• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مغرب کی نماز تین رکعت کیوں ؟

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گنتیاں دو اور چار والی تو سمجھ میں آتی ہیں مگر تین والی کچھ ضرور مصلحت والی ہوگی ۔ اس وجہ سے مغرب کی تین رکعت نماز کی حکمت کیا ہوسکتی ہے ؟
اللہ تعالی نے بلاحکمت کسی چیز کو نہیں بنائی ، سب میں کچھ نہ کچھ خالق کی مصلحت اور کوئی نہ کوئی مقصد ہے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ہمیں انہیں چیزوں کی مصلحت معلوم ہے جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے بتائی اور اتنی ہی مقدار میں جس کا ثبوت ملتا ہے۔ حالانکہ اشیاء میں متعدد حکمتیں ہوتی ہیں ۔
جیسے مغرب کی نماز تین رکعت ہیں ویسے وتر کی بھی تین رکعت ہیں ۔ اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہئے ۔ جو چیز نبی ﷺ سے مل جائے اسے بلاچوں چرا تسلیم کرلینی چاہئے اس میں قیل و قال اور چوں چرا کی نوبت ہی نہیں آنی چاہئے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
ۚ(الحشر:7)
ترجمہ : اور رسول ﷺ جو کچھ تمہیں دیدے اسے قبول کرلو اور جن سے منع فرمادے ان سے رک جاؤ۔
شروع میں تمام نمازیں دو دو رکعت تھیں سوائے مغرب کے ۔
كَانَ أَوَّلَ مَا افْتُرِضَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةُ : رَكْعَتَانِ رَكْعَتَانِ ، إِلَّا الْمَغْرِبَ، فَإِنَّهَا كَانَتْ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَتَمَّ اللهُ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْعِشَاءَ الْآخِرَةَ أَرْبَعًا فِي الْحَضَرِ ، وَأَقَرَّ الصَّلَاةَ عَلَى فَرْضِهَا الْأَوَّلِ فِي السَّفَرِ(السلسلة الصحيحة: 6/765)
ترجمہ: رسول الله ﷺ پر پہلے دو دو رکعتیں نماز فرض ہوئی تھی سوائے مغرب کے۔ وہ تین رکعات فرض تھی ۔ پھر اللہ نے حضر میں ظہر ، عصر اور عشاء کی نماز چار(چار ) کردی اور سفر والی نماز اپنی پہلی حالت پر ( دو دو سوائے مغرب کے) فرض رہی ۔
مغرب کی تین رکعت نماز اپنی اصل پہ باقی رہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ دن کی وتر نماز ہے ۔
أول ما فُرِضَتِ الصَّلاةُ ركعتيْنِ ركعتيْنِ ، فلمَّا قدمَ المدينةَ صلَّى إلى كلِّ صَلاةٍ مِثْلَها غيرَ المغربِ ، فإنَّها وترُ النهارِ ، و صلاةِ الصبحِ لطولِ قِرَاءَتِها ، و كان إذا سافَرَ عادَ إلى صلاتِهِ الأُولَى(السلسلة الصحيحة:2814)
ترجمہ: شروع میں دو دو رکعت نماز فرض کی گئی ۔ جب نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے ہر نماز کو اس کے مثل زیادہ کرکے(چار،چار) پڑھا سوائے مغرب کے کیونکہ وہ دن کی وتر ہے ۔اور صبح کی نماز لمبی قرات کی وجہ سے(اتنی ہی پڑھی) ۔ اور جب آپ سفر کرتے تو پہلے کی طرح (دو، دوسوائے مغرب کے) پڑھتے ۔

 
Top