lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,898
- پوائنٹ
- 436
اعتراض نہیں۔ آپ کوئی دلیل دے دیجئے اس فتویٰ کے حق میں ؟ مفتی کا کام ہے کہ وہ سائل کو مطمئن کرے کہ اس کا فتویٰ کتاب و سنت کے موافق ہے۔اعتراض؟؟
قرآن یا حدیث سے تعارض؟
اعتراض نہیں۔ آپ کوئی دلیل دے دیجئے اس فتویٰ کے حق میں ؟ مفتی کا کام ہے کہ وہ سائل کو مطمئن کرے کہ اس کا فتویٰ کتاب و سنت کے موافق ہے۔
مردہ سے زنا اور زندہ سے زنا میں ایسا کیا جوہری فرق ہے کہ ایک پر حد قائم ہو اور دوسرے پر نہ ہو۔؟
یہاں تعزیر والی بات مت لے آئیے گا۔ کیونکہ ہمارا اعتراض یہی ہے کہ اس طرح کے حیلے بہانوں سے حدود اللہ کو ساقط کیا جا رہا ہے۔ تعزیر اپنی جگہ اہم، لیکن جہاں حد نافذ ہوتی ہو، وہاں تعزیر نافذ کرنا ، بھی شریعت میں تبدیلی ہی کہلائی جائے گی۔
پھر یہ بھی فرمائیے کہ:
"پھر اصل یہ ہے کہ ہر دو زانی میں سے جب ایک سے حد بسبب شبہ کے ساقط ہوئی تو دوسرے سے بھی بسبب شرکت کے ساقط ہوگی۔ چنانچہ اگر ایک نے نکاح کا دعویٰ کیا اور دوسرے نے نکاح سے انکار کیا تو دونوں سے حد ساقط ہوگی۔"
اس کا مطلب یہ کہ اگر زنا کے مجرم پکڑے جائیں ، اور ایک مجرم فقط نکاح کا دعویٰ کر دے ، تب بھی حد قائم نہیں ہوگی؟
اسی طرح اس پر بھی کچھ روشنی ڈالیں کہ:
"اور اگر مرد نے اپنے پسر کی ام ولد سے وطی کی اور کہا کہ میں جانتا تھا کہ وہ مجھ پر حرام ہے، تو اس پر حد نہ ہوگی"
اس کی کیا دلیل؟
اور کیا اس کا مخالف معنیٰ بھی درست ہے کہ اگر مرد نے کہا میں نہیں جانتا تھا کہ وہ مجھ پر حرام ہے، تب حد جاری کی جائے گی؟؟
بہت عجیب و غریب بات ہے۔زنا مکمل اس وقت کہلاتی ہے جب اس میں کامل شہوت کے اخراج کا موقع ہو۔ جب کہ مردہ میں یہ نہیں ہوتا۔ اگر دونوں برابر ہوتے یا مردہ سے زیادہ ہوتا تو ہم اس پر بھی حکم لگا دیتے لیکن واضح بات ہے کہ مردہ سے انسان کو وہ دلچسپی نہیں ہو سکتی جو زندہ سے ہوتی ہے۔ یہ تو اسی طرح ہے کہ حیوان سے کرے۔ بلکہ اس سے بھی کم درجہ کا کام ہے۔
"پھر اصل یہ ہے کہ ہر دو زانی میں سے جب ایک سے حد بسبب شبہ کے ساقط ہوئی تو دوسرے سے بھی بسبب شرکت کے ساقط ہوگی۔ چنانچہ اگر ایک نے نکاح کا دعویٰ کیا اور دوسرے نے نکاح سے انکار کیا تو دونوں سے حد ساقط ہوگی۔"
اس کا مطلب یہ کہ اگر زنا کے مجرم پکڑے جائیں ، اور ایک مجرم فقط نکاح کا دعویٰ کر دے ، تب بھی حد قائم نہیں ہوگی؟
مجھے علم نہیں اس بارے میں۔
"اور اگر مرد نے اپنے پسر کی ام ولد سے وطی کی اور کہا کہ میں جانتا تھا کہ وہ مجھ پر حرام ہے، تو اس پر حد نہ ہوگی"
اس کی کیا دلیل؟
استغفراللہ۔حدیث انت و مالک لابیک۔ اس سے شبہہ پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم اسے حرام تو کہہ رہے ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باپ کا مال قرار دیا ہے۔ اور ادنی شبہے سے بھی حد ساقط ہو جاتی ہے۔
نہیں یہ مخالف معنی درست نہیں۔[/quote]اور کیا اس کا مخالف معنیٰ بھی درست ہے کہ اگر مرد نے کہا میں نہیں جانتا تھا کہ وہ مجھ پر حرام ہے، تب حد جاری کی جائے گی؟؟
بہت عجیب و غریب بات ہے۔
اس پر کچھ مزید فحش ہوئے بغیر لکھنا ممکن نہیں۔ لہٰذا آپ کی اس توجیہ پر آپ کو سلام پیش کر کے یہیں ختم کرتے ہیں۔
تو معلوم کر کے بتا دیجئے۔ ویسے معلوم کرنے کی ضرورت تو نہیں کیونکہ عبارت اپنے مدلول پر بالکل صریح ہے۔ اور یہاں بھی حدود کے نفاذ و انعقاد کی راہ میں شک کے روڑے اٹکانے کے علاوہ کوئی مقصد معلوم نہیں ہوتا۔ ورنہ مجرد نکاح کے دعویٰ کے بجائے ، ثبوت نکاح کی بات کی جاتی۔
استغفراللہ۔
ایسے شبہات سے تو ہر قسم کی حد ساقط کر لینا ممکن ہے۔
بھائی، جب وہ خود کہہ رہا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ وہ مجھ پر حرام ہے اور پھر بھی وطی کی، تو اب کس بات کا شبہ؟؟؟؟!!!!
نہیں یہ مخالف معنی درست نہیں۔