• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مظلوم کشمیریوں کو زندہ لاش بنایا جارہا ہے:

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مظلوم کشمیریوں کو زندہ لاش بنایا جارہا ہے

’پیلٹ گن مارتی نہیں زندہ لاش بنا دیتی ہے‘

21 جولائ 2016

میڈیا پلیئر کے بغیر آگے جائیں میڈیا پلیئر کے لیے مددمیڈیا پلیئر سے باہر۔ واپس جانے کے لیے ’enter کا بٹن دبائیں اور جاری رکھنے کے لیے tab دبائیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورس مظاہرین کو منتشرکرنے کے لیے پیلٹ گن یعنی چھرے والی بندوق کا استعمال کر رہے ہیں۔

یہ بندوق جان لیوا نہیں ہے لیکن ان بندوقوں کے سبب کئی مظاہرین کو شدید چوٹیں لگی ہیں۔

کئی بار مظاہرین کے پاس کھڑے ہوئے لوگ بھی ان سے زخمی ہوئے ہیں اس سے بہت سے لوگوں کی آنکھوں کی روشنی تک چلی گئی ہے۔

پیلٹ گن کیا ہے؟

یہ پمپ کرنے والی بندوق ہے جس میں کئی طرح کے کارتوس استعمال ہوتے ہیں۔یہ کارتوس 5 سے 12 کی رینج میں ہوتے ہیں، پانچ کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اثر کافی دور تک ہوتا ہے۔


اس گن کے استعمال سے کئی لوگ اپنی بینائی کھو چکے ہیں

پیلٹ گن سے تیز رفتار چھوٹے لوہے کے بال فائر کیے جاتے ہیں اور ایک کارتوس میں ایسے لوہے کے 500 تک بال ہو سکتے ہیں۔

فائر کرنے کے بعد کارتوس ہوا میں پھوٹتے ہیں اور چھرے چاروں سمت میں جاتے ہیں۔

پیلٹ گن، عام طور سے شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، کیونکہ اس سے چھرے چاروں طرف بکھرتے ہیں اور شکاری کو اپنے ہدف پر نشانہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے۔


پیلٹ گن سے زخمی ہونے والی آنکھوں کا علاج بہت مہنگا ہے

لیکن کشمیر میں یہ گن انسانوں پر استعمال ہو رہی ہے اورلوگوں میں خوف پیدا کر رہی ہے۔

اس ہتھیار کو 2010 میں کشمیر میں بدامنی کے دوران سکیورٹی فورسز نے استعمال کیا تھا جس سے 100 سے زیادہ مظاہرین کی موت ہو گئی تھی۔

سکیورٹی فورس کیا کہتی ہیں؟

کشمیر میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے پبلک ریلشنز آفیسر راجیشور یادو کہتے ہیں کہ سی آر پی ایف کے جوان مظاہرین سے نمٹنے کے دوران’زیادہ سے زیادہ تحمل‘ برتتے ہیں۔

راجیشور یادو کہتے ہیں ’احتجاج کو ناکام کرنے کے لیے ہم 9 نمبر کی کارٹریجز (کارتوس) استعمال کرتے ہیں اس کا کم سے کم اثر ہوتا ہے اور یہ مہلک نہیں ہے‘۔


پیلٹ گن سے زخمی ہونے والوں کی بینائی واپس آنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے

لیکن یادو کی بات سے اتفاق نہ کرنے والے ایک اعلیٰ پولیس افسران اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ سکیورٹی فورسز کو مجمے کو منتشر کرنے کے لیے 12 نمبر کے کارتوس استعمال کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ بہت ہی مشکل حالات میں نمبر 9 کارتوس کا استعمال ہونا چاہیے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری تازہ مظاہروں کے دوران دو افراد کی موت ایسی ہی گنز سے ہوئی ہے۔لوگوں نے پیلٹ گنز کے استعمال پر سوال اٹھائے ہیں.

جو لوگ پیلٹ گن کے استعمال سے زخمی ہوتے ہیں، ان کو گھر والوں کو علاج کے لیے کشمیر کے باہر لے جانا پڑتا ہے۔

شکار کے لیے استعمال ہونے والی اس گن کو کشمیر میں انسانوں پر اسستعمال کیا جا رہا ہے

شمالی کشمیر کے بارہ مولہ علاقے کے رہنے والے کبیر کی پیلٹ گن سے زخمی ہونے کے بعد دونوں آنکھوں کی روشنی چلی گئی ہے.

کبیر کے خاندان کو اس کے علاج کے لیے کافی رقم کا انتظام کرنا پڑا ان کے والد سڑک کے کنارے ریڑی لگا کر بہت ہی مشکل سے گھر چلاتے ہیں.

کبیر کی ماں کہتی ہیں،’مجھے اپنے زیورات فروخت پڑے تاکہ کشمیر کے باہر علاج کا خرچ اٹھایا جا سکے، وہ بھی ناکافی رہا اور ہمیں اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے پیسے قرضے لینے پڑے‘۔

اسی سال مارچ میں 15 سالہ عابد میر کو اس وقت پیلٹ گن سے چوٹ لگی جب وہ ایک شدت پسند کی تدفین سے واپس آ رہے تھے۔

کشمیر میں پیلٹ ان کے شکار لوگوں کو علاج مہنگا ہونے کے سبب شدید دشواریوں کا سامنا ہے

میر کے خاندان کو دوسروں سے ادھار مانگ کر اپنے بیٹے کا علاج کرانا پڑا. کشمیر میں ٹھیک طریقے سے علاج نہ ہو پانے کی وجہ ان لوگوں نے امرتسر میں علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔

میر کے چچا کا کہنا ہے کہ ’انہیں علاج میں تقریباً دو لاکھ روپے خرچ کرنے پڑے‘۔

’مردوں کی طرح جینے سے موت بہتر‘

جن لوگوں کی پیلٹ گنز لگنے سےبینائی مکمل طور پر چلی جاتی ہے، وہ ذہنی جھٹکا، مایوسی اور ڈپریشن میں ڈوب جاتے ہیں۔

ایک پل میں ان کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔

ڈار گریجویشن کے آخری سال میں تھے جب ان کی آنکھیں پیلٹ سے زخمی ہوئیں۔

ڈار کہتے ہیں، ’مجھے پانچ مرتبہ سرجری کرانی پڑی اور تقریباً ایک سال تک میں مکمل اندھیرے میں رہا۔ اب میری بائیں آنکھ میں تھوڑی روشنی واپس آئی ہے‘۔

انھوں نے کہاجب میری آنکھوں کی روشنی چلی گئی تو میں اکثر اوپر والے سے دعا کرتا تھا کہ وہ مجھے مار ہی ڈالے کیونکہ مردوں کی طرح زندہ رہنے کی بجائے موت بہتر ہے‘۔

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
13658979_1763105693905434_3871382248606358863_n.jpg


ظالمو۔۔ ۔سب کچھ چھین لو۔ ۔ سب کچھ چھین لو۔ - - عالم کی قبا۔ ۔بیٹی کی ردا۔ ۔بزرگوں کی دعا بھی چھین لو۔ ۔ مجاہد کی وفا۔ ۔ بچوں کی ندا ۔ ۔ مظلوم کا حق بھی چھین لو۔ ۔ ۔ ماوں بہنوں بیٹیوں کی عفتیں بھی چھین لو ۔ ۔ عصمتیں بھی چھین لو۔ گویا باقی جو بچیں ہیں اسلام کی رفعتیں بھی چھین لو۔ ۔ ۔عقل و شعور کیا چھیننا آنکھیں ہی چھین لو۔ ۔ جدا کرو ہاتھوں کو جسم سے ۔ جدا کرو پاوں کو جسم سے ۔ ۔ چھوڑو انکو بھی کیا چھیننا ۔ ۔ ۔جسم میں جو بچی ہے اس روح کو ہی چھین لو۔ ۔ میرے کشمیر کے بیٹو میرے کشمیر کے بھائیو۔ ۔ تمہاری پکار پر اب۔ ۔ کوئی محمد بن قاسم ۔ ۔ تمہاری پکار پر اب کوئی صلاح الدین ۔ ۔ تمہاری پکار پر اب کوئی طارق بن زیاد۔ ۔ تمہاری پکار پر اب۔ ۔ ۔ تمہے معلوم ہے سب۔۔۔ہاں تمہیں معلوم ہے سب۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں جب تم سے چھیننے آئے وہ اب۔ ۔ خدا را اس سے یہ نوچنے کا حق ہی چھین لو۔ ۔خدارا اس سے یہ دبوچنے کا حق ہی چھین لو۔ ۔ ۔ تم بھی چھین لو ۔ ۔ تم بھی چھین لو ۔۔ ۔ بلکہ تم ظالم سےاب سارا ظلم ہی چھین لو۔ ۔ ۔

ہشام الہی ظہیر
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جانوروں کا شکارکرنے والی پیلٹ گن کا کشمیریوں پربے دریغ استعمال

ویب ڈیسک جمعرات 4 اگست 2016



ہری سنگھ اسپتال میں پیلٹ گن سے متاثرہ 4 سو سے زائد کشمیریوں کی آنکھوں سے چھرنے نکالنے کے لئے آپریشن ہوچکے ہیں : فوٹو : فائل

سری نگر: پیلٹ گن عام طور پر جانوروں کے شکار کے لئے استعمال ہوتی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اس گن کو مظلوم اورنہتے شہریوں پراستعمال کررہی ہے جس سے متعدد افراد کی بینائی بھی ضائع ہو چکی ہے۔

قابض بھارتی فوج کشمیری عوام کی آواز دبانے کے لئے پیلٹ گن کا بے دریغ استعمال کررہی ہے، 12 بور کی اس بندوق سے جانوروں کا شکار کیا جاتا ہے، پیلٹ گن کے کارتوس میں 4 سوسے 5 سو چھرے ہوتے ہیں جوکئی میٹردور تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کو پیلٹ گن دی گئی ہیں جو اس کا غلط استعمال کرر ہے ہیں، بھارتی سیکیورٹی فورسزاس گن کے ذریعے نہتے کشمیری عوام کے اوپری حصے خصوصاً چہروں کو نشانہ بنا رہے ہیں جس کے باعث اب تک متعدد نوجوان بچے اورعورتیں بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔

اس خبر کوبھی پڑھیں: کشمیریوں کو اپنا نہیں سمجھا گیا، مقبوضہ کشمیر ہائیکورٹ حکومت پر برہم

اب تک صرف سری نگر کے سرکاری اسپتال ہری سنگھ میں پیلٹ گن سے متاثرہونے والے 4 سو سے زائد کشمیریوں کی آنکھوں سے چھرے نکالنے کے لئے آپریشن ہوچکے ہیں جب کہ مقبوضہ کشمیرمیں آنکھوں کے ڈاکٹروں کی بھی کمی ہوگئی ہے۔

مقبوضہ کشمیرمیں پیلٹ گن کےغیرقانونی استعمال کیخلاف کیخلاف عالمی میڈیا سمیت بھارت میں بھی آوازاٹھائی جا رہی ہے۔ امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ اورنیویارک ٹائمزمیں کہا گیا ہے کہ کشمیرمیں تشدد کی حالیہ لہرمیں بھارتی فوج پیلٹ گنزاستعمال کر رہی ہے اور زیادہ تر مظاہرین کی آنکھیں متاثر ہوئی ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: جولائی میں بھارتی بربریت سے 74 کشمیری شہید ہوئے

برطانوی جریدے دی گارڈین نے مطالبہ کیا ہےکہ بھارت فوری طور پر بےگناہ کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی بند کرے۔ دی گارڈین نےعالمی ادیبوں اور مصنفوں کی آواز بنتے ہوئے عالمی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کوبھی بھارتی مظالم کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

بی بی سی کا کہنا ہے کہ عام طورپرپیلٹ گنز کا استعمال مظاہرین کی ٹانگوں پرکیا جاتا ہے لیکن بھارتی فوج جان بوجھ کرگھٹنوں سے اوپر گولیاں چلا رہی ہے۔ بھارتی میڈیا پر بھی بھارتی فورسزکی ظالمانہ کارروائیوں کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔

اس خبر کوبھی پڑھیں: امریکا کا مقبوضہ کشمیرکے واقعات پر تشویش کا اظہار

دوسری جانب ایمینسٹی انٹرنیشنل نے بیلٹ گن کے استعمال کو عالمی ضابطوں کی خلاف وزری قرار دیتے ہوئے بھارتی حکومت سے پیلٹ گنز کا استعمال فوری طور پر روکنے کامطالبہ کیا ہے۔ تاہم بھارتی افواج قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اب تک 5 سو سے زائد بچوں کو ان کارتوسوں کا نشانہ بنا چکی ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کشمیر میں مظاہرین پر فائرنگ سے چار افراد ہلاک

16 اگست 2016

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری تشدد میں اب تک 62 افراد ہلاک جبکہ پانچ ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں عوام اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں مزید چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔

سرینگر میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق یہ جھڑپیں بڈگام کے علاقے میں ہوئیں اور سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں۔

٭ ’ہر ماں ایک برہان پیدا کرے گی‘
٭ کشمیر میں یومِ سیاہ، سری نگر میں پولیس پر حملہ

ہلاک ہونے والے افراد پیر کو سری نگر میں ایک مظاہرے کے دوران پولیس سے تصادم میں ایک 16 سالہ لڑکے کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری تشدد میں اب تک 65 افراد ہلاک جبکہ پانچ ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

یہ احتجاجی لہر آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی فوج سے تصادم میں ہلاکت کے بعد شروع ہوئی تھی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
“اٹھو میرے بابا اٹھو”کشمیری سکالر کے ننھے نعمان نے دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا

: August 20, 2016

اسلام آباد(مقصود منتظر/ سٹیٹ ویوز)مقبوضہ کشمیر کے سکالر تیس سالہ شبیر احمد کو بھارتی فوج نے 19اگست کی رات کو شدید تشدد کرکے شہید کردیا. صبح جب شبیر کا جسد خاکی ان کے گھر پہنچا دیا گیا تو ان کا ڈیڑھ سالہ بیٹا نعمان دوڑ کر اپنے بابا کے لاشہ کے پاس پہنچ گیا.

ننھا نعمان اپنے باپ کے سرھانے بیٹھ کر بابااٹھو بابا پکارنے لگا…. بابا آنکھیں تو کھولو … مجھے باہر جانا ہے … میں نے چاکلیٹ لینی ہے… ننھا نعمان کافی دیر تک اپنے بابا کی آنکھوں پراپنی معصوم انگلیاں پھیرتا رہالیکن بابا کو تو بھارتی دہشتگرد فوج نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلادیا تھا.ننھے نعمان کی اس تصویر نے سوشل میڈیا پردنیا بھر میں امن اور انسانیت سے پیار کرنے والوں کو جھنجوڑ کر رکھا دیا اور نومان کی معصومیت نے سخت دل والوں کوبھی پگھلا دیا ۔


شہید شبیر احمد کی فائل فوٹو۔۔۔۔ ننھا نعمان اور شہید کی بیوہ
Numan--768x266.png


شوپیاں کے علاقے کھریو میں سکالر شبیر کی شہادت پر صف ماتم بچھا ہوا ہے. ان کے گھر تعزیت کے لیے لوگ جوق در جوق آرہے ہیں لیکن شبیر کے بیٹے نعمان کو یہی گمان ہے کہ اس کا باپ واپس آجائے گا. ڈیڑھ سال کے بچے کو یہی گمان ہے کہ بابا چاکلیٹ لینے گیا ہے

یاد رہے سری نگر امر سنگھ کالج کے لیکچرر شبیر احمد کو بھارتی قابض فوج نے شبانہ چھاپے کے دوران گھر سے اٹھایا اور صبح ان کی لاش ان کے گھر چھوڑ دی. بھارتی فوج کے اعلیٰ حکام نے اعتراف کرلیا کہ شبیر احمد کو رات بھر تشدد کرکےمارا گیا .یہ پہلی دفعہ ایساہواہے جب بھارتی فوج نے کسی کشمیری کے قتل کا اعتراف خود کیا ہے.

کشمیر میں جاری تحریک کے دوران ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں.. نعمان کے سر سے بھی ظالموں نے باپ کا سایہ چھین لیا. اب وہ بھی یتیم کہلائے گا۔

سوال یہ ہے کہ جب نعمان بڑا ہوگا اور اسے یہ معلوم ہوگاکہ بھارت نے اس کے سر سے صرف ڈیڑھ سال کی عمرمیں باپ کا سایہ چھینا تو اس کے جذبات کیا ہونگے… کیا وہ خاموش رہے گایا باپ کے قتل کا بدلہ لینے کی کوشش کرے گا؟؟

بھارتی حکومت اور اس کے لیڈر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ جموں کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے. بھارتی حکمران صبح سے شام تک یہی رٹ لگارہے ہیں کہ کشمیر میں چند سرپھرے لوگ بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ کررہے ہیں.بھارتی میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز پر ہر وقت کشمیر کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہےلیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کشمیر کی نئی نسل کی رگ رگ میں بھارت کیخلاف نفرت اور انتقام کی آگ جل رہی ہے کیونکہ 1990 سے لیکر آج تک جو گل بھارتی فوج نے کشمیر میں کھلائے ہیں ان سے نفرت اور انتقام کی بُو ہی آتی ہے ۔

بھارتی قابض فوج نے کسی کا بھائی چھینا ، کسی کا بیٹا غائب کردیا. کسی کے سر سے باپ کا سایہ چھین لیا. کسی نو بیاہتادلہن سے شوہر چھین لیا.ایسے لوگ کیسے خاموش رہ سکتے ہیں.. ایسے لوگوں کو بیرونی مدد یا برین واشنگ کی ضرورت نہیں بلکہ ایسے لوگ صرف موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جو ان کے اندر لگی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرسکتا ہے . کشمیر کے ایسےمتاثرین کو جب بھی کوئی موقع ہاتھ آتا ہے تو وہ بھارت کیخلاف نفرت اور انتقام کا بھرپور اور دل کھول کر اظہار کرتے ہیں موجودہ صورتحال اس کی عکاسی ہے۔

نریندر مودی جو بیرون دنیا میں بھارت کا سافٹ امیج اجاگر کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں،جنہیں کشمیر یوں کی چیخ و پکار سنائی نہیں دے رہی ہے مگر ہزاروں میل دور دوسرے ملک کے صوبہ بلوچستان سے آواز سنائی دے رہی ہے. مودی جو کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار ۔دے رہے ہیں لیکن وہ اس انگ کے رستے زخم نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
"وہ سرخ اور اداس آنکھیں"


حیات عبداللہ کا خصوصی کالم

درد کی پرچھائیاں آنکھوں کے اس احاطے میں دور دور تک بسی ہیں۔ وہ سرخ، زخمی اور اداس آنکھیں کہ جن میں کرب انڈیل دیئے گئے، جن آنکھوں کے آنگنوں میں گریے، نوحے اور رت جگے اگا کر ان کی دل کشی اور زیبائی کو ویرانیوں میں بدل دیا گیا۔ حسین و دل رُبا وادیوں کے ان مکینوں کے احساسات میں کتنے سنسان، پت جھڑ اور تپتے موسم جھونک دیئے گئے۔ سینکڑوں آنکھوں کے اجالوں کو سلب کر کے ہمیشہ کے لئے تاریکیاں ڈال دی گئیں۔ ان محبت مآب آنکھوں سے سارے اجلے خواب سینت کر عذاب ہی عذاب مسلط کر دیئے گئے۔ عفرا کے باپ کو بھارتی فوج نے مار ڈالا۔ وہ ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھتی تھی مگر بھارتی ظلم و استبداد نے اس کی آنکھوں کو زخموں سے لاد دیا۔ وہی آنکھیں جن میں ملک و قوم کی خدمت کے جذبے کسی کاجل کی مانند سجے تھے اب لہو رنگ زخموں سے بھری تھیں۔ اس نے اپنی آنکھیں بچانے کے لئے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھے مگر ہاتھ تشدد کی تاب نہ لا سکے۔ زخموں سے اٹی عفرا کی تصویر دیکھ کر دل تڑپ اٹھتا ہے کہ آنکھیں سلامت نہ ہاتھ محفوظ، ان آنکھوں اور ہاتھوں کا جرم یہ ہے کہ وہ پاکستان کی محبت میں نہائے ہیں، یہاں ذرا توقف کیجئے مجھے ایک اور شخص کے دو ہاتھ اور آنکھیں یاد آ رہی ہیں وہ شخص مسلمان ہے اور پاکستان کے مستقبل کے وزیراعظم کے خواب اپنے دل میں بسائے بیٹھا ہے۔ بلاول زرداری دیوالی کے موقع پر مندر گیا اس نے بت کے سامنے اپنے ہاتھوں سے تپسیا کے وہ سارے کام کئے جو ہندو کرتے ہیں۔ اس کی آنکھیں بھگوان کے سامنے بڑی مسرور اور خوش تھیں۔

دیکھوں ترے ہاتھوں کو نہ لگتا ہے ترے ہاتھ
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لئے ہیں

دل میں اگر انسانیت کی رمق کی معمولی سی چمک دمک بھی دھڑکتی ہو تو بلکتی آہوں پر ارتعاش اور تلاطم ضرور امڈ آتا ہے۔ امریکا ڈکسن ہالی ووڈ کی معروف اداکارہ ہے، وہ دو مرتبہ مقبوضہ کشمیر گئی اور عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لئے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، اس ویڈیو میں وہ بھارتی سفاکیت کا ذکر کرتے ہوئے بار بار رو پڑتی ہے۔ آپ ایریکا ڈکسن کے لفظوں پر غور کرتے جایئے کہ ایک اداکارہ کس طرح تڑپ اٹھی ہے، وہ کہتی ہے ’’آپ کیسا محسوس کریں گی کہ آپ کا شوہر ناشتہ لینے جائے اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے؟ آپ کو کیسا لگے گا جب آپ کی بیٹی کی آنکھوں میں پیلٹ گن کی گولیاں ماری جائیں اور وہ زندگی بھر کے لئے نابینا ہو کر رہ جائے؟ آپ کیسا محسوس کریں گے جب آپ کی گلی، آپ کے قصبے اور آپ کے شہر پر قابض فوجی آپ کی بہن کی عصمت تار تار کر ڈالیں، آپ کیسا محسوس کریں گے جب قتل ہونے اور مارے جانے کا خطرہ مول لئے بغیر گھر سے باہر نکل ہی نہ سکتے ہوں؟ میں نہیں جانتی ایسا کیوں ہے لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ یہ انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے۔‘‘ ایک اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی بات ایریکا یوں کہتی ہے کہ ’’ماضی میں بھی مجھے کشمیر جانے کا موقع ملا، وہ خاندان اور وہ لوگ مجھے آج تک یاد ہیں جن سے میں نے ایک کشمیری قالین خریدا تھا، وہ پورے کا پورا خاندان اب مر چکا، اس خاندان کے 13افراد بھارتی فوج نے قتل کر ڈالے، مجھے کشمیر سے محبت ہے، مجھے ان یادوں سے، اس وقت سے محبت ہے جو میں نے وہاں گزارا ہے۔
کاش، نوازشریف کے دل میں بھی ایریکا ڈکسن جیسی نرماہٹ کی کوئی آہٹ کہیں سے نمودار ہو جائے، کاش! عمران خان بھی دھرنوں کی جگہ پاکستانی عوام کو بھارتی جارحیت کے خلاف بیدار اور تیار کرتا، کرسی کے لئے اس قدر گرما گرمی اور کشمیر کے لئے یہ سردمہری خود غرضی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟

دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے قتیل
دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے

ایریکا کشمیری نہیں مگر اس کے دل میں اہل کشمیر کی یادیں اور محبت فروزاں ہیں، نوازشریف کا خاندان تو کشمیری ہے پھر اس کے دل میں کشمیر کی محبت کی کوئی ایک کلی بھی کیوں نہ چٹک پائی۔ اپنے آباؤاجداد کے اس علاقے کی یاد کی کوئی ایک کرن کہیں بھی نہ پھوٹی، محض اخباری بیانات سے کشمیریوں کے روگ اور سوگ کا درماں نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت نے 16سالہ قیصر صوفی کو تشدد کے بعد زہر دے کر شہید کر دیا، پھر اس کے جنازے پر شیلنگ کر کے 50سے زائد افراد کو زخمی کر ڈالا۔ 25سکولوں کو نذرآتش کر دیا اور درجنوں سکولوں کو بند کر کے فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کر ڈالا، مگر نوازشریف کے دل میں کوئی بے ترتیبی پیدا نہ ہوئی۔ کبھی نوازشریف رات کے وقت اپنے نرم اور گداز بستر میں لپٹ کر سوچیں کہ اس کی پانچ سالہ وزارت عظمیٰ کا دور اختتام کے قریب ہے، اتنے طویل عرصے میں اس نے اہل کشمیر کے لئے عملی طور پر کیا کچھ کیا؟

کرسی ہے تمہاری یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی بھارتی سفاکیت پر احتجاج کر چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گن کا استعمال بند ہونا چاہئے کیونکہ اس سے سینکڑوں کشمیری نابینا ہو چکے ہیں۔ ہم اپنے جسم و جاں کا کتنا خیال رکھتے ہیں، ایک سموگ نے ہماری آنکھوں میں بے چینی او ربے قراری گھول دی ہے۔ زہر آلود دھند نے ہمارے سانسوں میں ابہام اور پیچیدگی پیدا کر دی ہے اور اس قہر آلود دھند سے بچنے کے لئے حفاظتی تدابیر کی لائنیں لگا دی گئی ہیں۔ سموگ کے اس عارضی روگ نے ہمارے تن من میں سراسیمگی پیدا کر ڈالی ہے۔ سموگ کی اذیت میں مبتلا لوگ اہل کشمیر کی صعوبتوں کا اندازہ لگائیں کہ جہاں زندگی کا ایک ایک پل اجیرن بنا دیا گیا ہے۔
میں حسن و جمال سے آراستہ کسی گمان کدے میں محو خیال ہوں، مجھے اپنے اردگرد دل کش احساسات کے غنچے مہکتے محسوس ہو رہے ہیں۔ مجھے اپنے قرب میں خوشبوؤں کے انبار سے اجلی صبحوں کی مہک پیہم آ رہی ہے۔ میں بار بار عفرا کی تصویر دیکھتا ہوں اگرچہ اس کی آنکھیں زخمی ہیں۔ لاریب اس کے چہرے پر بھارتی جبروتشدد کے کئی نشانات موجود ہیں مگر اس کے باوجود عفرا کے چہرے پر ایک اطمینان ہے۔ میرے خیال میں ایسے کتنے ہی پھول مہک اٹھے ہیں کہ ظلم کی قبا اوڑھے سراپا وفا و حیا عفرا پاکستان کی طرف دیکھ کر مطمئن ہو گی، وہ اپنے مجاہد بھائیوں کی جاں بازی اور جاں سپاری پر اپنے احساس کے دریچوں میں کیف اور سکون سجائے بیٹھی ہو گی۔ اگرچہ اس کا چہرہ زخموں سے اٹا ہے مگر اس کے لبوں کے سنگ ایک خوش رنگ امید کا تبسم ہے۔ اس کی سرخ آنکھوں میں امید کے دیے روشن ہیں، اس کے زخمی چہرے پر اہل پاکستان کی محبتوں نے ایک عجیب نشاط اور اطمینان طاری کر رکھا ہو گا۔ یقیناًایسا ہی ہو گا۔

ہے تبسم ہمارے لب پہ ابھی
ہم کہاں زندگی سے ہارے ہیں


لنک


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کشمیری چار ماہ تک کیسے جیتے –

سہیل بشیر


کسی بھی قوم کی سربلندی میں اس قوم کی بنیادی اقدار اہم کردار اداکرتی ہیں۔ شجاعت، ہمت، وعدہ کی پاسداری، منافقت سے دوری، قومی وسائل کی حفاظت، اتحاد و اتفاق، سماجی خدمات جیسے صفات کسی بھی قوم کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ کشمیرکی حالیہ عوامی تحریک کے تناظر میں کشمیری قوم نے جس صبر کا مظاہرہ کیا ہے، ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ جہاں پوری قوم مشکلات و مصائب کاشکار رہی، دوکانیں، کاروباری ادارے اور تعلیمی سرگرمیاں معدوم رہیں، پوری قوم نے اجتماعیت، اخوت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ جس پر آنے والی نسلیں یقینا رشک کرتی دکھائی دیں گیں۔ چونکہ ٹریفک کی نقل و حرکت معدوم تھی، اس بیچ جو بھی زخمی یا دوسرے بیمار وادی کے مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج تھے، ان کے کھانے پینے کے انتظامات کے ساتھ ساتھ مریضوں اور تیمارداروں کا خیال مختلف تنظیموں، اداروں اور محلہ کمیٹیوں نے بڑے احسن طریقے سے رکھا۔ چونکہ ATM بھی کام نہیں کر رہے تھے، اس موقع پر ضرورت مند افراد کے لیے دوائیوں کا انتظام بہت ہی احسن طریقے سے کیا گیا۔ مارکیٹ میں کھانے پینے کی اشیاء کی عدم دستیابی تھی، لوگوں نے دور دور سے آئے مریضوں کے لیے قائم لنگر کے لیے مختلف اشیاء کا انتظام کیا۔ لوگ فی الوقت خود سنگین مشکلات سے دوچار تھے، اس کے باوجود جس منظّم طریقے سے انہوں نے تحریک آزادی کی صفوں میں شانہ بہ شانہ چل کر اپنے باشعور اور باغیرت قوم ہونے کا ثبوت دیا، وہ زندہ قوموں کی پہچان ہے۔ موجودہ نامساعد حالات میں جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے، سینکڑوں افراد کو خون کی اشد ضرورت درپیش ہوئی۔ وادی کے مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج زخمیوں کے لیے یہاں کے نوجوانوں نے خون کے خصوصی عطیات کے کیمپس قائم کیے اور پوری وادی میں تقریباً تین ہزار سے زائد بلڈ پوائنٹ کے عطیے جمع گئے۔

قریب چار ماہ سے تمام کاروباری سرگرمیاں معدوم ہیں اور لوگوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ روز کروڑوں روپے کا مالی نقصان ہو رہا ہے۔ کشمیر کے سبھی لوگ اگرچہ حالات کی غیریقینی سے پریشان ہیں، اس کے باوجود سماج کے کمزور افراد کی مالی معاونت جس طرح کی گئی، وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ لوگوں کا جذبہ انفاق قابل دید تھا۔ہر ایک نے ریلیف ورک میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ ایک صاحب کے گھر میں شادی کی تقریب سادگی کے ساتھ انجام پائی، اور شادی کے خرچ کےلیے خطیر رقم سرینگر کے ایک ریلیف کیمپ میں جمع کروا دی گئی۔ راقم کا تعلق بارہمولہ کے معروف فلاحی ادارے سے ہے، اس وجہ سے جذبۂ انفاق کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ قصبہ کے بہت سے افراد نے از خود ادارہ کے ساتھ رابطہ قائم کر کے ایک خطیر رقم معاونت کے بطور جمع کی۔ ایک شخص نے 50 ہزار روپے دیے اور بتایا کہ اس رقم سے ضروری اجناس کے Kit بنائے جائیں، حالانکہ اس فرد کا کاروبار موجودہ حالات کی وجہ سے بند پڑا ہے۔ مرد تو مرد ایک خاتون نے 55 ہزار کا زیور اسی سلسلے میں راقم کو دیا۔ ایک شخص جوکہ پیشہ سے مزدور ہے، اس نے مجھ سے کہا کہ میں مزدوری کر کے اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتا ہوں۔ چونکہ میرے لیے یہ ممکن تھا کہ میں نامساعد حالات کے باوجود مزدوری کر سکتا تھا، اس لیے میں نے مختلف جگہوں پہ کام کرکے 25 سو روپے بچت کیے ہیں، یہ آپ لے کر کسی ضرورت مند کو دے دیجیے گا۔ میں کافی دیر تک کبھی تو اس شخص کے چہرے کو اور کبھی ان پیسوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملیں۔ ہر ایک کی کوشش رہی کہ وہ اس مشکل گھڑی میں اپنے بھائی کی مدد کرے۔ ہم بہت سے ایسے گھروں میں گئے جن کے بارے میں ہمارا اندازہ تھا کہ ان کے پاس زندگی کی ضروریات نہ ہوں گی۔ ہم گئے تو اس نیت سے تھے کہ ان گھرانوں کی کچھ مالی معاونت کریں گے لیکن یہ منظر دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بعض افراد نے یہ کہہ کر امداد لینے سے انکار کر دیا کہ اُن کے پاس ابھی کچھ دن کے لیے ضروری اشیاء موجودہیں، لہٰذا یہ رقم دوسرے ضرورت مند افراد تک پہنچائی جائے۔ الحمدللہ موجودہ حالات کی تنگی نے بھی لوگوں کو بھکاری نہ بنایا۔

جس قابض ملک کی وجہ سے کشمیر میں حالات اس قدر افراتفری کے شکار ہوئے، اس ملک کے مختلف ریاستوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مزدوری کرنے کشمیر آئے ہوئے تھے۔ وادی کے ہر علاقے میں لوگوں نے ان لوگوں کی نہ صرف مالی مدد کی بلکہ ان میں جوگھر جانا چاہتا تھا، اس کے لیے گاڑی اور کرایہ کا انتظام کیاگیا۔ لائق تحسین طبعی اور نیم طبعی عملہ اپنی جانوں پر کھیل کر دن رات ایک کر کے بیماروں کی خدمت کر رہے ہیں۔ بہت سے ڈاکٹرحضرات اور ان کے معاونین نے دن رات ایک کر کے زخمیوں کی بروقت تیمارداری کی۔ راقم الحروف نے بچشم خود ایک ڈاکٹر صاحب کو مسلسل 72 گھنٹے کام کرتے دیکھا۔ محکمہ بجلی اور واٹر ورکس کے ملازمین نے پُرخطرحالات کے باوجود اپنی خدمات بحسن خوبی انجام دیں اور لوگوں تک بنیادی سہولیات کی رسائی ممکن بنائی۔

موجودہ نامساعد حالات میں بھی احسن طریقے سے ہندو امرناتھ یاتریوں کونہ صرف خوش آمدیدکہا گیا بلکہ جب ان کی ایک گاڑی الٹ گئی تو زخمیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش عوام نے کی۔ حالانکہ اہل کشمیر کی نظروں سے یہ بات اوجھل نہیں تھی کہ 1989ء کے بعد یاترا کو فسطائی قوتیں صیہونی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اہل کشمیر یہ بھی جانتے ہیں کہ 1989ء میں جہاں صرف بارہ ہزار افراد یاترا کے لیے آتے تھے، وہی ایک سازش کے تحت اب یہ تعداد لاکھوں تک پہنچائی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس حقیقت سے بھی چشم پوشی اختیار نہیں کی کہ عام یاتری صرف مذہبی عقیدے کے لیے آتے ہیں، لہٰذا ان کے لیے اہل کشمیر نے ہرقسم کی سہولیات میسّر رکھی۔ اہل کشمیر نے پھر ایک بار یہ ثابت کر کے دکھا دیا کہ نہ ہم کبھی فرقہ پرست تھے اور نہ ہوں گے۔ اس کا ثبوت اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وادی میں اِن پُرخطر حالات کے بیچ کچھ پنڈت لڑکیوں اور لڑکوں کی شادی کے موقع پر سارے انتظامات مسلمانوں نے کیے۔ کسی بھی قسم کی ترقی میں تعلیم سب سے نمایاں رول ادا کرتی ہے۔ موجودہ حالات میں چونکہ اسکول اور نجی ٹیوشن مراکز بند تھے، لہٰذا نئی نسل تعلیم کے زیور سے محروم نہ ہو، اس کے لیے محلہ کمیٹیوں اور اداروں نے رضاکارانہ طور پر جگہ جگہ مفت کوچنگ کلاسز شروع کیے۔اساتذہ تو اساتذہ، میں نے خود بہت سے انجینئر حضرات کو بھی ان وقتی کوچنگ کلاسز میں پڑھاتے دیکھا۔ بہت سی لڑکیوں نے اپنے کمروں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو پڑھایا۔ چونکہ گرفتاریوں کا طویل سلسلہ جاری ہے، ان میں اکثر بہت غریب ہیں۔ وکلا حضرات نے ان میں سے بیشتر قیدیوں کی قانونی چارہ جوئی کے عوض اُن سے کوئی فیس وصول نہیں کی۔ مختلف علاقوں، خاص کر Down Town Areas میں موجودہ حالات میں راقم نے سماج کے ذی عزت افراد کو اپنے اپنے محلوں میں صفائی کرتے دیکھا۔ اپنے محلہ کے مسائل حل کرنے کے لیے ہر ایک پہل کر رہا تھا، جس قدر اتحاد و اتفاق اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ موجودہ uprising میں دیکھا گیا، وہ خود اپنے آپ میں ایک شاندار کامیابی ہے۔ ہر ایک جان گیا کہ ان حالات سے نبرد آزما ہونا کسی تنظیم یا فرد کے اکیلے کی بات نہیں بلکہ مل جل کر ہی ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اللہ کرے یہ اتحاد ہمیشہ باقی رہے، آمین!

اگرچہ 2008ء کے بعد ہر کشمیری کے اندر بنیادی اقدار روز بروز مضبوط ہوتے گئے۔ وہی چند ایک چھوٹی منفی چیزیں بھی دیکھنے کو ملی۔ اس امید کے ساتھ کہ ان پر مستقبل میں قابو پایا جائے، یہاں چند خامیوں کی نشان دہی بھی لازمی ہے۔ کچھ جگہوں سے یہ شکایت موصول ہوئی کہ کچھ افراد نے ناجائز منافع خوری کا بازارگرم کر رکھا ہے۔ جو چیزیں کل ایک قیمت میں بک رہی تھی، وہی مال اب بہت زیادہ قیمتی اضافہ کے ساتھ بکنے لگا۔ جو شے پہلے 700 روپے میں بکتا تھا، وہی آج 900 سو روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ لوگوں کی ضروریات کا فائدہ اٹھا کر اس طرح کے ہتھکنڈے اپنانا بہرحال عظیم قوموں کا شیوہ نہیں رہا ہے۔ اسی طرح جنگل ہمارا قومی سرمایہ ہے، یہاں کے ماحولیات پر اس کے اثرات پڑھتے ہیں لیکن خراب حالات کا فائدہ اٹھا کر جس بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کی گئی، وہ تشویشناک ہے۔ اس طرح بہت سے جگہوں پر ناجائز قبضہ بھی کیا گیا اور ناجائز تعمیرات بھی بڑے پیمانے پر کھڑے کیے گئے۔ ایمبولینس کو جنگوں میں بھی روکا نہیں جاتا، جہاں ایمبولینس کو فوجی اور نیم فوجی عملہ نے جگہ جگہ روکا اور بہت سی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، وہیں کئی جگہوں پر مظاہرین کی طرف سے ایمبولینس کو روکنے اور نقصان پہنچائے جانے کا مذموم عمل بھی دیکھا گیا۔ ہاں اگرچہ ایسے واقعات بہت کم ہوئے۔ کچھ جگہوں پر بیماروں کو ہسپتال جانے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی شکاتیں موصول ہوئیں۔

اسی طرح چند مذہبی شخصیات نے بھی کچھ جگہوں پر لوگوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی۔ غائبانہ جنازہ اور سڑکوں پر نماز پڑھنے کے سلسلے میں عام لوگوں کو چند جگہوں پر کنفیوژن کا شکار کیا گیا۔ حالانکہ ہر عالم دین جانتا ہے کہ اگرچہ فقہ حنفیہ میں غائبانہ نماز جنازہ کا ثبوت نہیں لیکن خود حضورؐ نے نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ اس لیے بہت سارے دوسرے مسالک غائبانہ جنازہ کے قائل ہیں۔ اور یہ ہر کوئی بتاتا ہے کہ سبھی مسالک حق پر ہیں۔ بڑے مقصد اور اتحاد کے لیے اگر فقہ حنفیہ سے وابستہ افراد بھی غائبانہ نماز جنازہ پڑھیں گے تواس میں کیاحرج ہے۔ اگرچہ مجموعی طور پر لوگوں نے شہداء کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھی لیکن اس میں کچھ تنگ نظر افراد نے لوگوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی۔ اسی طرح امت مسلمہ سے کہاگیا کہ ان کے لیے پوری زمین مسجد ہے، لہٰذا اگر بطور احتجاج امت نے سڑکوں پر نماز ادا کی، تاہم کچھ تنگ نظر حضرات نے لوگوں کو جائز اور ناجائز کی بحث میں الجھانے کی کوشش کی۔ لیکن الحمدللہ عوام کی اکثریت نے ان تنگ نظر افرادکی سنی ان سنی کردی۔

جذبہ، ہمت اور شجاعت کے ساتھ جو چیز اہم ہے، وہ Proper Planning اور Discipline ہے۔ ہر فرد، ہر تنظیم اور ہر ادارہ کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ہر ایک کا اپنا الگ الگ تجربہ ہے۔ اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ جس میں جو صلاحیت ہے، اس ادارہ یا تنظیم کو اسی کام میں تعاون فراہم کیا جائے۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ 2014ء کے سیلاب اور آج کے Uprising میں دیکھاگیا کہ ہر محلہ میں Relief جمع کیا گیا۔ اس سے بہتر ہوتا کہ جو تنظیمیں یا ادارے منظم طریقے سے اس کام کو انجام دیتے ہیں، ان ہی کو تعاون دیا جاتا۔ اگرچہ ہر ایسی کوشش کے پیچھے جوجذبہ ہے، اس میں خلوص کی انتہا تھی لیکن جذبہ اور خلوص کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط انتہائی اہم ہے۔اگرچہ ہنگامی حالات کے پیش نظر ہر محلہ اور ہرگاؤں میں بیت المال قائم کیے گئے۔ تاہم مطلوبہ نتائج کے لیے بہتر ہے کہ ہر بلاک سطح پر ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے، جو کہ انسانی بنیادوں پر کام کرے، جہاں آڈٹ سسٹم بھی ہو۔ محلہ سطح پر یہ کام مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ کوئی محلہ امیر ہے تو کوئی غریب اور محلہ سطح پر مستحقین کی عزت نفس کا خیال رکھنا بھی مشکل ہے۔ اسی طرح ریاستی سطح پر بھی یہ کام مشکل ہے کیونکہ تجربہ کہتا ہے کہ اس طرح ہر جگہ پہنچ پانا مشکل ہے۔

اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے اس امر کی نشاندہی ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں سرکاری ادارے سرکاری املاک جیسے کہ بجلی کے ٹرانسفارمرز کو نقصان پہنچا رہے ہیں، وہیں لوگ اس املاک کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں۔ مختلف جگہوں پر لوگوں نے از خود مالی تعاون اور محنت سے سرکاری ٹرانسفارمزز کی حفاظت ریت کے بوریوں سے کی۔ آج کل سرکاری عمارتوں بالخصوص اسکولی عمارتوں کو نذرآتش کرنے کی نئی گھناؤنی رسم چلی ہے۔ ایک ایسی سازش جس کا پردہ فاش سرکار کی طرف سے شاید ہی کبھی ہو۔ ایسے میں کشمیری عوام پہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوامی املاک کو قومی میراث تصور کرتے ہوئے ایسے عناصر کو بےنقاب کریں اور عوامی املاک کی ازخود حفاظت کریں۔ مذکورہ مثبت اقدار کا ہونا ایک زندہ قوم کی پہچان ہوتی ہے اور ان اقدار کی عدم موجوگی میں ایک قوم، قوم نہیں بس ہجوم بن کے رہ جاتا ہے۔

http://daleel.pk/2016/11/20/18141
 
Top