہ اس کو طلاق دیدوں یا کیا کروں؟ وہ بولا کہ نہیں طلاق مت دو، صرف الگ رہو اور اس سے صحبت مت کرو۔ میرے دونوں ساتھیوں (جو پیچھے رہ گئے تھے ) کو بھی یہی پیغام ملا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو اپنے عزیزوں میں چلی جا اور وہیں رہ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کوئی فیصلہ دے۔ سیدنا ہلال بن امیہؓ کی بیوی یہ سن کر رسول اللہﷺ کے پاس گئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہلال بن امیہ ایک بوڑھا کمزور شخص ہے ، اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں تو کیا آپﷺ بُرا سمجھتے ہیں کہ اگر میں اس کی خدمت کیا کروں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں خدمت کو بُرا نہیں سمجھتا لیکن وہ تجھ سے صحبت نہ کرے۔ وہ بولی کہ اللہ کی قسم! اس کو کسی کام کا خیال نہیں اور اللہ کی قسم! وہ اس دن سے اب تک رو رہا ہے۔ میرے گھر والوں نے کہا کہ کاش تم بھی رسول اللہﷺ سے اپنی بیوی کے پاس رہنے کی اجازت لے لو، کیونکہ آپﷺ نے ہلال بن امیہ کی عورت کو اس کی خدمت کرنے کی اجازت دے دی تو میں نے کہا کہ میں کبھی آپﷺ سے اپنی بیوی کے لئے اجازت نہ لوں گا اور معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ کیا فرمائیں گے اگر میں اپنی بیوی کے لئے اجازت لوں اور میں جوان آدمی ہوں۔ پھر میں دس راتیں اسی حال میں رہا، یہاں تک کہ اس تاریخ سے پچاس راتیں پوری ہوئیں جب سے آپﷺ نے ہم سے سب لوگوں کو بات کرنے سے منع فرمایا تھا۔ پھر پچاسویں رات کو صبح کے وقت میں نے اپنے ایک گھر کی چھت پر نماز پڑھی میں اسی حال میں بیٹھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارا حال بیان کیا کہ میرا جی تنگ ہو گیا اور زمین اپنی فراخی کے باوجود مجھ پر تنگ ہو گئی تھی۔ اتنے میں مَیں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی، جو سلع (نامی) پہاڑ پر سے بلند آواز سے پکار رہا تھا کہ اے کعب بن مالک! خوش ہو جا۔ یہ سن کر میں سجدہ میں گرا اور میں نے پہچانا کہ اب کشادگی آ گئی۔ پھر رسول اللہﷺ نے صبح کی نماز کے بعد اس بات کا اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے۔ لوگ ہمیں خوشخبری دینے کو چلے ، میرے دونوں ساتھیوں کے پاس چند خوشخبری دینے والے گئے اور ایک شخص نے میرے پاس گھوڑا دوڑایا اور ایک دوڑنے والا اسلم قبیلہ سے میری طرف آیا اور اس کی آواز گھوڑے سے جلدی مجھ کو پہنچی۔ جب وہ شخص آیا جس کی خوشخبری کی آواز میں نے سنی تھی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتارے اور اس خوشخبری کے صلہ میں اس کو پہنا دئیے۔ اللہ کی قسم! اس وقت میرے پاس وہی دو کپڑے تھے۔ میں نے دو کپڑے عاریةً لئے اور ان کو پہن کر رسول اللہﷺ سے ملنے کی نیت سے چلا۔ لوگ مجھ سے گروہ گروہ ملتے جاتے تھے اور مجھے معافی کی مبارکباد دیتے جاتے تھے اور کہتے تھے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی معافی کی قبولیت مبارک ہو۔یہاں تک کہ میں مسجد میں پہنچا تو رسول اللہﷺ مسجد میں بیٹھے تھے اور آپﷺ کے پاس لوگ تھے۔ اور طلحہ بن عبید اللہؓ نے مجھے دیکھتے ہی دوڑ کر آ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم مہاجرین میں سے ان کے سوا کوئی شخص کھڑا نہیں ہوا تو سیدنا کعبؓ سیدنا طلحہؓ کے اس احسان کو نہیں بھولتے تھے۔ سیدنا کعب بن مالکؓ نے کہا کہ جب میں نے رسول اللہﷺ کو سلام کیا تو آپﷺ کا چہرہ خوشی سے چمک دمک رہا تھا، آپﷺ نے فرمایا کہ خوش ہو جا، جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا آج کا دن سے تیرے لئے بہتر دن ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے اور رسول اللہﷺ جب خوش ہو جاتے تو آپﷺ کا چہرہ چمک جاتا تھا گویا کہ چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم اس بات (یعنی آپﷺ کی خوشی) کو پہچان لیتے تھے۔ جب میں آپﷺ کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں اپنی معافی کی خوشی میں اپنے مال کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لئے صدقہ کرتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اپنا تھوڑا مال رکھ لو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ پھر میں اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیتا ہوں۔ اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آخر کار سچائی نے مجھے نجات دی اور میری توبہ میں یہ بھی داخل ہے کہ ہمیشہ سچ کہوں گا جب تک زندہ رہوں۔ سیدنا کعبؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان پر سچ بولنے پر ایسا احسان کیا ہو جب سے میں نے رسول اللہﷺ سے یہ ذکر کیا جیسا عمدہ طرح سے مجھ پر احسان کیا۔ اللہ کی قسم! جب سے یہ رسول اللہﷺ سے کہا اس وقت سے آج کے دن تک کوئی جھوٹ قصداً نہیں بولا۔ آج کے دن تک اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے جھوٹ سے بچائے گا۔ سیدنا کعب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں "بیشک اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ، مہاجرین اور انصار کو معاف کیا جنہوں نے نبیﷺ کا مفلسی کے وقت ساتھ دیا" یہاں تک کہ فرمایا "وہ مہربان ہے اور رحم والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان تین شخصوں کو بھی معاف کیا جو پیچھے چھوڑے گئے ، یہاں تک کہ زمین ان پر باوجود اپنی کشادگی کے تنگ ہو گئی اور ان کے نفس بھی تنگ ہو گئے اور سمجھے کہ اب اللہ تعالیٰ سے کوئی بچاؤ نہیں مگر اسی کی طرف، پھر اللہ نے ان کو معاف کیا تا کہ وہ توبہ کریں، بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈور اور سچوں کے ساتھ رہو" (التوبہ:119 - 117)۔ سیدنا کعبؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جب سے مجھے اسلام کی ہدایت دی ہے ، اس سے بڑھ کوئی احسان مجھ پر نہیں کیا جو میرے نزدیک اتنا بڑا ہو، کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سچ بول دیا اور جھوٹ نہیں بولا، ورنہ تباہ ہوتا جیسے جھوٹے تباہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں کی جب وحی اتاری تو ایسی بُرائی بیان کی کہ کسی (اور)کی نہ کی ہو گی۔ فرمایا کہ "جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو عنقریب وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے کوئی تعرض نہ کرو، سو تم ان سے اعراض کر لو، بیشک وہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے یہ بدلہ ہے ان کی کمائی کا۔ وہ تم سے اس لئے قسمیں کھاتے ہیں کہ تم ان سے خوش ہو جاؤ۔ پس اگر تم ان سے خوش بھی ہو جاؤ تو بھی اللہ تعالیٰ ان بدکاروں سے خوش نہیں ہو گا"۔ سیدنا کعبؓ نے کہا کہ ہم تینوں کا معاملہ ان لوگوں سے مؤخر کیا گیا جن کا عذر رسول اللہﷺ نے قبول کر لیا تھا۔ جب انہوں نے قسم کھائی تو ان سے بیعت کی اور ان کے لئے استغفار کیا اور ہمیں رسول اللہﷺ نے پیچھے ڈال رکھا (یعنی ہمارا مقدمہ، فیصلہ پیچھے رکھا)، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا۔ اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "معاف کیا ان تینوں کو جو پیچھے ڈالے گئے تھے ، یہاں تک کہ ان پر زمین اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہو گئی" اور اس لفظ (یعنی خُلِّفُوْا) سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم جہاد سے پیچھے رہ گئے ، بلکہ وہی مراد ہے ہمارے مقدمہ کا پیچھے رہنا اور آپﷺ کا پیچھے ڈال رکھنا بہ نسبت ان لوگوں کے جنہوں نے قسم کھائی اور عذر کیا آپﷺ سے اور آپﷺ نے ان کے عذر کو قبول کر لیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جس نے سو آدمی قتل کئے تھے اس کی توبہ قبول ہونے کے بارے میں
1919: سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم سے پہلی امتوں میں ایک شخص تھا، جس نے ننانوے قتل کئے تھے۔ اس نے پوچھا کہ زمین کے لوگوں میں سب سے زیادہ عالم کون ہے ؟ لوگوں نے ایک راہب کے بار ے میں بتایا، وہ اس کے پاس گیا اور کہا کہ اس نے ننانوے قتل کئے ہیں، کیا اس کے لئے توبہ ہے ؟ راہب نے کہا کہ نہیں! (تیری توبہ قبول نہ ہو گی) تو اس نے اس راہب کو بھی مار ڈالا اور سو قتل پورے کر لئے۔ پھر اس نے لوگوں سے پوچھا کہ زمین میں سب سے زیادہ عالم کون ہے ؟ لوگوں نے ایک عالم کے بارے میں بتایا (تو وہ اس کے پاس گیا) اور پوچھا کہ اس نے سو قتل کئے ہیں، کیا اس کے لئے توبہ ہے ؟ وہ بولا کہ ہاں ہے اور توبہ کرنے سے کونسی چیز مانع ہے ؟ تو فلاں ملک میں جا اور وہاں کچھ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تو بھی جا کر ان کے ساتھ عبادت کر اور اپنے ملک میں مت جا کہ وہ بُرا ملک ہے۔ پھر وہ اس ملک کی طرف چلا، جب آدھا سفر طے کر لیا تو اس کو موت آ گئی۔ اب عذاب کے فرشتوں اور رحمت کے فرشتوں میں جھگڑا ہوا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ توبہ کر کے صدق دل کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو کر آ رہا تھا۔ اور عذاب کے فرشتوں نے کہا کہ اس نے کوئی نیکی نہیں کی۔ آخر ایک فرشتہ آدمی کی صورت بن کر آیا اور انہوں نے اس کو فیصلہ کرنے کے لئے مقرر کیا۔ اس نے کہا کہ دونوں طرف کی زمین ناپو اور جس ملک کے قریب ہو، وہ وہیں کا ہے۔ سو انہوں نے زمین کو ناپا تو انہوں نے اس زمین کو قریب پایا جس کا اس نے اراد کیا تھا، پس رحمت کے فرشتے اس کو لے گئے۔ قتادہ نے کہا (راوئ حدیث) حسن نے کہا کہ ہم سے یہ بھی بیان ہوا کہ جب وہ مرنے لگا تو اپنے سینہ کے بل بڑھا (تاکہ اس ملک سے نزدیک ہو جائے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جس نے مغرب سے سورج طلوع ہونے سے پہلے توبہ کی، اس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا۔
1920: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اس سے پہلے توبہ کر لے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو، تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے گا (سورج کے مغرب سے نکلنے کے بعد توبہ قبول نہ ہو گی اسی طرح موت کے فرشتوں کو دیکھنے کے وقت توبہ قبول نہ ہو گی اور نہ اسکی وصیت نافذ ہو گی)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رات اور دن کے گنہگار کی توبہ کی قبولیت۔
1921: سیدنا ابوموسیٰؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ عز و جل اپنا ہاتھ رات کو پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کر لے اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کا گنہگار توبہ کر لے ، یہاں تک کہ آفتاب مغرب کی طرف سے نکلے۔ (یعنی اس کے بعد توبہ نہیں)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : گناہوں کے معاف کرنے کے بیان میں۔
1922: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم گناہ نہ کرو تو البتہ اللہ تعالیٰ تمہیں فنا کر دے گا اور ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جو گناہ کریں گے اور پھر اس سے بخشش مانگیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا (سبحان اللہ مالک کے سامنے قصور کا اقرار کرنا اور معذرت کرنا اور توبہ کرنا اور معافی چاہنا کیسی عمدہ بات ہے اور مالک کو کتنآپسند ہے۔ کسی بزرگ نے کہا کہ وہ گناہ مبارک ہے جس کے بعد معافی اور وہ عبادت منحوس ہے جس سے غرور پیدا ہو)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کی رحمت فراخ ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔
1923: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ مخلوقات کو بنا چکا تو اپنی کتاب میں لکھا، اور وہ کتاب اس کے پاس رکھی ہے کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے۔

1924: سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، ایک رحمت جنوں، آدمیوں، جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں میں اتاری ہے ، اسی ایک رحمت کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر مہربانی کرتے ہیں اور رحم کرتے ہیں اور اسی رحمت کی وجہ سے وحشی جانور اپنے بچہ سے محبت کرتا ہے۔ اور ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھیں ہیں جو اپنے بندوں پر قیامت کے دن کرے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی سزا کے بیان میں۔
1925: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر مومن کو اللہ تعالیٰ کی تیار کرد ہ سزا (عذاب) کا علم ہو جائے تو کوئی جنت کی طمع نہ کرے۔ اور اگر کافر کو اللہ تعالیٰ کی رحمت (کی وسعت)کا علم ہو جائے تو کوئی اس کی جنت سے کوئی نا امید نہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : والدہ کی جتنی رحمت اپنی اولاد پر ہے ، اللہ کی رحمت اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ ہے۔
1926: سیدنا عمر بن خطابؓ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے پاس قیدی آئے تو ان میں سے ایک عورت (اپنا بچہ) تلاش کر رہی تھی۔ جب اپنا بچہ پا لیا تو اس کو اٹھا لیا اور پیٹ سے لگایا اور دودھ پلانے لگی۔ رسول اللہﷺ نے ہم سے فرمایا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال دے گی؟ ہم نے کہا کہ اللہ کی قسم! وہ کبھی نہ ڈال سکے گی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اُس سے زیادہ مہربان ہے ، جتنی یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (فقط) عمل کسی کو نجات نہیں دلا سکتا۔
1927: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، وہ کہتی تھیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میانہ روی کرو اور (جو میانہ روی نہ ہو سکے تو) اس کے نزدیک رہو اور خوش رہو۔ اس لئے کہ کسی کو اس کا عمل جنت میں نہ لے جائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اور نہ آپ کو؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اور نہ مجھ کو، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ کو وہ عمل بہت پسند ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔
 
Top