کشمیری چار ماہ تک کیسے جیتے –
سہیل بشیر
کسی بھی قوم کی سربلندی میں اس قوم کی بنیادی اقدار اہم کردار اداکرتی ہیں۔ شجاعت، ہمت، وعدہ کی پاسداری، منافقت سے دوری، قومی وسائل کی حفاظت، اتحاد و اتفاق، سماجی خدمات جیسے صفات کسی بھی قوم کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ کشمیرکی حالیہ عوامی تحریک کے تناظر میں کشمیری قوم نے جس صبر کا مظاہرہ کیا ہے، ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ جہاں پوری قوم مشکلات و مصائب کاشکار رہی، دوکانیں، کاروباری ادارے اور تعلیمی سرگرمیاں معدوم رہیں، پوری قوم نے اجتماعیت، اخوت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ جس پر آنے والی نسلیں یقینا رشک کرتی دکھائی دیں گیں۔ چونکہ ٹریفک کی نقل و حرکت معدوم تھی، اس بیچ جو بھی زخمی یا دوسرے بیمار وادی کے مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج تھے، ان کے کھانے پینے کے انتظامات کے ساتھ ساتھ مریضوں اور تیمارداروں کا خیال مختلف تنظیموں، اداروں اور محلہ کمیٹیوں نے بڑے احسن طریقے سے رکھا۔ چونکہ ATM بھی کام نہیں کر رہے تھے، اس موقع پر ضرورت مند افراد کے لیے دوائیوں کا انتظام بہت ہی احسن طریقے سے کیا گیا۔ مارکیٹ میں کھانے پینے کی اشیاء کی عدم دستیابی تھی، لوگوں نے دور دور سے آئے مریضوں کے لیے قائم لنگر کے لیے مختلف اشیاء کا انتظام کیا۔ لوگ فی الوقت خود سنگین مشکلات سے دوچار تھے، اس کے باوجود جس منظّم طریقے سے انہوں نے تحریک آزادی کی صفوں میں شانہ بہ شانہ چل کر اپنے باشعور اور باغیرت قوم ہونے کا ثبوت دیا، وہ زندہ قوموں کی پہچان ہے۔ موجودہ نامساعد حالات میں جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے، سینکڑوں افراد کو خون کی اشد ضرورت درپیش ہوئی۔ وادی کے مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج زخمیوں کے لیے یہاں کے نوجوانوں نے خون کے خصوصی عطیات کے کیمپس قائم کیے اور پوری وادی میں تقریباً تین ہزار سے زائد بلڈ پوائنٹ کے عطیے جمع گئے۔
قریب چار ماہ سے تمام کاروباری سرگرمیاں معدوم ہیں اور لوگوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ روز کروڑوں روپے کا مالی نقصان ہو رہا ہے۔ کشمیر کے سبھی لوگ اگرچہ حالات کی غیریقینی سے پریشان ہیں، اس کے باوجود سماج کے کمزور افراد کی مالی معاونت جس طرح کی گئی، وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ لوگوں کا جذبہ انفاق قابل دید تھا۔ہر ایک نے ریلیف ورک میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ ایک صاحب کے گھر میں شادی کی تقریب سادگی کے ساتھ انجام پائی، اور شادی کے خرچ کےلیے خطیر رقم سرینگر کے ایک ریلیف کیمپ میں جمع کروا دی گئی۔ راقم کا تعلق بارہمولہ کے معروف فلاحی ادارے سے ہے، اس وجہ سے جذبۂ انفاق کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ قصبہ کے بہت سے افراد نے از خود ادارہ کے ساتھ رابطہ قائم کر کے ایک خطیر رقم معاونت کے بطور جمع کی۔ ایک شخص نے 50 ہزار روپے دیے اور بتایا کہ اس رقم سے ضروری اجناس کے Kit بنائے جائیں، حالانکہ اس فرد کا کاروبار موجودہ حالات کی وجہ سے بند پڑا ہے۔ مرد تو مرد ایک خاتون نے 55 ہزار کا زیور اسی سلسلے میں راقم کو دیا۔ ایک شخص جوکہ پیشہ سے مزدور ہے، اس نے مجھ سے کہا کہ میں مزدوری کر کے اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتا ہوں۔ چونکہ میرے لیے یہ ممکن تھا کہ میں نامساعد حالات کے باوجود مزدوری کر سکتا تھا، اس لیے میں نے مختلف جگہوں پہ کام کرکے 25 سو روپے بچت کیے ہیں، یہ آپ لے کر کسی ضرورت مند کو دے دیجیے گا۔ میں کافی دیر تک کبھی تو اس شخص کے چہرے کو اور کبھی ان پیسوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملیں۔ ہر ایک کی کوشش رہی کہ وہ اس مشکل گھڑی میں اپنے بھائی کی مدد کرے۔ ہم بہت سے ایسے گھروں میں گئے جن کے بارے میں ہمارا اندازہ تھا کہ ان کے پاس زندگی کی ضروریات نہ ہوں گی۔ ہم گئے تو اس نیت سے تھے کہ ان گھرانوں کی کچھ مالی معاونت کریں گے لیکن یہ منظر دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بعض افراد نے یہ کہہ کر امداد لینے سے انکار کر دیا کہ اُن کے پاس ابھی کچھ دن کے لیے ضروری اشیاء موجودہیں، لہٰذا یہ رقم دوسرے ضرورت مند افراد تک پہنچائی جائے۔ الحمدللہ موجودہ حالات کی تنگی نے بھی لوگوں کو بھکاری نہ بنایا۔
جس قابض ملک کی وجہ سے کشمیر میں حالات اس قدر افراتفری کے شکار ہوئے، اس ملک کے مختلف ریاستوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مزدوری کرنے کشمیر آئے ہوئے تھے۔ وادی کے ہر علاقے میں لوگوں نے ان لوگوں کی نہ صرف مالی مدد کی بلکہ ان میں جوگھر جانا چاہتا تھا، اس کے لیے گاڑی اور کرایہ کا انتظام کیاگیا۔ لائق تحسین طبعی اور نیم طبعی عملہ اپنی جانوں پر کھیل کر دن رات ایک کر کے بیماروں کی خدمت کر رہے ہیں۔ بہت سے ڈاکٹرحضرات اور ان کے معاونین نے دن رات ایک کر کے زخمیوں کی بروقت تیمارداری کی۔ راقم الحروف نے بچشم خود ایک ڈاکٹر صاحب کو مسلسل 72 گھنٹے کام کرتے دیکھا۔ محکمہ بجلی اور واٹر ورکس کے ملازمین نے پُرخطرحالات کے باوجود اپنی خدمات بحسن خوبی انجام دیں اور لوگوں تک بنیادی سہولیات کی رسائی ممکن بنائی۔
موجودہ نامساعد حالات میں بھی احسن طریقے سے ہندو امرناتھ یاتریوں کونہ صرف خوش آمدیدکہا گیا بلکہ جب ان کی ایک گاڑی الٹ گئی تو زخمیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش عوام نے کی۔ حالانکہ اہل کشمیر کی نظروں سے یہ بات اوجھل نہیں تھی کہ 1989ء کے بعد یاترا کو فسطائی قوتیں صیہونی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اہل کشمیر یہ بھی جانتے ہیں کہ 1989ء میں جہاں صرف بارہ ہزار افراد یاترا کے لیے آتے تھے، وہی ایک سازش کے تحت اب یہ تعداد لاکھوں تک پہنچائی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس حقیقت سے بھی چشم پوشی اختیار نہیں کی کہ عام یاتری صرف مذہبی عقیدے کے لیے آتے ہیں، لہٰذا ان کے لیے اہل کشمیر نے ہرقسم کی سہولیات میسّر رکھی۔ اہل کشمیر نے پھر ایک بار یہ ثابت کر کے دکھا دیا کہ نہ ہم کبھی فرقہ پرست تھے اور نہ ہوں گے۔ اس کا ثبوت اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وادی میں اِن پُرخطر حالات کے بیچ کچھ پنڈت لڑکیوں اور لڑکوں کی شادی کے موقع پر سارے انتظامات مسلمانوں نے کیے۔ کسی بھی قسم کی ترقی میں تعلیم سب سے نمایاں رول ادا کرتی ہے۔ موجودہ حالات میں چونکہ اسکول اور نجی ٹیوشن مراکز بند تھے، لہٰذا نئی نسل تعلیم کے زیور سے محروم نہ ہو، اس کے لیے محلہ کمیٹیوں اور اداروں نے رضاکارانہ طور پر جگہ جگہ مفت کوچنگ کلاسز شروع کیے۔اساتذہ تو اساتذہ، میں نے خود بہت سے انجینئر حضرات کو بھی ان وقتی کوچنگ کلاسز میں پڑھاتے دیکھا۔ بہت سی لڑکیوں نے اپنے کمروں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو پڑھایا۔ چونکہ گرفتاریوں کا طویل سلسلہ جاری ہے، ان میں اکثر بہت غریب ہیں۔ وکلا حضرات نے ان میں سے بیشتر قیدیوں کی قانونی چارہ جوئی کے عوض اُن سے کوئی فیس وصول نہیں کی۔ مختلف علاقوں، خاص کر Down Town Areas میں موجودہ حالات میں راقم نے سماج کے ذی عزت افراد کو اپنے اپنے محلوں میں صفائی کرتے دیکھا۔ اپنے محلہ کے مسائل حل کرنے کے لیے ہر ایک پہل کر رہا تھا، جس قدر اتحاد و اتفاق اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ موجودہ uprising میں دیکھا گیا، وہ خود اپنے آپ میں ایک شاندار کامیابی ہے۔ ہر ایک جان گیا کہ ان حالات سے نبرد آزما ہونا کسی تنظیم یا فرد کے اکیلے کی بات نہیں بلکہ مل جل کر ہی ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اللہ کرے یہ اتحاد ہمیشہ باقی رہے، آمین!
اگرچہ 2008ء کے بعد ہر کشمیری کے اندر بنیادی اقدار روز بروز مضبوط ہوتے گئے۔ وہی چند ایک چھوٹی منفی چیزیں بھی دیکھنے کو ملی۔ اس امید کے ساتھ کہ ان پر مستقبل میں قابو پایا جائے، یہاں چند خامیوں کی نشان دہی بھی لازمی ہے۔ کچھ جگہوں سے یہ شکایت موصول ہوئی کہ کچھ افراد نے ناجائز منافع خوری کا بازارگرم کر رکھا ہے۔ جو چیزیں کل ایک قیمت میں بک رہی تھی، وہی مال اب بہت زیادہ قیمتی اضافہ کے ساتھ بکنے لگا۔ جو شے پہلے 700 روپے میں بکتا تھا، وہی آج 900 سو روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ لوگوں کی ضروریات کا فائدہ اٹھا کر اس طرح کے ہتھکنڈے اپنانا بہرحال عظیم قوموں کا شیوہ نہیں رہا ہے۔ اسی طرح جنگل ہمارا قومی سرمایہ ہے، یہاں کے ماحولیات پر اس کے اثرات پڑھتے ہیں لیکن خراب حالات کا فائدہ اٹھا کر جس بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کی گئی، وہ تشویشناک ہے۔ اس طرح بہت سے جگہوں پر ناجائز قبضہ بھی کیا گیا اور ناجائز تعمیرات بھی بڑے پیمانے پر کھڑے کیے گئے۔ ایمبولینس کو جنگوں میں بھی روکا نہیں جاتا، جہاں ایمبولینس کو فوجی اور نیم فوجی عملہ نے جگہ جگہ روکا اور بہت سی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، وہیں کئی جگہوں پر مظاہرین کی طرف سے ایمبولینس کو روکنے اور نقصان پہنچائے جانے کا مذموم عمل بھی دیکھا گیا۔ ہاں اگرچہ ایسے واقعات بہت کم ہوئے۔ کچھ جگہوں پر بیماروں کو ہسپتال جانے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی شکاتیں موصول ہوئیں۔
اسی طرح چند مذہبی شخصیات نے بھی کچھ جگہوں پر لوگوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی۔ غائبانہ جنازہ اور سڑکوں پر نماز پڑھنے کے سلسلے میں عام لوگوں کو چند جگہوں پر کنفیوژن کا شکار کیا گیا۔ حالانکہ ہر عالم دین جانتا ہے کہ اگرچہ فقہ حنفیہ میں غائبانہ نماز جنازہ کا ثبوت نہیں لیکن خود حضورؐ نے نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ اس لیے بہت سارے دوسرے مسالک غائبانہ جنازہ کے قائل ہیں۔ اور یہ ہر کوئی بتاتا ہے کہ سبھی مسالک حق پر ہیں۔ بڑے مقصد اور اتحاد کے لیے اگر فقہ حنفیہ سے وابستہ افراد بھی غائبانہ نماز جنازہ پڑھیں گے تواس میں کیاحرج ہے۔ اگرچہ مجموعی طور پر لوگوں نے شہداء کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھی لیکن اس میں کچھ تنگ نظر افراد نے لوگوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی۔ اسی طرح امت مسلمہ سے کہاگیا کہ ان کے لیے پوری زمین مسجد ہے، لہٰذا اگر بطور احتجاج امت نے سڑکوں پر نماز ادا کی، تاہم کچھ تنگ نظر حضرات نے لوگوں کو جائز اور ناجائز کی بحث میں الجھانے کی کوشش کی۔ لیکن الحمدللہ عوام کی اکثریت نے ان تنگ نظر افرادکی سنی ان سنی کردی۔
جذبہ، ہمت اور شجاعت کے ساتھ جو چیز اہم ہے، وہ Proper Planning اور Discipline ہے۔ ہر فرد، ہر تنظیم اور ہر ادارہ کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ہر ایک کا اپنا الگ الگ تجربہ ہے۔ اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ جس میں جو صلاحیت ہے، اس ادارہ یا تنظیم کو اسی کام میں تعاون فراہم کیا جائے۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ 2014ء کے سیلاب اور آج کے Uprising میں دیکھاگیا کہ ہر محلہ میں Relief جمع کیا گیا۔ اس سے بہتر ہوتا کہ جو تنظیمیں یا ادارے منظم طریقے سے اس کام کو انجام دیتے ہیں، ان ہی کو تعاون دیا جاتا۔ اگرچہ ہر ایسی کوشش کے پیچھے جوجذبہ ہے، اس میں خلوص کی انتہا تھی لیکن جذبہ اور خلوص کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط انتہائی اہم ہے۔اگرچہ ہنگامی حالات کے پیش نظر ہر محلہ اور ہرگاؤں میں بیت المال قائم کیے گئے۔ تاہم مطلوبہ نتائج کے لیے بہتر ہے کہ ہر بلاک سطح پر ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے، جو کہ انسانی بنیادوں پر کام کرے، جہاں آڈٹ سسٹم بھی ہو۔ محلہ سطح پر یہ کام مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ کوئی محلہ امیر ہے تو کوئی غریب اور محلہ سطح پر مستحقین کی عزت نفس کا خیال رکھنا بھی مشکل ہے۔ اسی طرح ریاستی سطح پر بھی یہ کام مشکل ہے کیونکہ تجربہ کہتا ہے کہ اس طرح ہر جگہ پہنچ پانا مشکل ہے۔
اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے اس امر کی نشاندہی ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں سرکاری ادارے سرکاری املاک جیسے کہ بجلی کے ٹرانسفارمرز کو نقصان پہنچا رہے ہیں، وہیں لوگ اس املاک کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں۔ مختلف جگہوں پر لوگوں نے از خود مالی تعاون اور محنت سے سرکاری ٹرانسفارمزز کی حفاظت ریت کے بوریوں سے کی۔ آج کل سرکاری عمارتوں بالخصوص اسکولی عمارتوں کو نذرآتش کرنے کی نئی گھناؤنی رسم چلی ہے۔ ایک ایسی سازش جس کا پردہ فاش سرکار کی طرف سے شاید ہی کبھی ہو۔ ایسے میں کشمیری عوام پہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوامی املاک کو قومی میراث تصور کرتے ہوئے ایسے عناصر کو بےنقاب کریں اور عوامی املاک کی ازخود حفاظت کریں۔ مذکورہ مثبت اقدار کا ہونا ایک زندہ قوم کی پہچان ہوتی ہے اور ان اقدار کی عدم موجوگی میں ایک قوم، قوم نہیں بس ہجوم بن کے رہ جاتا ہے۔
http://daleel.pk/2016/11/20/18141