• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مُحرّم اور عاشوراء صحیح احادیث کی روشنی میں!

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مُحرّم اور عاشوراء صحیح احادیث کی روشنی میں!

ڈاکٹر سہیل حسن​
محرم کی فضیلت
اللہ تعالی قرآنِ کریم میں فرماتے ہیں
’’ إنَّ عِدَّةَ الشَّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ کِتَابِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ مِنْهَا أرْبَعَةُ حُرُم ذٰلِکَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ فَلاَ تَظْلِمُوا فِيْهِنَّ أنْفُسَکُمْ ‘‘ (التوبہ:۳۶)
”بے شک شریعت میں مہینوں کی تعداد ابتداءِ آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں بارہ ہے۔ان میں چارحرمت( اَدب )کے مہینے ہیں۔ یہی مستقل ضابطہ ہے تو ان مہینوں میں(قتالِ ناحق) سے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو“
تفسیر جامع البیان، ص ۱۶۷ میں ہے :
فان الظلم فيها أعظم وزرا فيما سواه والطاعة أعظم أجرا
یعنی” ان مہینوں میں ظلم و زیادتی بہت بڑا گناہ ہے او ران میں عبادت کا بہت اجر وثواب ہے“
تفسیر خازن، جلد۳ ص ۷۳ میں ہے کہ ان مہینوں کا نام حرمت والے مہینے اس لئے پڑ گیا کہ عرب دورِ جاہلیت میں ان کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور ان میں لڑائی جھگڑے کو حرام سمجھتے تھے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اپنے بیٹے یا بھائی کے قاتل کو بھی پاتا تواس پر حملہ نہ کرتا۔ اسلام نے ان کے عزت و احترام کو مزید بڑھایا۔ نیز ان مہینوں میں نیک اَعمال اور اللہ کی اطاعت ثواب کے اعتبار سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح ان میں برائیوں کا گناہ دوسرے دنوں کو برائیوں سے سخت ہے۔ لہٰذا ان مہینوں کی حرمت توڑنا جائز نہیں ۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ
”رسول اللہ ﷺنے ایامِ تشریق میں مقامِ منیٰ میں حجة الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : لوگو! زمانہ گھوم پھر کر آج پھر اسی نقطہ پر آگیا ہے جیسا کہ اس دن تھا جب کہ اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق فرمائی تھی۔ سن لو، سال میں بارہ مہینے ہیں جن میں چارحرمت والے ہیں، وہ ہیں : ذوالقعدہ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب ۔“
حضرت قتادہ نے فرمایا:
”ان مہینوں میں عمل صالح بہت ثواب رکھتا ہے اور ان مہینوں میں ظلم وزیادتی بہت بڑا گناہ ہے ۔“
صحیح بخاری کتاب التفسیر میں حضرت ابوبکر  سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :
” بے شک زمانہ گھوم کر پھر اسی نقطہ پر آگیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کئے تھے۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں جس میں تین لگاتار ہیں: ذی قعد، ذی الحجہ اور محرم ، چوتھا رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہوتا ہے“۔
ان حرمت والے مہینوں میں کسی قسم کی برائی اور فسق و فجور سے کلی طور پراجتناب کرنا اور ان کے احترام کوملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔یوں تو چاروں مہینے برکت و فضیلت سے بھر پور ہیں، لیکن ہم یہاں صرف ماہِ محرم کا تذکرہ کریں گے۔ ماہ محرم وہ مہینہ ہے جس میں دس تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے روزے کا دن قرار دیا اور اسے سال بھر کے لئے کفارہ گناہ ٹھہرایا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
محرم کے روزے
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
”رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں ، جواللہ کا مہینہ ہے اورفرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔“ (صحیح مسلم: کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرم / مشکوٰة ص:۱۷۸)
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے اور جو محرم کے روزے رکھے۔ اسے ہر روزہ کے عوض تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔“
اس روایت کو امام طبرانی  نے کتاب الصغیر میں ذکر کیا ہے۔ یہ روایت غریب ہے، اس کی سند اگرچہ اعلیٰ پائے کی نہیں پھربھی قابل قبول ہے۔ (الترغیب والترہیب: ص۳۳۷)
ایک آدمی نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ
رمضان کے بعد میں کس ماہ میں روزے رکھوں۔ آپ نے فرمایا: محرم کے روزے رکھ کیونکہ وہ اللہ کامہینہ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور ایک اور قوم کی توبہ قبول کرے گا۔ (الترغیب والترہیب:ص ۲۳۶)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عاشوراء محرم کا روزہ
ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کے متعلق اگرچہ عمومی طور پر صحیح احادیث وارد ہیں لیکن خصوصی طور پر ’یومِ عاشوراء‘ یعنی دس محرم کے روزے کے متعلق کثرت سے اَحادیث آئی ہیں جن سے اس دن کے روزہ کی فضیلت واضح ہوتی ہے ۔ اس سلسلہ میں وارد احادیث ملاحظہ فرمائیں :
ابوقتادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عاشوراء کے روزہ کی فضلیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ”اس سے ایک سالِ گذشتہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔“ (مسلم : ج۱ ،ص ۳۶۸)
حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ
”آپ چار چیزیں نہ چھوڑا کرتے تھے، ان میں سے ایک عاشوراء کا روزہ ہے۔“ (سنن النسائی)
ابن عباس فرماتے ہیں کہ
”میں نے نبی اکرم ﷺ کو کسی دن کے روزے کا دوسرے عام دنوں کے روزوں پر افضل جاننے کا ارادہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح یوم عاشوراء اور ماہِ رمضان کا اہتمام کرتے ہوئے دیکھا ہے“۔ (بخاری ، مسلم)
حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ
”رسول اللہ ﷺ عاشوراء کے روزے کا حکم فرماتے تھے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور اس کا خیال رکھتے تھے اور تاکید فرماتے تھے لیکن جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو آپ ﷺ نے اس کا حکم فرمایا اور نہ ہی اس سے منع کیا اور نہ آپ ﷺ نے ہمارے لئے اس کا خیال رکھا“۔(صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل یومِ عاشورہ، مشکوٰة : ۱۸۰)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا لیکن فرضیت ِرمضان کے بعد اس کی فرضیت ختم ہو گئی، اب عاشوراء کا روزہ رکھنا مستحب ہے ۔
بخاری مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ عاشوراء کے روز رسولﷺ نے صحابہ کرام اجمعین  کو فرمایا کہ
”آج کا روزہ رکھنا کسی کے لئے ضروری نہیں، میں آج روزے سے ہوں۔ جو شخص چاہتا ہے روزہ رکھے اور اگر روزہ نہ رکھا جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں “۔
ابن عمر  بیان کرتے ہیں کہ
”اہل جاہلیت اس دن روزہ رکھتے تھے۔ فرضیت ِرمضان سے قبل مسلمان بھی روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کا روزہ رکھا ۔“
پھر فرمایا کہ
”ایام اللہ میں سے یہ بھی ایک عام دن ہے، جو کوئی اس دن روزہ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے“(رواہ مسلم عن ابی قتادہ)
اُمّ المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیا جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ ﷺنے فرمایا :
”اب جو شخص چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے“۔(صحیح بخاری)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عاشوراء کے ساتھ ۹ یا ۱۱/ محرم کا روزہ
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ”نبی اکرم ﷺ نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کاارادہ ظاہر فرمایا تھا“۔چنانچہ صحیح مسلم کی روایت ہے ، ابن عباس اس حدیث کے راوی ہیں کہ
” جب رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو رکھنے کا حکم دیا تو لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! یہ تو ایسا دن ہے جس کی یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم کرتے ہیں تو آپ ﷺنے یہ سن کر فرمایا کہ آئندہ سال ان شاء اللہ ہم دس محرم کے ساتھ نو محرم کا بھی روزہ رکھیں گے۔اگلا سال آنے سے قبل آپ ﷺ وفات پاگئے“۔ (صحیح مسلم/ مشکوٰة: ص ۱۷۹)
ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ
” یہود دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔ تم ان کی مخالفت کرو اور اس کے ساتھ نو تاریخ کا روزہ بھی رکھو“۔
ابن ہمام نے فرمایا کہ
”مستحب امر یہ ہے کہ دس تاریخ سے ایک دن پہلے روزہ رکھا جائے پس اگر صرف ایک روزہ رکھا تو مکروہ ہے۔ “
اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ
”رسول اللہ ﷺ عاشوراء کے روزے کا حکم فرماتے ہیں مگر جب رمضان فرض ہوگیا تو فرماتے تھے جو شخص چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے“۔(صحیح بخاری)
اور مسنداحمد کی ایک روایت میں ۱۱/ محرم کا ذکر بھی ملتا ہے یعنی ۹ محرم یا ۱۱/ محرم۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عاشوراء کا روزہ اور یہود
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قومِ یہود کو عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ جناب رسالت ِمآبﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کون سا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑاعظیم دن ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کوغرق کیا تھا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام اس دن شکر کا روزہ رکھا پس ہم بھی ان کی اتباع میں اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم تمہاری نسبت حضرت موسیٰ کے زیادہ قریب اورحقدارہیں۔ سو رسول اللہ ﷺ نے خود روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا“۔ (مشکوٰة المصابیح، ص:۱۸۰، صحیح بخاری باب صوم یومِ عاشورہ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یوم عاشوراء اور عرب
عاشوراء کے دن کی فضیلت عرب کے ہاں معروف تھی، اس لئے وہ بڑے بڑے اہم کام اسی دن سرانجام دیتے تھے مثلاً روزہ کے علاوہ اسی روز خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ بھی مکی دور میں یومِ عاشوراء کے روزوں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ
”قریش کے لوگ جاہلیت کے زمانہ میں روزہ رکھا کرتے تھے پھر جب آپ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا لیکن جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو آپ نے عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا اور فرمایا جس کا جی چاہے، اس دن روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔“ (صحیح بخاری)
ماہِ محرم میں روزے کے سوا اور کوئی عمل ثابت نہیں۔ اس کے علاوہ جو اعمال و رسوم کئے جاتے ہیں شریعت سے ان کا دور سے بھی تعلق نہیں۔ خیبر کے لوگ اس دن اچھے لباس کا اہتمام کرتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس سے منع فرما دیا تھا چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعریسے روایت ہے کہ
”اہل خیبر یوم عاشوراء کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔ اسی دن لوگ روزے رکھتے تھے اور اس دن کو عید کا دن قرار دیتے تھے اور اس دن اپنی عورتوں کو اچھے اچھے لباس اور زیورات پہناتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا: تم اس دن صرف روزہ رکھو“۔ (صحیح مسلم)
حاصل یہ ہے کہ اللہ ارحم الراحمین اور نبی رحمت للعالمین نے امت ِمسلمہ کوماہِ محرم خصوصاً یومِ عاشوراء کی فیوض و برکات سے مطلع کردیا ہے تاکہ ہم شریعت کی ہدایا ت کے مطابق عمل کرکے سعادتِ دارین حاصل کرسکیں مگر بعض بے علم لوگوں نے ان ثابت شدہ ہدایات پر قناعت نہیں کی بلکہ یومِ عاشوراء کے فضائل میں بے شمار موضوع و مہمل حدیثوں کو گھڑ لیا اور اس کے ذریعے خاص و عام سبھی کو گمراہ کیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ماہ ِ محرم کی بدعات
ہم نے ماہِ محرم سے بہت سے غلط رواج وابستہ کرلئے ہیں، اسے دکھ اور مصیبت کامہینہ قرار دے لیا ہے جس کے اظہار کے لئے سیاہ لباس پہنا جاتا ہے۔ رونا پیٹنا، تعزیہ کا جلوس نکالنا اور مجالس عزا وغیرہ منعقد کرنا یہ سب کچھ کارِ ثواب سمجھ کر او رحضرت حسین  سے محبت کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سب چیزیں نبی ا کے فرمودات کے صریح خلاف ہیں۔ شیعہ حضرات کی دیکھا دیکھی خود کو سنی کہلانے والے بھی بہت سی بدعات میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ مثلاً اس ماہ میں شادی بیاہ کو بے برکتی اور مصائب و آلام کے دور کی ابتدا کا باعث سمجھ کر اس سے احتراز کیا جاتا ہے اور لوگ اعمالِ مسنونہ کو چھوڑ کر بہت سی من گھڑت اور موضوع احادیث پر عمل کرتے ہیں مثلاً بعض لوگ خصوصیت سے عاشوراء کے روز بعض مساجد و مقابر کی زیارتیں کرتے اور خوب صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور اس دن اہل و عیال پر فراخی کرنے کو سارے سال کے لئے موجب ِبرکت سمجھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کیا ماہِ محرم صرف غم کی یادگار ہے؟
شہادت ِحسین اگرچہ اسلامی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے لیکن یہ صرف ایک واقعہ نہیں جس کی یاد محرم سے وابستہ ہے بلکہ
محرم میں کئی دیگر تاریخی واقعات بھی رونماہوئے ہیں جن میں سے اگرچہ چند ایک افسوسناک ہیں تو کئی واقعات ایسے بھی ہیں جن پر خوش ہونا اور خدا کا شکر بجا لانا چاہئے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت موسی ﷤ کی اقتدا میں عاشورے کے دن شکر کا روزہ رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن موسیٰ ﷤ کو فرعون سے نجات دی تھی۔
نیز اگر اتفاق سے شہادت ِ حسین کا المیہ بھی اسی ماہ میں واقع ہوگیا تو بعض دیگر جلیل القدر صحابہ  کی شہادت بھی تو اسی ماہ میں ہوئی ہے۔ مثلا سطوت ِاسلام کے عظیم علمبردار خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب  اسی ماہ کی یکم تاریخ کو حالت ِنماز میں ابولولو فیروزنامی ایک مجوسی غلام کے ہاتھوں شہید ہوئے، اس لئے شہادتِ حسین کا دن منانے والوں کو ان کا بھی دن منانا چاہئے…
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام اسی طرح دن منانے کی اجازت دے دے تو سال کا کوئی ہی ایسا دن باقی رہ جائے جس میں کوئی تاریخی واقعہ یا حادثہ رونما نہ ہوا ہو اور اس طرح مسلمان سارا سال انہی تقریبات اور سوگوار ایام منانے اور ان کے انتظام میں لگے رہیں گے۔
ہمارے نبیﷺ، اہل بیت ، صحابہ  اور سلف صالحین پر ایسی ایسی مشکل گھڑیاں آئیں کہ ان کے سننے سے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ کیا شہادتِ حمزہ  ، شہادتِ عمر،  شہادتِ عثمان ذوالنورین ، شہادتِ علی اور شہادت عبداللہ بن زبیرکے لرزہ خیز واقعات سننے کی تاب کسی کو ہے؟ تو بتائیے کس کس کا دن منایا جائے ؟؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اچھے یا بُرے دن منانے کی شرعی حیثیت
اسلام نے واقعاتِ خیرو شر کو ایام کا معیارِ فضیلت قرار نہیں دیا بلکہ کسی مصیبت کی بنا پر زمانہ کی برائی کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایاہے اور قرآن مجید میں کفار کے اس قول کی مذمت بیان کی ہے:
’’ وَمَا يُهْلِکُنَا إلاَّ الدَّهْرُ ‘‘ (الجاثیہ:۲۴) یعنی ” ہمیں زمانہ کے خیروشر سے ہلاکت پہنچتی ہے“
اور حدیث میں ہے:
”زمانہ کو گالی نہ دو کیونکہ بُرا بھلا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے“ (بخاری و مسلم)
یعنی خیروشر کی وجہ لیل و نہار نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کار سازِ زمانہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اچھے یا بُرے دن منانے کی کوئی اصل ہی تسلیم نہیں کی جیسا کہ آج کل محرم کے علاوہ بڑے بڑے لوگوں کے دن یا سالگرہ وغیرہ منائی جاتی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نوحہ اور ماتم …بزرگانِ ملت کی تعلیم کے خلاف اور ان کے مشن کی توہین ہے!
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پاکباز ہستیاں کس طرح صبر و استقلال کا پہاڑ ثابت ہوئیں۔ ان کے خلفا اور ورثا بھی ان کے نقش قدم پر چلے۔ نہ کسی نے آہ و فغاں کیا، نہ کسی نے ان کی برسی منائی، نہ چہلم۔ نہ روئے نہ پیٹے، نہ کپڑے پھاڑے، نہ ماتم کیا اور نہ تعزیہ کا جلوس نکال کر گلی کوچوں کا دورہ کیا بلکہ یہ خرافات سات آٹھ سو سال سال بعد تیمور لنگ بادشاہ کے دور میں شروع ہوئیں لیکن یہ سب حرکتیں اور رسوم و رواج نہ صرف روحِ اسلام اور ان پاکباز ہستیوں کی تلقین و ارشاد کے خلاف ہیں بلکہ ان بزرگوں کی توہین اور غیر مسلموں کے لئے استہزا ء کا سامان ہیں۔ اسلام تو ہمیں صبر و استقامت کی تعلیم دیتا ہے اور
’’ بَشِّرِ الصَّابِرِيْنَ ‘‘ (صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو)
کا مژدہ سناتا ہے :
’’ ألَّذِيْنَ إذَا أصَابَتْهُمْ مُصِيْبَةٌ قَالُوا إنَّا لِلّٰهِ وَإنَّا إلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ‘‘ ”وہ لوگ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں“
 
Top