• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکالمہ: کیا احادیث حجت ہیں؟

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
ہم شکرادا کرتے ہیں پیارے رب کا جس نے اس دین کو اتنا آسان بنایا
مسلم صاحب نے بات صاف کردی کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی کسی بھی بات کو حجت نہیں مانتے ۔جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیراسلام کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔
حدیث اگر حجت ہے تو پھر اس کا منزل من اللہ ہونا ضروری ہے
اس چیز کا اتباع کروجو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس کے علاوہ کسی ولی کی اتباع مت کرو(اعراف3)
اب اگر یہ ثابت ہو جا ئے کہ حدیث حجت ہے اور اس کے بغیر قرآن پر عمل کرنا ناممکن ہے تو پھر یقینا حدیث وحی ہے کیونکہ آیات بالا کی رو سے صرف وحی کا اتباع لازم ہے اور غیر وحی کا اتباع حرام ہے
حدیث کے حجت ہونے کے دلائل

میں اللہ کا رسول ہوں مجھے اللہ نے بندوں کی طرف مبعوث کرسول َ مبعوث ہوئے اور قوم کو خطاب کیا(اے قوم) یا ہے کہ میں انہیں اس بات کی دعوت دوں کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ زرا بھی شرک نہ کرواور مجھ پر اللہ نے ایک کتاب نازل کی ہے (مسند احمدوسندہ صحٰح بلوغ المانی )
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالاالفاظ حجت ہیں تو پھر ماننا پڑے گا آپ َ اللہ کے رسول ہیں اور قرآن اللہ کی کتاب ہے اگر یہ الفاظ حجت نہیں توپھر لازم آے گا کہ نہ آپ َاللہ کے رسول َہیں اور نہ قرآن اللہ کی کتاب ہےِ"
" آپَ کی رسالت اور قرآن پر ایمان لانے کہ لئے یہ ضروری ہےکے یہ الفاظ حجت ہوں" جب تک یے الفاظ حجت نہ ہوں قرآن بھی حجت نہ ہو گا "اور یہ الفاظ حدیث کے ہیں لہزا حدیث کا حجت ہونا لازمی ہے:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اپنی تشریح آپ ہی بیان کرتا ہےلہزاہمیں کسی اور چیز کی ضررت نہیں لیکن یہ صرف دعوی ہی دعوی ہے حقیقت اس کے خلاف ہے جیسے اللہ قرآن میں فرماتا ہے""اقیمو الصلوۃ"" یعنی صلوہ قائم کرو ؟مگر کیسے؟صلوہ کیسے کہتے ہیں؟اس کی تشریح نہیں قرآن میں جب اس کی تشریح قرآن میں تلاش کرتے ہیں توعجیب حیرانی ہوتی ہے ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے""اولیک علیہم صلوات من ربھم و رحمہ"صابرین پر اللہ کی طرف سے صلوۃ ہوتی ہے اور رحمت"دوسری جگہ ارشاد ہے" وصل علیھم ان صلو تک سکن لھم" ان پر صلوۃ بیھجیے بے شک آپ کی صلوۃ ان کے لئے باعث سکون ہے"ایک آیات میں اللہ کی طرف سے صلوۃ نازل ہو رہی ہے دوسری میں بندے کو حکم ہو رہا ہے کہ صلوۃ نازل کرو "اب کوئی کیا سمجھے ایک جگہ ارشاد ہو رہا ہے " اقیم الدین" دین قائم کرو" ہو سکتا ہے صلوۃ کے معنے دین کے ہوں اور اس آیات میں صلوۃ کی تشریح دین کی گئی ہو؟پھر ارشاد ہوتا ہے "واقیمواالوزن"وزن کو قائم کرو"اس سےصلوۃ کے معنی وزن کے بھی ہو سکتے ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے"اقیمو الصلوۃ طرفی النھاروزلفامن الیل" یعنی دن کے دونو اطرف اور کچھ رات کے وقت بھی صلوۃ قائم کرو"اس سے معلوم ہوا کہ صلوۃ ایسی چیزہے جو مسلسل قائم نہ رکھی جائے بلکہ دن اور رات کے بعض اقات میں ہی قائم کی جائے"" صلوۃ کے معنی کولہے ہلانے کے بھی ہو سکتے ہیں اس لحاظ سے اگر کوئی اقیمو الصلوۃ کے معنی یہ کرے کہ"نا چ گانے کی محفل قائم کرو" اور ثبوت میں یہ آیات پیش کرے"انما الحیوۃ الدنیا لعب ولھو"دنیا کی زندگی بس لہوو لعب ہی تو ہے" اور پھر اس سے استدلال کرے کہ جب دنیا کی زندگی لہو و لعب ہی ہے تودنیا میں رقص سرور کی محفل قائم کرنا ہی اقیموالصلوۃ " کا اصل منشا ہے تو بتا ئے اس کی تردید کیسے ہو گی

جاری ہے
اللہ تعالی فرماتا ہے" واتواالزکوۃ" زکوۃ دو"اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے"اے یحیی کتاب کو قوت سے پکڑ لواور ہم نے یحیی کو بچپن میں ہی حکم دے دیا تھا اور اپنی طرف سے مہر بانی دی تھی اور زکوۃ دی تھی اور وہ متقی تھے(مریم 12 13 )اس دوسری آیا ت میں زکوۃ کےمعنی پاکیزگی کے ہیں تو پہلی آیات کے معنی ہوئے"پاکیزگی دو" اور یہ معنی سراسرباطل ہیں ـ اور اگر پہلی آیات میں زکوۃ سے مراد ٹیکس ہے تو دوسری آیات کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ یحیی علیہ اسلام کو ٹیکس دیتا تھا (اللہ معاف فرمائے) اور یہ بلکل مضحکہ خیز ہے ـ ان دونوں مثالوں سے یہ واضح ہوا کہ قرآن مجید اکثر مقامات میں تشر یح اصلاحی کا محتاج ہے یعنی ایک استاد کی ضرورت ہے جو اسے پڑھائے اور اس کے مشکل مقامات کو حل کرے اور وہ استاد سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کون ہو سکتا ہے کیونکہ یہ منصب رسول َ کو خود اللہ نے دیا ہے" وہ اللہ ہی ہے جس نے امیوں میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب حکمت کی تعلم دیتا ہے( الجمعہ 2)اب اگرپڑہانے میں تشریح شامل نہیں ہے تو پھر رسول َکا تلاوت کر دینا کافی تھا لیکن محض تلاوت پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکے تلاوت کا منصب بتانے کے بعد تعلیم کا منصب بھی بتایا گیا کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے معلم بنا کر بیجھے گئے ہیں لہزا آپ کی تشریح بھی من جانب اللہ ہونی چاہئے اور یہی وہ چیز ہے جس کو وحی خفی کہا جاتا ہے اب اس کے حجت ہونے میں کیا شبہ رہ گیا ہے


اسلام علیکم۔
آپ کی تحریر سے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ قرآن میں تدبر نہیں کررہے۔ ورنہ اتنی لمبی اور بے ربط باتیں نہ لکھتے۔
1۔ آپ نے دین کی بات کی ہے۔
"بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے"۔۔۔۔۔۔(3:19)
اللہ کب سے ہے؟؟ کیا چودہ سو سال سے اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے؟؟ اس سے پہلے اللہ کے نزدیک دین، اسلام کے علاوہ کیا کچھ اور تھا؟؟
یہ بہت ضروری سوالات ہیں۔ ان کے جوابات تلاش کریں۔
2۔ " اتباع کرو اس کی جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ کسی اولیاء کی اتباع مت کرو ۔ تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔(7:3)
بھائی جان یہ دیکھیں کہ اللہ کیا نازل کررہا ہے۔
"اور ہم قرآن میں سے وہ شے نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے۔ اور ظالموں کے لئے تو وہ نقصان میں ہی اضافہ کرتی ہے۔ (17:82)
3۔ "جو بھلا ئی تجھے پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو بھی برائی تجھے پہنچتی ہے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور ہم نے تجھے تمام انسانوں کے لئے ایک رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اور (اس پر) اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ (4:79)
"وہی (اللہ) تو ہے جس نے تجھ پر کتاب نازل کی"۔۔۔۔۔۔۔(3:7)
" اور محمدٖ ایک رسول ہی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی رسول ہو چکے ہیں"۔۔۔۔۔۔(3:144)
اوپر لکھی ہوئی آیات سے ثابت ہو رہا ہے کہ محمد ٖصلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے رسول ہیں اور اللہ نے آپ پر کتاب نازل کی ہے۔ (اللہ کی کتاب سے باہر ثبوت ڈھونڈنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔)
4۔ صلاۃ قائم کرنا۔
"(ابراہیم علیہ سلام نے کہا) اے ہمارے رب بے شک میں نے اپنی زریت سے تیرے محترم گھر کے پاس ٹھہرایا، ایسی وادی کے ساتھ جو غیر زرعئی ہے۔ اے ہمارے رب تاکہ یہ صلاہ قائم کریں۔ پس لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف خواہش کر نے والا بنا دے اور ان کو پھلوں سے رزق دے تاکہ وہ شکر کریں۔(14:37)
حدیث کی کتب کی تدوین سے بہت پہلے سے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی اللہ کے گھر کے نزدیک ابراہیم علیہ سلام نے صلاہ قائم کی ۔ اسی طریقہ پر صلاہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی جو آج بھی اور قیامت تک مسجدلا حرام میں قائم رہے گی۔ انشاء اللہ۔
5۔ زکوۃ۔
"اور وہ (اسماعیل علیہ سلام) اپنے اہل کو برابر صلاۃ اور زکوۃ کا حکم دیتا تھا"۔۔۔۔۔(19:55)
آپ اگر زکوۃ کا مطلب "کو لہے ہلانا لیتے ہیں تو آپ اپنے کو لہے ہلاتے رہیں، آیت میں جو نبی کا پیغام آرہا ہے اس کا مطلب کولہے ہلانا ہرگز نہیں ہے۔
زکوۃ کا ایک مطلب ہے "جواز" اپنے ہر عمل کا جواز پیش کرنا۔
6۔ قرآن کے زریعہ نبی کا خبردار کرنا۔
کہہ دے کون سی چیز سب سے بڑی شہادت ہے، کہہ دے میرے اور تمہارے درمیان اللہ شاہد ہے کہ یہ قرآن مجھ پر وحی کیا گیا ہے۔ تاکہ میں تمہیں اور ان کو جن تک وہ پہنچے اس سے متنبہ کر دوں۔ کیا تم واقعئی یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، کہہ دے میں (یہ) گواہی نہیں دیتا۔ کہہ دے اس میں شک نہیں کہ وہی معبود واحد ہے، اور میں اس شرک سے بری ہوں جو تم کرتے ہو۔ (الانعام ۔19)
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
ہبیل صاحب آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ محمدٖ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول پر میرا پورا ایمان ہے۔
پس مجھے ان چیزوں کی قسم ہے جنہیں تم دیکھتے ہو۔
اور ان کی بھی جنہیں تم نہیں دیکھتے۔
کہ بے شک یہ (قرآن) قول رسول کریمﷺ ہے۔
اور یہ کسی شاعر کے قول کے ساتھ نہیں۔ تم بہت ہی کم ایمان لاتے ہو۔
اور نہ ہی یہ کسی کاہن کے قول کے ساتھ ہے۔ تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
یہ تو جہانوں کے رب کی جانب سے نازل کردہ ہے۔ (الحاقہ 38،39،40،41،42،43)
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225


اسلام علیکم۔
آپ کی تحریر سے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ قرآن میں تدبر نہیں کررہے۔ ورنہ اتنی لمبی اور بے ربط باتیں نہ لکھتے۔

مسلم صاحب ہم نے صرف ایک حدیث کے سوا با قی سب تو قرآن سے ہی پوچھا ہے نہ تو آپ اس بات پر ناراض کیوں ہو رہے ہیں چلو حدیث کو تو آپ مانتے نہیں قرآن میں سے جو ہم نے سوال اٹھا ئے ہیں ان پر تو بات کرو ان کے تو جواب دو ابھی تو بہت لمبی ہے یہ لسٹ ہم بھی تو دیکھیں نبی کے سوا اور کون ان کی تشر یح بیان کر سکتا ہے

ت

F
آپ اگر زکوۃ کا مطلب "کو لہے ہلانا لیتے ہیں تو آپ اپنے کو لہے ہلاتے رہیں، آیت میں جو نبی کا پیغام آرہا ہے اس کا مطلب کولہے ہلانا ہرگز نہیں ہے۔
مسلم صاحب مجھے لگ رہا ہے شا ئد آپ نیند میں ہیں جو آپ کو سمجھ نہیں آیا کہ ہم نے کیا کہا ہم آپ دیکھ لیں دوبا رہ جو ہم نے پوسٹ کیا ہما رے الفاظ یہ ہیں
"" صلوۃ کے معنی کولہے ہلانے کے بھی ہو سکتے ہیں اس لحاظ سے اگر کوئی اقیمو الصلوۃ کے معنی یہ کرے کہ"نا چ گانے کی محفل قائم کرو" اور ثبوت میں یہ آیات پیش کرے"انما الحیوۃ الدنیا لعب ولھو"دنیا کی زندگی بس لہوو لعب ہی تو ہے" اور پھر اس سے استدلال کرے کہ جب دنیا کی زندگی لہو و لعب ہی ہے تودنیا میں رقص سرور کی محفل قائم کرنا ہی اقیموالصلوۃ " کا اصل منشا ہے تو بتا ئے اس کی تردید کیسے ہو گی

آپ نے ہما ری کسی بات کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا وجہ صاف ہے کہ آپ کہ پا س ان سوالوں کے جواب نہیں اگر ہم نے غلط کہا تو ہم جواب چاہتے ہیں کیونکہ ہم بھی طالب علم ہیں اور حق کو جاننا چاہتے ہیں اگر آپ کے پاس حق ہے تو جو ہم نے کہا اور جو ہم صابت کرنے جارہے ہیں آپ ان کا ایک ایک کر کے جواب دیں
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
ہبیل صاحب آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ محمدٖ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول پر میرا پورا ایمان ہے۔

[/COLOR][/COLOR]
آپ نے خود ہی تو کہا کے

میں اللہ کے رسول صرف کو اللہ کی کتاب سے پہچانتا ہوں اور میرے لئے یہ کافی ہے

ہم نے بھی تو اسی طرح کہا نہ کہ آپ نے مان لیا کے آپ حدیت کو نہیں مانتے اور نہ آپ اس کو قول رسول ٖ مانتے ہیں تو بات تو ایک ہی ہو ئی نہ کیونکہ آپ حدیث حجت ہی نہیں بلکے سرے سے ہی اس کا انکار کرتے ہیں ایسا ہی ہے نہ؟
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
قرآن کی بہت سی آیات بلکل ناقابل عمل ہیں جب تک ان کی وہ تشریح تسلیم نہ کی جا ئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے مثال کے طور پر اللہ تعالی فرماتا ہے"حج کے چند مہینے معلوم ہیں"(البقراـ197)یہ مہینے کون سے ہیں؟قرآن اس سلسلے میں خاموش ہےان مہینوں کے ناموں کاتزکرہ تو احادیث ہی میں ملتا ہے غرض یہ کہ بغیر حدیث کہ یہ آیات ناقابل عمل ہےـ اللہ فرماتا ہے
"اللہ کے نزدیک آسمان و زمیں کی پدائش کے دن سے مہینوں کی تعداد بارہ ہےان میں سے چار مہینےحرمت والے ہیں یہ ہے دین قیم"آیات مذکورہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دین بارہ مہینوں اور چار محترم مہینوں پر مشتمل ہےلیکن قرآن ان چار محترم مہینوں کے بارے خاموش ہے بتائے کن مہینوں کو حرمت والہ سمجھا جائے؟اگر یہ کہا جائے کہ رواج کے مطابق مان لیا جائے تو یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ کفار تو ان مہینوں کو بدل دیا کرتے تھے جیسا قرآن نے بتایا ہےـ
"یعنی مہینوں کا آگےپیچھے کر لینا کفر میں زیادتی ہے"(التوبہ37)
اب اگر ان مہینوں کورواج کے مطابق مان لیا جائےتو پھرمہینوں کا تقرر کفار کے ہاتھ میں ہو گاـ نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں نہ مرکز ملت کے ہاتھ میں
جس مہینے کو کافر حرمت والہ کہ دیں بس ہم بھی اس کی حرمت کریں کیونکہ اللہ فرماتا ہے:ـ" اگر کفار کسی مہینے کی حرمت کریں تو تم بھی حرمت کروـ ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلا ہیں"ـ(ابقرۃ194)گویا قرآن مجید کی آیات کفار کی محتاج ہوئی جو عمل کفار کا وہی کفار کا منشاـ
اللہ فرماتا ہے:ـ "معلوم شدہ دنوںمیں اللہ کے نام کا ذکر کرو"(الحج28)
قرآن پھر خاموش ہے کہ ان ایام کی تشریح کرے اب بتائیں مسلم صاحب اس آیات پر کس طرح عمل ہو؟حروف مقطعات کیوں واقع ہوئے ہیں ؟ ان کی تشریح سے قرآن خاموش ہے
اور جو لوگ ان کی تشریح قرآن مجید سے کرتے ہیں وہ سوائے تک بندی کے اور کچھ نہیں:ـاللہ تعالٰی فرماتا ہے
"اور ہم میں سے ہر ایک کا مقام مقرر ہے اور ہم صف باندھنے والے ہیں"معلوم نہیں اس کا متکلم کون ہے پوری سورۃ پڑھ جا ئیے اس جملے کامتکلم نہیں ملے گا:ـ اللہ فرماتا ہے "اللہ کے لئے حج اور عمرہ پورا کروـ(البقرۃ96)معلوم نہیں حج کیا چیز ہے اور عمرہ کیا چیز ہے اور ان دونوں میں فرق کیا ہے:ـ اللہ فرماتا ہے:
ہم نہیں نازل ہوتے مگر آپ کے رب کے حکم سے "(مریم-64) بظاہر اس آیات میں متکلم اللہ تعالٰی ہے کیونکہ اس سے اوپر کی آیات میں مسلسل جمع متکلم کا صیغہ ہے جو اللہ تعالٰی نے اپنے لئے استمال کیا ہے لہٰذا مطلب یہ ہوا اللہ تعالٰی نازل نہیں ہوتا مگر رسولﷺ کہ لئے رب کے حکم سے؛گویا اللہ کابھی کوئی حاکم ہے جس کے حکم سے وہ نازل ہوتا ہے (نعوز با اللہ)غر ض اس قسم کی بیسیوں گتھیاں ہیں؛ان کو کن سلجائے؛اگر یہ کام مرکز ملت کہ سپرد کر دیا جائےتو مختلف ادوار میں بلکہ ایک ہی زمانے کہ مختلف مراکز حج کے مہینے مختلف ہون گےایام معلومات مختلف ہوں گےحروف مقتعات کی مختلف تشریحات ہو ں گی ایک ہی آیات کے مختلف متکلم مان لئے جائیں گے؛مسلم خواہ کچھ بھی کہیں غیر مسلم تو ان مختلف تشریحات کو دیکھ کر ہنسنے اور کیا کرے گا ان گتھیوں کا بس ایک ہے حل ہے اور وہ خود رسول اللہ ﷺ ہی اس کو حل کریں لہذا حدیث حجت ہوئی اور آیات زیر عنوان کی روح سے وحی

جاری ہے
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
قرآن مجید کی متعدد آیات پر عمل کرناممکن نہیں مثال کے طور پر
1 ) اور جہاں کہیں سے آپ نکلیں اپنے منہ کو مسجد حرام کی طرف پھیر لیا کریں اور جہا ں کہیں بھی تم ہواپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو ـ(البقرۃ ـ150)

اس آیات سے معلوم ہوا کہ ہر وقت ہر حال میں منہ کعبہ کی طرف رہناچا ئے؛ کیا یہ ممکن ہے؟آخر یہ حکم کس وقت کے لئے ہے؟کون بتائے کس طرح اس پر عمل ہو گا؟

2) اللہ سبحان و تعالٰی فر ماتا ہے:ـ جب تم خریدو فرخت کیا کرو؛ تو گواہ کر لیا کرو(البقرۃ282)

بتا ئے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہر چھو ٹی بڑی چیز خریدتے وقت ہر دوکان دار اور خریدار گواہ کر لیا کر یں کیااس حکم پر حدیث کے بغیر عمل ممکن ہے ؟

3) اللہ فرماتا ہے:ـ اے بنی آدم ہر نماز کے وقت اپنی زینت کی چیزیں پہن لیا کرو(الاعراف31)

اس آیات پر کس طرح عمل کیا جائے؟ زینت تو لبا س بھی ہے؛زیورات بھی ہیں؛کیا اس آیات کی رو سے عورتوں کو زیورات پہن کر نماز پرنی چاہے؟
غرض اس قسم کی بہت سی آیات ہیں جو نا قابل عمل ہیں جب تک ان کی معنی اور ان کا موقع و محل متعین نہ ہو ان پر عمل نہں ہو سکتا اور یہ چیزیں کون متعین کرے گا سوائے رسولﷺ ؛لہذاحدیث حجت ہوئی اور آیت زیر عنوان کی روح سے وحی ہوئی "تلک عشرۃ کاملۃ" یہ کچھ دلائل ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کے حدیث حجت ہے لہذا آیت زیر عنوان کی روح سے وحی ہوئی ورنہ غیر وہی کا اتبا ع لازم آئے گا اور یہ آیات کے خلاف ہے ـ۔۔۔۔۔-ـ جا ری ہے
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
السلام علیکم۔
ہبیل بھائی میں چند سادہ سے سوالات کئے تھے جن پر آپ نے گفتگو نہیں فرمائی۔ دوبارہ لکھ رہا ہوں۔
اللہ کب سے ہے؟؟ کیا چودہ سو سال سے اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے؟؟ اس سے پہلے اللہ کے نزدیک دین، اسلام کے علاوہ کیا کچھ اور تھا؟؟
نیز یہ بھی بتا دیں کہ تمام انبیاء سابقین اور ان پر ایمان لانے والے مو منین نے
صلاۃ کیسے قائم کی؟
زکوۃ کیسے ادا کی؟
روزے کیسے رکھے؟
حج کیسے کیا؟ غرض تمام عبادات کس طرح ادا کیں؟
کیا ہم آج کے دور میں کتب احادیث کی وجہ سے سب طریقوں سے واقف ہیں اور محمدٖ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کے جلیل القدر انبیاء ان سے واقف نہ تھے؟

میں اللہ کی کتاب کا ادنی سا طالب علم ہوں۔ برائے مہربانی ان سوالات پر اچھی طرح غور کر کہ جواب دیں۔
اللہ ہمیں کج بحثی اور ضد سے دور رکھے اور صرات مستقیم کی طرف ہماری رہنما ئی فرمائے۔ آمین۔
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
وعلیکم اسلام مسلم صاحب مجھے بہت حیرت ہو ئی آپ کی بات سن کر جناب محترم آپ اپنی تھریڑ کا عنوان تو دیکھیں "کیا احادیث حجت ہیں"یہی ہے نہ تو مسلم صاحب جب ہم نے حدیث کو حجت ثابت کرنا شروع کیا تو آپ برا مان گئے جو تھریڑ کا عنوان ہے اسی پر رہیں نہ،
آپ کا جواب نہ دینا دو باتیں ظاہر کرتا ہے ایک تو آپ جتنا کچھ احادیث کے خلاف سیکھے ہیں آپ اسی پر خوش ہیں کیونکہ احادیث کی مخالفت کر کہ آپ لوگ بہت ساری پابندیاں جو اسلام نے ایک مسلم پر لگائی ہیں اس کی بہتری کے لئے اس سے اپنے آپ میں بچے رہتے ہیں یعنی راہ فرار حاصل کئے ہوئے ہیں -نمبر دو آپ کا مقسد نہ اپنی اصلاح ہے اور نہ دوسروں کی اصلاح بلکےہم نے دیکھا ہے اس قسم کے لوگ جو احادیث کو نہیں مانتے ان کا مقصد صرف لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے ؛ ہم حسن زن سے کام لیتے آپ کو ان لوگو ں کی صف میں نہیں لائیں گے ویسے آپ نے کسر کو ئی نہیں چھو ڑی ہمارا آپ کو مشورہ ہے کہ لوگوں چھوڑیں اور اپنے اصلاح کی کوشش کریں ـ
اگر آپ اپنے آپ کو سچا گردانتے ہیں تو جن جن آیات سے ہم نے اللہ کہ فضل سے احادیث کو حجت ثابت کیا ہے آپ ان ایک ایک ایات کی تشریح قرآن سے ثابت کریں ہمیں آپ
ہدایت کا طالب پایں گے -
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
حدیث کے وحی خفی ہونے کا ثبوت قرآن مجید سے
(1) اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے:- جو درخت تم نے کا ٹے یا چھوڑدئے یہ سب اللہ کے حکم سے تھا( الحشر5)

اس آیات سے معلوم ہوتا ہےکہ درخت اللہ کے حکم سے کاٹے گیے تھے لیکن وہ حکم قرآن میں کہیں نہیں لہٰذا ثابت ہواکہ قرآن کے علاوہ بھی کوئی وحی تھی جس کے ذریے حکم بیجھا گیا تھا:

2) اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ اور اس قبلہ کو جس پر آپ اس وقت ہیں(یعنی بیت المقدس) کو ہم نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کون رسول کی اتباع کرتا ہے(البقرۃ-143)

بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کا حکم قرآن میں کہیں نہیں ہے لہٰذا وہ حکم بذریہ وحی خفی تھا؛واضح ہوکہ اس آیات میں قبلہ سے مراد بیت المقدس ہے کیونکہ اس سے آگے ارشاد ہے"ہم عنقریب اس قبلے کی طرف آپ کو موڑ دیں گیں جس قبلے کی آپ کو خواہش ہے"یعنی کعبہ کی طرف منہ کرنےکا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا:


(3) اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:ـ اور جب نبی نے ایک بات پوشیدہ طور پر اپنی ایک بیوی سے کہی تو اس بیوی نے اس بات کو ظاہر کر دیا؛اللہ نے نبی کو اس افشا ء رازسے مطلع کر دیا تو نبی نے بعض بات جتا دی اور بعض بات سے چشم پوشی کی پس جب نبی نے اس بیوی سے اس بات کا ذکر کیا تو بی بی نے پوچھا آپ کو کس نے خبر دی نبی نے کہا مجھے علیم و خبیر نے خبر دی(التحریم-3)

قرآن مجید میں کہیں نہیں کہ اللہ نے اپنے نبی کو مطلع کیا کہ فلاں بیوی نے تمہارا راز ظاہر کر دیا پھر علیم و خبیر اللہ نے کس طر ح خبر دی؟ ظاہر ہے وحی خفی یعنی حدیث کے ذریہ سے

4)اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ جس وقت اے نبی تم مومنین سے کہہ رہے تھےکہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتو ں سے تمہاری مدد کرے بلکہ اگر تم صبر کرو گے اور پر ہیز گاری اختیار کرو گے اور کافر پورے جو ش و خروش سے تم پر حملہ اور ہوں گے تو تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں تمہاری مدد فرما ئے گا
(ال عمران:ـ124-125)


یہ خبر جو رسول ﷺ نے جنگ سے پہلے صحابہ کو دی تھی اور جس کا ذکر اللہ نے جنگ کہ بعد ان آیات میں کیا ہے؛ قرآن مجید میں کہاں ہے ؟ آخر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی تین ہزار بلکے پانچ ہزار فرشتوں مدد فرمائے گا-
اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے:ـ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو سرگوشی سے منع کر دیا گیا تھا لیکن وہ اب بھی وہی کام کر رہے ہیں جس کی ممانعت کی گئی تھی اور وہ برابر گناہ ظلم و زیادتی اور رسول کی نا فرمانی کی سر گو شی کر تے رہتے ہیں(المجادلہ:8)

ظاہر ہے کہ اس آیات کے نزول سے پہلے سر گوشی سے منع کر دیا گیا ہو گا لیکن ممانعت کا حکم قرآن میں اس آیات کے بعد ہے پس ثابت ہوا کہ پہلے بزریہ وحی خفی منع کیا گیا تھا:


اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ نمازوں کی حفاظت کرو خصو صا درمیانی نماز کی اور اللہ کے سامنےادب سے کھڑے ہوا کرو اگر تم کو خوف ہو تو پھر نماز پیدل یا سوار ی پر پڑھ لو لیکن جب امن ہو جائے تو پھر اسی طریقہ سے اللہ کا ذکر کرو جس طریقہ سے اللہ نے تمہیں سیکھایا ہے اور جس طریقہ کو تم( پہلے) نہیں جانتے تھے(ابقرۃ238-239)

اس آیت سے ظاہر ہوا کہ نماز پڑھنے کا ایک خاص طریقہ مقرر ہے جق بحالت جنگ معاف ہے:بحالت امن اسی طریقہ سے نماز پرھی جائے گی،اس طریقہ کی تعلیم کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے لیکن قرآن مجید میں یہ طریقہ کہیں مذکور نہیں ظاہر ہے کہ اللہ نے سکھا یا اور حدیث کہ زریعہ سکھایا جو بزریعہ و حی نازل ہوئی:

اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ اے ایما والو ، جب جمعہ کے دن نماز کے لیے تم کو بلایا جا ئے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی سے آجایا کرو اور خریدو فروخت چھوڑ دیا کرو(الجمعہ 9)

آیات سے ظاہر ہوتا ہے نماز جمعہ کے لئے بلا یا جاتا تھا لیکن اس بلانے کا طریقہ کیا تھا؟ یہ بلانا کس کے حکم سے مقرر ہوا تھا قرآن اس سلسہ میں خاموش ہے ـ پھر جمعہ کی نماز کا اہتمام علاوہ اور دنوں کا کو ئی درجہ رکھتا ہو گا جمعہ کی نماز کا کوئی خاص وقت بھی مقرر ہو گا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر وقت تیار رہیں،جب بلایا جائے چلے آئیں خواہ دن میں کئی بار بلایا جائے - یہ سب چیزیں اس آیت کے نزول سے پہلے مقرر ہیں ہو چکی تھیں لیکن قرآن اس سلسلہ میں بلکیل خاموش ہے – ظاہر ہے کہ پھر یہ تمام کام بزریعہ وحی خفی یعنی بذریہ حدیث مقرر ہوئے تھے:

اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے:ـ
اگر دو لڑکیاں ہوں تو ان کو دہ تہا ئی ترکہ ملے (النساء11)

آیات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ کن حالات میں ترکہ اس طرح تقسیم ہو گا لہٰذا لازمی ہے کہ ان حالات کا علم بزریعہ وحی خفی دیا گیا ہو ،اسی طرح اس آیات میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ تقسیم کے بعد باقی ترکہ کا کیا کیا جائے آخر اس کا بھی کوئی مصرف ہونا چاہیئے ، یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے ضا ئع ہونے دیا جائے یا یو ں ہی چھوڑ دیا جائے ، لہٰذا اس کے متعلق بھی کوئی ہدائت ہونی چاہیئے لیکن قرآن میں نہیں ہے ظاہر ہے کہ وہ ہدایت حدیث میں ہو گی ، لہٰذا حدیث وحی ہے:


اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ
اب تم رمضان کی راتوں میں عورتوں سے مل سکتے ہو ( البقرۃ 87ا)

اس آیات سے معلوم ہوا کہ پہلے رمضا ن کی راتوں میں عورتوں سے ملنا منع تھا ، لیکن ممانعت کا حکم قرآن مجید میں کہیں نہیں ،لہٰذا یہ حکم بزریہ وحی خفی نازل ہوا تھا لہٰذا حدیث وحی خفی ہوئی:
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
محترم جناب مسلم صاحب!
ایک دفعہ پھر آپ کو مخاطب کرنے کی جرات کر رہا ہوں گستاخی معاف؟

آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
  • اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
  • اللہ کے نزدیک اسلام ہی تخلیق انسان سے لے کر تا قیامت دین ہے۔
  • آپ کے تیسرے سے لے ساتویں سوال کا جواب ہے کہ انبیاء کرام ؑنے یہ تمام عبادات اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی آنے والے احکامات کی روشنی میں ادا کیں۔
  • آپ کے آخری سوال کا جواب ہے کہ وہ انبیاء تھے اور ہم نبی کریم ﷺ کے امتی۔ان کو طریقہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی سکھایا اور ہم قرآن کریم اور نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق یہ سب عبادات ادا کرتے ہیں۔ان انبیاء کے امتی مسلمان ان کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق اور ہم نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں جو قرآن و احادیث کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں کے مطابق ان تمام عبادات کو ادا کرتے ہیں۔
اب آنجناب سے نہایت ادب سے گذارش ہے کے آپ اپنے ہی ان سوالات :
تمام انبیاء سابقین اور ان پر ایمان لانے والے مو منین نے
صلاۃ کیسے قائم کی؟
زکوۃ کیسے ادا کی؟
روزے کیسے رکھے؟
حج کیسے کیا؟ غرض تمام عبادات کس طرح ادا کیں؟
کیا ہم آج کے دور میں کتب احادیث کی وجہ سے سب طریقوں سے واقف ہیں اور محمدٖ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کے جلیل القدر انبیاء ان سے واقف نہ تھے؟
کے جوابات قرآن اور اپنے مذہب یا دین ابراہیمی سے ثابت کریں؟

سوالات کا جواب دے کر کوئی سوال کیجیے گا آپ کی مہربانی ہوگی۔
 
Top