• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : علم کو محفوظ رکھنے کے بیان میں

حدیث نمبر : 118
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال إن الناس يقولون أكثر أبو هريرة، ولولا آيتان في كتاب الله ما حدثت حديثا، ثم يتلو ‏{‏إن الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات‏}‏ إلى قوله ‏{‏الرحيم‏}‏ إن إخواننا من المهاجرين كان يشغلهم الصفق بالأسواق، وإن إخواننا من الأنصار كان يشغلهم العمل في أموالهم، وإن أبا هريرة كان يلزم رسول الله صلى الله عليه وسلم بشبع بطنه ويحضر ما لا يحضرون، ويحفظ ما لا يحفظون‏.‏
عبدالعزیز بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت حدیثیں بیان کرتے ہیں اور ( میں کہتا ہوں ) کہ قرآن میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ پھر یہ آیت پڑھی، ( جس کا ترجمہ یہ ہے ) کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی دلیلوں اور آیتوں کو چھپاتے ہیں ( آخر آیت ) رحیم تک۔ ( واقعہ یہ ہے کہ ) ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خرید و فروخت میں لگے رہتے تھے اور انصار بھائی اپنی جائیدادوں میں مشغول رہتے اور ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جی بھر کر رہتا ( تا کہ آپ کی رفاقت میں شکم پری سے بھی بے فکری رہے ) اور ( ان مجلسوں میں ) حاضر رہتا جن ( مجلسوں ) میں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور وہ ( باتیں ) محفوظ رکھتا جو دوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔

تشریح : والمعنی انہ کان یلازم قانعا بالقوت ولایتجر ولایزرع ( قسطلانی ) یعنی کھانے کے لیے جو مل جاتا اسی پر قناعت کرتے ہوئے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹے رہتے تھے، نہ کھیتی کرتے نہ تجارت۔ علم حدیث میں اسی لیے آپ کو فوقیت حاصل ہوئی۔ بعض لوگوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیرفقیہ لکھا اور قیاس کے مقابلہ پر ان کی روایت کو مرجوح قرار دیا ہے۔ مگریہ سراسر غلط اور ایک جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ ایسا لکھنے والے خود ناسمجھ ہیں۔

حدیث نمبر : 119
حدثنا أحمد بن أبي بكر أبو مصعب، قال حدثنا محمد بن إبراهيم بن دينار، عن ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، قال قلت يا رسول الله، إني أسمع منك حديثا كثيرا أنساه‏.‏ قال ‏"‏ ابسط رداءك ‏"‏ فبسطته‏.‏ قال فغرف بيديه ثم قال ‏"‏ ضمه ‏"‏ فضممته فما نسيت شيئا بعده‏.‏ حدثنا إبراهيم بن المنذر قال حدثنا ابن أبي فديك بهذا أو قال غرف بيده فيه‏.‏
ہم سے ابومصعب احمد بن ابی بکر نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن دینار نے ابن ابی ذئب کے واسطے سے بیان کیا، وہ سعید المقبری سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت باتیں سنتا ہوں، مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے اپنی چادر پھیلائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو بنائی اور ( میری چادر میں ڈال دی ) فرمایا کہ ( چادر کو ) لپیٹ لو۔ میں نے چادر کو ( اپنے بدن پر ) لپیٹ لیا، پھر ( اس کے بعد ) میں کوئی چیز نہیں بھولا۔ ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی فدیک نے اسی طرح بیان کیا کہ ( یوں ) فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو اس ( چادر ) میں ڈال دی۔

آپ کی اس دعا کا یہ اثرہوا کہ بعدمیں حضرت ابوہریرہ صحفظ حدیث کے میدان میں سب سے سبقت لے گئے اور اللہ نے ان کو دین اور دنیا ہردو سے خوب ہی نوازا۔ چادر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاچلو ڈالنا نیک فالی تھی۔

حدیث نمبر : 120
حدثنا إسماعيل، قال حدثني أخي، عن ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، قال حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وعاءين، فأما أحدهما فبثثته، وأما الآخر فلو بثثته قطع هذا البلعوم‏.‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی ( عبدالحمید ) نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا۔ وہ سعید المقبری سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( علم کے ) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بلعوم سے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے۔

تشریح : اسی طرح جوہری اور ابن اثیر نے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کا مطلب محققین علماءکے نزدیک یہ ہے کہ دوسرے برتن سے مراد ایسی حدیثیں ہیں۔ جن میں ظالم وجابر حکام کے حق میں وعیدیں آئی ہیں اور فتنوں کی خبریں ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کبھی اشارے کے طور پر ان باتوں کا ذکر کربھی دیا تھا۔ جیساکہ کہا کہ میں 60ھ کی شر سے اور چھوکروں کی حکومت سے خدا کی پناہ چاہتاہوں۔ اسی سنہ میں یزید کی حکومت ہوئی اور امت میں کتنے ہی فتنے برپا ہوئے۔ یہ حدیث بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی زمانے میں بیان کیا، جب فتنوں کا آغاز ہوگیا تھا اور مسلمانوں کی جماعت میں انتشار پیدا ہوچلا تھا،اسی لیے یہ کہا کہ ان حدیثوں کے بیان کرنے سے جان کا خطرہ ہے، لہٰذا میں نے مصلحتاً خاموشی اختیار کرلی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ عالموں کی بات خاموشی سے سننا ضروری ہے

حدیث نمبر : 121
حدثنا حجاج، قال حدثنا شعبة، قال أخبرني علي بن مدرك، عن أبي زرعة، عن جرير، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له في حجة الوداع ‏"‏ استنصت الناس ‏"‏ فقال ‏"‏ لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض‏"‏‏. ‏
ہم سے حجاج نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے علی بن مدرک نے ابوزرعہ سے خبر دی، وہ جریر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو ( تا کہ وہ خوب سن لیں ) پھر فرمایا، لوگو! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔

تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے نصیحتیں فرمانے سے پہلے جریر کوحکم دیاکہ لوگوں کو توجہ سے بات سننے کے لیے خاموش کریں، باب کا یہی منشا ہے کہ شاگرد کا فرض ہے استاد کی تقریر خاموشی اور توجہ کے ساتھ سنے۔ حضرت جریر ص10ھ میں حجۃ الوداع سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے، کافربن جانے سے مراد کافروں کے سے فعل کرنا مراد ہے۔ کیونکہ ناحق خون ریزی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ مگر صدافسوس کہ تھوڑے ہی دنوں بعد امت میں فتنے فساد شروع ہوگئے جوآج تک جاری ہیں، امت میں سے سب سے بڑا فتنہ ائمہ کی تقلید محض کے نام پر افتراق وانتشار پیدا کرنا ہے۔ مقلدین زبان سے چاروں اماموں کو برحق کہتے ہیں۔ مگر پھر بھی آپس میں اس طرح لڑتے جھگڑتے ہیں گویاان سب کا دین جداجدا ہے۔ تقلید جامد سے بچنے والوں کو غیرمقلد لامذہب کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور ان کی تحقیر وتوہین کرنا کارثواب جانتے ہیں۔ والی اللہ المشتکیٰ۔

اقبال مرحوم نے سچ فرمایا
اگر تقلید بودے شیوئہ خوب
پیغمبر ہم رہ اجداد نہ رفتے

یعنی تقلید کا شیوہ اگراچھا ہوتا تو پیغمبر اپنے باپ دادا کی راہ پر چلتے مگر آپ نے اس روش کی مذمت فرمائی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ جب کسی عالم سے یہ پوچھا جائے کہ لوگوں میں کو ن سب سے زیادہ علم رکھتا ہے؟ تو بہتر یہ ہے کہ اللہ کے حوالے کر دے یعنی یہ کہہ دے کہ اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے یا یہ کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کو ن سب سے بڑا عالم ہے۔

حدیث نمبر : 122
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا عمرو، قال أخبرني سعيد بن جبير، قال قلت لابن عباس إن نوفا البكالي يزعم أن موسى ليس بموسى بني إسرائيل، إنما هو موسى آخر‏.‏ فقال كذب عدو الله، حدثنا أبى بن كعب عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ قام موسى النبي خطيبا في بني إسرائيل، فسئل أى الناس أعلم فقال أنا أعلم‏.‏ فعتب الله عليه، إذ لم يرد العلم إليه، فأوحى الله إليه أن عبدا من عبادي بمجمع البحرين هو أعلم منك‏.‏ قال يا رب وكيف به فقيل له احمل حوتا في مكتل فإذا فقدته فهو ثم، فانطلق وانطلق بفتاه يوشع بن نون، وحملا حوتا في مكتل، حتى كانا عند الصخرة وضعا رءوسهما وناما فانسل الحوت من المكتل فاتخذ سبيله في البحر سربا، وكان لموسى وفتاه عجبا، فانطلقا بقية ليلتهما ويومهما فلما أصبح قال موسى لفتاه آتنا غداءنا، لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، ولم يجد موسى مسا من النصب حتى جاوز المكان الذي أمر به‏.‏ فقال له فتاه أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت، قال موسى ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا، فلما انتهيا إلى الصخرة إذا رجل مسجى بثوب ـ أو قال تسجى بثوبه ـ فسلم موسى‏.‏ فقال الخضر وأنى بأرضك السلام فقال أنا موسى‏.‏ فقال موسى بني إسرائيل قال نعم‏.‏ قال هل أتبعك على أن تعلمني مما علمت رشدا قال إنك لن تستطيع معي صبرا، يا موسى إني على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه أنت، وأنت على علم علمكه لا أعلمه‏.‏ قال ستجدني إن شاء الله صابرا، ولا أعصي لك أمرا، فانطلقا يمشيان على ساحل البحر ليس لهما سفينة، فمرت بهما سفينة، فكلموهم أن يحملوهما، فعرف الخضر، فحملوهما بغير نول، فجاء عصفور فوقع على حرف السفينة، فنقر نقرة أو نقرتين في البحر‏.‏ فقال الخضر يا موسى، ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا كنقرة هذا العصفور في البحر‏.‏ فعمد الخضر إلى لوح من ألواح السفينة فنزعه‏.‏ فقال موسى قوم حملونا بغير نول، عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق أهلها قال ألم أقل إنك لن تستطيع معي صبرا قال لا تؤاخذني بما نسيت‏.‏ فكانت الأولى من موسى نسيانا‏.‏ فانطلقا فإذا غلام يلعب مع الغلمان، فأخذ الخضر برأسه من أعلاه فاقتلع رأسه بيده‏.‏ فقال موسى أقتلت نفسا زكية بغير نفس قال ألم أقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا ـ قال ابن عيينة وهذا أوكد ـ فانطلقا حتى إذا أتيا أهل قرية استطعما أهلها، فأبوا أن يضيفوهما، فوجدا فيها جدارا يريد أن ينقض فأقامه‏.‏ قال الخضر بيده فأقامه‏.‏ فقال له موسى لو شئت لاتخذت عليه أجرا‏.‏ قال هذا فراق بيني وبينك‏"‏‏. ‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يرحم الله موسى، لوددنا لو صبر حتى يقص علينا من أمرهما‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن محمد المسندی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، انھیں سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ( جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ ) موسی بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے، ( یہ سن کر ) ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ ہم سے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ ( ایک روز ) موسی علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انھوں نے علم کو خدا کے حوالے کیوں نہ کر دیا۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ ( جہاں فارس اور روم کے سمندر ملتے ہیں ) وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے، موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے پروردگار! میری ان سے ملاقات کیسے ہو؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں ( وہیں ) ملے گا۔ تب موسیٰ علیہ السلام چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انھوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی، جب ( ایک ) پتھر کے پاس پہنچے، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے بے حد تعجب کی تھی، پھر دونوں باقی رات اور دن میں ( جتنا وقت باقی تھا ) چلتے رہے، جب صبح ہوئی موسیٰ علیہ السلام نے خادم سے کہا، ہمارا ناشتہ لاؤ، اس سفر میں ہم نے ( کافی ) تکلیف اٹھائی ہے اور موسیٰ علیہ السلام بالکل نہیں تھکے تھے، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے، جہاں تک انھیں جانے کا حکم ملا تھا، تب ان کے خادم نے کہا، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا، ( بقول بعض صخرہ کے نیچے آب حیات تھا، وہ اس مچھلی پر پڑا، اور وہ زندہ ہو کر بقدرت الٰہی دریا میں چل دی ) ( یہ سن کر ) موسی علیہ السلام بولے کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے ( موجود ہے ) موسیٰ علیہ السلام نے انھیں سلام کیا، خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہاری سرزمین میں سلام کہاں؟ پھر موسی علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ ( علیہ السلام ) ہوں، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسی؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہاں! پھر کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں، تا کہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں۔ خضر علیہ السلام بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ اسے موسیٰ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا۔ ( اس پر ) موسیٰ نے کہا کہ خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری، تو کشتی والوں سے انھوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر علیہ السلام کو انھوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں ( اسے دیکھ کر ) خضر علیہ السلام بولے کہ اے موسی! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہو گا جتنا اس چڑیا نے سمندر ( کے پانی ) سے پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر ( مفت میں ) سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی ( کی لکڑی ) اکھاڑ ڈالی تا کہ یہ ڈوب جائیں، خضر علیہ السلام بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟ ( اس پر ) موسی علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھول پر میری گرفت نہ کرو۔ موسی علیہ السلام نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا۔ پھر دونوں چلے ( کشتی سے اتر کر ) ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر علیہ السلام نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کر دیا۔ موسی علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے ایک بے گناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا ( غضب ہو گیا ) خضر علیہ السلام بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اس کلام میں پہلے سے زیادہ تاکید ہے ( کیونکہ پہلے کلام میں لفظ لک نہیں کہا تھا، اس میں لک زائد کیا، جس سے تاکید ظاہر ہے ) پھر دونوں چلتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، ان سے کھانا لینا چاہا۔ انھوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو ( گاؤں والوں سے ) اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ خضر نے کہا کہ ( بس اب ) ہم اور تم میں جدائی کا وقت آ گیا ہے۔ جناب محبوب کبریا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان کئے جاتے اور ہمارے سامنے روشنی میں آتے، مگر حضرت موسی علیہ السلام کی عجلت نے اس علم لدنی کے سلسلہ کو جلد ہی منقطع کرا دیا ) محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن خشرم نے یہ حدیث بیان کی، ان سے سفیان بن عیینہ نے پوری کی پوری بیان کی۔

تشریح : نوف بکالی تابعین سے تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے غصہ کی حالت میں اللہ کا دشمن کہہ دیا۔ کیونکہ انھوں نے صاحب خضر موسیٰ بن میشا کو کہہ دیا تھا جو کہ یوسف علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ حالانکہ یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحب بنی اسرائیل ہی کا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث کے خلاف رائے وقیاس پر چلنے والوں پر ایسا عتاب جائز ہے۔

حضرت خضر نبی ہوں یا ولی مگر حضرت موسیٰ سے افضل نہیں ہوسکتے۔ مگرحضرت موسیٰ کا یہ کہنا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوا اور ان کا مقابلہ ایسے بندے سے کرایاجو ان سے درجہ میں کم تھے، تاکہ وہ آئندہ ایسا دعویٰ نہ کریں، حضرت موسیٰ نے جب حضرت خضر کو سلام کیا، توانھوں نے وعلیکم السلام کہہ کر جواب دیا، ساتھ ہی وہ گھبرائے بھی کہ یہ سلام کرنے والے صاحب کہاں سے آگئے۔ اس سے معلوم ہواکہ حضرت خضرعلیہ السلام کو بھی غیب کا علم نہ تھا، لہٰذا جو لوگ انبیاءواولیاءکے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا علم ظاہر شریعت تھا۔ اور حضرت خضر علیہ السلام مصالح شرعیہ کے علم کے ساتھ خاص حکموں پر مامور تھے، اسی لیے حضرت موسیعلیہ السلام کو ان کے کام بظاہر خلاف شریعت معلوم ہوئے حالانکہ وہ خلاف شریعت نہ تھے۔ کشتی سے ایک تختہ کا نکالنا اس مصلحت کے تحت تھا کہ پیچھے سے ایک ظالم بادشاہ کشتیوں کو بے گار میں پکڑنے کے لیے چلا آرہاتھا، اس نے اس کشتی کو عیب دار دیکھ کر چھوڑدیا، جب وہ گزر گیا تو حضرت خضرعلیہ السلام نے پھر اسے جوڑدیا، بچے کا قتل اس لیے کہ حضرت خضر کو وحی الٰہی نے بتلا دیا تھا کہ یہ بچہ آئندہ چل کر اپنے والدین کے لیے سخت مضرہوگا اس مصلحت کے تحت اس کا ختم کرنا ہی مناسب جانا۔ ایسا قتل شاید اس وقت کی شریعت میں جائز ہو پھر اللہ نے اس بچے کے والدین کو نیک بچے عطا کئے اور اچھا ہوگیا۔ دیوار کواس لیے آپ نے سیدھا کیا کہ دویتیم بچوں کا باپ انتقال کے وقت اپنے بچوں کے لیے اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ دفن کرگیاوہ دیوار اگر گر جاتی تو لوگ یتیموں کا خزانہ لوٹ کر لے جاتے۔ اس مصلحت کے تحت آپ نے فوراً اس دیوار کو باذن اللہ سیدھا کردیا۔ حضرت موسیٰ اور خضر کے اس واقعہ سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں، جن کی تفصیل نظر غائر والوں پر واضح ہوسکتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کھڑے ہو کر کسی عالم سے سوال کرنا جو بیٹھا ہوا ہو (جائز ہے)

حدیث نمبر : 123
حدثنا عثمان، قال أخبرنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل، عن أبي موسى، قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله، ما القتال في سبيل الله فإن أحدنا يقاتل غضبا، ويقاتل حمية‏.‏ فرفع إليه رأسه ـ قال وما رفع إليه رأسه إلا أنه كان قائما ـ فقال ‏"‏ من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله عز وجل‏"‏‏. ‏
ہم سے عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابووائل سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑائی کی کیا صورت ہے؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصہ کی وجہ سے اور کوئی غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سر اٹھایا، اور سر اسی لیے اٹھایا کہ پوچھنے والا کھڑا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے لڑے، وہ اللہ کی راہ میں ( لڑتا ) ہے۔

تشریح : یعنی جب مسلمان اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں پہنچتا ہے اور غصہ کے ساتھ یا غیرت کے ساتھ جوش میں آکر لڑتا ہے تو یہ سب اللہ ہی کے لیے سمجھا جائے گا۔ چونکہ یہ سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ہوئے شخص نے کیا تھا، اسی سے مقصد ترجمہ ثابت ہوا کہ حسب موقع کھڑے کھڑے بھی علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کے کلمہ کو سر بلند کرنے سے قوانین اسلامیہ و حدود شرعیہ کا جاری کرنا مراد ہے جو سراسر عدل و انصاف وبنی نوع انسان کی خیر خواہی پر مبنی ہیں، ان کے برعکس جملہ قوانین نوع انسان کی فلاح کے خلاف ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رمی جمار ( یعنی حج میں پتھر پھینکنے ) کے وقت بھی مسئلہ پوچھنا جائز ہے

حدیث نمبر : 124
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا عبد العزيز بن أبي سلمة، عن الزهري، عن عيسى بن طلحة، عن عبد الله بن عمرو، قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم عند الجمرة وهو يسأل، فقال رجل يا رسول الله نحرت قبل أن أرمي‏.‏ قال ‏"‏ ارم ولا حرج‏"‏‏. ‏ قال آخر يا رسول الله حلقت قبل أن أنحر‏.‏ قال ‏"‏ انحر ولا حرج‏"‏‏. ‏ فما سئل عن شىء قدم ولا أخر إلا قال افعل ولا حرج‏.‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے زہری کے واسطے سے روایت کیا، انھوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے، انھوں نے عبداللہ بن عمرو سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمی جمار کے وقت دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جا رہا تھا تو ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے رمی سے قبل قربانی کر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اب ) رمی کر لو کچھ حرج نہیں ہوا۔ دوسرے نے کہا، یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اب ) قربانی کر لو کچھ حرج نہیں۔ ( اس وقت ) جس چیز کے بارے میں جو آگے پیچھے ہو گئی تھی، آپ سے پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہی جواب دیا ( اب ) کر لو کچھ حرج نہیں۔

تشریح : ( تعصب کی حد ہوگئی ) امام بخاری قدس سرہ کا مقصد ظاہر ہے کہ رمی جمار کے وقت بھی مسائل دریافت کرنا جائز ہے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی سوالات کئے گئے الدین یسر کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیم وتاخیر کونظرانداز کرتے ہوئے فرمادیاکہ جو کام چھوٹ گئے ہیں ان کو اب کرلو، توکوئی حرج نہیں ہے۔ بات بالکل سیدھی اور صاف ہے مگر تعصب کا براہو صاحب انوار الباری کو ہر جگہ یہی نظر آتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں بھی محض احناف کی تردید کے لیے ایسا لکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال ناقص میں گویا جامع صحیح ازاول تاآخر محض احناف کی تردید کے لیے لکھی گئی ہے، آپ کے الفاظ یہ ہیں:

“ احقر ( صاحب انوارالباری ) کی رائے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ حسب عادت جس رائے کواختیار کرتے ہیں چونکہ بقول حضرت شاہ صاحب اسی کے مطابق احادیث لاتے ہیں اور دوسری جانب کونظر انداز کردیتے ہیں۔ اسی لیے ترتیب افعال حج کے سلسلہ میں چونکہ وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے سے مخالف ہیں اس لیے اپنے خیال کی تائید میں جگہ جگہ حدیث الباب افعل ولاحرج کو بھی لائے ہیں۔ ” ( انوارالباری،جلد4،ص: 104 )
معلوم ہوتا ہے کہ صاحب انوارالباری کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے دل کا پورا حال معلو ہے، اسی لیے تووہ ان کے ضمیر پر یہ فتویٰ لگارہے ہیں۔ اسلام کی تعلیم تھی کہ مسلمان آپس میں حسن ظن سے کام لیا کریں، یہاں یہ سوءظن ہے۔ استغفراللہ۔آگے صاحب انوارالباری مزید وضاحت فرماتے ہیں:
“ آج اس ہی قسم کے تشدّد سے ہمارے غیرمقلد بھائی اور حرمین شریفین کے نجدی علماءائمہ حنفیہ کے خلاف محاذ بناتے ہیں، حنفیہ کو چڑانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی یک طرفہ احادیث پیش کیا کرتے ہیں۔ ” ( حوالہ مذکور )
صاحب انوارالباری کے اس الزام پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے قاعدہ ہے المرءیقیس علی نفسہ ( انسان دوسروں کو بھی اپنے نفس پر قیاس کیا کرتا ہے ) چونکہ اس تشدد اور چڑانے کا منظر کتاب انوارالباری کے بیشتر مقامات پر ظاہر وباہرہے اس لیے وہ دوسروں کو بھی اسی عینک سے دیکھتے ہیں، حالانکہ واقعات بالکل اس کے خلاف ہیں۔ مقام صدشکرہے کہ یہاں آپ نے اپنی سب سے معتوب جماعت اہل حدیث کو لفظ “ غیرمقلد بھائی ” سے تویادفرمایا۔ اللہ کرے کہ غیرمقلدوں کو یہ بھائی بنانا برادران یوسف کی نقل نہ ہو اور ہمارا تویقین ہے کہ ایسا ہرگز نہ ہوگا۔ اللہ پاک ہم سب کو ناموس اسلام کی حفاظت کے لیے اتفاق باہمی عطا فرمائے۔ سہواً ایسے موقع پر اتنی تقدیم وتاخیر معاف ہے۔ حدیث کا یہی منشا ہے، حنفیہ کو چڑانا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا منشاء نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تشریح میں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیاہے

حدیث نمبر : 125
حدثنا قيس بن حفص، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا الأعمش، سليمان عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال بينا أنا أمشي، مع النبي صلى الله عليه وسلم في خرب المدينة، وهو يتوكأ على عسيب معه، فمر بنفر من اليهود، فقال بعضهم لبعض سلوه عن الروح‏.‏ وقال بعضهم لا تسألوه لا يجيء فيه بشىء تكرهونه‏.‏ فقال بعضهم لنسألنه‏.‏ فقام رجل منهم فقال يا أبا القاسم، ما الروح فسكت‏.‏ فقلت إنه يوحى إليه‏.‏ فقمت، فلما انجلى عنه، قال ‏{‏ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا‏}‏‏.‏ قال الأعمش هكذا في قراءتنا‏ ومااوتوا.‏
ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے، ان سے اعمش سلیمان بن مہران نے ابراہیم کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے علقمہ سے نقل کیا، انھوں نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ ) میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے، تو کچھ یہودیوں کا ( ادھر سے ) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو ( مگر ) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے ( دل میں ) کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( وہ کیفیت ) دور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی ) تلاوت فرمائی “ ( اے نبی! ) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے۔ ” ( اس لیے تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے ) اعمش کہتے ہیں کہ ہماری قرات میں “ ومااوتوا ” ہے۔ ( ومااوتیتم ) نہیں۔

تشریح : چونکہ توارۃ میں بھی روح کے متعلق یہ ہی بیان کیا گیا کہ وہ خدا کی طرف سے ایک چیز ہے، اس لیے یہودی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ان کی تعلیم بھی توراۃ کے مطابق ہے یا نہیں؟ یاروح کے سلسلہ میں یہ بھی ملاحدہ وفلاسفہ کی طرح دوراز کار باتیں کہتے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال آپ سے مکہ شریف میں بھی کیا گیا تھا، پھر مدینہ کے یہودی نے بھی اسے دہرایا۔اہل سنت کے نزدیک روح جسم لطیف ہے جو بدن میں اسی طرح سرایت کئے ہوئے ہے، جس طرح گلاب کی خوشبو اس کے پھول میں سرایت کئے ہوتی ہے۔ روح کے بارے میں ستراقوال ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں ان پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ روح خالص ایک لطیف شئے ہے، اس لیے ہم اپنی موجودہ زندگی میں جو کثافت سے بھرپورہے کسی طرح روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہوسکتے، اکابراہل سنت کی یہی رائے ہے کہ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ روح کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، بعض علماءکی رائے ہے کہ من امرربی سے مراد روح کا عالم امر سے ہونا ہے جو عالم ملکوت ہے، جمہور کا اتفاق ہے کہ روح حادث ہے جس طرح دوسرے تمام اجزا حادث ہیں۔ حضرت امام قدس سرہ کا منشائے باب یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم فاضل محدث مفسر بن جائے مگر پھر بھی انسانی معلومات کا سلسلہ بہت محدود ہے اور کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ وہ جملہ علوم پر حاوی ہوچکا ہے ،الا من شاءاللہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ کو ئی شخص بعض باتوں کو اس خوف سے چھوڑ دے کہ کہیں لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس سے زیادہ سخت ( یعنی ناجائز ) باتوں میں مبتلا نہ ہو جائیں

حدیث نمبر : 126
حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن الأسود، قال قال لي ابن الزبير كانت عائشة تسر إليك كثيرا فما حدثتك في الكعبة قلت قالت لي قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا عائشة، لولا قومك حديث عهدهم ـ قال ابن الزبير بكفر ـ لنقضت الكعبة فجعلت لها بابين باب يدخل الناس، وباب يخرجون‏"‏‏. ‏ ففعله ابن الزبير‏.‏
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے اسرائیل کے واسطے سے نقل کیا، انھوں نے ابواسحاق سے اسود کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا ( ہاں ) مجھ سے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک مرتبہ ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم ( دور جاہلیت کے ساتھ ) قریب نہ ہوتی ( بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی ) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ ( قریب نہ ہوتی ) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، ( بعد میں ) ابن زبیر نے یہ کام کیا۔

تشریح : قریش چونکہ قریبی زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے، اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً کعبہ کی نئی تعمیر کو ملتوی رکھا، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث سن کر کعبے کی دوبارہ تعمیر کی اور ا س میں دودروازے ایک شرقی اور ایک غربی جانب نکال دئیے، لیکن حجاج نے پھر کعبہ کو توڑ کر اسی شکل پر قائم کردیا۔ جس پر عہد جاہلیت سے چلا آرہا تھا۔ اس باب کے تحت حدیث لانے کا حضرت امام کا منشا یہ ہے کہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر کعبہ کا توڑنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتوی فرمادیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگرفتنہ و فساد پھیل جانے کا یا اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہو تووہاں مصلحتاً کسی مستحب کام کوترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ سنت نبوی کا معاملہ الگ ہے۔ جب لوگ اسے بھول جائیں تویقینا اس سنت کے زندہ کرنے والوں کو سوشہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ جس طرح ہندوستانی مسلمان ایک مدت سے جہری نمازوں میں آمین بالجہر جیسی سنت نبوی کو بھولے ہوئے تھے کہ اکابراہل حدیث نے ازسرنو اس سنت نبوی کو زندہ کیا اور کتنے لوگوں نے اس سنت کو رواج دینے میں بہت تکلیف برداشت کی، بہت سے نادانوں نے اس سنت نبوی کا مذاق اڑایا اور اس پر عمل کرنے والوں کے جانی دشمن ہوگئے، مگران بندگان مخلصین نے ایسے نادانوں کی باتوں کو نظر انداز کرکے سنت نبوی کو زندہ کیا، جس کے اثرمیں آج اکثر لوگ اس سنت سے واقف ہوچکے ہیں اور اب ہرجگہ اس پر عمل درآمد کیاجا سکتا ہے۔ پس ایسی سنتوں کا مصلحتاً ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجرمائۃ شہید جو کوئی فساد کے وقت میری سنت کو لازم پکڑے گا اس کو سوشہیدوں کا ثواب ملے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ علم کی باتیں کچھ لوگوں کو بتانا اور کچھ لوگوں کو نہ بتانا اس خیال سے کہ ان کی سمجھ میں نہ آئیں گی ( یہ عین مناسب ہے کیونکہ )

وقال علي حدثوا الناس، بما يعرفون، أتحبون أن يكذب، الله ورسوله حدثنا عبيد الله بن موسى عن معروف بن خربوذ عن أبي الطفيل عن علي بذلك‏.‏
حضرت علی کا ارشاد ہے کہ “ لوگوں سے وہ باتیں کرو جنھیں وہ پہچانتے ہوں۔ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلادیں؟ ”

تشریح : منشایہ ہے کہ ہرشخص سے اس کے فہم کے مطابق بات کرنی چاہئیے، اگرلوگوں سے ایسی بات کی جائے جو ان کی سمجھ سے بالاترہوتوظاہر ہے کہ وہ اس کو تسلیم نہیں کریں گے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاف صریح حدیثیں بیان کرو، جو ان کی سمجھ کے مطابق ہوں۔ تفصیلات کو اہل علم کے لیے چھوڑ دو۔

حدیث نمبر : 127
حدثنا عبيد الله بن موسى عن معروف بن خربوذ عن أبي الطفيل عن علي بذلك‏.‏
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے معروف کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے ابوالطفیل سے نقل کیا، انھوں نے حضرت علی سے مضمون حدیث حدثوا الناس بما یعرفون الخ بیان کیا، ترجمہ گذر چکا ہے۔

حدیث نمبر : 128
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، قال حدثنا معاذ بن هشام، قال حدثني أبي، عن قتادة، قال حدثنا أنس بن مالك، أن النبي صلى الله عليه وسلم ومعاذ رديفه على الرحل قال ‏"‏ يا معاذ بن جبل‏"‏‏. ‏ قال لبيك يا رسول الله وسعديك‏.‏ قال ‏"‏ يا معاذ‏"‏‏. ‏ قال لبيك يا رسول الله وسعديك‏.‏ ثلاثا‏.‏ قال ‏"‏ ما من أحد يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صدقا من قلبه إلا حرمه الله على النار‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله، أفلا أخبر به الناس فيستبشروا قال ‏"‏ إذا يتكلوا‏"‏‏. ‏ وأخبر بها معاذ عند موته تأثما ‏.‏
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، اس نے کہا کہ میرے باپ نے قتادہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ ) حضرت معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( دوبارہ ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( سہ بار ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول، تین بار ایسا ہوا۔ ( اس کے بعد ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو ( دوزخ کی ) آگ پر حرام کر دیتا ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا اس بات سے لوگوں کو باخبر نہ کر دوں تا کہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ نے فرمایا ( اگر تم یہ خبر سناؤ گے ) تو لوگ اس پر بھروسا کر بیٹھیں گے ( اور عمل چھوڑ دیں گے ) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے انتقال کے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں حدیث رسول چھپانے کے گناہ پر ان سے آخرت میں مواخذہ نہ ہو۔

حدیث نمبر : 129
حدثنا مسدد، قال حدثنا معتمر، قال سمعت أبي قال، سمعت أنسا، قال ذكر لي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لمعاذ ‏"‏ من لقي الله لا يشرك به شيئا دخل الجنة‏"‏‏. ‏ قال ألا أبشر الناس قال ‏"‏ لا، إني أخاف أن يتكلوا‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدّد نے بیان کیا، ان سے معتمر نے بیان کیا، انھوں نے اپنے باپ سے سنا، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ ( یقینا ) جنت میں داخل ہو گا، معاذ بولے، یا رسول اللہ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسا کر بیٹھیں گے۔

تشریح : اور اپنی غلط فہمی سے نیک اعمال میں سستی کریں گے۔ نجات اخروی کے اصل الاصول عقیدہ توحید ورسالت کا بیان کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا، جن کے ساتھ لازماً اعمال صالحہ کا ربط ہے۔ جن سے اس عقیدہ کی درستگی کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی لیے بعض روایت میں کلمہ توحید لاالہ الا اللہ کو جنت کی کنجی بتلاتے ہوئے کنجی کے لیے دندانوں کا ہونا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اعمال صالح اس کنجی کے دندانے ہیں۔ بغیر دندانے والی کنجی سے قفل کھولنا محال ہے ایسے ہی بغیراعمال صالحہ کے دعوائے ایمان و دخول جنت ناممکن، اس کے بعد اللہ ہر لغزش کو معاف کرنے والا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے!

وقال مجاهد لا يتعلم العلم مستحى ولا مستكبر وقالت عائشة نعم النساء نساء الأنصار لم يمنعهن الحياء أن يتفقهن في الدين‏.‏
مجاہد کہتے ہیں کہ متکبر اور شرمانے والا آدمی علم حاصل نہیں کر سکتا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے کہ انصار کی عورتیں اچھی عورتیں ہیں کہ شرم انھیں دین میں سمجھ پیدا کرنے سے نہیں روکتی۔

متکبر اپنے تکبر کی حماقت میں مبتلا ہے جو کسی سے تحصیل علم اپنی کسرشان سمجھتا ہے اور شرم کرنے والا اپنی کم عقلی سے ایسی جگہ حیادار بن رہا ہے، جہاں حیا وشرم کا کوئی مقام نہیں۔

حدیث نمبر : 130
حدثنا محمد بن سلام، قال أخبرنا أبو معاوية، قال حدثنا هشام، عن أبيه، عن زينب ابنة أم سلمة، عن أم سلمة، قالت جاءت أم سليم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إن الله لا يستحيي من الحق، فهل على المرأة من غسل إذا احتلمت قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا رأت الماء‏"‏‏. ‏ فغطت أم سلمة ـ تعني وجهها ـ وقالت يا رسول الله وتحتلم المرأة قال ‏"‏ نعم تربت يمينك فبم يشبهها ولدها‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے ہشام نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے زینب بنت ام سلمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ( اپنی والدہ ) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ ام سلیم ( نامی ایک عورت ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا ( اس لیے میں پوچھتی ہوں کہ ) کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( ہاں ) جب عورت پانی دیکھ لے۔ ( یعنی کپڑے وغیرہ پر منی کا اثر معلوم ہو ) تو ( یہ سن کر ) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ( شرم کی وجہ سے ) اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا، یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا، ہاں! تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، پھر کیوں اس کا بچہ اس کی صورت کے مشابہ ہوتا ہے ( یعنی یہی اس کے احتلام کا ثبوت ہے۔ )

تشریح : انصار کی عورتیں ان مخصوص مسائل کے دریافت کرنے میں کسی قسم کی شرم سے کام نہیں لیتی تھیں، جن کا تعلق صرف عورتوں سے ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مسائل کو وضاحت کے ساتھ دریافت نہ کرتیں توآج مسلمان عورتوں کو اپنی زندگی کے اس گوشے کے لیے رہنمائی کہاں سے ملتی، اسی طرح مذکورہ حدیث میں حضرت ام سلیم نے نہایت خوب صورتی کے ساتھ پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت خاص بیان فرمائی کہ وہ حق بات کے بیان میں نہیں شرماتا، پھر وہ مسئلہ دریافت کیا جو بظاہر شرم سے تعلق رکھتا ہے، مگرمسئلہ ہونے کی حیثیت میں اپنی جگہ دریافت طلب تھا،پس پوری امت پر سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا احسان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی زندگی سے متعلق بھی وہ باتیں کھول کر بیان فرمادیں جنھیں عام طور پر لوگ بے جاشرم کے سہارے بیان نہیں کرتے اور دوسری طرف صحابیہ عورتوں کی بھی یہ امت بے حد ممنون ہے کہ انھوں نے آپ سے سب مسائل دریافت کرڈالے، جن کی ہرعورت کو ضرورت پیش آتی ہے۔

حضرت زینب بنت عبداللہ بن الاسد مخزومی اپنے زمانہ کی بڑی فاضلہ خاتون تھیں، ان کی والدہ ماجدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند عبداللہ کی وفات بعد غزوئہ احد کے عدت گزارنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے مشرف ہوئیں توان کی تربیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس ہوئی۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اسلام میں پہلی خاتون ہیں جنھوں نے مدینہ طیبہ کو ہجرت کی، ان کے خاوند ابوسلمہ بدرمیں شریک تھے، احد میں یہ مجروح ہوئے اور بعد میں وفات پائی، جن کے جنازے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوتکبیروں سے نمازجنازہ ادا فرمائی تھی، اس وقت ام سلمہ حاملہ تھیں۔ وضع حمل کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں ان کو شرف حاصل ہوا۔ حضرت ام سلیم حضرت انس کی والدہ محترمہ ہیں اور حضرت ابوطلحہ انصاری کی زوجہ مطہرہ ہیں، اسلام میں ان کا بھی بڑا اونچا مقام ہے رضی اللہ عنہم اجمعین۔

حدیث نمبر : 131
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن من الشجر شجرة لا يسقط ورقها، وهي مثل المسلم، حدثوني ما هي‏"‏‏. ‏ فوقع الناس في شجر البادية، ووقع في نفسي أنها النخلة‏.‏ قال عبد الله فاستحييت‏.‏ فقالوا يا رسول الله، أخبرنا بها‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هي النخلة‏"‏‏. ‏ قال عبد الله فحدثت أبي بما وقع في نفسي فقال لأن تكون قلتها أحب إلى من أن يكون لي كذا وكذا‏.‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے عبداللہ بن دینار کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک مرتبہ ) فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت ( ایسا ) ہے۔ جس کے پتے ( کبھی ) نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کیا ( درخت ) ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں ( کی سوچ ) میں پڑ گئے اور میرے دل میں آیا ( کہ میں بتلا دوں ) کہ وہ کھجور ( کا پیڑ ) ہے، عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آ گئی ( اور میں چپ ہی رہا ) تب لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی ( خود ) اس کے بارہ میں بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کھجور ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے جی میں جو بات تھی وہ میں نے اپنے والد ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ ) کو بتلائی، وہ کہنے لگے کہ اگر تو ( اس وقت ) کہہ دیتا تو میرے لیے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا۔

تشریح : اس سے قبل بھی دوسرے باب کے تحت یہ حدیث آچکی ہے۔ یہاں اس لیے بیان کی ہے کہ ا س میں شرم کا ذکر ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اگرشرم نہ کرتے تو جواب دینے کی فضیلت انھیں حاصل ہوجاتی، جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایاکہ اگر تم بتلادیتے تو میرے لیے بہت بڑی خوشی ہوتی۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر شرم سے کام نہ لینا چاہئیے۔ اس سے اولاد کی نیکیوں اور علمی صلاحیتوں پر والدین کا خوش ہونا بھی ثابت ہوا جو ایک فطری امرہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ مسائل شرعیہ معلوم کرنے میں جو شخص ( کسی معقول وجہ سے ) شرمائے وہ کسی دوسرے آدمی کے ذریعے سے مسئلہ معلوم کر لے۔

حدیث نمبر : 132
حدثنا مسدد، قال حدثنا عبد الله بن داود، عن الأعمش، عن منذر الثوري، عن محمد ابن الحنفية، عن علي، قال كنت رجلا مذاء فأمرت المقداد أن يسأل النبي صلى الله عليه وسلم فسأله فقال ‏"‏ فيه الوضوء‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ ابن داؤد نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے منذر ثوری سے نقل کیا، انھوں نے محمد ابن الحنفیہ سے نقل کیا، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایسا شخص تھا جسے جریان مذی کی شکایت تھی، تو میں نے ( اپنے شاگرد ) مقداد کو حکم دیا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں۔ تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس (مرض) میں غسل نہیں ہے ( ہاں ) وضو فرض ہے۔

تشریح : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے رشتہ دامادی کی بنا پر اس مسئلے کے بارے میں شرم محسوس کی مگر مسئلہ معلوم کرنا ضروری تھا تووہ دوسرے صحابی کے ذریعے دریافت کرایا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوتا ہے۔
 
Top