• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ حیاۃ النبی(ص) از: مولانا اسماعیل السلفی رحمہ اللہ علیہ (مکمل یونی کوڈ کتاب)

شمولیت
مئی 21، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
331
پوائنٹ
0
بسم اللہ الرحمن الرحیم


حَیٰوةَ النَّبِیّ صلی اللہ علیہ وسلم فِی قَبرِہ لَیسَت بِدُ نیَوِیَّة



کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
مصنف: شیخ‌الحدیث مولانا محمد اسماعیل السلفی رحمۃ اللہ علیہ​


الحمدللہ کبیرا واشھد ان لا الہ الاللہ وحدہ لاشریک لاواشھد ان محمد عبدہ ورسولہ۔ ارسلہ بالحق بشیرًا ونذیرًا وصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تسلیماً کثیرًا کثیرا
امّابعد۔

کچھ عرصہ ہوا ایک موحد عالم نے ملتان میں توحید کے موضوع پر تقریر فرمائی جو عوا م اور خواص میں پسند کی گئی، مگر ان کے حلقے کے بعض حضرات نے عقیدہ توحید میں استواری کے باوجود اس تقریر کے بعض حصوں پر اعتراض کیا اور اسے ناپسندکیا اور کوشش کی گئی کہ تقریر کے اثرات کو کم یازائل کیا جائے۔

مقرر نے توحید کے موضوع پر بیان فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کا ذکر فرمایا اور جو لوگ آپﷺ کو اپنی طرح زندہ سمجھتے ہیں ان کے خیالات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی "دنیوی زندگی" ہو تو صحابہؓ نے آپ کو زندہ سمجھتے ہوئے کیسے دفن کیا۔ کیونکہ ناممکن ہے کہ صحابہ ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرح زندہ سمجھیں اور زمین میں دفن کیے رکھیں۔(یہ مفہوم ہے ممکن ہے کہ الفاظ میں فرق ہو)

چونکہ یہ مخالفت بااثر اہل علم حضرات کی طرف سے تھی۔ اور یہ حضرات بھی دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اس کا اثرپاکستان میں دوسرے مقامات پر بھی ہوا اور کوشش ہوئی کہ اس قسم کے صاف گو مبلغین کا مقاطعہ کیا جائے۔ بلکہ اس کا اثر ہندوستان بھی پہنچا ۔ چنانچہ ماہنامہ"دارلعلوم" دیوبند میں ایک مضمون مولانا زاہد الحسینی کے قلم سے اور ایک تعارفی نوٹ مولانا سیّد محمد انظر صاحب کے قلم سے شائع ہوا۔ مگر دونوں مضامین میں کوئی جدت نہیں۔ حیات انبیاء کے متعلق وہی بریلوی نظر ہے جسے پھیلا دیا گیا ہے۔ دلائل کا انداز بھی ہو عموماً بریلوی حضرات کی تحریرات میں ہوتا ہے دہرا دیا گیا ہے اس قدرتی فرق کے ساتھ کہ نفس مسئلہ کی تفصیل ہے ذاتیات میں الجھنے کی کوشش نہیں کی گئی اہل علم سے یہی امید ہونی چاہیئے دلائل میں کوئی خوبی ہویا نہ ہو لیکن مضمون کے ڈنڈے پاکستان سے ملتے ہیں پھر اس کی اشاعت دیوبندی مکتب فکر کی مرکزی درس گاہ کے مجلہ میں ہوئی ہے۔

مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے دانش مندوں نے مقامی مصالح کی بنا پر مرکزی اکابر کو استعمال فرمایا ہے اور وہ حضرات بلا تحقیق وتبیین استعمال ہوگئے ہیں۔ اس اختلاف سے بریلوی مکتب فکر جو فائدہ اٹھا رہا ہے اس کی اصلاح کے لیے مسئلہ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ راقم الحروف مولانا محمد انظرا اور مولانا زاہد الحسینی سے ذاتی طور پر نا آشنا ہے اس لیے اس جسارت پر معافی چاہتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بحث مسئلہ کی حد سے تجاوز نہیں کرے گی۔ وماتوفیقی الاباللہ۔

پاکستان کی تشکیل کے بعد بریلویت نے جس طرح انگڑائیاں لینا شروع کی ہیں۔ اور قادیانیت اور رفض کو جس طرح فروغ ہو رہا ہے۔ اس کے اثرات اور اہل توحید مبلغین کی مشکلات میں جس قدر اضافہ ہورہا ہے اور ان میں دن بدن ترقی کی جو رفتار ہے اسے شائد ہندوستان کے اکابر نہ سمجھ سکیں۔ پاکستان کے دیوبندی اکابرین جن مصالح اور مقتضیات وقت میں روز بروز گرفتار ہورہے ہیں۔"پیری مریدی" کے جراثیم جس عجلت سے یہاں اثر انداز ہو رہے ہیں اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس پورے ماحول سے آشنا ہیں۔ احسان ہوتا اگر دور کے حضرات اس میں مداخلت نہ فرماتے ہمیں معلوم ہے کہ حکومت پاکستان کے مزاج اور یہاں کے اہل ہوا کے مزاج میں جس قدر توافق کارفرما ہے اس کا علاج مصلحت اندیشوں سے نہیں ہوگا اور نہ ہی مدارس کی مسندیں اس عوامی فتنہ کا مداوا ہو سکیں گی۔ یہ طویل سفر طے ہونے تک ممکن ہے مریض زندگی کی آخری گھڑیاں شمار کرنے لگے۔


کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

اس مسئلے کو جو صورت دی جارہی ہے چونکہ اس سے بہت سی شرکیہ بدعات کے دروزے کھل جاتے ہیں اس لیے نامناسب ہوگا اگر اصلاحی تحریک پر اجمالی نظر ڈال لی جائے جو ان بدعات کا قلع قمع کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی کیونکہ اس سے مسئلہ کا پس منظر سمجھنے میں مددمل سکے گی گو اس طرح قدرے طوالت ضرور ہوگئی ہے۔


اصلاحی تحریکات کا مدّوجزر:گیارہویں صدی ہجری کے آغاز سے تیرہویں صدی تک طاغوتی طاقتیں گوکافی مضبوط تھیں مگر خدا تعالیٰ کی رحمت کی تابانیاں بھی نصف النسار پر ہیں۔ اس ثنا میں اللہ تعالیٰ نے مصلحین کی ایک باوقار جماعت کو حوصلہ دیا اور کام کا موقع مہیا فرمایا مصلحین کے پرشکوہ اور فعال گروہ اطراف عالم میں نمودار ہوئے فتح وشکست کے اثرات اور نتائج گو مختلف ہیں لیکن مقام شکر ہے کہ ان حضرات کے صبر وعزیمت نے دنیا میں گہرے نقوش اور نہ مٹنے والے آثار آنے والوں کے لیے چھوڑے ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے۔ وفی ذٰلک فلتینا فس المتنا فسون۔ط۔ نجد میں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب ؒ اور سعودی خاندان، ایران، افغانستان ، مصر اور شام میں جمال الدین افغانیؒ رحمتہ اللہ اور ان کے تلامذہ ہندوستان میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان اور تلامذہ، ان تمام مصلحین نے اپنے ماحول کے مطابق اپنے حلقوں میں کام کیا۔ اور اپنی مساعی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی ۔ محمد بن عبد اوہاب ؒ علمی اور سیاسی طور پر کامیاب ہوئے ۔ جمال الدین افغانیؒ اور ان کے تلامذہ ہندوستان میں حضرت مجدد الف ثانیؒ اورحضرت شاہ ولی اللہ ؒ اور ان کا خاندان اور تلامذہ ان تمام مصلحین نے اپنے ماحول کے مطابق اپنے حلقوں میں کام کیا۔ اور اپنی مساعی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی۔ محمد بن عبد الوہابؒ علمی اور سیاسی طور پرکامیاب ہوئے ۔ جمال الدین افغانیؒ نے ایسے قابل و مخلص دماغوں کو تربیت دی جن کی وجہ سے مصروشام علم و اصلاح کا گہوارہ قرار پایا۔ اور ان کے فیوض نے ذہنوں کی کا یا پلٹ دی۔ ان حضرات کی کوششوں نے یورپ کے مادی منصوبوں کے سامنے ایسی دیواریں کھڑی کر دیں جن کو عبور کرنا ایسی طاقتوں کے لیے آسان نہیں مصروشام کی آزادی اور دینی تحریکات میں ان مساعی کو بہت بڑا دخل ہے جن کا آغاز مجدد وقت شیخ جمال الدین افغانی ؒ اور سید عبدہؒ نے فرمایا اور اس کی تکمیل میں سید رشید رضا، علامہ مراغی سعدزاغلول اور امیر شکیب ارسلان ایسے بیدار مغزلوگوں نے شب دروز محنت فرمائی اور کافی حد تک ان کو کامیابی ہوئی۔

ہندوستان کی تحریک تجدید:ہندوستان کی تحریک احیاوتجدید جس کی ابتداء حضرت سید احمد سرہندی نے فرمائی اور اس کی تکمیل شاہ اسماعیل شہید ؒ اور ان کے رفقاء نے فرمائی۔ ابتدا میں علمی اور اصلاحی تھی۔ علماء سوء اور انگریز کے منحوس وفاق نے اسے مجبورًا سیاست میں دھکیل دیا سکھوں کی حماقت نے اتقیاء کی اس جماعت کو مجبور کردیا کہ وہ جنت کی آگ میں کودیں اور اپنی قیمتی زندگیاں حق کی راہ میں قربان کریں پھر گمراہ کن فتووں کی سیاہی نے ملت کے چہرے کو اس قدر بدنما کردیا تھا کہ اسے دھونے کے لیے شہادت کے خون کے علاوہ پانی کے تمام ذخیرے بیکار ہوچکے تھے۔ وہابیت کی تہمت مستعار نے ذہن ماؤف کردیے تھے، الحاد کا گردانِ پر اس قدر جم چکا تھا کہ اسے صاف کرنے کے لیےصرف شہداء کا خون ہی کاراآمد ہوسکتا تھا۔

چنانچہ مئی ۱۸۳۱ء کی صبح کو یہ مقدس جماعت انتہائی کوشش اور ممکن تیاری کے ساتھ بالا کوٹ کے میدان میں اتری اور دوپہر سے پہلے صدقات کے نہ مٹنے والے نشان دنیا کی پیشانی پر ثبت کرنے کے بعد ہمیشہ کی نیند سوگٕئی۔ ولاتقولو المن یقتل فی سبیل للہ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون ۔

تحریک کا مزاج: پیش نظر مسئلہ کے متعلق بحث ونظر سے پہلے ضروری ہے کہ اس تحریک کا مزاج سمجھ لیا جائے۔ حضرت مجدّد رحمۃ اللہ علیہ سے شاہ ولی اللہ کے ابناء کرام تک یہ تمام مصلحین عظام ظاہری اعمال میں عمومًا حنفی فقہ کے پابند تھے لیکن ذہنی طور پر تین مقاصد کی تکمیل ان کا مطمع نظرتھا۔

1۔تصوف کے غلو آمیز مزاج میں اعتدال
2۔ فقہی اور اعتقادی جمود کی اصلاح اور اشعریت اور ماتریدیت کیساتھ فقہ العراق نے تحقیق و استنباط کی راہ میں جو مشکلات پیدا کی تھیں انہیں دور کیا جائے اور نظر وفکر کی روانی میں جمود سکون سے جو رکاوٹ نمایاں ہوچکی تھی اسے یکسر اٹھا دیا جائے۔ قرآن وسنت اورا ٓئمہ سلف کے معیار پر نظروفکر کو آزادی بخشی جائے۔
3۔ بے عملی نے چند بدعات کو جوسنت کا نعم البدل تصور کرلیا تھا اور بہت بت پرست قوموں کے پڑوس اور مغل باشادہوں کی عیاشیوں نے ان بدعات کو نجات کا آخری سہارا قرار دے لیا تھا۔ اس ساری صورت حال کو بدل کر اس کی جگہ سیدھے سادت اسلام کو دیدی جائے۔ ترکتکم علی ملۃ بلیضاء لیلھا کنھارھا۔ میں آپ کو اس میں تفصیل میں نہیں لے جاؤں گا نہ ہی اپنی تائید میں ان کی تصانیف سے اقتباسات پیش کرکے آپ کا وقت ضائع کروں گا صرف چند امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مجدّدؒ نے مکتوبات میں بدعات کے خلاف کس قدر کڑی تنقید فرمائی ہے۔ بدعت کی حفاظت کے لیے حسنہ اور سیئہ کی تقسیم اہل بدعت کو قلعہ کا کام دے رہی تھی اور عز بن عبد السلام نے جب سے اس تقسیم کی نشاندہی کی تھی اس کے بعد سے ہندوستان میں حضرت مجددؒ ہی تھے جنہوں نے یہ قلعہ پاش پاش کرکے رکھ دیا۔

سجدہ تعظیم کے خلاف گوالیار کے قلعہ میں تین سال قید گوارا فرمائی۔ لیکن سجدہ تعظیم کی گندگی سے اپنی مقدس پیشانی کو آلودہ نہیں فرمائی ۔ فقہی مسائل میں حضرت کے کچھ اختیارات تھے۔ دوسرے علماء کی مخالفت کے باوجود حضرت مجدد اپنی الگ راہ پر قائم رہے حنفی مسلک کے ساتھ وابستگی کے باوجودمتاخرین اور متقدمین کی راہ پر رجماً بالغیب چلنے سے حضرت مجدّدؒ نے انکار فرمایا۔
اس کی زندہ شہادت حضرت کے مایہ ناز شاگرد مرزامظہر جان جاناں موجود ہیں جنہوں نے فاتحہ خلف الامام، رفع الیدین عند الرکوع ، وضوع الیدین علی الصدر ایسے مشہور مسائل میں فقہائے محدثین کی راہ اختیار فرمائی ۔ اور فقہ العراق کے ساتھ کلی تعاون سے انکار فرما دیا
(ابجدالعلوم ،ص900 جلد ۳، محبوب العارفین ص۷٦)
قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی ؒ نے مرزا مظہر جان جاناںؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ ؒ سے استفادہ فرمایا ان کی تصانیف ارشاد الطالبین اور تفسیر مظہر شاہد ہیں کہ حنفی ہونے کے باوجود بدعات اور عبّاد قبور کے خلاف ان کا لہجہ کس قدر تلخ ہے اور بدعی رسوم سے انہیں کس قدر نفرت! شاہ ولی اللہ ؒ نے حجۃ اللہ ،البلاغ المبین ،مصفیٰ اور مسوی، انصاف ، عقد الجید اور تحفتہ الموحدین فقہی جمود، بدعات اور مشرکانہ رسوم کے خلاف ایسی حکیمانہ روش اختیار فرمائی جس سے حقیقت بہت حد تک وضح ہوگئی ۔ اصول فقہ کے بعض مسلمات پر ایسی میٹھی تنقید فرمائی جس سے ذہین طبائع کو جرأت پیدا ہو۔

ازالۃ الخفاء میں بدعت تشیع کو اس قدر عریاں فرمایا کہ ذہین اور دانش مند طبائع کو محبت اہل بیت کے عنوان سے دھوکا دینے کی کوئی گنجائش نہ رہی۔

ان مختصر ارشادات سے اس تحریک اصلاح اور اقامت دین کا مزاج آپ کو سمجھنا مشکل نہیں۔


دیوبندی اور اہل حدیث:یہ دونوں مکتب ،فکری طور پر اسی تحریک کے ترجمان ہیں یا کم از کم مدعی ہیں کہ ہم اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہیں،شاہ صاحب کے مندرجہ ذیل گرامی قدر ارشاد سے یہ حقیقت اور بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس تحریک کا مزاج کیا ہے:"وصیت اول ایں فقیر چنگ زون است بکتاب وسنت ودراعتقاد عملی پیوستہ بتد بیر ہر دومشغول شدن وہر روز حصہ ازہر دوخواندن اگر طاقت خواندان نہ وارد
ترجمہ: ورقے ازہر دو شنید ن ودرعقائد مذہب قدماء اہل سنت اختیار کروںو از تفصیل و تفیش آنچہ سلف تفتیش نہ کروہ اند اعراض نمودن وتبشکیکات معقولیان خام التفات نہ کرووں۔ ودر فروع پیروی علمائے محدثین کو جامع باشندمیاں فقہ وحدیث کردن ودائما تفریعات فقیہ رابر کتاب و سنت عرض نمودن آنچہ موافق باشد درچیز قبول آدردن والا کالائے بدیریش خاوند دادن۔ امت راہیچ وقت از عرض مجتہدات برکتاب وسنت استغناء حاصل نیست وسخن متقشفہ فقہاء کہ تقلید عالے رادستاریز ساختہ تبتع سنت راترک کردہ اندنہ شنیدن وبدیشاں التفات نہ کردن وقربت خداجستن بددری ایناں"الخ(تفہیمات جلد۲،ص ۲۴۰)
ترجمہ: فقیر کی پہلی وصیت یہ ہے کہ اعتقاد اور عمل میں کتاب وسنت کی پابندی کی جائے اور ان دونوں سے شغل رکھے اور پڑھے اور اگر نہ پڑھ سکے تو ایک ورق کا ترجمہ سنے۔ عقائد میں متقدمین اہل سنت کی پیروی کرے سلف نے جن چیزوں کی تفتیش نہیں کی ان کی تفتیش نہ کرے اور خام کا رفلاسفہ کی پروانہ کرے۔ فروع میں آئمہ حدیث کی پیروی کرے جن کی فقہ اور حدیث دونوں پر نظر ہو۔ فقہ کے فروعی مسائل کوہمیشہ کتاب و سنت پر پیش کرتا رہے۔ جو موافق ہو ان کو قبول کرے باقی کو رد کردے۔ امت کو اپنے اجتہادی مسائل کتاب و سنت پر پیش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ متقشف فقہا کی بات قطعاًنہ سنےجن لوگوں نے اہل علم کی تقلید کرکے کتاب و سنت کو ترک کردیا ہے ان کی طرف نظر اٹھا کرنہ دیکھیے ان سے دور رہ کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے۔
اور دوسر ء مقام پر فرماتے ہیں۔
"نسبت پائے صوفیہ غلیمت کبریٰ است ورسوم ایشاں بہ ہیچ نمے ارزدایں بربسیار ے گراں کوابد بودا مامرا کارلے فرمودہ اندوبرحسب آں باید گفت برگفتہ زید دعمر تعرض نمے باید کرو۔" (ص ۲۴۲ جلد۲ تفہیمات)
صوفیوں سے نسبت غنیبت ہے لیکن ان کی رسوم بلکل بے کارہیں یہ بات اکثر لوگوں کو ناگوار ہوگی۔ مگر مجھے جو فرمایا گیا ہے وہی کہناہے زید عمر کی باتوں سے کوئی تعلق نہیں"۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں۔
نحن لانرضی بھٰؤ لاء الذین یبایعون الناس لیشتروا بہ ثمنًا قلیلًا او لبشر بوا اغراض الدنیا بتعلم علم اذ لا یعصل الدنیا الا بالتشبہ باھل الھدایۃ ولا بالذین یدعون الی انفسھم ویامرون بعب انفسھم ھٰؤلاء قطاع الطریق دجلون کذابون ماتونون فتانون ایاکم وایاکم ولا تتبعو الامن دعا الی کتاب اللہ وسنۃ رسولہ" الخ
(تفہیمات جلد ١۔ص۲١۴)
مجھے قطعًا یہ لوگ پسند نہیں جو دنیا کمانے کے لے بیعت کرتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ مجھے پسند ہیں جو دنیوی اعراض کے لیے علم حاصل کریں۔ کیونکہ دنیا حاصل کرنے کے لئے نیکوں کے ساتھ تشبیہ ضروری سمجھتے ہیں نہ ہی وہ لوگ مجھے پسند ہیں جو لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیں یہ لوگ ڈاکو اور دجال ہیں خود فتنے ہی میں مبتلا ہیں اور لوگوں کو اس میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، صرف ان لوگوں کا اتباع کرناچا ہیئے جوکتاب و سنت کی طرف دعوت دیں" ظاہر ہے کہ شاہ صاحب ریا کارانہ تصوف اور دنیا کمانے کے لیے بیعت کے سلسلوں کو قطعًا پسند نہ فرماتے بلکہ ایسےلوگوں کو دجال ڈاکو اور فتنہ انگیز سمجھتے ہیں آج کے خانقاہی نظام اور پیر پرستی کے اداروں کی شاہ صاحب کی نظریں کیا آبرو ہوسکتی ہے وہ سرے سے پیر پرستی کی دعوت ہی کوناپسند فرماتے ہیں۔
مروجہ فقہی مسالک اور ان پر جمود کے متعلق شاہ صاحب کی مزید وضاحت :
رب انسان منکم یبلغہ حدیث من احادیث نبیکم فلا یعمل بہ ویقول انما عملی علی مذھب فلان لا علی الحدیث ثم احتال بان فھم الحدیث والقضاء بہ من شان الکمل المھرۃ وان ائمۃ لم یکونوا ممن نخفی علیھم ھذٰا الحدیث فما ترکوہ الالوجہ ظھر لھم فی الدین من نسخ اومرجو حیۃ۔الخ
(تفہیما ت ص۲١۴ -۲١۵ جلد١)
بہت سے لوگوں کو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث معلوم ہو جاتی ہے تو وہ اس پر عمل نہیں کرتے۔ وہ یہ حیلہ کرتے ہیں کہ فلاں شخص کے مذہب پر میرا عمل ہے حدیث سمجھنا معمولی آدمی کاکام نہیں امام اس حدیث سے بے خبر نہیں تھے۔ یہ حدیث منسوخ ہوگئی یا مرجوح یہ قطعًا درست نہیں اگر پیغمبر پر ایمان ہے تو اس کی اتباع کرنا چاہیئے۔ مذہب اس کے مخالف ہو یا موافق ، خدا تعالی کا منشایہ ہے کہ کتاب وسنت کے ساتھ تعلق رکھا جائے۔
فقہی فروع میں مسلکی جمود شاہ صاحب کو سخت ناپسند ہے اسی طرح وہ ظاہریت محص(امام داود ظاہری کا مسلک) کو بھی نا پسند فرماتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اگر حدیث کی صحت آئمہ حدیث کی شہادت سے ثابت ہوا اور اہل علم نے اس پر عمل بھی کیا ہوا اور اس پر صرف اس لیے عمل نہ کیا جائے کہ فلاں امام نے اس پر عمل نہیں کیا یہ ضلال بعید ہے(ص۲۰۹ جلد ۱ ص۲١١ جلد١)
اس قسم کی تصریحات شاہ صاحب کی باقی تصنیفات میں بھی بکثرت موجود ہیں میں نے یہ طویل سمع خراشی اس لیے کی ہے کہ اس پاکیزہ تحریک کامزاج معلوم ہوجائے تاکہ اس کے دوصدی کے اثرات کا صحیح اندازہ کیا جاسکے۔
ان مقاصد کے خلاف ان بزرگوں کی تصانیف میں اگر کوئی حوالہ ملے تو اس کا ایسا مطلب نہ لیا جائے جو مقاصد تحریک کے خلاف ہوبلکہ وقتی مصالح پر محمول کیا جائے کیونکہ ان بزرگوں نے جن سنگلاخ حالات میں کام کیا ہے ان کے مصالح اور ان کے مقتضیات بدلتے رہتے ہیں، جن مشکلات میں ان حضرات کو کام کرنا پڑا ان مشکلات کا ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ شکر اللہ ماعلیھم
 
شمولیت
مئی 21، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
331
پوائنٹ
0
شاہ صاحب کا مقام:اس تحریک میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسا برزخ ہیں کہ حضرت مجدّد اور ان کے ارشد تلامذہ کی علمی اور عملی مساعی سے شاہ صاحب پورا پورا اثر لیا اور شاہ صاحب نے اپنے بناؤ واخفاد اور تلامذہ کو ان برکات سے علمی اور عملی استفادہ کا موقع دیا ہے اس لیے میں نے شاہ صاحب کے ارشاد کو کسی قدر تفصیل سے عرض کرنا مناسب سمجھا ۔
مسئلہ حیاتِ نبوی:نیز متنازعہ فیہ مسئلہ میں مجلہ"دارلعلوم" کے مضمون نگار حضرات نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں حیات دنیوی کی صراحت شیخ عبدالحق صاحب کے بعد صرف اکابر دیوبند ہی نے فرمائی ہے ہاں شاہ عبد الحق سے پہلے حافظ بہیقیؒ اور سیوطیؒ نے اس موضوع پر مختلف رسائل لکھے ہیں، مگر افسوس موضوع صاف نہیں فرماسکے، ایسا معلوم ہوتا ہے ان حضرات نے اس قسم کا ذخیرہ جمع فرمایا ہے جس کے متعلق ان کے ذہن بھی صاف نہیں کہ وہ حیات ثابت فرمانا چاہتے ہیں لیکن اس کی نوع متعین نہیں فرماتے ۔ حافظ سیوطیؒ کے رسالہ میں سبکی کے سوا حیات دنیوی کا کسی نے ذکر نہیں کیا بلکہ حافظ سیوطیؒ کا رجحان بعض مواقع میں حیات ِ برزخی کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ حافظ سیوطیؒ انتہائی کوشش کے باوجود آیت انّک میت وانھم مییّتون(سورۃ ذمر) اور حدیث فیرد اللہ علی روحی ۔ اور حدیث الانبیاء احیاء فی قبور ھم یصلون۔ میں تعارض نہیں اٹھا سکے بلکہ حافظ سیوطیؒ نے تو حاطب دلیل کی طرح ایک غیر موثق ذخیرہ جمع فرمادیا ہے جس سے حضرات قبور یین کو مدد ملے گی اور سادہ دل اہل توحید کے دل شبہات سے لبریز ہوں گےقریباً یہی حال حافظ ابن القیم کی کتاب الروح کا ہے۔ فحول اہلحدیث اور ماہرین حال کو تو کوئی خطرہ نہیں لیکن عوام کے لیے یہ مورد مزلئہ اقدام ہے۔
صورت تصفیہ:اس لیے تصفیہ کی صحیح صورت یہی ہوسکتی ہے کہ تحریک کے مزاج کی روشنی میں شاہ صاحب سے تعلق رکھنے والے اور اس خاندان کے عقیدت مند مسلّم سمجھنے کی کوشش کریں، اگر اکابر ہی کی اقتداء اور تقلید سے اس مسئلہ کوسمجھنا ہے، کتاب و سنت اور بحث و استدلال سے صرف نظر ہی کا فیصلہ فرما لیا گیا ہے تو پھر اکابر کے اکابر اور بانیان تحریک کے نظریات سے کیوں استفادہ نہ کیا جائے؟ مولانا حسین احمد مرحوم اور حضرت مولانا نانوتوی مرحوم کی رائے فیصلہ کن ہے تو بانیان تحریک اور تحریک کے مدارج کو حکم کیوں نہ مان لیا جائے؟

شاہ شہید رحمۃ اللہ علیہ:مولانا شاہ محمداسماعیلؒ کی شہادت اور عبقریت نے پوری تحریک کو نظریات اور تصوّرات کی دنیا سے عمل کے میدان میں لاکھڑا کردیا۔ اشارات اور تعریضات کو تصریحات سے بدلا، جو کچھ کتابوں کے اوراق کی زینت تھا اسے بالا کوٹ کے میدان میں علی راس التمام رکھ دیا گیا ، سکھوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتایا کہ حق وصداقت ، ایثار وقربانی کے جوہر مناظرات اور مکالمات ہی سے ظاہر نہیں ہوتے ان کے ظہور کابہت بڑا ذریعہ تلوار اور میدان جنگ ہی ہے قلم کی دوزبانوں اور دوات کی روشنائی سے جوکچھ کیا جاسکتا تھا، اس سے کہیں زیادہ قوّت گویائی خون کے چھینٹوں میں ہے اس لیے گلرنگ قطرات ہزاروں زبانوں پر تالے ڈال سکتے ہیں اور وہ برسوں گنگ ہوسکتی ہیں اور سینکڑوں دلوں سے دلوں سے تالے اتار کر انہیں فہم وفراست عطا کی جاسکتی ہے لیکن یہ کام اصحاب التدریس اور ارباب التصانیف کا نہیں یہ وہ لوگ کریں گے جو کاغذاور دوات قلم اور روشنائی کے علاوہ سیف وسنان سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ انہیں آلات حرب سے گہرا تعارف ہو!

خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را۔

حضرت شہیدؒ نے تحریک کے مقاصد کی اشاعت کے لیے شہادت سے پہلے تقویۃ الایمان لکھی اور ساتھیوں کے مشورہ کے بعد اسے شائع فرمایا تزکر الاخوان کا مسودہ لکھا معترضین کے جوابات لکھے اور یہ سب کچھ تحریک کی تائید اور اس کے مقاصد کی روشنی میں تھا، آج اگر اکابر دیوبند اور علماء اہل حدیث کوئی ایسی چیزیں فرمائیں جوتحریک کے مزاج سے مصادم ہوں تو اُسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔

ستیزہ کار رہا ہے از ل سے تا امروز


تیسرا ہنگامہ:شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک نے احیائے سنت اور تجدید ماثردین کی راہ میں جہاں عظیم الشان قربانیاں پیش کیں وہاں ایک تحریک اس کے بالمقابل شروع ہوئی جس نے بدعات کے جواز میں دلائل کی تلاش کی اور عوام کی بدعملی کے لیے وجہ جواز پیدا کرنے کی کوشش کی بدعت ہر زمانہ میں رہی ، حالات کے ماتحت اس کی مختلف صورتیں بنتی اور بگڑتی رہیں بدعت کا وجود کبھی منظم طور پر موجود رہا، مغل حکومت میں بدعت عام تھی لیکن بظاہر غیر منظم اسے ترجمانی کے لیے علماء کی باقاعدہ خدمات میسّر نہ آسکیں۔
مغل زوال کے بعد سکھ ، مرہٹے ، انگریز ، اہل توحید سب نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی موحدین کے لشکر کی سیاسی شکست نے اہل بدعت پر سکتہ طاری کردیا، لیکن باطل نے اقتدار کی زمام سنبھال لی، ۱۸۵۷ء کے معرکہ حریت میں اسے محسوس ہوا کہ علماء کی خدمات کے بغیر اقتدار پر قبضہ کرنا اور مسلمانوں کو مطمئن کرنا مشکل ہے جویندہ یا بندہ اسے کچھ اہل علم میسر آگئے، جن سے انگریز کا کام چل نکلا تحریک توحید کی سرپرستی رائے بریلی کے ایک فقیر نے فرمائی تھی، شرک وبدعت انگریز کا کام چل نکلا ، تحریک توحید کی سرپرستی رائے بریلی کے ایک فقیر نے فرمائی تھی، شرک وبدعت کی سرپرستی بانس بریلی کے ایک خاندان کے حصہ میں آئی ، مولوی احمد رضا خاں صاحب ۱۶۷۴ھ میں پیدا ہوئے خاندان میں پڑھنے پڑھانے کا چرچا موجود تھاسن رشد کو پہنچے بقول موصوف ان کے والد مولانا نقی علی خان نے اپنے ہونہار فرزند کو۱۶۸۶ء میں مسند افتاء پر بٹھا دیا خان صاحب نے مسند سنبھالتے ہی بدعت کی تائید اور شرک کی حمایت شروع فرمائی۔
شرک کو مدلل اور اہل بدعت کو منظم کرنیکے لیے موصوف نے اپنے اوقات عزیز وقف فرمادیے کوشش فرمائی کہ عوام میں جس قدر بدعملی اور بدعی رسوم موجود ہیں ان سب کو سند جواز عطا فرمائی جائے عوام کو معاصی پر جرأت دلائی جائے اور کوشش کی جائے کہ ہرہر بدعت جائز قرار پاجائے خان صاحب کی چھوٹی موٹی تصانیف کودیکھا جائے توظاہر ہوتا ہےکہ ان کا مقصد فی سبیل اللہ فساد کے سوا کچھ نہیں، ان تصانیف میں کوئی ایسی کتاب نہیں جس سے مسلمانوں کی دینی معاشی یا سیاسی زندگی میں تبدیلی نمیاں ہوسکے۔ خان صاحب نے مدت العمر کسی سیاسی یا علمی تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ البتہ ہزاروں مسلمان جن کے علم اور قلم کے زور سے کافر قرار پائے اور ان سارے کوششوں میں انگریز کا دست شفقت خان صاحب کو سہارا دیتا رہا۔

مخالفِ توحید تحریک کی ناکامی:حقیقت یہ ہے کہ رضا خانی تحریک کا براہ راست مقابلہ کتاب وسنت سے اور اس کی جنگ مجاہد اسلام اور شہدائے حق سے تھیان کی تکفیر کا نشانہ شہدائے بالا کوٹ تھے۔ ان لوگوں کو خود گوار مشغلہ صرف تقویۃ الایمان ، نصیحۃ المسلمین ، راہ سنت اور کتاب التوحید ایسی مدلل کتابوں بلکہ قرآن کے بھی بعض بنیادی حصص کی تردید کرنا ہی رہ گیا تھا اور ان کے مد مقابل جو لوگ تھے وہ تھے اکابرا اللہ وہ جنہوں نے کتاب و سنت کی اشاعت وتبلیغ اور مسلمانوں میں احیائے جہاد میں اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں، ظاہر ہے ان مقدس ہستیوں کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ تعالی کی مدد کہاں مل سکتی تھی۔ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے ۔ من عادی لی ولیاً فقد اٰذنتہ بالحرب (مشکوٰۃ) یعنی جومیرے اولیاء سے دشمنی رکھے میرا س سے اعلان جنگ ہے چنانچہ یہ تحریک حق تعالیٰ کے غضب کی گرفت میں آگئی جس کے نتیجے میں ان میں چند ایسی خصوصیات پیدا ہوگئیں جن کے ہوتے ہوئے ان حضرات کی کامیابی ناممکن ہے۔
وہ خصوصیات مختصرًا ذیل میں معروض ہیں۔
1۔ اہل حق اور اتقیاء سے بغض۔
2۔ زبان درازی وبدزبانی۔
3۔ مسلمانوں کی تکفیر ۔
4۔بے ضرورت اور بے مقصد مسائل پر زور مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اب بھی دنیوی زندگی حاصل ہے وغیرہ۔
5۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر وموجود ہیں۔
6۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام اختیارات اور خصائص اپنے بندوں کو دے دیے ہیں یعنی تمام اولیاء ۔۔۔۔ معاذاللہ۔۔۔۔۔عطائی دوہبی خداہیں
7۔قریباً تمام سیاسی لیڈر اور تمام سیاسی جماعتیں کا فر ومرتد ہیں(ملاحظہ ہوفتاوٰی رضویہ ملفوظات منجانب اہل البدعہ وغیرہ ودیگرار شادات"بریلویہ)
واقعات شاہد ہیں کہ یہ لوگ بالکل باطنی فرقہ کے نقشِ قدم پر چل پڑے ہیں اور توحید وسنت کی ترقی سے کچھ بوکھلا سےگئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پر بالکل یا س کی حالت طاری ہوگئی ہے اور مولانا محمد اسماعیل شہید قدس اللہ روحہ جیسی ہستی کی بے ادبی کرنے کی سزا ان کو یہ ملی ہے کہ ان کے بزرگوں سے علم سلب کرلیا گیا ہے۔ سمجھ دار اور علماء ان حضرات میں روز بروزکم ہورہے ہیں، جہلاء کے ساتھ ربط ، عوام کی شورش وشرارت پسندی کے سوا دنیا میں ان کا کوئی سہارا نہیں ، اہل توحید کی مساجد پر قبضے، شرفاء پرقاتلانہ حملے، خانقاہوں کے مجاوروں کی سفارشوں اور رشوتوں سے مقدمات جتنا ان حضرات کا پاکستان میں عمومی مشغلہ ہے مگر مشترکہ امور میں عوام سے اشتراک ، دوسری جماعتوں کے سٹیجوں سے اور معقولیت سے گفتگو کرنے افہام وتفہیم اور نزاعی امور میں اصلاحی سے عمومًا اس جماعت کے اکابر پرہیز کرتے ہیں احساس کمتری اور لامساس کے مرض میں عمومًا یہ لوگ مبتلا ہیں۔ اللہ تعالی ٰ ہم سب کو اصلاحی ذات البین کی توفیق مرحمت فرمائے تاکہ مختلف الخیال جماعتیں مل کر اپنے تنازعات کا منصفانہ فیصلہ کرسکیں، لیکن اسکا کیا کیا جائے کہ باطنی فرقہ کی طرح یہ حضرات فسادات کو سرمایہ حیات سمجھتے ہیں۔

محل نِزاع:اس موضوع پر امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ سے آج تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں محل نزاع کا تعین نہیں فرمایا گیا، امام بہیقی نے ائمہ حدیث کی طرح اس موضوع کے متعلق مواد جمع فرمایا ہے، حافظ سیوطی نے کتاب الروح اور حیات الانبیاء سے استفادہ بھی فرمایا اور بعض احادیث کی توجہیات بھی کی ہیں۔ حافظ سیوطیؒ نے کتاب الروح سے تو استفادہ فرمایا ہے لیکن معلوم نہیں قصیدہ نونیہ کی طرف ان کی توجہ کیوں مبذول نہیں ہوئی، حالانکہ قصیدہ نونیہ میں حافظ ابن القیم ؒ نے اس موضوع کو بہت زیادہ منقح فرمایاہے۔
اہل حدیث اور فقہاء:اہل سنت کے دونوں مکاتب فکر، اصحاب الرائے واہل حدیث کا اس امر پر اتفاق ہے کہ شہداء اور انبیاء زندہ ہیں۔ برزخ میں وہ عبادات تسبیح وتہلیل فرماتے ہیں ان کو رزق بھی ان کے حسب حال اور حسب ضرورت دیا جاتا ہے شہداء کے متعلق حیات کی وضاحت قرآن عزیز میں موجود ہے، انبیاء کی زندگی کے متعلق سنت میں شواہد ملتے ہیں صحیح احادیث میں انبیاء علہیم السلام کے متعلق عبادت وغیرہ کاذکر آتا ہے، پاکستان میں جو لوگ توحید کا وعظ کہتے ہیں وہ عقائد کی اصلاح کے سلسلے میں مہینوں مسلسل سفر کرتے ہیں۔ انبیاء اور شہداء کی برزخی زندگی اور اس زندگی میں مراتب کے تفادت کے قائل ہیں ان لوگوں کا عقیدہ بالکل درست ہے۔
جوشخص قبر میں عذاب یا ثواب کو احادیث نبویہ کی روشنی میں مانتا ہو وہ ان صلحاء کے متعلق عدم محض وفقدان صرف کا قائل کیوں ہوگا، ہاں مراتب کا فرق یقینی ہے انبیاء کا مقام یقیناً شہداء سے اعلی وارفع ہونا چاہیئے۔ بحث اس میں ہے کہ آیا یہ زندگی دنیوی زندگی ہے ؟ دنیوی زندگی کے لوازم اور تکالیف ان پر عائد ہوتی ہیں، قبور میں نما ز یا تسبیح برزخی طبیعت کاتقاضا ہے؟ یا شرعی تکلیف کا نتیجہ؟ جو لوگ دنیوی زندگی کے اس معنی سے قائل ہیں ان سے واقعی اختلاف اور آئندہ گذارشات میں مولانا نظر اور مولانا محمد زاہد صاحب کے ارشادات کی چھان پھٹک اسی زندگی کے پیش نظر کی گئی ہے۔ آنحضرتﷺ کے جسم اطہر کی سلامتی اور مٹی سے غیر متاثر ہونا اسی میں بھی اختلاف نہیں۔ غرض جو کچھ کتاب و سنت میں صراحۃً آیا اور صحیح احادیث اس پر ناطق ہیں اس میں کوئی نزاع نہیں۔

حیات النبیﷺ کے متعلق بریلوی عقیدہ:اس معاملہ میں مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی قابل شکر یہ ہیں انہوں نے موضوع کو وضاحت سے سامنے رکھا ہے دلیل ہو یا نہ ہو لیکن انہوں نے فرمانے میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔
فرماتے ہیں:۔
"فانھم (الانبیاء) صلوات اللہ تعالیٰ وسلامہ علیھم طیبون طاھرون احیاء وامواتا بلی لاموت لھم الا انیا تصدیقا للوعد تم ھم احیاء ابدًا حیات حقیقیۃ دنیاویۃ روحانیۃ وجسمانیۃ کما ھو معتقد اھل السنۃ والجماعۃ (بریلویہ) ولذالایورثون ویمتلنع تزوج نساء ھم صلوات اللہ تعالی وسلامہ علیھم بخالف الشہداء الذین نص الکتاب العزیز انھم احیاء ونھی ان یقال لھم اموات" (فتاویٰ رضویۃ جلد اول ،ص٦١۰)
خان صاحب فرماتے ہیں" انبیاء علہیم السلام پر ایک آن کے لیے موت آتی ہے اس کے بعد روحانی اور جسمانی لحاظ سے ان کو حقیقی زندگی اور ابدی حیات حاصل ہوتی ہے، یہ اہل سنت کا عقیدہ ہے(مگر جو اہل سنت ہیں ان کی کتابوں میں نہیں) اسی لیے ان کا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ازواج کو نکاح ثانی کی اجازت نہیں لیکن شہداء کی زندگی اس کے خلاف ہے ان کا ترکہ بھی تقسیم ہوتا ہے اور بیویاں بھی نکاح کر سکتی ہیں" اور اس قسم کی صراحت خان صاحب نے فتاوی رضویہ ص٦١١ میں فرمائی ہے۔


دیوبندیوں کی بریلویوں سے ہم نوائی:مولانا حسین احمد صاحب مرحوم مکاتیب میں فرماتے ہیں" آپ کی حیات نہ صرف روحانی سے جو کہ عام شہداء کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی اور ازقبیل حیات دنیوی بلکہ بہت وجوہ سے اس سے قوی تر(ص130 جلد۱) سنا ہے مولانا نانوتویؒ اور بعض اکابر دیوبندی بھی اس قسم کی حیات کے قائل تھے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی۱۰۵۲ء نے بھی مدارج النبوت میں حیات دنیوی کا اعتراف کیا ہے۔ حافظ سیوطیؒ نے سبکی ؒ سے بھی اسی قسم کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ لیکن عام فقہا اور محدثین احناف، شوافع ، موالک ، حنابلہ رحمہم اللہ سے اس قسم کی صراحت منقول نہیں ہوئی۔ حضرات دیوبند سے بھی حضرت مولانا حسین علی مرحوم(واح بچھراں) اور ان کے تلامذہ مولوی نصیر الدین صاحب وغیرہ بھی صراحۃ اس کے خلاف ہیں۔
غور وفکر کے لیے چند گذارشات: (۱) یہ ایسا خیال ہے کہ امت میں گنتی کے دس آدمی بھی نہیں جو اس کی صراحت کرتے ہوں لہذا اسے اجتماعی عقیدہ کہنا اہل علم کے لیےمناسب نہیں۔
۲۔ اسے متواتر کہنا بھی صحیح نہیں کیونکہ تواتر کی کوئی شرط بھی اس میں نہیں پائی جاتی کم از کم تواتر میں حواس کا ادراک لازمی ہونا چاہیئے قرآن جس زندگی کو خارج از شعور فرمارہا ہے وہاں حواس اور اس کے استعمال اور ادراک کی گنجائش کہاں ہوسکتی ہے۔
۳۔ جس اصلاحی تحریک کےساتھ تعلق کی بنا پر آپ حضرات کو وہابیت کا سرخاب لگایا گیا اس کے مزاج میں تو سماع موتی کی بھی گنجائش معلوم نہیں ہوتی ، حیات دنیوی اس میں کہاں سجے گی مرحوم مولانا حسین علی صاحب (واح بچھراں) اور پوری جماعت اہل حدیث نے کتاب وسنت اور مقدس تحریک کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ان"الہامی" اوہام کا انکار کردیا ہے۔

وکانت دلیلی فی صعود من الطوی فلما توا فینا ثلٰث فزلّت

۴۔ خاں صاحب بریلوی اور مولانا حسین احمد رحمۃ اللہ علیہ نے انبیاء کی حیات کو شہداء کی منصوصی حیات سے ممتاز فرمایا ہے کہ انبیاء کی حیات قوی ہے مگر اس طرح شہداء کو مقیس علیہ قرار دے کر انبیاء کی حیات کو ثابت کرنا درست نہ ہوگا اقوی کو اضعف پر قیاس کرنا اصول کی تصریحات کے خلاف ہے۔
۵۔ انبیاء کے ترکہ کی تقسیم اور نکاح ازواج کی حرمت کی علّت اگر واقعی دنیوی زندگی ہے تو اس کا حکم شہداء کی آواز اور ترکہ کے متعلق بھی یہی ہونا چاہیئے خاں صاحب اور مولانا نے اس میں خلاف کی صراحت فرمائی ہے ۔ اس لئے حیات انبیاء کے لیے سورۃ بقرہ اور آل عمران کی آیات کو اساسی نہیں قرار دنا چاہیئے۔
۶۔ ایسے اوہام کو عقیدہ کہنا بھی صحیح معلوم نہیں ہوتا کتب عقائد (شرح عقائد نسفی، عقیدہ طحاویہ، شرح العقیدہ الاصفہانیہ عقیدہ صابونیہ وغیرہ) میں اس کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ کتب عقائد کے سارے مشمولات کے مستقل عقیدہ کی حیثیت بھی محل نظر ہے عقیدہ کے لیے حسب تصریح متکلمین واشاعرہ وماتریدیہ قطعی دلائل کی ضرورت ہے حیات انبیاء کی احادیث اسناد کے لحاظ سے اخباراحادصحیحہ سے بھی فروتر ہیں۔ کما لایخفی علی من لہ نظڑ فی فن الرجال۔
۷۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے وقت بعض امہات المومنین کی عمر بہت کم تھی خان صاحب بریلوی نے اہل اللہ کی حیاتِ دنیوی کے ساتھ شب باشی کا راستہ بھی کھول دیا (ملفوظات جلد ۳ ص۳۶) (لاحول ولا قوۃ الا باللہ) اکابر دیوبند صرف زندگی کے قائل ہیں اور خیال فرماتے ہیں کہ عقلاً زندگانی کافی ہے حالانکہ حقوق زوجیت کے لیے صرف حیات کافی نہیں کیا اس قسم کے بھونڈے استدلال سے پرہیز ہی زیادہ مناسب نہ تھا؟
۸۔ موت کی پوری حقیقت تو معلوم نہیں بظاہر فوت جسم اور روح کے انفصال کا نام ہے جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس پرشریعت نے عدت اور تقسیم ترکہ کے احکام مرتب فرمائے ہیں اہل سنت موت کے جسم اور روح کے غیر شعوری تعلق کو مانتے ہیں عدم محض اور کلی فقدان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے مولانا محمد زاہد صاحب کے ارشادات کا آخری حصہ بالکل بے ضرورت ہے پاکستان کے اہل توحید انبیاء علیہم السلام کے متعلق موت کی کسی نئی قسم کے قائل نہیں۔
۹۔ دنیوی زندگی ماننے سے کوئی عقلی مشکل تو قطعاً حل نہیں ہوگی البتہ بیسیوں مشکلات اور سامنے آجائیں گی جن کا حل کرنا ناممکن ہوجائے گا۔
عقل مند آپ سے دریافت کریں گے کہ زندہ نبی کو دیوار کی اوٹ میں چھپانے میں کیا حکمت ہے اور اس سے کیا حاصل؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مند خلافت پر کیسے تشریف رکھی؟ حضرت فاطمہؓ نے ترکہ کیوں طلب کیا کیا ان کو معلوم نہ تھا کہ والد کی زندگی میں یہ مطالبہ درست ہی نہیں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیث نحن معاشرالانبیاء فرما کر ان کو مطمئن فرمایا یہ کیوں نہ فرمایا کہ مطالبہ قبل ازوقت ہے فتنہ ارتداد اور بعض دوسرے مصائب میں نہ صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع نہ کیا حالانکہ زندگی میں بوقت ضرورت دونوں ایک دوسرے کی طرف رجوع فرماتے تھے حافظ ابن القیمؒ کیا خوب فرماتے ہیں۔

لوکان حیاًفی الصریح حیاتہ قبل الممات بغیر مافرقان
ماکان تحت الارض بل من فوقھا واللہ ھٰذی سنۃ الرحمان
اتراہ تحت الارض حیاثم لا یفتیھم بشرایع الایمان
ویریح متہ الا را ء والخلف العظیم وسائر البھتان
ام کان حیا عاجزا من نطقہ ومن الجواب لسائل لھفان
وعن الحرک فما الحیاۃ اثلات قد اثبتموھا او ضحوا ببیان
(قصیدہ نونیہ ص١۴١ طبع مصر)
 
شمولیت
مئی 21، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
331
پوائنٹ
0
اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی دنیوی ہے تو زمین کے نیچے کے بجائے عادت کے مطابق زمین کے اوپر رہنا چاہیئے آپﷺ زمین کے نیچے زندہ ہوں اور فتویٰ نہ دیں صحابہؓ کو اختلاف اور ان پربہتان سے نہ بچائیں اگر زندہ ہوتے تو سوال کا جواب دیتے نیز اگر حرکت کرنے سے عاجز ہیں تو پھر زندگی نہ رہی جسے آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
دنیوی زندگی ماننے کی صورت میں اس قسم کے سینکڑوں عقلی سوال آپ پر عائد ہوں گے اور اسلامی تاریخ ایک معمہ ہوکررہ جائے گی حضرت امام حسین ؓ کی شہادت ، حضرت حسنؓ کی صلح مختار بن عبید ثقفی کی عیاریاں حرہ کا فتنہ ، مسلیمہ اور اسود کی نبوت ، حجاج بن یوسف کے مظالم ، عباسی انقلاب ، سقوط بغداد اور ترکوں کے مظالم ، قادیانی نبوت ایسے حوادث لیکن کہیں بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ آنحضرت ﷺ مداخلت فرمائیں ۔ مسجد کے ایک خادم کی موت پر حضرت بے قرار ہوں اور قبر پر نماز جنازہ ادا فرمائیں اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ ، حضرت علی ؓ کی شہادت پر تعزیت کے لیے بھی تشریف نہ لائیں عقل مند اور ذہین لوگ آپ سے دریافت کریں گے کہ آخر یہ کیوں ہے؟ حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی تلخی بالکل پر محل ہے۔

یا اقومنا استحیوا من العقلاء والمبعوث بالقران والرحمان
واللہ لاقدر الرسول عرفتم کلا ولا للنفس والانسان
من کان ھذا القدر مبلغ علمہ فلیستر بالصمت والکتمان
ولقد ابان اللہ ان رسولہ میت کما قدجاء فی القرآن


(قصیدہ نونیہ ص١۴١)

اے قوم! تمہیں خدائے ذوالجلال قرآن اور عقل مندوں سے شرمحسوس ہونی چاہیئے نہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر کو پہنچانا نہ انسانیت اور روح کی اقدار کو تم نے سمجھا جس کا اسی قدر مبلغ علم ہو اسے خاموش ہوکر چپ رہنا چاہیئےاللہ تعالی نے صراحت سے فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر موت وارد ہوچکی"


انبیاء کی حیاتِ دنیوی ، اہل بدعت کا مذہب ہے



ابن القیم کے بیان سےتو معلوم ہوتا ہے کہ حیات ِ دنیوی اہل بدعت اور معطلہ کا مذہب ہے، قصیدہ نونیہ ص۱۴۰ ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں" ہماری یہ شہادت ہے کہ تم زمین پر قرآن کو خدا کا کلام نہیں سمجھتے نہ آسمان پر خدا کو تم قابل اطاعت سمجھتے ہو اور نہ ہی تمہارے خیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں مدفون ہیں"۔
اگر مولوی احمد رضا اس قسم کی بہکی باتیں کہیں تو تعجب نہیں، اہل توحید اور مدرسین حدیث سے اس قسم کے خیالات کا اظہار تعجب انگیز ہے۔
کیا موت انبیاء کے لیے موجب توہین ہے: یہ سمجھ نہیں آیا کہ انبیاء علیہم السلام اور اہل اللہ کے حق میں ہم موت سے گھبراتے کیوں ہیں؟ موت کوئی بری چیز نہیں، نطفہ سے شروع ہوکر قبض روح طفولیت، صبا ، مراہقت ، شباب ، کہولت ، شیخوخت زندگی کےمختلف مرتب ہیں ان میں پسندیدہ اور ناپسندیدہ عوارض ہیں مگر انبیاء صلحاء، اہل اللہ سب کو اس راہ سے گزرنا ہے اس لیے کسی کے لیےاس میں کوئی منزل نہ تو خوشگوار ہے نہ موجب توہین زندگی بہر حال ان منازل ہی سے تعبیر ہے۔
قرآن عزیز نے فرمایا خلق السموات والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملاً(ملک) یعنی موت وحیات اسی دارل الابتلاء کی منازل ہیں جن سے ہر انسان کو گزرنا ہے دنیوی زندگی سے آخرت تک پہنچنے کے لیے موت ایک پل ہے جسے سب کو عبور کرنا ہے، اس میں نہ تحقیر ہے نہ اہانت اگر موت کوئی بری چیز ہے تو انبیاء اور صلحاء پر اسے ایک آن کے لیے بھی نہیں آنا چاہیئے اور اگر واقعی آخرت کے سفر کی یہ بھی ایک منزل ہے تو اس کے لیےپیچ وتاب کھانے کی ضرورت نہیں اسے اسی قانون سے آنا چاہیئے جو ساری کائنات کے لیے اس کے خالق نے تجویز فرمایا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو فرمایا لعلیّ لا القاک بعد عامی ھٰذا(مجمع الزوائد) شائد میں تمہیں آئندہ نہ مل سکوں اسی طرح ایک خاتون سے فرمایا ان لم نجدینی فاتی ابابکر(مشکٰوۃ) اگر میں زندہ نہ رہا تو تم (حضرت) ابوبکرؓ کے پاس آنا سورۃ نصر کے نزول پر حضرت صدیق اکبرؓ کو خطرہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ ونیا سے رخصت ہوجائیں گے آپؓ رودیے آنحضرت ﷺ نے کچھ سنا اور ایک لمحہ کے لیے اُسے ناپسند نہیں فرمایا تاریخ سیرت اور سنت کے دفاتر موت کے حوادث سے بھر پور ہیں پھر معلوم نہیں ہم لوگ اس کے ذکر سے لرزہ براندام کیوں ہیں آنحضرت ﷺ کی وفات کے تذکرہ سے ازدیوبند تابریلی ارتعاش کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے احادیث کی کتابوں میں آنحضرت ﷺ کی وفات ، موت ، تہجیزو تکفین ، دفن کے عنوان موجود ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے بھراہٹ کیوں ہوتی ہے؟ بعض امہات المومنین ؓ نے آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد سر کے بال کٹوا دیے اس لئے کہ اب ان کی ضرورت نہیں(صحح مسلم) بعض امہات المومنین نے سر بالکل منڈادیا۔(مجمع الزوائد)
کیونکہ حضرت انتقال فرما چکے ، اسے موت کہیئے وصال کہیئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلوت گزین فرمایئے کوئی عنوان اختیار فرمایئے حقیقت یہ ہے کہ جسم اور روح کا دنیوی پیوند ٹوٹ چکا ہے یہی موت ہے جو برزخی احوال اور قبر کی زندگی کے منافی نہیں بلکہ اس منزل تک پہنچنے کا ایک صحیح ذریعہ ہے آپ فرمائیں کہ عالم برزخ میں موت اور زندگی میں ترادف ہے تو مجھے اس اعتراض سے انکار نہیں مگر موت کا انکار اہل علم سے ایک شرمناک سانحہ ہے۔
عنوان سے حقیقت نہیں بدلتی: عنوان اور تعبیرات کی تبدیلی سے حقائق نہیں بدل سکتے ۔ مولانا حسین احمد کی جلالت قدر اور مولانا قاسم نانوتویؒ کی غزرات ِ علمی اور شیخ عبد الحق کی سادگی اس حقیقت کو نہیں بدل سکتی جس کا اقرار قرآن حکیم نے محکم آیات میں فرمایا ہے اور صحابہؓ نے اس پر اجماع فرمایا ہو اور دنیا کی تاریخ نے اس کی تصدیق فرمائی ہو غرض موت سے گبھراہٹ کا کوئی سوال ہی نہیں یا پھر صراحت فرمایئے کہ موت بری چیز ہے، اس میں حقارت پائی جاتی ہے اور اسے ایک لمحہ کے لیے بھی مت تسلیم فرمایئے واقعی آنحضرت ﷺ کی بے ادبی کفر ہے۔
کراہۃ الموت: قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے موت سے کراہت کفر کی علامت ہے یہودی اور مشرک موت کو ناپسند کرتے تھے ولتجد نھم حرض الناس علی حیوۃ ومن الذین اشرکوا یود احدھم لویعمرالف سنۃ(۹۲:۲) یہودی اور مشرک دنیوی زندگی کے زیادہ خواہش مند تھے وہ چاہتے ہیں کہ اس دنیا میں ہزار ہزار سال زندہ رہیں لیکن اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں، عذاب بہرحال ہوکر رہے گا۔غزوہ احد میں منافق بھی موت ہی سے گبھراتے تھے قرآن عزیز نے فرمایا این ماتکونو یدر کم الموت ولوکنتم فی بروج مشیدۃ،(تم گچ گنبدوں میں بھی قیام کرو موت ضرور آئے گی)۔
آنحضرتﷺ کی دعوت مباہلہ:انبیاء علیہم السلام اور صلحاء امت جن کا مستقبل انتہائی تابناک اور روشن ہے وہ اس سے کیوں گھبرائیں آنحضرتﷺ فداہ روحی نے مخالفین کو دعوت مباہلہ دی ہم اگر ان سے موت کی نفی مانیں تو مدعی سست اور گواہ چست کی مثال صادق آئے گی اہل توحید کا مقام ہے کہ اس میں انبیاءعلیہم السلام ہی کی طرح وہ راضی برضاہیں نہ زندگی سے مسرت نہ موت کا غم جو حکم آئے اس کے لیے ہر وقت تیار آخر یہ کیا مصیبت ہے مولانا بریلوی ایک آن کے لیے موت تسلیم کرتے ہیں اگر موت مقام نبوت کے منافی ہے تو ایک آن کے لیے بھی کیوں ہو اگر یہ منافی نہیں تو ان کے لیے اس قانون قدرت کو کیوں بدلا جائے۔

خان صاحب بریلوی کی طویل ایک آن:اور خاں صاحب بریلوی کی "آن" تو اتنی طویل ہے کہ آنحضرتﷺ کا انتقال سوموار کو ہوا، دفن بدھ کو فرمایا گیا گھر والوں نے تجہیز و تکفین کے انتظامات کیے، دوسرے ساتھیوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں آئندہ خلافت کے متعلق دانش مندانہ فیصلہ فرما لیا آنحضرتﷺ کی نماز جنازہ ملائکہ نے پڑھی ایک لاکھ سے زائد صحابہؓ نے پڑھی خان صاحب قبلہ کی ربڑ کی آن ختم نہ ہو سکی یا پھر ملائکہ کو اور صحابہؓ کو آنحضرت ﷺ کی دنیوی زندگی کا احساس نہیں ہوا۔تیسرے دن اشک بار آنکھوں کے ساتھ جیتے پیغمبر کو دفن کردیا اس زندگی کو نہ بیویاں سمجھ سکیں نہ حضرت فاطمہ جان سکیں مشہد کے شیعہ حضرات آپ سے دریافت کریں گے کہ زندہ درگور کرنے والے آیا آنحضرتﷺ کے سچے ساتھی تھے؟ علماء ہیت دریافت کریں گے یہ آن کتنے گھنٹوں کی تھی؟

یا لعقول الطائشہ! ویاللمضحکات! وقد صدق ابن القیم۔
واللہ ماقدرالرسول عرفتم کلا ولا لنفس والا انسان

حیات شہداء کی تحقیق اور اس کی نوعیت:کفار موت کو عدم محض یا کلی فقدان سمجھتے تھےقرآن نے موت کے اس اصطلاحی مفہوم کا شہداء کے حق میں انکار کیا یہ درست ہے لیکن قتل کے عنوان سے جسم اور روح کے انفصال کا اعتراف فرمایا یا ان کا خیال تھا کہ موت کے بعد دار فنا میں ان اعمال پر کوئی جزاء مرتب نہ ہوگی قرآن نے اس معنی سے نفی فرما دی اور اس دنیا سے رخصت کے بعد رزق اور نئی زندگی کا اعلان فرمایا جو دنیوی زندگی سے مختلف ہوگی اتنی مختلف کہ دنیا والے اس کا شعور بھی نہیں رکھ سکتے یہ بالکل صحیح ہے لیکن موت بمعنی انفصال روح سے انکار قطعاً غلط ہے اور ہدایت حسی سے جنگ ۔ ولا یرغب عن نفسہ الامن سفہ نفسہ۔
پھر یہ زندگی اگر دنیوی زندگی ہی تھی تو لا تشعرون کیوں فرمایا گیا اور انسان اس قدر بے شعور ہیں کہ اس زندگی کو بھی نہیں سمجھتے جس کی زلف پریشان کے بناؤ سنگار میں پوری زندگی صرف ہورہی ہے یہ تو وہی سوفسطائیت ہوئی جسے عقل گوارا کرتی ہے نہ نقل اس کی تائید کرتی ہے۔
سابقہ عمومی گفتگو کے بعد اس موضوع پر مزید گفتگو کی چنداں ضرورت معلوم نہیں ہوتی اور محل نزاع کی تعیین کے بعد بزرگوں نے جو دلائل ارقام فرمائے ہیں وہ خود بخود ہی ختم ہوجاتے ہیں کیونکہ آیات اور احادیث اور ائمہ سلف کے اقوال میں دنیوی زندگی کا ذکر بالکل نہیں اور حضرات علماء کرام کی آراء قابل احترام ہونے کے باوجود شرعاً حجت نہیں اس کے باوجود مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کمزور تمسکات پر مختصر گفتگو ہوجائے۔
قرآن عزیز نے شہداء کی زندگی کا ذکر سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران میں فرمایا ہے:
ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن ولا تشعرو ن ط(بقرہ) ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عندربھم یرزقون(آل عمران)
دونوں آیات شہداء کی زندگی میں نص ہیں اہل سنت کے مکاتب فکر سے کسی نے اس زندگی کا انکار نہیں کیا حضرت مولانا حسین احمدؒ فرماتے ہیں آپ کی حیات نہ صرف روحانی ہے جو کہ عام شہداء کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی ازقلیل دنیوی بلکہ بہت وجوہ سے اس سے قوی تر(مکاتیب جلد۱ ،ص۱۳۰ بحوالہ دارالعلوم نومبر ۵۷ء)
مولانا شہداء کی زندگی کو روحانی سمجھتے ہیں اور انبیاء کی برزخی جسمانی زندگی کو اس سے قوی ظاہر ہے کہ حسب ارشاد مولانا یہ آیت روحانی ، برزخی اور کمزور زندگی کے لیے دلیل بن سکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیوی ، جسمانی طاقت ور زندگی اس سے بالکل مختلف ہے اس کے لیے آیت دلیل نہیں بن سکتی نہ ہی اس پر اس کا قیاس درست ہوسکتا ہے۔
آپ حضرات بھی جانتے ہیں کہ شہداء کی زندگی کے باوجود ان کی بیویاں نکاح کرسکتی ہیں ان کا ترکہ تقسیم ہوتا ہے اور انبیاء کی زندگی چونکہ قوی تر ہے اس لیے نہ ان کی ازواج نکاح کرسکتی ہیں نہ ان کا ترکہ تقسیم ہوسکتا ہے اندریں صورت یہ آیت اس کے لیے کیا دلیل ہوسکے گی؟
شہداء کی زندگی کے متعلق سورہ بقرہ میں لاتشعرون ط فرمایا ہے یعنی یہ زندگی تمہارے شعور سے بالا ہے آل عمران میں احیاء عند ربھم یرزقون فرمایا ۔ محط فائدہ قید زائد ہے عند اللہ کا تعلق احیاءسے ہویا یرزقون سے دونوں عند اللہ ہوں گی فی الدنیا نہیں ہوں گی اس لیے شہداء کی زندگی تو بنص قرآن عند اللہ ہے اور انبیاء کی برزخی زندگی جسمانی دنیوی ہے وبینھمابون اس لیے انبیاء کی زندگی کے لیے ان آیات سے استدلال نہیں ہوسکتا ۔ اب آپ حضرات اگر اس گزارش سے متفق ہوں تو شہداء کی زندگی کے متعلق تو کوئی اختلاف نہیں رہے گا اور حیات دنیوی پر ان سے استدلال درست نہیں ہوگا جب زندگیاں ہی دونوں الگ ہیں تو نہ ایک کا قیاس دوسری پر ہوسکے گا نہ ایک کے دلائل دوسری کے لیے دلیل بن سکیں گے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ علیہ نے معتاد رزق سے اگر دنیوی معتاد سمجھا ہے تو یہ صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ شہداء کی زندگی جب عند اللہ ہے تو دنیوی رزق وہاں کیسے جاسکتا ہے اگر معتاد برزخی مراد ہے تو حیات دنیوی کے لیے یہ رزق دلیل نہیں بن سکے گا۔

رزق سے استدلال بے معنی ہے:ویسے رزق سے زندگی پر استدلال بالکل بے معنی اور غلط ہے رزق تو انبیاء اور شہداء کے علاوہ برزخ میں باقی ایماندار مرنے والوں کو بھی ملتا ہے۔ ارشاد ربانی پر غور فرمائیں:
وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّـهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ(سورہ الحج:58)
آیت میں موت اور قتل دونوں پر رزق کا وعدہ فرمایا گیا ہے پس جب رزق طبعی موت سے مرنے والوں کو بھی ملتا ہے تورزق سے زندگی پر استدلال صحیح نہ رہا آپ حضرات کے نظریات سے لازم آتا ہے کہ کوئی بھی مرتا نہیں یوں ہی موت کا لفظ لغت میں رکھ لیا گیا ہے۔
شاہ عبد العزیز ؒ کی تحقیق:شاہ عبد العزیز ؒ فرماتے ہیں " آرے ارواح شہیدان از تمتعات ایں جہاں وتکلیفات دنیا دور افتادہ اند اماتمتعات جسدانہ بے تکلفات وارند، اصلاً روئے غم والم نے بینند بس درحقیقت ایشاں اتم ازحیات دنیوی است"(تفسیر عزیزی ،ص۴۷۱)
"یعنی شہداء کی روحیں اس دنیا کے فوائد اور تکلیفات سے تو بہت دور جاچکی ہیں لیکن عالم برزخ میں ان کو دوسرے اجسام (سبز پرندوغیرہ) عطا ہوتے ہیں ان سے وہ تکلف مستفید ہوتے ہیں انہیں فکر اور غم نہیں ہوتا ان کی یہ زندگی دنیا کی زندگی سے زیادہ کامیاب ہوتی ہے۔"
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں
"ایں نوع تعلق کہ ارواح شہداء رابا جانوراں پرندہ بہم میر سید ہم بیرون ازعالم عناصر است"(ص۴۷۱) شہداء کا جن پرندوں سے تعلق ہے یہ بھی اس عنصری دنیا سے بالکل الگ ہیں۔"
ص ۴۷۲"پس حیات شہداء در عالم برزخ حیاتِ جزائی ست نہ حیات ابتدائی "۱ھ برزخ میں شہداء کی زندگی جزاء اعمال کے لیے ہے ابتدائی اور اعمال کی زندگی نہیں۔
شاہ صاحب کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ شہداء کی زندگی اس عنصر ی دنیا کی زندگی نہیں بلکہ وہ عالم برزخ اور دار الجزا کی زندگی ہے۔ معلوم نہیں ہمارے ان اکابر کو دنیوی زندگی کہاں سے سمجھ میں آئی اور دنیوی زندگی سے ان کو کیوں محبت ہے دنیوی زندگی کو ترجیح کفار کا خیا تھا۔ ان ھی الاحیاتنا الدنیا(جو کچھ ہے دنی اہی دنیا ہے) انبیاء اور شہداء کے تو تصور میں بھی ایسا نہیں آسکتا ۔ابن القیمؒ کا تجزیہ کس قدر درست ہے۔

واللہ لا الرحمان اثبتم ولا ارواحکم یا مدعی العرفان
عطلتم الابدان من ارواحھا والعرش عطلتم من الرحمن
جیسا کہ گزریہ عقیدہ ابن قیم کی تحقیق کے مطابق فرقہ معطلہ کا تھا عقائد کے بارے میں یہ لوگ اپنے وقت کے بدعتی تھے۔ اہل سنت کا عقیدہ شہداء اور انبیاء کی حیاتِ دنیوی کا نہیں حیات برزخی ہے جس کی صراحت شاہ صاحب نے فرمائی ہے۔


علامہ آلوسی حنفی کی تصریحات:شیخ شہاب الدین ابو الفضل السید محمد آلوسی بغدادی نے ۱۲۷۰ھ جو اپنے وقت کے بہت بڑے محقق عراق کے مفتی اور مسلکاً حنفی ہیں روح المعانی (پارہ ۲ بقرہ) میں اس موضوع پر کسی قدر تفصیل سے لکھا ہے۔ انہوں نے حیات ِ شہداء کے متعلق پانچ مسالک کاذکر فرمایا اول جسمانی، دوسری روحانی، باقی مسالک باطل ہیں ، پہلے مسلک کے متعلق فرماتے ہیں ۔ یہ راجح ہے ابن عباس، قتادہ ، مجاہد ،حسن عمرہ بن عبید ، واصل بن عطا، جبائی رمانی اور مفسرین کی ایک جماعت نے یہی پسند کیا ہے۔
جسم کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے بعض اسی جسم کے قائل ہیں جس پر شہادت وارد ہوئی بعض کہتے ہیں کہ اس حیات کا تعلق پرندوں سے ہے جن کا رنگ سبزہوگا ۔ ان کے آشیا نے قندیلیں ہوں گی تیسرا مسلک یہ ہے کہ دنیوی جسم سے ملتا جلتا جسم ان کو عطا ہوگا اس کے بعد فرماتے ہیں :
"عندی ان الحیوٰۃ ثابتۃ لکل من یموت من شھید وغیرہ وان الارواح وان کانت جواھر قائمۃ بانفسھا مغایرۃ لما یحس بہ منا لبدن لکن لا من تعلقھا ببدن برزخی مغایر لھذا البدن الکثیف"(ص ۲۱ ،پ۲)
یعنی حیات برزخی سب کے لیے ثابت ہے شہید اور دوسرے سب اس میں شامل ہیں ارواح قائم بالذات ہیں (مذہب اہل سنت) اس محسوسی دنیوی بدن سے مغایر ہیں لیکن برزخی جسم سے تعلق میں کوئی مانع نہیں یہ دنیوی کثیف بدن سے مختلف ہے ۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:
"وان ارواح الشھد اء یثبت لھا ھذا التعلق علی وجہ یمتازون بہ عمن عدھم مافی اصل التعلق اوفی نفس الحیوۃ بناء علی انھا من المسکک لا المتواطی۱ھ"
شہداء کی ارواح کا یہ تعلق باقی اموات سے امتیازی ہے یہ امتیاز روح کے تعلق میں ہو یا زندگی ہی کلی مشکک ہو!"
دنیوی جسم کے متعلق فرماتے ہیں کہ خدا تعالی ٰ کی قدرت سے یہ چنداں مستبعد نہیں لیکن اس سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ دنیوی جسم کے ساتھ زندگی سے کمزور اعتقاد لوگوں کو شکوک وشبہات میں مبتلا کرنے اور ایک سفاہت پر یقین دلانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ۔
علامہ آلوسیؒ برزخی زندگی کے قائل ہیں اور اسی زندگی میں شہداء اور عام اموات کو شریک سمجھتے ہیں لیکن اس زندگی میں تواطر کی بجائے تشکیک سمجھتے ہیں تاکہ شہداء اور باقی اموات میں امتیاز رہے۔ ان کے اس مفصل ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ائمہ سنت سے ان کے زمانہ ۱۳۷۰ھ تک دنیوی زندگی کا کوئی بھی قائل نہیں، دنیوی جسم کے ساتھ تعلق کے جو لوگ قائل ہیں وہ بھی تعلق کی نوعیت برزخی سمجھتے ہیں معلوم نہیں اکابر دیوبند میں یہ غلط عقیدہ کہاں سے آگیا ہے۔
علامہ آلوسیؒ آخر میں فرماتے ہیں:
وما یحکی من مشاھدۃ بعض الشھداء الذین قتلوامنہ مأت سنین وانھم الی الیوم تشخب جروحھم وما اذا رفعت العصابۃ عنھا فذلک مما رواہ ھین بن بیان وما ھو الا حدیث طرفۃ وکلام یشھد علی مصدقیہ تقدیم السخافۃ۔۱ھ(ص ۲۲ ،پ۲ بقرہ)
اور ایسی حکایت جن میں صدیوں کے بعد شہداء کے اجسام سے خون بہنے کا ذکر ہے یہ سب خرافات ہیں ان کے راوی غیر مستند ہیں اور ان حکایات کی تصدیق کرنےو الے نحیف العقل ہیں۔"
تعجب ہے کہ مولانا بدر عالم صاحب ایسے ثقات نے بھی ان روایات کا تذکرہ مجمل تنقید کے ساتھ فرمایا ہے۔ حالانکہ مولوی احمد رضا خاں صاحب اور ان کی پارٹی کے مزخر فات کے جواب میں اس قسم کی روایات پر محد ثانہ تنقید ہونی چاہیئے تاکہ شکوک وغیرہ عامۃ المسلمین کے ذہن کو ماؤف نہ کردیں۔
 
شمولیت
مئی 21، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
331
پوائنٹ
0
حافظ ابن جریر کی تصریح:حافظ ابن جریرؒ سورہ بقرہ کی تفسیر میں اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ برزخی زندگی تو سب کے لیے ہے پھر شہداء کی خصوصیت کیا ہے۔
انھم مرزوقون من ماکل الجنۃ ومطاعمھا فی برزخھم قبل بعثھم ومنعمون بالذی ینعم بہ داخلو ھابعد البعث من سائر البشر من لذیذ مطاعمھا الذی لم یطعمھا احد فی برزخہ قبل بعثہ ۱ھ(ابن جریر ص۲۴ جلد ۲)
شہداء کو جنت کے لزیذ کھانے برزخ ہی میں ملیں گے۔ دوسرے لوگوں کو یہ انعامات برزخ کے جنت میں ملیں گے" یعنی شہداء کی زندگی برزخی ہے دنیوی نہیں ان کا برزخ جنت کی نظیر ہے جنت کے لذیذان کو قبر ہی میں مرحمت فرمائیں جائیں گے ، یہی مزیت ہے جسے حیات سے تعبیر فرمایا اور انہیں میت کہنے سے روکا گیا ہے۔
مولانا نواب محمد صدیق حسن خاں رحمہ اللہ تعالی والی بھوپال مکتب فکر کے لحاظ سے اہل حدیث ہیں اس لیے آپ حضرات کو اس سے یقیناً اختلاف ہوسکتا ہے لیکن وقت نظر وسعت مطالعہ زہد وتقویٰ کے لحاظ سے ان کا مقام یقیناً بہت اونچا ہے اور فہم قرآن میں ان کا ذہن بے حد صاف ہے بہت سے اکابر قدما سے بھی ان کی رائے صائب معلوم ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں:
"بل ھم احیاء فی البرزخ تصل ارواحھہ الی لحنان فھم احیاء من ھذہ الجھۃ وان کانو امواز مین جھۃ خروج الروح من الجساد ھم ۔ اھ(فتح البیان ص۲۴ جلد ۱)
"شہداء برزخ میں زندہ ہیں ان کی روحیں جنت میں جاتی ہیں گو روح کا تعلق جسم سے ٹوٹ چکا ہے"
ص ۲۰۵ میں فرماتے ہیں۔
روح جوہر قائم بالذات بدن سے حسی طور پر مغایر ہے جمہور صحابہؒ اور تابعین کے نزدیک موت کے بعد بھی اس کا ادراک باقی رہتا ہے کتاب و سنت کا یہی منشا ہے۔"
درسیات کے مشہور ملاجیون (صاحب نور الانوار) نے التفسیرات الاحمدیہ(ص ۲۹-۴۱ طبع کریمی بمبئی) میں حیات شہداء پر طویل بحث کے سلسلے میں اسے برزخی ہی قرار دیا ہے۔
 
شمولیت
مئی 21، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
331
پوائنٹ
0
پیش کردہ احادیث پر ایک نظر:حیات الانبیاء بہیقی کے حوالہ سے اس مسئلہ میں دس میں سے کوئی استدلال کے قابل نہیں پھر حیات دنیوی کا ذکر کسی میں بھی نہیں ۔ احادیث کے نام کی اہمیت اور اسلام میں سنت کے مقام کی رفعت کے پیش نظر اس کے متعلق اختصار سےذکر کرنا ضروری معلوم ہوا۔ نامہ نگار کا تعلق دیوبند ایسی علمی درس گاہ سے ہے اس لیے بعض اہم احادیث کو جرح وتوثیق کے لحاظ سے یہاں جانچا جاتا ہے۔
نمبر۱۔ النبیاء احیاء فی قبور ھم یصلون(بہیقی کا رسالہ خصائص کبریٰ انباہ)
تحقیق:اس حدیث کی سند میں حسن بن قیتبہ خزاعی ہے جس کے متعلق ذہبی نے میزان العتدال میں ابن عدی کا قول لا باس بہ ذکر کر کے اپنی اور دوسرے کی رائے ذکر فرمائی ۔
قلت بل ھو ھالک قال الدار قطنی فی روایۃ البرقانی متروک الحدیث قال ابو حاتم ضعیف قال الازدی واھی الحدیث قال العقیلی کثیرالوھم ۱ھ(ص۲۴۱،ج۱) یعنی ائمہ جرح تعدیل کی نظر میں یہ ھالک متروک الحدیث ضعیف واھی الحدیث واکثر الوھم ہے۔"
حافظ ابن حجر نے لسان المیزان ص ۲۴۶ جلد۲ میں ذہبی کی پوری عبارت نقل فرماکر اس جرح کی تصدیق فرمادی ہے۔ حافظ خطیب بغدادیؒ نے بھی اس واھی الحدیث اور متروک الحدیث فرمایا ہے(تاریخ بغداد ص۴۰۵ جلد۷) باقی رہا شوکانی کا تحفہ الذاکرین میں حدیث رد اللہ علی روحی کی تشریح میں یہ لکھنا لانہ صلی اللہ علیہ وسلم حی فی قبر وروحہ لاتفارق لماصح ان لانبیاء احیاء فی قبور ھم ط
توسابق مفصل جرح کے موجوود ہوتے "صح" سے مصطلح صحت مراد لینا تو مشکل ہے یہ صح بمعنی ہی ہوسکتا ہے ۔ جب تک حدیث پر وضع کا حکم یقینی نہ ہو۔محدثین کے نزدیک "ثبت" سے اس کی تعبیر ہوسکتی ہے نیل الاوطار میں حافظ شوکانی نے یہی لفظ اختیار فرمایا ہے۔وقدثبت فی الحدیث ان الانبیاء احیاء فی قبور ھم (ص۳۰۵،جلد۳) ۔ ایسی احادیث کا تذکرہ مواعظ اور فضائل کی مجالس میں تو کیا جاسکتا ہے لیکن عقیدہ کی بنیاد اس پر نہیں رکھی جاسکتی اہل حدیث اور ائمہ فن کے نزدیک اعتقاد کے لیے خبر واحد صحیح ہونی چاہیئے۔ کما ذکرہ ابن القیم فی الصواعق المرسہ۔
اس حدیث کے متعلق ابن القیمؒ فرماتے ہیں۔

وحدیث ذکر حیاتھم بقبورھم لما یصح وظاھر النکران
فانظر الی الاسناد تعرف حالہ ان کنت ذاعلم بھذا الشان
ھذا ونحن لقو لھم احیاء لکن عندنا کحیات ذی الابدان
والتراب تحتھم وفوق روسھم وعن الشمائل ثم عن ایمان
مثل الذی قد قلتمو ھا معاذنا باللہ من انک ومن بھتان
انبیاء کی حیات فی القبور جس حدیث میں مذکور ہے اس کی سند صحیح نہیں اہل فن کو اس کی سند پر غور کرنا چاہیئے اس کے باوجود ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کے مبارک اجسام کے دائیں بائیں نیچے اوپر مٹی موجود ہے اور جس زندگی کے تم قائل ہو اس جھوٹ اور بہتان سے خدا کی پناہ"

حضرت موسیؑ کی نماز:حدیث ۴،۳،۲میں موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے آپ نے انہیں قبر میں نماز ادا فرماتے دیکھا یہ بھی حیات دنیوی نہیں برزخی ہے قبر میں بھی دیکھا بیت المقدس میں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی نماز میں شریک ہوئے پھر آسمان پر بھی آپ سے ملاقات فرمائی اور مفید مشورے دیے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت یونس علیہ السلام کو احرام باندھے شتر سوار تلبیہ کہتے سنا دجال کو بحالت احرام کے لیے جاتے دیکھا عمروبن لحئ کو جہنم میں دیکھا یہ برزخی اجسام ہیں اور کشفی رویت ہیں اگر اسے دنیوی حیات سے تعبیر کیا جائے جو دجال ایسے خبیث لوگوں کو بھی حاصل ہوئی تو انبیاءکی فضیلت کیا باقی رہی انبیاء کی حیات اہل سنت کے نزدیک شہداء سے بھی بہتر اور قوی تر ہے برزخ میں عبادت ، تسبیح ، تہلیل اور رفعت درجات ان کو حاصل ہے اور بعض واقعات صرف مثالی ہیں جو آنحضرت ﷺ کو آیات کبریٰ کے طریق پر دکھائے گئے ان سے زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مولانا نے کتاب الروح لابن القیم سے بعض حکایت نقل فرمائی ہیں تعجب ہے۔
حافظ ابن القیم ؒ نے امام ابن حزم کا ایک حوالہ ان کی کتاب الفصل سے نقل فرما کر اس کے بعض حصص پر تنقید فرمائی ہے اس میں اس حیات کا واضح تذکرہ فرمایا ہے۔
قلت ماذکرہ ابن حزم فیہ حق وباطل اما قولہ من ظن ان المیت یحیی فی قبرہ فخطا فھذا فیہ اجمال ان ارادبہ الحیاۃ المعحودۃ فی الدنیا التی تقوم فیہ الروح بالبدن وتد بیرہ وتصرفہ ویحتاج معھا الی الطعام والشراب فھذا خطاء کما قالہ والحس والعقل یکذبہ کما یکذبہ النص وان ارادبہ حیاۃ اخریٰ غیر ھذہ الحیاۃ بل تعاد الروح الیہ غیر العادۃ المالوفۃ فی الدنیا الیسئل ویمتحن فی قبرہ فھذا حق ونفیہ خطاء قد دل علیہ النص الصریح فتعادروحہ فی جسدہ ۱ھ(کتاب الروح ص۵۲)۔
یعنی اگر زندگی سے دنیوی زندگی اور اس کے لوازم مراد ہیں تو یقیناً یہ غلط ہے ایسی زندگی میت کو حاصل نہیں ہوتی اگر اس سے مراد دنیوی زندگی کے علاوہ جس میں روح کے اعادہ معتاد زندگی کی طرح نہ ہو اس کا مقصد صرف سوال امتحان ہوتو یہ درست ہے اس کا انکار کرنا غلطی ہے یہ زندگی نص صریح سےثابت ہے۔
پھر ص۵۳ میں فرماتے ہیں جسم کے ساتھ روح کا تعلق پانچ طرح کا ہوتا ہے۔
۱۔ ما ں کے پیٹ میں بصورت جنین۔
۲۔ پیدائش کے بعد۔
۳۔ نیند کے وقت من وجہ تعلق ، من وجہ علیحدگی۔
۴۔ برزخ کا تعلق ، اس میں گو علیحدگی ہوجاتی ہے لیکن تجردکلی نہیں ہوتا بلکہ سلام کے جواب کے لیے اسے لوٹایا جاتا ہے لیکن یہ دنیوی زندگی نہیں ہوتی جو اسے قیامت سے پہلے حاصل تھی۔
۵۔ قیامت کے دن کا یہ کامل ترین تعلق ہر پہلے چاروں قسم کے تعلق کو اس سے کوئی نسبت نہیں حافظ ابن القیمؒ نے اہل سنت کے مسلک کی اس میں پوری وضاحت فرمادی ہے۔
دنیوی زندگی کا ائمہ سنت ے سلف امت میں کوئی بھی قائل نہیں معلوم نہیں شیخ عبد الحق اور مولانا حسین احمدؒ نے یہ مصیبت کہاں سے خرید فرمائی درحقیقت یہ بات بے تکی سی ہے جو کسی پہلو سے بھی درست نہیں بیٹھی ، عفا اللہ عنہما
حدیث نمبر۵ ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد النبیاء رواہ اصحاب السنن وامن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا، تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ میں بعض ائمہ سے اس حدیث کی تصیحح نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ وللحدیث طرق جمعھا المنذری فی جزء فتعدد الطرق یشد بعظھا بعضاً
حافظ ابن القیمؒ نے بھی جلاء الافہام میں ابن حاتم کی جرح کے جواب میں کوشش فرمائی ہے جس کی بنیاد عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر اور عبد الرحمٰن بن یزید بن تمیم کے اشتباہ پر رکھی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جلاء الافہام کی ساری بحث پڑھنے کےبعد بھی ذہن صاف نہیں ہوتا۔
اجلہ محدثین رحمہم اللہ کی تنقید ایسی نہیں جو مناظرانہ احتمالات کے نذر کردی جائے حافظ عبد العظیم منذری مختصر ، سنن ابی داود ص۴، جلد ۲ میں اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں۔
اخرجہ النسائی وابن ملحۃ ولہ علۃ دقیقۃ اشارا لیھا البخاری وغیرہ قد جمعت طرقہ فی جزء ۱ھ
(۱۔جہاں تک ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء کرے کا تعلق ہے وہ صرف تین سندوں سے مروی ہے اور تینوں مخدوش ہیں حدیث نمبر ابی المدرواء پر امام بخاری اور امام ابو حاتم ؒ جیسے بالغ نظر ائمہ حدیث کی جرح کو نظر انداز کرنا بہت شکل ہے۔۲۔سنن ابن ماجہ کی سند کا حال علامہ سندھی کے کلام سے معلوم کرلیجئے ایک روایت (۳) طبرانی کے حوالے سے حافظ سخاویؒ نے ذکر کی مگر ساتھ حافظ عراقی سے نقل کردیا ہے۔لایصع القول البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیع ص۱۱۹)

اسی طرح انہوں نے الترغیب والتر ہیب (ص۱۲۹ جلد اول مصری) میں فرمایا ہے اس "علۃ وقیقہ" کی وضاحت علامہ تقی سبکیؒ اور حافظ سخاوی نے کردی ہےسبکی لکھتے ہیں وعلتہ ان حسین ابن علی الجعفی لم یسمع من عبد الرحمٰن بن یزید بن جابروانما سمع من عبد الرحمان بن یزید من تملیم وھو ضعیف ۔ فلما حدث بہ الجعفی غلط فی اسم الجد فقال ابن جابر (شفاء السقام ص۴۷)
اسی کے قریب قریب حافظ سخاویؒ لکھ کر فرماتے ہیں
ولھٰذا قال ابو حاتم ان الحدیث منکر (القول البدیعص۱۱۹)
امام بخاریؒ کا وہ اشارہ التاریخ الکبیر اور التاریخ الصغیر میں ہے۔
اول الذکر میں بہ ذیل ترجمہ عبد الرحمان بن یزید بن تمیم لکھتے ہیں۔
یقال ھوالذی روی عنہ اھل الکوفۃ ابو اسامۃ وحسین فقالو ا عبد الرحمان بن یزید بن جابر (التاریخ الکبیر ص۳۶۵ جلد ۳ قسم اول) اور التاریخ الصغیر (ص۱۷۹) میں فرماتے ہیں۔
وما اھل الکوفۃ فرد واعن عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر ابن یزید بن تملیم لیس بابن جابر وابن تمیم منکر الحدیث ۱۔
حافظ ابو حاتم کا ارشاد ان کے صاحبزادے حافظ عبد الرحمٰن نے نقل کیا ہے سمعت ابی یقول عبد الرحمان بن جابر لااعلم احدًا من اھل العراق یعدث عنہ والذی عندی ان الذی یروی عنہ ابوا سامۃ وحسین الجعفی واحد وھو عبد الرحمٰن بن یزید بن تملیم پھر اس علت کو بنیاد بنا کر زیر بحث روایت نقل کیا اور لکھا ہے۔ وھو حدیث منکر لااعلم احدًا رواہ غیر حسین الجعفی (علل حدیث لا بن ابی حاتم ،ص۱۹۷ جلد ۱)
ان ائمہ کے علاوہ علامہ ابوبکر ابن العربی المالکی فرماتے ہیں ان الحدیث لم یثبت (نیل ،ص۳۰۴، جلد ۳)
اسی مضمون کی دوسری حدیث سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ارواء ؓ سے مروی ہے جس میں فنبیُّ اللہ حی یرزق کی زیادتی مرقوم ہے(ص ۱۱۹ کتاب الجنائز) شوکانیؒ نے غالباً اس کو پسند جید لکھا اور صاحب ینقح الرواۃ نے بھی ان کی متابعت میں اس کو سند جید فرمایا ہے مگر یہ درست نہیں حافظ سخاوی لکھتے ہیں رجالہ ثقات لکنہ منقطع (القول البدیع ص۱۱۹)
تعلیق سندھی حنفی علی ابن ماجہ(ص۵۰۳، جلد ۱) میں ہے۔
منقطع فی موضعین لان عبارۃ روایۃ عن ابی الدرداء مرسلۃ وزید بن الیمن عن عبارۃ مرسلۃ قالہ البخاری۱ھ
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں۔
قال البخاری زید بن الیمن عن عبارہ مرسل ۱ھ(تہذیب ص۳۹۸ جلد ۳)
امام بخاریؒ کا یہ ارشاد التاریخ الکبیر ص۳۵۴ جلد ۲ قسم اول طبع حیدر آباد میں ہے حضرت ابوالدردا کی حدیث بروایت ابن ماجہ فنبی اللہ حی یرزق زائد ہیں حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الفاظ مدرج ہیں ۔ مجدبن تیمیہ نے منتقی میں اس کا ذکر نہیں فرمایا شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے اشعۃ اللمعات میں اندراج کو بطور شبہ قبول فرمایا ہے (جلد۱،ص۵۰۹)خان صاحب بریلوی نے بھی اس زیادتی کو مدرج تسلیم کیا ہے(حاشیہ حیات الموات ص۱۷۸) خود ابن ماجہ میں یہ حدیث اوس بن اوس اور شداد بن اوس سے مروی ہے اس میں یہ زیادتی نہیں اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس کی سند کو جید کہنا تسامح سے کالی نہیں۔
برتقدیم تسلیم یہ احادیث صحیح بھی ہوں تو ان سے دنیوی زندگی ثابت نہیں ہوتی لیکن میں نے کسی قدر تفصیلی تذکرہ اس لیے ضروری سمجھا تاکہ ان احادیث کی حقیقت معلوم ہو جائے جنہیں حضرات اجلہ دیوبند دبی ذبان سے متواتر فرما دیتے ہیں اور مدارج النبوۃ اور حافظ سیوطیؒ کی تصنیفات پر اس قدر اعتماد کیا جاتا ہے جو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے متوسلین سے انتہائی موجب استعجاب ہے۔
ان احادیث میں ضعیف اور انقطاع موجود ہے لیکن مسئلہ چونکہ درود کے فضائل کا ہے اس میں حلال وحرام یا عقائد کی بحث نہیں اس لیے ابن القیمؒ ایسے ائمہ حدیث تک نے تسامح سے کام لیا ہے۔ بنابریں تعدد طرق سے اس کی تصیحح کی گئی اور عوام میں مشہور تھے کہ فضائل میں اس قسم کی احادیث کو قبول کرلیتے ہیں اہل تحقیق کے نزدیک یہ اصل بھی خود محل نظر ہے۔
جلاء الافھام میں جیسا کہ اوپر ذکر ہواہے حدیث میں ابوالدرواء پر طویل بحث فرمائی ہے انقطاع اور تصنیف کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے انقطاع کے لیےشواہد جمع فرماتے ہیں گووہ شواہد خود محل نظر ہیں ۔ خود حافظ ابن قیم ؒ نے ان شواہد کے متعلق بھی علل کا تذکرہ فرمایا ہے لیکن یہ تمام شواہد کترت صلوٰۃ کے متعلق جمع فرمائے گئے اور یوم الجمعہ کی تخصیص کو زیادہ تر پیش نظر رکھا گیا ہے اس حد تک کوئی حرج نہیں کے دن کثر صلٰوۃ کے متعلق ان شواہد سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
 
شمولیت
مئی 21، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
331
پوائنٹ
0
عقیدہ حیات اور اس کے نتائج:لیکن اب مشکل یہ ہے کہ بریلوی مکتب فکر اور بعض اکابر دیوبند نے ان ضعاف مقطوعات سے عقیدہ حیاتِ دنیوی ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے اور اس بدی تصور کو متواتر عقیدہ کا نام دینا شروع کیا ہے اس لیے پورے یقین سے سمجھ لینا چاہیئے کہ تعداد طرق اور شواہد کے باوجود یہ اسانید اس قابل قطعاً نہیں کہ ان پر کسی عقیدہ کی بنیاد رکھی جائے ۔
پھر ان طرق اور شواہد میں حیات انبیاء کا ذکر نہیں بلکہ اکثرواعلی الصلوۃ یوم الجمعۃ، پر زور دیا گیا ہے جن طرق اور شواہد میں حیات کا ذکر صراحۃ وہ کوئی بھی صحیح نہیں صحیح یغرہ احادیث سے عقائد کو ثابت کرنے کی کوشش کرنا، امت میں کوئی بھی اسے پسند نہیں کرتا جن اہل علم سے ان احادیث کی توثیق نقل کی جارہی ہے ان میں نہ کوئی دنیوی زندگی کا قائل ہے نہ ہی ان مباحث میں کسی نے اس بدعی عقیدہ کو ثابت کرنے کی سعی فرمائی ہے سب سے زیادہ بحث اس مقام پر حافظ ابن القیمؒ نے فرمائی ہے وہ حیات دنیوی کے قائل نہیں ان احادیث ۔۔۔۔سے مطلق کو بھی انہوں نے ثابت کرنا پسند نہیں کیا۔ اس لیے ان مباحث سے سے اس مخترعہ عقیدہ پر استدلال تاویل بما لایرضی بہ القائل ہے جسے اہل علم ودانش نے کبھی پسند نہیں فرمایا۔
حدیث نمبر ۶ صحیح ہے اس میں سلام کے وقت روح کا ذکر ہے یہ حیات دنیوی کے خلاف ہے۔ حافظ سیوطیؒ نے جس قدر جوابات دیئے ہیں ان میں اکثر مناظرانہ انداز کے ہیں اور جن پر حافظ سیوطیؒ نے کچھ اعتماد ظاہر فرمایا وہ حیات دنیوی کے خلاف ہے۔ ان جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حافظ سیوطی رحمہ اللہ کا اپنا ذہن اس حدیث سے متعلق صاف نہیں جوابات میں تزبذب اور خبط نمایا ں ہے۔
رہا مولانا حسین احمد صاحب مرحوم کا ارشاد گرامی سووہ نص حدیث کے مخالف ہے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی روح مبارک سلام کا جواب دینے کے لیے رو کی جاتی ہے مولانا کے ارشاد کے مطابق رو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتااس حدیث کے مفہوم پر نظر ثانی کی ضرورت ہے مولانا مدنیؒ کے جواب سے حدیث کا مفہوم صاف نہیں ہوتا۔
حدیث نمبر ۷ اسراء کی رات کو انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کا ذکر ہے معلوم نہیں اس سے حیات دنیوی کا استخراج کیسے ہوگا ائمہ سنت کے اس کے متعلق دو ہی مشہور مسلک ہیں بعض اس ملاقات کو روحانی سمجھتے ہیں (فتح الباری ص۴۵۲ پ۱۰) میں ایک حدیث بزار اور حاکم سے منقول ہے ۔انہ صلی فی بیت المقدس مع الملائکۃوانہ اتی ھناک بارواح الانبیاء فاثنوا علی اللہ ھ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقد س میں ملائکہ کو نماز پڑھائی اور وہاں انبیاء علیہم السلام کی روحیں لائی گئیں " دنیوی زندگی کا یہ غلط دعویٰ مصیبت ہوگیا ہے اور احادیث میں تطبیق ناممکن ۔
دوسرا مسلک یہ ہے کہ برزخ سے ان ارواح کو مماثل اجسام دیے گئے اور ان اجسام نے بیت المقدس میں شب اسراء میں ملاقات فرمائی ان کا ذکر بھی حافظ ابن حجر فتح الباری (پ۱۵ ص۴۰۹ جلد۳) میں فرماتے ہیں:
ان ارواحھم مشکلۃ بشکل اجسادھم کما جزم بہ الوالوفأ ابن الحقیل ۱ھ۔ یہ دونوں صورتیں برزخ ہی ہوسکتی ہیں اسے دنیوی زندگی کہنا تو دانش مندی نہیں اس کے بعد حافظ ابن حجر ؒ تصریح فرماتے ہیں۔
لانہ بعد موتہ وان کان حیاً فھیھیاۃ اخرویۃ لاتشبہ الحیاۃ الدنیا(پ۱۶ ص۳۶ ج۴) اور (پ۱۴ ص۲۸۳ ج۳) میں فرمایا وھذا الحیات لیست دنیویہ انماھی اخرویۃ انتھیٰ تلخیص الخبیر ص۱۶۲ میں بہیقی سے نقل فرمایا الانبیاء احیاء عندربھم کالشھداءیہ عنداللہ حیات برزخی اخروی ہوسکتی ہے اسے کبھی کوئی سمجھ دار دنیوی حیات تو نہیں کہہ سکتا۔
موسیٰ علیہ السلام کی نماز حج، ہارونؑ، یونسؑ ، حضرت مسیحؑ اور دجال کا احرام یہ سب حقائق مثالی ہیں برزخی ، دنیوی تو نہیں ہوسکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا حضرت ابراہیم فوت ہوا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا لہ ظئران تکملان رضا عہ فی الجنۃ(مشکوٰۃص۵۰۲) اس کی مدت رضاعی جنت میں عورتیں پوری کریں گی" آپ کے خیال سے حضرت ابراہیم کو دنیوی زندگی ملی۔ حالانکہ نہ وہ نبی ہیں نہ شہید اس مطلب کی بیسیوں احادیث سنت کی کتابوں میں ملتی ہیں اگر ان سے دنیوی حیات ثابت کی جائے تو پھر یوں فرمائیں کہ دنیا میں کوئی مرتا ہی نہیں۔
حدیث ۱۰،۹،۸ ، بلکل حیات دنیوی کا پتہ نہیں دیتیں معلوم نہیں مولانا زاہد صاحب نے انہیں کیوں نقل فرمادیا ہے سابقہ گزارشات کے بعد ان احادیث پر مزید گفتگو سے کوئی فائدہ معلوم نہیں ہوتا۔


حکایت اور قصص:حضرت جعفر کی شہادت ، بعض ارواح کا اپنے قرضوں کے متعلق اطلاح دینا، کتاب الروح ، شرح الصدور ، خصائص کبٰری وغیرہ میں اس قسم کی کئی حکایات مرقوم ہیں اولاً یہ قصے شرعاً حجت نہیں ثانیاً عقائد کے لیے یہ دلائل قطعاً قابل اطمینان نہیں ثالثاً ، اس سے حیات ِ روح اور ان کی نقل وحرکت پر استدلال کیا جاسکتا ہے حیات جسمانی یا حیات دنیوی ان سے ثابت نہیں ہوتی رابعًا خواب اور کشوف کا ظہور جب غیر نبی سے ہوتو صاحب کشف ممکن ہے اس پر یقین کرلے عامۃ المسلمین اسکے پابند نہیں واقعہ حرہ میں سعید بن مسیب کا مسجد نبوی میں اذان سننا مدعا کے لحاظ سے بالکل بے معنی ہے سعید بن مسیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز نہیں پہچانتے تھے ممکن ہے یہ آواز کسی پاک باز جن یا فرشتہ کی ہو اس سے آنحضرت ﷺ کی دنیوی زندگی کیسے ثابت ہوئی۔
ابن القاسمؒ سے مولانا نے انسان کے چار دور ذکر فرامائے ہیں، رحم، دنیا، برزخ، آخرت ، ہر دوسرا دور پہلے سے بہتر اور اس وسعت پر غور فرمائیں یہ دلیل آپ کے خلاف ہے یا آپ کے موافق جب برزخ میں وسعت ہے اور یہ دور دنیا سے بہتر ہے تو فرمائیے آپ آنحضرت ﷺ کو برزخ سے دنیوی زندگی میں لانے کی کیوں کوشش فرماتے ہیں برزخی زندگی دنیوی زندگی سے بدرجہا اعلیٰ اور ارفع ہے۔
خاں صاحب بریلوی اور ان کے اتباع عقل اور علم سے بے نیاز ہیں لیکن آپ حضرات غور فرمائیں اہل توحید تو علم وعقل سے خالی نہیں ہوتے؟ ان فی ذالک لاٰیات لاولی النھٰی،
مضمون کے بعض حصص پر مزید لکھا جاسکتا ہے۔میرا مقصد بحث ومناظرہ نہیں یہاں کے حالات کا تقاضایہ ہے کہ بیرونی حضرات ان کے متعلق اظہار رائے کی کوشش نہ فرمائیں یہاں کا ماحول یہاں کے اہل علم بہتر سمجھ سکتے ہیں لادینی حالات پیدا کرنے کے لیے جوحالات پیدا کیے جارہے ہیں شائد آپ حضرات ان سے واقف ہیں اس لیے مناسب نہ ہوگا کہ مستقبل کی ذمہ داری آپ حضرات پر عائد کی جائے اور آپ کے ان مکاتیب اور خطابات سے غلط فائدہ اٹھایا جائے اللہ تعالی ٰ ہم سب کو توفیق مرحمت فرمائے کہ ہم اسلام کی سربلندی کے لیے کچھ کرسکیں، قادیانیت ، رفض اور بدعت جن چور دروازوں سے آرہی ہیں ہم ان ابواب کے کھولنے کا سبب نہ بنیں۔
 
شمولیت
مئی 21، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
331
پوائنٹ
0
مندرجات رسالہ حیات النبی پر ایک سرسری نظر​

مجلہ "دارالعلوم" دیوبند کے مضمون حیات النبی سے متعلق میں اپنی تنقیدی گزارشات "رحیق" میں اشاعت کے لیے دے چکا تھا ۔ اتفاقً رسالہ"حیات النبی" موئفہ مولانا اخلاق حسین ملاجس کا پیش لفظ مولانا سید ابوذر بخاری نے لکھا ہے مگر افسوس ہے کہ اس میں جوانی کے جوش کےسوا کچھ نہیں اور بات یہ ہے کہ جہاں دلائل بالکیۃ ناپید اور نصوص صراحۃً خلاف ہوں وہاں مکتب خیال کی دہائی اور کھینچا تانی کے سوا ہوبھی کیا سکتا ہے یہی ہوسکتا ہے کہ نوجوان مل کرزور لگائیں زبان کی طاقت اور قوت بازو سے نصوص کو پھیر نے کی کوشش کریں اس سے کم از کم تھوڑی دیر تک اذہان کا رخ پھیر لیں گے اور مکتب خیال کے بزرگوں کی رفعت شان کا واسطہ دے کر گرتی دیوار کو تھوڑی دیر کے لیے سنبھالا دے دین مولانا اخلاق حسین اور ابوذ ر صاحب نے بھی یہی کچھ کیا ہے اس لیے مجھے اس رسالہ کے ابتدائی حصہ کے متعلق کچھ بھی گزارش کرنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی ۔
میں نے اپنے بعض دوستوں سے سنا تھا کہ حضرت مولانا قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے مجھے یہ رسالہ کوشش کے باوجود نہ مل سکا مگر پیش نظر رسالہ کے ص۱۸ پر حضرت مولانا قاسم رحمہ اللہ کے رسالہ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمالیں ۔ مولانا کے رسالہ کا نام "آب حیات" ہے یہ اقتباس ص۲۳۲ سے لیا گیا ہے۔ مولانا نے اسی حدیث یرداللہ علی روحی کی توجیہ فرمانے کی کوشش فرمائی یہ حدیث چونکہ دیوبندی مکتب خیال کے خلاف ہے اس لیے اس کی تاویل فرمائی گئی ہے کہ یہ راستہ سے ہٹ جائے حضرت کا ارشاد روح پر فتوح نبوی ﷺ جب منبع اور اصل ارواح باقیہ خصوصاً ارواح مومنین امت ٹھہری تو جونسا امتی آپ پر سلام عرض کرے گا اس کی طرف کا شعبہ لوٹے گا۔ ارتداد جملہ شعب لازمی نہیں اور ظاہر ہے کہ اس شعبہ کا ارتداد باعث اطلاع سلام تو ہو گا پر موجب زوال استغراق مطلق نہ ہوگا آخر شعب غیر متناہی اور ہیں۔
حضرت مولانا کی جلالت قدر ، دقت نظر ، وسعت معلومات تقویٰ للہیت معلوم اور مسلم ہے قلم لرزتا ہے کہ مجھ ایسا کم سواد علم وحکمت کے سمند ر کے خلاف تنقید کا اختیار کرے لیکن اس کا کیا جائے کہ بحمداللہ ذہن میں تقلید وجمہود کے جراثیم نہیں ہیں اور آنحضرت ﷺفداہ ابی اُمی کے بعد یقین سے کوئی معصوم نہیں، اس لیے سوچتا ہوں کہ اس مختصر سے اقتباس میں سے کیا اتنے بڑے متجر فاضل نے افسوس ہے کوئی دلیل نہیں دی اور ایسی کوئی چیز بھی نہیں لکھ سکے جوذہن کو اپیل کرے اور یہ مصیبت اس لیے پیش آئی کہ ان حضرت نے ایک غلط نظریہ اپنالیا کہ انبیاء کہ حیات برزخی نہیں جسمانی اور دنیوی سے، حضرتؒ نے
"مجازات کی زبان میں روح کو جسے قرآن نے امر فرمایا مرکب تصور کیا پھر شعب لامتنا ہی تصور فرمایا پھر اس مرکب کے اجزاء سے ہر ایک کی توجہ مختلف سمتوں میں منقسم ہوسکتی ہے پھر انقسام توجہ کے باوجود استغراق پر مطلب اثر نہیں پڑتا پھر یہ روح عام ارواح کے لیے اور مومنین کی ارواح کے لیےمنبع ہے، یعنی مسلم اور غیر مسلم ارواح کا انشعاب اسی روح سے ہوتا ہے اور مومنین کی ارواح کو آنحضرتﷺ کی روح پر فتوح سے خاص نسبت اور تعلق ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم رحمہ اللہ کے ارشاد گرامی کا اقتباس آپ کے سامنے ہے بظاہر اس میں کوئی اخلاق نہیں مجازو استعارات کے انداز میں جو کچھ فرمایا ہے وہ الفاظ کے ہیر پھیر کے سوا کچھ نہیں کتاب و سنت سے کوئی نص یا اشارہ حضرت نے اپنے اس فکر کی تائید میں ذکر نہیں فرمایا:
قرآن عزیز نے روح کے تذکرہ میں جامع ار مناسب راہنمائی فرمائی ہے۔
قل الروح من امر ربی عما اوتیتم من العلم الاقلیلاًط۔
ذرا غور کرلیا ہوتا کہ امر کی تفصیلات میں جانا اس کے غیر متناہی شعب کا تذکرہ ہوتا تو قرآن اسے ضرور بیان فرما دیتا مولوی اخلاق حسین صاحب نے ص۱۷ پر زادالمعاد سے ایک اقتباس نقل فرمایا ہے اس کا اور مولانا کے اقتباس کا موازنہ فرمایئے ۔ حافظ رحمہ اللہ کا ارشاد کس قدر اقرب الی السنۃ ہے اور احادیث میں تطبیق کے لیے کس قدر موزوں اور مناسب، مولانا قاسم کی منطق ملاحظہ فرمایئے وہ قطعی بے جان ہے الفاظ کی شعبدہ بازی سے زیادہ اس میں کچھ نہیں اور حدیث یرد اللہ علی روحی کے سامنے رکھا جائے تو پوری تقریر کی حیثیت ہوائی سی ہوجاتی ہے اور حدیث کے الفاظ سے بالکل الگ اور مختلف ہے۔

بریلوی علم کلام:­­­­ہم نے بریلوی علم کے تین اصول سمجھے ہیں اول۔ مخالف کوپیٹ بھر کے گالیاں دینا ۔ دوم جہاں تک ممکن ہو اس پر جھوٹی تہمتیں تراشے جانا تاکہ بچارا الزامات کا جواب دیتے ہی تھک جائے سوم جس بدعت کی ترویج مقصود ہو اس کے ساتھ"شریف" کے لفظ کا اضافہ ، گیارہویں شریف ، میلاد شریف چہلم شریف جوبستی بدعت اور شرک کا مرکز ہو اس کےساتھ"شریف" لگادو ،جتنا بڑا پاپی اور مہامشرک ہو اس کے نام کے ساتھ جھوٹے خطابات کا ایک طویل سلسلہ ضم کردو عوام حق سے نفرت کرنے لگیں گے بدعۃ اور اہل بدعت کو پسند کرنے لگیں گے۔

اخوان دیوبند:حضرات دیوبند پہی دوبیماریوں سے قریباً محفوظ ہیں گالیاں نہیں دیتے جھوٹ نہیں بولتے لیکن اکابر کے محاسن میں غلط مبالغہ اور بے ضرورت غلو، اساتذہ کی تقدیس بانداز عظمت یہاں بھی موجود ہے اور بدرجہ اتم آپ نے مولانا قاسمؒ کا اقتباس پڑھ لیا اور اب مبالغہ آمیزی ملاحظہ فرمایئے۔
آب حیات وہ کتاب ہے کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے فرمایا میں نے یہ کتاب استاد رحمہ اللہ علیہ سے درساً درساً پڑھی تب مصنف کے مدارک پر مطلع ہوا ہوں میں نے مولانا حبیب الرحمان صاحب رحمہ اللہ علیہ سے اس واقعہ کا حوالہ دے کر عرض کیا تھا مجھے یہ کتاب آپ پڑھا دیں تو انہوں نے بایں ذہن وذکا فرمایا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں تو ایسی کتاب ہم جیسے نالائقوں کے بس کی بات کیا ہوسکتی ہے۔
آپ نے اقتباس ملاحظہ فرمالیا اردو میں ہے اس میں کوئی اخلاق بھی اور گہرائی بھی نہیں لیکن میں مولانا طیب صاحب کی یہ غلو آمیزی پہلے دیکھ لیتا تو شائد میں بھی آنکھیں ملنے لگتا کہ شائد یہاں کوئی شیر سورہا ہو روایات کی ثقاہت میں شبہ نہیں لیکن جب اسے واقع پر عرض کیا جائے تو ذہن میں کشمکش سی پیداہو جاتی ہے کہ یہ اکابر کیا فرما رہے ہیں ممکن ہے کوئی مقام کتاب دقیق ہو جس کے لیے شیخ الہند نے استاد محترم کی طرف رجوع فرمایا ہو مگر پوری کتاب درساً پڑھنا بڑی عجیب بات ہے۔
ہماری رائے تو یہ ہے کہ یہ بریلوی علم کلام کا ۱/۳ حصہ ہے جو حضرات دیوبند کو ورثہ میں ملا ہے اور اسی مبالغہ آمیزی کی بنا پر یہ غلط نظر یہ کہ انبیاءؑ کی حیات دنیوی ہے"
دیوبندی مکتب خیال میں چل نکلا ہے ہمارے دیوبندی نوجوان اساتذہ کے ان ارشادات کو چھوئی موئی سمجھتے ہیں اور ان کے حسن وقبح کا تجزیہ کرنے کی جرأت نہیں کرتے فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ اولئک الذین ھداھم اللہ، واو لئک ھم اولو الالباب(۳۹:۱۸)
احباب کرام! علم ودانش یکسر اس سے مختلف ہے اساتذہ کا احترام دوسری چیز ہے اور علم ودانش سے صرف نظر بالکل دوسرا امر، اس میں حضرت امام ابو حنیفہؒ اور ان کےتلامذہ کرام کا اسوہ آپ کے سامنے ہے کہ احترام ار اختلاف بیک وقت چل رہے ہیں، نہ اختلاف اظہار حق سے مانع ہے اور نہ اظہار حق ادب واحترام کی راہ میں حائل اظہار حق کے جذبہ کو ادب واحترام میں اس طرح سمودیا گیا ہے کہ سینکڑوں مسائل ہیں اختلاف کے باوجود استاد کی جبین احترام پر شکن کے اثار تک پیدا نہیں ہوتے ہیں اور تلامذہ کےمزاج میں ادنی ٰ ساتکدر رونما ہوتا ہے نہ ہی طرفین میں مبالغہ آمیز تماوح کی کبھی نوبت آئی۔ رحمھم اللہ ورمی عنھم۔


اولئک اٰبائی فجئنی بمثلھم
اذاجمعتنا یا جریر الجامع


اس کے بعد مولانا طیب صاحب کا ایک طویل خط مولانا اخلاق حسین صاحب نے نقل فرمایا ہے اس پر تفصیلی گفتگو کی جائے تو ایک غیر مفید بحث میں ناظرین کا وقت ضائع ہوگا حقیقت یہ ہے کہ حضرت نانوتویؒ کا ارشاد گرامی خصوص الحکم یافتوحات کے انداز کی ایک مستقل تقریر نانظریہ ہے جس سے حدیث کے الفاظ کی روشنی میں حدیث کا حل نہیں ہوتا پھر حضرت مولانا طیب صاحب کی تشریح حضرت نانوتوی کے ارشاد سے چنداں متعلق بھی نہیں اپنی جگہ کچھ خیالات ہیں جن کی پیدائش کا ذمہ دار مولانا کا ذہن ہے۔ جوتلامذہ اور معتقدین کی محفل میں کہنے کے لیے ایک اچھی چیز ہے دلائل وبراہین کے معیار پر اتر نامشکل ہے ایک مستقل سی تقریر ہے اسی سے نہ حدیث کے حل میں مدد ملتی ہے ۔ نہ مولانا نانوتویؒ کے ارشادات پر تشریحی روشنی اس سے پڑتی ہے البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا نانوتویؒ کے ارشادات کو ابن قیم کے ارشاد اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کےبعض کشوف میں ضم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔
میں نے اسے ناتمام کہنے کی جسارت کی ہے کہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ آنحضرت ﷺ کی روح پر فتوح کو کل ارواح باقیہ اور خصوصًا مومنین کی اصل تصور فرماتے ہیں لیکن حضرت قاری صاحب آنحضرت ﷺ کو "حقیقی مومن" فرما کر اس کے عموم کو ختم فرماتے ہیں اور اہل ایمان کی تخصیص کی ترجمانی اس انداز سے فرماتے ہیں گویاروح اور ایمان بالکل مرادف ہیں ۔ اصطلاح کا حق ہر ایک کو ہے ہم اسے روک نہیں سکتے لیکن ارباب علم غور فرمائیں کہ اس سے کس قدر خبط ہوگا اور پرویز اور عبد الحکیم کو اصطلاحات کی تخریب سےروکنا کتنا مشکل ہوگا بہتر ہے لوگوں سے گفتگو ان کی زبان میں کیجائے جس طرح ابن القیمؒ نے کسی ہے اس کے بعد مولانا نے سورج اور اس کی دھوپ کوتمثیلی انداز میں بہت طول دیا ہے لیکن یہ کوشش بھی اس لیے ناتمام ہے۔ رَدّاللہُ علیّ رُوحیِ، میں لفط"رد" کا تقاضا اس سے پورا نہیں ہوتا البتہ اس طول سے ذہن میں خبط ضرور ہوجاتا ہے۔
اگر یہ تقریر آنحضرت ﷺ کی اطاعت کے وجود کے متعلق کی جاتی اور متصوفانہ اور فقہی جمود پر اس سے پابندی لگائی جاتی توبہت مناسب ہوتا حدیث کے فہم کے لیے تو اس تقریر کے ہوتے ہوئے تو یہ لفظ حدیث سے نکالنا ہی پڑے گا۔
اس حدیث سے مخلصی کی ایک اور راہ بھی ہوسکتی تھی کہ اس کے رواۃ میں ابوصخر حمید بن زیاد ہیں مسلم نے اس کی متابعت کے طور پر روایت کی ہے یحیی بن معین نے اسے بعض اوقات ضعیف کہا ہے اس سے بعض منکرات بھی مروی ہیں حدیث پر جرح کرکے مخلص ہوسکتی ہے حدیث کو صحیح تسلیم کرنے کے بعد اصطلاحات کی ہیر ا پھیری بے دین اور اہل بدعت کے لیے راستہ کھول دے گی اور اس کی ذمہ داری اہل علم پر ہوگی۔
یا پھر وہی عام اہل سنت کی راہ حیات برزخی ہے اور یہ دنیوی موت کے ساتھ جمع ہو سکتی ہے ان دونوں میں تضاد نہیں ، اہل تحقیق اور ہمارے اکابر کی بھی یہی راہ ہے۔
قاری صاحب نے استغراق کی بھی کئی صورتیں بنادی ہیں فی ذات ﷺ استغراق فی ارواح الامۃ، استغراق فی ذات اللہ۔ روح کا معاملہ جب ہمارے فہم وفراست سے بالا ہے تو پھر ان تکلفات سے کوئی فائدہ نہیں ظاہر الفاظ سے فرار آپ ایسے حدیث کے ماننے والوں کے لیے قطعاً مناسب نہیں یہ ابن عربی اور ابن سعید کے انداز کا کشفی تصوف امام احمد اور امام ابو حنیفہؒ کے زہد وورع کے مطابق نہیں کہا جاسکتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔حضرت قاری صاحب کا پورا خط خطابی انداز کا ہے یہی حال مولانا محمد قاسم صاحب مرحوم کے اقتباس کا ہے۔
اگر پاکستان میں اہل بدعت ان تمویہات اور الفاظ سے غلط فائدہ اٹھا کر اہل توحید کو دق نہ کرتے ان تلخ گزارشات کی ضرورت نہ تھی ہم ودر افتادہ مساکین پر آپ حضرات کسی اچھے طریق سے کرم فرمائیں تو ہم ممنون ہوں گے جو انداز اب تک اختیار فرمایا گیا ہے قایل شکایت ہے۔

شکوت عما الشکوی لمثلی عادۃ
ولکن یفیض الکاس عند امتلا ءھا

ہم چاہتے ہیں آپ حضرات سے توحید وسنت کی بات سنیں ائمہ سلف اور ان کے اعتصام بالسنۃ کے قصے سنیں یہ جنس جودارالعلوم لا رہا ہے پاکستان میں ضرورت سے زیادہ موجود ہے آپ حضرات کیوں تکلیف فرماتے ہیں مولانا خیر محمد صاحب کی رضا مندی کےلیے کوئی اور راہ اختیار فرمایئے۔
دور دستاں رابہ نعمت یاد رکردن ہمت است
ورنہ ہر نخلے بپائے خود ثمرمے افگند
قاری صاحب کے مکتوب فرامی کے بہت حصوں پر میں نے گزارشات نہیں کیں ورنہ اس پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ وصلی اللہ علیٰ سید نا محمد واٰلہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیراً کثیراً ط(رحیق)
 
شمولیت
مئی 21، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
331
پوائنٹ
0
چند شبہات کا حل​

آج سے چند ماہ پہلے ا س موضوع پر چند گذارشات "مجلہ رحیق" میں پیش کرنے کا موقع ملا تھا۔ بریلوی حضرات کے خیالات اس موضوع پر معلوم ہیں مولانا احمد رضا خاں صاحب نے فتاویٰ رضویہ کی پہلی جلد میں انبیاء علیہم السلام کی زندگی کو جسمانی اور دنیوی قرار دیا ہے، لیکن ان حضرات کے خیالات عموماً ولائل کے بجائے جذبات پر مبنی ہوتے ہیں اس لیے علمی حلقوں میں اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔
خود مولانا احمد رضا خاں صاحب جب اس قسم کے مسائل پر لکھتے ہیں تو استدلال کے بجائے مخالف پر طعن وتشنیع اور الزامات سے حملہ آور ہوتے ہیں وہ مثبت طریق پر بہت کم لکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ علم ونظر کے حلقوں میں ان بزرگوں کے ارشادات کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی حضرات علماء دیوبند کا مقام اس سے بالکل مختلف ہے ان میں محقق اہل نظر ہیں دلائل پر ان کی نظر ہے اپنے مسلک کی حمایت میں ان کا مدار جذبات پر نہیں ہوتا لیکن مجھے تعجب ہوا کہ مسئلہ حیات ، حیات انبیاء علیہم السلام میں حضرت مولانا حسین احمدؒ ، حضرت مولانا محمد قاسمؒ صاحب نانوتوی اور بعض دوسرے اکابر دیوبند کی بھی تقریباً وہی رائے تھی جو مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی تھی۔
پھر مزید تعجب ہوا کہ بعض حضرات نے حیات انبیاء کی اس صورت کو اجماعی مسئلہ قرار دیا ہے حالانکہ یہ دعوی ٰ تحقیق اور انصاف دونوں کے منافی ہے بلکہ راقم الحروف کا خیال ہے کہ اجلہ دیوبند بھی اس مسئلہ میں ان حضرات سے متفق نہیں میری گذارشات شائع ہونے کے بعد ان گذارشات کی تائید بعض دیوبندی جرائد نے بھی فرمائی۔
جن احباب نے اختلاف فرمایا وہ بھی دلائل اور تحقیق کی بنا پر نہیں، بلکہ اساتذہ کی جلالت قدر پر اعتماد اور جمود کی بنا پر فرمایا اس کے باوجود انہی بزرگوں کے ذوق علم و تحقیق کی بنا پر پہلے بھی چند پریشان خیالات مقتدر مجلہ"رحیق" کی نذر ہوئے اور آج کی صحبت میں جو عرض ہورہاہ ے اس کا مقصد بھی یہی ہے ائمہ سنت اور اہل تحقیق اکابر کی روش کے پیش نظر ان مسائل پر غور فرمایا جائے حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے ابناؤ احفاد کےساتھ محبت اور ان کے تحقیقی مسائل سے استفادہ میں اہل حدیث کسی سےپیچھے نہیں۔ وما من احدالا ویوخذ من قولہ ویدد علیہ(امام مالکؒ) ۔۔۔۔۔۔ کے کلیہ سے انبیاء علیہم السلام کے بعد کوئی مستثنیٰ نہیں تاہم شاہ صاحب اور ان کے ابناء کرام کی علمی تحقیقا ت کے سامنے پیشانیاں جھکتی ہیں رحمھم اللہ وجعل اللہ الجنۃ مثوٰھم۔
دیوبند کے علمی اقتدار اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی رفعت مقام کی بنا پر جب کوئی مسئلہ ان حضرات کی طرف سے آئے تو اس سے صرف نظر ممکن نہیں جو احادیث اس باب میں آئی ہیں ان کے متون واسانید ، ائمہ حدیث کے آراء وافکار اور محققین کے ارشادات کی روشنی میں جو مواد میسر آسکا اس کا تذکرہ"رحیق" کے صفحات میں آچکا ہے۔
آب حیات:حال ہی میں برادر محترم حضرت مولانا محمد چراغ صاحب کی عنایت سے حضرت مولانا نانوتویؒ کی "آب حیات" دیکھنے کا موقع ملا۔۔۔۔۔۔ مولانا نانوتویؒ کے علم اور جلالت قدر کاپہلے بھی یقین تھا"آب حیات" دیکھنے سے ان کا احترام اور بھی زیادہ ہوا ان کی جلالت قدر کے باوجود بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہےکہ" آب حیات" کا انداز تحقیق سے زیادہ تاویل پر مبنی ہے مولانا مغفور نے یہ کتاب وراثت نبویﷺ کے متعلق شیعہ نقطہ نظر کے جواب میں لکھی ہے اور شیعی شبہات سے مخلصی کے لیے یہ مناظرانہ راہ اختیار فرمائی کہ آنحضرت ﷺ جسمانی طور پر زندہ ہیں اور ان کی یہ زندگی دنیوی زندگی ہے اس لیے تقسیم وراثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مولانا کے ساتھ انتہائی عقیدت کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مناظرانہ راہ ہے اس سے وہ نصوص حل نہیں ہوتے جن میں آنحضرت ﷺ کی وفات دفن اور اس دنیا سے انتقال کا صریح تذکرہ موجود ہے۔۔۔۔۔۔ قرآن کی صراحت
اِنَّکَ میَیِّت وَّا،نَّھُم مَیِّتُونَ ط اور احادیث میں آنحضرت ﷺ کے انتقال کی تفصیلات ، حضرت ابوبکرؓ کا خطبہ صحابہؓ کا سکوت ، حضرت عمرؓ کا رجوع امہات المومنینؓ کا سوگ ایسی چیزیں نہیں ہیں جنہیں مولانا نانوتویؒ کی علمی جلالت کی وجہ سے نظر انداز کردیا جائے۔
خود اکابر دیوبند یا ان کی اکثریت ان بزرگوں سے اس عقیدہ میں متفق نہیں اس کی حققیت ایک صوفیانہ تخیل سے زیادہ کچھ نہیں نصوص حدیثیہ کی ظاہری تعبیرات اس کے خلاف ہیں تقلیدی جمود کی ذمہ داری تو یقیناً نہیں لی جاسکتی لیکن بصیرت دینی ان تاویلات کے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے اس لیے ابناء دیوبند سے ادباً گذارش ہے کہ اکابر دیوبند بے شک قابل احترام ہیں لیکن وہ اپنے وقت کے ابو حنیفہؒ اور ابو یوسفؒ نہیں ہیں کہ ان کی ہر بات تقلیدًا مان لی جائے اس لیے گذارش ہے کہ جمود سے بچنے کی کوشش کی جائے کتاب وسنت موجود ہے اور ائمہ سلف کی تصریحات بھی ولا قول لاحد مع اللہ ورسولہ۔
حیات النبی اور اہل حدیث:مجھے خوشی ہے کہ اکابر اہل حدیث میں کسی سے اس قسم کی لغزش نہیں ہوئی ہمارے اکابر سے غزنوی خاندان کو تصوف سے جو شغف رہا ہے وہ بحث ودلیل کا محتاج نہیں لیکن حضرت عبد اللہ غزنوی رحمہ اللہ علیہ اور ان کے ابناء کرام اور تلامذہ عظام سے کوئی بھی اس قسم کے اعتقادی جمود کا شکار نہیں ہوا ، والحمدللہ علیٰ ذالک۔ حضرت شاہ اسحاق صاحبؒ کے علوم سے جن لوگوں نے حضرت شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین صاحب کے توسط سے استفادہ فرمایا ہے وہ اس قسم کی خوش اعتقادی سے محفوظ رہے ہیں اسی طرح جن لوگوں نے علمائے یمن سے علوم سنت کا استفادہ فرمایا ہے وہ بھی ان کمزور اور دو راز کا ر تاویلات سے محفوظ رہے ہیں اور یہ ساری برکت اس بنا پر ہے کہ یہ دونوں طریق تقلیدی جمود سے پاک ہیں ان میں اساتذہ کا ادب تو یقیناً ہے لیکن جمود اور تقلید نہیں۔۔۔۔ یہی محدثین کی اصل راہ ہے ۔۔۔۔۔ جب سے محققانہ تنقید کو بے ادبی کہا جانے لگا اس وقت سے جمود نے عقل وفکر کی راہوں کو مسدود کرنا شروع کردیا اوردماغوں نے سوچنا ترک کردیا۔
میری گذارشات: میری گذارشات میں ان اساطین علم کے ارشادات پر حدود ادب کے اندر رہتے ہوئے تنقید تھی اگر یہ مسئلہ صرف بریلی کی راہ سے آتا تو میں اس پر ایک حرف بھی لکھنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا میں نے عرض کیا ہے کہ نہ وہ حضرات سوچنے کے عادی ہیں نہ ان کا علمی حلقوں میں کوئی اثر ہے۔
حضرات اکابر دیوبند کے علمی احترام کے وسیع اثر نے مجبور کیا کہ ان کے ارشادات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تا کہ طلباء علمی تنقید اور بحث نظر کی عادت سیکھیں ۔۔۔۔۔ ان گذارشات کا مختلف حلقوں میں عجیب اثر ہوا بعض حلقوں نے اسے بے حد پسند کیا، گویا وقت کی یہ ایک ضرورت تھی اس وقت تک پاک و ہند کے کئی جرائد میں وہ مضمون شائع ہو رہا ہے ، بعض حلقوں نے اسے سخت ناپسند فرمایا اور اسے حضرات اکابر دیوبند کی بے ادبی پر محمول فرمایا ۔ اعاذنی اللہ من ذالک۔
بعض نے اس پر جزوری اور معقول تنقید فرمائی اور توجہ دلائی کہ معتدل بسط کے باوجود اس میں تشنگی ہے بعض گوشے مجمل ہیں ضرورت ہے کہ ان کی مزید وضاحت کی جائے۔
بعض کا خیا ل ہے کہ مسئلہ اساسی طور پر نظر ثانی کا محتاج ہے ضرورت ہے کہ نصوص کی روشنی میں پورے موضوع پر نظر ثانی کی جائے جو خطوط بذریعہ ڈاک موصول ہوئے ان میں بھی یہی کیفیت موجود تھی۔

منشی محمد شفیع صاحب کا نظریہ:چنانچہ ہمارے محترم دوست منشی محمد شفیع صاحب لاہوری (جو مشرباً دیوبندی) طبعاً حق پسند اور بحث ونظر ، تحقیق وتنقید کے عادی ہیں) نے توجہ دلائل کہ مسئلہ کے بعض پہلو محل نظر ہیں ان پر مزید غور ہونا چاہیئے۔
میں نے اپنی گذارشات میں عرض کیا تھا کہ حیات انبیاء علیہم السلام پر اجماع امت ہے گو احادیث کی صحت محل نظر ہے تاہم ان کا مفادیہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام مبارکہ کو مٹی نہیں کھاتی ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد النبیاء(ابن ماجہ ص ۱۱۹،۷۷ ترغیب منذری ص۱۱ جلد۲)
منشی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ کلیہ صحیح نہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اجسام خاک پر حرام ہیں بعض انبیاء علیہم السلام کے متعلق معلوم ہے کہ ان کے اجسام میں مٹی نے تصرف کیا چنانچہ حافظ نور الدین شیمی ؁ ۸۰۷ھ نے مجمع الزواید جلد ۱۰ ص۱۷۰ وص۱۷۱ میں ابو یعلی اور طبری سے بروایت حضرت موسیٰؓ اور حضرت علیؓ نقل فرمایا ہے۔
فقال علماء بنی اسرائیل ان یوسف لما حضرہ الموت اخذ علینا موثقاً من اللہ ان لا تخرج من مصرحتی ننقل عظامہ (الی ان قال) فلما احتفر وا اخرجوا عظام یوسف ۔
حضرت علی ؓ کی حدیث میں الفاظ کی ترکیب اس طرح ہے
قال لہ انک عند قبر یوسف فاحتمل عظامہ وقد استوی القبر بالارضی(الی ان قال) فاخرج العظام و جاوزا البحر(ص۱۷۱ جلد ۱۰ مجمع الزوائد)
یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کے ہمراہ رات مصر سے نکلے تو راستہ بھول گئے جب تشویش ہوئی تو علماء بنی اسرائیل نے فرمایا ، یوسف علیہ السلام نے ہم سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ جب وہ مصر سے جائیں تو میری ہڈیاں اپنے ہمراہ لیتے جائیں چنانچہ انہوں نے ہڈیاں نکال لیں اور اپنے ہمراہ لے گئے۔(ملخصاً)
منشی صاحب کا خیال ہے کہ جسم اطہر کی حفاظت میں جو احادیث آئی ہیں وہ درست نہیں لیکن ابو یعلی کی روایت صحیح ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی ہڈیاں موسیٰ علیہ السلام ہمراہ لے گئے منشی صاحب کا خیال ہے کہ یوسف علیہ السلام کی اس وقت صرف ہڈیاں تھیں گوشت اور پوست نہیں تھا۔
ہیثمی نے ابویعلی کی روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ رجال ابی یعلی رجال الصحیح وھذاالذی حملنی علی سیاقھا(ص۱۷۱ مجمع الزوائد جلد ۱۰)
ابو یعلی کے رجال صحیح کے رجال ہیں اسی لیے میں نے اس حدیث کا تذکرہ کیا ہے۔ طبرانی کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں۔
رواہ الطبرانی فی الاوسط وفیہ من لم اعرفھم (ص۱۷۱) (طبرانی کی روایت کے راوی غیر معروف ہیں)
منشی صاحب نے اس مفہوم کا ایک حوالہ البدایہ والنہایہ لابن کثیر جلد اول ص ۲۷۵ سے بھی نقل فرمایا ہے۔
ولما خرجوا من مصرا خرجوا معھم تابوت یوسف علیہ السلام یعنی جب بنی اسرائیل مصر سے نکل تو یوسف علیہ السلام کا تابوت بھی اپنے ہمرا لے گئے۔"
منشی صاحب کی تائید میں ایک حوالہ ابن خلدون جلد۱ ص۱۳۱ میں بھی ملتا ہے۔
لافتح یوشع مدینۃ اریحاء صاد الی نابلس فملکھا ودفن ھنالک شلو یوسف علیہ السلام وکانوا حملوہ معھم عند خروجھم من مصروقد ذکر ناانہ کان اومی بذلک عند موتہ ۱ھ۔
حضرت یوشع نے اریحا کے بعد جب تابلس پر قبصہ کیا تو حضرت یوسف علیہ السلام کی ہڈیاں وصیت کے مطابق وہاں دفن کردیں یہ ہڈیاں مصر سے نکلتے وقت وہ اپنےہمراہ لائے تھے ان حوالوں سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے متعلق یہ کلیہ درست نہیں بعض انبیاء علیہم السلام اس سے مستثنی معلوم ہوتے ہیں۔"
اہل علم کا فرض ہے کہ ان نصوص میں غور فرمائیں اور اس میں بظاہر تعارض میں ترجیح یا تصلی کی کوشش فرمائیں متوسلین دیوبند سے خصوصی گذارش ہے وہ اپنے اکابر کے مسلک ان تصریحات کی روشنی میں ثابت فرمائیں مسائل عصبیت یا ناراضگی سے حل نہیں ہوتے اور نہ عقیدت مفرطہ دلائل اور براہین کا بدل ہی ہوسکتی ہے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ ان متعارض دلائل کا اثر حیات برزخی پر نہیں پڑتا وہ بہر حال ثابت ہے عذاب وثواب قبر کی احادیث کے ہوتے ہوئے قبر میں زندگی کی کوئی صورت تو یقیناً ہو گی مشکلات حیاتِ نوعی میں ہیں خصوصاً جب اسے جسمانی دنیوی سمجھا جائے بریلوی حضرات کے نقطہ نظر سے یہ مسئلہ اور بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ قبر میں بظاہر بعض تکلیفات شرعیہ کا بھی صلحاء امت کو مکلف سمجھتے ہیں۔ ازدواجی تعلقات کی کہانیاں بھی ان کے ہاں مروج اور متعارف ہیں۔
صاحب روح المعانی نے حیات شہداء کے سلسلہ میں انواع حیات متعلق کافی تفصیل فرمائی ہے محترم منشی محمد شفیع صاحب کا منشایہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے لیے برزخی زندگی تو مانتے ہیں لیکن وہ اس زندگی کے لیے نہ جسم کو ضروری سمجھتے ہیں نہ اس کےلیے دنیوی زندگی کے لوازم کی ضرورت ہی محسوس فرماتے ہیں۔


منشی صاحب کے دلائل کا تجزیہ:اس میں شک نہیں کہ دلائل میں ایسا باور کرنے کی گنجائش موجود ہے اگر حیات کا جسمانی اور دنیوی تصور قبول کیا جاسکتا ہے تو منشی صاحب کے تصور کی راہ میں کونسا مانع حائل ہوسکتا ہے لیکن میری رائے میں منشی صاحب کے دلائل کئی وجوہ سے کمزور اور مرجوع معلوم ہوتے ہیں۔
۱۔ حدیث: ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء۔
اللہ تعالی نے مٹی پر انبیاء کے اجسام حرام فرما دیئے ہیں۔
گو بلحاظ سند صحیح نہیں تاہم اصول ستہ کو فوقیت طبرانی اور ابو یعلی پر ہے اُسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اصول ستہ کو بحیثیت مجموعی طبرانی وغیرہ پر برتری حاصل ہے چوتھے درجہ کی کتابوں سے استدلال فحول ائمہ حدیث تنقید اور تحقیق کے بعد کرتے ہیں یا پھر اہل بدعت جن کے ہاں اصل چیز اپنی بدعت کی تائید ہے دلائل کی پختگی سے انہیں کوئی واسطہ نہیں (حجۃ اللہ)
۲۔ حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں صرف زوائد جمع کرنے کا ذمہ لیا ہے تا کہ ایک مواد اہل علم کے سامنے آجائے وہ ان زیادات پر بالا استیعاب کلام نہیں فرماتے اور نہ ہی جرح وہ قدح کی تفصیلات ہی میں جاتے ہیں۔
۳۔ ابویعلی کی روایت میں انہوں نے فرمایا ہے رجالہ رجال الصحیح اس سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ضد کے رجال پر اصحاب الصحیح نے اعتماد فرمایا ہے لیکن حدیث کی صحت کے لیے یہ کافی نہیں امام مسلم نے شواہد میں ایسے رجال سے روایت کی ہے جن میں ائمہ حدیث کو کلام ہے اس کا تذکرہ انہوں نے مقدمہ مسلم میں بھی فرمایا ہے۔
۴۔ پھر ثقاہت رجال کے علاوہ تصیح حدیث کے لیے اور بھی شروط ہیں مراسیل اور مقطوعات میں ثقاہت رجال کے باوجود حدیث کی صحت کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ۔ راوی اور روایت کی شرائط کو پیش نظر رکھنا چاہیئے۔
۵۔ طبرانی کی روایت کے متعلق حافظ ہثیمی فرماتے ہیں ۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط وفیہ من لم اعرفھم غیر معروف رجال سے جوروایت مروی ہے اس کی صحت کادعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس قسم کی ضعیف روایات کے بالمقابل تو ابن ماجہ کی روایت ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء کو ضعف کے باوجود جمہور امت نے قبول فرمایا ہے اس لیے اسے طبرانی اور ابو یعلی کی ضعیف روایات پر ترجیح ہوگی لتلقی لامۃ مفھوم مھا بالقبول قرآئن کا تقاضایہی ہے کہ ابن ماجہ کی رویت کو ترجیح دی جائے او ر برزخی زندگی کے ساتھ جسم کی سلامتی کو بھی تسلیم کر لیا جائے۔
۶۔ پھر ابن ماجہ کی روایت کو علی علاتہا تسلیم کر لینے سے تعارض بھی اُٹھ سکتا ہے ۔ ابویعلی اور طبرانی کی روایت میں عظام سے مقصد حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ السلام کی نعش مبارک مراد ہو جیسے کہ البدایہ والنہایہ جلد ۱ ص۲۷۵ میں اخرجوامعھم تابوتہ مرقوم ہے عظام کی تابوت اور تابوت کی عظام سے تعبیر میں استبعاد نہیں ایسے مقام پر عظام سے جسم مراد لینا متعارف ہے۔
قرآن حکیم نے منکرین حشرکا عقیدہ ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ (بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندگی عطا کرے گا) معلوم ہے کہ کفار حشر اجساد کے منکر تھے حشر عظام پر استعجاب اسی حقیقت کی تعبیر ہے مقصود یہی ہے من یحیی الاجسام النالیہ حدیث من فلحتمل عظامہ سے مراد احتمل جسمہ ہی ہونا چاہیئے اس مفہوم کے بعد احادیث میں تعارض اُٹھ جاتا ہے میری دانست میں وہی مسلک صحیح ہے جسے ائمہ سنت وحدیث نے قبول فرمایا ہے۔
۷۔ ابن خلدون کا حوالہ اور بھی محل نظر ہے کیونکہ مصر سے تو حضرت یوسف علیہ السلام کی نعش مبارک حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ہمراہ لائے بنی اسرائیل چالیس سال تک بادیہ تیہ میں اقامت پزیر رہے کوشش اور انتہائی آرزو کے باوجود بنی اسرائیل کسی ہمسایہ ملک پر حملہ کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا انتقال اسی اثناء میں ہوا اس کے بعد بنی اسرائیل کی قیادت یوشع بن نون کے سپردہوئی حضرت یوشع نے ریحا اور نابلس کے علاقے فتح ہوئے خیال ہے کہ اس اثناء میں برسوں گذر گئے ہوں گے ابن خلدون نے بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے واخر بوا معھم تابوت یوسف علیہ السلام (ص۱۲۳ جلد۱) تابوت اور شلوا ابن خلدون نے دونوں استعمال کیے ہیں مسعودی نے ایک روایت میں تابوت کی شکل بھی بتائی ہے(ص۴۷ جلد۱) قبض اللہ یوسف بمصر ولہ مائۃ وعشرون سنۃ وجعل فی تابوت المرخام وسد بالرصاص وطی باالاخیۃ النافعۃ للھواء والماء۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے سفید پتھر کا تابوت بنایا گیا اور ہوا اور پانی کی بندش پورا انتظام کیا گیا۔
معلوم نہیں اس وقفہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی عظام یاتابوت کو وادی "تیہ" دفن کیا گیا اور دوبارہ نکال حسب وصیت نایلس میں دفن کیا گیا تفصیلات کیلئے تاریخ خاموش ہے اور جو مواد ملتا ہے وہ قریباً اسرائیلی روایات ہیں جن کی بنا پر ترجیح دینا مشکل ہے ہے جمہور امت نے جو رائے قبول کی ہے روایات میں ضعف کے باوجود وہی راجح معلوم ہوتی ہے سارے واقعات اخباری انداز کے ہیں ان کا انداز احادیث اور محدثین کی ہمسری نہیں ابو القاسم سہیلی بعض شہداء احداورصلحاء کے اجسام کا ذکر فرماتے ہین کہ وہ کئی سال کے بعد اپنی قبروں سے صحیح سالم بر آمد ہوئے اور دوسری جگہ دفن کیے گئے ، اس کے بعد فرماتے ہیں ۔ والا اخبار بذلک صحیحۃ (روض الانف ص۳۴ جلد۱) ۔ پھر فرماتے ہیں۔
قال علیہ السلام ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء اخرجہ سلیمان بن اشعت وذکر ابو جعفر الدٰودی فی کتاب التاسی ھٰذاالحدیث بذیادۃ وذکر الشھداء والعلماء والموذنین وھی زیادۃ غریبۃ لم تقع (لی) فی مسند غیر ان الدٰودی من اھل الثقۃ والحلم ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے اجسام زمین پر حرام فرما دیے ہیں سلیمان بن اشعت نے اسے تخریج فرمایا ہے ابو جعفر داودی نے اس حدیث میں شہداء علماء اور موذنین کا بھی اضافہ کیا ہے اس زیارت میں بے شک غرابت ہے لیکن داودی عالم اور ثقہ ہیں۔
سہیلی اور شوکانی نے ان احادیث کے متعلق صحت یا ثقاہت کا ذکر فرمایا ہے اس کے باوجود مجھے اعتراف ہے کہ یہ ذخیرہ ضعف سے خالی نہیں بخاری ؒ اور منذریؒ ذہبی وغیرہ ائمہ فن نے ان پر تنقید فرمائی ہے اور یہ حضرات سہیلی وغیرہ سے اپنے فن میں زیادہ مستند ہیں اس لیے اگر منشی صاحب اپنی رائے پر اصرار فرمائیں تو نہیں اس کا حق ہے۔
فان العلم امانۃ والجھل عن الحقائق خیانۃ والتمسک بالنصوص دیانۃ والاعراض عن التحریف والتاویل صیانۃ ومن حرم عن ذلک فقد حرم بعض الخیر واللہ ولی التوفیق علیہ توکلت وھوحسبی ونعم الوکیل ولا حول ولا قوۃ الاباللہ علیہ اعتمد والیہ انیب۔(الاعتصام ص۲۷ جلد ۱۰ مورخہ ۳ جنوری ؁ ۱۹۵۹ھ)



مسئلہ حیات النبیﷺ پر ایک سوال اور مدیر تجلی"دیوبند کا تحقیق جواب:لاہور سے رحیق نامی ایک ماہنامہ نکلتا ہے یہ اہل حدیث حضرات کا آرگن ہے اس کی چند اشاعتوں میں "حیات النبی کے مسئلہ پر ایک خاص غلو پسندانہ انداز میں کلام کیا گیا ہے خصوصاً آخری قسط (مئی ؁ ۱۹۵۸ء ) علمائے دیوبند حتیٰکہ قاسم العلوم والخیرات حجۃ اللہ مولانا محمد قاسم رحمتہ اللہ علیہ تک کی تقلیل وتخطیہ میں کسر اٹھا کے نہیں رکھی گئی ہے کاش آ پ اس مضمون کو ملاحظہ فرمائیں اور جو قلم مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی تائید میں دفتر کے دفتر گھسیٹ دیتا ہے اور وہ اپنے لائق صداحترام اکابر واسلاف کی حمایت میں بھی جولائی دکھائے اور تمام ائمہ سے بڑھ کر اپنے آپ کو صاحب علم اور عقیل فہیم سمجھنے والے اہل حدیث کی جسارتوں کا جواب لائے امید ہے کوشش کرکے"رحیق " حاصل کریں گے اور اپنے اکابر کی حمایت سے نہیں چوکیں گے ویسے بھی"حیات النبی" کے مسئلہ پر رحیق کے مضمون نکار کی رائے لطیف طریقے پر توہین رسولﷺ پر منتج ہوتی ہے جس کا ازالہ نہایت ضروری ہے۔
جواب:
رحیق بہترین علمی مجلہ ہے: ماہنامہ" رحیق" لاہور "تجلی" کے تبادلہ میں وفتر "تجلی" میں آتا ہے اور ان پرچوں میں شامل ہے جنہیں ہم کم و بیش پورا دیکھے بغیر نہیں چھوڑتے بلکہ ہمیں کہنا چاہیئے کہ ہم اسے ناقدانہ نہیں بلکہ طالب علم اور شاگردانہ حیثیت سے پڑھتے ہیں کیوں کہ اس کے مضامین عموماً قیمتی علمی مواد پر مشتمل ہوتے ہیں جن سے ہماری حقیر سی متاع علم میں مفید اضافہ ہوتا ہےآپ کے خط کو پڑھ کر نہایت رنج ہوا انداز بیانسے لے کر نفس مطلب تک تمام خط تعصب غلط فکری اور جاہلی تصور ات سے آلودہ ہے کاش آپ"تجلی"کے قائل اٹھا کردیکھتے کہ ہم دینی معاملات میں کس نقطہ نظر کے حامل ہیں اور ہمارے نزدیک دین میں گروہ بندیاں اور اجارہ داریاں کس قدر افسوسناک امور ہیں ہزار ہزار صدمہ اور ملال ہے کہ ہمارے موجودہ مدرسے عموماً وہی فاسد ومجہول اور غالی ومتعصب ذہن تیار کرر ہے ہیں جس کی خاصی جھلک آپ کے خط میں دیکھی جارہی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو غلط قسم کی اکابر پرستی ، مقامیت وطنیت پر مبنی گروہ بندی ، غلوفی العقیدت اور" ہم چومادیگرے نیست" کے خبط سے محفوظ رکھے۔
ہم مولانا محمد اسماعیل ؒ سے متفق ہیں:جہاں تک نفس موضوع یعنی اس سوال کا تعلق ہے کہ رسولاللہ ﷺ کو وصال ورحلت کے بعد کس طرح کی "زندگی" حاصل ہے اتفاق سے ہم پہلے ہی بعض علمائے دیوبند کے مسلک سے متفق نہیں ہیں بلکہ ہمارا مسلک بعینہ وہی ہے جس کا اثبات "رحیق" کے فاضل مضمون نگار مولانا محمد اسماعیل صاحب خطیب نے کیا ہے تجلی میں کئی بار اس مسئلہ پر ہم اجمالاً کچھ نہ کچھ لکھ چکے ہیں تمام حوالے تو مستحضیر نہیں ہیں صرف ایک حوالہ پیش نظر ہے یہی ہمارے خیال وعقیدے کے اظہار کے لیے کافی ہے تجلی مئی ۱۹۵۶ء میں تجلی کی ڈاک کے تحت"حیات النبی" ہی زیر عنوان ہم نے ایک صفحے کاجواب دیا تھا مناسب ہو آپ اسے پڑھ لیں اس کی آخری سطوریہ تھیں۔
ہمارا کہنا یہ ہے کہ جن چیزون کو اللہ تعالیٰ نے مجمل رکھنا ہی پسند فرمایا ان کے بارے میں تفصیلات کی طلب اور چھان بین مناسب نہیں ہے مجمل عقیدہ ہی کافی ہے عقل وادراک کے پاس یہ صلاحیت کہاں ہے کہ وہ مرنے کےء بعد کے احوال و اقعات کو مادی احوال ووقعات کی طرح سمجھ سکے وصال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم وروح میں کیا اور کیسا تعلق ہے، آپ کن معنوں میں زندہ ہیں آپ کے سامنے کیا چیزیں پیش ہوتی ہیں کیانہین اس طرح کے سوالات میں پڑنے کے عوض احکامات دین کی تعمیل ونفاذ ہی مسلمانوں کے لیے بالکل کافی ہے جن لوگوں پر عبادات ونکوکاری کے نتیجے میں اللہ کے بعض چھپے ہوئے اسرار کھول دیئے گئے ہوں اور "حیات النبی" کے باب میں ان پر کچھ منکشف ہوا ہو، وہ ان کے اپنے لیے ہے عوام کے لیے نہیں ہے عوام اسے نہیں سمجھ سکتے بلکہ مغالطوں اور وسوسوں میں گرفتار ہوسکتے ہیں جو لوگ حضور ﷺ کے "وصال" کو "موت" سے جدا کوئی چیز ثابت کرتے ہوئے آپﷺکی حیات مستقلہ کا کوئی متعین ومشخص اور معلوم ومشرح تصور عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں ، ہمارے خیال میں وہ مفید کام نہیں کرتے ، بلکہ رسول ﷺ کے بارے میں قرآن کے بار بار بیان کیے ہوئے تصور بشریت کو مافوق البشر تصورات واوہام سے آلودہ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں"(تجلی مئی ؁ ۱۹۵۶ھ ص۳۳)
مولانا قاسمؒ معصوم نہیں تھے:مولانا محمد قاسم ؒ سے عقیدت و محبت کا جہاں تک سوال ہے تو سچ ہے کہ ہم انہیں اپنے کا بہترین عالم، ذہین وفہیم مفکر اور صاحب زہد ورع دانش ور سمجھتے تھے لیکن یہ عقیدت اس لغویت تک کبھی نہیں پہنچتی کہ ہم ان کو معصوم مان کر ان کے ہر فکر ورائے کی اندھا دھند تائید کرتے چلے جائیں چنانچہ ان کی مختلف تحریروں میں اس طرح کی باتیں دیکھنے کے بعد بھی رسول ﷺ کی رحلت"موت" کے معلوم عام مفہوم مصداق سے جدا گانہ شے ہے اور اس کی مثال اس ہانڈی کی سی ہے جو کسی چراغ پر ڈھک دی جائے ہم کسی طرح اپنے آپ کو اس بارک خیال کی تائید وتصدیق پر مائل نہ کرسکے بلکہ ہمارا عقیدہ وہی رہا کہ قرآنی تصریحات کے مطابق رسول اللہﷺ کی رحلت من حیث البشر ویسی ہی رحلت ہے جیسی کسی دوسرے انسان کی ہوتی ہے اور"موت" کا لفظ اس پر ٹھیک اس طرح صادق آتا ہےجس طرح کسی اور انسان کی رحلت پر اس کے لیے قرآن، حدیث اور خلیفہ اول کی تقریر میں واضح شہادت موجود ہے رہا بعد مرگ ان کا زندہ رہنا اور زمین پر ان کے جسم کی حرمت تو اگرچہ اس کا انکار ایک مسلمان کی حیثیت میں ممکن ہی نہیں ہے لیکن جو لوگ اس زندگی بعد مرگ کو ٹھیک دنیاوی زندگی جیسا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور مر رسولﷺ کو ایک اٹل حقیقت ماننے سے فرار کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں گویا یہ"موت" محض ایک فریب نظر یا مذاق تھا وہ اچھا نہیں کرتے اور ان کا ذہن وقب اس غلط ترین خیال سے مسموم ہے کہ" موت" ایک اتنے عظیم پیغمبر کے لیے توہین وتحقیر کا باعث معلوم ہوتی ہے۔
خیر مولانا قاسم رحمتہ اللہ علیہ کا انداز تحریر تو کچھ ادق اور غامض تھا کہ ہم کو تاہ فہموں کے لیے اس حسن ظن کی بھی گنجائش باقی رہ جاتی تھی کہ جو کچھ انہوں نے تحریر فرمایا ہے شائد اس کا مطلب وہ نہ ہو جو ہم نے سمجھا ہے اور وہ حیات النبی کے باب میں فی الحقیقت ً وہی مسلک رکھتے ہوں جسے ہم درست سمجھ رہے ہیں۔
کل کا دیوبند اور آ ج کا دیوبند:پھر وہ زمانہ بھی اور تھا شرک و بدعت کے خلاف خود مولانا قاسمؒ اور دیگر ہم عصر علماء دیوبند آئے دن سرگرمیوں کا مظاہرہ فرماتے رہتے تھے اور"حیات النبی" کے متعلق ایک خاص مسلک رکھنے سے قبوری حضرات کو جو شبہ ملنی ممکن تھی اس کا سدباب اور ازالہ ان کی دیگر واضح و مصرح اور موکدو مدلل تحریروں اور تقریرون سے پوری طرح ہو رہا تھا لیکن آج جو احوال ہیں وہ بالکل مختلف ہیں آج وہ زبانیں گنگ وہ انگلیاں مفلوج اور وہ جذبات سرد ہوچکے ہیں جو مولانا امساعیل شہیدؒ کی طرح اکرام مسلم کے ساتھ اہانت بدعتی اور تردید شرک و بدعت کو بھی منجملہ فرائض قرار دیتے تھے وہ اخلاف حکمت ورواداری کی"ملین پالیسی" اختیار فرما چکے ہیں جن کے اسلاف شرک وبدعت کے باب میں رواداری ، تلین ، درگذر اور صرف نظر کو بزدلی بے حسی، بے عقلی اور دوغلا پن گمان فرماتے تھے اسی لیے آج کہیں اور نہیں خود دیوبند میں اس دیوبند میں جہاں طبلہ وہارمونیم والی قوالی ، صلوٰۃ علی القبر ، جمعراتی ، جشن قبوری ، چارد بازی اور دیگر قبوری بدعات کا سایہ تک نہیں ملتا تھا، یہ سب کچھ موجود ہے نہ صرف موجود بلکہ روز افزوں ترقی پر ہے، کیسے نہ ہو ہمارے واعظانِ شیریں بیان کا یہ حال ہے کہ جب وہ کسی ایسے مجمع میں وعظ فرماتے ہیں جہاں اکثریت مبتدعین ومجہولین کی ہوتو زدمعنی اور آرٹسٹک گل افشانیوں کے وہ اعلیٰ نمونے پیش کرتے ہیں کہ توحید پرست بھی واہ واہ کراٹھیں اور مقبروں کی خاک چاٹنے والوں کا دل بھی گز بھر کا ہوجائے دیوبندی کہیں کہ کوئل"حقاتو" بولی بدعتی کہیں کہ نہیں وہ تو"عبد القادر" بولی۔
حد ہوگئی اسی عید الفطر کے وعظ میں دیوبند کی عید گاہ کے لاوڈ سپیکر سے قبل نماز عید قبروں پر جانے کی مسنونیت نشر ہوئی اور ایک خاص حالت ، خاص فضا اور خاص معاشرے سے متعلق حدیث کو ٹھیک اس واعظانہ بے قیدی دبے پناہی کے ساتھ استعمال کیا گیا جس کے نقصان واضرار پر ابن تیمیہؒ ، ابن قیمؒ اور مجدد الف ثانیؒ جیسے حضرات سر پیٹتے گئے ہیں اور جس کی سطحیت پر سید اسماعیل شہید جیسے اعاظم رجال پناہ مانگ چکے ہیں۔
قبوری ذہن کو ہتھیار:ہندوپاک میں قبر پرستی اور پرستش اولیاء جس قدر زوروں پر ہے آنکھ والوں سے مخفی نہیں ایسے حالات اور ماحول میں جو اہل علم"حیات النبی" کا مسئلہ لے کر بیٹھتے ہیں اور حیات پیغمبر کو بالکل حیاتِ دنیاوی بنا کر اپنی فدائیت رسول اور حب پیغمبر اور تجر علمی کا مظاہرہ فرمانا چاہتے ہین وہ صرف وقت کا ضیاع ہی نہیں کرتے بلکہ اسے ایک نہایت افسوسناک نتائج پیدا کرنے والے کام صرف کرتے ہیں اور قبوری ذہن کو تصور توحید کے خلاف ہتھیار مہیا فرماتے ہیں اسی لیے آج اس مسئلہ کی حیثیت محض علمی نہیں رہی کہ اس میں ہر نقطہ نظر کو باعتبار اجتہاد حق وثواب مان لیا جائے بلکہ اس کی نوعیت ایک مستقل فتنے کی ہوگئی ہے جس سے دامن بچانا ہر دانش مند کا فرض ہے اسی وجہ سے "رحیق" کے فاضل مضمون نگار نے زحمت تنقید فرمائی ہے اور اس وجہ کا مختصراً اظہار بھی آخر میں کردیا ہے۔
نفس مسئلہ سے ہٹ کر جہاں تک طرز تحریر اور معیار تنقید کا تعلق ہے تو اگر نفس مسئلہ پر ہم فاضل مضمون نگار سے متفق نہ ہوتے تب بھی برملا یہی کہتے کہ سنجیدہ ومتین اور تھوس علمی اختلاف کا جو بہتر سے بہتر معیار ہوسکتا ہے انہوں نے اس کا حق ادا کردیا ہے لہجے سے لے کر الفاظ تک اور دلائل سے لے کر آداب تک انہوں نے پوری شائستگی ، بردباری اور نجابت کاثبوت دیا ہے یہ تو ہوسکتا ہے کہ آپ یا کوئی اور ان کے دلائل سے متفق نہ ہو یا دلائل کو سمجھے بوجھے بغیر صرف عقیدتاً اسی خیال پر جما رہے جو اس کے محبوب بزرگوں کا ہے لیکن یہ نہیں ہوناچاہیئے کہ ان کا اہل حدیث ہونا آپ کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ دے اور اپنے بزرگوں کے ایک مسلک کی علمی تنقید آپ کو جامے سے باہ کر دے۔
یہ کیسی بلید الذہبی ہے کہ اپنے طرف تو آپ جماعت اسلامی کی تائید کا ذکر نہایت تحبر سے کرتے ہیں دوسری طرف بعض اکابر اسلاف کے ساتھ"لائق صد احترام" کا دم چھلا لگا ئیں ہمیں ان کی حمایت پر اس لیے ابھارتے ہیں کہ وہ"ہمارے" ہیں اس طرح کی لغویتیں قوم ودطن کے محور پر گھومنے ولی سیاست میں چلتی ہیں لیکن دینی وعلمی مسائل میں اپنا اور پرایا ، لائق صداحترام اور لائق صد اہانت کوئی چیز نہیں ہوتی مولانا قاسم رحمہ اللہ علیہ یا کسی اور دیوبندی بزرگ سے کہ ہمارے نسلی اور وطنی کچھ رشتے ہیں تو دینی وعلم مسائل میں ان رشتوں کی دہائی دینا پر لے درجے کی تنگ نظری ہے اور مولانا مودودی سے ہمارا نسلی ووطنی کوئی بھی رشتہ اگر نہیں ہے تو اس عدم تعلق کو دینی وعلمی مسائل میں ملحوظ رکھنے کا سبق دینے والا ہمارے نزدیک انتہائی پستی فکر ونظر کا شکار ہے پھر اسی سانس میں آپ اہل حدیث پر بھی علی الاطلاق ایک بھونڈہ فقرہ کس جاتے ہیں یہ کیا گراوٹ ہے ہم بے شک حنفی ہیں اور یہاں تک غالی کہ اگر کسی فقہی مسلک کے بارے میں ہمیں تحقیق ہو جائے کہ واقعی وہ امام ابو حنیفہ ؒ کا ہے اور بعد کے کسی حنفی نے اس میں اپنے اجتہاد وقیاس کو داخل نہیں کیا ہے تو چاہے یہ ہمارے علم وعقل کے بظاہر خلاف ہی ہومگر ہم اس سے اختلاف کی ہمت نہیں کریں گے کیونکہ ہمارے پاس وہ کافی علم نہیں ہے جواتنے بڑے عالم ودانا سے اختلاف کرنے کا حق عطا کرتا ہے۔

اہل حدیث پر توہین رسولﷺ کا الزام:"توہین رسولﷺ" کی ایک ہی رہی اہل حدیث اور وہین رسولﷺ ؟ د ن اور تاریکی؟ آسمان اور پستی؟ ہمیں پہلے ہی اندیشہ تھا کہ دیوبندی علمائے خلف کی اہل بدعت سے نیم برہنہ سانٹھگانٹھ او مفاہمت آخر کار دیوبندی مکتبہ فکر میں بھی مبتد عانہ غلوفی العقائد اور متوہمانہ نکتہ سنجی کا زہر پھیلا کے رہے گی وہی ہوا اہل بدعت تو دیوبندیوں پر توہین رسولﷺ اور تحقیر اولیاء کے الزامات عائد کرتے تھے اب دیوبندی مسلک کے لوگ اہل حدیث اور مولانا مودودی وغیرہ پر یہی ہوائی تیر چلا رہے ہیں بندہ رب! رحیق والے مضمون میں تو توہین رسولﷺ کا شائبہ تک نہیں جو خورد بین چونٹی کو ہاتھی بنا کر دکھاتی ہےہو، وہ بھی اس مضمون میں توہین رسولﷺ کا حبہ نہیں دکھاسکتی یہ الگ بات ہے کہ جسطرح قبوری حضرات نے اہل قبور کے لیے رنگ برنگے عقائد گھڑلیے ہیں طرح طرح کی درواز کار اور بے اصل صفات اولیاء مرحومین کے لیے تصنیف فرما لی ہیں اور ان خود ساختہ عقائد وصفات کی تردید کو وہ توہین اولیاء قرار دیتے ہیں اسی طرح آپ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باب میں کچھ طبع زاد تصورات کو حقائق مان لیا ہو اور ان سے بدلائل اختلاف کرنے والوں کو مرتکب توہین قرار دینے لگیں۔
مولانا محمد اسماعیل کا درست تجزیہ:سچ لکھا ہے رحیق کے مضمون نگار جناب مولانا محمد اسماعیل صاحب نے "بعض دیوبندی علماء بھی بریلوی علم کلام کے ۱/۳ حصے سے موقعہ بموقعہ کام لیتے رہتے ہیں" بلکہ ہم تو یہاں تک شہادت دیں گے یہ علم کلام گا ہے گاہے جامہ عمل بھی پہن لیتا ہے مثلا یہاں اسیے بھی "علمائے کرام" موجود ہیں جو شاہ ولایت صاحب کے مزار پر جاتے ہیں اور واپس آکر دوست احباب سے یہاں تک فرماتے ہیں کہ آج مجھے شاہ ولایت صاحب نے ڈانٹا کہ اتنے دنوں سے کہاں تھا اور آج سینے سے لگالیا، اور آج گلاں مشورہ دیا یہاں ایسے بھی"عاشقان اولیاء" علماء ہی کے دائرے میں موجود ہیں کہ اگر آپ ان سے کہیں گے مولانا! یہ جو آپ نے درمیان کی دیوار ڈھاکر دوکرو ٹھریوں کا ایک کمرہ نا دیا تو بہت ہی چھا کیا تو وہ جواب دیں گے جی ہاں! حضرت مولانا۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمۃ اللہ علیہ کی برکت ہے جو کام بھی کرتا ہوں ماشاء اللہ ان کی توجہ سے پسندیدہ ومرغوب ہوتا ہے حالانکہ کسی اور وقت میں جب موڈ ذرا بدلا ہوا ہو آپ انہیں کی زبانی یہ بھی سنیں گے کہ مولانا صاحب! بڑی ہی پریشانی ہے تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا فلاں یوں کیا تھا یوں بگڑ گیا فلاں ترکیب یوں سوجھی تھی اور اوندھی ہوگئی اب اگر آپ یاد دلائیں مولانا وہ برکت وتوجہ کہاں گئی جس کا آپ نے تذکرہ فرمایا تھا وہ سوختہ وبریاں جواب ملے گا کہ قادیانی علم کلام بھی پانی بھر تارہ جائے گا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ بدعت کا کوئی وطن نہ وہ کوئی لمیٹڈ یا رجسٹرڈ کاروبار ہے ضروری نہیں کہ ایک دیوبندی عالم جو کچھ کہے اور کرے اس کا بدعت ہونا ناممکن قرار دیا جائے اور اہل حدیث حضرات اگرعلمائے دیوبند سے کسی مسئلہ میں اختلاف رکھتے ہوں تو لازماً علمائے دیوبند ہی حق پر ہوں آخرت کا اگر خیال ہے تو گروہی اور عطنی عصبیتوں کو بالائے طاق رکھ کر اسلام اور بند گان اسلام کی اصلاح وفلاح کے لے سعت نظر اور احلم وبرداشت کی راہ پر آیئے ورنہ قبر اقبال سے وہی آواز آئے گی کہ


تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

(تجلّی دیوبند ص۲۴ تا ص ۴۶ بابت جولائی واگست ؁ ۱۹۵۸ء)



ختم شد​
 
Top