• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منافق مردوں اور عورتوں پر اللہ کا غضب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یہی وہ منافق لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ رب العالمین کا ایک ارشاد گرامی یوں بھی ہے:
{وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی وَ اللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَo} [التوبہ:۱۰۷]
''اور وہ لوگ جنھوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے اور کفر کرنے (کے لیے) اور ایمان والوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے (کے لیے) اور ایسے لوگوں کے لیے گھات کی جگہ بنانے کے لیے جنھوں نے اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی اور یقینا وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے بھلائی کے سوا ارادہ نہیں کیا اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بے شک وہ یقینا جھوٹے ہیں۔ ''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں منافقوں کا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے کے لیے ایک مسجد (مدینہ منورہ میں) بنا ڈالی ۔وہ اس ضمن میں قسمیں اٹھاتے تھے کہ ان کا اس مسجد کی تعمیر سے خیر اور بھلائی کے سوا کوئی اور ارادہ نہیں ہے۔ جبکہ اللہ عزوجل اس بات پر گواہ تھا کہ وہ اپنے مقصد و ارادہ کے بارے میں جھوٹ بول رہے ہیں۔ اور پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اطاعت گزار امت کو اس بارے میں منع فرمادیا کہ وہ کبھی ان کے ہاں جاکر اس مسجد میں نماز بھی پڑھیں تو۔ اس لیے کہ بلاشک و شبہ منافقوں نے مسجد ضرار تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے، مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے اور ان لوگوں کے لیے نگرانی اور جاسوسی کی جگہ بنانے کی خاطر تعمیر کی تھی جو اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کریں۔ ان منافقوں کے منصوبوں میں سے بالاولیٰ یہ بات تھی کہ وہ اس طرح کی مجلس گاہیں، کلب، پارٹیاں اور محافل کی تعمیر و تشکیل کریں تاکہ وہ اہل اسلام کے خلاف کافروں اور مشرکوں کے لیے جاسوسی کرسکیں ۔ تاکہ اُن کے خلاف یہ منافق لوگ منصوبہ بندی کرکے انہیں گمراہ کرنے، ان میں خرابیاں پیدا کرنے، دہشت گردی پھیلانے، انہیں ان کے دین سے دور کرنے اور ان کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لیے اپنے ان مراکز کو استعمال میں لاسکیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یہی وہ منافق ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی یوں بھی ہے، فرمایا:
{وَیَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیقٌ مِّنْہُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَمَا اُوْلٰٓئِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَo وَاِِذَا دُعُوْا اِِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اِِذَا فَرِیقٌ مِّنْہُمْ مُعْرِضُوْنَo وَاِِنْ یَکُنْ لَہُمُ الْحَقُّ یَاْتُوا اِِلَیْہِ مُذْعِنِیْنَo} [النور:۴۷تا۴۹]
''اور وہ کہتے ہیں ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے حکم مان لیا، پھر ان میں سے ایک گروہ اس کے بعد پھر جاتا ہے اور یہ لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں۔ اور جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جاتے ہیں، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو اچانک ان میں سے کچھ لوگ منہ موڑنے والے ہوتے ہیں۔ اور اگر ان کے لیے حق ہو تو مطیع ہو کر اس کی طرف چلے آتے ہیں۔''
یہاں ان آیات کریمہ میں اللہ عزوجل ان منافقوں کے متعلق خبر دے رہے ہیں جو اپنی زبانوں سے کہتے ہیں کہ: ہم اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان لائے ہیں اور اُس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر بھی اور ہم دونوں کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ مگر اس کے بعد اپنے افعال و اعمال سے اپنے اقوال و اقرار کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔ اور جب ان سے قرآن و سنت والی سیدھی راہ (صراط مستقیم) کی پوری پوری اتباع کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ اس سے اعراض کرتے ہوئے قرآن و سنت والے صراطِ مستقیم کے متعلق اپنے دلوں میں تکبر کرتے ہیں۔ اور اگر حکومت و فیصلہ ان کے خلاف ہونے کی بجائے اُن کے حق میں ہوجائے تو وہ کان دھر کر سنتے اور اطاعت کرنے والے بن جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی فیصلہ اُن کے خلاف ہوجائے تو وہ اعراض کرکے حق کے خلاف دعویٰ دائر کردیتے ہیں اور اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ وہ اپنا فیصلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ (قرآن و سنت والی شریعت مطہرہ سے ہٹ کر) کسی اور عدالت میں لے جائیں تاکہ وہ اپنے باطل نظریات کی ترویج کرسکیں۔ تو منافقوں کا پہلی صورت میں اسلام کی ماتحتی اختیار کرنا دین حنیف کے ساتھ عقیدہ و عمل کے پختہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتا کہ وہ سمجھ رہے ہوں کہ اسلام حق والا دین ہے بلکہ اس لیے فرمانبرداری کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ فیصلہ ان کی آرزوؤں اور خواہشات کے مطابق تھا۔ اس لیے جب حق ان کے ارادوں کے خلاف ہوتا ہے تو وہ اس سے پھر کر کفر و طاغوت کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔
یہی وہ منافق لوگ ہیں کہ جن کے متعلق اللہ تبارک و تعالیٰ یوں بھی ارشاد فرماتے ہیں:
{وَاِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًاo} [الاحزاب:۱۲]
''اور جب منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے، کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا دینے کے لیے وعدہ کیا تھا۔ ''
جب کبھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو پھر اس وقت ان منافقین کا نفاق ظاہر ہوتا ہے اور جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہوتی ہے وہ بڑے خوش ہوکر اس مصیبت پر تبصرے کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان منافقوں کے متعلق کہ جو جنگ سے فرار کے بہانے بناتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہنے کی اجازت مانگتے ہیں، فرماتے ہیں:
{وَ اِذْ قَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ یٰٓاَہْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوْا وَیَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْہُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَۃٌ وَمَا ہِیَ بِعَوْرَۃٍ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًاo} [الاحزاب:۱۳]
''اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا اے یثرب والو! تمھارے لیے ٹھہرنے کی کوئی صورت نہیں، پس لوٹ چلو، اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت مانگتا تھا، کہتے تھے ہمارے گھر تو غیر محفوظ ہیں، حالانکہ وہ کسی طرح غیر محفوظ نہیں، وہ بھاگنے کے سوا کچھ چاہتے ہی نہیں۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ان منافقین پر اگر دشمن ہر جانب سے حملہ کردیں اور پھر ان سے شرک و کفر میں داخل ہونے کے متعلق دریافت کیا جائے تو وہ نہایت تیزی سے کفر کا راستہ اختیار کرلیں۔ وہ بہت ہی تھوڑے سے خوف اور ڈر پر نہ ہی اپنے ایمان کی محافظت کرسکیں اور نہ ہی اس پر متمسک ہوسکیں۔ یہ منافقوں کی انتہائی درجہ کی مذمت ہے۔ اس کے بعد اللہ رب العالمین نے انہیں بتلایا ہے کہ اُن کا ایمان و اسلام سے یہ فرار نہ ہی تو ان کی اموات کو مؤخر کرسکتا ہے اور نہ ہی اُن کی عمروں میں اضافہ کرسکتا ہے۔ بلکہ عین ممکن ہے ان کا یہ فرار ان کی اچانک پکڑ کر ذریعہ بن جائے (اور اللہ کا عذاب انہیں آلے) اُس وقت انہیں دنیا کی آسائشوں سے فائدہ اٹھانے کا بہت ہی تھوڑا موقع مل سکے۔ اگر اللہ ذوالجلال ان کے مواخذے کا ارادہ فرمالے تو کون ہے جو انہیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے روک سکے۔ نہ ہی ان منافقوں کے لیے اللہ عزوجل کے سوا کوئی مدد کرنے والا اور اس سے نجات دلانے والا ہے اور نہ ہی دیگر لوگوں کے لیے۔یہی وہ اہل نفاق ہیں کہ جن کے متعلق اللہ رب العالمین کا ارشاد گرامی ان کی ایک حالت بد کے بارے میں یوں ہے۔ فرمایا:
{قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْکُمْ وَالْقَآئِلِیْنَ لِاِخْوَانِہِمْ ہَلُمَّ اِلَیْنَا وَلَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاo اَشِحَّۃً عَلَیْکُمْ فَاِذَا جَآئَ الْخَوْفُ رَاَیْتَہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ تَدُوْرُ اَعْیُنُہُمْ کَالَّذِیْ یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَاِذَا ذَہَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْکُمْ بِاَلْسِنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَی الْخَیْرِ اُولٰٓئِکَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰہُ اَعْمَالَہُمْ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًاo} [الاحزاب:۱۸،۱۹]
''یقینا اللہ تم میں سے رکاوٹیں ڈالنے والوں کو جانتا ہے اور اپنے بھائیوں سے یہ کہنے والوں کو بھی کہ ہماری طرف آجائو اور وہ لڑائی میں نہیں آتے مگر بہت کم۔ تمھارے بارے میں سخت بخیل ہیں، پس جب خوف آپہنچے تو توانھیں دیکھے گا کہ تیری طرف ایسے دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی طرح گھومتی ہیں جس پر موت کی غشی طاری کی جا رہی ہو، پھر جب خوف جاتا رہے تو تمھیں تیز زبانوں کے ساتھ تکلیف دیں گے، اس حال میں کہ مال کے سخت حریص ہیں۔ یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیے اور یہ ہمیشہ سے اللہ پر بہت آسان ہے۔''
یہاں ان دونوں آیات میں اللہ تبارک و تعالیٰ جہاد و قتال فی سبیل اللہ سے منع کرنے والے منافقوں کے بارے میں اپنے علم کے احاطہ کا ذکر فرما رہے ہیں کہ وہ کس شد و مد کے ساتھ اہل ایمان و اسلام کو غزوات میں شریک ہونے سے روکتے ہیں اور وہ خود بھی جنگوں میں بہت ہی تھوڑا شریک ہوتے ہیں۔ اگر کبھی قتال و جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لے بھی لیں تو وہ ایمان والوں پر اموال غنیمت اور شفقت و محبت کے معاملے میں نہایت بخل سے کام لیتے ہیں۔ اور اگر خوف کا وقت آجائے تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی آنکھیں موت کے ڈر کی وجہ سے ادھر ادھر تیزی سے گھوم رہی ہوتی ہیں، بالکل اُس شخص کی طرح کہ جس پر شدت خوف اور جزع کی وجہ سے اس پر موت کی غشی طاری ہوتی ہے۔ اسی طرح قتال و جہاد فی سبیل اللہ میں ان بزدلوں کے خوف کی حالت ہوا کرتی ہے۔ جب امن ہوجائے تو ایسے لوگ بڑی فصیح و بلیغ قسم کی ڈینگیں مارنے والی گفتگو کیا کرتے ہیں۔ تب وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تو بڑے بہادر اور تیس مار خاں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ وہ صراحتاً جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔
یہی منافقین ہیں کہ جن کی عادات سے ''فتنہ و فساد کے تذکروں میں رات دن مصروف رہنا ہے۔'' اہل ایمان پر دہشت پھیلانے کے لیے ہر وقت اس طرح کی افواہیں پھیلاتے رہنا؛ دشمن چڑھ دوڑے، جنگیں شروع ہوگئیں وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ان کی یہ افواہیں سراسر جھوٹ اور افتراء ہوتا ہے۔
انہیں منافقوں کی عادات و اطوار میں سے: کند ذہنی اور دین حنیف کے بارے میں قلت فہم بھی ہے۔ اگر وہ کوئی قرآن و سنت پر مبنی علم کی کوئی بات سن لیتے ہیں تو اس میں سے کچھ بھی سمجھ نہیں پاتے۔ یہ ان کی طرف سے قرآن و سنت کی اہانت کے طور پر ہوتا ہے، سنتے تو ہیں مگر اسے سمجھنا نہیں چاہتے۔
یہی وہ اہل نفاق ہیں کہ ان کی ایک بڑی پہچان مرتد ہونا اور ایمان کو چھوڑ کر کفر کی طرف پلٹ جانا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جو شرک و کفر والوں کی پوری پوری فرمانبرداری کرتے ہیں۔ باطل پر ان کی نصیحتوں کو قبول کرتے ہیں۔ حالانکہ (ان کی شاطری ایک طرف) اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے متعلق خوب جانتا ہے جو وہ دین حنیف کی مخالفت کے لیے اپنے دلوں میں چھپائے پھرتے ہیں۔ وہ رب کریم ان کی دشمنی کے کھل کر سامنے آنے، جہاد فی سبیل اللہ سے پیچھے رہ جانے اور خفیہ طور پر دین اسلام کی توہین و اہانت کے متعلق بھی خوب جانتا ہے۔ اس اللہ العلام الغیوب پر نہ ہی تو منافقوں کے یہ اُمور مخفی ہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے۔ اللہ عزوجل اس ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:
{اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ اَنْ لَّنْ یُّخْرِجَ اللّٰہُ اَضْغَانَہُمْo} [محمد:۲۹]
''یا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں کوئی بیماری ہے، یہ خیال کر لیا ہے کہ اللہ ان کے کینے کبھی ظاہر نہیں کرے گا۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یعنی کیا یہ منافقین سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے سامنے ان کا بھانڈا کبھی نہیں پھوڑے گا۔ نہیں بلکہ اللہ رب العالمین ان کے معاملے کو واضح کرے گا حتیٰ کہ بصیرت والے لوگ ان کے معاملے کو خوب سمجھ جائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں سورۃ التوبہ نازل فرما دی کہ جس میں اللہ ذوالجلال نے ان کی فصیحتوں کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر اس سورت کا نام ''الفاضحہ'' بھی ہے۔ کینوں سے مراد وہ حسد اور بغض ہے جو یہ منافقین دین حنیف اسلام، اہل اسلام اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینوں میں رکھتے ہیں۔ اور ان کے مقاصد و اہداف کے بارے میں جو ان کی زبانوں سے ظاہر ہوتا ہے اسے مسلمان خوب جان رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں کہا جاتا ہے: کسی شخص نے کبھی کوئی ایسی بھید کی بات مخفی نہیں رکھی مگر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اُس آدمی کے چہرے کے خدوخال سے ظاہر کردیتا ہے اور زبان پھر راز کو اگل بھی دیتی ہے۔یہی وہ منافق لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ ذوالجلال اپنے حبیب و خلیل نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:
{اِِذَا جَائَکَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗط وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُوْنَo} [المنافقون:۱]
''جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ تو یقینا اللہ کا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ بلاشبہ تو یقینا اس کا رسول ہے اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلاشبہ یہ منافق یقینا جھوٹے ہیں۔''
اللہ تبارک و تعالیٰ منافقوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ ظاہر میں وہ اپنے مونہوں سے اسلام کا اظہار کرتے ہیں۔ جہاں تک اُن کے باطن کا تعلق ہے تو وہ قطعاً اس طرح کے نہیں بلکہ اس کے برعکس ہیں۔ اللہ عزوجل اس بات پر گواہ ہے کہ بلاشبہ یہ منافق لوگ جو کہہ رہے ہیں اس کے بارے میں قطعی طور پر جھوٹے ہیں۔ اس لیے کہ یہ لوگ جو کہہ رہے ہوتے ہیں اس کی سچائی و صحت کے متعلق بالکل اعتقاد نہیں رکھتے۔ اے اللہ کے حبیب نبی! جب تم ان منافقوں کو دیکھو گے تو ان کے جسم و جثے تمہیں بظاہر اچھے لگیں گے۔ جب کوئی بات کرتے ہیں تو تم اُن کی بات کو سنتے ہو۔ اس لیے کہ وہ اچھی شکلوں اور خوش البیانی اور فصاحت و بلاغت والے ہوتے ہیں۔ جب کوئی سننے والا ان کی بات کو سنتا ہے تو ان کی فصاحت لسانی کی وجہ سے ان کی گفتگو کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ جبکہ وہ درحقیقت ایمان کے اضعف ترین درجہ، ذہنی پستی، انتہائی درجہ کے حرص و لالچ اور گھبراہٹ و بے صبری کا شکار ہوتے ہیں۔ جب کبھی جنگ یا خوف کا معاملہ پیش آجائے وہ اپنی بزدلی کی وجہ سے اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ مصیبت اُن پر نازل ہونے والی ہے۔ اس وقت وہ بے معنی سے وجود اور جسم ہوتے ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں: یہ لوگ تمہارے دشمن ہیں ان سے محتاط رہو۔ اللہ ان کو تباہ و برباد کرے یہ لوگ صراطِ مستقیم سے پھر کر گمراہی کی طرف کیسے پلٹے جارہے ہیں؟
یہی وہ منافقین ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک فرمانِ گرامی یوں بھی ہے۔ فرمایا:
{فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّینَo الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَo الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَآئُ وْنَo وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَo } [الماعون:۴تا۷]
''پس ان نمازیوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے ۔ وہ جو اپنی نما زسے غافل ہیں ۔ وہ جو دکھاوا کرتے ہیں ۔ اور عام برتنے کی چیزیں روکتے ہیں ۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللہ تبارک و تعالیٰ ان منافقوں کے بارے میں خبر دے رہے ہیں کہ جو اعلانیہ طور پر نماز تو پڑھتے ہیں مگر خفیہ طور پر نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: یہ لوگ ہیں تو اہل نماز میں سے مگر وہ اپنی نماز کی پرواہ نہیں کرتے۔ کبھی نماز پڑھتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے۔ پڑھتے بھی ہیں تو نہایت بددلی سے جلدی جلدی۔ اس کے بعد فرمایا کہ: یہ لوگ نماز اللہ کے لیے نہیں پڑھتے بلکہ اس لیے پڑھتے ہیں کہ لوگ انہیں نمازی، پرہیزگار جانیں اور عزت و احترام کا مقام دیں۔ پھر ان کی ایک اور عادت بد یہ ہے کہ: یہ لوگ نہایت ہی بخیل اور بے مروّت ہوتے ہیں نہ اللہ کی عبادت ٹھیک طرح سے کرتے ہیں اور نہ ہی اللہ کی مخلوق سے وہ برتاؤ کرتے ہیں جو میل جول کا کم سے کم تقاضا ہے۔
ان منافقوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ: یہ لوگ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے سے ہمیشہ پیچھے رہتے ہیں۔سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
((وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا وَمَا یَتَخَلَّفُ عَنْھَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُوْمُ النِّفَاقِ، وَلَقَدْ کَانَ الرَّجُلُ یُؤتٰی بِہٖ یُھَادَیٰ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ حَتَّی یُقَامَ فِي الصَّفِّ))1
''اور ہم خود اپنے آپ کو ایسا دیکھتے تھے کہ جماعت سے صرف منافق آدمی ہی غیر حاضر ہوتا تھا۔ یعنی ایسا منافق کہ جس کا نفاق معلوم ہوتا تھا۔ جب کہ مسلمان آدمی دو شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر مسجد کی طرف لے جایا جاتا تھا حتیٰ کہ اُسے صف میں کھڑا کردیا جاتا۔''
یہی وہ منافق لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((لَیْسَ صَلَاۃٌ أَثْقَلَ عَلٰی الْمُنَافِقِیْنَ مِنَ الْفَجْرِ وَالْعِشَائِ وَلَوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِیْھِمَا لَأتَوْھُمَا وَلَوْ حَبوًا، وَلَقَدْ ھَمَمْتُ اَنْ اَمُرَ الْمُؤَذِّنَ فَیُقِیْمُ ، ثُمَّ آمُرُ رَجُلًا یَؤُمُّ النَّاسَ، ثُمَّ اٰخُذُ شُعْلًا مِنْ نَّارٍ فَأُحَرِّقَ عَلٰی مَنْ لَا یَخْرُجُ إِلَی الصَّلَاۃِ بَعْدُ))2
''منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں ہوتی۔ اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان کا ثواب کتنا زیادہ (اور وہ چل نہ سکتے ہوں) تو وہ گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آتے۔ میرا تو ارادہ ہوگیا تھا کہ مؤذن سے کہوں، وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور میں خود آگ کے شعلے لے کر نکلوں اور ان سب کے گھروں کو جلادوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلے۔''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب المساجد، باب: فضل صلاۃ الجماعۃ من سنن الھدی ۱۴۸۸۔
2- أخرجہ البخاري في کتاب الأذان، باب: فضل العشاء في الجماعۃ۔ ۶۵۷۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یہی وہ منافقین ہیں کہ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((مَنْ تَرَکَ ثَـلَاثَ جُمُعَاتٍ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ، کُتِبَ مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ))1
''جس شخص نے بغیر کسی شرعی عذر کے تین جمعے نہ پڑھے (اور انہیں بغیر پڑھے چھوڑ دیا) اسے منافقوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔''
یہ منافقین ہی تو ہیں کہ جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
((أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا۔ وَمَنْ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنْھُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خُلّۃ مِنْ نِّفَاقٍ حَتَّی یَدَعَھَا: إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ۔ وَإِذَا عَاھَدَ غَدَرَ۔ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ۔ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ، وَقاَلَ صلی اللہ علیہ وسلم : ''آیَۃَ الْمُنَافِقِ ثَـلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ : وَإِنْ صَامَ وَصَلَّی وَزَعَمَ أَ نَّہُ مُسْلِمٌ۔))2
''چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس آدمی میں یہ سب کی سب پائی جائیں گی وہ خالص، پکا منافق ہوگا اور جس آدمی میں ان میں سے ایک عادتِ بد پائی جائے گی اس میں جانیے کہ نفاق کی ایک خصلت پائی گئی حتیٰ کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ (اور وہ عادات یہ ہیں:) (۱)... جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (۲)... جب عہد باندھے تو اس سے غداری کرے۔ (۳)... جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔ اور (۴)... جب کسی سے جھگڑے تو گالی گلوچ اور بدمعاشی سے کام لے۔''
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ (۱)... جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (۲)... جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔ اور (۳)... جب اُس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔'' ایک تیسری حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے: منافق کی تین علامتیں ہیں: (اور وہ اوپر بیان ہوچکیں۔ یہ علامتیں اُس کی رہیں گی ہی) اگرچہ وہ روزے بھی رکھے، نمازیں بھی پڑھے اور گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے۔''
یہ تمام خصلتیں نفاق کی نشانیاں ہیں ۔ ان خصلتوں والا آدمی منافقین سے مشابہت رکھنے والا ہوتا ہے اور انہیں جیسے اخلاق کو اپنانے والا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جو فرمان ہے: کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا۔ مذکورہ بالا چار خصائل و عادات والا آدمی خالص منافق ہوتا ہے؛ تو اس کا معنی ہے کہ: ان عادات و خصائل کی وجہ سے ایسا شخص منافقوں کے ساتھ شدید ترین مشابہت والا ہوتا ہے۔ ان منافقوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یوں ہے:
{اِنَّ الْمُتٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَلَہُمْ نَصِیْرًاo} [النساء:۱۴۵]
''بے شک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مدد گار نہ پائے گا۔ ''
اور ایسے لوگوں کو یہ سزا در پردہ ان کے کفر پر سختی کے ساتھ کاربند رہنے کی وجہ سے ہوگی۔ قیامت والے دن انہیں ایسا کوئی مددگار بھی نہ مل سکے گا جو انہیں جہنم کے دردناک عذاب سے نجات دلاسکے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۶۱۴۴۔
2- أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب: بیان خصال المنافق۔ ۲۱۱۔ أخرجہ البخاري في کتاب الإیمان، باب: علامۃ المنافق۔ ۳۳۔ أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب: بیان خصال المنافق۔ ۲۱۳۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top