کبھی کتاب کی صورت اصلی حالت میں صحیح مسلم پڑھی ہو تو علم ہو کہ صحیح مسلم میں ’‘ خبر ’‘ کے صیغے والی عبد اللہ بن عباس کی مختصر روایت سے پہلے
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی مکمل روایت نقل کی گئی ہے ،اور اتنی بات جاننے کیلئے معمولی علم بھی کار آمد ہے کہ مفصل اور مکمل بات کو مختصر کے مقابل
کیا مقام اور حیثیت حاصل ہے ۔
صحیح مسلم کی مکمل روایت میں ’’استفہام انکاری ‘‘ ہی ہے:
قال ابن عباس: يوم الخميس، وما يوم الخميس ثم بكى حتى بل دمعه الحصى، فقلت: يا ابن عباس، وما يوم الخميس؟ قال: اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه، فقال: «ائتوني أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعدي»، فتنازعوا وما ينبغي عند نبي تنازع، وقالوا: ما شأنه أهجر؟ استفهموه، قال: " دعوني فالذي أنا فيه خير، أوصيكم بثلاث: أخرجوا المشركين من جزيرة العرب، وأجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم "، قال: وسكت، عن الثالثة، أو قالها فأنسيتها، ‘‘
میں صدقے اس فہم کے !
سفیان ؒ اسکو ۔۔ہذیان ۔۔نہیں کہہ رہے ،وہ تو صرف یہ بتا رہے ہیں ۔۔أهجر ۔۔میں (ھجر ) سے مراد (هذى )ہے ،اور جملہ ہے ’’أهذى ‘‘ اور یہی بات ہم پہلے بھی بتا چکے
ہیں ،
لیکن نبی اکر م و اعظم ﷺ کے گستاخ ۔۔۔گستاخی کی ہذیان گوئی پر اڑے بیٹھے ہیں ۔۔
(اس دن ) رسول اللہ ﷺ کی تکلیف بڑھ گئی ،تو (گھر میں موجود ) لوگوں سے فرمایا : لائو میں تمھیں ایک تحریر لکھوا دیتا ہوں ،جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے ،،( یہ حکم سن کر )موجود لوگ اختلاف کرنے لگے ،(کوئی لکھوانے کی بات کرتا ،تو کوئی نہ لکھوانے کی )
(ابن عباس کہتے ہیں ) مناسب نہ تھا کہ نبی کریمﷺ ۔کے پاس اختلاف کیا جاتا ،
تو (کچھ لوگوں ) نے ( مانعین کتابت سے ) کہا ۔۔ أهجر۔۔کیا (تم سمجھتے ہو ) رسول اللہ ﷺ مرض کی شدت سےایسا فرمارہے ہیں ؟؟؟ (نہیں ،تکلیف کی بناء پر ایسا نہیں فرمارہے ،بلکہ پوری سمجھ داری سے فرمایا ہے )
استفهموه، فذهبوا يعيدون عليه جائو انہی سے پوچھ لو کہ انکی منشا ،مراد کیا ہے ،
فذهبوا يعيدون عليه، فقال: «دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه»تو لوگ آپ کے پاس (پوچھنے ) کیلئے گئے‘‘
بات صاف ہے کہ
أهجر۔۔ کہنے والے نے ۔۔ہذیان ۔۔کی نفی کیلئے ایسا کہا۔۔گویا اس نے کہا کیا تم سمجھتے ہو کہ آپ بیماری کی تکلیف کے سبب ایسا فرما رہے ہیں ؟
کہنے والے کا یقینی مقصد ہے کہ :: نہیں ،تم جیسا سمجھ رہے ہو ،ہرگز ایسا نہیں ،
اسی لئے وہ کہتا ہے: جا کر انہی سے ان کا مقصد پوچھ لو ،(استفهموه )
اگر کہنے کا مطلب معاذ اللہ ۔۔ہذیان ۔۔کا اثبات ہوتا ،تو ۔۔استفہام ۔۔کا مطلب ؟
یعنی جو آدمی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہو ،اس سے کسی بات کی وضاحت اور استفہام چہ معنی ؟
صحیح مسلم کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ جَعَلَ تَسِيلُ دُمُوعُهُ، حَتَّى رَأَيْتُ عَلَى خَدَّيْهِ كَأَنَّهَا نِظَامُ اللُّؤْلُؤِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ائْتُونِي بِالْكَتِفِ وَالدَّوَاةِ – أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ – أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا»، فَقَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهْجُرُ
یہ سعید بن جبیر کی ابن عبّاس سے سنی ہوئی روایت ہے اور اس میں اس کو خبر کے طور پر کہا گیا ہے کہ اہل بیت نے کہا بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم سے ھجر ادا ہوا
اس کے بعد استفہام انکاری والی بات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی کیونکہ ابن عباس خود اس کی تشریح کر چکے ہیں
کہا گیا ہے
سفیان ؒ اسکو ۔۔ہذیان ۔۔نہیں کہہ رہے ،وہ تو صرف یہ بتا رہے ہیں ۔۔أهجر ۔۔میں (ھجر ) سے مراد (هذى )ہے ،اور جملہ ہے ’’أهذى ‘‘ اور یہی بات ہم پہلے بھی بتا چکے
حالانکہ سفیان کہتے ہیں
قال سفيان: يعني هذى
هذى اب ’’أهذى ‘‘ کیسے ہو گیا؟ اور پچھلے اقتباس میں یہ کہاں تھا؟
جو منظر کشی کی گئی ہے اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے الفاظ کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے
لائو میں تمھیں ایک تحریر لکھوا دیتا ہوں
حالانکہ یہ ترجمہ غلط ہے اور اس کے بعد پوری روایت کا مفھوم بدل جاتا ہے
اگر یہ مان لیا جائے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے حقیقت حال کے بر خلاف خود کچھ لکھنے کا نہیں کہا تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ اہل بیت کو اختلاف کیوں ہوا؟ کس بات پر ہوا؟ نبی صلی الله علیہ وسلم کو لکھنے کیوں نہیں دیا گیا اور عمر رضی الله عنہ کا یہ کہنا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کا غلبہ ہے سب اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہاں زبردستی نبی صلی الله علیہ وسلم کے باوجود اصرار پر عمر رضی الله تعالی عنہ نے اپنی بات چلائی
اب اس غلط سلط ترجمہ کو دوبارہ دیکھیں
سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا : جمعرات کا دن ،کیا تھا جمعرات کا دن ؟
پھر عبد اللہ یہ کہہ کر رو دئیے ،اور اتنا روئے کہ اپنے آنسووں سے زمین پر کنکریاں بھی بھگو دیں ،،
سعید کہتے ہیں ہم نے پوچھا :کیا (ہوا ) تھا جمعرات کے دن ؟
کہنے لگے :(اس دن ) رسول اللہ ﷺ کی تکلیف بڑھ گئی ،تو (گھر میں موجود ) لوگوں سے فرمایا : لائو میں تمھیں ایک تحریر لکھوا دیتا ہوں ،جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے ،،( یہ حکم سن کر )موجود لوگ اختلاف کرنے لگے ،(کوئی لکھوانے کی بات کرتا ،تو کوئی نہ لکھوانے کی )
(ابن عباس کہتے ہیں ) مناسب نہ تھا کہ نبی کریمﷺ ۔کے پاس اختلاف کیا جاتا ،
تو (کچھ لوگوں ) نے ( مانعین کتابت سے ) کہا ۔۔ أهجر۔۔کیا (تم سمجھتے ہو ) رسول اللہ ﷺ مرض کی شدت سےایسا فرمارہے ہیں ؟؟؟ (نہیں ،تکلیف کی بناء پر ایسا نہیں فرمارہے ،بلکہ پوری سمجھ داری سے فرمایا ہے )
استفهموه، فذهبوا يعيدون عليه جائو انہی سے پوچھ لو کہ انکی منشا ،مراد کیا ہے ،
فذهبوا يعيدون عليه، فقال: «دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه»تو لوگ آپ کے پاس (پوچھنے ) کیلئے گئے ،
تو آپ نے فرمایا :مجھے چھوڑ دو ،تم جس طرف مجھے لانا چاہتے ہو،میں اس سے بہتر میں (مشغول ) ہوں،
یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم ایک حکم دے رہے ہیں اور اس میں صحابہ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں اور اپس میں جھگڑ رہے ہیں پھر وہ جا کر جب ان سے پوچھتے ہیں جبکہ ان کو پتا ہے کہ نبی نے پوری سمجھ داری سے فرمایا ہے تو معاملہ سلجھنے کے بجائے اور الجھ جاتا ہے اگر سب سمجھ داری سے فرمایا اور اس کو جا کر ان سے پوچھا تو پھر نبی صلی الله علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ مجھے چھوڑ دو ،تم جس طرف مجھے لانا چاہتے ہو،میں اس سے بہتر میں (مشغول ) ہوں کا کیا مطلب ہے
یہ سب اس لئے ہوا کہ روایت کے ترجمہ میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے الفاظ کا درست ترجمہ نہیں کیا گیا
دوم ھجر کا بھی صحیح ترجمہ نہیں کیا گیا اور اس کو زبر دستی دوسری طرف موڑا گیا جبکہ صحیح مسلم میں اس کی شرح ہو چکی ہے
سوم سفیان بن عیینہ کے الفاظ کا بھی ترجمہ نہیں کیا گیا
صحیح بخاری میں ہے
فاختلف أهل البيت واختصموا، فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده، ومنهم من يقول غير ذلك،
پس اہل بیت کا اختلاف اور جھگڑا ہوا، ان میں سے بعض نے کہا ان کے پاس کر دو کہ لکھ دیں تحریر، جس کے بعد گمراہ نہ ہوں اور بعض نے اس کے خلاف کہا
ایک سادہ سے حکم پر اس قدر جھگڑا کیوں ہوا؟
جھگڑا اس لئے ہوا کہ بعض نے اس کیفیت کو بحران کہا اور کہا کہ کچھ لکھوانے کی ضرورت نہیں – عمر رضی الله عنہ نے کہا ہمارے لئے قرآن کافی ہے – بعض نے اس کے باوجود کہا کہ قلم و دوات پاس کرو جو بھی لکھنا چاہیں لکھ دیں