محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,785
- پوائنٹ
- 1,069
"مغوی بچے اور انسانی اعضاء کا کاروبار"
اب مالک مکان اور بڈھا اور بڑھیا کے تو طوطے اڑ گئے انہوں نے بہانے سے اس لڑکی کا موبائل لے کر اسے گرا دیا وہ ٹوٹ گیا۔ اس بیچاری کا آخری سہارا بھی ختم ہو گیا۔ اس نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو بڈھے نے اسے دیکھ لیا۔ اسے پکڑ کر کہنے لگا تم نے میرے بارے میں تو پوچھا نہیں کہ میں کون ہوں؟ پھر اس نے بتایا کہ میں جسمانی اعضاء کی منتقلی کا ایک ماہر اسپیشلسٹ ہوں میں نے تیرے دونوں ساتھیوں کے جسمانی اعضاء آنکھیں، دل، گردے نکال کر انہیں مار دیا ہے۔ اب تیری باری ہے۔ میں ان اعضاء کو بیچ کر اعلیٰ درجے کا کاروبار کرتا ہوں۔ بیچاری لڑکی کا تو خون ہی خشک ہو گیا۔ وہ کانپنے لگی۔ اس کے ترلے منتیں واسطے کرنے لگی۔ اس بڈھے نے اسے چھوڑ دیا اور کہا گھر کے اندر اپنے کمرے میں چلی جا، بھاگنے کی کوشش نہ کرنا۔ وہ اپنے کمرے کے بجائے فرار ہونے کی کوشش میں ایک کمرے میں چلی گئی جس میں اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کو دو بیڈز پر لیٹے دیکھ لیا ان کی آنکھوں پر روئی رکھی ہوئی تھی وہ کمرا انتہائی ٹھنڈا تھا۔ اس کمرے میں سرجری کے تمام اوزار رکھے ہوئے تھے پھر وہ لڑکی بھاگ کر ان دونوں کے کمرے میں گئی جہاں وہ ٹھہرے تھے وہاں ان کے بیگ سے ان کے فون مل گئے اس نے ان سے پولیس کو فون کر دیا۔ پولیس فوراً اس لڑکی کی بتائی جگہ پر پہنچ گئی۔ اس لڑکی کی قسمت اچھی تھی۔ وہ بچ گئی۔ اب پولیس والے اس بڈھے اور بڑھیا کو پکڑ کر لے گئے۔
اس سرجن ڈاکٹر اور اس کی بیوی کو سینکڑوں جسمانی اعضاء نکالنے اور بیچنے پر سزائے موت سنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا۔ ہندوستان میں پیش آنے والے اس واقعے نے دل دہلا کر رکھ دیا کہ ایک ڈاکٹر جسے لوگ عرف عام میں مسیحا کہتے ہیں، جو لوگوں کو شفا بخش زندگیاں لوٹاتا ہے ایسے گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہو سکتا ہے۔ درندہ بن جاتا ہے۔ انسانی جسم کا مثلہ کر دیتا ہے۔ پیسے کے حصول کے لئے اس قدر پستیوں کی گہرائیوں میں گر جاتا ہے؟
جسمانی اعضاء کے بیچنے کا کاروبار وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اس گھناؤنے فعل میں یا تو براہ راست ڈاکٹر ملوث ہیں جیسے کہ مذکورہ واقعے سے معلوم ہوتا ہے یا پھر یہ گھناؤنا کاروبار کرنے والے زبردستی ڈاکٹروں سے یہ کام کرواتے ہیں، جیسا کہ اقوام متحدہ کے سفیر نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں تفصیلات بتائی ہیں۔ عراقی سفیر الحکیم نے کہا ہے کہ ’’داعش‘‘ کے انتہا پسند مالی وسائل حاصل کرنے کے لئے انسانی اعضاء کا غیرقانونی کاروبار کرتے ہیں۔ اس میں ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی ہے اور جو ڈاکٹر ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے انہیں وہ ہلاک کر دیتے ہیں اب تک کئی ڈاکٹر ہلاک کر چکے ہیں۔ عراقی حکومت کو اجتماعی قبروں میں بہت سی ایسی لاشیں ملی ہیں جن کی پشت پر شگاف تھے اور ان کے گردے یا دیگر اعضاء غائب تھے۔
یہ جسمانی اعضاء مردوں اور زندہ لوگوں کے نکال کر بیچنے والے وہ لوگ ہیں جن کا تعلق داعش سے ہے، جو سفاکیت کی چوٹیوں پر ہیں۔ کہیں اردنی پائلٹ کو جلا دیتے ہیں، کہیں عورت کو سر کے بالوں سے پکڑ کر گردن پر چھری چلاتے ہوئے دیکھا گیا اور کہیں ان کی سفاکیت یہ ہے کہ انسان کو پنجروں میں بند کر کے پانی میں ڈبوتے ہیں اور پھر اس کی بے بسی کی موت پر ویڈیو بناتے ہیں۔ انسان اور انسانیت کے ساتھ یہ ظلم آئے دن دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ دل خون کے آنسو بہا رہا ہوتا ہے۔
اب یہ سفاکانہ وارداتیں ہمارے اردگرد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان کے جس علاقے پنجاب سے ہم تعلق رکھتے ہیں، روزانہ چوریاں ، ڈاکے، قتل اور اس جیسی وارداتوں کے علاوہ لوگوں کو ہراساں کرنا ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکا ہے۔ ابھی تھوڑے دن پہلے میرے شہر لاہور کے سینئر صحافی منیر احمد بلوچ کے بیٹے کی گاڑی پر کسی نے پتھر مارا جس سے اس کے بیٹے کی آنکھ ضائع ہو گئی۔ اللہ قادر مطلق اس کے بیٹے کی آنکھ کی بینائی واپس لوٹائے اور جس نے ان کی دنیا اندھیر کی، اسے کیفر کردار تک پہنچائے اور بیٹے کی آنکھ کو شفا عطا فرمائے۔ (آمین)
اب پنجاب بھر میں اغوا کی وارداتوں نے شہریوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ 400 کے قریب بچے اغوا ہو چکے ہیں۔ لاہور کے مصروف ترین علاقوں میں یہ دلیرانہ واقعات پولیس، ایجنسیز اسپیشل برانچ وغیرہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان معصوموں کو اغوا کرنا اور پھر انہیں مار دینا، والدین سخت ذہنی اذیت کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو سکول اور باہر بھیجتے ہوئے ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ میں رات صدر میں عزیزوں کے گھر گئی تو ان کے بچے خوفزدہ ہو کر بتا رہے تھے کہ ہمارے محلے سے دو بچے غائب ہو گئے ہیں۔ گلیوں میں اکٹھے ہو کر کھیلنے والے بچے دبک کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ ابھی باتیں ہو رہی تھیں کہ بیٹے نے بتایا کہ ہم ہربنس پورہ میں گئے تو وہاں لوگ بتا رہے تھے کہ وہاں سے ایک بچے کو اغوا کر کے لے گئے۔ کچھ دنوں بعد اس کی لاش ان کے گھر کے ساتھ پھینک گئے۔ اس بچے کے جسم کے اعضاء نکال لئے گئے تھے۔ اب اس مثلہ کیے بچے کی لاش دیکھ کر اس کے گھر والوں پر کیا بیتی ہو گی۔ اس کی ماں کے دل کے درد کا اندازہ لگایئے جب اس نے اپنے بچے کی مثلہ کی ہوئی لاش دیکھی ہو گی کہ اس کے پیارے معصوم کی آنکھیں کس نے لے لیں۔ اس کے ننھے کے دل، گردے، جگر کس نے نکال لئے۔ کس نے اس کے بچے کے ساتھ ایسا ظلم کیا۔ کس نے دو پیسوں کی خاطر ایک ماں کی ممتا کو تڑپایا، ایک باپ کو اذیت سے دوچار کیا۔ کس ظالم نے ان سب گھر والوں کی دنیا اندھیر کر دی۔ پولیس کو اطلاع دی تو کچھ تعین نہ ہو سکا کہ کس نے مارا اور کیوں مارا، لیکن پیسے کی خاطر اور جسمانی اعضاء کو کاروبار بنانے کے لئے معصوموں کا قتل، اور پھر جسمانی اعضاء کا نکالنا کسی عام بندے کا کام نہیں اس کے لئے کسی ڈاکٹر کو اس واردات میں شامل کرناعام آدمی کی بھی سمجھ میں آتا ہے۔
ان اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ جہاں جسمانی اعضاء بیچے جاتے ہیں وہاں سے ان کا پتہ چلایا جائے اور ایسے گھناؤنے اور سفاک کاروبار میں ملوث لوگوں کو پکڑ کر ان کی سب کے سامنے آنکھیں اور باقی سب اعضاء نکالے جائیں تاکہ لوگوں کی زندگیاں چھیننے والے، لوگوں کی دنیا اندھیر کرنے والے سفاک عبرت کا سامان بنیں۔
اللہ کے لئے پولیس کے تمام ادارے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ملک کو اس اغوا جیسی وارداتوں اور انسانی اعضاء نکالنے جیسے قبیح فعل کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ لوگوں کو ذہنی کرب اور اذیت سے نکالیں۔ اگر پولیس یہ کام کر دکھائے گی تو ہر ذہنی کرب میں مبتلا والدین ہر شخص ہر ماں ہر بچہ اور تمام لوگ پولیس کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ CCTV کیمرے ناکام ہو چکے اب آنکھوں کے کیمروں سے مجرموں کو تلاش کیجئے اور ان کو سرعام سزا دے کر مظلوم لوگوں کی دعائیں لیجئے۔ اللہ میرے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
اے اللہ کریم! ہندو سرجن کی سفاک سوچ اور داعش کے گھناؤنے فعل کی پیروی کرنے والوں سے میرے پیارے رسولؐ کی امت کو محفوظ فرما لے۔
طالب دعاء
ابو ياسر فريد كشميري من مکہ المكرمه