• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصطفی سراپا رحمت پہ لاکھوں سلام

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

اس پر راۓ درکار ہے - اس میں کوئی ڈنڈی ماری گئی ہے تو پلیز بتا دیا جا ے تا کہ اس کا رد کیا جا سکے



اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید


سلام اسلامی معاشرت کا شعار ہے. مسلم کی حدیث ہے کہ

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرةَرَضِی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حتّٰی تُوٴْمِنُوْا وَلَا تُوٴْمِنُوْا حتّٰی تَحَابُّوا، اَولَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شيءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ․ روا ہ مسلم

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ جب تک تم ایمان نہ لاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور تم ایمان نہیں لاؤ گے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو‘کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تم وہ کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ فرمایا کہ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ


مسلم کی ایک دوسری روایت ہے کہ

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔ آپ کے قد کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ آدم کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا، اس (فرشتوں کی) جماعت کو سلام کرو‘ اور سنو کیا جواب ملتا ہے ۔ جو جواب ملے وہی تمہارا اور تمہاری ذریت کا جواب ہوگا۔ وہاں فرشتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی۔آدم علیہ السلام اس جماعت کے پاس گئے اور انھیں مخاطب کر کے ” السلام علیکم “کہا ۔ فرشتوں نے جواب میں ”السلام علیک و رحمتہ اللہ“کہا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انھوں نے ”ورحمة اللہ “ کا اضافہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید کہا کہ جو شخص بھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی شکل پر ہوگا اور اس کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا ہوگا لیکن آدم علیہ السلام کے بعد انسانی قد میں مسلسل کمی ہوتی رہی


معلوم ہوا کہ سلام کا تعلق ادب سے ہے اور ایک دوسرے کے لئے دعائیہ کلمات ہیں. ہم براہ راست الله سے دوسرے شخص کے لئے دعا کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں دوسرے شخص کو ہمارے خلوص کا پتا نہیں چلے گا لہذا معاشرت میں خلوص کی وجہ سے اس کی تلقین کی گئی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے لئے دعا کریں . ہم خط لکھ کر دوسرے شخص کو بھیجتے ہیں اس میں بھی یہی خلوص مقصد ہوتا ہے . لیکن جب کوئی شخص انتقال کر جائے تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اور دعائیہ کلمات میت کو سنانا مقصد نہیں ہوتا، نہ ہی اس میت سے واپس جواب کی امید کی جاتی ہے. میت کو تو پتا بھی نہیں ہوتا کہ کس نے اس کی تعریف کی اور کس نے برائی ، کس نے نماز جنازہ پڑھی اور کس نے نہیں، کس نے غسل دیا اور کس نے کفن دیا

اسلامی معاشرت کے تحت نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو سلام کیا اور صحابہ نے آپ کو. پھر نبی کے لئے درود یعنی رحمت کی دعا کرنے کا الله نے حکم دیا

جب ہم الله کے نبی پر درود پڑھتے ہیں تو ہمارا مقصد نبی صلی الله علیہ وسلم کو سنانا نہیں ہوتا بلکہ الله کی بارگاہ میں نبی کے لئے دعا ئے رحمت مقصود ہوتی ہے. نبی صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں درود جھر (بلند آواز) سے پڑھنے کا حکم نہیں دیا ورنہ کسی کا خیال ہو سکتا تھا کہ صحابہ ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو درود سناتے تھے

اگر درود پیش ہونا ہی حقیقت ہوتا تو نماز کا درود جھر سے پڑھا جاتا تاکہ نبی صلی الله علیہ وسلم سن سکیں کہ کون امتی درود پڑھ رہا ہے اور کون منافق ہے

اسی تفریق کو نہ سمجھتے ہوئے نبی صلی الله علیہ وسلم پر امت کے درود و سلام کا عقیدہ اختیار کئی ہوئے ہیں اور اس کا دفاع اس انداز میں کرتے ہیں

میت کے لیے ہم دعائیں کرتے ہیں نمازِ جنازہ میں بھی اور نمازِ جنازہ کے علاوہ بھی وقتا فوقتا فوت شدہ مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں تو یہ دعائیں اللہ کے فضل و کرم سے ان کو پہنچتی ہیں۔ پھر ہم بذریعہ خط و کتابت یا بذریعہ دوست و احباب دوسروں کو سلام دعاء پہنچاتے رہتے ہیں تو یہ سلام دعاء بھی ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھئے آپ اپنا یہ مکتوب جس میں آپ کا میری طرف سلام بھی درج ہے، مجھ پر پیش کیا تو وہ مجھ پر پیش ہوگیا ہے تو آپ غور فرمائیں اگر کوئی فرمائے: ’’ بقول آپ کے کسی بھائی یا دوست کو بھیجے ہوئے سلام دعاء اس پر پیش کیے جاتے ہیں تو اس کو پہنچ جاتے ہیں۔ دعاء و سلام ایک عبادت ، دعائیہ عمل ہے سورۂ الشوریٰ آیت نمبر: ۵۳ کے تحت تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ دعاو سلام کسی کو بھیجتے وقت بھی ہم دعاء اللہ کے حضور کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمارے فلاں بھائی یا دوست پر سلامتی نازل فرما تو سننے والے اس دعاء کو اللہ کی بارگاہ کی بجائے ہمارے فلاں دوست یا بھائی کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے دعائیہ کلمات سلام ودعاء سننے والے ہمارے بھائی دعاء سلام دوسروں تک پہنچانے والے عربی، اُردو، انگریزی وغیرہ سے ناواقف ہیں یا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال ہمارے دوستوں اور بھائیوں کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ اللہ کے حضور یا آپ اپنے دوستوں اور بھائیوں کو معبود سمجھ کر ان کے حضور اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘ تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟


ہمارے تمام اعمال کی تفصیل فرشتے لکھتے ہیں اور الله تک پہنچاتے ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن دنیا میں جو بھی کام ہوتے ہیں کیا وہ الله تک نہیں جاتے اس میں تعمق فرماتے ہوئے عالم لکھتے ہیں

پھر سورۂ الشوریٰ کی محولہ بالا آیت کریمہ کے الفاظ: ﴿أَلَا إِلَى اللَّـهِ تَصِيرُ‌ الْأُمُورُ‌ (٥٣)﴾اس کا ترجمہ و مطلب آپ نے لکھا ہے: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ جبکہ قرآنِ مجید کی اس آیت کریمہ کی ہم معنی و مطلب دیگر آیات کے الفاظ ہیں: ﴿وَإِلَى اللَّـهِ تُرْ‌جَعُ الْأُمُورُ‌ (١٠٩)﴾’’ اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘ ﴿ وَإِلَيْهِ يُرْ‌جَعُ الْأَمْرُ‌ كُلُّهُ ﴾آپ ذرا مزید غور فرمالیں

پھر ان آیات کریمہ میں اعمال کی کوئی تخصیص نہیں۔ آخرت کی بھی کوئی تخصیص نہیں تو اگر کوئی صاحب ان آیات کریمہ کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے فرمادیں کہ جج صاحبان کے ہاں جو کاغذات پیش کیے جاتے ہیں یا دوسرے محکموں میں کاغذات وغیرہ کی جو پیشیاں ہوتی ہیں یہ سب سورۂ الشوریٰ کی آیت نمبر ۵۳ کہ: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ کے منافی و مخالف ہیں تو کیا خیال ہے آپ کی تحقیق کی رو سے ان کی یہ بات درست ہوگی؟


آیت اپنے مفھوم میں بالکل واضح ہے. دینا کیا چیز ہے، اس کے جج، حاکم، شہنشاہ سب کے اعمال الله کے حضور پیش ہو رہے ہیں. صحیح مسلم کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے کہ اس دن اعمال الله کے پاس پیش ہوتے ہیں
ائمہ پر اعمال پیش ہوتے ہیں

الكلينى، محمدبن يعقوب، الکافی، ج ‏1، ص 219، كتاب الحجة، باب عرض الاعمال على النبى و الائمة، میں ہے

امام صادق ﴿ع﴾ سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ لوگوں کے تمام نیک و بد اعمال ہر روز صبح سویرے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں، اس لئے ھوشیار رہئے


ایک دوسری روایت ہے


عبداللہ بن ابان ایک روایت میں کہتے ہیں:“ میں نے حضرت امام رضا ﴿ع﴾ کی خدمت میں عرض کی کہ: میرے اور میرے خاندان کے لئے ایک دعا فرمائیے۔ حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ کیا میں دعا نہیں کرتا ھوں؟ خدا کی قسم آپ کے اعمال ہر روز وشب میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، لہذا ہر ناسب امر کے بارے میں دعا کرتا ہوں”۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ امام ﴿ع﴾ کا یہ کلام میرے لئے عجیب تھا کہ ہمارے اعمال ہر روز و شب امام ﴿ع﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جب امام ﴿ع﴾ میرے تعجب کے بارے میں آگاہ ھوئے تو مجھ سے مخاطب ھوکر فر مایا:“ کیا آپ خداوند متعال کی کتاب نہیں پڑھتے ہیں، جہاں پر خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:“ وقل اعملوا فسیراللہ عملکم و رسولہ والمؤمنون” اور اس کے بعد فرمایا:“ خدا کی قسم اس آیت میں مومنون سے مراد علی بن ابی طالب ﴿ع﴾ ہیں الکافی ج1، ص ‏219، ح‏ ٤

احادیث کی کتب بشمول بخاری و مسلم میں بدعتی عقیدے رکھنے والے بہت سے راوی ہیں جن میں شیعہ بھی ہیں
زاذان المتوفی ٨٢ ھ کی روایت

ایسے ہی ایک راوی زاذان ابو عمر الکندی ہیں. علم حدیث کا اصول ہے کہ صادق اللہجہ راوی کی روایت اس کی بدعت کے اثبات میں ناقابل قبول ہے. زاذان اپنے شیعی عقیدے کا پر چار کرتے اور ایسے عقیدے پھیلاتے تھے جن کو بعد میں آنے والے امام بخاری و مسلم رد کرتے رہے اور اپنی کتابوں کو ان کے عقائد سے پاک رکھا. ہاں ان سے صرف مسلم نے تین مقام پر روایت لی لیکن وہ روایات عقیدے سے متعلق نہیں

اس احتیاط سے صرف نظر کرتے ہوئے پہلے زاذان کی عود روح والی روایت پر عقیدہ بنایا گیا پھر اعمال پیش ہونے والی روایت کو بھی صحیح سمجھا گیا

زاذان، عبدللہ ابن مسعود رضی الله تعالی عنہ سے روایت نقل کرتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ


عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال نبی صلی الله علیہ وسلم ان للہ ملائکة سیاحین یبلغونی عن امتی السلام

بے شک الله کے سیاح فرشتے ہیں جو میری امت کا سلام مجھ تک لاتے ہیں

اس روایت میں یہ موجود نہیں کہ یہ بات وفات کے بعد ہو گی بلکہ واضح ہے کہ زندگی میں بھی ایسا ہو رہا ہے

خواجہ محمد قاسم کتاب کراچی کا عثمانی مذہب میں لکھتے ہیں





خواجہ صاحب اعمال پیش ہونے کی معصومانہ رائے پیش کر رہے ہیں لیکن جس ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ انہوں نے یہ لکھا ہےاس سے ظاہر ہے کہ الفاظ ان کا ساتھ نہیں دے رہے . یہ کیا درجات کی بلندی ہے؟ امت جو مشرکانہ درود پڑھ رہی ہے اگر وہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہو تو اس سے زیادہ دکھ کی بات ان کے لئے کیا ہو گی. دوئم جن روایات میں یہ آیا ہے اعمال پیش ہوتے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ اگر بد اعمال ہوں تو نبی صلی الله علیہ وسلم اور رشتہ دار دعا کرتے ہیں

سوم اس روایت میں کہاں نے کہ یہ سب وفات کے بعد ہو گا بلکہ زندگی میں بھی ایسا ہو رہا ہے

بئر معونہ کا واقعہ ہمارے سامنے ہے کفّار نے اصحاب رسول کو گھیر لیا اور قتل کرنا شروع کیا صحابہ نے اللہ سے دعا کی کہ ہمارے قتل کی خبر نبی کو دے دے اگر درود پیش ہونے کا عقیدہ ہوتا تو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی. ایک ہی روز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو پتا چل جاتا کہ درود پیش نہیں ہو رہا. اسی طرح عثمان رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کی خبر پر نبی
صلی الله علیہ وسلم نے بیعت رضوان لے لی
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

اب تو امت میں درود تاج، درود تنجینا جسے درود بھی ہیں یہ بھی نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہوتے ہونگے تو پھر

قیامت کے دن الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم سے ان کی امت کے گمراہ لوگوں کے لئے کیسے کہا جائے گا

مَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَتْ بَعْدَكَ

آپ کو نہیں پتا کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا باتیں نکالیں

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ


عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِي أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ

ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت کے اچھے اور برے تمام اعمال میرے سامنے لائے گئے تو راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا میں نے اچھے اعمال میں پایا اور برے اعمال میں میں نے وہ تھوک اور بلغم دیکھا جو مسجد سے صاف نہ کیا گیا ہو


نبی صلی الله علیہ وسلم کو امت کے ان اعمال کی خبر زندگی میں ہی دی گئی تاکہ نیک اور برے اعمال سے امت کو باخبر کر سکیں لیکن وفات کے بعد اعمال پیش ہونے کا فائدہ کیا ہے کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں ہوا

نبی صلی الله علیہ وسلم کو امت کے اعمال کی لسٹ دکھائی گئی نہ کہ یہ بتایا گیا کہ کون سا امتی کیا کیا عمل کرتا ہے

زاذان کی عرض اعمال والی روایت میں کئی علتیں ہیں

اول زاذان کا عبدللہ ابن مسعود سے سماع نہیں ہے


الذهبی کتاب معجم الشيوخ الكبير میں اپنے شیخ إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَاتِمٍ الْفَقِيهُ الْقُدْوَةُ أَبُو إِسْحَاقَ الْبَعْلَبَكِّيُّ إِمَامُ مَسْجِدٍ بِطَاعِنٍ کا ذکر کرتے ہیں

اور روایت إِنَّ للَّهِ فِي الأَرْضِ مَلائِكَةً سَيَّاحِينَ يُبْلِغُونَنِي عَنْ أُمَّتِي السَّلامَ پر لکھتے ہیں


عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ للَّهِ فِي الأَرْضِ مَلائِكَةً سَيَّاحِينَ يُبْلِغُونَنِي عَنْ أُمَّتِي السَّلامَ» .

أَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ مِنْ عِدَّةِ أَوْجُهٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، رَوَاهُ أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَلَمْ يُدْرِكْهُ

اس کی تخریج کی ہے نسائی نے مختلف طرق سے عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، رَوَاهُ أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ سے اور اس (زاذان)کی ان (ابن مسعود) سے ملاقات نہیں


الذهبی کتاب تلخيص كتاب الموضوعات لابن الجوزي میں لکھتے ہیں


حَدِيث: ” ذهَاب الْبَصَر مغْفرَة للذنوب وَذَهَاب السّمع مغْفرَة للذنوب وَمَا نقص من الْجَسَد فعلى قدر ذَلِك ” فِيهِ دَاوُد بن الزبْرِقَان واه عَن مطر الْوراق عَن هَارُون بن عنترة عَن عبد الله بن السَّائِب عَن زَاذَان عَن ابْن مَسْعُود وَلم يُدْرِكهُ

ابن الجوزی کی کتاب پر تلخیص میں الذھبی ایک روایت میں علت بتاتے ہیں کہ زاذان ، ابن مسعود سے نہیں ملا

زاذان نے ابن مسعود کے ہاتھ پر توبہ کی تھی کسی افسانے سے کم نہیں

کتاب تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين از أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقند کے مطابق

وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُوٍد رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، أَنَّهُ مَرَّ ذَاتَ يَوْمٍ فِي مَوْضِعٍ مِنْ نَوَاحِي الْكُوفَةِ، فَإِذَا الْفُسَّاقُ قَدِ اجْتَمَعُوا وَهُمْ يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ وَفِيهِمْ مُغَنٍّ يُقَالُ لَهُ زَاذَانُ


روایت کیا جاتا ہے ابن مسعود رضی الله تعالی عنہ ایک دن کوفہ کے نواحی علاقے میں سے گزرے جہاں بہت سے فآسق جمع ہوتے اور شراب پیتے اور ان میں ایک گویا زاذان تھا

عبدللہ ابن مسعود نے ان شرابیوں پر حد کیوں نہیں لگوائی اور یاد رہے کہ یہ عمر رضی الله تعالی عنہ کا دور ہے جس میں کیا اس طرح کا ماحول تھا عجیب بات ہے. شرابیوں اور اس گویے کو تو ان کو دیکھ کر بھآگ جانا چاہئے تھا لیکن عبدللہ ابن مسعود رضی الله تعالی عنہ جاتے اور نصیحت کرتے. وآہ بہت خوب ! کیا صوفیآنہ انداز ہے ، یہی وجہ ہے اس واقعہ کا ذکر تنبیہ الغافلین نامی کتاب میں ملتا ہے

یہ قصہ سندا ثابت نہیں اگر کسی کے علم میں ہو تو ہمیں بتائے لیکن الذھبی کا یہ کہنا کہ زاذان ، ابن مسعود سے نہیں ملا ظاہر کرتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ فسانہ ہے

کتاب الفوائد والزهد والرقائق والمراثي از أبو محمد جعفر بن محمد بن نصير بن قاسم البغدادي المعروف بـ الخلدي المتوفی ٣٤٨ ھ کے مطابق اس واقعہ کی سند ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ الْقَطَّانُ الْفَارِسِيُّ بِالْفَارِسِيَّةِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ زَاذَانَ، قَالَ: كُنْتُ فَتًى حَسَنَ الصَّوْتِ، جَيِّدَ الضَّرْبِ بِالطُّنْبُورِ، فَكُنْتُ أَنَا وَأَصْحَابِي فِي رُوَيْضَةٍ، قُدَّامَنَا بَاطِيَّةٌ، فِيهَا نَبِيذٌ، فَدَخَلَ عَلَيْنَا رَجُلٌ، فَضَرَبَ الْبَاطِيَّةَ بِرِجْلِهِ فَأَلْقَاهَا، ثُمَّ تَنَاوَلَ الطُّنْبُورَ فَكَسَرَهُ، ثُمَّ قَالَ: «يَا غُلَامُ، لَوْ كَانَ مَا أَسْمَعُ مِنْ حُسْنِ صَوْتِكَ بِالْقُرْآنِ، كُنْتَ أَنْتَ أَنْتَ» ، ثُمَّ ذَهَبَ، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا مَا تَعْرِفُ هَذَا؟ قُلْتُ: لَا قَالُوا: هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ فَأَلْقَى اللَّهُ فِي قَلْبِي التَّوْبَةَ، فَتَبِعْتُهُ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ إِلَى مَنْزِلِهِ، فَكَلَّمْتُهُ، قَالَ: «مَنْ أَنْتَ؟» قُلْتُ: أَنَا صَاحِبُ الطُّنْبُورِ، قَالَ: «مَرْحَبًا بِمَنْ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ» ، ثُمَّ قَالَ: «اجْلِسْ» ، فَأَخْرَجَ إِلَيَّ تَمْرَةً، فَقَالَ: «كُلْ، فَلَوْ كَانَ عِنْدَنَا غَيْرُ هَذَا لَأَخْرَجْنَاهُ لَكَ»


اس کی سند میں مجھول راوی ہے لہذا یہ واقعہ ایک افسانہ ہی ہے


دوم اس میں سفیان اور الأَعْمَشِ ہیں دونوں مدلس میں عن سے روایت کرتے اور ان کے عبدللہ بن السائب سے سمع کی مستند دلیل بھی نہیں ملی

کہا جاتا ہے أَبُو إِسْحَاقَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِي المتوفی ٢٨٢ ھ کی کتاب فضل الصلاہ میں سمع کی دلیل ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: ثنا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ لِلَّهِ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ


لیکن اس سے پہلے کسی بھی سند میں یہ تحدیث کیوں چھپا کر رکھی گئی یہاں تک کہ ان صاحب سے پہلے کسی کو نہ ملی یہ خود ١٩٩ ھ میں پیدا ہوئے اور ان سے پہلے تمام محدثین اس تحدث سے لا علم وفات پا گئے

سفیان مدلس ہیں اور ان کاعن سے روایت کرنا مشکل میں ڈالتا ہے ظاہر ہے کہ کسی کو اس تحدیث کا پتا ہوتا تو اس کی سند اتنی خفیہ نہ ہوتی بلکہ أَبُو إِسْحَاقَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِي سے پہلے بھی کسی نہ کسی کتاب میں ہوتی

مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار کی سند ہے

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: نا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،


اس کی سند میں یحیی بن سعید عن سفیان عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ ہے اگر سفیان نے حدثنا بولا ہوتا تو اس سند میں کیوں نہیں جبکہ سفیان کی تدلیس کو ختم کرنا ضروری ہے

سوال ہے کہ یحیی بن سعید نے عمرو بن علی کو روایت سنائی تو سفیان کا حدثنی کہنا کیوں چھپایا ہمیں یحیی بن سعید پر بھروسہ ہے کہ ان سے یہ غلطی نہیں ہو سکتی

اس کی ایک واضح دلیل عبدللہ کی کتاب العلل ومعرفة الرجال میں موجود ہے


سَمِعت أبي يَقُول قَالَ يحيى بن سعيد مَا كتبت عَن سُفْيَان شَيْئا إِلَّا مَا قَالَ حَدثنِي أَو حَدثنَا إِلَّا حديثين ثمَّ قَالَ أبي حَدثنَا يحيى بن سعيد عَن سُفْيَان عَن سماك عَن عِكْرِمَة ومغيرة عَن إِبْرَاهِيم فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ قَالَا هُوَ الرجل يسلم فِي دَار الْحَرْب فَيقْتل فَلَيْسَ فِيهِ دِيَة فِيهِ كَفَّارَة قَالَ أبي هذَيْن الْحَدِيثين الَّذِي زعم يحيى أَنه لم يسمع سُفْيَان يَقُول فيهمَا حَدثنَا أَو حَدثنِي

عبدللہ کہتے ہیں کہ میرے باپ احمد نے کہا کہ یحیی بن سعید نے کہا میں نے سفیان سے کچھ نہ لکھا سوائے اس کے جس میں انہوں نے حدثنی یا حدثنا بولا . (پھر دو حدیثیں بیان کر دیں)..میرے باپ احمد نے کہا یہ دو حدیثیں ہیں جن پر یحیی کا کہنا ہے کہ سفیان نے ان کو حدثنی یا حدثنا بولا تھا

یحیی نے سفیان کی اعمال پیش ہونے والی روایت کو ان روایات میں شامل نہیں کیا جس میں حدثنی بولا تھا

اس وجہ سے ابو اسحاق کی کتاب فضل الصلاہ میں سفیان کا حدثنی بولنا مشکوک ہے

سوم زاذان کی بدعت کے حق میں روایت کی وجہ سے اس میں یہ علت بھی ہے

لہذا اس پر عقیدہ بنانا صحیح نہیں

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اعمال پیش ہونے کا مقصد

ایک روایت پیش کی جاتی ہے


حیاتی خیر لکم تحدثون و تحدث لکم ووفاتی خیرلکم تعرض علیّ اعمالکم فما رأیت من خیر حمدت اللّٰہ علیہ وما رایت من شر استغفرت اللّٰہ لکم

میری زندگی بھی تمہاری لیے بہتر ہے کہ تم بات کرتے ہو اور تمہارے لیے بات کی جاتی ہے اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے، تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں تو اگر میں ان کو اچھا دیکھتا ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اگر برے اعمال دیکھتا ہوں تو تمہارے لیے اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرتا ہوں

یہ روایت کئی طریقوں سے مروی ہے

مسند البزار کی سند ہے

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ


اس کی سند میں زاذان ہے جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے. اس کے علاوہ عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ ہے جس کو أبو حاتم کہتے ہیں : ليس بالقوي يكتب حديث. قوی نہیں حدیث لکھ لو. الدارقطنيُّ کہتے ہیں لا يحتج به، نا قابل احتجاج ہے . أبو زرعة ،ابن سعد ان کو ضعیف گردانتے ہیں

کتاب المخلصيات وأجزاء أخرى لأبي طاهر المخلص میں روایت ہے جس کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم پر اعمال جمعرات کو پیش ہوتے ہیں. اس کی سند ہے

أخبرنا محمدٌ: حدثنا يحيى: حدثنا يحيى بنُ خذامٍ في مسجدِ الجامِعِ بالبصرةِ في سنةِ خمسينَ ومئتينِ: حدثنا محمدُ بنُ عبدِاللهِ بنِ زيادٍ أبوسلمةَ الأنصاريُّ: حدثنا مالكُ بنُ دينارٍ، عن أنسِ بنِ مالكٍ قالَ


اس میں آفت محمدُ بنُ عبدِاللهِ بنِ زيادٍ أبوسلمةَ الأنصاريُّ سے ہے. الذہبی تاریخ الاسلام میں کہتے ہیں وهو صاحب مناكير عن مالك بن دينار. یہ مالك بن دينار سے منکرات بیان کرتے ہیں

زیر بحث روایت بھی مالك بن دينار سے روایت کی گئی ہے

مسند الحارث کی سند ہے

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ , ثنا جَسْرُ بْنُ فَرْقَدٍ , عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ


بخاری ابو جعفر جسر بْن فرقد کو کتاب تاریخ الکبیر میں وليس بذاك کہتے ہیں

ابن معین ليس بشئ کوئی شے نہیں کہتے ہیں

النسائي: ضعيف کہتے ہیں

دارقطنی متروك کہتے ہیں

طبقات الکبریٰ ابن سعد کی سند ہے

أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُؤَدِّبُ. أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ غَالِبٍ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ


اس کی سند میں غالب ہے جو مجھول ہے

ایک رائے ہے کہ یہ غالب القطان ہے

الکامل ابن عدی کے مطابق يحيى بْن مَعِين کہتے ہیں لاَ أعرفه میں اس کو نہیں جانتا

دارمی کہتے ہیں كان ردئ الحفظ ان کا حافظہ ردی تھا

کتاب مَنْ تَكلَّم فيه الدَّارقطني في كتاب السنن من الضعفاء والمتروكين والمجهولين از ابن زريق (المتوفى: 803هـ) کے مطابق دارقطنی کی
رائے میں یہ غالب بن عبيد الله، فإن كان كذلك، فهو متروك غالب بن عبيد الله ہے اور اگر یہی ہے تو متروك ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436


شیعہ کتب میں بھی یہ روایت موجود ہے

أبو جعفر محمد بن الحسن بن فروخ الصفار المتوفى سنة ٢٩٠ جو الإمام الحسن العسكري کے اصحاب میں سے تھے روایت کرتے ہیں

کتاب بصائر الدرجات از محمد بن الحسن الصفار،تصحيح وتعليق وتقديم: الحاج ميرزا حسن كوچه باغي، مطبعة الأحمدي – طهران
منشورات الأعلمي – طهران کے مطابق







أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ المتوفی ١٨٩ ھ کی روایات

أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ، محدثین ابن عدی ، ابن شاہین، ابن معین، احمد کے نزدیک ضعیف ہیں

ایک روایت پیش کی جاتی ہے جو سنن ابی داود میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ عَنْ أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوحِى حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ


نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب بھی کوئی مجھ پر سلام کہتا ہے تو الله میری روح لوٹاتا ہے حتی کہ میں سلام کا جواب دوں


اس روایت کا متن انتہائی عجیب ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کو جب بھی کوئی سلام کرتا ہے تو آپ کی روح جسد مبارکہ میں لوٹائی جاتی ہے یہاں تک کہ آپ سلام کا جواب دیتے ہیں



زبیر علیزئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں






ابن تیمیہ کتاب اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم میں لکھتے ہیں

والأحاديث عنه بأن صلاتنا وسلامنا تعرض عليه كثيرة، مثل ما روى أبو داود من حديث أبي صخر حميد بن زياد عن يزيد بن عبد الله بن قسيط عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما من أحد يسلم علي

إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام صلى الله عليه وسلم. وهذا الحديث على شرط مسلم

اور احادیث صلاہ و سلام پیش ہونے کی بہت ہیں مثلا جیسا ابو داود نے روایت کیا ہے ابو صخر سے انہوں نے یزید سے انہوں نے ابو ھریرہ سے کہ الله کے رسول نے فرمایا کہ جب کوئی مجھ کو سلام کہتا تو الله میری روح لوٹاتا ہے اور یہ حدیث مسلم کی شرط پر ہے


. اس خاص حدیث میں یزید کا سماع ابو ھریرہ رضی الله تعالی عنہ سے نہیں بھی خوب ہے یہ اصول دیگر روایات میں کیوں نہیں ؟ عود روح والی روایت کے لئے ابن حبان کہتے ہیں وزاذان لم يسمعه من کہزاذان کا البراء بن عازب سے سماع نہیں لیکن وہاں یہ اصول نہیں لگایا جاتا



معجم الاوسط کی سند ہے

عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ


معجم الاوسط کی سند سے واضح ہو جاتا ہے کہ يَزِيدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ نے ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے نہیں سنا

اس روایت میں دوسری علت بیان کی جاتی ہے کہ ابو صخر کا اس میں تفرد ہے اور یزید کے دیگر شاگرد اس روایت کو بیان نہیں کرتے اگر یہ علت ہے تو سلام پیش ہونے کی زاذان کی عبدللہ ابن مسعود والی روایت میں زاذان کا تفرد ہے وہاں اس اصول کی پاسداری نہیں کی جاتی

ابن تیمیہ اس کو مسلم کی شرط پر صحیح کہہ رہے ہیں کیونکہ ابو صخر حمید بن زیاد صحیح مسلم کا راوی ہے اور یزید بن عبدللہ بن قسیط صحیح بخاری و مسلم کا راوی ہے -

کتاب قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

وقد احتج أحمد وغيره بالحديث الذي رواه أحمد وأبو داود بإسناد جيد من حديث حيْوَة بن شريح المصري حدثنا أبو صخر عن يزيد [ابن عبد الله] بن قسيط عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: “ما من أحد يسلم عليَّ إلا رد الله عليَّ روحي حتى أرد عليه السلام”.
وعلى هذا الحديث اعتمد الأئمة في السلام عليه عند قبره، صلوات الله وسلامه عليه


اور بے شک امام احمد اور دوسروں نے دلیل لی ہے اس حدیث سے جس کو اسناد جید کے ساتھ احمد اور ابو داود نے سے روایت کیا ہے کہ ابو هريرةنے کہا کہ نبی نے فرمایا جب کوئی مجھے سلام کرتا ہے تو الله میری روح لوٹاتا ہے حتی کہ میں سلام کا جواب دیتا ہوں. اور اس حدیث پر اسلام کے آئمہ نے اعتماد کیا ہے کہ سلام قبر کے پاس ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
الشوکانی کا موقف


الشوکانی المتوفی ١٢٥٠ ھ کتاب تحفة الذاكرين بعدة الحصن الحصين من كلام سيد المرسلین میں لکھتے ہیں


وَقيل وَالْمرَاد برد الرّوح النُّطْق لِأَنَّهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حَيّ فِي قَبره وروحه لَا تُفَارِقهُ لما صَحَّ أَن الْأَنْبِيَاء أَحيَاء فِي قُبُورهم كَذَا قَالَ ابْن الملقن وَغَيره

اور کہا جاتا ہے کہ روح لوٹانے سے مراد گویائی ہے کیونکہ بے شک اپ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں اور ان کی روح الگ نہیں ہوتی جیسا کہ صحیح ہو چکا ہے کہ بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں جیسا کہ ابن الملقن اور دوسروں نے کہا

أبابطين کا موقف


عبد الله بن عبد الرحمن بن عبد العزيز الملقب بـ”أبابطين” (المتوفى: 1282هـ) کتاب رسائل وفتاوى العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبي بطين

جو ایک عالم تھے اس روایت کو دلیل بناتے ہوئے لکھتے ہیں

الحديث المشهور: “ما من مسلم يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام” فهذا يدل على أن روحه صلى الله عليه وسلم ليست دائمة في قبره


-مشھور حدیث ما من مسلم يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام ہے
پس یہ دلیل ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی روح ہمیشہ قبر میں نہیں ہوتی


ان کا مطلب ہے کہ روح کبھی قبر میں اور کبھی جنت میں ہوتی ہے

عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ) فتوی فتاوى نور على الدرب میں کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی

روحه في الجنة في أعلى عليين عليه الصلاة والسلام، ترد إلى جسده إذا شاء الله ذلك، عند السلام عليه، عليه الصلاة والسلام كما في الحديث يقول صلى الله عليه وسلم: «ما من أحد يصلي علي إلا رد الله علي روحي، حتى أرد عليه السلام


روح اعلی عليين میں ہے، اس کو جسد میں لوٹایا جاتا ہے جب الله چاہے سلام پر جیسا کہ حدیث میں آیا ہے نبی نے فرمایا ما من أحد يصلي علي إلا رد الله علي روحي، حتى أرد عليه السلام


المناوي المتوفی ١٠٣١ ھ اس کے خلاف کہتے ہیں


يعني ردّ علىَّ نطقي، لأنه – صلَّى الله عليه وسلم – حي على الدوام، وروحه لا تفارقه أبداً

المناوي کہتے ہیں : یعنی بولنے کی صلاحیت لوٹائی جاتی ہے ، بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں اور روح جسد سے الگ نہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
خواجہ محمد قاسم کتاب کراچی کا عثمانی مذہب میں لکھتے ہیں







روایت بے شک ضعیف ہے الله اکبر یہ حضرات لوگوں کے دین و ایمان سے کھیل رہے ہیں ایک کہتا ہے صحیح ہے ایک کہتا ہے ضعیف ہے پھر ضعیف کہہ کر تبصرہ بھی کرتا ہے

فتاوی ثناء الله امرتسری ج ١ میں ہے




اس فتوی سے دو باتیں پتا چلیں اول نبی صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ نہیں لیکن روح لوٹانے پر ہونگے



عبد المنان نور پوری اس روایت کو حسن اور ثابت کہتے ہیں



ان عالم کا عقیدہ المناوی جیسا ہے کہ روح مسلسل جسم اطہر میں ہے تو بھلا بتائے ان لوگوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو زندہ درگورکر دیا

صالح المنجد کہتے ہیں


وقد صحت أحاديث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه يبلغه سلام من يسلم عليه من أمته ، وأنه يرد ذلك

فعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (مَا مِن أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلا رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيهِ السَّلَامَ) رواه أبو داود (2041) ، صححه النووي في “الأذكار” (ص/154) ، وابن حجر في “فتح الباري” (6/563) ، والشيخ الألباني في “صحيح أبي داود” .

اور صحیح احادیث میں اتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو سلام پہنچایا جاتا ہے …مَا مِن أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلا رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيهِ السَّلَامَ


معلوم ہوا ان علماء کے نزدیک ابو صخر کی روایت صحیح ہے

سلام پر نبی کی روح لوٹانے والی روایات علماء میں نزاع کا باعث ہیں قرآن کے خلاف ہیں، لہذا اس کو کیوں نہیں چھوڑ دیا جاتا

ان علماء کے نزدیک نبی صلی الله علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں اور ان کے نزدیک مردہ اگر قدموں کی چاپ سنتا ہے تو نبی سلام کیوں نہیں سن سکتے کیونکہ ان کے بقول نبی صلی الله علیہ وسلم کی حیات برزخی ہے اور مردہ کا چاپ سننا بھی برزخی ہے واضح رہے کہ یہاں ان کی اپنی تفہیم کے حساب سے برزخ سے مراد دنیا کی قبر ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

اسی لئے آج روضۂ النبی صلی الله علیہ وسلم کے اوپر سوره الحجرات کی آیت لکھی ہے کہ وہ جو اپنی آوازوں کو رسول الله کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ تقوی والے لوگ ہیں





یہ روایت اگر صحیح سمجھی جائے تو یہ نص ہے نبی صلی الله علیہ وسلم قبر کے پاس سے سنتے ہیں جب جب کوئی پکارے اگر روح جنت میں بھی ہو تو وہاں سے اس سلام پر جسد میں عود کرے گی اور آجکل جیسا رواج ہے صبح سے لے کر مغرب تک لوگ قبر پر جمع ہوتے ہیں اور سلام کہتے ہیں تو اس روایت کے حساب سے روح صبح سے مغرب تک جسد مطہرہ میں رہے گی. ہاں سعودی حکومت مغرب پر جب وہاں سے زائر کو بھگائے گی تو ہو سکتا ہے روح واپس جنت میں چلی جاتی ہو لیکن راقم نے خود دیکھا ہے کہ شیعہ زائر عشاء کے بعد بھی مسجد النبی سے باہر گنبد الخضرا سے قریب کھڑے ہو کر دعا و مناجات اور سلام تعظیم پیش کر رہے ہوتے ہیں لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم کی روح کم از کم اتنی دور سے آئے ہوئے زائر کو سلام نہ کہے بھی سنت کے خلاف ہے

ایک طرف تو یہ گمراہی ہے اور دوسری طرف

موطا کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی


تُوُفِّيَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ، وَدُفِنَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ

وفات پیر کے دن ہوئی اور تدفین منگل کو ہوئی

اس دوران کتنے ہی صحابہ نے درود پڑھا ہو گا لیکن ایک دفعہ بھی نبی صلی الله علیہ وسلم کی روح نہیں لوٹی

مسلک پرست کے اپنے اصول پر اس روایت سے نبی قبر میں زندہ ثابت ہوتے ہیں اور یہ بات کہ ان کی زندگی دنیاوی نہیں برزخی ہے ، لفظی نزاع سے کم نہیں ہے . ہمارے نزدیک روایت صحیح نہیں اور نہ ہی حسن کے درجے پر ہے بلکہ خلاف قرآن و عقل ہے کہ یہ نبی کو مسلسل قبر میں زندہ اور موت دینے کے مترادف ہے جبکہ حق یہ ہے اپ صلی الله علیہ وسلم کو جو موت انی تھی وہ آ چکی ہے اور اب آپ جنت کے سب سے اعلی مقام میں ہیں

اسی راوی أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ کی ایک دوسری روایت بھی ہے جس سے سماع الموتی کے عقیدے کا اثبات ہوتا ہے

مسند ابی یعلی کی روایت ہے

حدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي صَخْر ، أَنَّ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، يَقُولُ : وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ ، لَيَنْزِلَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلا ، فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ ، وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ ، وَلَيُصْلِحَنَّ ذَاتَ الْبَيْنِ ، وَلَيُذْهِبَنَّ الشَّحْنَاءَ ، وَلَيُعْرَضَنَّ عَلَيْهِ الْمَالُ فَلا يَقْبَلُهُ ، ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ لأُجِيبَنَّهُ


أَبَا هُرَيْرَةَ ، کہتے ہیں کہ انہوں نے رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم کو سنا کہ وہ جس کے ہاتھ میں ابو قاسم کی جان ہے بے شک عیسی ابن مریم نازل ہونگے …. پس جب میری قبر پر آئیں گے اور کہیں گے اے محمّد تو میں جواب دوں گا


اس کی سند میں بھی ابی صخر حمید بن زیاد ہے

البانی اس روایت کو الصحيحة میں نقل کرتے ہیں اور اسناد کو جید کہتے ہیں


قلت : و هذا إسناد جيد رجاله كلهم ثقات رجال

الشيخين غير أبي صخر – و هو حميد ابن زياد الخراط – فمن رجال مسلم وحده ، و قد
تكلم فيه بعضهم ، و صحح له ابن حبان و الحاكم و البوصيري ، و مشاه المنذري


البانی کہتے ہیں میں کہتا ہوں اس کی اسناد جید ہیں سارے رجال ثقه ہیں سوائے ابی صخر کے جو حمید بن زیاد ہے اور مسلم کے راویوں میں سے ہے اور اس پر بعض نے کلام کیا ہے اور اس کی تصحیح کی ہے ابن حبان حاکم اورالبوصيري اورالمنذري نے اس کا اقرار کیا ہے

ابو صخر کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح نبی صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہو جائیں قبر پر کوئی جائے اور اے محمّد کہے تو نبی جواب بھی دیں گے اور روح جسد میں ڈالی جائے گی

حدیث میں آتا ہے کہ آدم و موسیٰ علیھما السلام کی ملاقات جنت میں ہوئی اور ان کی تقدیر پر بات ہوئی نبی صلی الله علیہ وسلم سے کلام کے لئے مسیح علیہ السلام کو زمین پر آ کر سلام کرنے کی کیا ضرورت ہے کیا جنت میں ملاقات نہیں ہو سکتی
ابو صخر کو زاذان کی روایت پسند نہیں آئی کیونکہ اس میں فرشتے سلام لے جا رہے تھے

درود پیش ہونے کی کوئی ایک بھی روایت صحیح نہیں. حیرت کی بات ہے کہ امت نے نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے کے اس عقیدے کو دانتوں سے پکڑا ہوا ہے
محمّد بن اسحاق کی روایت

مستدرک الحآکم کی روایت ہے

أَخْبَرَنِي أَبُو الطَّيِّبِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْحِيرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ثنا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ (صبية) قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَهْبِطَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا، وَإِمَامًا مُقْسِطًا وَلَيَسْلُكَنَّ فَجًّا حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ بِنِيِّتِهِمَا وَلَيَأْتِيَنَّ قَبْرِي حَتَّى يُسَلِّمَ وَلَأَرُدَّنَ عَلَيْهِ» يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: ” أَيْ بَنِي أَخِي إِنْ رَأَيْتُمُوهُ فَقُولُوا: أَبُو هُرَيْرَةَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ»


ابو هُرَيْرَةَ رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

بے شک عیسیٰ ابن مریم اتریں گے حاکم عادل بن کر… اور میری قبر پر آئیں گے سلام کریں گے اور میں جواب دوں گا


اس کی سند میں محمّد بن اسحاق ہے جس کو امام مالک دجال کہتے تھے جبکہ بعض ثقہ. ابن اسحاق مدلس ہے اور اسکو عن سے روایت کرتا ہے لہذا یہ ضعیف روایت ہے

البانی اس روایت کو بھی صحیح قرار دیتے ہیں (سلسلة الأحاديث الصحيحة (2733) ) لیکن عالم صالح المنجد کہتے ہیں الفاظ حَتَّى يُسَلِّمَ وَلَأَرُدَّنَ عَلَيْهِ کہ سلام کا جواب دین گے کے الفاظ شاذ ہیں

وأنها ألفاظ شاذة غير محفوظة


یہ الفاظ شاذ اور غیر محفوظ ہیں

لیکن اس روایت پر صالح المنجد بحث کرتے ہوئے ابو صخر حمید بن زیاد پر جرح نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں

وهذه الأسانيد ليست في درجة الوجه الأول من الصحة والقبول ، بل لا يخلو إسناد منها من مقال ، أو من راوٍمتكلم فيه
فأبو صخر ضعفه ابن معين والنسائي ، وأحمد في رواية ، وقد وثقه الدارقطني ، وقال فيه أحمد – في رواية أخرى – : ليس به بأس . انظر ” تهذيب التهذيب


اور یہ اسناد صحت اور قبولیت کے اول درجے پر نہیں ہیں بلکہ یہ تنقید سے خالی اسناد نہیں اور اس میں متکلم راوی ہیں پس ابو صخر کی تضیف کی ہے ابن معین اور نسائی اور احمد اور اس کو ثقه کھا ہے دارقطنی اور احمد نے ایک دوسری روایت پر کہا ہے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھو تہذیب التہذیب

اگر ابو صخر کی وجہ سے اسناد تنقید سے خالی نہیں تو پھر سلام پر روح لوٹانے والی روایت کیسے صحیح ہو سکتی ہے
فقہاء اور درود


بعض فقہاء کے نزدیک زندگی میں صرف ایک دفعہ درود پڑھنا فرض ہے .مودودی سوره الاحزاب کی تفسیر میں لکھتے ہیں





احناف اور مالکیہ میں فرض نماز بغیر درود کے بھی ہوجاتی ہے

اگر درود نبی سنتے ہیں اور وہ دعا جس میں درود نہ پڑھا جائے وہ ناقص ہوتی ہے تو ایسی نماز کا کیا حال ہو گا

آخر امام مالک اور ابو حنیفہ کو اس کا خیال کیوں نہ آیا یہ کیسی فقاہت ہے



اللہ اس گمراہی سے نکلنے کی توفیق دے

السلام علینا و علی عباد الله الصالحین
 
Top