• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معانی وبلاغت پر قراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) قراء اتِ قرآنیہ کے اعجاز کا افعال عباد میں اثر
قراء اتِ قرآنیہ کا افعال عباد میں گہر اثر ہے۔ اگر قرآن کریم کے ایک لفظ کو پڑھ کر کسی کم فہم شخص کے ذہن میں کوئی اعتراض اٹھتا ہے تو اس کو یا تو اسی قراء ت سے جواب دیا جائے گا، یا پھر کسی دوسری قراء ت سے اس لفظ کا معنی کھل کر سامنے آجائے گا اور معترض کے اعتراض کا جواب بھی مل جائے گا۔
مثلاً: اللہ تعالیٰ کا فرمان: ’’ قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَھَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا ‘‘ (مریم:۱۹)
اب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں دو قراء تیں ہیں۔
(١) ’’لِأَھَبَ‘‘ ہمزہ کے ساتھ یہ باقی قراء کی قراء ۃ ہے۔
(٢) ’’لِیَھَبَ‘‘ ’یا‘ کے ساتھ یہ ورش، ابوعمرو، یعقوب اور قالون کی قراء ۃ ہے۔ (إیزار المعاني: ۵۸۲، النشر: ۲؍۳۱۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درج بالا دو قراء توں کی توجیہ
پہلی قراء ت کی توجیہ: جو قراء ۃ ہمزہ ’’لأھب‘‘ کے ساتھ ہے یہ ایک ظاہری اشکال کا جواب ہے۔ اشکال یہ ہے کہ اولاد دینے والا تو مالک کائنات ہے جو کہ بے اولادوں کو اولاد ہبہ کرتا ہے۔ لیکن اس آیت کریمہ میں جبریل علیہ السلام وہبیت اولاد کی نسبت اپنی طرف کررہے ہیں۔
جواب: جبریل علیہ السلام کا ’’ لأھب لک ‘‘ کہنا مجاز عقلی کے طریق سے ہے نہ کہ معنی حقیقی کے اعتبار سے۔ گویا ’’لأھب لک‘‘ کہنے سے ایک وہبیت اولاد کے سبب کی طرف اشارہ کردیا جوکہ جبریل علیہ السلام ہیں۔ اور فعل کی نسبت سبب کی طرف کرنا عام ہے۔ قرآن کریم میں اس کی کثرت سے مثالیں ملتی ہیں۔جیسے اللہ تعالیٰ کا بتوں کے بارے میں یہ فرمان ہے: ’’رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ‘‘ (ابراہیم:۳۶)
دوسری قراء ت کی توجیہ: رہی دوسری قراء ت ’’لیھب لک‘‘ ’یا‘ کے ساتھ اس میں وہبیت اولاد کی نسبت حقیقی واہب (جو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہے) کی طرف کی گئی ہے۔ اس وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ’’لیھب‘‘ ’یا‘ والی قراء ۃ اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ اولاد دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جبریل علیہ السلام نہیں ہیں وہ تو سبب ہیں۔ یہی محل اتفاق ہے اہلسنت والجماعت کے ہاں۔ پھر دوسری قراء ت اس لیے لائی گئی تاکہ یہ ثابت کیا جائے کہ افعال کی نسبت مجازاً مخلوق کی طرف کرنا جائز ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے کوئی بندہ ایسا نہیں کرسکتا۔ (الکشف بمکي: ۲؍۸۶، ۸۷، روح المعاني: ۱۶؍۷۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) تنوع قراء ات (جو کہ اعجاز قرآن کی وجہ میں سے ایک وجہ ہے) کا نبوت کے ساتھ تعلق
تنوع قراء ات انبیاء کی نبوت، خاص کر محمد الرسول اللہﷺ کی نبوت و رسالت کو مختلف اَسالیب کے ساتھ ثابت کرتی ہیں۔جس کی مثال اللہ تعالیٰ کے اس قول میں ہے:
اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’وَمَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنَ ‘‘ (التکویر:۲۴) میں دو متواتر قراء تیں ہیں:
(١) ’’بِضَنِیْنٍ‘‘ ’ضاد ‘ کے ساتھ یہ جمہور کی قراء ت ہے۔
(٢) ’’بِظَنِیْنٍ‘‘ ’ظاء‘ کے ساتھ ہے۔ یہ ابن کثیر، ابوعمرو، کسائی اور رویس جو کہ یعقوب سے روایت کرتے ہیںکی قراء ۃ ہے۔ (الاختیار في القراء ات العشر: ۳؍۲۷۱، النشر: ۲؍۳۹۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درج بالا قراء توں کی توجیہہ
پہلی قراء ت کی توجیہ: جمہور کا ’بضنین‘ ضاد کے ساتھ پڑھنایہ ماخوذ ہے ’الضن‘ سے۔ جس کا معنی ہے بخل (کنجوسی) قاموس میں ہے ’ضن بہ علیہ۔ ضنا وضنانۃ‘ کسی کے ساتھ کسی چیزمیں انتہائی بخل کرنا۔ صاحب مصباح فرماتے ہیں یہ باب ’ضرب، یضرب‘ سے بھی آتا ہے اور اس وقت اس کا معنی ہوگا ’’محمدﷺ اس چیزمیں بخیل نہیں ہیں جوان کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے علم عطا فرمایا ہے بلکہ وہ کھلے دل سے قرآن میں سے تصرف کرنے والے ہیں۔ (الکشف: ۲؍۳۶۴)
نوٹ: لفظ ’الغیب‘ سے مراد قرآن کریم ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری قراء ت کی توجیہ: ’بظنین‘ ظاء والی قراء ۃیہ ماخوذ ہے ’الظن‘ سے جس کا معنی ’تہمت‘ ہے اور اس وقت اس کامعنی ہوگا ’’اور محمدﷺغیب (جو کہ قرآن مجید ہے)پر تہمت لگانے والے نہیں ہیں۔‘‘ بلکہ وہ ثقہ، امین ہیں اور وہ اس قرآن کواپنی طرف سے بنا کر نہیں لاتے نہ کسی قرآنی حرف کو کسی دوسرے حرف سے اور ایک معنی کو دوسرے معنی کے ساتھ بدلتے ہیں، کیونکہ ان سے پوری زندگی میں جھوٹ بولنا ثابت ہی نہیں ہوا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) تنوع قراء ات کا اعجاز اور اس کا اَثر سمیعات (غیبیات) میں
قراء اتِ قرآنیہ کا اَثر سمیعات (غیبات) میں واضح ہے۔ غیبیات مطلب ہے ایسے اُمورکا جن کے ہونے کا ایمان کامل کے ساتھ عقیدہ رکھنا اور محض کتاب و سنت اور اجماع کے ثابت کرنے سے ان کو مان لینا اگرچہ انسانی عقل ان غیبیات کے موافق ہو یا نہ ہو۔
غیبیات کیا ہیں؟ غیبیات میں بہت سی چیزیں ہیں جن میں ملائکہ، جن، موت کے بعد کے حالات، حشر و حساب اس کے علاوہ وہ چیزیں جن کاتذکرہ کتاب و سنت میںموجود ہے۔ قراء ات میں ان غیبیات کو مختلف اسالیب کے ساتھ اور معنوں کو بدل کربیان گیاہے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے تو قرآن کریم کی اس آیت کی سمجھ ہی نہیں آئی تھی۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
’’ھُنَالِکَ تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ مَّآ اَسْلَفَتْ وَ رُدُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰھُمُ الْحَقِّ ‘‘ (یونس:۳۰)
’’تبلوا‘‘ میں دو متواتر قراء تیں ہیں۔
(١) ’’تتلوا‘‘ دو تاؤں پہلی متحرک اوردوسری ساکن کے ساتھ - یہ قراء ات حمزہ، کسائی اور خلف العاشر کی ہے۔
(٢) باقی قراء ’’تبلوا‘‘پڑھا ہے۔ (السبعۃ لابن مجاھد: ۳۲۵، النشر: ۲۸۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درج بالا قراء اتوں کی توجیہہ
پہلی قراء ت: اس کا معنی یہ ہوگا کہ بے شک جان طلب کرے گی اور اتباع کرے گی اس چیز سے جو اس نے اپنے اعمال میں سے آگے بھیجا، یا یہ کہ ہر نفس اپنے اچھے بُرے اعمال کو قیامت کے دن ایک صحیفے میں لکھا ہوا پائے گی اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:
’’وَ کُلَّ إِنْسٰنٍ أَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَ نُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا٭ اِقْرَاْ کِتٰبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا ‘‘ (الاسرا:۱۳،۱۴)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ’’تتلوا‘‘ کی قراء ت سے معنی طلب، تتبع اور تلاوت (پڑھنا) کے ہوں گے۔
دوسری قراء ت: ’’تبلوا‘‘ پڑھیں تو پھر مفہوم یہ ہوگا کہ ہر جان کو اس کے اچھے اوربُرے اعمال کی خبرملے گی یا دی جائے گی۔(الکشف :۱؍۵۱۷، شرح ھدایۃ:۲؍۳۳۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) تنوع قراء ات کا شرعی احکام میں اعجاز
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ علوم اِسلامیہ اور عربیہ کا اتصال اور ربط ہے۔ ان علوم سے مراد علم قراءات اور تشریع اِسلامی کا علم ہے اسی وجہ سے ان دونوں علوم کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق اور مضبوط ناطہ ہے جس کی دلیل تفسیر کی کتب کا مطالعہ کرنے سے کھل کر قاری کے سامنے آجاتی ہے۔ان کتب تفسیر میں
(١) الجامع القرآن للجصاص الحنفی (٢) الجامع لأحکام القرآن للامام القرطبی
(٣) احکام القرآن لابن العربی (٤) زاد المسیر فی علوم التفسیر لابن الجوزی
اسی طرح علم القراء ات اور تشریعی احکام کے علم کے آپس میں ربط کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قراء اتِ قرآنیہ کا تذکرہ کئی اَحکام شرعیہ اور اصول فقہ کی کتب میں ملتا ہے جوکہ الإتصال فی علوم القراء ات و تشریع الإسلامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کی مثالیں
(١) مفاتیح الأصول (٢) شرح الفقہ الأکبر للقاري۔ میں موجود ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام نویری رحمہ اللہ کی کلام کا حاصل، فرماتے ہیں:
’’ایک فقیہ کو قاری کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے ہی قاری فقیہ کا محتاج ہوتاہے۔ تاکہ قاری قراء ات کے متعلق اس کی کچھ راہنمائی کرسکے اوراس چیز کو بیان کرے جس پر قراء ات کے احکام کے اختلاف کی بنا رکھی جاتی ہے۔‘‘
اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ علماء کرام مختلف قراء ات سے متعدد معانی اور مسائل کا استنباط کرتے ہیں۔ اور اس کو حجت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔(اتحاف فضلاء البشر: ۱؍۶۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال
جس طرح کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ مختلف قراء ا ت سے مختلف مسائل کا استنباط کیا جاتاہے ۔ذیل میں ہم اس کی مثال دیتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کا فرمان: ’’ وَ لَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ ‘‘ (البقرہ:۲۲۲)
’’اور نہ تم قریب جاؤ اپنی بیویوں کے (حیض ایام میں) حتیٰ کہ وہ طہارت حاصل کرلیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے اس قول میں دو قراء تیں ہیں:
(١) ’’حَتّٰی یِطَّھَّرْنَ‘‘ طاء اور ’ھا‘ کے فتح اور دونوں کی تشدید کے ساتھ۔ یہ قراء ت شعبہ، حمزہ، کسائی اور خلف العاشر کی ہے۔
(٢) ’’حَتّٰی یَطْھُرْنَ‘‘ ’طا‘ کے سکون اورہائے مضمومہ کے ساتھ۔ یہ قراء ت (نافع، ابن کثیر،ابوعمرو، ابن عامر، یعقوب، ابوجعفر اور حفص کی ہے۔ (النشر: ۱؍۲۲۷، اتحاف فضلاء البشر: ۱؍۴۳۸)
 
Top