مسلم حکمران ہو تو عوام کی ذمہ داریاں کیاہوں گی؟
مسلم حکمران ہو تو عوام کی ذمہ داریاں کیاہوں گی؟
ایسے حکمران کی موجودگی میں عوام کی ذمہ داریاں مختصراً یہ ہیں :
سننا اطاعت کرنا مگر معصیت میں نہیں ۔صبر کرنا اگرچہ عوام کے کچھ حقوق روک لے ۔اس کے لیے دعا کرنا ۔اس کی امارت کے تحت جہاد کرنا ۔زکاۃ اس کو دینا ۔اور شرعی آداب کے ساتھ اس کی خیر خواہی ونصیحت کرنا۔
۱۔پہلی ذمہ داری: سننا اور اطاعت کرنا مگر معصیت میں نہ ہو ۔امیر کی اطاعت کرنا عبادت ہے جس کا اجر اللہ دیتا ہے اس لیے کہ ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے ۔امیر کی اطاعت مسلمانوں کے اتحاد کا سبب ہے ان کی اطاعت سے لوگوں کے باہمی اختلافات واختلاف رائے ختم ہوجاتے ہیں جو اگر برقرار رہیں تو باہمی انتشار کا سبب بنتے ہیں جس کانتیجہ مسلمانوں کی کمزوری ہے ۔اسی لیے شریعت نے مسلمانوں کے اختلافات وتنازعات ختم کرنے کی نیت سے ایک امام کا تقرر مشروع قراردیا ہے اور سننے واطاعت دونوں کا بیک وقت حکم دیا ہے اللہ نے اپنے مومن بندوںکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاہے :
وَاتَّقُوا اﷲَ وَاسْمَعُوْا وَ اﷲُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(مائدہ:۱۰۸)
اللہ سے ڈرتے رہو سنو اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
مطلب یہ ہے کہ جو کہا جاتا ہے وہ سنو جو تمہیں کرنے کوکہا جائے وہ کرو اللہ کے حکم کی اتباع کرو ۔اللہ کا فرمان ہے:
وَ اسْمَعُوْا وَ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(بقرہ:۱۰۴)
سنو اورکافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
یعنی جو کچھ کہاجارہا ہے اسے سنو اورکتاب اللہ میں سے جو کچھ تمہیں بتایا جائے اسے یاد رکھو اور سمجھو ۔سننے کا حکم دینے کا مطلب ہے اطاعت کرنا قبول کرنا صرف کانوں سے سننا نہیں ہے جیساکہ سمع اللہ لمن حمدہ ہے کہ اللہ نے حمد قبول کرلی ۔کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول ﷺہمارے پاس آئے تو نو تھے ۔پانچ تھے چار تھے فرمایاسنو کیا تم نے سن لیا میرے بعد امیر ہوں گے جو ان کے پاس گیا ان کے جھوٹ کو سچ کہا ان کے ظلم میں ان کا ساتھ دیا اس کا مجھ سے میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی وہ حوض کوثر پر آسکے گا او رجو ان کے پاس نہیں گیا ان کے ظلم پر ان کی مدد نہیں کی ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کی اس کا مجھ سے اور میرا اس سے تعلق ہے وہ حوض کوثر پر آئے گا۔(احمد ۔ترمذی)
ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول ﷺنے فرمایا :لوگو سنو ،سمجھو اور جان لوکہ اللہ کے کچھ بندے جو انبیاء نہیں ہیں نہ ہی شہداء ہیں مگر انبیاء وشہداء ان کے مقام ومرتبے اوراللہ سے ان کی قربت کی وجہ سے ان رشک کریں گے ۔(احمد۔دارمی)
سابقہ آیات واحادیث سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ سننا دوقسم کا ہے اورسمجھنا اور ہدایت بھی دو قسم کی ہے اس تقسیم کے لیے دلائل بھی ہیں مثلاً اللہ نے کافروں کے لیے ایک قسم کا سننا اور سمجھنا اور ہدایت ثابت کیا ہے اور ان سے ایک اور قسم کے سننے ،سمجھنے اور ہدایت کی نفی کی ہے ،پہلی قسم سے مراد ہے ان پر حجۃ قائم کرنا یعنی حجۃ کو سمجھنا صحیح طریقہ سے ۔جبکہ دوسری قسم جس کی نفی کی گئی ہے سے مراد وہ سننا ،سمجھنا اور ہدایت ہے جومومنوں کو حاصل ہے یعنی حجۃ قبول کرنا اس پر ایمان لانا اس سے فائدہ لینا اس کی تفصیل یوں بیان کی جاسکتی ہے ۔
سماعت کی دوقسمیں ہیں :ایک ہے سماع ادراک اللہ نے کافروں کے لیے یہی سماعت ثابت کی ہے :
قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْلَ(بقرہ:۹۳)
کہتے ہیں ہم نے سنا اور نافرمانی کی ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت بیٹھ گئی ہے۔
یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ(نساء:۴۶)
کہتے ہیں ہم نے سنا اور نافرمانی کی سنو نہ سناجائے ۔
وَ لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ ہُمْ لاَ یَسْمَعُوْنَ(انفال:۲۱)
ان کی طرح مت ہو نا جو کہتے ہیں ہم نے سنا حالانکہ وہ نہیں سنتے۔
وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ ٰاٰیتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآئُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآاِنْ ہٰذَآ اِلَّا ٓٓ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(انفال:۳۱)
وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس طرح کا کلام بناسکتے ہیں یہ صرف پہلے لوگوں کے قصے ہیں ۔
وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اﷲِ(توبۃ:۶)
اگرکوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیں یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔
یَّسْمَعُ ٰایٰتِ اﷲِ تُتْلٰی عَلَیْہِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا(جاثیۃ:۸)
اللہ کی آیات سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر تکبر کرتاہے جیسے اس نے سنی ہی نہیں۔
اس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کفا رکانوں سے سنتے ہیں اور ایک وقت میں قلبی سماع کی نفی کی گئی ہے یہ دوسری قسم کا سماع ہے یعنی قبول کرنے ، رہنمائی حاصل کرنے ،فائدہ اٹھانے کا سماع ہے اس قسم کے سماع کی اللہ نے کفا ر سے نفی کی ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے :
وَ لَوْ عَلِمَ اﷲُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ وَ لَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوا وَّ ہُمْ مُّعْرِضُوْنَ(انفال:۲۳)
اگر ان میں خیرجانتا (یعنی اللہ کو معلوم تھا کہ ان میں خیر نہیں ہے)تو انہیں سنوا دیتا اگر انہیں سنواتا تو وہ منہ پھیر لیتے اور اعراض کرنے والے ہوتے ۔
اللہ کا فرمان ہے:
وَ لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ ہُمْ لاَ یَسْمَعُوْنَ(انفال:۲۱)
ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو کہتے ہیں ہم نے سنا حالانکہ وہ نہیں سنتے ۔
فرماتاہے:
وَ قَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ(ملک:۱۰)
کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو ہم جہنمیوں میں سے نہ ہوتے ۔
اللہ نے ان کے لیے کانوں کی سماعت یعنی ادراک ثابت کردیا ہے جیسے :قالوا قد سمعنااور قبولیت کی سماعت کی نفی کی ہے کہ
وھم لایسمعون اور لوکنا نسمع اسی طرح اللہ یہ فرمان بھی اسی سے متعلق ہے:
وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ(انعام:۲۵)
ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو آپ (e)کی بات کو غور سے سنتے ہیں مگر ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ اسے سمجھ نہ سکیں ۔
عقل کی دوقسمیں ہیں :
1 وہ عقل جو دیوانگی وجنون کی ضد ہے جس کی وجہ سے یا موجودگی کی بناپر ہی شرعی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اسی عقل کے ذریعے سے انسان معانی ومقاصد کو سمجھتا ہے یہ عقل کفار کے پاس تھی وہ مخاطب کی بات کو سمجھ لیتے تھے جیسا کہ اللہ کافرمان ہے :
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اﷲِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ(بقرہ:۷۵)
کیا تم توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری بات کا یقین کرلیں گے حالانکہ ان میں سے کچھ لوگ اللہ کا کلام سنتے تھے پھر سمجھنے کے بعد اس میں تحریف کرتے تھے حالانکہ وہ جانتے تھے۔
اس آیت میں اللہ نے کفار کی سماعت ثابت کی ہے یہ بھی بتلادیا ہے کہ وہ اللہ کے کلام کا معنی بھی سمجھتے تھے لیکن اس سے فائدہ نہ اٹھاسکے ۔
2 دوسری قسم کی عقل ہے دلی طور پر کسی چیز کی سمجھ وادراک اور اس کے ساتھ خطاب کی قبولیت اور ا س سے فائدہ حاصل کرنا بھی لازم ملزوم ہے اللہ نے اس قسم کی عقل کی کفار سے نفی کی ہے جیسا کہ آیت گزری ہے :وَ قَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ …یا جیسا کہ فرمان ہے :
صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ(بقرہ:۱۷۱)
گونگے بہرے اور اندھے ہیں عقل نہیں رکھتے ۔
اسی طرح اللہ کا فرمان ہے:
اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ہُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ(فرقان:۴۴)
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سن رہے ہیں یا سمجھ رہے ہیں یہ لوگ تو صرف چوپائے ہیں ۔
ان کے علاوہ دیگر آیات جن میں یہ بتلایا گیا ہے کہ کفار کی عقل نہیں ہے یہ بھی اللہ نے بتلایا ہے کہ ان کی عقل بطور عذاب وسزاء چھین لی گئی ہے کہ یہ اللہ کے دین سے اعراض کرتے تھے۔ جیسا کہ فرمان ہے :
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْہَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّّفْقَہُوْہُ وَ فِیْٓ ٰاذَانِہِمْ وَقْرًا وَ اِنْ تَدْعُہُمْ اِلَی الْہُدٰی فَلَنْ یَّہْتَدُوْآ اِذًا اَبَدًا(کہف:۵۷)
کون ہے بڑا ظالم اس سے جس کو اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی اور اس نے اعراض کرلیا اوربھول گیا جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تھا ہم نے ان کے دلوں پر تالے ڈال دیئے ہیں کہ وہ سمجھ نہ سکیں اورکانوں میں ڈاٹ اگر آپ ان کو ہدایت کی طرف بلائیں تو یہ کبھی راہ نہ پائیں گے۔
اللہ نے یہ بتایا کہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر ان کے لیے بطور سزاء کے لگائی گئی ہے اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات میں تدبر کرنے سے اعراض کرتے تھے ان سے نصیحت حاصل نہیں کرتے تھے ۔ہدایت کی دوقسمیں ہیں :
۱۔ رہنمائی کرنا راہ دکھانا یہ ہدایت کفار کو دی گئی یعنی راستے کی طرف ان کی رہنمائی کردی گئی تھی جیسا کہ فرمایا ہے :
وَ اَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنٰہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی(فصلت:۱۷)
اور ثمود کو ہم نے راہ دکھائی مگر انہوں نے اندھے پن کو اختیار کرلیا ہدایت کے بدلے
انسان کے بارے میں اللہ نے یہی فرمایا :
اِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوْرًا(دھر:۳)
ہم نے اس کو راستہ دکھایا اب چاہے یہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ(رعد:۷)
اور ہر قوم کے لیے ہدایت دینے والا ہے ۔
ان کے علاوہ بھی اس مفہوم کو واضح کرنے والی آیات ہیں یہ ہے وہ ہدایت جو ثمود کو ،تمام جنات اور انسانوں کافروں ومومنوں کو دی گئی یعنی اللہ نے ان سب کو اطاعات ومعاصی کی نشان دہی کردی اپنی پسند ناپسند سے آگاہ کردیا ۔
۲۔ دوسری قسم کی ہدایت ہے قبول کرنے ، اپنانے والی ہدایت اس قسم کی ہدایت کی اللہ نے کفار سے نفی کی ہے جیساکہ فرمان ہے۔
اِنَّکَ لاَ تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ ٰلکِنَّ اﷲَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ(قصص:۵۶)
(اے محمدe)آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو چاہتے ہیں لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدٰہُمْ وَٰلکِنَّ اﷲَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآء(بقرہ:۲۷۲)
آپ کے ذمہ ان کی ہدایت نہیں ہے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔
اللہ نے واضح کردیا کہ نبی ﷺصرف راہ دکھانے کے ذمہ دار ہیں جیسا کہ فرمان ہے۔
اَفَاَنْتَ تَہْدِی الْعُمْیَ وَ لَوْ کَانُوْا لاَ یُبْصِرُوْنَ(یونس۔۴۳)
کیا آپ اندھوں کو راستہ دکھائیں گے اگر وہ نہیں دیکھتے ۔
اسی طرح اللہ کافرمان ہے:
وَ مَآ اَنْتَ بِہٰدِ الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِہِمْ(روم:۵۳)
آپ اندھے کو اس کی گمراہی سے ہدایت کی طرف نہیں لاسکتے ۔
اس طرح کی دیگر آیات بھی اس مقصد کو واضح کرتی ہیں اللہ نے کفار کے لیے جو سماعت اور رہنمائی ثابت کی ہے وہ ان پر حجت قائم کرنے کے لیے ہے اس لیے کہ جو شخص کسی بھی وجہ سے خطاب اور بات نہ سمجھ سکے اس کا حساب کیا جائے گا ؟ان کفار سے جس ہدایت کی نفی کی گئی ہے اس سے دوسری قسم یعنی قبول کرنے اور اپنانے کی ہدایت مراد ہے ۔یہی وہ ہدایت ہے جو اللہ نے مومنوں پر بطور احسان کے بیان کی ہے فرماتا ہے:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْآ اِلَی اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا(نور:۵۱)
مومنوں کو جب اللہ ورسول (e)کے فیصلے کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم نے سن لیااور مان لیا۔
دوسری جگہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ الَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی وَّ ٰاٰتہُمْ تَقْوٰہُمْ(محمد:۱۷)
جن لوگوں نے ہدایت قبول کی (اللہ نے)ان کی ہدایت اور تقوی میں اضافہ کردیا۔
یہاں ہدایت سے مراد توفیق اور مدد ہے جو کسی بھلائی کی کسی کو دی جائے اور کسی کے دل میں پیدا کی جائے ۔اطاعت کا حکم اللہ کے اس فرمان میں ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ(نساء:۵۹)
اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (e)کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی۔
قرآن میں اس طرح کا حکم بہت سی جگہ آیا ہے ۔ایک جگہ اللہ نے سننے اورماننے دونوں کا ایک ساتھ ذکرکیا ہے۔
فَاتَّقُوا اﷲَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِاَنْفُسِکُمْ(تغابن:۱۶)
سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔
اطاعت کا مطلب ہے حکم کو قبول کرنا اس کے مطابق عمل کرنا اس کی ضد معصیت ہے یعنی حکم کی مخالفت کرنا اس کو ردّکرنا آیت کامفہوم ہے جس بات کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اسے سنو جوحکم دیا جاتا ہے اسے مانوجس سے منع کیا جاتا ہے اس سے رک جاؤ۔مقاتل کہتے ہیں۔یہاں سننے سے مراد ہے توجہ سے سنو جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے کتاب اللہ میں سے اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرو جو بھی حکم دیں یا منع کریں کسی نے کہا ہے یہاں سننے سے مراد ہے قبول کروجو کچھ سنتے ہو۔اولی الامر کی اطاعت کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ(نساء:۵۹)1۔
اولی الامر سے مراد وہ ہیں جن کی اطاعت اللہ نے لازم قرار دی ہے چاہے حکمران ہوں یا علماء جمہور سلف وخلف مفسرین اور فقہاء کا یہی مذہب ہے ۔(شرح نووی مسلم:۱۲/۴۶۴-۴۶۵،ابن کثیر:۱/۴۴۵)
اس آیت کریمہ میں اللہ نے علماء وحکمرانوں میں سے اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے ساتھ ہی وضاحت کردی ہے کہ ان کی اطاعت اس بات سے مشروط ہے کہ وہ مسلمان ہوں
(مِنْکُمْ)اسی لیے اہل علم نے کہا ہے کہ جن اولی الامر کی اطاعت واجب ہے ان سے مراد علماء اور فقہاء اور وہ حکمران ہیں جو اللہ کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں وہ حکمران مراد نہیں ہیں جو منکر کا حکم کرتے ہیں اور معروف سے روکتے ہیں جو لوگوں کو زبردستی کفر اپنانے پر مجبور کرتے ہیں یہ وہ اولی الامر نہیں جن کی اطاعت واجب ہے۔بلکہ اولی الامر سے مراد وہ علماء ہیں جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں معروف کا حکم کرتے ہیں منکر سے منع کرتے ہیں ۔وہ امراء حق ہیں جو اللہ ورسول کے حکم پر عمل کرتے ہیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے ہیں ۔جبکہ ظالم ،فاسق اور گناہ گار لوگ امام وحکمران نہیں بن سکتے ۔جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ(بقرہ:۱۲۴)میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔اس پر علماء کا اتفاق ہے یہ ہوں یا کوئی اور معصیت میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی اس لیے کہ اللہ کافرمان ہے۔خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے ۔امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔جابر بن عبداللہ ،ابن عباسرضی اللہ عنہم،مجاہد،عطاء،حسن بصری اور ابوالعالیہ رحمہم اللہ کہتے ہیں ۔کہ اولی الامر سے مرد اہل القرآن والعلم والفقہ ہیں امام مالک رحمہ اللہ نے بھی یہی کہا ہے ۔ضحاک کابھی یہ قول ہے ۔مجاہد کہتے ہیں۔اس سے مراد علماء وفقہاء ہیں۔
فان تنازعتم کامطلب ہے تنازعات کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کے پاس لیجایا کرو اولی الامر کے پاس مت لیجایاکرو۔عبداللہ بن احمدرحمہ اللہ کہتے ہیں ۔وہ فقہاء ودیندار لوگ مراد ہیں جو لوگوںکو دین سکھاتے ہیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے ہیں اللہ نے اپنے بندوں پر ان کی اطاعت واجب کردی ہے ۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور میمون بن مہران رحمہ اللہ مقاتل اورکلبی سے روایت ہے اولی الامر سے مراد ہے فوجی دستوں کے امیر ۔سہل بن عبداللہ کہتے ہیں ۔لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ علماء اور بادشاہ کی تعظیم کرتے رہیں گے جب لوگ ان دونوں کی تعظیم کریں گے اللہ ان کی دنیا وآخرت کی اصلاح کرے گا اور اگر یہ ان دونوں کو حقیر جانیں گے اللہ ان کی دنیا وآخرت برباد کردے گا ۔(تفسیر القرطبی:۵/۳۶۲)
معلوم ہوتا ہے کہ اولی الامر سے حکمران وعلماء دونوں مراد ہیں اس لیے کہ حکمران فوج کے امور اور دشمن سے جنگ کرنے کی تدابیر کرتے ہیں جبکہ علماء شریعت کا تحفظ کرتے ہیں اورحلال وحرام جائز وناجائز کے بارے میں بتاتے ہیں اس لیے اللہ نے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے عادل حکمرانوں اورعلماء کی بات ماننے کا حکم دیا ہے ۔امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔اولی الامر سے مراد ائمہ وبادشاہ اور قاضی ہیں اور ہر وہ عہدے دار جس کے پاس شرعی عہدہ ہو طاغوتی نہ ہو ۔(فتح القدیر:۱/۴۸)
اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ ورسول کی اطاعت ہر حال میں کی جائے گی جبکہ اولی الامر میں سے ایسے بھی ہوسکتے ہیں جن کی اطاعت کی جائے اور ایسے بھی ہوں گے جن کی اطاعت نہ کی جائے
(فان تنازعتم)میں یہ بتایا گیا ہے کہ حکمران اگر حق نہیں جانتے تو ان کی اطاعت مت کرو اور جس میں تم باہم اختلاف کرو اسے اللہ ورسول ﷺکے حکم کی طرف لوٹا دو۔(فتح الباری:۱۳/۱۱۲)
۔ ابن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے رسول ﷺنے فرمایا سنو اور اطاعت کرو جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے اگر معصیت کا حکم کاحکم دیا جائے تو نہ سننا ہے نہ اطاعت کرنی ہے۔(بخاری۔مسلم۔احمد)
۔ ابن عمر رضی اللہ عنہماسے ہی مرفوعاً روایت ہے ۔آپ ﷺنے فرمایا:جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔امام ڈھال ہوتا ہے جس کی آڑ لے کر قتال کیا جاتا ہے اگر امیر تقوی اور عدل کے ساتھ حکم کرتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے اگر ایسا نہیں کرتا تو اس کے لیے وبال ہے۔(بخاری۔مسلم۔احمد۔نسائی)
اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہر وہ امیر مراد ہے جو آپ ﷺکی شریعت کے مطابق امیر بناہو۔ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :جس نے میرے امیر کی اطاعت کی ایک روایت میں الامیر ہے دونوں کامطلب یہ ہے کہ ہر وہ امیر جو حق اور عدل کے ساتھ فیصلہ کرتا ہوتو وہ شارع علیہ السلام کا امیر ہے اس لیے کہ وہ شریعت کاذمہ دار ہے ۔اس حدیث سے اولی الامر کی اطاعت کا وجوب ثابت ہوتا ہے بشرطیکہ وہ معصیت کا حکم نہ کریں امیر کی اطاعت کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ افتراق وفساد نہ ہو۔(فتح الباری:۱۳/۱۱۲)
۔ آپ ﷺکا فرمان ہے سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر ایک حبشی غلام کو ہی کیوں نہ امیر بنادیا جائے ۔(بخاری۔ترمذی۔نسائی۔ابن ماجہ۔احمد۔طبرانی)
یعنی عامل ،شہر کا امیر ،ملک کا امیر ،یا نماز کا امام ،خراج وصول کرنے کا امیر یا جنگ کا امیر بنادیا جائے ۔خلفاء کے زمانے میں بعض لوگوں کے پاس تینوں عہدے بیک وقت ہوتے تھے ۔(جنگ ۔امامت نماز اور خلافت عامہ)یا بعض عہدے کسی اور کے پاس کچھ کسی اور کے پاس ہوتے تھے ۔ابوذر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے خلیل ﷺنے مجھے وصیت کی ہے کہ سنوں اور اطاعت کروں اگرچہ کسی حبشی غلام کو امیر بنالیا جائے جس کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہوں۔(ابن ماجہ۔حاکم۔بہیقی)
یحییٰ بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔(حجۃ الوداع کا خطبہ دیتے ہوئے)اگرچہ تم پرحبشی غلام امیر بنادیا جائے جب تک وہ کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کررہاہو۔(احمد۔ابوعوانہ۔طبرانی)
ایک روایت میں لفظ ہے اگرچہ اس کا سر کشمش کی طرح ہو علماء کہتے ہیں اس کا معنی ہے سر چھوٹا ہو جیسا کہ عام طور پر حبشیوں میں ہوتا ہے بعض نے کہا کہ کالے رنگ کی وجہ سے کہا ہے کسی نے کہا کہ چھوٹے اور گھنگریالے بالوں کی وجہ سے کہا ہے ۔اس سے یہ بھی استدلال کیا گیاہے کہ ظالم بادشاہوں کے خلاف بھی بغاوت نہیں کرناچاہیے اس لیے کہ اس میں ان کی برائیوں کی بنسبت زیادہ بڑا نقصان ہے۔(فتح الباری:۱۳/۱۲۲)
۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا ہے َمیں تمہیں تین چیزوں کا حکم کرتاہوں اور تین سے منع کرتا ہوں حکم یہ کرتا ہوں کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ شریک نہ کرو۔اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو تفرقہ میں مبتلا نہ ہو۔سنواور اطاعت کرو اللہ جس کو تمہارے امور کا ذمہ دار بنائے ۔(ابن حبان)
۔ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺنے ایک فوجی دستہ روانہ کیا اور ان پر ایک انصاری کو امیر بنایا انہیں اس کی اطاعت کا حکم دیا ۔اس امیر کو (کسی وجہ سے)غصہ آیا اس نے کہا کیا نبی ﷺنے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے ؟انہوں نے کہا کیوں نہیں ؟امیر نے کہا لکڑیاں جمع کرو اور اس میں آگ لگاؤ انہوں نے ایسا کرلیا ۔امیرنے کہا آگ میں کود جاؤ۔ان لوگوں نے ارادہ کرلیا مگر پھر ایک دوسرے کوروکنے لگے یہ کہہ کر نبی ﷺکے پاس ہمارے آنے اورایمان لانے کا تو مقصد ہی یہ تھا کہ ہم آگ سے محفوظ ہوجائیں وہ اسی طرح رہے یہاں تک کہہ آگ بجھ گئی امیر کا غصہ بھی رفع ہوگیا تھا۔ یہ بات نبی ﷺتک پہنچی تو آپ ﷺنے فرمایا:اگر یہ لوگ آگ میں کودجاتے تو قیامت تک اسی میں رہتے اطاعت صرف معروف میں ہے۔(بخاری۔مسلم۔احمد۔ابوعوانہ۔ابویعلیٰ۔بہیقی۔ابن ابی شیبہ)
۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول ﷺسے روایت کرتے ہیں آپ ﷺنے فرمایا:مسلمان پر سننا اور اطاعت کرنا ہے چاہے پسند کرے یا نہ کرے جب تک کہ معصیت کا حکم اسے نہ دیا جائے ۔اگر معصیت کا حکم دیا گیا تو نہ سننا ہے نہ اطاعت ہے۔
۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا ۔تم پر تنگی ،آسانی ،خوشی اورناخوشی اور تم پر ترجیح دینے کے باوجود سننا اور اطاعت کرنا ہے ۔(مسلم۔نسائی۔ترمذی۔احمد)
۔ ابن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا۔مسلمان پر پسند وناپسند میں اطاعت ہے جب تک معصیت کا حکم نہ دیاجائے اگر معصیت کا حکم دیا جائے تونہ سننا ہے نہ اطاعت ہے۔(بخاری۔مسلم۔نسائی۔ترمذی)
۔ جنادہ بن ابی امیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔ہم عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ہاں ان کی عیادت کرنے گئے ہم نے کہااللہ آپ کو صحت دے ہمیں رسولﷺکی کوئی حدیث سنائیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول ﷺنے بلایا اور ہم سے بیعت لی سننے اور اطاعت کرنے پر خوشی وناخوشی میں تنگی وآسانی میں اور ہم پر ترجیح کے باوجود اور یہ کہ ہم حکمرانوں سے تنازعہ نہ کریں الا یہ کہ ظاہر کفر دیکھ لیں جس کی اللہ کی طرف سے دلیل ہو۔(بخاری۔مسلم۔احمد ۔ابن حبان)
ایک روایت میں ہے اور یہ کہ ہم حق کا ساتھ دیں جہاں بھی ہوںاس بارے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کریں ۔خوشی و ناخوشی کا مطلب ہے کہ ہر حال میں اللہ کے حکم کی پیروی کرنی ہے ۔ابن التین کہتے ہیں:اس کا مطلب ہے کہ (جنگ کے لیے )نکلنے میں سستی ہو یا مشقت ہو ۔طیبی کہتے ہیں:ہم نے اس بات پر عہد کیا کہ آسانی وتنگی ۔تکلیف وخوشی ہرحال میں ۔لفظ بایعنامفاعلہ کا صیغہ ہے جس میں ایک تو مبالغہ ہے دوسرا یہ کہ قیامت میں ان کو ان امور کے بدلے میں شفاعت اور اجر ملے گا۔مسند احمد میں لفظ ہے اگرچہ تم خود کو زیادہ مستحق سمجھتے ہو ۔ابن حبان میں ہے اگرچہ یہ حکمران تمہارے مال کھائیں اور تمہاری پیٹھ پر کوڑے ماریں ۔یہ کہ ہم حق کا ساتھ دیں جہاں بھی ہوں اس میں کسی ملامت کی پرواہ نہ کریں یعنی کسی بات کا خوف نہ کریں اس میں اس بات کی ترغیب یا حکم ہے کہ منکر کو ختم کرناہے اگر صرف ملامت کا اندیشہ ہو اور اس کے علاوہ کسی تکلیف کا نہ ہو تو ہاتھ سے ختم کرے ورنہ زبان سے ورنہ دل سے ۔کفار سے جہاد ہر صورت میں جاری رہنا چاہیے جب تک اللہ کا دین غالب نہ آجائے ۔اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے ۔اسی طرح اس شخص کے خلاف جہاد کرناچاہیے جو حق سے عناد رکھتا ہے ۔ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے رسول ﷺنے فرمایا۔جس نے اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی تو اس کو چاہیے کہ صبر کرے اس لیے کہ اگر جماعت سے ایک بالشت برابربھی علیحدہ ہوا اور مرگیا تو جاہلیت کی موت مرے گا ۔(بخاری۔مسلم)
۔ ابن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا ۔جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا وہ قیامت میں اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہوگی اور جو (اس حال میں )مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔(مسلم۔بہیقی ۔طبرانی)
عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ کہتے ہیں۔میں مسجد میں داخل ہوا تو عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہماکعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے لوگ ان کے پاس جمع تھے میں بھی ان کے پاس آکر بیٹھ گیا انہوں نے بتایا کہ ہم ایک سفر میں رسول ﷺکے ساتھ تھے ایک جگہ ہم نے پڑاؤ ڈالا تو کوئی تیر صحیح کرنے لگا کوئی نیزے ۔کہ اتنے میں رسول ﷺکی طرف سے کسی آواز دینے والے نے آواز دی کہ جمع ہوجاؤہم رسول ﷺکے پاس جمع ہوگئے تو آپ ﷺنے فرمایا مجھ سے پہلے جو بھی نبی گزرا اس پر لازم تھاکہ جو بھلائی جانتا ہے وہ اپنی امت کو بتائے اور ہر وہ شر جسے وہ جانتا ہے اس سے ان کو خبردار کرے اس امت کے اول لوگوں میں عافیت ہے اورآخر کے لوگ آزمائش میں ہوں گے اور ایسے کام کریں گے جو تمہیں ناپسند ہیں ایک کے بعدایک فتنے آئیں گے مؤمن کہے گایہ میری بربادی ہے پھر وہ فتنہ ختم ہوجائے گاتو مومن کہے گا یہ اچھا وقت ہے ۔جو شخص جہنم سے آزادی اور جنت میں داخل ہونا چاہتاہے تو اس کو موت ایمان کی حالت میں آنی چاہیے اور لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو خود اپنے ساتھ ہونا پسند کرتاہے جس نے امام کی بیعت کی اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیدیا تو حسب استطاعت اس کی اطاعت کرے اگر دوسرا کوئی امام آکر اس سے لڑے یا حکومت چھیننے کی کوشش کرے تو اس کی گردن ماردو ۔میں ان کے قریب ہوگیا اور کہا کہ اللہ کی قسم کھا کر بتاؤ یہ تم نے رسول ﷺسے سنا ہے ؟اس نے کہا میرے کانوں نے سنا ہے اور دل نے یاد رکھا ہے میں نے کہا یہ تمہار اچچازاد معاویہ رضی اللہ عنہ ہمیں حکم دیتاہے کہ ہم اپنا مال آپس میں باطل طریقے سے کھائیں ایک دوسرے کو قتل کریں جبکہ اللہ کا فرمان ہے کہ :ایک دوسرے کامال باطل طریقے سے مت کھاؤالا یہ کہ باہمی تجارت ہواور ایک دوسرے کو قتل مت کرو اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے۔وہ خاموش رہے پھرکہا ان کی اطاعت کرو اللہ کی اطاعت میں اور اللہ کی معصیت میں ان کی اطاعت مت کرو۔(مسلم۔نسائی۔بہیقی)
۔ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول ﷺسے روایت کرتے ہیں ۔فرمایا تمہارے بہترین امام وہ ہیں جنہیں تم پسند کرو اور وہ تم سے محبت کرتے ہوں وہ تمہارے لیے اور تم ان کے لیے دعائیں کرو ۔تمہارے بدترین امام وہ ہیں جنہیں تم ناپسند کرو وہ تمہیں ناپسندکریں تم ان پر لعنت کرو وہ تم پر لعنت کریں ۔کسی نے پوچھا اللہ کے رسول ﷺکیا ہم ان سے جنگ نہ کریں ۔آپ ﷺنے فرمایا نہیں ۔جب تک وہ نمازیں قائم کرتے رہیں اگر تم ان میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھو تو اس کے عمل سے نفرت کرو مگر اس کی اطاعت سے ہاتھ مت کھینچو۔(مسلم۔نسائی)
یہ اس بات کی مشروعیت پر دلیل ہے کہ امام سے محبت کی جائے اس کے لیے دعا کی جاتی رہے ۔جو امام اپنے عوام کے لیے دعا کرتا ہے ان سے محبت کرتا ہے ان کی دعائیں لیتا ہے وہ بہترین امام ہے اور جو اپنے عوام سے اور عوام اس سے نفرت کریں ایک دوسرے کے لیے بددعائیں کریں یہ بدترین امام ہیں اس لیے کہ جو امام عدل قائم کرتا ہے وہ قابل تعریف ہے جو ظلم کرتا ہے وہ عوام کی طرف سے مذمت اور گالیوں کا مستحق ہے بدترین امام ہے ۔
۲۔دوسری ذمہ داری :اماموں کے (کاموں)پر صبر کرنا اگرچہ وہ عوام کے بعض حقوق روک لے ۔
۔ ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا۔جو امیر کی کسی بات یا عمل کو ناپسند کرے تو اسے صبر کرنا چاہیے اس لیے کہ جو امیر کی اطاعت سے ایک بالشت برابر نکل گیا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔(بخاری۔مسلم۔احمد)
۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول ﷺنے فرمایا ۔میرے بعد ایسے کام ہوں گے جنہیں تم ناپسند کروگے ۔لوگوں نے پوچھا اللہ کے رسول اگر ہم میں سے کسی کو اس وقت سے واسطہ پڑجائے تو آپ ہمیں کیا حکم کرتے ہیں ؟آپ ﷺنے فرمایا:تم پر جو حق ہے وہ ادا کرو اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔(بخاری۔مسلم۔نسائی۔ابن حبان۔طبرانی)
ایسے حالات میں کہ حکمران عوام کے حقوق ادا نہ کرتے ہوں نبی ﷺکا پھر بھی سمع واطاعت کا حکم شاید اس لیے ہو کہ دونقصانوں میں سے کم نقصان کو اپنایا جائے ۔اس لیے کہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا بڑا نقصان ہے کہ اس میں اختلاف وتفرقہ پیدا ہوتاہے ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حدیث میں مذکور جس ترجیح دیئے جانے کا ذکر ہے اس سے مراد حقیقی ترجیح نہیں ہے ۔یہاں نبی ﷺنے اطاعت کرنے کا حکم اس لیے دیا ہے تاکہ بغاوت کے تمام ذرائع بند ہوجائیں اور امیر کی نافرمانی سے امت کو ضعف نہ پہنچے اور صرف خیالات یا بدظنی کی وجہ سے لوگ بغاوت نہ کریں ۔جیسا کہ بخاری میں ہے ایک آدمی نے رسولﷺسے کہا کہ آپ نے فلاں کوسرکاری کام پر لگادیا مجھے نہیں لگایا؟تو آپ ﷺنے فرمایا کہ میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی تم صبر کرو یہاں تک کہ مجھ سے (قیامت میں)ملاقات کرلو۔ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :اس جواب میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عہدے طلب نہیں کرنے چاہیے اور آپ ﷺنے یہ جو کہا کہ میرے بعد ترجیح دی جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے تم پر ترجیح نہیں دی یہ کام میرے بعد ہوں گے میرے دور میں نہیں ہوں گے میں نے ترجیح نہیں دی بلکہ مسلمانوں کی مصلحت دیکھی ہے ۔جبکہ دنیا وی مفادات حاصل کرنے والے میرے بعد آئیں گے اس وقت صبر کرنا ۔(فتح الباری:۱۳/۸)
۔ علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ۔سلمہ بن یزید الجعفی رضی اللہ عنہ نے رسول ﷺسے پوچھا اللہ کے رسول ﷺیہ بتائیں کہ اگر ہم پر ایسے امیر مقرر ہوجائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمیں ہمارا حق نہ دیں ایسے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟آپ نے منہ پھیر لیا ۔اس نے پھر پوچھا دوسری بار پھر تیسری بار پوچھا اشعت بن قیس رضی اللہ عنہ نے اس کو کھینچ لیا ۔آپ ﷺنے فرمایا:سنو اور اطاعت کرو تم پر تمہاری اور ان پر ان کی ذمہ داری ہے۔(بخاری ۔مسلم۔نسائی)
۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے رسول ﷺنے فرمایا:تم پر ایسے امیر مقرر ہوں گے جن کے کچھ کام تمہیں اچھے لگیں گے کچھ برے جس نے برا سمجھا یا نفرت کی وہ بری ہوگیا جس نے اعتراض کیا وہ سلامت رہا لیکن جو راضی رہا اور تابعداری کرتا رہا ۔لوگوں نے کہا اللہ کے رسول ﷺکیا ہم ان سے قتال نہ کریں آپ ﷺنے فرمایا :نہیں جب تک وہ نمازیں پڑھتے رہیں۔(مسلم۔ابوداؤد)۔(جاری ہے)