رانا ذیشان سلفی
مبتدی
- شمولیت
- مئی 21، 2012
- پیغامات
- 68
- ری ایکشن اسکور
- 331
- پوائنٹ
- 0
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حَیٰوةَ النَّبِیّ صلی اللہ علیہ وسلم فِی قَبرِہ لَیسَت بِدُ نیَوِیَّة
الحمدللہ کبیرا واشھد ان لا الہ الاللہ وحدہ لاشریک لاواشھد ان محمد عبدہ ورسولہ۔ ارسلہ بالحق بشیرًا ونذیرًا وصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تسلیماً کثیرًا کثیرا
امّابعد۔
کچھ عرصہ ہوا ایک موحد عالم نے ملتان میں توحید کے موضوع پر تقریر فرمائی جو عوا م اور خواص میں پسند کی گئی، مگر ان کے حلقے کے بعض حضرات نے عقیدہ توحید میں استواری کے باوجود اس تقریر کے بعض حصوں پر اعتراض کیا اور اسے ناپسندکیا اور کوشش کی گئی کہ تقریر کے اثرات کو کم یازائل کیا جائے۔
مقرر نے توحید کے موضوع پر بیان فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کا ذکر فرمایا اور جو لوگ آپﷺ کو اپنی طرح زندہ سمجھتے ہیں ان کے خیالات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی "دنیوی زندگی" ہو تو صحابہؓ نے آپ کو زندہ سمجھتے ہوئے کیسے دفن کیا۔ کیونکہ ناممکن ہے کہ صحابہ ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرح زندہ سمجھیں اور زمین میں دفن کیے رکھیں۔(یہ مفہوم ہے ممکن ہے کہ الفاظ میں فرق ہو)
چونکہ یہ مخالفت بااثر اہل علم حضرات کی طرف سے تھی۔ اور یہ حضرات بھی دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اس کا اثرپاکستان میں دوسرے مقامات پر بھی ہوا اور کوشش ہوئی کہ اس قسم کے صاف گو مبلغین کا مقاطعہ کیا جائے۔ بلکہ اس کا اثر ہندوستان بھی پہنچا ۔ چنانچہ ماہنامہ"دارلعلوم" دیوبند میں ایک مضمون مولانا زاہد الحسینی کے قلم سے اور ایک تعارفی نوٹ مولانا سیّد محمد انظر صاحب کے قلم سے شائع ہوا۔ مگر دونوں مضامین میں کوئی جدت نہیں۔ حیات انبیاء کے متعلق وہی بریلوی نظر ہے جسے پھیلا دیا گیا ہے۔ دلائل کا انداز بھی ہو عموماً بریلوی حضرات کی تحریرات میں ہوتا ہے دہرا دیا گیا ہے اس قدرتی فرق کے ساتھ کہ نفس مسئلہ کی تفصیل ہے ذاتیات میں الجھنے کی کوشش نہیں کی گئی اہل علم سے یہی امید ہونی چاہیئے دلائل میں کوئی خوبی ہویا نہ ہو لیکن مضمون کے ڈنڈے پاکستان سے ملتے ہیں پھر اس کی اشاعت دیوبندی مکتب فکر کی مرکزی درس گاہ کے مجلہ میں ہوئی ہے۔
مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے دانش مندوں نے مقامی مصالح کی بنا پر مرکزی اکابر کو استعمال فرمایا ہے اور وہ حضرات بلا تحقیق وتبیین استعمال ہوگئے ہیں۔ اس اختلاف سے بریلوی مکتب فکر جو فائدہ اٹھا رہا ہے اس کی اصلاح کے لیے مسئلہ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ راقم الحروف مولانا محمد انظرا اور مولانا زاہد الحسینی سے ذاتی طور پر نا آشنا ہے اس لیے اس جسارت پر معافی چاہتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بحث مسئلہ کی حد سے تجاوز نہیں کرے گی۔ وماتوفیقی الاباللہ۔
پاکستان کی تشکیل کے بعد بریلویت نے جس طرح انگڑائیاں لینا شروع کی ہیں۔ اور قادیانیت اور رفض کو جس طرح فروغ ہو رہا ہے۔ اس کے اثرات اور اہل توحید مبلغین کی مشکلات میں جس قدر اضافہ ہورہا ہے اور ان میں دن بدن ترقی کی جو رفتار ہے اسے شائد ہندوستان کے اکابر نہ سمجھ سکیں۔ پاکستان کے دیوبندی اکابرین جن مصالح اور مقتضیات وقت میں روز بروز گرفتار ہورہے ہیں۔"پیری مریدی" کے جراثیم جس عجلت سے یہاں اثر انداز ہو رہے ہیں اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس پورے ماحول سے آشنا ہیں۔ احسان ہوتا اگر دور کے حضرات اس میں مداخلت نہ فرماتے ہمیں معلوم ہے کہ حکومت پاکستان کے مزاج اور یہاں کے اہل ہوا کے مزاج میں جس قدر توافق کارفرما ہے اس کا علاج مصلحت اندیشوں سے نہیں ہوگا اور نہ ہی مدارس کی مسندیں اس عوامی فتنہ کا مداوا ہو سکیں گی۔ یہ طویل سفر طے ہونے تک ممکن ہے مریض زندگی کی آخری گھڑیاں شمار کرنے لگے۔
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
اس مسئلے کو جو صورت دی جارہی ہے چونکہ اس سے بہت سی شرکیہ بدعات کے دروزے کھل جاتے ہیں اس لیے نامناسب ہوگا اگر اصلاحی تحریک پر اجمالی نظر ڈال لی جائے جو ان بدعات کا قلع قمع کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی کیونکہ اس سے مسئلہ کا پس منظر سمجھنے میں مددمل سکے گی گو اس طرح قدرے طوالت ضرور ہوگئی ہے۔
اصلاحی تحریکات کا مدّوجزر:گیارہویں صدی ہجری کے آغاز سے تیرہویں صدی تک طاغوتی طاقتیں گوکافی مضبوط تھیں مگر خدا تعالیٰ کی رحمت کی تابانیاں بھی نصف النسار پر ہیں۔ اس ثنا میں اللہ تعالیٰ نے مصلحین کی ایک باوقار جماعت کو حوصلہ دیا اور کام کا موقع مہیا فرمایا مصلحین کے پرشکوہ اور فعال گروہ اطراف عالم میں نمودار ہوئے فتح وشکست کے اثرات اور نتائج گو مختلف ہیں لیکن مقام شکر ہے کہ ان حضرات کے صبر وعزیمت نے دنیا میں گہرے نقوش اور نہ مٹنے والے آثار آنے والوں کے لیے چھوڑے ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے۔ وفی ذٰلک فلتینا فس المتنا فسون۔ط۔ نجد میں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب ؒ اور سعودی خاندان، ایران، افغانستان ، مصر اور شام میں جمال الدین افغانیؒ رحمتہ اللہ اور ان کے تلامذہ ہندوستان میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان اور تلامذہ، ان تمام مصلحین نے اپنے ماحول کے مطابق اپنے حلقوں میں کام کیا۔ اور اپنی مساعی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی ۔ محمد بن عبد اوہاب ؒ علمی اور سیاسی طور پر کامیاب ہوئے ۔ جمال الدین افغانیؒ اور ان کے تلامذہ ہندوستان میں حضرت مجدد الف ثانیؒ اورحضرت شاہ ولی اللہ ؒ اور ان کا خاندان اور تلامذہ ان تمام مصلحین نے اپنے ماحول کے مطابق اپنے حلقوں میں کام کیا۔ اور اپنی مساعی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی۔ محمد بن عبد الوہابؒ علمی اور سیاسی طور پرکامیاب ہوئے ۔ جمال الدین افغانیؒ نے ایسے قابل و مخلص دماغوں کو تربیت دی جن کی وجہ سے مصروشام علم و اصلاح کا گہوارہ قرار پایا۔ اور ان کے فیوض نے ذہنوں کی کا یا پلٹ دی۔ ان حضرات کی کوششوں نے یورپ کے مادی منصوبوں کے سامنے ایسی دیواریں کھڑی کر دیں جن کو عبور کرنا ایسی طاقتوں کے لیے آسان نہیں مصروشام کی آزادی اور دینی تحریکات میں ان مساعی کو بہت بڑا دخل ہے جن کا آغاز مجدد وقت شیخ جمال الدین افغانی ؒ اور سید عبدہؒ نے فرمایا اور اس کی تکمیل میں سید رشید رضا، علامہ مراغی سعدزاغلول اور امیر شکیب ارسلان ایسے بیدار مغزلوگوں نے شب دروز محنت فرمائی اور کافی حد تک ان کو کامیابی ہوئی۔
ہندوستان کی تحریک تجدید:ہندوستان کی تحریک احیاوتجدید جس کی ابتداء حضرت سید احمد سرہندی نے فرمائی اور اس کی تکمیل شاہ اسماعیل شہید ؒ اور ان کے رفقاء نے فرمائی۔ ابتدا میں علمی اور اصلاحی تھی۔ علماء سوء اور انگریز کے منحوس وفاق نے اسے مجبورًا سیاست میں دھکیل دیا سکھوں کی حماقت نے اتقیاء کی اس جماعت کو مجبور کردیا کہ وہ جنت کی آگ میں کودیں اور اپنی قیمتی زندگیاں حق کی راہ میں قربان کریں پھر گمراہ کن فتووں کی سیاہی نے ملت کے چہرے کو اس قدر بدنما کردیا تھا کہ اسے دھونے کے لیے شہادت کے خون کے علاوہ پانی کے تمام ذخیرے بیکار ہوچکے تھے۔ وہابیت کی تہمت مستعار نے ذہن ماؤف کردیے تھے، الحاد کا گردانِ پر اس قدر جم چکا تھا کہ اسے صاف کرنے کے لیےصرف شہداء کا خون ہی کاراآمد ہوسکتا تھا۔
چنانچہ مئی ۱۸۳۱ء کی صبح کو یہ مقدس جماعت انتہائی کوشش اور ممکن تیاری کے ساتھ بالا کوٹ کے میدان میں اتری اور دوپہر سے پہلے صدقات کے نہ مٹنے والے نشان دنیا کی پیشانی پر ثبت کرنے کے بعد ہمیشہ کی نیند سوگٕئی۔ ولاتقولو المن یقتل فی سبیل للہ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون ۔
تحریک کا مزاج: پیش نظر مسئلہ کے متعلق بحث ونظر سے پہلے ضروری ہے کہ اس تحریک کا مزاج سمجھ لیا جائے۔ حضرت مجدّد رحمۃ اللہ علیہ سے شاہ ولی اللہ کے ابناء کرام تک یہ تمام مصلحین عظام ظاہری اعمال میں عمومًا حنفی فقہ کے پابند تھے لیکن ذہنی طور پر تین مقاصد کی تکمیل ان کا مطمع نظرتھا۔
1۔تصوف کے غلو آمیز مزاج میں اعتدال
2۔ فقہی اور اعتقادی جمود کی اصلاح اور اشعریت اور ماتریدیت کیساتھ فقہ العراق نے تحقیق و استنباط کی راہ میں جو مشکلات پیدا کی تھیں انہیں دور کیا جائے اور نظر وفکر کی روانی میں جمود سکون سے جو رکاوٹ نمایاں ہوچکی تھی اسے یکسر اٹھا دیا جائے۔ قرآن وسنت اورا ٓئمہ سلف کے معیار پر نظروفکر کو آزادی بخشی جائے۔
3۔ بے عملی نے چند بدعات کو جوسنت کا نعم البدل تصور کرلیا تھا اور بہت بت پرست قوموں کے پڑوس اور مغل باشادہوں کی عیاشیوں نے ان بدعات کو نجات کا آخری سہارا قرار دے لیا تھا۔ اس ساری صورت حال کو بدل کر اس کی جگہ سیدھے سادت اسلام کو دیدی جائے۔ ترکتکم علی ملۃ بلیضاء لیلھا کنھارھا۔ میں آپ کو اس میں تفصیل میں نہیں لے جاؤں گا نہ ہی اپنی تائید میں ان کی تصانیف سے اقتباسات پیش کرکے آپ کا وقت ضائع کروں گا صرف چند امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مجدّدؒ نے مکتوبات میں بدعات کے خلاف کس قدر کڑی تنقید فرمائی ہے۔ بدعت کی حفاظت کے لیے حسنہ اور سیئہ کی تقسیم اہل بدعت کو قلعہ کا کام دے رہی تھی اور عز بن عبد السلام نے جب سے اس تقسیم کی نشاندہی کی تھی اس کے بعد سے ہندوستان میں حضرت مجددؒ ہی تھے جنہوں نے یہ قلعہ پاش پاش کرکے رکھ دیا۔
سجدہ تعظیم کے خلاف گوالیار کے قلعہ میں تین سال قید گوارا فرمائی۔ لیکن سجدہ تعظیم کی گندگی سے اپنی مقدس پیشانی کو آلودہ نہیں فرمائی ۔ فقہی مسائل میں حضرت کے کچھ اختیارات تھے۔ دوسرے علماء کی مخالفت کے باوجود حضرت مجدد اپنی الگ راہ پر قائم رہے حنفی مسلک کے ساتھ وابستگی کے باوجودمتاخرین اور متقدمین کی راہ پر رجماً بالغیب چلنے سے حضرت مجدّدؒ نے انکار فرمایا۔
اس کی زندہ شہادت حضرت کے مایہ ناز شاگرد مرزامظہر جان جاناں موجود ہیں جنہوں نے فاتحہ خلف الامام، رفع الیدین عند الرکوع ، وضوع الیدین علی الصدر ایسے مشہور مسائل میں فقہائے محدثین کی راہ اختیار فرمائی ۔ اور فقہ العراق کے ساتھ کلی تعاون سے انکار فرما دیا
(ابجدالعلوم ،ص900 جلد ۳، محبوب العارفین ص۷٦)
قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی ؒ نے مرزا مظہر جان جاناںؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ ؒ سے استفادہ فرمایا ان کی تصانیف ارشاد الطالبین اور تفسیر مظہر شاہد ہیں کہ حنفی ہونے کے باوجود بدعات اور عبّاد قبور کے خلاف ان کا لہجہ کس قدر تلخ ہے اور بدعی رسوم سے انہیں کس قدر نفرت! شاہ ولی اللہ ؒ نے حجۃ اللہ ،البلاغ المبین ،مصفیٰ اور مسوی، انصاف ، عقد الجید اور تحفتہ الموحدین فقہی جمود، بدعات اور مشرکانہ رسوم کے خلاف ایسی حکیمانہ روش اختیار فرمائی جس سے حقیقت بہت حد تک وضح ہوگئی ۔ اصول فقہ کے بعض مسلمات پر ایسی میٹھی تنقید فرمائی جس سے ذہین طبائع کو جرأت پیدا ہو۔
ازالۃ الخفاء میں بدعت تشیع کو اس قدر عریاں فرمایا کہ ذہین اور دانش مند طبائع کو محبت اہل بیت کے عنوان سے دھوکا دینے کی کوئی گنجائش نہ رہی۔
ان مختصر ارشادات سے اس تحریک اصلاح اور اقامت دین کا مزاج آپ کو سمجھنا مشکل نہیں۔
دیوبندی اور اہل حدیث:یہ دونوں مکتب ،فکری طور پر اسی تحریک کے ترجمان ہیں یا کم از کم مدعی ہیں کہ ہم اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہیں،شاہ صاحب کے مندرجہ ذیل گرامی قدر ارشاد سے یہ حقیقت اور بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس تحریک کا مزاج کیا ہے:"وصیت اول ایں فقیر چنگ زون است بکتاب وسنت ودراعتقاد عملی پیوستہ بتد بیر ہر دومشغول شدن وہر روز حصہ ازہر دوخواندن اگر طاقت خواندان نہ وارد
ترجمہ: ورقے ازہر دو شنید ن ودرعقائد مذہب قدماء اہل سنت اختیار کروںو از تفصیل و تفیش آنچہ سلف تفتیش نہ کروہ اند اعراض نمودن وتبشکیکات معقولیان خام التفات نہ کرووں۔ ودر فروع پیروی علمائے محدثین کو جامع باشندمیاں فقہ وحدیث کردن ودائما تفریعات فقیہ رابر کتاب و سنت عرض نمودن آنچہ موافق باشد درچیز قبول آدردن والا کالائے بدیریش خاوند دادن۔ امت راہیچ وقت از عرض مجتہدات برکتاب وسنت استغناء حاصل نیست وسخن متقشفہ فقہاء کہ تقلید عالے رادستاریز ساختہ تبتع سنت راترک کردہ اندنہ شنیدن وبدیشاں التفات نہ کردن وقربت خداجستن بددری ایناں"الخ(تفہیمات جلد۲،ص ۲۴۰)
ترجمہ: فقیر کی پہلی وصیت یہ ہے کہ اعتقاد اور عمل میں کتاب وسنت کی پابندی کی جائے اور ان دونوں سے شغل رکھے اور پڑھے اور اگر نہ پڑھ سکے تو ایک ورق کا ترجمہ سنے۔ عقائد میں متقدمین اہل سنت کی پیروی کرے سلف نے جن چیزوں کی تفتیش نہیں کی ان کی تفتیش نہ کرے اور خام کا رفلاسفہ کی پروانہ کرے۔ فروع میں آئمہ حدیث کی پیروی کرے جن کی فقہ اور حدیث دونوں پر نظر ہو۔ فقہ کے فروعی مسائل کوہمیشہ کتاب و سنت پر پیش کرتا رہے۔ جو موافق ہو ان کو قبول کرے باقی کو رد کردے۔ امت کو اپنے اجتہادی مسائل کتاب و سنت پر پیش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ متقشف فقہا کی بات قطعاًنہ سنےجن لوگوں نے اہل علم کی تقلید کرکے کتاب و سنت کو ترک کردیا ہے ان کی طرف نظر اٹھا کرنہ دیکھیے ان سے دور رہ کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے۔
اور دوسر ء مقام پر فرماتے ہیں۔
"نسبت پائے صوفیہ غلیمت کبریٰ است ورسوم ایشاں بہ ہیچ نمے ارزدایں بربسیار ے گراں کوابد بودا مامرا کارلے فرمودہ اندوبرحسب آں باید گفت برگفتہ زید دعمر تعرض نمے باید کرو۔" (ص ۲۴۲ جلد۲ تفہیمات)
صوفیوں سے نسبت غنیبت ہے لیکن ان کی رسوم بلکل بے کارہیں یہ بات اکثر لوگوں کو ناگوار ہوگی۔ مگر مجھے جو فرمایا گیا ہے وہی کہناہے زید عمر کی باتوں سے کوئی تعلق نہیں"۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں۔
نحن لانرضی بھٰؤ لاء الذین یبایعون الناس لیشتروا بہ ثمنًا قلیلًا او لبشر بوا اغراض الدنیا بتعلم علم اذ لا یعصل الدنیا الا بالتشبہ باھل الھدایۃ ولا بالذین یدعون الی انفسھم ویامرون بعب انفسھم ھٰؤلاء قطاع الطریق دجلون کذابون ماتونون فتانون ایاکم وایاکم ولا تتبعو الامن دعا الی کتاب اللہ وسنۃ رسولہ" الخ
(تفہیمات جلد ١۔ص۲١۴)
مجھے قطعًا یہ لوگ پسند نہیں جو دنیا کمانے کے لے بیعت کرتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ مجھے پسند ہیں جو دنیوی اعراض کے لیے علم حاصل کریں۔ کیونکہ دنیا حاصل کرنے کے لئے نیکوں کے ساتھ تشبیہ ضروری سمجھتے ہیں نہ ہی وہ لوگ مجھے پسند ہیں جو لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیں یہ لوگ ڈاکو اور دجال ہیں خود فتنے ہی میں مبتلا ہیں اور لوگوں کو اس میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، صرف ان لوگوں کا اتباع کرناچا ہیئے جوکتاب و سنت کی طرف دعوت دیں" ظاہر ہے کہ شاہ صاحب ریا کارانہ تصوف اور دنیا کمانے کے لیے بیعت کے سلسلوں کو قطعًا پسند نہ فرماتے بلکہ ایسےلوگوں کو دجال ڈاکو اور فتنہ انگیز سمجھتے ہیں آج کے خانقاہی نظام اور پیر پرستی کے اداروں کی شاہ صاحب کی نظریں کیا آبرو ہوسکتی ہے وہ سرے سے پیر پرستی کی دعوت ہی کوناپسند فرماتے ہیں۔
مروجہ فقہی مسالک اور ان پر جمود کے متعلق شاہ صاحب کی مزید وضاحت :
رب انسان منکم یبلغہ حدیث من احادیث نبیکم فلا یعمل بہ ویقول انما عملی علی مذھب فلان لا علی الحدیث ثم احتال بان فھم الحدیث والقضاء بہ من شان الکمل المھرۃ وان ائمۃ لم یکونوا ممن نخفی علیھم ھذٰا الحدیث فما ترکوہ الالوجہ ظھر لھم فی الدین من نسخ اومرجو حیۃ۔الخ
(تفہیما ت ص۲١۴ -۲١۵ جلد١)
بہت سے لوگوں کو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث معلوم ہو جاتی ہے تو وہ اس پر عمل نہیں کرتے۔ وہ یہ حیلہ کرتے ہیں کہ فلاں شخص کے مذہب پر میرا عمل ہے حدیث سمجھنا معمولی آدمی کاکام نہیں امام اس حدیث سے بے خبر نہیں تھے۔ یہ حدیث منسوخ ہوگئی یا مرجوح یہ قطعًا درست نہیں اگر پیغمبر پر ایمان ہے تو اس کی اتباع کرنا چاہیئے۔ مذہب اس کے مخالف ہو یا موافق ، خدا تعالی کا منشایہ ہے کہ کتاب وسنت کے ساتھ تعلق رکھا جائے۔
فقہی فروع میں مسلکی جمود شاہ صاحب کو سخت ناپسند ہے اسی طرح وہ ظاہریت محص(امام داود ظاہری کا مسلک) کو بھی نا پسند فرماتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اگر حدیث کی صحت آئمہ حدیث کی شہادت سے ثابت ہوا اور اہل علم نے اس پر عمل بھی کیا ہوا اور اس پر صرف اس لیے عمل نہ کیا جائے کہ فلاں امام نے اس پر عمل نہیں کیا یہ ضلال بعید ہے(ص۲۰۹ جلد ۱ ص۲١١ جلد١)
اس قسم کی تصریحات شاہ صاحب کی باقی تصنیفات میں بھی بکثرت موجود ہیں میں نے یہ طویل سمع خراشی اس لیے کی ہے کہ اس پاکیزہ تحریک کامزاج معلوم ہوجائے تاکہ اس کے دوصدی کے اثرات کا صحیح اندازہ کیا جاسکے۔
ان مقاصد کے خلاف ان بزرگوں کی تصانیف میں اگر کوئی حوالہ ملے تو اس کا ایسا مطلب نہ لیا جائے جو مقاصد تحریک کے خلاف ہوبلکہ وقتی مصالح پر محمول کیا جائے کیونکہ ان بزرگوں نے جن سنگلاخ حالات میں کام کیا ہے ان کے مصالح اور ان کے مقتضیات بدلتے رہتے ہیں، جن مشکلات میں ان حضرات کو کام کرنا پڑا ان مشکلات کا ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ شکر اللہ ماعلیھم
حَیٰوةَ النَّبِیّ صلی اللہ علیہ وسلم فِی قَبرِہ لَیسَت بِدُ نیَوِیَّة
کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
مصنف: شیخالحدیث مولانا محمد اسماعیل السلفی رحمۃ اللہ علیہ
مصنف: شیخالحدیث مولانا محمد اسماعیل السلفی رحمۃ اللہ علیہ
الحمدللہ کبیرا واشھد ان لا الہ الاللہ وحدہ لاشریک لاواشھد ان محمد عبدہ ورسولہ۔ ارسلہ بالحق بشیرًا ونذیرًا وصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تسلیماً کثیرًا کثیرا
امّابعد۔
کچھ عرصہ ہوا ایک موحد عالم نے ملتان میں توحید کے موضوع پر تقریر فرمائی جو عوا م اور خواص میں پسند کی گئی، مگر ان کے حلقے کے بعض حضرات نے عقیدہ توحید میں استواری کے باوجود اس تقریر کے بعض حصوں پر اعتراض کیا اور اسے ناپسندکیا اور کوشش کی گئی کہ تقریر کے اثرات کو کم یازائل کیا جائے۔
مقرر نے توحید کے موضوع پر بیان فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کا ذکر فرمایا اور جو لوگ آپﷺ کو اپنی طرح زندہ سمجھتے ہیں ان کے خیالات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی "دنیوی زندگی" ہو تو صحابہؓ نے آپ کو زندہ سمجھتے ہوئے کیسے دفن کیا۔ کیونکہ ناممکن ہے کہ صحابہ ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرح زندہ سمجھیں اور زمین میں دفن کیے رکھیں۔(یہ مفہوم ہے ممکن ہے کہ الفاظ میں فرق ہو)
چونکہ یہ مخالفت بااثر اہل علم حضرات کی طرف سے تھی۔ اور یہ حضرات بھی دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اس کا اثرپاکستان میں دوسرے مقامات پر بھی ہوا اور کوشش ہوئی کہ اس قسم کے صاف گو مبلغین کا مقاطعہ کیا جائے۔ بلکہ اس کا اثر ہندوستان بھی پہنچا ۔ چنانچہ ماہنامہ"دارلعلوم" دیوبند میں ایک مضمون مولانا زاہد الحسینی کے قلم سے اور ایک تعارفی نوٹ مولانا سیّد محمد انظر صاحب کے قلم سے شائع ہوا۔ مگر دونوں مضامین میں کوئی جدت نہیں۔ حیات انبیاء کے متعلق وہی بریلوی نظر ہے جسے پھیلا دیا گیا ہے۔ دلائل کا انداز بھی ہو عموماً بریلوی حضرات کی تحریرات میں ہوتا ہے دہرا دیا گیا ہے اس قدرتی فرق کے ساتھ کہ نفس مسئلہ کی تفصیل ہے ذاتیات میں الجھنے کی کوشش نہیں کی گئی اہل علم سے یہی امید ہونی چاہیئے دلائل میں کوئی خوبی ہویا نہ ہو لیکن مضمون کے ڈنڈے پاکستان سے ملتے ہیں پھر اس کی اشاعت دیوبندی مکتب فکر کی مرکزی درس گاہ کے مجلہ میں ہوئی ہے۔
مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے دانش مندوں نے مقامی مصالح کی بنا پر مرکزی اکابر کو استعمال فرمایا ہے اور وہ حضرات بلا تحقیق وتبیین استعمال ہوگئے ہیں۔ اس اختلاف سے بریلوی مکتب فکر جو فائدہ اٹھا رہا ہے اس کی اصلاح کے لیے مسئلہ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ راقم الحروف مولانا محمد انظرا اور مولانا زاہد الحسینی سے ذاتی طور پر نا آشنا ہے اس لیے اس جسارت پر معافی چاہتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بحث مسئلہ کی حد سے تجاوز نہیں کرے گی۔ وماتوفیقی الاباللہ۔
پاکستان کی تشکیل کے بعد بریلویت نے جس طرح انگڑائیاں لینا شروع کی ہیں۔ اور قادیانیت اور رفض کو جس طرح فروغ ہو رہا ہے۔ اس کے اثرات اور اہل توحید مبلغین کی مشکلات میں جس قدر اضافہ ہورہا ہے اور ان میں دن بدن ترقی کی جو رفتار ہے اسے شائد ہندوستان کے اکابر نہ سمجھ سکیں۔ پاکستان کے دیوبندی اکابرین جن مصالح اور مقتضیات وقت میں روز بروز گرفتار ہورہے ہیں۔"پیری مریدی" کے جراثیم جس عجلت سے یہاں اثر انداز ہو رہے ہیں اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس پورے ماحول سے آشنا ہیں۔ احسان ہوتا اگر دور کے حضرات اس میں مداخلت نہ فرماتے ہمیں معلوم ہے کہ حکومت پاکستان کے مزاج اور یہاں کے اہل ہوا کے مزاج میں جس قدر توافق کارفرما ہے اس کا علاج مصلحت اندیشوں سے نہیں ہوگا اور نہ ہی مدارس کی مسندیں اس عوامی فتنہ کا مداوا ہو سکیں گی۔ یہ طویل سفر طے ہونے تک ممکن ہے مریض زندگی کی آخری گھڑیاں شمار کرنے لگے۔
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
اس مسئلے کو جو صورت دی جارہی ہے چونکہ اس سے بہت سی شرکیہ بدعات کے دروزے کھل جاتے ہیں اس لیے نامناسب ہوگا اگر اصلاحی تحریک پر اجمالی نظر ڈال لی جائے جو ان بدعات کا قلع قمع کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی کیونکہ اس سے مسئلہ کا پس منظر سمجھنے میں مددمل سکے گی گو اس طرح قدرے طوالت ضرور ہوگئی ہے۔
اصلاحی تحریکات کا مدّوجزر:گیارہویں صدی ہجری کے آغاز سے تیرہویں صدی تک طاغوتی طاقتیں گوکافی مضبوط تھیں مگر خدا تعالیٰ کی رحمت کی تابانیاں بھی نصف النسار پر ہیں۔ اس ثنا میں اللہ تعالیٰ نے مصلحین کی ایک باوقار جماعت کو حوصلہ دیا اور کام کا موقع مہیا فرمایا مصلحین کے پرشکوہ اور فعال گروہ اطراف عالم میں نمودار ہوئے فتح وشکست کے اثرات اور نتائج گو مختلف ہیں لیکن مقام شکر ہے کہ ان حضرات کے صبر وعزیمت نے دنیا میں گہرے نقوش اور نہ مٹنے والے آثار آنے والوں کے لیے چھوڑے ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے۔ وفی ذٰلک فلتینا فس المتنا فسون۔ط۔ نجد میں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب ؒ اور سعودی خاندان، ایران، افغانستان ، مصر اور شام میں جمال الدین افغانیؒ رحمتہ اللہ اور ان کے تلامذہ ہندوستان میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان اور تلامذہ، ان تمام مصلحین نے اپنے ماحول کے مطابق اپنے حلقوں میں کام کیا۔ اور اپنی مساعی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی ۔ محمد بن عبد اوہاب ؒ علمی اور سیاسی طور پر کامیاب ہوئے ۔ جمال الدین افغانیؒ اور ان کے تلامذہ ہندوستان میں حضرت مجدد الف ثانیؒ اورحضرت شاہ ولی اللہ ؒ اور ان کا خاندان اور تلامذہ ان تمام مصلحین نے اپنے ماحول کے مطابق اپنے حلقوں میں کام کیا۔ اور اپنی مساعی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی۔ محمد بن عبد الوہابؒ علمی اور سیاسی طور پرکامیاب ہوئے ۔ جمال الدین افغانیؒ نے ایسے قابل و مخلص دماغوں کو تربیت دی جن کی وجہ سے مصروشام علم و اصلاح کا گہوارہ قرار پایا۔ اور ان کے فیوض نے ذہنوں کی کا یا پلٹ دی۔ ان حضرات کی کوششوں نے یورپ کے مادی منصوبوں کے سامنے ایسی دیواریں کھڑی کر دیں جن کو عبور کرنا ایسی طاقتوں کے لیے آسان نہیں مصروشام کی آزادی اور دینی تحریکات میں ان مساعی کو بہت بڑا دخل ہے جن کا آغاز مجدد وقت شیخ جمال الدین افغانی ؒ اور سید عبدہؒ نے فرمایا اور اس کی تکمیل میں سید رشید رضا، علامہ مراغی سعدزاغلول اور امیر شکیب ارسلان ایسے بیدار مغزلوگوں نے شب دروز محنت فرمائی اور کافی حد تک ان کو کامیابی ہوئی۔
ہندوستان کی تحریک تجدید:ہندوستان کی تحریک احیاوتجدید جس کی ابتداء حضرت سید احمد سرہندی نے فرمائی اور اس کی تکمیل شاہ اسماعیل شہید ؒ اور ان کے رفقاء نے فرمائی۔ ابتدا میں علمی اور اصلاحی تھی۔ علماء سوء اور انگریز کے منحوس وفاق نے اسے مجبورًا سیاست میں دھکیل دیا سکھوں کی حماقت نے اتقیاء کی اس جماعت کو مجبور کردیا کہ وہ جنت کی آگ میں کودیں اور اپنی قیمتی زندگیاں حق کی راہ میں قربان کریں پھر گمراہ کن فتووں کی سیاہی نے ملت کے چہرے کو اس قدر بدنما کردیا تھا کہ اسے دھونے کے لیے شہادت کے خون کے علاوہ پانی کے تمام ذخیرے بیکار ہوچکے تھے۔ وہابیت کی تہمت مستعار نے ذہن ماؤف کردیے تھے، الحاد کا گردانِ پر اس قدر جم چکا تھا کہ اسے صاف کرنے کے لیےصرف شہداء کا خون ہی کاراآمد ہوسکتا تھا۔
چنانچہ مئی ۱۸۳۱ء کی صبح کو یہ مقدس جماعت انتہائی کوشش اور ممکن تیاری کے ساتھ بالا کوٹ کے میدان میں اتری اور دوپہر سے پہلے صدقات کے نہ مٹنے والے نشان دنیا کی پیشانی پر ثبت کرنے کے بعد ہمیشہ کی نیند سوگٕئی۔ ولاتقولو المن یقتل فی سبیل للہ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون ۔
تحریک کا مزاج: پیش نظر مسئلہ کے متعلق بحث ونظر سے پہلے ضروری ہے کہ اس تحریک کا مزاج سمجھ لیا جائے۔ حضرت مجدّد رحمۃ اللہ علیہ سے شاہ ولی اللہ کے ابناء کرام تک یہ تمام مصلحین عظام ظاہری اعمال میں عمومًا حنفی فقہ کے پابند تھے لیکن ذہنی طور پر تین مقاصد کی تکمیل ان کا مطمع نظرتھا۔
1۔تصوف کے غلو آمیز مزاج میں اعتدال
2۔ فقہی اور اعتقادی جمود کی اصلاح اور اشعریت اور ماتریدیت کیساتھ فقہ العراق نے تحقیق و استنباط کی راہ میں جو مشکلات پیدا کی تھیں انہیں دور کیا جائے اور نظر وفکر کی روانی میں جمود سکون سے جو رکاوٹ نمایاں ہوچکی تھی اسے یکسر اٹھا دیا جائے۔ قرآن وسنت اورا ٓئمہ سلف کے معیار پر نظروفکر کو آزادی بخشی جائے۔
3۔ بے عملی نے چند بدعات کو جوسنت کا نعم البدل تصور کرلیا تھا اور بہت بت پرست قوموں کے پڑوس اور مغل باشادہوں کی عیاشیوں نے ان بدعات کو نجات کا آخری سہارا قرار دے لیا تھا۔ اس ساری صورت حال کو بدل کر اس کی جگہ سیدھے سادت اسلام کو دیدی جائے۔ ترکتکم علی ملۃ بلیضاء لیلھا کنھارھا۔ میں آپ کو اس میں تفصیل میں نہیں لے جاؤں گا نہ ہی اپنی تائید میں ان کی تصانیف سے اقتباسات پیش کرکے آپ کا وقت ضائع کروں گا صرف چند امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مجدّدؒ نے مکتوبات میں بدعات کے خلاف کس قدر کڑی تنقید فرمائی ہے۔ بدعت کی حفاظت کے لیے حسنہ اور سیئہ کی تقسیم اہل بدعت کو قلعہ کا کام دے رہی تھی اور عز بن عبد السلام نے جب سے اس تقسیم کی نشاندہی کی تھی اس کے بعد سے ہندوستان میں حضرت مجددؒ ہی تھے جنہوں نے یہ قلعہ پاش پاش کرکے رکھ دیا۔
سجدہ تعظیم کے خلاف گوالیار کے قلعہ میں تین سال قید گوارا فرمائی۔ لیکن سجدہ تعظیم کی گندگی سے اپنی مقدس پیشانی کو آلودہ نہیں فرمائی ۔ فقہی مسائل میں حضرت کے کچھ اختیارات تھے۔ دوسرے علماء کی مخالفت کے باوجود حضرت مجدد اپنی الگ راہ پر قائم رہے حنفی مسلک کے ساتھ وابستگی کے باوجودمتاخرین اور متقدمین کی راہ پر رجماً بالغیب چلنے سے حضرت مجدّدؒ نے انکار فرمایا۔
اس کی زندہ شہادت حضرت کے مایہ ناز شاگرد مرزامظہر جان جاناں موجود ہیں جنہوں نے فاتحہ خلف الامام، رفع الیدین عند الرکوع ، وضوع الیدین علی الصدر ایسے مشہور مسائل میں فقہائے محدثین کی راہ اختیار فرمائی ۔ اور فقہ العراق کے ساتھ کلی تعاون سے انکار فرما دیا
(ابجدالعلوم ،ص900 جلد ۳، محبوب العارفین ص۷٦)
قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی ؒ نے مرزا مظہر جان جاناںؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ ؒ سے استفادہ فرمایا ان کی تصانیف ارشاد الطالبین اور تفسیر مظہر شاہد ہیں کہ حنفی ہونے کے باوجود بدعات اور عبّاد قبور کے خلاف ان کا لہجہ کس قدر تلخ ہے اور بدعی رسوم سے انہیں کس قدر نفرت! شاہ ولی اللہ ؒ نے حجۃ اللہ ،البلاغ المبین ،مصفیٰ اور مسوی، انصاف ، عقد الجید اور تحفتہ الموحدین فقہی جمود، بدعات اور مشرکانہ رسوم کے خلاف ایسی حکیمانہ روش اختیار فرمائی جس سے حقیقت بہت حد تک وضح ہوگئی ۔ اصول فقہ کے بعض مسلمات پر ایسی میٹھی تنقید فرمائی جس سے ذہین طبائع کو جرأت پیدا ہو۔
ازالۃ الخفاء میں بدعت تشیع کو اس قدر عریاں فرمایا کہ ذہین اور دانش مند طبائع کو محبت اہل بیت کے عنوان سے دھوکا دینے کی کوئی گنجائش نہ رہی۔
ان مختصر ارشادات سے اس تحریک اصلاح اور اقامت دین کا مزاج آپ کو سمجھنا مشکل نہیں۔
دیوبندی اور اہل حدیث:یہ دونوں مکتب ،فکری طور پر اسی تحریک کے ترجمان ہیں یا کم از کم مدعی ہیں کہ ہم اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہیں،شاہ صاحب کے مندرجہ ذیل گرامی قدر ارشاد سے یہ حقیقت اور بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس تحریک کا مزاج کیا ہے:"وصیت اول ایں فقیر چنگ زون است بکتاب وسنت ودراعتقاد عملی پیوستہ بتد بیر ہر دومشغول شدن وہر روز حصہ ازہر دوخواندن اگر طاقت خواندان نہ وارد
ترجمہ: ورقے ازہر دو شنید ن ودرعقائد مذہب قدماء اہل سنت اختیار کروںو از تفصیل و تفیش آنچہ سلف تفتیش نہ کروہ اند اعراض نمودن وتبشکیکات معقولیان خام التفات نہ کرووں۔ ودر فروع پیروی علمائے محدثین کو جامع باشندمیاں فقہ وحدیث کردن ودائما تفریعات فقیہ رابر کتاب و سنت عرض نمودن آنچہ موافق باشد درچیز قبول آدردن والا کالائے بدیریش خاوند دادن۔ امت راہیچ وقت از عرض مجتہدات برکتاب وسنت استغناء حاصل نیست وسخن متقشفہ فقہاء کہ تقلید عالے رادستاریز ساختہ تبتع سنت راترک کردہ اندنہ شنیدن وبدیشاں التفات نہ کردن وقربت خداجستن بددری ایناں"الخ(تفہیمات جلد۲،ص ۲۴۰)
ترجمہ: فقیر کی پہلی وصیت یہ ہے کہ اعتقاد اور عمل میں کتاب وسنت کی پابندی کی جائے اور ان دونوں سے شغل رکھے اور پڑھے اور اگر نہ پڑھ سکے تو ایک ورق کا ترجمہ سنے۔ عقائد میں متقدمین اہل سنت کی پیروی کرے سلف نے جن چیزوں کی تفتیش نہیں کی ان کی تفتیش نہ کرے اور خام کا رفلاسفہ کی پروانہ کرے۔ فروع میں آئمہ حدیث کی پیروی کرے جن کی فقہ اور حدیث دونوں پر نظر ہو۔ فقہ کے فروعی مسائل کوہمیشہ کتاب و سنت پر پیش کرتا رہے۔ جو موافق ہو ان کو قبول کرے باقی کو رد کردے۔ امت کو اپنے اجتہادی مسائل کتاب و سنت پر پیش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ متقشف فقہا کی بات قطعاًنہ سنےجن لوگوں نے اہل علم کی تقلید کرکے کتاب و سنت کو ترک کردیا ہے ان کی طرف نظر اٹھا کرنہ دیکھیے ان سے دور رہ کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے۔
اور دوسر ء مقام پر فرماتے ہیں۔
"نسبت پائے صوفیہ غلیمت کبریٰ است ورسوم ایشاں بہ ہیچ نمے ارزدایں بربسیار ے گراں کوابد بودا مامرا کارلے فرمودہ اندوبرحسب آں باید گفت برگفتہ زید دعمر تعرض نمے باید کرو۔" (ص ۲۴۲ جلد۲ تفہیمات)
صوفیوں سے نسبت غنیبت ہے لیکن ان کی رسوم بلکل بے کارہیں یہ بات اکثر لوگوں کو ناگوار ہوگی۔ مگر مجھے جو فرمایا گیا ہے وہی کہناہے زید عمر کی باتوں سے کوئی تعلق نہیں"۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں۔
نحن لانرضی بھٰؤ لاء الذین یبایعون الناس لیشتروا بہ ثمنًا قلیلًا او لبشر بوا اغراض الدنیا بتعلم علم اذ لا یعصل الدنیا الا بالتشبہ باھل الھدایۃ ولا بالذین یدعون الی انفسھم ویامرون بعب انفسھم ھٰؤلاء قطاع الطریق دجلون کذابون ماتونون فتانون ایاکم وایاکم ولا تتبعو الامن دعا الی کتاب اللہ وسنۃ رسولہ" الخ
(تفہیمات جلد ١۔ص۲١۴)
مجھے قطعًا یہ لوگ پسند نہیں جو دنیا کمانے کے لے بیعت کرتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ مجھے پسند ہیں جو دنیوی اعراض کے لیے علم حاصل کریں۔ کیونکہ دنیا حاصل کرنے کے لئے نیکوں کے ساتھ تشبیہ ضروری سمجھتے ہیں نہ ہی وہ لوگ مجھے پسند ہیں جو لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیں یہ لوگ ڈاکو اور دجال ہیں خود فتنے ہی میں مبتلا ہیں اور لوگوں کو اس میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، صرف ان لوگوں کا اتباع کرناچا ہیئے جوکتاب و سنت کی طرف دعوت دیں" ظاہر ہے کہ شاہ صاحب ریا کارانہ تصوف اور دنیا کمانے کے لیے بیعت کے سلسلوں کو قطعًا پسند نہ فرماتے بلکہ ایسےلوگوں کو دجال ڈاکو اور فتنہ انگیز سمجھتے ہیں آج کے خانقاہی نظام اور پیر پرستی کے اداروں کی شاہ صاحب کی نظریں کیا آبرو ہوسکتی ہے وہ سرے سے پیر پرستی کی دعوت ہی کوناپسند فرماتے ہیں۔
مروجہ فقہی مسالک اور ان پر جمود کے متعلق شاہ صاحب کی مزید وضاحت :
رب انسان منکم یبلغہ حدیث من احادیث نبیکم فلا یعمل بہ ویقول انما عملی علی مذھب فلان لا علی الحدیث ثم احتال بان فھم الحدیث والقضاء بہ من شان الکمل المھرۃ وان ائمۃ لم یکونوا ممن نخفی علیھم ھذٰا الحدیث فما ترکوہ الالوجہ ظھر لھم فی الدین من نسخ اومرجو حیۃ۔الخ
(تفہیما ت ص۲١۴ -۲١۵ جلد١)
بہت سے لوگوں کو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث معلوم ہو جاتی ہے تو وہ اس پر عمل نہیں کرتے۔ وہ یہ حیلہ کرتے ہیں کہ فلاں شخص کے مذہب پر میرا عمل ہے حدیث سمجھنا معمولی آدمی کاکام نہیں امام اس حدیث سے بے خبر نہیں تھے۔ یہ حدیث منسوخ ہوگئی یا مرجوح یہ قطعًا درست نہیں اگر پیغمبر پر ایمان ہے تو اس کی اتباع کرنا چاہیئے۔ مذہب اس کے مخالف ہو یا موافق ، خدا تعالی کا منشایہ ہے کہ کتاب وسنت کے ساتھ تعلق رکھا جائے۔
فقہی فروع میں مسلکی جمود شاہ صاحب کو سخت ناپسند ہے اسی طرح وہ ظاہریت محص(امام داود ظاہری کا مسلک) کو بھی نا پسند فرماتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اگر حدیث کی صحت آئمہ حدیث کی شہادت سے ثابت ہوا اور اہل علم نے اس پر عمل بھی کیا ہوا اور اس پر صرف اس لیے عمل نہ کیا جائے کہ فلاں امام نے اس پر عمل نہیں کیا یہ ضلال بعید ہے(ص۲۰۹ جلد ۱ ص۲١١ جلد١)
اس قسم کی تصریحات شاہ صاحب کی باقی تصنیفات میں بھی بکثرت موجود ہیں میں نے یہ طویل سمع خراشی اس لیے کی ہے کہ اس پاکیزہ تحریک کامزاج معلوم ہوجائے تاکہ اس کے دوصدی کے اثرات کا صحیح اندازہ کیا جاسکے۔
ان مقاصد کے خلاف ان بزرگوں کی تصانیف میں اگر کوئی حوالہ ملے تو اس کا ایسا مطلب نہ لیا جائے جو مقاصد تحریک کے خلاف ہوبلکہ وقتی مصالح پر محمول کیا جائے کیونکہ ان بزرگوں نے جن سنگلاخ حالات میں کام کیا ہے ان کے مصالح اور ان کے مقتضیات بدلتے رہتے ہیں، جن مشکلات میں ان حضرات کو کام کرنا پڑا ان مشکلات کا ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ شکر اللہ ماعلیھم