lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,898
- پوائنٹ
- 436
اس پر راۓ درکار ہے - اس میں کوئی ڈنڈی ماری گئی ہے تو پلیز بتا دیا جا ے تا کہ اس کا رد کیا جا سکے
اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید
سلام اسلامی معاشرت کا شعار ہے. مسلم کی حدیث ہے کہ
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرةَرَضِی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حتّٰی تُوٴْمِنُوْا وَلَا تُوٴْمِنُوْا حتّٰی تَحَابُّوا، اَولَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شيءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ․ روا ہ مسلم
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ جب تک تم ایمان نہ لاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور تم ایمان نہیں لاؤ گے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو‘کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تم وہ کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ فرمایا کہ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ
مسلم کی ایک دوسری روایت ہے کہ
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔ آپ کے قد کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ آدم کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا، اس (فرشتوں کی) جماعت کو سلام کرو‘ اور سنو کیا جواب ملتا ہے ۔ جو جواب ملے وہی تمہارا اور تمہاری ذریت کا جواب ہوگا۔ وہاں فرشتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی۔آدم علیہ السلام اس جماعت کے پاس گئے اور انھیں مخاطب کر کے ” السلام علیکم “کہا ۔ فرشتوں نے جواب میں ”السلام علیک و رحمتہ اللہ“کہا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انھوں نے ”ورحمة اللہ “ کا اضافہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید کہا کہ جو شخص بھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی شکل پر ہوگا اور اس کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا ہوگا لیکن آدم علیہ السلام کے بعد انسانی قد میں مسلسل کمی ہوتی رہی
معلوم ہوا کہ سلام کا تعلق ادب سے ہے اور ایک دوسرے کے لئے دعائیہ کلمات ہیں. ہم براہ راست الله سے دوسرے شخص کے لئے دعا کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں دوسرے شخص کو ہمارے خلوص کا پتا نہیں چلے گا لہذا معاشرت میں خلوص کی وجہ سے اس کی تلقین کی گئی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے لئے دعا کریں . ہم خط لکھ کر دوسرے شخص کو بھیجتے ہیں اس میں بھی یہی خلوص مقصد ہوتا ہے . لیکن جب کوئی شخص انتقال کر جائے تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اور دعائیہ کلمات میت کو سنانا مقصد نہیں ہوتا، نہ ہی اس میت سے واپس جواب کی امید کی جاتی ہے. میت کو تو پتا بھی نہیں ہوتا کہ کس نے اس کی تعریف کی اور کس نے برائی ، کس نے نماز جنازہ پڑھی اور کس نے نہیں، کس نے غسل دیا اور کس نے کفن دیا
اسلامی معاشرت کے تحت نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو سلام کیا اور صحابہ نے آپ کو. پھر نبی کے لئے درود یعنی رحمت کی دعا کرنے کا الله نے حکم دیا
جب ہم الله کے نبی پر درود پڑھتے ہیں تو ہمارا مقصد نبی صلی الله علیہ وسلم کو سنانا نہیں ہوتا بلکہ الله کی بارگاہ میں نبی کے لئے دعا ئے رحمت مقصود ہوتی ہے. نبی صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں درود جھر (بلند آواز) سے پڑھنے کا حکم نہیں دیا ورنہ کسی کا خیال ہو سکتا تھا کہ صحابہ ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو درود سناتے تھے
اگر درود پیش ہونا ہی حقیقت ہوتا تو نماز کا درود جھر سے پڑھا جاتا تاکہ نبی صلی الله علیہ وسلم سن سکیں کہ کون امتی درود پڑھ رہا ہے اور کون منافق ہے
اسی تفریق کو نہ سمجھتے ہوئے نبی صلی الله علیہ وسلم پر امت کے درود و سلام کا عقیدہ اختیار کئی ہوئے ہیں اور اس کا دفاع اس انداز میں کرتے ہیں
میت کے لیے ہم دعائیں کرتے ہیں نمازِ جنازہ میں بھی اور نمازِ جنازہ کے علاوہ بھی وقتا فوقتا فوت شدہ مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں تو یہ دعائیں اللہ کے فضل و کرم سے ان کو پہنچتی ہیں۔ پھر ہم بذریعہ خط و کتابت یا بذریعہ دوست و احباب دوسروں کو سلام دعاء پہنچاتے رہتے ہیں تو یہ سلام دعاء بھی ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھئے آپ اپنا یہ مکتوب جس میں آپ کا میری طرف سلام بھی درج ہے، مجھ پر پیش کیا تو وہ مجھ پر پیش ہوگیا ہے تو آپ غور فرمائیں اگر کوئی فرمائے: ’’ بقول آپ کے کسی بھائی یا دوست کو بھیجے ہوئے سلام دعاء اس پر پیش کیے جاتے ہیں تو اس کو پہنچ جاتے ہیں۔ دعاء و سلام ایک عبادت ، دعائیہ عمل ہے سورۂ الشوریٰ آیت نمبر: ۵۳ کے تحت تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ دعاو سلام کسی کو بھیجتے وقت بھی ہم دعاء اللہ کے حضور کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمارے فلاں بھائی یا دوست پر سلامتی نازل فرما تو سننے والے اس دعاء کو اللہ کی بارگاہ کی بجائے ہمارے فلاں دوست یا بھائی کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے دعائیہ کلمات سلام ودعاء سننے والے ہمارے بھائی دعاء سلام دوسروں تک پہنچانے والے عربی، اُردو، انگریزی وغیرہ سے ناواقف ہیں یا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال ہمارے دوستوں اور بھائیوں کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ اللہ کے حضور یا آپ اپنے دوستوں اور بھائیوں کو معبود سمجھ کر ان کے حضور اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘ تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟
ہمارے تمام اعمال کی تفصیل فرشتے لکھتے ہیں اور الله تک پہنچاتے ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن دنیا میں جو بھی کام ہوتے ہیں کیا وہ الله تک نہیں جاتے اس میں تعمق فرماتے ہوئے عالم لکھتے ہیں
پھر سورۂ الشوریٰ کی محولہ بالا آیت کریمہ کے الفاظ: ﴿أَلَا إِلَى اللَّـهِ تَصِيرُ الْأُمُورُ (٥٣)﴾اس کا ترجمہ و مطلب آپ نے لکھا ہے: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ جبکہ قرآنِ مجید کی اس آیت کریمہ کی ہم معنی و مطلب دیگر آیات کے الفاظ ہیں: ﴿وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (١٠٩)﴾’’ اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘ ﴿ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ﴾آپ ذرا مزید غور فرمالیں
پھر ان آیات کریمہ میں اعمال کی کوئی تخصیص نہیں۔ آخرت کی بھی کوئی تخصیص نہیں تو اگر کوئی صاحب ان آیات کریمہ کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے فرمادیں کہ جج صاحبان کے ہاں جو کاغذات پیش کیے جاتے ہیں یا دوسرے محکموں میں کاغذات وغیرہ کی جو پیشیاں ہوتی ہیں یہ سب سورۂ الشوریٰ کی آیت نمبر ۵۳ کہ: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ کے منافی و مخالف ہیں تو کیا خیال ہے آپ کی تحقیق کی رو سے ان کی یہ بات درست ہوگی؟
آیت اپنے مفھوم میں بالکل واضح ہے. دینا کیا چیز ہے، اس کے جج، حاکم، شہنشاہ سب کے اعمال الله کے حضور پیش ہو رہے ہیں. صحیح مسلم کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے کہ اس دن اعمال الله کے پاس پیش ہوتے ہیں
ائمہ پر اعمال پیش ہوتے ہیں
الكلينى، محمدبن يعقوب، الکافی، ج 1، ص 219، كتاب الحجة، باب عرض الاعمال على النبى و الائمة، میں ہے
امام صادق ﴿ع﴾ سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ لوگوں کے تمام نیک و بد اعمال ہر روز صبح سویرے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں، اس لئے ھوشیار رہئے
ایک دوسری روایت ہے
عبداللہ بن ابان ایک روایت میں کہتے ہیں:“ میں نے حضرت امام رضا ﴿ع﴾ کی خدمت میں عرض کی کہ: میرے اور میرے خاندان کے لئے ایک دعا فرمائیے۔ حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ کیا میں دعا نہیں کرتا ھوں؟ خدا کی قسم آپ کے اعمال ہر روز وشب میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، لہذا ہر ناسب امر کے بارے میں دعا کرتا ہوں”۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ امام ﴿ع﴾ کا یہ کلام میرے لئے عجیب تھا کہ ہمارے اعمال ہر روز و شب امام ﴿ع﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جب امام ﴿ع﴾ میرے تعجب کے بارے میں آگاہ ھوئے تو مجھ سے مخاطب ھوکر فر مایا:“ کیا آپ خداوند متعال کی کتاب نہیں پڑھتے ہیں، جہاں پر خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:“ وقل اعملوا فسیراللہ عملکم و رسولہ والمؤمنون” اور اس کے بعد فرمایا:“ خدا کی قسم اس آیت میں مومنون سے مراد علی بن ابی طالب ﴿ع﴾ ہیں الکافی ج1، ص 219، ح ٤
احادیث کی کتب بشمول بخاری و مسلم میں بدعتی عقیدے رکھنے والے بہت سے راوی ہیں جن میں شیعہ بھی ہیں
زاذان المتوفی ٨٢ ھ کی روایت
ایسے ہی ایک راوی زاذان ابو عمر الکندی ہیں. علم حدیث کا اصول ہے کہ صادق اللہجہ راوی کی روایت اس کی بدعت کے اثبات میں ناقابل قبول ہے. زاذان اپنے شیعی عقیدے کا پر چار کرتے اور ایسے عقیدے پھیلاتے تھے جن کو بعد میں آنے والے امام بخاری و مسلم رد کرتے رہے اور اپنی کتابوں کو ان کے عقائد سے پاک رکھا. ہاں ان سے صرف مسلم نے تین مقام پر روایت لی لیکن وہ روایات عقیدے سے متعلق نہیں
اس احتیاط سے صرف نظر کرتے ہوئے پہلے زاذان کی عود روح والی روایت پر عقیدہ بنایا گیا پھر اعمال پیش ہونے والی روایت کو بھی صحیح سمجھا گیا
زاذان، عبدللہ ابن مسعود رضی الله تعالی عنہ سے روایت نقل کرتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ
عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال نبی صلی الله علیہ وسلم ان للہ ملائکة سیاحین یبلغونی عن امتی السلام
بے شک الله کے سیاح فرشتے ہیں جو میری امت کا سلام مجھ تک لاتے ہیں
اس روایت میں یہ موجود نہیں کہ یہ بات وفات کے بعد ہو گی بلکہ واضح ہے کہ زندگی میں بھی ایسا ہو رہا ہے
خواجہ محمد قاسم کتاب کراچی کا عثمانی مذہب میں لکھتے ہیں
خواجہ صاحب اعمال پیش ہونے کی معصومانہ رائے پیش کر رہے ہیں لیکن جس ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ انہوں نے یہ لکھا ہےاس سے ظاہر ہے کہ الفاظ ان کا ساتھ نہیں دے رہے . یہ کیا درجات کی بلندی ہے؟ امت جو مشرکانہ درود پڑھ رہی ہے اگر وہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہو تو اس سے زیادہ دکھ کی بات ان کے لئے کیا ہو گی. دوئم جن روایات میں یہ آیا ہے اعمال پیش ہوتے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ اگر بد اعمال ہوں تو نبی صلی الله علیہ وسلم اور رشتہ دار دعا کرتے ہیں
سوم اس روایت میں کہاں نے کہ یہ سب وفات کے بعد ہو گا بلکہ زندگی میں بھی ایسا ہو رہا ہے
بئر معونہ کا واقعہ ہمارے سامنے ہے کفّار نے اصحاب رسول کو گھیر لیا اور قتل کرنا شروع کیا صحابہ نے اللہ سے دعا کی کہ ہمارے قتل کی خبر نبی کو دے دے اگر درود پیش ہونے کا عقیدہ ہوتا تو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی. ایک ہی روز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو پتا چل جاتا کہ درود پیش نہیں ہو رہا. اسی طرح عثمان رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کی خبر پر نبی
صلی الله علیہ وسلم نے بیعت رضوان لے لی