• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند احمد میں ہلب بن طائی سے مروی روایت

شمولیت
اکتوبر 13، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
20
پوائنٹ
46
السلام علیکم و رحمۃ اللہ

ایک دیوبندی فورم پر مسند احمد کی روایت کے بارے میں یوں لکھا ہے

مسند احمد میں ہلب بن طائی سے مروی روایت کا حال۔!!!
اس کی سند میں ایک راوی سماک بن حرب ہے۔ جس پر ائمائے جرح و تعدیل نے سخت کلام کیا ہے۔
1) امام سفیان : یہ ضعیف ہے۔
2) امام شعبہ : اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔
3) امام احمد : یہ مضطرب الحدیث ہے۔
4) امام صالح : اسے ضعیف قرار دیتے ہیں
5) امام نسائی : جب منفرد ہو تو بالکل قابل قبول نہیں کیوں کہ اسے تلقین کی جاتی تھی اور یہ قبول کرلیتا تھا۔
6) امام ابن عمار : محدثین کا فیصلہ ہے کہ یہ غلطیوں کا شکار تھا۔
7) امام ابن المبارک : ضعیف فی الحدیث (حدیث میں ضعیف ہے)
8) امام ابن خراش : فی حدیث العین (اس کی حدیث میں گڑ بڑ ہے)
9) امام ابن حبان : یخطی کثیرا (بہت خطا کرتا تھا)
10) امام ذہبی : اسے ضعفاء میں شمار کرتے ہیں
11) امام ابن عدی : اسے ضعفاء میں شمار کرتے ہیں
12) امام ابن جوزی : اسے ضعفاء میں شمار کرتے ہیں
13) امام عقیلی : اسے ضعفاء میں شمار کرتے ہیں
(تہذیب التہذیب :جلد:3 صفحہ 68، میزان الاعتدال جلد: ۲ صفحہ: ۲۱۶، المغنی لذہبی جلد :1 صفحہ :448، الکامل لابن عدی جلد :4 صفحہ: 641، کتاب الضعفاء والمتروکین ابن جوزی جلد : ۲ صفحہ : ۲۶، کتاب الضعفاء الکبیر للبہیقی،جلد:2 صفحہ 178)
14) امام ابوالقاسم نے ، ان لوگوں کا بیان جنہیں محدثین نے اہل بدعت اور خواہش پرست کہا ہے، کے تحت ذکر کیا ہے
(دیکھئے قبول الاخبار ومعرفۃالرجال ، جلد:2 صفحہ 381-390)
ان تسریحات سے ثابت ہوا کہ سماک بن حرب جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
اس میں دوسرا راوی قبیصہ بن ہلب ہے جو ائماء کے نزدیک مجہول ہے۔
امام ابن المدینی اور امام نسائی ﷬ فرماتے ہیں''مجہول'' (یہ مجہول ہے)
تہذیب التہذیب ، جلد :5 صفحہ 325، 326
پس یہ روایت سماک بن حرب کے شدید ضعف اور قبیصہ کی جہالت کی وجہ سے سخت ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔

اس فورم پر محترم علماؤں سےگذارش ہے کہ اس روایت کے بارے میں تفصیلی جرح یہاں پوسٹ کریں تاکہ ہم جیسے عام لوگوں کو اس سے فائدہ ہو۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
مسنداحمد کی یہ حدیث بالکل صحیح ہے تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب:انوارالبدرفی وضع الیدین علی الصدر:ص52 تا89۔
سمارک بن حرب بھی راجح قول کے مطابق ثقہ ہیں۔ہم نے ان کی توثیق پرمفصل مقالہ بنام”ازالۃ الکرب عن توثیق سماک بن حرب“تحریرکیا ہے جو ہماری مذکورہ کتاب میں (ص90تا 111 )پر موجودہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سوال میں پیش کی گئی جرح سے متعلق میری کتاب سے اقتباسات ملاحظہ ہوں:

1) امام سفیان : یہ ضعیف ہے۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ (المتوفى161) سے منقول ہے:
سماك بن حرب ضعيف
سماک بن حرب ضعیف ہے۔[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 541 واسنادہ ضعیف]

اس قو ل کی سند ضعیف ہے۔کیونکہ اس کی سند میں ''محمد بن خلف بن عبد الحميد'' مجہول ہے۔
لیکن اما م یعقوب بن شیبہ نے زکریابن عدی کے حوالہ سے یہ قول نقل کیا ہے اوراس میں سفیان ثوری کاحوالہ چھوٹ گیا ہے۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قول کی کوئی اصل ہے[تهذيب الكمال للمزي: 12/ 120 نقلہ عن یعقوب ۔نیز دیکھیں:التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 16/ 14]۔
اور حقیقت میں یہ قول سفیان ثوری ہی کا ہے جیساکہ ابن عدی کی روایت سے معلوم ہوتاہے۔ ابن عدی کی سند گرچہ ضعیف ہے لیکن حافظ یعقوب بن شیبہ کے نقل سے اس کے اصل کی تائید ہوتی لہٰذا دونوں کو ملا کریہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ سفیان ثوری ہی کا قول ہے۔دیکھئے:[تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي بتحقیق سامی: 1/ 48 حاشیہ نمبر5]

لیکن سفیان ثوری کی اس تضعیف سے مراد معمولی درجے کی تضعیف ہے جیساکہ سفیان ثوری ہی سے ایک دوسراقول منقول ہے جس سے معلوم ہوتا ہےکہ سفیان ثوری سماک میں معمولی درجہ کا ضعف مانتے تھے چنانچہ:

امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
وكان سفيان الثوري يضعفه بعض الضعف
سفیان ثوری ان کے اندرکچھ ضعیف بتلاتے تھے[تاريخ الثقات للعجلي: ص: 207 بدون سند]

دوسری طرف سفیان رحمہ اللہ نے یہ کہا:
ما يسقط لسماك بن حرب حديث
سماک بن حرب کی کوئی حدیث ساقط نہیں[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 214 واسنادہ صحیح]
اوراس کا مطلب یہی ہے کہ سفیان ثوری کے نزدیک سماک بن حرب ثقہ ہیں جیساکہ معدلین کے اقوال میں نمبر (2) کے تحت مزید تفصیل آرہی ہے دیکھئے: ص۔۔

اوراس توثیق کی روشنی میں ان کی تضعیف کی تفسیر یہی کی جائے گی کہ اس سے معمولی درجے کا ضعف مراد جیساکہ امام عجلی نے صراحۃ یہی بات ان کے حوالہ سے نقل کی ہے،کمامضی۔
یاپھر یہ کہ اس سے مراد بعد میں ان کا مختلط ہونا ہے جیساکہ حافظ یعقوب نے اس قول کی یہی تفسیر کی ہے لیکن انہوں نے اسے سفیان ثوری کے شاگرد ابن المبار ک کی طرف منسوب کردیا ہے جوکہ سہوہے۔جیساکہ وضاحت کی گئی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
2) امام شعبہ : اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔
امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160) سے منقول ہے:
امام ابن معین ناقل ہیں کہ امام شعبہ نے کہا:
كان شعبة يضعفه
امام شعبہ انہیں ضعیف کہتے تھے[الكامل لابن عدي: 4/ 541 ]

عرض ہے کہ یہ تضعیف ثابت نہیں ہے کیونکہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے امام شعبہ سے اس قول کی سند بیان نہیں کیا ہے لہٰذا امام شعبہ سے اس قول کو نقل کرنے والا نامعلوم ہے۔
اوربالفرض اس کو ثابت مان لیں تو امام شعبہ رحمہ اللہ ہی کے دوسرے قول کی روشنی میں اسے مراد صرف عکرمہ والی سند میں ان کاضعیف ہونا ہے جیساکہ ماقبل میں ذکر کیا گیا دیکھئے: ص۔

علاوہ بریں امام شعبہ رحمہ اللہ نے اس سے روایت کیا ہے جواس بات کی دلیل ہے کہ سماک امام شعبہ کے نزدیک ثقہ ہیں۔کیونکہ امام شعبہ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں ۔تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب : یزید بن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ ص۔۔

عفان بن مسلم الباهلى رحمه الله (المتوفى بعد 219)نے کہا:
سمعت شعبة، وذكر سماك بن حرب بكلمة لا أحفظها، إلا أنه غمزه
میں نے شعبہ سے سنا انہوں نے سماک بن حرب کا ایسی بات سے ذکر کیا جو مجھے یاد نہیں ہے مگر انہوں نے سماک پرعیب لگایا[الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/ 178 واسنادہ حسن]

عرض ہے کہ یہاں بھی عفان نے امام شعبہ کے اصل الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں لیکن دوسرے ذرائع سے ثابت ہے کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے صرف عکرمہ والی سند میں سماک پر عیب لگایا ہے جیساکہ گذشتہ سطور میں نقل کیا گیا دیکھئے: ص۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
3) امام احمد : یہ مضطرب الحدیث ہے۔
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
مضطرب الحديث

یہ حدیث میں اضطراب کے شکار ہوجاتے ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 279 واسنادہ صحیح]

نوٹ:
اس قول کی سند میں امام ابن ابی حاتم کے استاذ ’’محمد بن حمويه بن الحسن‘‘ ثقہ ہیں ۔امام ابن ابی حاتم نے ان سے روایت بیان کیا ہے اور امام ابن ابی حاتم صرف ثقہ ہی سے روایت بیان کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک مقام پر ایک راوی کے بارے میں خود انہوں نے کہا:
كتبت عنه وامسكت عن التحديث عنه لما تكلم الناس فيه
میں نے ان سے لکھا لیکن ان سے روایت بیان کرنے سے رک گیا کیونکہ لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 62]
معلوم ہواکہ غیرثقہ راوی سے امام ابن ابی حاتم روایت بیان نہیں کرتے تھے جیساکہ ان کے والدکا بھی یہی معمول تھا ۔اور’’محمد بن حمويه بن الحسن‘‘ سے امام ابن ابی حاتم نے تقریبا ڈھائی سو روایات بیان کی ہیں ۔ لہٰذا امام ابن ابی حاتم کے نزدیک یہ یقینی طور پر ثقہ ہیں۔


امام احمدرحمہ اللہ کی اس جرح کا تعلق خاص عکرمہ عن ابن عباس کے طریق سے ہے چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ کے دوسرے شاگرد ابوبکربن هانئ الأثرم نے امام احمد رحمہ اللہ کی یہ جرح ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
حدیث سماک مضطرب عن عکرمہ

عکرمہ سے سماک کی روایت مضطرب ہے[النفح الشذی : ص326 نقلہ من کتاب الاثرم]

اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ کے شاگر امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا :
سمعت أحمد، قال: قال شريك: كانوا يلقنون سماك أحاديثه عن عكرمة، يلقنونه: عن ابن عباس، فيقول: عن ابن عباس

میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے سنا کہ شریک نے کہا: لوگ سماک کو عکرمہ سے ان کی مرویات کی تلقین کرتے تھے ۔لوگ تلقین کرتے ہوئے کہتے تھے : عن ابن عباس یعنی یہ ابن عباس سے مروی ہے۔ تو سماک بھی کہتے : عن ابن عباس ، یعنی یہ ابن عباس سے مروی ہے[مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني ص: 440]

نیز ''علل'' میں یوں صراحت ہے:
وسماك يرفعها عن عكرمة عن بن عباس
سماک عکرمہ عن ابن عباس کی روایت کو مرفوع بناتے دیتے ہیں[العلل ومعرفة الرجال لأحمد: 1/ 395]

ثابت ہوا کہ امام احمدرحمہ اللہ کی جرح عکرمہ عن ابن عباس والی سند پر ہے اور اس کے علاوہ دیگر سندوں میں سماک امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک ثقہ ہیں۔

اس کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ دیگر محدثین نے بھی اضطراب والی جرح خاص عکرمہ والی سند پر ہی کی ہے چنانچہ :

امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234) نے نقل کرتے ہوئے حافظ یقوب نے کہا:
قلت لابن المديني رواية سماك عن عكرمة فقال مضطربة
میں نے امام علی بن المدینی سے پوچھا: عکرمہ سے سماک کی روایت کیسی ہے؟ تو انہوں نے کہا: مضطرب ہے[تهذيب التهذيب لابن حجر: 4/ 233 ونقلہ من یعقوب بن شیبہ وھو صاحب کتاب]

حافظ يعقوب بن شيبة (المتوفى262)نے کہا:
وروايته عن عكرمة خاصة مضطربة
سماک کی خاص عکرمہ سے روایت مضطرب ہے[تهذيب الكمال للمزي: 12/ 120 ونقلہ من یعقوب]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق وروايته عن عكرمة خاصة مضطربة
آپ صدوق ہیں اور خاص عکرمہ سی آپ کی روایات مضطرب ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم2624]

بلکہ امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے تو متعدد حفاظ کے اقوال کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:
ومن الحفاظ من ضعف حديثه عن عكرمة خاصة
اورحفاظ میں سے کچھ لوگوں نے خاص عکرمہ ہی سے سماک کی روایت کو ضعیف قراردیا ہے[شرح علل الترمذي 2/ 797]

معلوم ہوا کہ امام احمد کی مضطرب والی جرح صرف عکرمہ والی سند کے ساتھ خاص ہے۔
نیزاس کی زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ امام احمد نے سماک کی حدیث کو ''عبد الملك بن عمير'' کی حدیث سے بہتر کہا ہے چنانچہ:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
سماك بن حرب اصلح حديثا من عبد الملك بن عمير
سماک بن حرب یہ عبدالملک بن عمیر سے بہتر حدیث والے ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 279 واسنادہ صحیح]
اور''عبد الملك بن عمير'' کتب ستہ کے معروف ثقہ راوی ہیں[تهذيب الكمال للمزي: 18/ 370]

لہٰذا امام احمدرحمہ اللہ کے نزدیک سماک بدرجہ اولی ثقہ ہیں۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
4) امام صالح : اسے ضعیف قرار دیتے ہیں
امام صالح بن محمد جزرة رحمه الله (المتوفى293)نے کہا:
وسماك بن حرب يضعف
سماک بن حرب کو ضعیف کہاجاتاہے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 214 واسنادہ حسن]

نوٹ:-اس قول کی سند میں خطیب بغدادی کے استاذ ”محمد بن علي المقرئ“ یہ ”محمد بن محمد: بن علي المقرئ. العكبري الجوزراني“ ہیں۔ اور امام ذہبی نے انہیں ”صدوق“ کہا ہے ، لہٰذا اس قول کی سند حسن ہے[تاريخ الإسلام ت بشار : 10/ 359 ]۔

عرض ہے کہ یہ بھی مجمل قول ہے ۔ اور انہیں ضعیف کہنے والوں کے قول میں یہ تفسیر موجود ہے کہ ان کا ضعف صرف عکرمہ والی سند کے ساتھ خاص ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
5) امام نسائی : جب منفرد ہو تو بالکل قابل قبول نہیں کیوں کہ اسے تلقین کی جاتی تھی اور یہ قبول کرلیتا تھا۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
وسماك ليس بالقوي وكان يقبل التلقين
سماک بہت زیادہ قوی نہیں ہیں اور یہ تلقین کوقبول کرتے تھے[سنن النسائي الكبرى 3/ 231]

اورایک دوسرے مقام پر کہتے ہیں:
فسماك بن حرب ليس ممن يعتمد عليه إذا انفرد بالحديث لأنه كان يقبل التلقين
سماک بن حرب جب کسی روایت کے بیان میں منفرد ہوں تو ان پراعتماد نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ تلقین کوقبول کرتے تھے[سنن النسائي الكبرى 2/ 251]

عرض ہے کہ امام نسائی متشددین میں سے ہیں جیساکہ امام ذہبی اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا ہے دیکھئے :[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 437، مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 387]
لہٰذا موثقین کے مقابلہ میں ان کی تضعیف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

علاوہ بریں امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی جرح کا سبب یہ بتلایا ہے کہ یہ تلقین قبول کرتے تھے اور دیگر محدثین نے تلقین قبول کرنے والی بات کی تفصیل یہ بتلائی ہے کہ یہ عکرمہ سے روایت کرتے وقت تلقین قبول کرتے تھے چنانچہ:

امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160)نے کہا:
حدثني سماك، أكثر من كذا وكذا مرة، يعني حديث عكرمة‍: «إذا بنى أحدكم فليدعم على حائط جاره، وإذا اختلف في الطريق» وكان الناس ربما لقنوه فقالوا: عن ابن عباس؟ فيقول: نعم، وأما أنا فلم أكن ألقنه
سماک نے مجھ سے عکرمہ کی یہ روایت ’’إذا بنى أحدكم فليدعم على حائط جاره، وإذا اختلف في الطريق‘‘ کئی بار بیان کی ہے اور لوگ بسااوقات انہیں تلقین کرتے اور کہتے ’’عن ابن عباس‘‘ ؟ یعنی کیا یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؟ تو سماک کہتے : ہاں ! ۔لیکن میں نے انہیں کبھی تلقین نہیں کی[الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/ 178 واسنادہ حسن]

نوٹ: اس قول کی سند حسن ہے ، امام عقیلی کے استاذ ’’محمد بن موسى‘‘ یہ ’’محمد بن موسى بن حماد البربري‘‘ ہے کیونکہ امام عقیلی جب اپنے استاذ کی جگہ ’’محمد بن موسى‘‘ کہتے ہیں تو اس سے مراد ’’محمد بن موسى بن حماد البربري‘‘ ہوتے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ ’’المفضل بن غسان‘‘ کے طریق میں بھی امام عقیلی نے اپنے استاذ کو متعدد بار ’’محمد بن موسى‘‘ بتلایا ہے مثلا دیکھئے:[الضعفاء الكبير للعقيلي: 3/ 336]۔اور بعض دفعہ اس طریق میں ان کا پورا نام ’’محمد بن موسى بن حماد البربري‘‘ بتلایا ہے،مثلا دیکھئے:[الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/ 114]۔
اور یہ صدوق ہیں۔امام ذہبی نے’’الإمام، الحافظ، الباهر‘‘کہا ہے[سير أعلام النبلاء للذهبي: 14/ 91]۔امام حاکم نے ان کی روایت کو صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے تائید کی ہے دیکھیں:[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 3/ 37] ۔ امام دارقطنی نے ’’لیس بالقوی‘‘ کہا ہے لیکن یہ جرح قادح نہیں ہے جیساکہ ہم نے اس کی پوری تفصیل اپنی کتاب ’’یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ: ص 677 تا 679 ‘‘ میں پیش کی ہے۔

قاضی شریک بن عبداللہ النخعی (المتوفى177 أو 178) نے بھی یہی بات کہی ہے کماسیاتی۔ دیکھئے: ص

امام شعبہ اور شریک رحمہما اللہ کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ تلقین قبول کرنے والی جو جرح ہے اس کا تعلق عکرمہ والی سند سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دیگرکئی محدثین نے خاص عکرمہ ہی سے سماک کی روایت کو مضطرب بتلایا ہے کماسیاتی ۔لہٰذا اسے ہرجگہ عام کرنا اور اس کی وجہ سے انہیں مطلق ضعیف قرار دینا یہ امام نسائی رحمہ اللہ کا تشدد ہے جو قابل قبول نہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
6) امام ابن عمار : محدثین کا فیصلہ ہے کہ یہ غلطیوں کا شکار تھا۔
محمد بن عبد الله بن عمارالموصلى (المتوفى242)نے کہا:
سماك بن حرب يقولون انه كان يغلط ويختلفون في حديثه
سماک بن حرب کے بارے میں محدثین کہتے ہیں کہ یہ غلطی کرتے تھے اور محدثین ان کی حدیث میں اختلاف کرتے ہیں[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 214 واسنادہ صحیح]

عرض ہے کہ محض غلطی کرنے سے کوئی ضعیف نہیں ہوجاتا ثقہ رواۃ سے بھی غلطی ہوجاتی ہے اس لئے یہ قول مجمل ہے ابن عمار موصلی کا یہ اپنا قول نہیں ہے بلکہ انہوں نے محدثین کی طرف اسے منسوب کیا ہے اور محدثین نے اپنے قول کی تفسیر یہ کی ہے کہ خاص عکرمہ والی سند میں ہی سماک غلطی کرتے تھے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
7) امام ابن المبارک : ضعیف فی الحدیث (حدیث میں ضعیف ہے)
امام عبد الله بن المبارك رحمه الله (المتوفى181)کی طرف منسوب ہے:
وَقَال زكريا بن عدي ، عن ابن المبارك : سماك ضعيف في الحديث
زکریا بن عدی نے ابن المبارک سے نقل کیا: سماک حدیث میں ضعیف ہے[تهذيب الكمال للمزي: 12/ 120 نقلہ عن یعقوب ۔نیز دیکھیں:التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 16/ 14]۔

عرض ہے کہ امام ابن عدی نے یہ قول اسی سند سے یوں نقل کیا ہے:
حدثنا أحمد بن الحسين الصوفي، حدثنا محمد بن خلف بن عبد الحميد، حدثنا زكريا بن عدي، عن ابن المبارك عن سفيان الثوري قال سماك بن حرب ضعيف
یعنی زکریا نے ابن المبارک سے اورانہوں نے سفیان ثوری سے نقل کیا کہ :سماک حدیث میں ضعیف ہے[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 541 واسنادہ ضعیف]

غورفرمائیں اس سند میں ابن المبارک قائل نہیں بلکہ راوی ہے اور اصل قول سفیان ثوری سے منقول ہے۔ غالبا امام یعقوب نے جلدبازی میں ایسا نقل کردیا ہے اور سفیان ثوری کا قول ابن المبارک کی طرف منسوب کردیا۔واللہ اعلم نیز دیکھیں:[تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي بتحقیق سامی: 1/ 48 حاشیہ نمبر5]

بالفرض ابن المبارک سے یہ قول ثابت بھی مان لیں تو بھی حافظ یعقوب نے اسے اخیر میں اختلاط کی جرح پرمحمول کیا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
8) امام ابن خراش : فی حدیث العین (اس کی حدیث میں گڑ بڑ ہے)
ابن خراش رافضی (المتوفى283)سے منقول ہے:
سماك بن حرب الذهلي في حديثه لين
سماک بن حرب ذہلی کی حدیث میں کمزوری ہے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 214 واسنادہ ضعیف]

عرض ہے کہ ابن خراش سے یہ قول ثابت ہی نہیں ہے کیونکہ اس کی سندمیں موجود ''محمد بن محمد بن داود الكرجي'' مجہول ہے۔
نیز ابن خراش کے قول کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ یہ خود مجروح ورافضی ہے دیکھئے: ص
 
Top