• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم ممالک کے حکمرانوں کو طاغوت کہنا اور علماء کے خلاف بولنا

شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
66
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میں تو بڑھ بڑھ کر کوئی ایسی بات نہیں کر رہا، اور نہ میں نے ایسی کو ''پریڈیکشن'' کی ہے، بلکہ جو بھی لکھا مراسلہ میں موجود الفاظ کی بنیاد پر لکھا!

ان سوال کے جوابات کا انتظار ہے، مجھے علم ہے، لیکن اس سے قبل سائل کو جوابات سمجھنے کے لئے کچھ امور بتلانا ضروی ہیں، کہ وہ جوابات کو سمجھ سکیں!
ویسے یہ بھی آپ نے خود کہاہے کہ آپ کا ''behave'' مذموم ہے، کہ آپ نے عورتوں کی طرح ''behave'' کرنے سے منع کرکے، گو کہ آپ خود عورت ہیں، اور آپ کا ''behave'' تو عورتوں کی طرح ہونا لازم ہے!
رہی بات زبان یا اردو زبان!
تو کوئی بھی زبان اس زبان سے نکلے الفاظ کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے، خاص کر کہ جس زبان پر عبور نہ ہو، وہاں تو احتیاط کی اور زیادہ ضرورت پیش آتی ہے!

دیکھیں محترمہ! میں کبھی بھی کسی مراسلہ کے متعلق عورت اور مردکی تفریق سے جواب نہیں لکھتا، جو مراسلہ میں تحریر ہوتا ہے، اسی لحاذ سے لکھتا ہوں!
ہاں مخاطب کرتے ہوئے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا ہوں کہ کسی خاتون کو خطاب کرتے ہوئے احتیاط کا دامن نہ چھوٹے!
آپ کو بھی میں ''محترمہ'' لکھ ہی مخاطب کر رہا ہوں!
لہٰذا آپ ادھر ادھر کی باتیں ترک کیجیئے، اور اچھے اسلوب میں اپنے سوالات کو دوبارہ پیش کریں!

وعليكم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
عورتوں کی طرح ''behave''
عورتیں ایک بات کا جواب 4 باتوں سے دیتی ہیں.

آپ کا ''behave'' تو عورتوں کی طرح ہونا لازم ہے!
رہی بات زبان یا اردو زبان!
آپ فورم پر میرا پروفائل دیکھ سکتے ہیں کہ میں کس طرح behave کرتی ہوں.

میں کبھی بھی کسی مراسلہ کے متعلق عورت اور مردکی تفریق سے جواب نہیں لکھتا، جو مراسلہ میں تحریر ہوتا ہے، اسی لحاذ سے لکھتا ہوں!
عورت مرد کی تفریق کا معلوم نہیں لیکن ضروری نہیں کہ انداز ایسا ہو جیسا مناظرہ، آپکو میرا انداز مذموم لگا، مجھے آپکا انداز.

آپکی بھی کئی باتوں پر میری اچھی خاصی دل آزاری ہوئی ہے، آپکو احساس ہوا یا نہیں اللہ اعلم.
میرے بھائی، میں فتنہ سے بچنے اور بچانے کے لیے ہی یہ تگ و دو کر رہی ہوں اور آپ نے ایک دم سے حتمی طور پر مجھے فتنہ میں مبتلا قرار دے دیا. دل آزاری، آنسوؤں کے ساتھ ہوئی.

میں بہت علم والی نہیں ہوں، نہ ہی سوشل میڈیا addict, لیکن انٹرنیٹ کے اپنے وسیع تجربہ کی بنیاد پر کچھ پریشانیوں کا شکار ہوں اور میری ذہنی کوفت کا اندازہ آپنے میرے لفظوں سے لگا لیا ہو گا. اسکی ایک جھلک آپکے سامنے بیان بھی کر چکی.
آپ نے ایک بہت اچھی بات کہی جس سے میں بنا اختلاف کیے اتفاق کیا بھی.
طعن و تشنیع، میرے لیے کوئی نئی بات نہیں لیکن انسان ہر بار تکلیف سہنے کی کیفیت میں نہیں ہوتا. میں ایک خاتون نہیں بلکہ شدت پسند رویہ کی حامل اور بھی لوگوں کو سمجھاتے سمجھاتے پیچھے ہوئی ہوں. لیکن ذہن پر بہت سے سوالات نقش ہو گئے. اور ہر لحظہ ایمان کی ہی فکر رہتی ہے.

بہرحال، میرا ارادہ تھا کہ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کا درس سن کر ہی سوالات ترتیب دوں. لیکن درس ابھی مکمل نہیں سن پائی، تسلسل ٹوٹ جاتا.
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
66
شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کے درس میں اس بات کی بہترین وضاحت بھی ملی.
لا تعداد علماء کی ایسی چین موجود ھے کہ جن کی تعلیم کی لڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے شروع ھوتی ھے، امام بخاری رحمہ اللہ سے پیچھے تین لڑیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچتی ھیں، اور امام بخاری سے درس حدیث رسول لینے والوں کے تسلسل کی سات لڑیاں امام ابن حجر رحمہ اللہ تک پہنچتی ھیں (شارح بخاری)، اور انکے بعد سے آج تک کے بخاری شریف کی کتاب پڑھنے والے علماء کے تسلسل کی لڑی سولہ بنتی ھیں، کل ملا کر یہ چھبیس یا ستائیس لڑیاں راویان محدثین کی بنتی ھیں،جو پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ جاتی ھیں، اور اس سلسلہ میں شامل علماء کے اہل حق ھونے کی ایک نشانی بھی ھے، لہذا ان کی کثیر تعداد کا گمراہ ھونا نا ممکن ھے کہ انکو طاغوت کی
اللہ تعالیٰ علماء ربانیین کا ساتھ نصیب فرمائے آمین.

1. آپ نے کہا کہ درباری علماء کی اصطلاح گھڑی گئی ہے.
میرا سوال ہے کہ کیوں اور کیسے گھڑی گئی ہے؟ جبکہ درباری علماء کے بارے میں کبھی کسی نے نفی نہیں کی. بلکہ عربی میں تو علماء سلاطین، اس سے بھی بڑھ کر علماء شیطینھم، اور انگلش زبان میں coconut sheikhs کہا جاتا ہے. علماء سوء کی ہی ایک قبیل ہے. جو عموماً سرفہرست ہے کیونکہ یہ معروف ہوتے ہیں.


2. آپ نے کہا فساد سے احتراز کرتے ہوئے حکمران کے جرائم پر تنقید کرنے والا مصلح کہلاتا ہے. بالکل درست.
فساد کِسے کہتے ہیں اور اس سے احتراز کیسے ممکن ہے جبکہ فساد برپا ہونے کے تمام امکانات موجود بھی ہوں ؟


3. اپنے ہی وردی پوش باڑ کھیتوں کو کھا رہی. مفسدین کے خاتمہ کرنے میں اہل جھاد کو خوب خوب رگیدا گیا ہے. محافظین کے اس فساد کو فساد کیوں نہیں کہا جا رھا؟ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انکے جرائم پر تنقید کیوں نہیں کی جاتی؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وعليكم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،


عورتیں ایک بات کا جواب 4 باتوں سے دیتی ہیں.



آپ فورم پر میرا پروفائل دیکھ سکتے ہیں کہ میں کس طرح behave کرتی ہوں.


عورت مرد کی تفریق کا معلوم نہیں لیکن ضروری نہیں کہ انداز ایسا ہو جیسا مناظرہ، آپکو میرا انداز مذموم لگا، مجھے آپکا انداز.

آپکی بھی کئی باتوں پر میری اچھی خاصی دل آزاری ہوئی ہے، آپکو احساس ہوا یا نہیں اللہ اعلم.
میرے بھائی، میں فتنہ سے بچنے اور بچانے کے لیے ہی یہ تگ و دو کر رہی ہوں اور آپ نے ایک دم سے حتمی طور پر مجھے فتنہ میں مبتلا قرار دے دیا. دل آزاری، آنسوؤں کے ساتھ ہوئی.

میں بہت علم والی نہیں ہوں، نہ ہی سوشل میڈیا addict, لیکن انٹرنیٹ کے اپنے وسیع تجربہ کی بنیاد پر کچھ پریشانیوں کا شکار ہوں اور میری ذہنی کوفت کا اندازہ آپنے میرے لفظوں سے لگا لیا ہو گا. اسکی ایک جھلک آپکے سامنے بیان بھی کر چکی.
آپ نے ایک بہت اچھی بات کہی جس سے میں بنا اختلاف کیے اتفاق کیا بھی.
طعن و تشنیع، میرے لیے کوئی نئی بات نہیں لیکن انسان ہر بار تکلیف سہنے کی کیفیت میں نہیں ہوتا. میں ایک خاتون نہیں بلکہ شدت پسند رویہ کی حامل اور بھی لوگوں کو سمجھاتے سمجھاتے پیچھے ہوئی ہوں. لیکن ذہن پر بہت سے سوالات نقش ہو گئے. اور ہر لحظہ ایمان کی ہی فکر رہتی ہے.

بہرحال، میرا ارادہ تھا کہ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کا درس سن کر ہی سوالات ترتیب دوں. لیکن درس ابھی مکمل نہیں سن پائی، تسلسل ٹوٹ جاتا.
میں ان باتوں کی یہ کہہ کر خلاصی کرنا چاہوں گا کہ میری کسی بات سے آپ کو کسی بھی طرح خواہ غلط فہمی میں بھی تکلیف پہنچی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں!
میں آپ سےمتعلق یہی سمجھتا ہوں کہ آپ بھی مسلمانوں کی اس حالت پر نوحہ خواں ہیں، اور اس حالت زار کا مداوا تلاش کر رہی ہیں!
اللہ تعالیٰ مجھے آپ کو اور تمام مسلمانوں کو صبر اور استقامت ادا کرے، کہ ہم اپنے ایمان کی حفاظت کرسکیں! آمین
تلخیاں بھول کر آگے چلتے ہیں، اگلے مراسلہ میں قدرے تفصیل سے آپ کے اگلے مراسلہ پر کچھ عرض کرتا ہوں، ان شاء اللہ!
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
66
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میں ان باتوں کی یہ کہہ کر خلاصی کرنا چاہوں گا کہ میری کسی بات سے آپ کو کسی بھی طرح خواہ غلط فہمی میں بھی تکلیف پہنچی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں!
میں آپ سےمتعلق یہی سمجھتا ہوں کہ آپ بھی مسلمانوں کی اس حالت پر نوحہ خواں ہیں، اور اس حالت زار کا مداوا تلاش کر رہی ہیں!
اللہ تعالیٰ مجھے آپ کو اور تمام مسلمانوں کو صبر اور استقامت ادا کرے، کہ ہم اپنے ایمان کی حفاظت کرسکیں! آمین
تلخیاں بھول کر آگے چلتے ہیں، اگلے مراسلہ میں قدرے تفصیل سے آپ کے اگلے مراسلہ پر کچھ عرض کرتا ہوں، ان شاء اللہ!
آمین و جزاک انت بمثله،
مراسلہ #44 ڈیلیٹ کروا دیجئے. یہ شیطان نے لکھوایا. وسوسہ کے زیر اثر
 

shad_saf

رکن
شمولیت
جولائی 08، 2014
پیغامات
23
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
52

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

پہلے بخاری ومسلم سے تین روایات مختلف ابواب واسانید کے ساتھ پیش کرتا ہوں:

حَدَّثَنَا مُوسَى حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ عَنْ الْمُغِيرَةِ قَالَ قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے فرمایا: اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ (مصروف) دیکھوں تو درگزر کیے اسے تلوار سے قتل کردوں گا۔ نبی ﷺ کو ان کے یہ جذبات پہنچنے تو آپ نے فرمایا:” کیا تم سعد کی غیرت سے تعجب کرتے ہو؟ میں اس بھی زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیور ہے۔“
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد
صحيح البخاري: كِتَابُ المُحَارِبِينَ مِنْ أَهْلِ الكُفْرِ وَالرِّدَّةِ (بَابُ مَنْ رَأَى مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَقَتَلَهُ)
صحیح بخاری: کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں (باب: اس مرد کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھا اور اسے قتل کردیا۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟)

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ التَّبُوذَكِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ عَنْ الْمُغِيرَةِ قَالَ قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ وَاللَّهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي وَمِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللَّهِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنْ اللَّهِ وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ بَعَثَ الْمُبَشِّرِينَ وَالْمُنْذِرِينَ وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنْ اللَّهِ وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ وَعَدَ اللَّهُ الْجَنَّةَ

سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ سیدنا سعد بن عبادہ ؓ نے کہا: اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے ہمراہ دیکھوں تو سیدھی تلوار سے اسے قتل کردوں۔ رسول اللہ ﷺ کو ان جذبات کی اطلاو ملی تو آپ نے فرمایا: تم سعد کی غیرت پر اظہار تعجب کرتے ہو؟ اور اللہ کی قسم! یقیناً میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غیرت ہی کی وجہ سے بے حیائی کی ظاہر اور پوشیدہ باتوں کو حرام قرار دیاہے ۔کسی شخص کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ عذر خواہی محبوب نہیں۔ اس لیے اس نے خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے اپنے رسول بھیجے ہیں نیز کسی کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ مدح وثنا محبوب نہیں۔ اسی وجہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے (تاکہ لوگ اس کی تعریف کرنے اسے حاصل کریں) ۔ (راوی حدیث) عبید اللہ بن عمرو نے عبدالملک کے حوالے سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔” اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی شخص نہیں۔“۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لاَ شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ»)
صحیح بخاری: کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید (
باب: نبی کریم ﷺ کا ارشاد اللہ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں


حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، وَأَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كَامِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ وَرَّادٍ، كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرُ مُصْفِحٍ عَنْهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ، فَوَاللهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللهُ أَغْيَرُ مِنِّي، مِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللهِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا، وَمَا بَطَنَ، وَلَا شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللهِ، وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللهِ، مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ بَعَثَ اللهُ الْمُرْسَلِينَ، مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ، وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنَ اللهِ، مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ وَعَدَ اللهُ الْجَنَّةَ.

ابوعوانہ نے ہمیں عبدالملک بن عمیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے ۔۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ کے کاتب ۔۔ وراد سے، انہوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو میں اسے تلوار کو اس سے موڑے بغیر (دھار کو دوسری طرف کیے بغیر سیدھی تلوار) ماروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا: " تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! میں اس سے زیادہ غیور ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیور ہے۔ اللہ نے غیرت کی وجہ سے ہی ان تمام فواحش کو، ان میں سے جو علانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں سب کو حرام ٹھہرایا ہے اور اللہ سے زیادہ کوئی شخص غیور نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی شخص کو معذرت پسند نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیجے ہیں۔ اور اللہ سے زیادہ کسی کو تعریف پسند نہیں، اسی لیے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: کِتَابُ اللِّعَانِ (بَابُ اللِّعَانِ)
صحیح مسلم: کتاب: لعان کےاحکام ومسائل (لعان کےاحکام ومسائل) تمہید کتاب

﴿﴾ ﴿﴾ ﴿﴾ ﴿﴾ ﴿﴾

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ مَا فَعَلَ فِي الْأُولَى ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ انْجَلَتْ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا ثُمَّ قَالَ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلبَكَيْتُمْ كَثِيرًا

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور اس میں بہت طویل قیام کیا، پھر رکوع کیا تو وہ بھی بہت طویل کیا۔ رکوع کے بعد قیام کیا تو وہ بھی بہت طویل تھا لیکن پہلے قیام سے کچھ مختصر۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے قدرے کم تھا۔ پھر سجدہ بھی بہت طویل کیا۔ دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا جیسا کہ پہلی رکعت میں کیا تھا۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب صاف ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: "بلاشبہ یہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے جینے سے گرہن زدہ نہیں ہوتے۔ جس وقت تم ایسا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو، اس کی کبریائی کا اعتراف کرو، نماز پڑھو اور صدقہ وخیرات کرو۔" پھر آپ نے فرمایا: "اے امت محمد! اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے کہ اس کا غلام یا اس کی باندی بدکاری کرے، اے امت محمد! اللہ کی قسم! اگر تم اس بات کو جان لو جو میں جانتا ہوں تو تمہیں ہنسی بہت کم آئے اور رونا بہت زیادہ آئے۔"
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

صحيح البخاري: کِتَابُ الكُسُوفِ (بَابُ الصَّدَقَةِ فِي الكُسُوفِ)
صحیح بخاری: کتاب: سورج گرہن کے متعلق بیان (باب: سورج گرہن میں صدقہ خیرات کرنا)

حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَا أَحَدَ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا شَيْءَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنْ اللَّهِ وَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ قُلْتُ سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَرَفَعَهُ قَالَ نَعَمْ.

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ تعالٰی سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں۔ اسی وجہ سے اس نے ظاہری اور باطنی سب بے حیائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اور اللہ تعالٰی کو اپنی تعریف سے زیادہ اور کوئی چیز پسند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی تعریف خود کی ہے۔ (راوی کہتا ہے: ) میں نے اپنے استاد سے پوچھا: آیا تم نے یہ حدیث خود حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ میں نے پوچھا: انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے بیان کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ ﴿وَلاَ تَقْرَبُوا الفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ﴾)
صحیح بخاری: کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں (باب: آیت ﴿ ولا تقربوا الفواحش ما ظهر منها ﴾الخ کی تفسیر’’اور بے حیائیوں کے نزدیک بھی نہ جاؤ(خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں ‘‘ہر قسم کی بے حیائی سے بچو۔)

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ وَرَفَعَهُ قَالَ لَا أَحَدَ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ فَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنْ اللَّهِ فَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ.

حضرت عمرو بن مرہ سے روایت ہے، انہوں نے ابووائل سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، وہ اسے مرفوع (رسول اللہ ﷺ سے) بیان کرتے تھے کہ "کوئی شخص بھی اللہ تعالٰی سے بڑھ کر غیرت مند نہیں، اسی لیے تو اس نے کھلی اور پوشیدہ بے حیائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اور کوئی شخص نہیں جسے مدح وتعریف اللہ تعالٰی سے زیادہ محبوب ہو اسی لیے اللہ تعالٰی نے اپنی مدح فرمائی ہے۔"
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ: قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ﴾)
صحیح بخاری: کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں (باب: سورۃ اعراف آیت ﴿قل انما حرم ربی الفواحش﴾الخ کی تفسیر یعنی”آپ کہہ دیں کہ میرے پروردگار نے بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے، ان میں سے جو ظاہر ہوں (ان کو بھی) اور جو چھپے ہوئے ہوں (ان کو بھی)۔)

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ وَمَا أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنْ اللَّهِ

سیدنا عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی سے بڑھ کر کوئی دوسرا غیرت مند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بے حیائی کے کاموں کو حرام کیا۔ اور اللہ تعالٰی سے بڑھ کر کوئی دوسرا اپنی تعریف پسند کرنے والا نہیں“
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ الغَيْرَةِ)
صحیح بخاری: کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان (باب: غیرت کا بیان)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ مَا أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنْ اللَّهِ أَنْ يَرَى عَبْدَهُ أَوْ أَمَتَهُ تَزْنِي يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:” اے امت محمد! اللہ سے بڑھ کر کوئی بھی غیرت مند نہیں کہ وہ اپنے بندے یا بندی کو بد کاری میں مبتلا دیکھے۔ اے امت محمد! اگر تم وہ جان لو جو کچھ میں جانتا ہوں تو یقیناً تم بہت تھوڑا ہنسو اور زیادہ روتے رہو۔ “
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ الغَيْرَةِ)
صحیح بخاری: کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان (باب: غیرت کا بیان)

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ عَنْ أُمِّهِ أَسْمَاءَ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا شَيْءَ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ
سیدنا اسماء ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں۔ “
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ الغَيْرَةِ)
صحیح بخاری: کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان (باب: غیرت کا بیان)

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ وَمَا أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنْ اللَّهِ

سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی بھی غیرت مند نہیں، اسی لیے اس نے فواحش کو حرام قرار دیا ہے، نیز اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو مدح و تعریف پسند نہیں۔“ ۔
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ﴿وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ﴾ [آل عمران: 28])
صحیح بخاری: کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید (باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ آل عمران میں﴿وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ﴾)

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ التَّبُوذَكِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ عَنْ الْمُغِيرَةِ قَالَ قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ وَاللَّهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي وَمِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللَّهِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنْ اللَّهِ وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ بَعَثَ الْمُبَشِّرِينَ وَالْمُنْذِرِينَ وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنْ اللَّهِ وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ وَعَدَ اللَّهُ الْجَنَّةَ

سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ سیدنا سعد بن عبادہ ؓ نے کہا: اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے ہمراہ دیکھوں تو سیدھی تلوار سے اسے قتل کردوں۔ رسول اللہ ﷺ کو ان جذبات کی اطلاو ملی تو آپ نے فرمایا: تم سعد کی غیرت پر اظہار تعجب کرتے ہو؟ اور اللہ کی قسم! یقیناً میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غیرت ہی کی وجہ سے بے حیائی کی ظاہر اور پوشیدہ باتوں کو حرام قرار دیاہے ۔کسی شخص کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ عذر خواہی محبوب نہیں۔ اس لیے اس نے خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے اپنے رسول بھیجے ہیں نیز کسی کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ مدح وثنا محبوب نہیں۔ اسی وجہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے (تاکہ لوگ اس کی تعریف کرنے اسے حاصل کریں)۔(راوی حدیث) عبید اللہ بن عمرو نے عبدالملک کے حوالے سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔ ”اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی شخص نہیں۔“ ۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لاَ شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ»)
صحیح بخاری: کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید (باب: نبی کریم ﷺ کا ارشاد اللہ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں،)

وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَأَطَالَ الْقِيَامَ جِدًّا ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ جِدًّا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَأَطَالَ الْقِيَامَ جِدًّا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ جِدًّا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَإِنَّهُمَا لَا يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَكَبِّرُوا وَادْعُوا اللَّهَ وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ إِنْ مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرَ مِنْ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ وَفِي رِوَايَةِ مَالِكٍ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ.

امام مالک بن انس اور عبد اللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں ہشام نے اپنے والد عروہ سے حدیث سنا ئی انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روا یت کی، انھوں نے کہا :رسول اللہ ﷺ کے ز نے میں سورج کو گرہن لگ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھنے کے لیے قیام فر یا اور بہت ہی لمبا قیام کیا، پھر آپ نے رکو ع کیا تو انتہا ئی طویل رکوع کیا پھر آپ نے سر اٹھا یا تو انتہائی طویل قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے (کچھ )کم تھا پھر آپ نے (دوبارہ )رکو ع کیا تو بہت لمبا رکو ع کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا پھر آپ نے سجدے کیے پھر آپ کھڑے ہو گئے اور قیام کو لمبا کیا وہ پہلے قیام سے کم تھا پھر آپ نے رکوع کیا اور رکوع کو لمبا کیا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا پھر آپ نے اپنا سر اٹھا یا اور قیا م کیا تو بہت لمبا قیام کیا جبکہ وہ پہلے قیام سے کم تھا پھر آپ نے رکوع کیا تو انتہائی طویل رکوع کیا لیکن وہ پہلے رکوع سے کم تھا پھر سجدے کیے پھر رسول اللہ ﷺ (نماز سے فارغ ہو کر) پلٹے تو سورج روشن ہو چکا تھا اور آپ نے لو گو ں سے خطا ب فر یا اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان کی، پھر فر یا :"بے شک سورج اور چاند اللہ تعا لیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں ان کو کسی کی مو ت یا زند گی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا جب تم انھیں (اس حالت میں ) دیکھو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو اللہ تعا لیٰ سے دعا مانگو نماز پڑھو اور صدقہ کرو اے اُمت محمد( ﷺ )کو ئی نہیں جو ( اس بات پر ) اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت رکھنے والا ہو کہ اس کا بندہ یا اس کی باندی زنا کرے !اے اُمت محمد!اللہ کی قسم !اگر تم ان باتوں کو جان لو جن کو میں جا نتا ہوں ۔ تو تم بہت زیادہ روؤاور بہت کم ہنسو۔دیکھو !کیا میں نے (پیغام ) اچھی طرح پہنچا دیا ؟"اور امام مالک کی روایت میں ہے :"یقیناً سورج اور چاند اللہ تعا لیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ الْكُسُوفِ (بَابُ صَلَاةِ الْكُسُوفِ)
صحیح مسلم: کتاب: سورج اور چاند گرہن کے احکام (باب: سورج یا چاند گرہن کی نماز) تمہید کتاب

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، وَأَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كَامِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ وَرَّادٍ، كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرُ مُصْفِحٍ عَنْهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ، فَوَاللهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللهُ أَغْيَرُ مِنِّي، مِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللهِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا، وَمَا بَطَنَ، وَلَا شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللهِ، وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللهِ، مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ بَعَثَ اللهُ الْمُرْسَلِينَ، مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ، وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنَ اللهِ، مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ وَعَدَ اللهُ الْجَنَّةَ.

ابوعوانہ نے ہمیں عبدالملک بن عمیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے ۔۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ کے کاتب ۔۔ وراد سے، انہوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو میں اسے تلوار کو اس سے موڑے بغیر (دھار کو دوسری طرف کیے بغیر سیدھی تلوار) ماروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا: " تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! میں اس سے زیادہ غیور ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیور ہے۔ اللہ نے غیرت کی وجہ سے ہی ان تمام فواحش کو، ان میں سے جو علانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں سب کو حرام ٹھہرایا ہے اور اللہ سے زیادہ کوئی شخص غیور نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی شخص کو معذرت پسند نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیجے ہیں۔ اور اللہ سے زیادہ کسی کو تعریف پسند نہیں، اسی لیے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: کِتَابُ اللِّعَانِ (بَابُ اللِّعَانِ)
صحیح مسلم: کتاب: لعان کےاحکام ومسائل (لعان کےاحکام ومسائل) تمہید کتاب

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا وقَالَ عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنْ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنْ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنهَا وَمَا بَطَنَ

جریر نے اعمش سے، انہوں نے ابووائل (شقیق) سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود ؓ) سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نہیں جسے مدح (اس کی رحمت و عنایت کا اقرار اور اس پر اس کی تعریف) پسند ہو، اسی لیے اس نے خود اپنی مدح فرمائی ہے اور کوئی نہیں جو اللہ سے بڑھ کر غیرت مند ہو، اسی لیے اس نے بے حیائی کے تمام کام، ان میں سے جو ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں، حرام کر دیے ہیں۔"
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ التَّوبَةِ (بَابُ غَيْرَةِ اللهِ تَعَالَى وَتَحْرِيمِ الْفَوَاحِشِ)
صحیح مسلم: کتاب: توبہ کا بیان (باب: اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان، نیز بے حیائی کے کام حرام ہیں)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنْ اللَّهِ وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنْ اللَّهِ
عبداللہ بن نمیر اور ابومعاویہ نے اعمش سے، انہوں نے شقیق سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود ؓ) سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ سے بڑھ کر کوئی غیور نہیں ہے، اسی لیے اس نے بے حیائی کے تمام کام، ان میں سے جو ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں حرام کر دیے ہیں، اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے جسے مدح زیادہ پسند ہو۔"
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ التَّوبَةِ (بَابُ غَيْرَةِ اللهِ تَعَالَى وَتَحْرِيمِ الْفَوَاحِشِ)
صحیح مسلم: کتاب: توبہ کا بیان (باب: اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان، نیز بے حیائی کے کام حرام ہیں)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُؤْمِنُ يَغَارُ وَاللَّهُ أَشَدُّ غَيْرًا


عبدالعزیز بن محمد نے علاء سے، انہوں نے اپنے والد (عبدالرحمٰن) سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مومن (دوسرے) مومن کے لیے غیرت کرتا ہے (کہ اس کی حرمت پامال نہ کی جائے) اور اللہ تعالیٰ تو غیرت میں اس سے بڑھ کر ہے۔"
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ التَّوبَةِ (بَابُ غَيْرَةِ اللهِ تَعَالَى وَتَحْرِيمِ الْفَوَاحِشِ)
صحیح مسلم: کتاب: توبہ کا بیان (باب: اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان، نیز بے حیائی کے کام حرام ہیں)

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ هِشَامٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ أَسْمَاءَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَا شَيْءَ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

ہشام نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے ابوسلمہ سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے حضرت اسماء ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ عزوجل سے بڑھ کر کوئی غیور نہیں ہے۔"
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ التَّوبَةِ (بَابُ غَيْرَةِ اللهِ تَعَالَى وَتَحْرِيمِ الْفَوَاحِشِ)
صحیح مسلم: کتاب: توبہ کا بیان (باب: اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان، نیز بے حیائی کے کام حرام ہیں)

قَالَ يَحْيَى وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيْسَ شَيْءٌ أَغْيَرَ مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

یحییٰ نے کہا: مجھے ابوسلمہ نے حدیث بیان کی، انہٰن عروہ بن زبیر نے بیان کیا، انہیں حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ نے حدیث سنائی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: "کوئی نہیں جو اللہ عزوجل سے زیادہ غیرت مند ہو۔"
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ التَّوبَةِ (بَابُ غَيْرَةِ اللهِ تَعَالَى وَتَحْرِيمِ الْفَوَاحِشِ)
صحیح مسلم: کتاب: توبہ کا بیان (باب: اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان، نیز بے حیائی کے کام حرام ہیں)

حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ابْنِ عُلَيَّةَ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ قَالَ قَالَ يَحْيَى وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ يَغَارُ وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يَغَارُ وَغَيْرَةُ اللَّهِ أَنْ يَأْتِيَ الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ عَلَيْهِ

حجاج بن ابی عثمان نے کہا: یحییٰ (بن ابی کثیر) نے کہا: مجھے ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ غیرت فرماتا ہے اور بےشک مومن بھی غیرت کرتا ہے۔ اللہ کی غیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ مومن ایسے کام کا ارتکاب کرے جو اس نے اس پر حرام کیا ہے۔"
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ التَّوبَةِ (بَابُ غَيْرَةِ اللهِ تَعَالَى وَتَحْرِيمِ الْفَوَاحِشِ)
صحیح مسلم: کتاب: توبہ کا بیان (باب: اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان، نیز بے حیائی کے کام حرام ہیں)

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنْ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ وَلَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنْ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ أَنْزَلَ الْكِتَابَ وَأَرْسَلَ الرُّسُلَض

عبدالرحمٰن بن یزید نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کوئی نہیں جسے اللہ سے بڑھ کر مدح پسند ہو، اسی بنا پر اس نے اپنی مدح فرمائی اور کوئی نہیں جو اللہ سے بڑھ کر غیرت مند ہو، اسی بنا پر اس نے تمام فواحش حرام کر دیں اور کوئی نہیں جسے اللہ سے بڑھ کر (بندوں کا اس سے) معذرت کرنا پسند ہو، اسی بنا پر اس نے کتاب نازل فرمائی اور پیغمبروں کو بھیجا۔"
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ التَّوبَةِ (بَابُ غَيْرَةِ اللهِ تَعَالَى وَتَحْرِيمِ الْفَوَاحِشِ)
صحیح مسلم: کتاب: توبہ کا بیان (باب: اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان، نیز بے حیائی کے کام حرام ہیں)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ قُلْتُ لَهُ آنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ وَرَفَعَهُ أَنَّهُ قَالَ لَا أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنْ اللَّهِ وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنْ اللَّهِ وَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ


عمرو بن مرہ نے کہا: میں نے ابووائل کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا، وہ کہتے تھے ۔۔ (عمرو بن مرہ نے) کہا: میں نے ان (ابووائل) سے کہا: کیا آپ نے خود عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ اور انہوں نے اسے مرفوعا بیان کیا: ۔۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں، اسی لیے اس نے تمام کھلی اور پوشیدہ فواحش (بے حیائی کی باتیں) حرام کر دیں اور اللہ سے بڑھ کر کسی کو مدح پسند نہیں (کیونکہ حقیقت میں وہی مدح کا حقدار ہے)، اسی لیے اس نے اپنی مدح فرمائی ہے۔"
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ التَّوبَةِ (بَابُ غَيْرَةِ اللهِ تَعَالَى وَتَحْرِيمِ الْفَوَاحِشِ)
صحیح مسلم: کتاب: توبہ کا بیان (باب: اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان، نیز بے حیائی کے کام حرام ہیں)



(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ «أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ؟ فَتَلاَعَنَا فِي المَسْجِدِ، وَأَنَا شَاهِدٌ»

حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ایسے شخص کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں جس نے اپنی بیوی کے ہمراہ اجنبی مردکو پایا ہو، کیا وہ اسے قتل کر دے؟ اس کے بعد دونوں میاں بیوی نے مسجد میں لعان کیا اور میں وہاں موجود تھا۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ القَضَاءِ وَاللِّعَانِ فِي المَسْجِدِ بَيْنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ)
صحیح بخاری: کتاب: نماز کے احکام ومسائل (باب: مسجد میں فیصلے کرنا اور مردوں اور عورتوں (خاوند، بیوی) کے درمیان لعان کرانا (جائز ہے) ۔)

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ عُوَيْمِرًا أَتَى عَاصِمَ بْنَ عَدِيٍّ وَكَانَ سَيِّدَ بَنِي عَجْلَانَ فَقَالَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي رَجُلٍ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَأَتَى عَاصِمٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ فَسَأَلَهُ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرِهَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا قَالَ عُوَيْمِرٌ وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَجَاءَ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ الْقُرْآنَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُلَاعَنَةِ بِمَا سَمَّى اللَّهُ فِي كِتَابِهِ فَلَاعَنَهَا ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ حَبَسْتُهَا فَقَدْ ظَلَمْتُهَا فَطَلَّقَهَا فَكَانَتْ سُنَّةً لِمَنْ كَانَ بَعْدَهُمَا فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْظُرُوا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَلَا أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ فَلَا أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلَّا قَدْ كَذَبَ عَلَيْهَا فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَصْدِيقِ عُوَيْمِرٍ فَكَانَ بَعْدُ يُنْسَبُ إِلَى أُمِّهِ
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عویمر بن حارث ؓ حضرت عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے جو (عویمر کے) قبیلہ بنو عجلان کے سردار تھے اور ان سے پوچھا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھے تو تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟ اگر وہ اس کو مار ڈالے تو تم لوگ بھی اسے مار ڈالو گے؟ پھر وہ کیا کرے؟ آپ میرے لیے رسول اللہ ﷺ سے اس مسئلے کا حل دریافت کریں، چنانچہ حضرت عاصم بن عدی ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! (اس مسئلے کا کیا حل ہے؟) رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوالات کو برا خیال کیا۔ پھر جب حضرت عویمر ؓ نے حضرت عاصم ؓ سے اپنے مسئلے کا جواب پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے مسائل پوچھنے کو ناپسند کیا اور معیوب قرار دیا ہے۔ حضرت عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو رسول اللہ ﷺ سے اس مسئلے کا حل پوچھ کر رہوں گا، چنانچہ حضرت عویمر ؓ خود رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھے تو کیا کرے؟ اگر اس کو مار ڈالے تو آپ بھی اس کو مار ڈالیں گے؟ پھر آخر کیا کرے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالٰی نے تیرے اور تیری بیوی کے متعلق قرآن نازل کر دیا ہے۔" پھر رسول اللہ ﷺ نے دونوں میاں بیوی کو لعان کا حکم دیا جیسا کہ قرآن مجید میں حکم نازل ہوا تھا، چنانچہ حضرت عویمر ؓ نے اپنی بیوی سے لعان کیا اور کہا: اللہ کے رسول! اگر اب میں اس عورت کو رکھوں تو میں نے اس پر ظلم کیا۔ اس کے بعد حضرت عویمر ؓ نے اسے طلاق دے دی۔ پھر لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ جاری ہو گیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "دیکھتے رہو۔ اس عورت کو جو بچہ پیدا ہوا اگر وہ سانولا، کالی آنکھوں، بڑے سرین اور موٹی پنڈلیوں والا ہوا تو میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اپنی بیوی کے متعلق سچ کہا اور اگر بچہ گرگٹ کی طرح سرخ رنگ کا پیدا ہو تو میرے خیال کے مطابق عویمر نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہے۔" پھر جب بچہ پیدا ہوا تو رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی علامات کے مطابق عویمر سچا نکلا۔ اس کے بعد وہ بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (سُورَةُ النُّورِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلاَّ أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ﴾)
صحیح بخاری: کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں (باب: سورۃ نور کی تفسیر آیت ﴿والذین یرمون﴾ الایۃکی تفسیر” یعنی اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنے (اور) کوئی گواہ نہ ہو تو ان کی شہادت یہ کہ وہ (مرد) چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ میں سچا ہوں“۔)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُوَيْمِرًا العَجْلاَنِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ، جَاءَ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عَاصِمٌ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لاَ أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسْطَ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا» قَالَ سَهْلٌ: فَتَلاَعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا، قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: «فَكَانَتْ تِلْكَ سُنَّةَ المُتَلاَعِنَيْنِ»
سیدنا سہل بن سعد ساعد ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عویمر عجلانی ؓ سیدنا عاصم بن عدی انصاری ؓ کے پاس آۓ اور ان سے کہا: اے عاصم! تمہارا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پاۓ تو کیا وہ اسے قتل کرسکتا ہے، اس صورت میں تم اس (شوہر) کو بھی قتل کردو گے یا پھر وہ (شوہر) کیا کرے؟ اے عاصم! میرے لیے یہ مئسلہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ کر بتاؤ، چنانچہ سیدنا عاصم ؓ نے جب یہ مئسلہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور انہیں معیوب قرار دیا حتی کہ سیدنا عاصم ؓ سے سنی تھی۔ جب عاصم ؓ اپنے گھر آئے تو حضرت عویمر ؓ نے آکر ان سے پوچھا: اے عاصم! رسول اللہ ﷺ نے آپ سے کیا فرمایا ہے؟ سیدنا عاصم ؓ نے کہا: تم نے تو مجھے آفت میں ڈال دیا ہے کیونکہ جو سوال تم نے پوچھا وہ رسول اللہ ﷺ کو بہت ناگوار گزرا۔ سیدنا عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ سے یہ مئسلہ پوچھے بغیر نہیں رہوں گا چنانچہ وہ روانہ ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ اس وقت آپ لوگوں کے درمیان تشریف فر تھے۔ سیدنا عویمر ؓ نے عویمر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو پائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ اسے قتل کردے؟ اس صورت میں لوگ اسے بھی قتل کردیں گے یا پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ رسول اللہ ﷺ فرمایا:” اللہ تعالٰی نے تیرے اور تیری بیوی کے بارے میں وحی نازل فرمائی ہے۔ اس لیے تم جاؤ اور اپنی بیوی کو بھی ساتھ لاؤ۔ “سیدنا سہل ؓ کا بیان ہے کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا، میں اس وقت لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو حضرت عویمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر (اب بھی) میں اسے اپنے پاس رکھوں تو (اس کا مطلب یہ ہےکہ) میں نے اس پر جھوٹ بولا تھا، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے قبل ہی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالیں ابن شہاب نے کہا: پھر لعان کرنے والوں کے لیے یہی طریقہ جاری ہوگیا
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ مَنْ أَجَازَ طَلاَقَ الثَّلاَثِ)
صحیح بخاری: کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان (باب: اگر کسی نے تین طلاق دے دیں)

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُوَيْمِرًا العَجْلاَنِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عَاصِمٌ لِعُوَيْمِرٍ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لاَ أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَطَ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أُنْزِلَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا» قَالَ سَهْلٌ: فَتَلاَعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ تَلاَعُنِهِمَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا، قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتْ سُنَّةَ المُتَلاَعِنَيْنِ
سیدنا سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی، سیدنا عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے عاصم! مجھے اس آدمی کے متعلق بتاؤ جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو پائے تو کیا اسے قتل کرے؟ لیکن پھر اپ لوگ اسے بھی قتل کردیں گے۔ آخر اسے کیا کرنا چاہیے؟ اے عاصم! میرے لیے یہ مسئلہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ دو، چنانچہ عاصم ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو نا پسند فرمایا اور اظہار ناگواری کیا حتیٰ کہ عاصم ؓ نے اس سلسلے میں جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنا وہ ان پر بہت گراں گزرا۔ جب عاصم ؓ اپنے گھر وآپس آئے تو عویمر ان کے پاس آئے اور کہا: اے عاصم! تمہیں رسول اللہ ﷺ نے کیا جواب دیا؟ عاصم نے عویمر سے کہا: تم نے میرے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔ جو مسئلہ تم نے پوچھا رسول اللہ ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا سیدنا عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! جب تک میں یہ مسئلہ آپ ﷺ سے نہ پوچھ لوں، میں اس سے باز نہیں آؤں گا، چنانچہ عویمر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ کے پاس دیگر صحابہ بھی موجود تھے۔ عویمر نے عرض کی: عویمر نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کا اس آدمی کے متعلق کیا ارشاد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پائے کیا اس کو قتل کردے؟ لیکن آپ لوگ اسے (قصاص میں) قتل کردیں گے۔ آخر یہ شخص کیا کرے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” تمہارے اور تمہاری بیوی کےمتعلق ابھی اللہ تعالٰی نے وحی نازل کی ہے جاؤ اور اپنی بیوی کو لے آؤ“سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ان دونوں نے لعان کیا۔ میں بھی اس وقت دوسرے لوگوں کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا۔ جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر نے کہا: اللہ کے رسول! اگر اب بھی میں اسے اپنے پاس رکھتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اس پر جھوٹ بولا ہے۔ چنانچہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے پہلے ہی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ ابن شہاب نے کہا: یہ لعان کرنے والوں کا طریقہ ہے
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ اللِّعَانِ، وَمَنْ طَلَّقَ بَعْدَ اللِّعَانِ)
صحیح بخاری: کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان (باب: لعان اور لعان کے بعد طلاق دینے کا بیان)

حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنِ المُلاَعَنَةِ، وَعَنِ السُّنَّةِ فِيهَا، عَنْ حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَخِي بَنِي سَاعِدَةَ: أَنَّ رَجُلًا مِنَ الأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي شَأْنِهِ مَا ذَكَرَ فِي القُرْآنِ مِنْ أَمْرِ المُتَلاَعِنَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ قَضَى اللَّهُ فِيكَ وَفِي امْرَأَتِكَ» قَالَ: فَتَلاَعَنَا فِي المَسْجِدِ وَأَنَا شَاهِدٌ، فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا، قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَا مِنَ التَّلاَعُنِ، فَفَارَقَهَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ذَاكَ تَفْرِيقٌ بَيْنَ كُلِّ مُتَلاَعِنَيْنِ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتِ السُّنَّةُ بَعْدَهُمَا أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَ المُتَلاَعِنَيْنِ. وَكَانَتْ حَامِلًا، وَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى لِأُمِّهِ، قَالَ: ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي مِيرَاثِهَا أَنَّهَا تَرِثُهُ وَيَرِثُ مِنْهَا مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ فِي هَذَا الحَدِيثِ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنْ جَاءَتْ بِهِ أَحْمَرَ قَصِيرًا، كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ، فَلاَ أُرَاهَا إِلَّا قَدْ صَدَقَتْ وَكَذَبَ عَلَيْهَا، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ أَعْيَنَ، ذَا أَلْيَتَيْنِ، فَلاَ أُرَاهُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا» فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى المَكْرُوهِ مِنْ ذَلِكَ
سیدنا سہل بن سعد ؓ جو بنو ساعدہ سے ہیں، ان سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس آدمی کے متعلق کیا کہتے ہیں جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا وہ اسے قتل کردے یا اسے کیا کرنا چاہئے؟ تو اس وقت اللہ تعالٰی نے قرآن مجہد میں وہ آیات نازل فرمائیں جن میں لعان کرنے والوں کے متعلق تفصیلات ہیں۔ نبی ﷺ نے (ان سے) فرمایا:” اللہ تعالٰی نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق فیصلہ کردیا ہے۔ “پھر میاں بیوی دونوں نے مسجد میں لعان کیا۔ میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو انصاری صحابی نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر اب بھی میں اسے اپنے نکاح میں رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی چانچہ لعان سے فراغت کے فوراً بعد رسول اللہ ﷺ کے حکم سے پہلے ہی اس نے تین طلاقیں دے دیں اور نبی ﷺ کی موجودگی ہی میں وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ راوی نے کہا: ہر لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا یہی طریقہ مقرر ہواابن شہاب نے کہا: ان نے بعد یہی طریقہ متعین ہوا کہ لعان کرنے والے دونوں میاں بیوی کے درمیان تفریق کرادی جائے۔ اور وہ حاملہ تھی اور اس کے بیٹے کو ماں کے نام سے بلایا جاتا تھا۔ پھر ایسی عورت کی وراثت کے متعلق بھی یہی طریقہ مقرر ہوا کہ بچہ اس کا وراث ہوگا اور وہ بچے کی وراث ہوگی اس تفصیل کی مطابق جو اللہ تعالٰی نے وراثت کے سلسلے میں مقرر کی ہے سیدنا سہل بن سعد ساعدی ؓ اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:” اگر یہ عورت اس حمل سے سرخ رنگ والا پست قد بچہ جنم دے، گویا وہ سام ابرص ہے تو میں سمجھوں گا کہ عورت سچی تھی اور اس کے شوہر نے آنکھوں والا اور موٹے سرینوں والا بچہ جنا تو میں خیال کروں گا کہ شوہر نے اس کے متعلق صحیح کہاتھا۔ “چنانچہ جب بچہ پیدا ہوا تو وہ بری شکل کا تھا، یعنی اس مرد کی صورت پر جس سے وہ بد نام ہوئی تھی
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ التَّلاَعُنِ فِي المَسْجِدِ)
صحیح بخاری: کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان (باب: مسجد میں لعان کرنے کا بیان)

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ القَاسِمِ، عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ ذُكِرَ التَّلاَعُنُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا الأَمْرِ إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبْطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَ أَهْلِهِ خَدْلًا آدَمَ كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ بَيِّنْ» فَجَاءَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ، فَلاَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا. قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي المَجْلِسِ: هِيَ الَّتِي قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ، رَجَمْتُ هَذِهِ» فَقَالَ: لاَ، تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الإِسْلاَمِ السُّوءَ قَالَ أَبُو صَالِحٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ: آدَمَ خَدِلًا
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس لعان کا ذکر کیا گیا تو سیدنا عاصم بن عدی ؓ نے اس کے متعلق بات کی، پھر وہ چلے گئے پھر ان کی قوم کاایک مرد کو پایا ہے۔ سیدنا عاصم ؓ نے کہا: آج یہ آزمائش میری ہی ایک بات کو وجہ سے پیش آئی ہے چنانچہ وہ اس آدمی کو لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاجر ہوئے اور آپ کو اس آدمی کے بارے میں بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کو مکروہ حالت میں پایا ہے۔ وہ آدمی خود زرد رنگ۔ کم گوشت والا اور سیدھے بالوں والا تھا اور جس کے متعلق اس نے دعویٰ کی اتھا کہ اسے اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے وہ بڑی بڑی پنڈلیوں والا، گندمی رنگ اور بھرے گوشت والا تھا، نبی ﷺ نے دعا فرمائی:” اے اللہ! یہ معاملہ واضح فرمادے“چنانچہ اس عورت نے اس مرد کے مشابہ بچہ جنم دیا جس کے متعلق اس کے شوہر نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اسے بیوی کے ساتھ پایا ہے۔ پھر نبی ﷺ نے ان (میاں بیوی) دونوں کے درمیان لعان کرایا۔ مجلس میں ایک شاگرد نے سیدنا ابن عباس ؓ سے پوچھا: یہ وہی عورت ہے جس کے متعلق نبی ﷺ فرمایا تھا:” اگر میں کسی کو گواہی کے بغیر سنگسار کرسکتا تو اس عورت کو کرتا۔ “سیدنا ابن عباس ؓ نے فرمایا: نہیں، یہ تو اس عورت کے متعلق فرمایا تھا جس کی بدکاری زمانہ اسلام میں کھل گئی تھیابو صالح اور عبداللہ بن یوسف نے ایک لفظ”خدلاً“پڑھا ہے
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ»)
صحیح بخاری: کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان (باب: رسول اللہ ﷺکا یہ فرمانا کہ اگر میں بغیر گواہی کے کسی کو سنگسار کرنے والا ہو تا تو اس عورت کو سنگسار کرتا)

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ القَاسِمِ، عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: ذُكِرَ المُتَلاَعِنَانِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَذَكَرَ لَهُ أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا الأَمْرِ إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا، قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبْطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي وَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ آدَمَ خَدْلًا كَثِيرَ اللَّحْمِ، جَعْدًا قَطَطًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ بَيِّنْ» فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَ عِنْدَهَا، فَلاَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي المَجْلِسِ: هِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ لَرَجَمْتُ هَذِهِ»؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لاَ، تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ السُّوءَ فِي الإِسْلاَمِ
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ لعان کرنے والوں کاذکر رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں ہوا تو سیدنا عاصم بن عدی ؓ نے اس کے متعلق ایک بات کہی پھر وہ چلے گئے۔ بعد ازاں ان کے پاس ان کی برادری کا ایک شخص آیا اور ان سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کے ہمراہ ایک غیر مرد کو پایا ہے۔ سیدنا عاصم ؓ نے کہا: میری یہ آزمائش میری ہی ایک بات کی بناء پر ہوئی ہے تاہم وہ اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو صورت حال سے آگاہ کیا جس میں اس نے اپنی بیوی کو پایا تھا۔ یہ صاحب زرد رنگ، کم گوشت اور سیدھے بالوں والاتھے اور جسے انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ پایا تھا اس کا گندمی رنگ، پنڈلیاں موٹی موٹی، جسم بھاری بھرکم اور بال سخت گھنگریالےتھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” اے اللہ! حقیقت حال کھول دے۔ “چنانچہ اس کی بیوی نے جو بچہ جنم دیا وہ اس شخص کے مشابہ تھا جس کی بیوی نے جو بچہ جنم دیا وہ اس شخص کے مشابہ تھا کہ انہوں نے اپنی بیوی کے پاس اسے پایا تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں (میاں بیوی) کے درمیان لعان کردیا۔ سیدنا ابن عباس ؓ سےان دونوں (میاں بیوی) کے درمیان لعان کردیا۔ سیدنا ابن عباس ؓ سے ان کے شاگرد نے اسی مجلس میں پوچھا کہ یہ وہی عورت تھی جس کئ متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” اگر میں کسی کو بلا شہادت سنگسار کرتا تو اسے کرتا۔ “سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، یہ تو ایک دوسری عورت تھی جو زمانہ اسلام میں اعلانیہ بد کاری کا ارتکاب کرتی تھی۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ قَوْلِ الإِمَامِ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ)
صحیح بخاری: کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان (باب: امام یا حاکم لعان کے وقت یوں دعا کرے یا اللہ! جواصل حقیقت ہے وہ کھول دے)

صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابُ مَنْ قَضَى وَلاَعَنَ فِي المَسْجِدِ)
حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ سَهْلٍ أَخِي بَنِي سَاعِدَةَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَلَاعَنَا فِي الْمَسْجِدِ وَأَنَا شَاهِدٌ

سیدنا سہل بن سعد ؓ جو بنو ساعدہ قبیلے کے ایک فرد ہیں انہوں نے بتایا کہ ایک انصاری شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا: آپ کا کیا خیال ہے اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو دیکھے تو کیا اسے قتل کرسکتا ہے؟ پھر مسجد میں ان دونوں کے درمیان لعان کرایا گیا جبکہ میں وہاں موجود تھا
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابُ مَنْ قَضَى وَلاَعَنَ فِي المَسْجِدِ)
صحیح بخاری: کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں (باب: جو مسجد میں فیصلہ کرے یا لعان کرائے)

حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذِئْبٍ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ جَاءَ عُوَيْمِرٌ الْعَجْلَانِيُّ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ فَقَالَ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَيَقْتُلُهُ أَتَقْتُلُونَهُ بِهِ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ فَكَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا فَرَجَعَ عَاصِمٌ فَأَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرِهَ الْمَسَائِلَ فَقَالَ عُوَيْمِرٌ وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى الْقُرْآنَ خَلْفَ عَاصِمٍ فَقَالَ لَهُ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكُمْ قُرْآنًا فَدَعَا بِهِمَا فَتَقَدَّمَا فَتَلَاعَنَا ثُمَّ قَالَ عُوَيْمِرٌ كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا فَفَارَقَهَا وَلَمْ يَأْمُرْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِرَاقِهَا فَجَرَتْ السُّنَّةُ فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْظُرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَحْمَرَ قَصِيرًا مِثْلَ وَحَرَةٍ فَلَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ كَذَبَ وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَعْيَنَ ذَا أَلْيَتَيْنِ فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى الْأَمْرِ الْمَكْرُوهِ
سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: سیدنا عویمر عجلانی ؓ سیدنا عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے اور کہا: اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ مرد کو پائے اور اس سے قتل کردیں گے؟ اے عاصم! آپ رسول اللہ ﷺ سے میرے لیے یہ مسلہ دریافت کریں۔ انہوں نے آپ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور معیوب خیال کیا۔ سیدنا عاصم ؓ نے واپس آکر انہیں بتایا کہ نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا ہے۔ سیدنا عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں خود نبی ﷺ کے پاس جاتا ہوں۔ پھر وہ آئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عاصم ؓ کے واپس جانے کے بعد قرآن کی آیات آپ پر نازل کردی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:” تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے۔“پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ وہ دونوں آئے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں اس عورت کو اپنے پاس رکھوں تو میں نے اس پر جھوٹ بولا ہوگا، اس لیے انہوں نے فورے طور پر اپنی بیوی کو جدا کردیا جبکہ نبی ﷺ نے جدا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔پھرلعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائچ ہوگیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا:” تم دیکھتے رہو اگر اس عورت نے چھوٹے قد والا سرخ رنگ کا بچہ جنم دیا جیسے زمین کا کیڑا ہوتا ہے تو میں عویمر کو جھوٹا خیال کروں گا۔ اور اگر اس نے کالا، موٹی آنکھوں والا بھاری سرینوں والا بچی جنا تو میں سمجھوں گا کہ عویمر سچا ہے۔“پھر اس عورت نے مکروہ صورت کا بچہ جنم دیا، یعنی جس مرد سے بدنام ہوئی تھی اسی صورت کا بچہ پیدا ہوا۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ)
صحیح بخاری: کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا (باب: کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا)

وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ، جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ لَهُ: أَرَأَيْتَ يَا عَاصِمُ لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ، فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَسَلْ لِي عَنْ ذَلِكَ يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ عَاصِمٌ لِعُوَيْمِرٍ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا؟ قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللهِ، لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَطَ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ؟ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ نَزَلَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا»، قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: «فَكَانَتْ سُنَّةَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے امام مالک کے سامنے قراءت کی کہ ابن شہاب سے روایت ہے، حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: عاصم! آپ کی کیا رائے ہے اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے کیا وہ اسے قتل کر دے، اس پر تو تم اسے (قصاصا) قتل کر دو گے یا پھر وہ کیا کرے؟ عاصم! میرے لیے اس مسئلے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھئے۔ چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے (غیر پیش آمدہ) مسائل کو ناپسند فرمایا اوران کی مذمت کی، یہاں تک کہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے جو بات سنی وہ انہیں بہت گراں گزری۔ جب عاصم رضی اللہ عنہ واپس اپنے گھر آئے تو عویمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا فرمایا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے عویمر رضی اللہ عنہ سے کہا: تو میرے پاس بھلائی (کی بات) نہیں لایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے کو جس کے متعلق میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، ناپسند فرمایا۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے ہا: اللہ کی قسم! میں نہیں رکوں گا یہاں تک کہ میں (خود) اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لوں۔ چنانچہ عویمر رضی اللہ عنہ لوگوں کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کی اس آدمی کے بارے میں کیا رائے ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی (غیر) مرد کو پائے، کیا وہ اسے قتل کرے اور آپ (قصاصا) اسے قتل کر دیں گے یا پھر وہ کیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں (قرآن) نازل ہو چکا ہے، تم جاؤ اور اسے لے کر آؤ۔" حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: ان دونوں نے آپس میں لعان کیا، میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، جب وہ دونوں (لعان سے) فارغ ہوئے، عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں نے (اب) اس کو اپنے پاس رکھا تو (گویا) میں نے اس پر جھوٹ بولا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی انہوں نے اسے تین طلاقیں دے دیں۔ ابن شہاب نے کہا: اس کے بعد یہی لعان کرنے والوں کا (شرعی) طریقہ ہو گیا-
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: کِتَابُ اللِّعَانِ (بَابُ اللِّعَانِ)
صحیح مسلم: کتاب: لعان کےاحکام ومسائل (لعان کےاحکام ومسائل) تمہید کتاب

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ وَعَنِ السُّنَّةِ فِيهِمَا، عَنْ حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَخِي بَنِي سَاعِدَةَ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ وَزَادَ فِيهِ فَتَلَاعَنَا فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنَا شَاهِدٌ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَارَقَهَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ذَاكُمُ التَّفْرِيقُ بَيْنَ كُلِّ مُتَلَاعِنَيْنِ.

ابن جریج نے کہا: مجھے ابن شہاب نے، بنو ساعدہ کے فرد حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث کے حوالے سے لعان کرنے والوں اور ان کے بارے میں جو طریقہ رائج ہے اس کے متعلق بتایا کہ انصار میں سے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! آپ کی کیا رائے ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے؟ ۔۔۔ آگے مکمل قصے سمیت حدیث بیان کی اور یہ اضافہ کیا: ان دونوں نے، میری موجودگی میں، مسجد میں لعان کیا اور انہوں نے حدیث میں (یہ بھی) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی اس نے اسے تین طلاقیں دے دیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی ہی میں اس سے جدا ہو گیا تو آپ نے فرمایا: "ہر دو لعان کرنے والوں کے درمیان یہ تفریق ہی (شریعت کا حتمی طریقہ) ہے-
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: کِتَابُ اللِّعَانِ (بَابُ اللِّعَانِ)
صحیح مسلم: کتاب: لعان کےاحکام ومسائل (لعان کےاحکام ومسائل) تمہید کتاب

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: إِنَّا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَتَكَلَّمَ، جَلَدْتُمُوهُ، أَوْ قَتَلَ، قَتَلْتُمُوهُ، وَإِنْ سَكَتَ، سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، وَاللهِ لَأَسْأَلَنَّ عَنْهُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَتَكَلَّمَ، جَلَدْتُمُوهُ، أَوْ قَتَلَ، قَتَلْتُمُوهُ، أَوْ سَكَتَ، سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، فَقَالَ: «اللهُمَّ افْتَحْ وَجَعَلَ يَدْعُو»، فَنَزَلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ هَذِهِ الْآيَاتُ، فَابْتُلِيَ بِهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْنِ النَّاسِ، فَجَاءَ هُوَ وَامْرَأَتُهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَلَاعَنَا فَشَهِدَ الرَّجُلُ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنِ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ لَعَنَ الْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، فَذَهَبَتْ لِتَلْعَنَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَهْ، فَأَبَتْ، فَلَعَنَتْ، فَلَمَّا أَدْبَرَا، قَالَ» لَعَلَّهَا أَنْ تَجِيءَ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا "، فَجَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا.

جریر نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم جمعے کی رات مسجد میں تھے کہ انصار میں سے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی (غیر) مرد کو پائے اور بات کرے تو آپ لوگ اسے (قذف کے) کوڑے لگاؤ گے، یا اسے قتل کر دے تو آپ لوگ اسے (قصاصا) قتل کر دو گے۔ اور اگر وہ خاموش رہے تو غیظ و غضب (کی کیفیت) پر خاموش رہے گا (جو ناقابلِ برداشت ہے۔) اللہ کی قسم! میں ہر صورت اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کروں گا، جب دوسرا دن ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سوال کیا: اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے اور بولے تو آپ اسے (قذف کے) کوڑے لگائیں گے، یا اسے قتل کر دے تو آپ اسے (قصاص میں) قتل کر دیں گے، اگر وہ خاموش رہے تو غیظ وغضب (کے بھڑکتے الاؤ) پر خاموش رہے گا۔ اس پر آپ نے کہا: "اے اللہ! (اس عقدے کو) کھول دے۔" آپ مسلسل دعا فرماتے رہے (پھر حضرت ہلال بن امیہ کا واقعہ پیش آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور زیادہ الحاح سے دعا فرمائی) تو لعان کی آیت نازل ہوئی: "وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے اپنے علاوہ ان کا کوئی گواہ نہ ہو ۔۔۔" (پہلے ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی نے لعان کیا، پھر) لوگوں میں سے وہی آدمی (جس نے آ کر اس حوالے سے سوال کیا تھا) اس میں مبتلا ہوا، تو وہ اور اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان دونوں نے باہم لعان کیا، مرد نے اللہ (کے نام) کی چار شہادتیں دیں (قسمیں کھائیں) کہ وہ سچوں میں سے ہے، پھر پانچویں مرتبہ اس نے لعنت بھیجی کہ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر اس کے بعد وہ لعان کرنے لگی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "رکو" (جھوٹی قسم نہ کھاؤ، لعنت کی سزاوار نہ بنو) تو اس نے انکار کر دیا اور لعان کیا، جب وہ دونوں پیٹھ پھیر کر مڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہو سکتا ہے وہ سیاہ فام رنگ گھنگھریالے بالوں والے بچے کو جنم دے" تو (واقعی) اس نے سیاہ فام گھنگھریالے بالوں والے بچے کو جنم دیا-
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: کِتَابُ اللِّعَانِ (بَابُ اللِّعَانِ)
صحیح مسلم: کتاب: لعان کےاحکام ومسائل (لعان کےاحکام ومسائل) تمہید کتاب


(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مندرجہ بالا احادیث میں چند امور بیان ہوئے ہیں:
کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیور کوئی نہیں، اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فحاشی وزنا وغیرہ کو حرام قرار دیا ہے!
سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا اپنی غیرت کا بیان یوں کرنا کہ وہ اگر اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ پائیں تو اسے قتل کردیں، اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ یہ کہنا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ غیرت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے، اور اللہ تعالی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ غیرت ہے!
اور اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت میں کہ جب کوئی اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھے تو لعان کا حکم دیاہے، اور اگرکسی نے ایسی صورت میں اپنی بیوی کو قتل کردیا، تو اسے قصاصاً قتل کیا جائے گا!
اب انسان کے جذبات وغیرت کس قدر بھی مجروح ہو، شریعت کا حکم ہی مقدم ہے، اسے اپنے جذبات وغیرت کو قابو کرنا ہوگا! یہ صبر کا ایک پہلو ہے کہ انسان ایسی حالت میں شریعت کی مخالفت سے بچے!
ہمارے معاشرے میں اسی غیرت کے نام پر قتل کرکے قاتل کے لئے عذر تراشے جاتے ہیں، اور شریعت کے احکام سے صرف نظر کرلی جاتی ہے! حالانکہ یہ تو ایک منصوص مسئلہ ہے!
اب آپ ذرا اس سوچ وفکر پر نظر کریں کہ آیا یہ سوچ اور فکر اسلامی شریعت کے موافق ہے یا نہیں؟
یہ تھریڈ ایک سانحے کا نتیجہ ہے
5 ماہ کی اسیری کاٹنے والی بہن کو میں یہی سمجھا رہی تھی کہ علماء کرام کی غیبت مت کرو. اگر کوئی بات بری لگ رہی تو بیزاری اور برأت کا اظہار کرو.
لیکن اسے دلیل کی بحث نہیں عدل و انصاف چاھیے تھا.

یہ فکر بالکل غلط ہے، عدل وانصاف شریعت اور اس کے دلائل کے موافق ہی ہے، نہ کہ کسی کے جذبات کے موافق، کہ وہ جسے عدل وانصاف سمجھ رہا ہو، اسے وہ چاہیئے، اس سے قطع نظر کہ دلائل شریعت کی روسے وہ عدل وانصاف ہو نہ ہو، اور دلائل کی بحث سے قطع نظر، جذبات کی رو سے فیصلہ کر لیا جائے کہ عدل وانصاف کیا ہے!
لہٰذا حق کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لئے لازم ہے کہ اپنی فہم و فکر کو جذبات کی غلامی سے آزاد کرکےشریعت کا تابع بنایاجائے!
اسی کے محلے کی کئی بہنیں ہفتہ دس دن، پندرہ دن کے لیے پکڑی جا رہیں، کیا یہ فساد نہیں کہلائے گا؟
اس کا جواب اگلے مراسلہ میں تحریر کرتا ہوں، ان شاء اللہ!
میں کس طرح ایک مظلوم کا دلیل سے پیٹ بھرتی؟
اللہ مظلوم کو صبر دے، اور اگر مظلوم کابھی شرعی احکام سے'' پیٹ نہیں بھرتا''، تو اللہ اس کو غارت کرے!
مظلوم بھی شرعی احکام سے آزاد نہیں ہوتے!
اس کی دلیل آگے بیان ہوگی، ان شاء اللہ!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اسی کے محلے کی کئی بہنیں ہفتہ دس دن، پندرہ دن کے لیے پکڑی جا رہیں، کیا یہ فساد نہیں کہلائے گا؟
اور سوال 3؛؛ بہنوں کو گھروں سے اٹھانا تفتیش کے لئے فساد نہ کہلائے گا؟
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ، وَالمِقْدَادَ بْنَ الأَسْوَدِ، قَالَ: «انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً، وَمَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا»، فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى الرَّوْضَةِ، فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا أَخْرِجِي الكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ المُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا حَاطِبُ مَا هَذَا؟»، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لاَ تَعْجَلْ عَلَيَّ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ، وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا، وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنَ المُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ بِمَكَّةَ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ، أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَمَا فَعَلْتُ كُفْرًا وَلاَ ارْتِدَادًا، وَلاَ رِضًا بِالكُفْرِ بَعْدَ الإِسْلاَمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ صَدَقَكُمْ»، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا المُنَافِقِ، قَالَ: إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ ، - قَالَ سُفْيَانُ: وَأَيُّ إِسْنَادٍ هَذَا -
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک مہم پرروانہ کیا اور فرمایا: " تم چلتے رہو حتی کہ روضہ خاخ پہنچ جاؤ۔ وہاں تمھیں اونٹ پر سوار ایک عورت ملے گی۔ اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے آؤ۔ "ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں لیے تیز ی سے دوڑے جا رہے تھے یہاں تک کہ ہم روضہ خاک پہنچ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں اونٹ سوار ایک عورت ہے۔ ہم نے اسے کہا: خط نکال۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا: خط نکال دو ورنہ ہم تیرے کپڑے اتاردیں گے، چنانچہ اس نے اپنے سر کے جوڑے سےخط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے خط کھول کر پڑھاتو اس میں یہ مضمون تھا: یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے چند مشرکین کے نام ہے، وہ انھیں رسول اللہ ﷺ کے بعض حالات کی خبر دے رہےہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے حاطب! یہ کیسا خط ہے؟" اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! مجھے سزا دینے میں جلدی نہ کریں بلکہ میرا عذر سن لیں۔ میرا قریش سے کوئی نسبی رشتہ نہیں بلکہ میں باہر سے آکر ان سے ملا ہوں۔ آپ کے ہمراہ جو مہاجرین ہیں ان سب کی مکہ مکرمہ میں رشتہ داریاں ہیں جن کی وجہ سے قریش، ان کے اہل وعیال اور مال واسباب کی حفاظت کریں گے۔ میں نے سوچا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبی رشتہ تو نہیں ہے تو میں ان پر کوئی ایسا احسان کروں جس کی وجہ سے وہ میرے قرابت داروں کی حفاظت کریں گے۔ میں نے یہ کام کفر کی بنا پر نہیں کیا اور نہ ہی میں دین اسلام سے پھر گیا ہوں اور نہ اسلام کے بعدکفر ہی پر راضی ہوا ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اس نے تمھیں سچ سچ بتادیاہے۔ "حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "چونکہ یہ شخص غزوہ بدر میں حاضر تھا، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھ کر فرمایا ہے کہ تم جو چاہو عمل کرو یقیناً میں تمھیں بخش چکا ہوں۔ "حضرت سفیان نے کہا کہ اس حدیث کی سند کیسی عجیب اور عمدہ ہے!
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ الجَاسُوسِ)
صحیح بخاری: کتاب: جہاد کا بیان (باب: جاسوسی کا بیان)

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ قَالَ سَمِعْتُ حُصَيْنَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ وَكُلُّنَا فَارِسٌ قَالَ انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا امْرَأَةً مِنْ الْمُشْرِكِينَ مَعَهَا كِتَابٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَأَدْرَكْنَاهَا تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا حَيْثُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا الْكِتَابُ فَقَالَتْ مَا مَعَنَا كِتَابٌ فَأَنَخْنَاهَا فَالْتَمَسْنَا فَلَمْ نَرَ كِتَابًا فَقُلْنَا مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُجَرِّدَنَّكِ فَلَمَّا رَأَتْ الْجِدَّ أَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ فَأَخْرَجَتْهُ فَانْطَلَقْنَا بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ فَدَعْنِي فَلِأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ قَالَ حَاطِبٌ وَاللَّهِ مَا بِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ إِلَّا لَهُ هُنَاكَ مِنْ عَشِيرَتِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ وَلَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ فَدَعْنِي فَلِأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ أَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمْ الْجَنَّةُ أَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ وَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ

حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے، ابومرثد اور حضرت زبیر رضی اللہ عنھم کو رسول اللہ ﷺ نے ایک مہم پر روانہ کیا۔ ہم سب شہسوار تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم سب چلتے رہو، جب تم روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی عورت ملے گی، اس کے پاس ایک خط ہے جو حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے نام ہے۔" چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے جس جگہ کا پتہ دیا تھا ہم نے وہیں اس عورت کو ایک اونٹ پر جاتے ہوئے پایا۔ ہم نے اسے کہا: خط ہمارے حوالے کر دو۔ اس نے کہا: ہمارے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھا کر اس کی تلاشی کی تو واقعی ہمیں کوئی خط نہ ملا لیکن ہم نے اسے کہا: رسول اللہ ﷺ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ خط ہمارے حوالے کر دو بصورت دیگر ہم تجھے ننگا کر دیں گے۔ جب اس نے ہمارا یہ سخت رویہ دیکھا تو اس نے اپنا ہاتھ اپنے کمر بند کی طرف مائل کر دیا اور اس نے خود کو اپنی چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔ بہرحال اس نے خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا۔ ہم اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے اللہ، اس کے رسول اور جملہ اہل ایمان سے دغا کیا ہے۔ آپ مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن اڑاتا ہوں۔ لیکن نبی ﷺ نے حاطب ؓ سے فرمایا: "جو تو نے کردار ادا کیا ہے اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا؟" حاطب نے کہا: اللہ کی قسم! میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہوں۔ میرا مقصد صرف اہل مکہ پر احسان کرنا تھا تاکہ اس کے باعث اللہ تعالٰی میرے اہل واولاد اور مال ودولت کو محفوظ رکھے۔ آپ کے اصحاب میں سے جتنے حضرات بھی ہیں ان سب کا وہاں قبیلہ موجود ہے اور اللہ ان کے ذریعے سے ان کے اہل وعیال اور مال ومتاع کی حفاظت کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "اس نے سچ سچ کہہ دیا ہے، اس لیے تم بھی اس کے متعلق کلمہ خیر ہی کہو۔" حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اس شخص نے اللہ، اس کے رسول اور اہل ایمان سے خیانت کی ہے۔ آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑاتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا وہ اہل بدر سے نہیں ہے۔" پھر فرمایا: "بےشک اللہ تعالٰی اہل بدر کے حالات سے مطلع ہوا اور فرمایا: آئندہ تم جو چاہو کرو تمہارے لیے جنت ثابت ہو چکی ہے" یا فرمایا: "میں نے تمہاری مغفرت کر دی ہے۔" یہ سن کر حضرت عمر ؓ آبدیدہ ہو گئے اور کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ فَضْلِ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا)
صحیح بخاری: کتاب: غزوات کے بیان میں (باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ قَالَ أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي رَافِعٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ فَقَالَ انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوا مِنْهَا قَالَ فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ قُلْنَا لَهَا أَخْرِجِي الْكِتَابَ قَالَتْ مَا مَعِي كِتَابٌ فَقُلْنَا لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ قَالَ فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ بِمَكَّةَ مِنْ الْمُشْرِكِينَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا حَاطِبُ مَا هَذَا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ يَقُولُ كُنْتُ حَلِيفًا وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مَنْ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنْ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا يَحْمُونَ قَرَابَتِي وَلَمْ أَفْعَلْهُ ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى مَنْ شَهِدَ بَدْرًا فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ السُّورَةَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنْ الْحَقِّ إِلَى قَوْلِهِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر اور حضرت مقداد رضی اللہ عنھم کو روانہ فرمایا اور حکم دیا: "تم چلتے رہو حتی کہ روضہ خاخ پہنچو۔ یقینا وہاں تمہیں اونٹنی پر سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے۔ تم اس سے حاصل کر کے لے آؤ۔" انہوں نے کہا: ہم وہاں سے چل پڑے۔ ہمارے گھوڑے ہمیں بڑی تیزی سے لے جا رہے تھے۔ جب ہم روضہ خاخ پہنچے تو واقعی وہاں ہمیں اونٹنی پر سوار ایک عورت ملی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال دے، وہ کہنے لگی: میرے پاس کوئی خط وغیرہ نہیں ہے۔ ہم نے کہا: تجھے خط نکالنا ہو گا بصورت دیگر ہم تیرے کپڑے اتار پھینکیں گے، چنانچہ اس نے اپنے بالوں کے جوڑے سے خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا جسے لے کر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس میں یہ لکھا تھا: "حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے نام۔" اس خط کے ذریعے سے وہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ راز مشرکین کو بتا رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے حاطب! یہ کیا ہے؟" حاطب نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ میرے معاملے میں جلدی سے کام نہ لیں۔ دراصل میں قریش کے خاندان سے نہیں تھا بلکہ میں ان کا حلیف تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کی مکہ مکرمہ میں قرابت داری ہے جس کی وجہ سے اہل مکہ ان کے اہل وعیال اور اموال ومتاع کی حفاظت کریں گے۔ میں نے خیال کیا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبتی رشتہ نہیں ہے تو میں ان پر کوئی احسان کر دوں جس کی وجہ سے وہ میری قرابت کی نگہبانی کریں۔ میں نے یہ کام اپنے دین سے برگشتہ ہو کر نہیں کیا اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کرنے کی وجہ ہی سے ایسا کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بلاشبہ اس شخص نے سچ سچ کہہ دیا ہے۔" (اس کے باوجود) حضرت عمر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اراتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ شخص بدر کی جنگ میں شریک ہو چکا ہے۔ تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالٰی نے غزوہ بدر میں حاضر ہونے والوں سے فرمایا ہے: تم جو چاہو عمل کرو۔ یقینا میں تمہیں بخش چکا ہوں۔" پھر اللہ تعالٰی یہ یہ سورت نازل فرمائی: "اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم انہیں اپنی محبت اور دوستی کا یقین دلاتے ہو حالانکہ وہ حق (سچے دین) کے منکر ہوئے ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے ۔۔ تو یقینا وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔"
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ غَزْوَةِ الفَتْحِ)
صحیح بخاری: کتاب: غزوات کے بیان میں (باب: غزوئہ فتح مکہ کا بیان)

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي رَافِعٍ كَاتِبَ عَلِيٍّ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ فَقَالَ انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا فَذَهَبْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ فَقُلْنَا أَخْرِجِي الْكِتَابَ فَقَالَتْ مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ فَقُلْنَا لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا فَأَتَيْنَا بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى أُنَاسٍ مِنْ الْمُشْرِكِينَ مِمَّنْ بِمَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا هَذَا يَا حَاطِبُ قَالَ لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مِنْ قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِمَكَّةَ فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي مِنْ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَصْطَنِعَ إِلَيْهِمْ يَدًا يَحْمُونَ قَرَابَتِي وَمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ كُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ فَقَالَ عُمَرُ دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ إِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ قَالَ عَمْرٌو وَنَزَلَتْ فِيهِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ قَالَ لَا أَدْرِي الْآيَةَ فِي الْحَدِيثِ أَوْ قَوْلُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا عَلِيٌّ قَالَ قِيلَ لِسُفْيَانَ فِي هَذَا فَنَزَلَتْ لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ الْآيَةَ قَالَ سُفْيَانُ هَذَا فِي حَدِيثِ النَّاسِ حَفِظْتُهُ مِنْ عَمْرٍو مَا تَرَكْتُ مِنْهُ حَرْفًا وَمَا أُرَى أَحَدًا حَفِظَهُ غَيْرِي

حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے، حضرت زبیر اور حضرت مقداد ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے روانہ کیا اور فرمایا: "جاؤ، جب تم روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں ہودج میں سوار ایک عورت ملے گی۔ اس کے پاس ایک خط ہو گا۔ تم نے وہ خط اس سے حاصل کرنا ہے۔" چنانچہ ہم روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے تیزی کے ساتھ ہمیں منزل مقصود کی طرف لے جا رہے تھے۔ آخر جب ہم روضہ خاخ پہنچے تو واقعی وہاں ہم نے ہودج میں سوار ایک عورت کو پایا۔ ہم نے اس سے کہا: خط نکال دو۔ اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ ہم نے کہا: خط نکال دو بصورت دیگر ہم تیرے کپڑے اتار (کر تیری تلاشی) لیں گے۔ آخر اس نے اپنی چوٹی سے خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا۔ ہم وہ خط لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس خط میں لکھا تھا: حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے چند افرادکے نام جو مکہ میں تھے۔ اس خط میں انہوں نے نبی ﷺ کی کچھ (جنگی) تیاری کا ذکر کیا تھا۔ نبی ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا: "اے حاطب! یہ کیا ہے؟" انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے معاملے میں جلدی نہ فرمائیں، اصل بات یہ ہے کہ میں مکہ میں قریش کے ساتھ بطور حلیف رہا کرتا تھا۔اس کے برعکس آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کی قریش میں رشتے داریاں ہیں، اس وجہ سے قریش، مکہ میں رہ جانے والے ان کے اہل و عیال اور ان کے مال و متاع کی حفاظت کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبی تعلق نہیں ہے تو اس موقع پر ان پر ایک احسان کر دوں تاکہ اس کی وجہ سے وہ مکہ میں مقیم میرے رشتے داروں کی حفاظت کریں۔ میں نے یہ کام کفر یا اپنے دین سے برگشتہ ہو جانے کی وجہ سے نہیں کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "بلاشبہ اس نے تم سے سچی بات کہہ دی ہے۔" حضرت عمر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا: "یہ بدر کی جنگ میں ہمارے ساتھ شریک تھے۔ تمہیں کیا معلوم اللہ تعالٰی تو اہل بدر کے حالات سے مطلع تھا اس کے باوجود اس نے ان کے متعلق فر دیا: جو جی چاہے کرو میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔" (راوی حدیث) عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ حاطب بن ابی بلتعہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ عَدُوِّى وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَآءَ﴾ سفیان بن عیینہ نے کہا: مجھے اس کا علم نہیں کہ اس آیت کا ذکر حدیث کا حصہ ہے یا عمرو بن دینار کا اپنا قول ہے۔ سفیان بن عیینہ سے پوچھا گیا: کیا ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ عَدُوِّى وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَآءَ﴾ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے متعلق نازل ہوئی تھی؟ سفیان نے جواب دیا: لوگوں کی روایت میں تو اسی طرح ہے لیکن میں نے عمرو بن دینار سے جو حدیث یاد کی ہے، اس میں سے ایک حرف بھی میں نے نہیں چھوڑا اور میں نہیں سمجھتا کہ میرے سوا کسی اور نے عمرو کی حدیث کو زیادہ یاد رکھا ہو۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (سُورَةُ المُمْتَحِنَةِ)
صحیح بخاری: کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں (باب: سورۃ الممتحنہ کی تفسیر)

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بُهْلُولٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ بْنَ العَوَّامِ وَأَبَا مَرْثَدٍ الغَنَوِيَّ، وَكُلُّنَا فَارِسٌ، فَقَالَ: «انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ»، فَإِنَّ بِهَا امْرَأَةً مِنَ المُشْرِكِينَ، مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى المُشْرِكِينَ، قَالَ: فَأَدْرَكْنَاهَا تَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْنَا: أَيْنَ الكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ؟ قَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَأَنَخْنَا بِهَا، فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا، قَالَ صَاحِبَايَ: مَا نَرَى كِتَابًا، قَالَ: قُلْتُ: لَقَدْ عَلِمْتُ مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ، لَتُخْرِجِنَّ الكِتَابَ أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتِ الجِدَّ مِنِّي أَهْوَتْ بِيَدِهَا إِلَى حُجْزَتِهَا، وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ، فَأَخْرَجَتِ الكِتَابَ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا حَمَلَكَ يَا حَاطِبُ عَلَى مَا صَنَعْتَ» قَالَ: مَا بِي إِلَّا أَنْ أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَا غَيَّرْتُ وَلاَ بَدَّلْتُ، أَرَدْتُ أَنْ تَكُونَ لِي عِنْدَ القَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي، وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ هُنَاكَ إِلَّا وَلَهُ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، قَالَ: «صَدَقَ، فَلاَ تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا» قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ: إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالمُؤْمِنِينَ، فَدَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، قَالَ: فَقَالَ: يَا عُمَرُ، وَمَا يُدْرِيكَ، لَعَلَّ اللَّهَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الجَنَّةُ قَالَ: فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ وَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ
حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حضرت زبیر بن عوام اور حضرت ابو مرثد غنویٰ ؓ کو بھیجا۔ ہم تینوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ آپ نے فرمایا:” تم جاؤ اور روضہ خاخ پہنچو وہاں تمہیں ایک مشرکہ عورت ملے گی۔ اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو انہوں نے مشرکین کے نام لکھا ہے۔ “حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ ہم نے وہاں ایک عورت کو پالیا جو اپنے اونٹ پر سوار ہوکر جارہی تھی وہ ہمیں اسی مقام پر ملی جہاں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ہم نے اس سے کہا: جو خط تم اپنے ساتھ لے جارہی ہو وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے کجاوے میں اسے تلاش کرنا شروع کردیا لیکن تلاش بسیار کے باوجود وہ دستیاب نہ ہو سکا، میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں تو کوئی خط وغیرہ نظر نہیں آیا۔ میں نے کہا مجھے یقین ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غلط بات نہیں کہی۔ اس ذات کی قسم جس کے نام پر قسم اٹھائی جاتی ہے تم خط نکالوبصورت دیگر ہم تجھے ننگا کر کے خط برآمد کریں گے جب اس عورت نے دیکھا کہ میں اپنے ہاتھ بڑھایا جبکہ وہ چادر باندھے ہوئے تھی اور خط نکال کردیے دیا۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کہا: ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے حاطب! تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کی: میں اب بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہوں، میرے اندر کوئی تغیر وتبدیلی نہیں آئی۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ میرا اہل مکہ پر کچھ احسان ہوجائے تاکہ اس کے سبب اللہ تعالٰی میرے اہل وعیال اور مال ومتاع کی نگرانی فرمائے آپ کے جتنے اصحاب ہیں ان کے مکہ مکرمہ میں ایسے افراد موجود ہیں جن کے زریعے سے اللہ تعالٰی ان کے مال اوراہل وعیال کی حفاظت فرماتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا:” اس نے سچ کہا ہے اب تم لوگ اس کے متعلق بھلائی اور خیر سگالی کے علاوہ کچھ نہ کہو۔ “یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا؛ اس شخص نے اللہ اس کے رسول اور اہل ایمان سے خیانت کی ہے آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑادوں۔ آپ نے فرمایا: اے عمر! تمہیں کیا معلوم یقیناً اللہ تعالٰی اہل بدر کی زندگی پر مطلع تھا اس کے باوجود اس نے کہا: تم جو چاہو کرو، تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب ؓ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

صحيح البخاري: كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ (بَابُ مَنْ نَظَرَ فِي كِتَابِ مَنْ يُحْذَرُ عَلَى المُسْلِمِينَ لِيَسْتَبِينَ أَمْرُهُ)
صحیح بخاری: کتاب: اجازت لینے کے بیان میں (باب: جس نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے ایسے شخص کامکتوب پکڑ لیا جس میں مسلمانوں کے خلاف کوئی بات لکھی گئی ہوتو یہ جائز ہے) تمہید باب

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ فُلَانٍ قَالَ تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ لِحِبَّانَ لَقَدْ عَلِمْتُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ عَلَى الدِّمَاءِ يَعْنِي عَلِيًّا قَالَ مَا هُوَ لَا أَبَا لَكَ قَالَ شَيْءٌ سَمِعْتُهُ يَقُولُهُ قَالَ مَا هُوَ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ وَأَبَا مَرْثَدٍ وَكُلُّنَا فَارِسٌ قَالَ انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ حَاجٍ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ هَكَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ حَاجٍ فَإِنَّ فِيهَا امْرَأَةً مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَأْتُونِي بِهَا فَانْطَلَقْنَا عَلَى أَفْرَاسِنَا حَتَّى أَدْرَكْنَاهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا وَقَدْ كَانَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِمَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقُلْنَا أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ قَالَتْ مَا مَعِي كِتَابٌ فَأَنَخْنَا بِهَا بَعِيرَهَا فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا فَقَالَ صَاحِبَايَ مَا نَرَى مَعَهَا كِتَابًا قَالَ فَقُلْتُ لَقَدْ عَلِمْنَا مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ حَلَفَ عَلِيٌّ وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ فَأَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ فَأَخْرَجَتْ الصَّحِيفَةَ فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا حَاطِبُ مَا حَمَلكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَلَكِنِّي أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يُدْفَعُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ أَحَدٌ إِلَّا لَهُ هُنَالِكَ مِنْ قَوْمِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ قَالَ صَدَقَ لَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا قَالَ فَعَادَ عُمَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِي فَلِأَضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ أَوَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ أَوْجَبْتُ لَكُمْ الْجَنَّةَ فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ خَاخٍ أَصَحُّ وَلَكِنْ كَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ حَاجٍ وَحَاجٍ تَصْحِيفٌ وَهُوَ مَوْضِعٌ وَهُشَيْمٌ يَقُولُ خَاخٍ

سعد بن عبیدہ سلمی سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو عبد الرحمن اور حبّان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ اس دوران میں ابو عبد الرحمن نے حبان سے کہا: مجھے معلوم ہے کہ آپ کئ ساتھی کو کس چیز نے خون ریزری پر دلیر کیا ہے۔ اس سے مراد حضرت علی ؓ تھے۔ حبان نے کہا: تیرا باپ نہ ہو!” وہ کیا ہے؟ “ابو عبد الرحمن نے کہا: میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد ؓ کو ایک مہم کے لیے بھیجا جبکہ ہم گھوڑوں پر سوار تھے۔ آپ نے فرمایا:” جاؤ اور روضہ حاج پہینچو۔ ابو سلمہ نے کہا: ابو عوانہ نے اسی طرح (روضہ خاج کے بجائے روضہ) حاج کہا ہے۔ ۔ وہاں ایک عورت ہے، اس کے پاس حلب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو اس نے مشرکین مکہ کے نام لکھا ہے، تم وہ (خط) میرے پاس لاؤ۔“ہم اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دوڑ پڑے چنانچہ ہم نے اسے سی جگہ پایا جہاں رسول اللہ ﷺ نے مجھے حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد ؓ کو ایک مہم کے لیے بھیجا جبکہ ہم گھوڑوں پر سوار تھے، آپ نے فرمایا: جاؤ اور روضہ حاج پہنچو۔ ابو اسلمہ نے کہا: ابو عوانہ نے اسی طرح (روضہ خاخ کے بجائے روضہ) حاج کہا ہے۔ ۔ وہاں ایک عورت ہے، اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو اس نے مشرکین مکہ کے نام لکھا ہے۔ تم وہ (خط) میرے پاس لاؤ۔ ہم اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دوڑ پڑے، چنانچہ ہم نے اسے جگہ پایا جہاں رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا۔ وہ عورت اپنے اونٹ پر سوار ہوکر جارہی تھی۔ حاطب بن ابی بلتعہ ؓ نے اہل مکہ کو رسول اللہ ﷺ کی آمد کی اطلاع دی تھی۔ ہم نے اس عورت سے کہا: تمہارے پاس وہ خط کہاں ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی خط کی تلاشی لی لیکن ہمیں اس میں کوئی خط نہ ملا۔ میرے ساتھی نے کہا: اس کے پاس تو کوئی خط معلوم نہیں ہوتا۔ (حضرت علی ؓ کہتے ہیں:) میں نے کہا: ہمیں یقین ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غلط بات نہیں کہی: پھر حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے قسم اٹھائی کہ اس زات کی قسم جس کے نام کی قسم اٹھائی جاتی ہے! خط نکال دے بصورت دیگر میں تجھے ضرور بالضرور ننگا کردوں گا۔ پھر وہ عورت اپنی چادر کے بند کی طرف جھکی۔ اس نے اپنی ایک چادر اپنی کمر پر باندھ رکھی تھی۔ اس نے وہاں سے خط نکالا، چنانچہ وہ لوگ خط کے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت حاضر ہوئے، حضرت عمر ؓ نے یہ حالات دیکھ کر عرض کی: اللہ کے رسول! یقیناً اس نے اللہ سے، اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی ہے۔ آپ مجھے اجازت دیں میں اسکی گردن اڑاؤں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے حاطب! جو کچھ تو نے کیا ہے، اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟ حاطب ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا مجھ سے یہ ممکن ہے کہ میں اللہ اور اسکے رسول کے ساتھ یہ تھا کہ میرا اہل مکہ پر ایک احسان ہوجائے جس کی وجہ سے میں اپنی جائیداد اور اپنے بال بچوں کو محفوظ کرلوں۔ دراصل بات یہ ہے کہ آپ کے اصحاب میں سے ایسے لوگ نہ ہوں جن کی وجہ سے اللہ ان کے بچوں اور جائیداد پر کوئی آفت نہیں آنے دیتا، البتہ میرا ایسا عزیز وہاں کوئی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:” حاطب نے سچ کہا ہے۔ اسے بھلائی کے علاوہ کچھ نہ کہو۔“حضرت عمر بن خطاب ؓ نے دوبارہ عرض کی: اللہ کے رسول! اس نے اللہ سے، اس کے رسول ﷺ اور اہل ایمان سے خیانت کا ارتکاب کیا ہے مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن ماروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ اہل بدر سے نہیں؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالٰی ان کے اعمال سے واقف تھا اس نے کے متعلق فرمایا ہے: تم جو چاہو کرو، میں نے تمہارے لیے جنت لکھ دی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی حقیقت حال سے زیادہ واقف ہیں۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) فرماتے ہیں: حدیث میں خاخ ہی زیادوہ صحیح ہے لیکن ابو عوانہ نے حاج ہی کہا ہے۔ اور لفظ حاج تصحیف ہے، یہ ایک جگہ کا نام ہے، راؤی حدیث ہشیم نے” خاخ“ہی بیان کیا ہے۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد

‌صحيح البخاري: كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّينَ وَالمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ (بَابُ مَا جَاءَ فِي المُتَأَوِّلِينَ)
صحیح بخاری: کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان (باب: تاویل کرنے والوں کے بارے میں بیان)

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ - وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا - سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، وَهُوَ كَاتِبُ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَهُوَ يَقُولُ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ فَقَالَ: «ائْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ، فَخُذُوهُ مِنْهَا» فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا، فَإِذَا نَحْنُ بِالْمَرْأَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا حَاطِبُ مَا هَذَا؟» قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ - قَالَ سُفْيَانُ: كَانَ حَلِيفًا لَهُمْ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا - وَكَانَ مِمَّنْ كَانَ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ، أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَلَمْ أَفْعَلْهُ كُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَدَقَ» فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي، يَا رَسُولَ اللهِ أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: " إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ " فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} [الممتحنة: 1] وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ، وَزُهَيْرٍ، ذِكْرُ الْآيَةِ، وَجَعَلَهَا إِسْحَاقُ، فِي رِوَايَتِهِ مِنْ تِلَاوَةِ سُفْيَانَ
ابو بکر بن ابی شیبہ،عمرو ناقد،زہیر بن حرب،اسحاق بن ابراہیم اور ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی،الفاظ عمرو کے ہیں۔اسحاق نے کہا:ہمیں خبر دی،دوسروں نے کہا:ہمیں سفیان بن عیینہ نے عمرو(بن دینار) سے حدیث بیان کی،انھوں نے حسن بن محمد سے روایت کی،انھوں نے کہا:مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاتب تھے،خبر دی،انھوں نے کہا :میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کہ ہمیں یعنی رسول اللہ ﷺ نے مجھے، سیدنا زبیر ؓ اور سیدنا مقداد ؓ کو روضہ خاخ مقام پر بھیجا اور فرمایا کہ جاؤ اور وہاں تمہیں ایک عورت اونٹ پر سوار ملے گی، اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے کر آؤ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے اچانک وہ عورت ہمیں ملی تو ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ وہ بولی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ خط نکال یا اپنے کپڑے اتار۔ پس اس نے وہ خط اپنے جوڑے سے نکالا۔ ہم وہ خط رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آئے، اس میں لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے بعض مشرکین کے نام (اور اس میں) رسول اللہ ﷺ کی بعض باتوں کا ذکر تھا (ایک روایت میں ہے کہ حاطب نے اس میں رسول اللہ ﷺ کی تیاری اور فوج کی آمادگی اور مکہ کی روانگی سے کافروں کو مطلع کیا تھا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے حاطب! تو نے یہ کیا کیا؟ وہ بولے کہ یا رسول اللہ! آپ جلدی نہ فرمائیے ۔میں قریش سے ملا ہوا ایک شخص تھا یعنی ان کا حلیف تھا اور قریش میں سے نہ تھا اور آپ ﷺ کے مہاجرین جو ہیں ان کے رشتہ دار قریش میں بہت ہیں جن کی وجہ سے ان کے گھربار کا بچاؤ ہوتا ہے تو میں نے یہ چاہا کہ میرا ناتا تو قریش سے نہیں ہے، میں بھی ان کا کوئی کام ایسا کر دوں جس سے میرے اہل وعیال والوں کا بچاؤ کریں گے اور میں نے یہ کام اس وجہ سے نہیں کیا کہ میں کافر ہو گیا ہوں یا مرتد ہو گیا ہوں اور نہ مسلمان ہونے کے بعد کفر سے خوش ہو کر کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا۔ سیدنا عمر ؓ نے کہ کہ یا رسول اللہ! آپ چھوڑئیے میں اس منافق کی گردن ماروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کو جھانکا اور فرمایا کہ تم جو اعمال چاہو کرو (بشرطیکہ کفر تک نہ پہنچیں) میں نے تمہیں بخش دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ” اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ“۔ (سورۃ: الممتحنہ: 1) ۔
مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَهْلِ بَدْرٍؓ وَقِصَّةِ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ)
صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب (باب: حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اور اہل بدر ؓ کے فضائل)
تمہید کتاب


تفتیش میں تو عورت کو بھی برہنہ کیا جاسکتا ہے، پکڑنا اور گرفتار کرنا تو بہت چھوٹی بات ہے، لہٰذا یہ فساد نہ ہوگا بلکہ فساد کا سدِباب قرار پائے گا!
 
Last edited:
Top