Asalam u aliakum sheikh mera sawal hain ki agar ladki deen daar ho aur agr ussay koi rishta aayega magar usko ghar valay bolayghy hum aap ko is kay saat nikah nahi karayghy magar ladki ki chahat ho (ladki kehti hain ki ladka deen daar hain mai ise liye karugi magar ghar valay vaisa ladka nahi chahitay hain ) ab is haalat mai ladki kya karay ghe
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
پہلے آپ کے سوال کو اردو میں درج کرتا ہوں ،
سوال :اگر لڑکی دین دار ہو ، اور اس کیلئے کوئی رشتہ آئے ،مگر اس گھر والے والے اس سے اس کا رشتہ کرنے سے انکار کردیں ۔
مگر لڑکی چاہتی ہو کہ اس لڑکے سے اس کی شادی ہو جائے کیونکہ وہ لڑکا اس لڑکی کی نظر میں دین دار ہے، اس لئے وہ اس سے شادی کی خواہش رکھتی ہے ۔
مگر اس کے گھر والے ویسا (یعنی مذہبی ٹائپ ) لڑکا نہیں چاہتے ، اب اس صورت میں لڑکی کیا کرے ۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شادی میں لڑکا اور لڑکی دونوں کی رضا و پسند کا ہونا ضروری ہے ۔
قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لا تُنْكَحُ الأَيِّمُ ( وهي التي فارقت زوجها بموت أو طلاق ) حَتَّى تُسْتَأْمَرَ ( أي يُطلب الأمر منها فلا بدّ من تصريحها ) وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ ( أي حتى توافق بكلام أو سكوت ) قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ إِذْنُهَا ( أي لأنها تستحيي ) قَالَ أَنْ تَسْكُتَ رواه البخاري 4741
(طلاق یافتہ اور بیوہ کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہیں کیا جاسکتا ، اورکنواری عورت سے بھی نکاح کی اجازت لی جائے گی ، صحابہ کرام کہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ( کنواری ) کی اجازت کس طرح ہوگی ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی خاموشی ہی اجازت ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4741 ) ۔
اورتستامر کا معنی ہے کہ اس سے اجازت کی جائے گی جس میں اس کی جانب سے صراحب ہونا ضروری ہے ، ۔
لیکن نکاح بہرحال ولی کی اجازت سے ہوگا
ثانیا : أن يعقد للمرأة وليّها لأنّ الله خاطب الأولياء بالنكاح فقال : ( وأَنْكِحوا الأيامى منكم ) ولقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ " رواه الترمذي 1021 وغيره وهو حديث صحيح .
عورت کا نکاح اس کا ولی کرے گا : کیونکہ اللہ تعالی نے عورت کے نکاح میں ولی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے :
{ اوراپنے میں سے بے نکاح عورتوں اورمردوں کا نکاح کردو } ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے :
( جس عورت نے بھی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کانکاح باطل ہے )
سنن ترمذی حديث نمبر ( 1021 ) اس کے علاوہ اورمحدیثین نے بھی اسے روایت کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور لڑکی اپنی رضا اور پسند کا اظہار مناسب طریقے سے کر سکتی ہے
عن ثابت البناني قال : كنتُ عند أنس بن مالك وعنده ابنة له قال أنس : جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تَعرض عليه نفسها ، قالت : يا رسول الله ألك بي حاجة ؟ فقالت بنت أنس : ما أقلَّ حياءها ، وا سوأتاه ، وا سوأتاه ، قال : هي خير منكِ ، رغبت في النبي صلى الله عليه وسلم فعرضتْ عليه نفسَها . رواه البخاري ( 4828 ) .
وقد بوَّب عليه الإمام البخاري بقوله : باب " عرْض المرأة نفسَها على الرجل الصالح " .
وقال الحافظ ابن حجر :
قال ابن المنيِّر في " الحاشية " : من لطائف البخاري أنه لما علم الخصوصية في قصة الواهبة استنبط من الحديث ما لا خصوصية فيه وهو جواز عرض المرأة نفسها على الرجل الصالح رغبة في صلاحه ، فيجوز لها ذلك ، وإذا رغب فيها تزوجها بشرطه ....
وفي الحديثين – أي : حديث سهل وحديث أنس وكلاهما في التي عرضت نفسها على النبي صلى الله عليه وسلم - : جواز عرض المرأة نفسها على الرجل ، وتعريفه رغبتها فيه ، أن لا غضاضة عليها في ذلك ، وأن الذي تعرض المرأة نفسها عليه بالاختيار ـ له أن يقبل أو يرفض ـ ، لكن لا ينبغي أن يصرح لها بالرد بل يكتفي السكوت . " فتح الباري " ( 9 / 175 )
ثابت البنانى رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس تھا اور ان كے پاس ان كى بيٹى بھى تھى انس رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
" ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پاس آئى اور اپنے آپ كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر پيش كيا اور كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا آپ كو ميرى ضرورت ہے ؟
تو انس رضى اللہ تعالى عنہ كى صاحبزادی كہنے لگى:
ہائے افسوس ! ہائے افسوس ! وہ كتنى بے شرم و حياء ہے ،
جناب انس رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: وہ تجھ سے بہتر تھى اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميں رغبت كى تو اپنے آپ كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر پيش كر ديا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4828 ).
امام بخارى رحمہ اللہ نے باب باندھتے ہوئے كہا ہے:
" كسى نيك و صالح شخص پر عورت كا اپنے آپ كو پيش كرنے كے بارہ ميں باب "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
کہ ابن المنیر نے اس حدیث کے حاشیہ میں فرمایا ہے :
امام بخاری کے لطیف استدلال کی جھلک یہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہے کہ اس حدیث میں چونکہ ایک عورت کا اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کو ہبہ کرنے کا بیان ہے اور ایسا کرنا صرف انہی سے خاص ہے توامام بْخاری ؒ نے اس سے حدیث سے یہ مسئلہ اخذ کیا کہ کوئی عورت کسی شخص سے اس کے نیک ہونے کی وجہ سے شادی کی خواہش کا اظہار کرسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلئے اس لڑکی کو اس دین دار سے شادی کی خواہش کے اظہار کا حق ہے
اگر والدین یہ رشتہ بلا وجہ رد کریں ،تو لڑکی کو چاہیئے کہ دیگر محارم کے ذریعے والدین کو اس رشتہ پر راضی کرے ۔
اور اگر اس کے گھروالے دینی اورعقلی اعتبار سے صحیح ہوں تو وہ اپنے گھر والوں کی رائے سے باہر نہ جائے بلکہ ان کی رائے قبول کرلے ، لیکن اگر عورت کےولی بغیر کسی صحیح سبب کے رشتہ رد کریں یا ان کا رشتہ اختیار کرنے میں معیار ہی غیر شرعی ہو مثلا اگر وہ صاحب دین اوراخلاق والے شخص پر کسی مالدار فاسق کو مقدم کریں ۔
تو اس حالت میں لڑکی کےلیے جائز ہے کہ وہ اپنا معاملہ شرعی قاضی تک لے جائے تا کہ اسے شادی سے منع کرنے والے ولی کی ولایت ختم کرکے کسی اورکو ولی بنایا جائے ۔
https://islamqa.info/ur/6398