• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ممنوع اور مشروع وسیلہ کی حقیقت

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
نام کتاب​
ممنوع اور مشروع وسیلہ کی حقیقت
مصنفین​
محمد ناصر الدین البانی+شیخ محمد نسیب الرفاعی
مترجم​
مختار احمد ندوی حفظہ اﷲ
ناشر​
نعمانی کتب خانہ حق اسٹریٹ اردو بازار لاہور
ان پیج فائل​
مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان
یونیکوڈ کاوش​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
نوٹ
مترجم نے علامہ شیخ محمد نسیب الرفاعی کی کتاب ''التوصل الی حقیقۃ التوسل ''اور محدث العصر محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب''التوسل انواعہ واحکامہ'' دونوں کو جمع کرکے اس کا ترجمہ کیا اور ایک کتاب کی شکل دے دی ہم نے اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے حصہ اول میں محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب التوسل انواعہ واحکامہ جبکہ حصہ دوم میں محمد نسیب الرفاعی کی کتاب التوصل الی حقیقۃ التوسل ۔انتظامیہ​ صراط الہدی فورم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حصہ اول میں محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب التوسل انواعہ واحکامہ جبکہ حصہ دوم میں محمد نسیب الرفاعی کی کتاب التوصل الی حقیقۃ التوسل ۔انتظامیہ صراط الہدی فورم
فہرست مضامین حصہ اول​

  1. احکام اور انواع
  2. توسُّل لغت عرب میں
  3. وسیلہ کا معنی قرآن میں
  4. صرف اعمال صالحہ ہی تقرب اِلٰہی کا وسیلہ ہیں
  5. عمل صالح کب ہوتا ہے؟
  6. دنیاوی اور شرعی وسائل
  7. وسیلہ کونیہ ' وسیلہ شرعیہ
  8. وسائل کی صحت اور مشروعیت معلوم کرنے کا طریقہ
  9. مشروع وسیلہ اُور اس کے اقسام
  10. عمل صالح کا وسیلہ
  11. مرد صالح کی دُعا کا وسیلہ
  12. خلاصہ کلام
  13. مقدمہ
  14. وسیلہ کا لغوی معنٰی
  15. وسیلہ کا شرعی معنی
  16. آیات کا تاریخی پس منظر
  17. ایک مثال
  18. وسیلہ کی قسمیں
  19. شرعی وسیلہ کی تعریف
  20. مشروع وسیلہ کی پہلی قسم
  21. اسماء وصفات وذات الٰہی کا وسیلہ احادیث کی روشنی میں
  22. قرآن کا وسیلہ
  23. آدم کا اعتراف قصور'ندامت ودعا
  24. اعمال صالحہ کا وسیلہ صحابہ کرامؓ کے عمل کی روشنی میں
  25. مشروع وسیلہ کی تیسری قسم اپنے مومن بھائی کا دعا کا وسیلہ
  26. اذان کے بعد کی دعا
  27. حاجی کی دعا کا وسیلہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
فہرست مضامین حصہ دوم​

  1. ابتدائیہ
  2. ممنوع وسیلہ کابیان
  3. ممنوع وسیلہ کی تعریف
  4. ممنوع وسیلہ کا حکم
  5. ممنوع وسیلہ کے اقسام
  6. ممنوع وسیلہ کی پہلی قسم کسی شخص کی ذات کا وسیلہ
  7. ممنوع وسیلہ کی دوسری قسم اﷲکے یہاں کسی کے مرتبہ یا حق یا حرمت وغیرہ کا وسیلہ چاہنا
  8. ممنوع وسیلہ کی تیسری قسم اﷲپر صاحب وسیلہ کی قسم کھانا
  9. قائلین کے دلائل
  10. احادیث پر بحث
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حصہ اول​

احکام اور انواع
از محدث العصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اﷲ علیہ
توسّل اور اس کے دینی حکم کے بارے میں بڑا اضطراب واِختلاف رہا ہے ۔کچھ اس کو حلال سمجھتے ہیں اورکچھ حرام 'کچھ کو بڑا غلو ہے اور کچھ متساہل ہیں ۔طویل صدیوں سے عام مسلمان اس کے عادی رہے ہیں کہ اپنی دعاؤں میں کچھ اس طرح کے الفاظ کہتے رہے ہیں ۔مثلاً
اللَّھُمَّ بِحّقِّ نَبِیِّکَ اَو بِجَاھِہٖ اَوْ بِقَدْرِہٖ عِنْدَکَ ، عَافِنِیْ وَاعْفُ عَنِّی ، اَللَّھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ الْبَیْتِ الْحَرَامِ اَنْ تَغْفِرْلِیْ اَللَّھُمَّ بِجَاہِ الْاَوْلِیَائِ وَالصّٰلِحِیْنَ مِثْلَ فُـلَانٍ وَ فُلَانٍ اَللَّھُمَّ بِکَرَامَۃِ رِجَالٍ اﷲِ عِنْدَکَ وَ بِجَاہٍ مِنْ نَحْنُ فِیْ حَضْرتِہ وَتَحْتَ مَدَ دِہٖ فَرِّجِ الْھَمَّ عَنَّا وَ عَنِ المَھُمُوْمِیْنَ اِللَّھُمَّ قَدْ بَسَطَنَا اِلَیْکَ اَکْفَّ الضَّرَاعَۃِ ، مُتَوَسِّلِیْنَ اِلَیْکَ بِصَاحِبٍ الْوَسِیْلَۃِ وَالشَّفَاعَۃِ اَنْ تَنْصُرَ الْاِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ
'' اے اﷲتیرے نبی کے حق کے واسطے سے یا تیرے پاس ان کے مرتبہ اور عزت کے واسطے سے مجھ کو عافیت دے اور مجھ کو معاف فرما'اے اﷲبیت الحرام کے حق کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھ کو تو بخش دے اے اﷲ اولیاء اور صالحین مثلاً فلاں اور فلاں کے جاہ کے واسطے سے اے اﷲ اﷲ والوں کی تیرے پاس بزرگی کے واسطے سے اور ان لوگوں کے جاہ کے وسطے سے جن کی بارگاہ اور مدد کے تحت ہم ہیں ،ہم سے اور غمزدہ لوگوں سے غم کو دُور فرما ۔اے اﷲہم نے تیری طرف عاجزی کا ہاتھ پھیلایا ہے وسیلہ اور شفاعت والے کو تیری بارگاہ میں وسیلہ بناکر تو اِسلام اور مسلمانوں کی مدد فرما۔ وغیرہ وغیرہ''
لوگ اسی کو وسیلہ کہتے ہیں اور دعوی بھی کرتے ہیں کہ یہی رائج اور مشروع ہے اور اس کے بارے میں بعض ایسی آیات اور احادیث بھی وارد ہیں جو اس کو ثابت اور مشروع کرتی ہیں بلکہ اسی وسیلہ کا حکم بھی دیتی ہیں اور ترغیب بھی ۔
اور کچھ لوگوں نے تو اس وسیلہ کے مباح ہونے میں ایسا غلو کیا کہ اﷲکی بارگاہ میں اس کی بعض ایسی مخلوقات کا وسیلہ بھی جائز قرار دے دیا جن کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ وقعت ۔مثلاً اولیاء کی قبریں 'ان قبروں پر لگی ہوئیں لوہے کی جالیاں 'قبر کی مٹی 'پتھر اور قبر کے قریب کا درخت ۔اس خیال سے کہ ''بڑے کا پڑوسی بھی بڑا ہوتا ہے''۔اور صاحب قبر کے لئے اﷲکا اکرام قبر کو بھی پہنچتا ہے 'جس کی وجہ سے قبر کا وسیلہ بھی اﷲکے پاس درست ہوجاتا ہے ۔یہی نہیں بلکہ بعض متاخرین نے تو غیر اﷲسے استغاثہ کو بھی جائز قرار دے دیا اور دعویٰ یہ کیا کہ یہ بھی وسیلہ ہے 'حالانکہ یہ خالص شرک ہے جو توحید کی بنیاد کی خلاف ہے۔
سوال یہ ہے کہ وسیلہ ہے کیا ؟اسکے انواع کیاہیں ؟اور اس بارے میں جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کا معنی کیا ہے ؟اور اِسلام میں وسیلہ کا صحیح حکم کیا ہے ؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
توسُّل لغت اور قرآن میں ​

توسُّل لغت عرب میں :
اصل موضوع پر تفصیلی بحث کرنے سے پہلے میں پسند کرتا ہوں کہ اس خاص سبب پر توجہ دوں جس کی بناپر عام لوگ وسیلہ کا معنی نہیں سمجھتے اور وسیلہ کو وسعت دے دیتے ہیں اور اس میں ایسی چیزیں بھی داخل کردیتے ہیں جو وسیلہ کے معنی میں نہیں آتیں اور ایسا محض اس لیے ہوتا ہے کہ لوگ وسیلہ کا لغوی معنی نہیں سمجھتے اور اس کو اصل دلائل سے معلوم کرتے ہیں ۔
''توسُّل ''خالص عربی لفظ ہے جو قرآن وسنّت اور کلام عرب میں شعر ونثر دونوں ہی طرح آیا ہے ۔اور وسیلہ کا مطلب ہے''مطلوب تک تقرب حاصل کرنا اور رغبت کے ساتھ اس تک پہنچنا ۔(النہایہ)۔اَلْوَاسِلُ ' یعنی راغب ''وسیلہ ''یعنی ''قربت اور واسطہ''اور جس کے ذریعہ کسی چیز تک پہنچا جائے اور اس کے ذریعہ قرب حاصل کیاجائے ۔وسیلہ کی جمع وسائل ہے ۔اور فیروز آبادی نے ''قاموس ''میں کہا وَسَّلَ اِلَی اﷲِ تَوْسِیلًا '' یعنی ایسا عمل کیا جس سے اس کا تقرب حاصل ہوا اور ابن فارس نے ''معجم المقاتلیس''میں لکھا ہے ۔ اَلْوَسِیْلَۃُ الرَّغْبَۃُ وَالطَّلَبُ '' وَسَّل ۔ کہا جاتا ہے جب آدمی کسی کی طرف رغبت کرے ۔اور ''واسل''کہتے ہیں اﷲکی طرف رغبت کرنے والے کو ۔ لبید کہتا ہے ؎
اِرَی النَّاسَ لَا یَدْرُوْنَ مَا قَدْرُ اَمْرِھِمْ بَلٰی کُلُّ ذِیْ دِیْنٍ اِلَی اﷲِ وَاسِل
میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنے کام کی قدر نہیں جانتے ہاں بے شک ہر دیندار اﷲ کی طرف راغب ہے​
اور علامہ راغب اصفہانی نے ''المفردات ''میں کہا ۔ اَلْوَسِیْلَۃُ اَلتَّوَسُّلُ اِلَی الشَیْیٔ بِرَغْبَۃٍ (یعنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنا )اور وصیلہ سے خاص ہے کیونکہ وہ رغبت کے معنی کو شامل ہے ۔اﷲکا ارشاد ہے وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ اور وسیلہ الی اﷲ کی حقیقت یہ ہے کہ ''علم اور عبادت اورمکارم شریعت کی طلب کے ساتھ راہِ الٰہی کی رعایت کرنا ۔'' اور وسیلہ 'قربت کی طرح ہے۔اور ''واسل''راغب الی اﷲکو کہتے ہیں ''اور علامہ ابن جریر نے بھی اسی معنی کو نقل کیا ہے اور اس پر شاعر کا قول پیش کیا ہے ؎
اِذَا غَفَلَ الْوَاشُوْنَ عُدْنَا لَوَصْلَنَا وَعَادَ التَّصَافِی بَیْنَنَا والْوَسَائِلُ​
جب چغلی کھانے والے غافل ہوگئے توہم اپنے وصل کی طرف لوٹ پڑے اور ہمارے درمیان دوستی اور وسائل بھی لوٹے ۔
اور وسیلہ کا ایک معنی یہاں اور بھی ہے اور وہ ہے ''بادشاہ کے پاس مرتبہ اور درجہ قربت ۔'' جیسا کہ حدیث میں اس کو جنت کا سب سے اعلیٰ مقام کہا گیا ہے ۔چنانچہ رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کا اِرشاد ہے ۔''جب تم مؤذن سے سنو توکہو جیسے مؤذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو ۔جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا'اﷲاس پر دس بار درود بھیجے گا۔پھر میرے لیے اﷲسے وسیلہ مانگو کیونکہ وسیلہ جنت میں ایک مرتبہ ہے جو بندگان اﷲمیں سے کسی ایک بندہ کیلئے بنایاگیا ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں ۔لہٰذا جو شخص میرے لئے وسیلہ کا سوال کرے گا اس کیلئے میری شفاعت حلال ہوگئی ۔'' (مسلم)
یہ آخری دومعنی وسیلہ کے اصلی معنی سے گہرا ربط رکھتے ہیں لیکن وہ ہماری اس بحث میں نہیں لئے جاسکتے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
وسیلہ کا معنی قرآن میں ​

توسُّل کا جومعنی میں نے گذشتہ صفحات میں بیان کیا ہے لغت میں وہی مشہور ومعروف ہے اور کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی ہے 'اور سلف صالح اور ائمہ تفسیر نے بھی دونوں آیات کریمہ میں ''وسیلہ ''کی تعریف یہی کی ہے وہ دونوں آیتیں یہ ہیں ۔
یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الوَسِیْلَۃَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o
ترجمہ: ''اے ایمان والوں !اﷲسے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔''​(المائدہ:۳۵)​
اُولٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمْ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَ ابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا o (الاسراء : ۵۷)
ترجمہ: ''یہی وہ لوگ ہیں جو پکارتے ہیں اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون قریب ہے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بے شک تیرے رب کا عذاب ڈرنے کے قابل ہے ۔''
پہلی آیت کی تفسیر میں امام المفسرین الحافظ ابن جریر رحمۃ اﷲعلیہ نے فرمایا:
وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الوَسِیْلَۃ یَعْنِی اُطْلِبُوا الْقُرْبَۃَ اِلَیْہِ بِالْعَمَلِ بِمَا یَرْضَاہٗ o​
ترجمہ: ''اﷲکی طرف عمل کے ذریعہ قربت حاصل کرو جس کووہ پسند کرتا ہے۔''​
اور حافظ ابن کثیر رحمۃ اﷲعلیہ نے اس آیت میں وسیلہ کا معنی ''قربت ''کیا ہے اور یہی معنی مجاہد'ابووائل'حسن 'عبداﷲبن کثیر 'سدی اور ابن زید وغیرہ سے بھی نقل کیا ہے ۔اور حافظ ابن کثیر نے عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہما سے نقل کیا ہے کہ اس آیت میں ''وسیلہ''کا معنی ''قربت ''ہے ۔اور قتادہ کابھی قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں وسیلہ کا مطلب ہے کہ ''اﷲکی اطاعت اور اس کے پسندیدہ عمل کے ذریعہ اﷲکا قرب حاصل کرو ۔''علامہ ابن کثیر اس کے بعد فرماتے ہیں کہ وسیلہ کا جو مفہوم ان ائمہ تفسیر نے بیان کیا ہے اس میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں 'اور وسیلہ وہی ہے جس کے ذریعہ حصول مقصود تک پہنچا جائے۔ (تفسیر ابن کثیر :۲'۵۲'۵۳)
رہی دوسری آیت تو صحابی جلیل القدر حضرت عبداﷲبن مسعود رضی اﷲعنہ نے اس کا سبب نزول بیان کرتے ہوئے آیت کے معنی کی توضیح فرمائی ہے کہ ''یہ عرب کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو جنوں کے ایک گروہ کی عبادت کرتی تھی ۔بعد میں جن مسلمان ہوگئے اور ان پجاریوں کو اس کا علم نہ ہوا ۔''
اور حافظ ابن حجررحمۃ اﷲعلیہ فرماتے ہیں کہ ''یہ انسان توجنوں کی عبادت پر قائم رہے لیکن جن خود اس کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے تھے اور وہ خود اپنے رب کا وسیلہ تلاش کررہے تھے ۔''آیت کی یہ تفسیر سب سے معتمد ہے ۔
اس تفسیر میں اس بات کی صراحت ہے کہ وسیلہ سے مراد وہ عمل ہے جس سے اﷲکا تقرب حاصل کیاجائے ۔اﷲنے اسی لئے لفظ ''یَبْتَغُوْنَ''فرمایا 'یعنی ایسے اعمال صالحہ تلاش کرتے ہیں جن سے وہ اﷲکا تقرب حاصل کرسکیں ۔نیز یہ آیت اشارہ کررہی ہے ۔۔اس عجیب وغریب معاملے کی طرف جو ہر فکر سلیم کے مخالف ہے کہ کچھ لوگ اپنی عبادت اور دعا کے ذریعہ اﷲکے کچھ بندوں کی طرف متوجہ ہوں ان سے خوف کھائیں اور امید رکھیں 'حالانکہ یہ عبادت گذار بندے جن کو معبود بنادیا گیا تھا انہوں نے اپنے اِسلام کا اعلان کردیا تھا اور اپنی عبودیت کا اﷲ سے اقرار کیا اور ان اعمال صالحہ کے ذریعہ جن کو اﷲپسندکرتا ہے 'اﷲکا تقرب حاصل کرنے کیلئے آپس میں مسابقت کرنے لگے اور وہ رحمت اِلٰہی کے حریص ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
خود اﷲ اس آیت میں ان جہلاء کی عقلوں کا مذاق اڑاتا ہے جو جنوں پرستار تھے اور ان کی پرستش پر ڈٹے ہوئے تھے جب کہ یہ جن خود مخلوق ہیں اور اﷲ کے عبادت گذار ہیں اور ان انسانوں کی طرح کمزور ضعیف ہیں خود اپنے لئے نفع وضرر کے مالک نہیں ہیں ۔اﷲتعالیٰ اس پر تعجب کا اظہار فرماتا ہے کہ یہ آدم زاد اﷲواحد کی بندگی کیوں نہیں کرتے جو تنہا نفع وضرر کامالک ہے اور اسی کے ہاتھ میں ہرچیزکی تقدیر ہے اور وہی تمام اشیاء کا محافظ ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
صرف اعمال صالحہ ہی تقرب اِلٰہی کا وسیلہ ہیں​

نہایت عجیب بات ہے کہ بعض مدعیانِ علم نے مذکورہ بالا دونوں آیتوں سے انبیاء کرام کی ذات ان کی حرمت 'ان کے حق اورجاہ کے وسیلہ پر استدلال کیا ہے جب کہ یہ استدلال بالکل غلط اور دونوں آیتوں کا اس پر محمول کرنا ہرگز صحیح نہیں 'کیونکہ شرع سے یہ ثابت نہیں کہ یہ وسیلہ مرغوب ومشروع ہے۔اسی لئے سلف صالح میں سے کسی نے بھی اس استدلال کا ذکر نہیں کیا 'نہ ہی کسی نے اس مذکورہ وسیلہ کو پسند کیا 'بلکہ انہوں نے اس آیت سے جو کچھ بھی سمجھا بس وہ یہی ہے کہ اﷲتعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ہر پسندیدہ عمل کے ذریعہ اور اس کی بارگاہ میں طاعت وبندگی پیش کرکے اور اس کی رضا کی تمام راہوں پر چل کر اس کا وسیلہ اور تقرب حاصل کریں ۔
اور اﷲتعالیٰ نے تو دوسری آیات کے ذریعہ ہم کو تعلیم دے دی ہے کہ ہم جب بھی اﷲکا تقرب حاصل کرنا چاہیں تو اس کی جناب میں ان اعمال صالحہ کو پیش کریں جن کو اﷲپسندکرتا ہے اور جن سے خوش ہوتاہے ۔پھر اﷲنے ان اعمال کو ہماری عقل اور ہمارے ذوق پر نہیں چھوڑدیا ورنہ بڑا اختلاف واضطراب اور تجاد وتخاصم پیدا ہوتا 'بلکہ اس نے ہم کو پابند کردیا کہ اس معاملے میں ہم اسی کی طرف رجوع کریں اور اس بارے میں اسی کے اِرشادوتعلیم کی پیروی کریں 'کیونکہ اﷲکو کون سا عمل پسند ہے یہ تو صرف اﷲہی جانتا ہے ۔لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ اﷲکے قریب کرنے والے وسائل کو جاننے کے لئے ہر مسئلے میں کتاب اﷲاور سنت رسول اﷲکی طرف رجوع ہوں ۔اسی کی تاکید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو کی ہے جیسا کہ ارشاد ہے ۔
تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکُتُمْ بِھِمَا ' کِتَابُ اﷲِ وَ سُنَّۃَ رَسُوْلِہٖ o (رواہ مالک وحاکم)​
ترجمہ: ''میں نے تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑی ہیں۔تم کبھی گمراہ نہ ہوگے جب تک تم ان کو مضبوط پکڑے رہوگے''اﷲکی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ۔''
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
عمل صالح کب ہوتا ہے؟​

کتاب وسُنّت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ عمل جب صالح مقبول ہوگا تو بارگاہ الٰہی میں پیش کیا جائے گا ۔اِس کے لئے ضروری ہے کہ اس میں دوعظیم باتیں پوری طرح پائی جائیں ۔
اول:
یہ کہ عمل کرنے والے کا مقصد صرف رضائے الٰہی کا حصول ہو۔
دوم:
یہ کہ وہ اس طریقہ کے موافق ہو جو اﷲنے اپنی کتاب میں مشروع کیا ہے یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اپنی سُنّت میں بیان کیا ہو ۔
ان شرطوں میں سے ایک شرط بھی خراب ہوئی تو عمل نہ صالح ہوگا نہ مقبول ۔اس کی دلیل اﷲتعالیٰ کا یہ قول ہے:
فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدً اo (سورۃ الکہف:۱۱۰)​
ترجمہ: ''جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی آرزو رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ صالح عمل کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے ۔''
یہاں اﷲنے یہی حکم فرمایا کہ عمل صالح ہو یعنی سنت کے موافق ہو'پھر فرمایا کہ عمل کرنے والا صرف اﷲکی رضا کے لیے وہ عمل کررہا ہوں 'اس کے سوا کسی کی اس کو چاہت نہ ہو ۔
حافظ ابن کثیر رحمۃ اﷲعلیہ نے اپنی تفسیر میں فرمایا ہے کہ مقبول عمل کے یہ دورکن ہیں ۔یعنی ضروری ہے کہ عمل اﷲکے لئے خالص ہو اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق ہو ۔قاضی عیاض رحمۃ اﷲعلیہ سے بھی بالکل ایسی ہی روایت ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
دنیاوی اور شرعی وسائل
جب ہم یہ سمجھ گئے کہ وسیلہ وہ سبب ہے جو اطاعت کے ذریعہ مطلوب تک پہنچاتا ہے تو اب ہم کو جاننا چاہئے کہ وسیلہ کی دوقسم ہے ۔
 
Top