• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معانی وبلاغت پر قراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معانی وبلاغت پر قراء ات کے اثرات

عبد الکریم إبراہیم صالح
مترجم: فوادبھٹوی، احسان الٰہی ظہیر​
سبعہ احرف کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے متنوع اسالیب ِتلاوت کی جو آسانی دی، عرضۂ اخیرہ میں ’مترادفات‘ کے منسوخ ہو جانے کے بعد اب اس کی دو صورتیں باقی ہیں: پہلی صورت قرآن کریم میں متعدد لہجاتِ عرب کی اجازت سے تعلق رکھتی ہے جسے اصطلاح میں ’اصولی اختلافات‘ کا نام دیا جاتا ہے، جبکہ دوسری صورت معانی کی وضاحت کیلئے کلمات کے اختلافات پر مشتمل ہے جسے ’فرشی اختلافات‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس دوسری صورت کو قبول کرنے میں بعض حضرات تأمل کا شکار ہوتے ہیں، حالانکہ قراء توں کی نوعیت کا یہ دوسرا اختلاف قرآن مجید کی وضاحت وبلاغت سے تعلق رکھتا ہے، کیونکہ بات کو مختلف اسالیب میں بیان کرنا علم فصاحت و بلاغت ہی کا دوسرا نام ہے۔ معلوم نہیں کہ جو لوگ متنوع قراء ات کا انکار کرتے ہیں وہ اختلافِ قراء ات کی اس نوعیت سے کیوں تشویش رکھتے ہیں حالانکہ بذات خود روایت ِحفص میں ایک بات کو مختلف مقامات پر دو، تین یا اس سے بھی زیادہ اسالیب سے بیان کیا گیا ہے۔ اس وقیع موضوع پر مطالعہ کیلئے شمارہ ہذا میں ادارہ کے فاضل رُکن قاری مصطفی راسخ کے مضمون ’متنوع قراء ات کا ثبوت … روایت حفص کی روشنی میں‘ کی طرف بھی رجوع کرنا چاہئے تاکہ زیر بحث موضوع کے جمیع پہلوؤں کا احاطہ ہوسکے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کریم ایک معجزہ ہے جو عرب کے بت پرستوں (جن کو اپنی زبان دانی ، فصاحت و بلاغت پر فخر تھا، ان )کی تیز چلنے والی زبانوں کو بند کرنے کے لیے، بھٹکے ہوؤں کو راہِ راست پر لانے کے لئے، بیماروں کو شفایابی اور زنگ آلود دلوں کے زنگ کو دور کرکے سونے کی طرح چمکتا ہوا بنانے کے لیے نازل کیا گیا۔ اس کتاب کی دیگر کتب سے اِنفرادیت یہ ہے کہ یہ اپنے اَندر کئی اعجازات کو لیے ہوئے ہیں۔ جن میں سے ایک محیرالعقول اعجاز یہ ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ کے کئی معانی اور مفہوم ہیں اور ان معانی و مفاہیم کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا ربط اور تعلق ہوتاہے۔ شرعی اصطلاح میں ان مفاہیم و معانی کو قراء ات کہا جاتا ہے۔ ہر مسئلے کے لیے کوئی نہ کوئی نص اور دلیل ہوتی ہے لیکن وہ صرف اسی مسئلے کے مؤید اور ثابت کرنے والی ہوتی ہے جبکہ قرآن کی ایک ایک نص (آیت) کو کئی مسائل کی دلیل اور مؤید بنایا جاسکتا ہے۔ ایک قراء ت کے مطابق پڑھیں تو اس میں ایک مسئلہ ثابت ہوگا اور جب اسی آیت یالفظ کی دوسری قراء ت کو دیکھیں تو اس سے دیگر مسائل بھی ثابت ہوتے ہیں۔ یہ قرا ء ات کا اعجاز ہے جو قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کریم اپنے مضامین اور معانی و مفاہیم کے اعتبار سے تو معجزہ ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ الفاظ و کلمات، اُسلوب نگارش اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی اس قدر عظیم معجزہ ہے کہ قیامت تک آنے والے جن و انس اس کی ایک آیت جیسا کلام بھی بنانے پرقادر نہیں۔
بہت سے غیر مسلم اور مستشرقین یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں کہ قرآن حکیم بھی دیگر کتب سماویہ کی طرح محرف ہے۔ انہی کے پیدا کردہ اشکالات کاشکار ہوکر کچھ مسلمان متجددین اور کم علم لوگ یہ سمجھنے لگے کہ قرآن کریم میں اضافہ ہوچکاہے (جو کہ تحریف کی ہی ایک شکل ہے) اور پوری اُمت جن قراء ات متواترہ میں قرآن کریم کو پڑھ رہی ہے یہ دراصل فتنۂ عجم کی باقیات اور عجمیوں کا کیاہوا اضافہ ہے۔چنانچہ ایک نئے متجدد جاوید احمد غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں اُمت مسلمہ کی عظیم اکثریت اس وقت تلاوت کررہی ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مزید فرماتے ہیں:
’’مدرسۂ فراہی کے اَکابر اہل علم نے جو کام اس زمانے میں قرآن پر کیا ہے اس سے یہ بات بالکل مبرہن ہوجاتی ہے کہ قرآن کا متن اس کے علاوہ کسی دوسری قراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا۔‘‘ (المیزان، باب اصول و مبادی:۲۹)
گویا جناب جاوید احمد غامدی روایت ِحفص کے علاوہ باقی تمام قراء اتِ متواترہ کاکھلم کھلا انکارکرتے ہیں۔ ان کو انکار قراء ات (جو کہ دراصل انکار قرآن ہے) اور استخفاف حدیث کا علم ان کے اُستاد اَمین احسن اصلاحی سے ورثہ میں ملا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ اس کے سوا کسی دوسری قراء ت پرقرآن کی تفسیر کرنا اس کی بلاغت،معنویت اور حکمت کومجروح کئے بغیر ممکن نہیں۔‘‘ (تدبر قرآن:۸؍۸)
ان دعاوی کا علمی اعتبار سے جائزہ لینے سے پہلے ہم چند ایک اصولی باتیں پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو کہ قارئین کے ملحوظ نظر رہنی چاہئیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) دنیابھر میں قرآن کریم مختلف قراء ات میں پڑھا جاتا ہے مثلاً مراکش اور افریقہ کے وسطی علاقوں میں امام ورش کی روایت میں،اور لیبیا اور تیونس کے علاقوں میں روایت قالون میں۔مزیدبرآں پوری دنیا کے دینی مدارس اور عرب یونیورسٹیوں میں قراء ات متواترہ پڑھائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی حکومت کے تحت ادارہ ’شاہ فہد قرآن کمپلیکس‘ مختلف قراء ات میں قرآن کریم کو طبع کررہا ہے۔اگر یہ قراء ات منزل من اﷲ نہیں ہیں اور اس کے باوجود یہ سب کچھ ہورہا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دعویٰ حفاظت قرآن باطل ثابت ہوگیا اور قرآن میں تحریف ہوچکی ہے(العیاذ باﷲ) حالانکہ یہ عقیدہ رکھنا کفر ہے کہ قرآن کریم میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی ہوئی ہے۔
(٢) جو لوگ قراء ات کے منکر ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی علم قراء ات حاصل نہیں کیا۔ علم قراء ات تو درکنار روایت حفص جسے یہ لوگ قراء تِ عامہ اور اصل قرآن سمجھتے ہیں وہ بھی ٹھیک طرح سے پڑھنے پر قادر نہیں۔ پھر ایک جاہل شخص کسی علم کی صحت و سقم پر کیونکر بحث کرسکتا ہے۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی نابینا صرف اپنے اندھے پن کی وجہ سے کسی چیز کے وجود کا ہی انکار کردے حالانکہ ان اشیاء کے وجود وعدم کافیصلہ بینا شخص ہی کرسکتا ہے۔ اور علم طب سے نابلد کوئی شخص کسی دوا کے خواص پر بحث کرے حالانکہ اس کا حقدار تو صرف ایک ماہر طبیب ہی ہوسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح قراء ات کی حجیت و عدم حجیت کا فیصلہ بھی صرف ماہرین قراء ات ہی کر سکتے ہیں۔
(٣) قراء اتِ متواترہ کی قطعیت پر اُمت کا اجماع ہے اور چونکہ یہ تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں لہٰذا ان کے ثبوت کے بارہ میں بحث کرنا بعید از علم اور مبنی برجہل فعل ہوگا۔
(٤) قراء اتِ متواترہ کو بلاغت قرآن کے خلاف کہنے والے اپنے دعویٰ پر ایک بھی دلیل پیش نہیں کرسکے ۔یہی وجہ ہے کہ جناب امین احسن اصلاحی صاحب نے کوئی ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی کہ جس میں قراء ات کی وجہ سے، قرآن کی بلاغت، معنویت یا حکمت مجروح ہونے کا ثبوت ہو۔ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ بے بنیاداور باطل ہے۔
ہم اپنے اس مضمون میں انشاء اللہ یہ ثابت کریں گے کہ قراء ات متواترہ قرآن کریم کی بلاغت کے منافی نہیں بلکہ اس کے اعجاز بیان میں مزیداضافہ کرتی ہیں لیکن اس سے پہلے ہم جناب غامدی صاحب کی عربی دانی سے پردہ اٹھاتے ہیں تاکہ قارئین موصوف کے علمی مقام کو پہچان سکیں اور یہ جان جائیں کہ وہ بلاغت قراء ات پر جرح کرنے کے کس قدر حقدار ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سہ ماہی ’ساحل‘ کے شمارہ جات اپریل، جولائی ۲۰۰۷ء میں فاضل مضمون نگار جناب ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب نے جناب غامدی کی عربی تحریروں کا جائزہ پیش کیا اور ثابت کیا ہے کہ جناب غامدی ایک جملہ بھی صحیح عربی زبان میں لکھنے پرقادر نہیں۔ یہاں ہم انہی مضامین میں سے چند ایک مثالیں بطور ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ پیش کررہے ہیں۔
غامدی صاحب کی تحریر ’’الوضع السیاسي للأمۃ المسلمۃ‘‘ کے چند ’’بلاغی شاہکار‘‘ درج ذیل ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔غلط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔درست
(١)… لم یکن الزعماء السیاسیین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لم یکن الزعماء السیاسیون
(٢) … لم یبقی لھم الدعوۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لم یبق ؍لم تبق لھم الدعوۃ
(٣)…أن السیاسۃ بالنسبۃ لہ مجالاً ثانویاً للعمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أن السیاسۃ بالنسبۃ لہ مجال ثانويّ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان کی تحریر ’’مبدء الجہاد‘‘ سے چند نمونے :
(١) فینھزم المنکرین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فینہزم المنکرون
(٢) وجعلہا في موقع مختلفۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وجعلہا في موقع مختلف
(٣) فالمقاتلین فیہا أفضل علی غیرھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فالمقاتلون فیہا أفضل من غیرہم
(٤) قال بہ النبي ! بأسلوب الجمیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بأسلوب جمیل
(٥) إن لجمیع الحرمات قصاص۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔إن لجمیع الحرمات قصاصاً
(٦) إن کان قوم یظلم مسلمین وھم معاھدین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وھم معاھدون
درج بالا شہ پاروں کو دیکھ کر قارئین بخوبی جان چکے ہوں گے کہ جو شخص علم نحو کے بالکل ابتدائی قواعد کو نہیں جانتا وہ علم بلاغت (جو کہ دراصل علم نحو کی ارتقائی صورت ہے) سے کتنا واقف ہوگا کہ بلاغت قراء ات پرجرح کرسکے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان قرا ء ات قرآنیہ کے اعجازات کا شریعت کے کئی مسائل میں اثر نمایاں اور واضح ہے۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
(١) قراء اتِ قرآنیہ کا عقیدہ کے مسائل پر اَثر
اس میں چار قسمیں شامل ہیں:
(١) توحید کے متعلق (٢) افعال عباد کے متعلق
(٣) نبوت کے متعلق (٤) سمعیات کے متعلق
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) قراء اتِ قرآنیہ کے توحید پر اَثرات
توحید کا ثبوت مختلف طریقوں سے: مثلا ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ (الفاتحہ:۴)میں پہلی قراء ت اسم فاعل کے وزن پر ’’مٰلِکِ یوم الدین‘‘ ہے یہ قراء ت عاصم، کسائی، یعقوب اور خلف العاشر سے نقل کی گئی ہے۔ (النشر:۱؍۲۷۱، فتح الوحید للسخاوي: ۱۷۵)
دوسری قراء ات: ’’مَلِکِ یوم الدین‘‘ الف کو گرانے اور’ حَذِرِ‘ کے وزن پر عاصم،کسائی، یعقوب اور خلف العاشر کے علاوہ باقی قراء سے نقل کی گئی ہے۔ (النشر: ۱؍۲۷۱، فتح الوحید للسخاوي: ۱۷۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِستدلال
(١) اگر مٰلِکِ (اسم فاعل کے وزن پر) پڑھیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ایسا بادشاہ اور حاکم مطلق ہے جو اپنی تمام مملوکہ اشیاء میں اپنی منشاء سے تصرف کرتا ہے، اور قیامت کے دن کرے گا جس دن کسی کو کسی چیز میں تصرف کرنے اور حکم چلانے کی اجازت نہ ہوگی۔
(٢) اگر مَلِکِ ہو تو مفہوم یہ ہوگا کہ ایسا حاکم جو اپنی ملکیت میں اوامرو نواہی کے ساتھ تصرف کرے۔ یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دنیا کے دیگر بادشاہوں کی بنسبت ارفع و اعلیٰ اور عزت و تکریم میں ہوگا جبکہ یہ دنیا کے بادشاہ اور حکمران دنیا کے برعکس (ذلیل و خوار) ہوں گے۔
 
Top