• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ایمان والوں کا عمل میں ایک دوسرے سے بڑھ جانا ( عین ممکن ہے )

حدیث نمبر : 22
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن عمرو بن يحيى المازني، عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري، رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يدخل أهل الجنة الجنة، وأهل النار النار، ثم يقول الله تعالى أخرجوا من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان‏.‏ فيخرجون منها قد اسودوا فيلقون في نهر الحيا ـ أو الحياة، شك مالك ـ فينبتون كما تنبت الحبة في جانب السيل، ألم تر أنها تخرج صفراء ملتوية‏"‏‏. ‏ قال وهيب حدثنا عمرو ‏"‏ الحياة‏"‏‏. ‏ وقال ‏"‏ خردل من خير‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ان سے مالک نے، وہ عمرو بن یحییٰ المازنی سے نقل کرتے ہیں، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور وہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔ اللہ پاک فرمائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ( بھی ) ایمان ہو، اس کو بھی دوزخ سے نکال لو۔ تب ( ایسے لوگ ) دوزخ سے نکال لیے جائیں گے اور وہ جل کر کوئلے کی طرح سیاہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر زندگی کی نہر میں یا بارش کے پانی میں ڈالے جائیں گے۔ ( یہاں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ اوپر کے راوی نے کون سا لفظ استعمال کیا ) اس وقت وہ دانے کی طرح اگ آئیں گے جس طرح ندی کے کنارے دانے اگ آتے ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ دانہ زردی مائل پیچ در پیچ نکلتا ہے۔ وہیب نے کہا کہ ہم سے عمرو نے ( حیا کی بجائے ) حیاۃ، اور ( خردل من ایمان ) کی بجائے ( خردل من خیر ) کا لفظ بیان کیا۔

تشریح : اس حدیث سے صاف ظاہر ہوا کہ جس کسی کے دل میں ایمان کم سے کم ہوگا۔ کسی نہ کسی دن وہ مشیت ایزدی کے تحت اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان پر نجات کا مدار تو ہے۔ مگر اللہ کے یہاں درجات اعمال ہی سے ملیں گے۔ جس قدر اعمال عمدہ اور نیک ہوں گے اس قدر اس کی عزت ہوگی۔

اس سے ظاہر ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور یہ کہ کچھ لوگ ایمان میں ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض کے قلوب میں ایمان محض ایک رائی کے دانہ برابر ہوتا ہے۔ حدیث نبوی میں اس قدر وضاحت کے بعد بھی جو لوگ جملہ ایمان داروں کا ایمان یکساں مانتے ہیں اور کمی بیشی کے قائل نہیں ان کے اس قول کا خود اندازہ کرلینا چاہئیے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ووجہ مطابقۃ ہذاالحدیث للترجمۃ ظاہر وارادبایرادہ الرد علی المرجئۃ لما فیہ من ضرر المعاصی مع الایمان وعلی المعتزلۃ فی ان المعاصی موجبۃ للخلود یعنی اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے اور حضرت مصنف رحمہ اللہ کا یہاں اس حدیث کے لانے سے مقصد مرجیہ کی تردید کرنا ہے۔ اس لیے کہ اس میں ایمان کے باوجود معاصی کا ضرر ونقصان بتلایا گیا ہے اور معتزلہ پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ گنہ گار لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔

حدیث نمبر : 23

حدثنا محمد بن عبيد الله، قال حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، عن أبي أمامة بن سهل، أنه سمع أبا سعيد الخدري، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بينا أنا نائم رأيت الناس يعرضون على، وعليهم قمص منها ما يبلغ الثدي، ومنها ما دون ذلك، وعرض على عمر بن الخطاب وعليه قميص يجره‏"‏‏. ‏ قالوا فما أولت ذلك يا رسول الله قال ‏"‏ الدين‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن عبیداللہ نے یہ حدیث بیان کی، ان سے ابراہیم بن سعد نے، وہ صالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابن شہاب سے، وہ ابوامامہ بن سہل بن حنیف سے راوی ہیں، وہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک وقت سو رہا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں۔ کسی کا کرتہ سینے تک ہے اور کسی کا اس سے نیچا ہے۔ ( پھر ) میرے سامنے عمر بن الخطاب لائے گئے۔ ان ( کے بدن ) پر ( جو ) کرتا تھا۔ اسے وہ گھسیٹ رہے تھے۔ ( یعنی ان کا کرتہ زمین تک نیچا تھا ) صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اس کی کیا تعبیر ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ( اس سے ) دین مراد ہے۔

تشریح : مطلب یہ ہے کہ دین حضرت عمراکی ذات میں اس طرح جمع ہوگیا کہ کسی اور کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت اپنی فداکاری وجاں نثاری اور دینی عظمت واہلیت کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بڑھ کرہے اور بزرگی وعظمت میں وہ سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ مگر اسلام کی جو ترقی اور بحیثیت دین کے جو شوکت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات سے ہوئی وہ بہت بڑھ چڑھ کرہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کا کرتہ سب سے بڑا تھا، اس لیے ان کی دینی فہم بھی اور وں سے بڑھ کر تھی۔ دین کی اسی کمی بیشی میں ان کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان کم وبیش نہیں ہوتا۔ اس روایت کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے۔

ومطابقتہ للترجمۃ ظاہرۃ من جہۃ تاویل القمص بالدین وقد ذکر انہم متفاضلون فی لبسھا فدل علی انہم متفاضلون فی الایمان ( فتح ) یعنی حدیث اور باب کی مطابقت بایں طور پر ظاہر ہے کہ قمیصوں سے دین مراد ہے اور مذکور ہوا کہ لوگ ان کے پہننے میں کمی بیشی کی حالت میں ہیں۔ یہی دلیل ہے کہ وہ ایمان میں بھی کم وبیش ہیں۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفی ہذا الحدیث التشبیہ البلیغ وہو تشبیہ الدین بالقمیص لانہ لیسترعورۃ الانسان وکذلک الدین یسترہ من النار وفیہ الدلالۃ علی التفاضل فی الایمان کما ہو مفہوم تاویل القمیص الدین مع ماذکرہ من ان اللابسین یتفاضلون فی لبسہ یعنی اس حدیث میں ایک گہری بلیغ تشبیہ ہے جو دین کو قمیص کے ساتھ دی گئی ہے، قمیص انسان کے جسم کو چھپانے والی ہے، اسی طرح دین اسے دوزخ کی آگ سے چھپالے گا، اس میں ایمان کی کمی بیشی پر بھی دلیل ہے جیسا کہ قمیص کے ساتھ دین کی تعبیر کا مفہوم ہے۔ جس طرح قمیص پہننے والے اس کے پہننے میں کم وبیش ہیں اسی طرح دین میں بھی لوگ کم وبیش درجات رکھتے ہیں، پس ایمان کی کمی وبیشی ثابت ہوئی۔ اس حدیث کے جملہ راوی مدنی ہیں حضرت امام المحدثین آگے ان چیزوں کا بیان شروع فرما رہے ہیں، جن کے نہ ہونے سے ایمان میں نقص لازم آتا ہے۔
چنانچہ اگلا باب اس مضمون سے متعلق ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : شرم و حیا بھی ایمان سے ہے

حدیث نمبر : 24
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك بن أنس، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على رجل من الأنصار وهو يعظ أخاه في الحياء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ دعه فإن الحياء من الإيمان‏"‏‏. ‏
عبداللہ ابن یوسف نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مالک بن انس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ سالم بن عبداللہ سے نقل کرتے ہیں، وہ اپنے باپ ( عبداللہ بن عمر ) سے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری شخص کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ اپنے ایک بھائی سے کہہ رہے تھے کہ تم اتنی شرم کیوں کرتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری سے فرمایا کہ اس کو اس کے حال پر رہنے دو کیونکہ حیا بھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے۔

تشریح : بخاری کتاب الادب میں یہی روایت ابن شہاب سے آئی ہے۔ اس میں لفظ یعظ کی جگہ یعاتب ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ انصاری اس کو اس بارے میں عتاب کررہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری سے فرمایا اسے اس کی حالت پر رہنے دو۔ حیا ایمان ہی کا حصہ ہے۔

حیا کی حقیقت یہ ہے کہ انسان برائی کی نسبت اپنے نام کے ساتھ ہونے سے ڈرے۔ حرام امورمیں حیا کرنا واجب ہے اور مکروہات میں بھی حیا کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ الحیاءلایاتی الابخیر کا یہی مطلب ہے کہ حیا خیر ہی خیرلاتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے۔ خف اللہ علی قدرتہ علیک واستحی منہ علی قدرتہ قربہ منک۔ اللہ کا خوف پیدا کرو اس اندازہ کے مطابق کہ وہ تمہارے اوپر کتنی زبردست قدرت رکھتا ہے اور اس سے شرم رکھو یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ وہ تم سے کس قدر قریب ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کا خوف پورے طور پر ہو کہ تمہارے اوپر اپنی قدرت کامل رکھتا ہے جب وہ چاہے اور جس طرح چاہے تم کو پکڑے اور اس سے شرم وحیا بھی اس خیال سے ہونی چاہئیے کہ وہ تمہاری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
الغرض حیا اور شرم انسان کا ایک فطری نیک جذبہ ہے جو اسے بے حیائی سے روک دیتا ہے اور اس کے طفیل وہ بہت سے گناہوں کے ارتکاب سے بچ جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حیا سے مراد وہ بے جاشرم نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان کی جرات عمل ہی مفقود ہوجائے۔ وہ اپنے ضروری فرائض کی ادائیگی میں بھی شرم وحیا کا بہانہ تلاش کرنے لگے۔ حضرت امام المحدثین اس حدیث کی نقل سے بھی مرجیہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو ایمان کو صرف قول بلاعمل مانتے ہیں۔ حالانکہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امیں جملہ اعمال صالحہ وعادات سیئہ کو ایمان ہی کے اجزا قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث بالاسے ظاہر ہے کہ حیاشرم جیسی پاکیزہ عادت بھی ایمان میں داخل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں کہ اگر وہ ( کافر ) توبہ کر لیں اورنماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ( یعنی ان سے جنگ نہ کرو )

حدیث نمبر : 25
حدثنا عبد الله بن محمد المسندي، قال حدثنا أبو روح الحرمي بن عمارة، قال حدثنا شعبة، عن واقد بن محمد، قال سمعت أبي يحدث، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، ويقيموا الصلاة، ويؤتوا الزكاة، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام، وحسابهم على الله‏"‏‏. ‏
اس حدیث کو ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، ان سے ابوروح حرمی بن عمارہ نے، ان سے شعبہ نے، وہ واقد بن محمد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں میں نے یہ حدیث اپنے باپ سے سنی، وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے ( اللہ کی طرف سے ) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔ ( رہا ان کے دل کا حال تو ) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔

تشریح : علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابواب ایمان میں لانے سے فرقہ ضالہ مرجیہ کی تردید مقصود ہے جن کا گمان ہے کہ ایمان کے لیے عمل کی حاجت نہیں۔ آیت اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے توبہ کرنے اور نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ان کا راستہ چھوڑدو یعنی جنگ نہ کرو۔ اور حدیث میں اس کی تفسیر مزید کے طور پر نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ کلمہ شہات کا بھی ذکر کیاگیا اور بتلایاگیا کہ جو لوگ ان ظاہری اعمال کو بجالائیں گے ان کو یقینا مسلمان ہی تصور کیا جائے گا اور وہ جملہ اسلامی حقوق کے مستحق ہوں گے۔ رہا ان کے دل کا حال سو وہ اللہ کے حوالہ ہے کہ دلوں کے بھیدوں کا جاننے والا وہی ہے۔

الابحق الاسلام کا مطلب یہ کہ قوانین اسلام کے تحت اگر وہ کسی سزا یاحد کے مستحق ہوں گے تو اس وقت ان کا ظاہری اسلام اس بارے میں رکاوٹ نہ بن سکے گا اور شرعی سزا بالضرور ان پر لاگو ہوگی۔ جیسے محصن زانی کے لیے رجم ہے۔ ناحق خون ریزی کرنے والے کے لیے قصاص ہے۔ یاجیسے وہ لوگ تھے جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد زکوٰۃ سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صاف صاف فرمادیا کہ لاقاتلن من فرق بین الصلوۃ والزکوٰۃ جو لوگ نماز کی فرضیت کے قائل ہیں مگر زکوٰۃ کی فرضیت اور ادائیگی سے انکار کررہے ہیں ان سے میں ضرور مقابلہ کروں گا۔ الابحق الاسلام میں ایسے جملہ امور داخل ہیں۔
آیت شریفہ مذکورہ سورۃ توبہ میں ہے جو پوری یہ ہے فاذا انسلخ الاشہر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم وخذوہم واحصروہم واقعدوالہم کل مرصد فان تابوا واقامواالصلوۃ واٰتواالزکوٰۃ فخلوا سبیلہم ان اللہ غفور رحیم ( التوبہ: 5 ) یعنی حرمت کے مہینے گزرنے کے بعد ( مدافعانہ طور پر ) مشرکین سے جنگ کرو اور جہاں بھی تمہارا داؤلگے ان کو مارو، پکڑو، قیدکرو اور ان کے پکڑنے یا زیرکرنے کے لیے ہرگھات میں بیٹھو۔ پھر اگر وہ شرارت سے توبہ کریں اور ( اسلام قبول کرکے ) نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑدو۔ کیونکہ اللہ پاک بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت شریفہ کا تعلق ان مشرکین عرب کے ساتھ ہے جنھوں نے مسلمانوں کو ایک لمحہ کے لیے بھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیا اور ہر وقت وہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی فکر میں رہے اور “ خود جیو اور دوسروں کو جینے دو ” کا فطری اصول قطعاً بھلادیا۔ آخر مسلمانوں کو مجبوراً مدافعت کے لیے قدم اٹھانا پڑا۔ آیت کا تعلق ان ہی لوگوں سے ہے اس پر بھی ان کو آزادی دی گئی کہ اگروہ جارحانہ اقدام سے بازآجائیں اور جنگ بند کرکے جزیہ ادا کریں تو ان کو امن دیا جائے گا اور اگر اسلام قبول کرلیں تو پھر وہ اسلامی برادری کے فرد بن جائیں گے اور جملہ اسلامی حقوق ان کو حاصل ہوں گے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ویؤخذ من ہذا الحدیث قبول الاعمال الظاہرۃ والحکم بمایقتضیہ الظاہر والاکتفاءفی قبول الایمان بالاعتقاد الجازم۔ یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال ظاہری کو قبول کیا جائے گا اور ظاہری حال ہی پر حکم لگایا جائے گا اور پختہ اعتقاد کو قبولیت ایمان کے لیے کافی سمجھا جائے گا۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ویوخذ منہ ترک تکفیر اہل البدع المقرین بالتوحید الملتزمین للشرائع وقبول توبۃ الکافر من کفرہ من غیرتفصیل بین کفر ظاہر اوباطن یعنی اس حدیث سے یہ بھی لیا جائے گا کہ جو اہل بدعت توحید کے اقراری اور شرائع کا التزام کرنے والے ہیں ان کی تکفیر نہ کی جائے گی اور یہ کہ کافر کی توبہ قبول کی جائے گی اور اس کی تفصیل میں نہ جائیں گے کہ وہ توبہ ظاہری کررہا ہے یا اس کے دل سے بھی اس کا تعلق ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ اللہ کے حوالہ ہے۔ ہاں جو لوگ محبت بدعت میں گرفتار ہوکر علانیہ توہین و انکار سنت کریں گے وہ ضرور آیت کریمہ فان تولوا فان اللہ لایحب الکفرین ( آل عمران: 32 ) کے مصداق ہوں گے۔
حضرت امام المحدثین مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے اور یہ بتلاتے ہوئے کہ اعمال بھی ایمان ہی میں داخل ہیں، تفصیل مزید کے طور پر آگے بتلانا چاہتے ہیں کہ بہت سی آیات قرآنی واحادیث نبوی میں لفظ عمل استعمال ہوا ہے اور وہاں اس سے ایمان مراد ہے۔ پس مرجیہ کا یہ قول کہ ایمان قول بلاعمل کا نام ہے، باطل ہے۔
حضرت علامہ مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفی الحدیث رد علی المرجئۃ فی قولہم ان الایمان غیرمفتقر الی الاعمال وفیہ تنبیہ علی ان الاعمال من الایمان والحدیث موافق لقولہ تعالیٰ فان تابوا واقامواالصلوۃ فخلوا سبیلہم متفق علیہ اخرجہ البخاری فی الایمان والصلوۃ ومسلم فی الایمان الا ان مسلمالم یذکر الابحق الاسلام لکنہ مراد والحدیث اخرجہ ایضا الشیخان من حدیث ابی ہریرۃ والبخاری من حدیث انس ومسلم من حدیث جابر ( مرعاۃ جلد: اولص: 36 ) مراد وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب الایمان اور کتاب الصلوٰۃ میں نقل کیا ہے اور امام مسلم نے صرف ایمان میں اور وہاں لفظ الابحق الاسلام ذکر نہیں ہوا لیکن مراد وہی ہے نیز اس حدیث کو شیخان نے حدیث ابوہریرۃ سے اور بخاری نے حدیث انس سے اور مسلم نے حدیث جابر سے بھی روایت کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس شخص کے قول کی تصدیق میں جس نے کہا ہے کہ ایمان عمل ( کا نام ) ہے

لقول الله تعالى ‏{‏وتلك الجنة التي أورثتموها بما كنتم تعملون‏}‏‏.‏ وقال عدة من أهل العلم في قوله تعالى ‏{‏فوربك لنسألنهم أجمعين * عما كانوا يعملون‏}‏ عن قول لا إله إلا الله‏.‏ وقال ‏{‏لمثل هذا فليعمل العاملون‏}‏‏.‏
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے “ اور یہ جنت ہے اپنے عمل کے بدلے میں تم جس کے مالک ہوئے ہو ” اور بہت سے اہل علم حضرات ارشاد باری تعالیٰ فوربک الخ کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہاں عمل سے مراد “ لا الہ الا اللہ ” کہنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ “ عمل کرنے والوں کو اسی جیسا عمل کرنا چاہئے۔ ”

حدیث نمبر : 26
حدثنا أحمد بن يونس، وموسى بن إسماعيل، قالا حدثنا إبراهيم بن سعد، قال حدثنا ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل أى العمل أفضل فقال ‏"‏ إيمان بالله ورسوله‏"‏‏. ‏ قيل ثم ماذا قال ‏"‏ الجهاد في سبيل الله‏"‏‏. ‏ قيل ثم ماذا قال ‏"‏ حج مبرور‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن یونس اور موسیٰ بن اسماعیل دونوں نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، وہ سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ” کہا گیا، اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ” کہا گیا، پھر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ حج مبرور ”۔

تشریح : حضرت امام قدس سرہ یہاں بھی ثابت فرما رہے ہیں کہ ایمان اور عمل ہردوشے درحقیقت ایک ہی ہیں اور قرآنی آیات میں جو یہاں مذکور ہیں لفظ عمل استعمال کرکے ایمان مراد لیا گیا ہے۔ جیسا کہ آیت کریمہ وتلک الجنۃ التی اور ثتموہا بما کنتم تعملون ( الزخرف: 72 ) میں ہے اور بہت سے اہل علم جیسے حضرت انس بن مالک اور مجاہد اور عبداللہ بن عمر نے بالاتفاق کہا ہے کہ آیت کریمہ فوربک الخ میں عما کانوا یعملون ( الحجر: 93 ) سے کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ پڑھنا اور اس پر عمل کرنامراد ہے کہ قیامت کے دن اسی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آیت شریفہ لمثل ہذا فلیعمل العملون ( الصافات: 61 ) میں بھی ایمان مراد ہے۔ مقصد یہ کہ کتاب اللہ کی اسی قسم کی جملہ آیات میں عمل کالفظ استعمال میں لاکر ایمان مراد لیا گیا ہے۔ پھر حدیث مذکور میں نہایت صاف لفظوں میں موجود ہے ای العمل افضل کون سا عمل بہترہے؟ جواب میں فرمایا ایمان باللہ ورسولہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ یہاں اس بارے میں ایسی صراحت موجود ہے جس میں کسی تاویل کی گنجائش ہی نہیں۔ باب کا مطلب بھی یہیں سے نکلتا ہے، کیونکہ یہاں ایمان کو صاف صاف لفظوں میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ عمل سے تعبیر فرمایا ہے اور دوسرے اعمال کو اس لیے ذکر فرمایا کہ ایمان سے یہاں اللہ ورسول پر یقین رکھنا مراد ہے۔ اسی ایمانی طاقت کے ساتھ مرد مومن میدان جہاد میں گامزن ہوتا ہے۔ حج مبرور سے خالص حج مراد ہے جس میں ریا ونمود کا شائبہ نہ ہو۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ حج کے بعد آدمی گناہوں سے توبہ کرے۔ پھر گناہ میں مبتلا نہ ہو۔

علامہ سندی فرماتے ہیں: فماوقع فی القرآن من عطف العمل علی الایمان فی مواضع فہو من عطف العام علی الخالص لمزید الاہتمام بالخاص واللہ اعلم یعنی قرآن پاک کے بعض مقامات پر عمل کا عطف ایمان پر واقع ہوا ہے اور یہ اہتمام خاص کے پیش نظر عام کا عطف خاص پر ہے۔ خلاصہ یہ کہ جو لوگ ایمان قول بلاعمل کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ سراسر خطا پر ہیں اور کتاب وسنت سے ان کا یہ عقیدہ باطل ظاہر و باہرہے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے والے حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ تھے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں ایمان باللہ کے بعد جہاد کا پھر حج مبرور کا ذکر ہے۔ حدیث ابوذر میں حج کا ذکر چھوڑ کر عتق یعنی غلام آزاد کرنے کا ذکر ہے۔ حدیث ابن مسعود میں نماز پھر بر ( نیکی ) پھر جہاد کا ذکر ہے۔ بعض جگہ پہلے اس شخص کا ذکر ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامتی میں رہیں۔ یہ جملہ اختلافات احوال مختلفہ کی بنا پر اور اہل خطاب کی ضروریات کی بنا پر ہیں۔ بعض جگہ سامعین کوجوچیز معلوم تھیں ان کا ذکر نہیں کیاگیا اور جو معلوم کرانا تھا اسے ذکر کردیاگیا۔ اس روایت میں جہاد کو مقدم کیا جو ارکان خمسہ میں سے نہیں ہے اور حج کو مؤخر کیاجوارکان خمسہ میں سے ہے۔ یہ اس لیے کہ جہاد کا نفع متعدی ہے یعنی پوری ملت کو حاصل ہو سکتا ہے اور حج کا نفع ایک حاجی کی ذات تک منحصرہے۔ آیت شریفہ وتلک الجنۃ الخ سورۃ زخزف میں ہے اور آیت شریفہ فوربک الخ سورۃ حجر میں ہے اور آیت شریفہ لمثل ہذا الخ سورۃ صافات میں ہے۔
تنبیہ: حضرت امام الدنیا فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے جملہ تراجم ابواب پر نظر غائر ڈالنے سے آپ کی دقت نظرو وسعت معلومات، مجتہدانہ بصیرت، خدادادقابلیت روزروشن کی طرح واضح ہوتی ہے۔ مگرتعصب کا برا ہو آج کل ایک جماعت نے اسی کو “ خدمت حدیث ” قرار دیا ہے کہ آپ کی علمی شان پر جاوبےجا حملے کرکے آپ کے خداداد مقام کو گرایا جائے اور صحیح بخاری شریف کو اللہ نے جوقبولیت عام عطا کی ہے جس طور پر بھی ممکن ہواسے عدم قبولیت میں تبدیل کیاجائے۔ اگرچہ ان حضرات کی یہ غلط کوشش بالکل بے سود ہے۔ پھر بھی کچھ سادہ لوح مسلمان ان کی ایسی نامبارک مساعی سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ ان “ حضرات ” کی ایک نئی اپج یہ بھی ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حدیث نبوی کے لیے ناقل محض تھے۔ مجتہدانہ بصیرت ان کے حصہ میں نہیں آئی تھی۔ یہ قول اتنا باطل اور بے ہودہ ہے کہ اس کی تردید میں دفاتر لکھے جاسکتے ہیں۔ مگربخوف طوالت ہم سردست صرف حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مختصر تبصرہ نقل کرتے ہیں جس سے واضح ہوجائے گا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں ایسی ہرزہ سرائی کرنے والوں کی دیانت وامانت کس درجہ میں ہے۔ یہ تبصرہ حضرت العلام مولانا وحیدالزماں رحمۃ اللہ علیہ کے لفظوں میں یہ ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بعض تالیفات میں لکھا ہے کہ ایک دن ہم اس حدیث میں بحث کررہے تھے۔ لوکان الایمان عندالثریا لنالہ رجال اور جل من ہولاءیعنی اہل فارس وفی روایۃ لنالہ رجال من ہولاء میں نے کہا امام بخاری رحمہ اللہ ان لوگوں میں داخل ہیں۔ اس لیے کہ خدائے منان نے حدیث کا علم انھیں کے ہاتھوں مشہور کیا ہے اور ہمارے زمانے تک حدیث باسناد صحیح متصل اسی مرد کی ہمت مردانہ سے باقی رہی۔ ( جس شخص کے ساتھ بحث ہورہی تھی ) وہ شخص اہل حدیث سے ایک قسم کا بغض رکھتا تھا جیسے ہمارے زمانے کے اکثر فقیہوں کا حال ہے۔ خدا ان کو ہدایت کرے اس نے میری بات کو پسند نہ کیا اور کہاکہ امام بخاری حدیث کے حافظ تھے نہ عالم۔ ان کو ضعیف اور حدیث صحیح کی پہچان تھی لیکن فقہ اور فہم میں کامل نہ تھے ( اے جاہل! تونے امام بخاری رحمہ اللہ کی تصنیفات پر غور نہیں کی اور نہ ایسی بات ان کے حق میں نہیں نکالتا۔ وہ توفقہ اور فہم اور باریکی استنباط میں طاق ہیں اور مجتہد مطلق ہیں اور اس کے ساتھ حافظ حدیث بھی تھے، یہ فضیلت کسی مجتہد کو بہت کم نصیب ہوتی ہے ) شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے اس شخص کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ ( کیونکہ جواب جاہلاں باشد خموشی ) اور اپنے لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اور میں نے کہا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں لکھتے ہیں: محمدابن اسماعیل امام الدنیا فی فقہ الحدیث یعنی امام بخاری رحمہ اللہ سب دنیا کے امام ہیں فقہ حدیث میں اور یہ امر اس شخص کے نزدیک جس نے فن حدیث کا تتبع کیاہو، بدیہی ہے۔ بعد اس کے میں نے امام بخاری رحمہ اللہ کی چند تحقیقات علمیہ جو سوا ان کے کسی نے نہیں کی ہیں، بیان کیں اور جو کچھ خدا نے چاہا وہ میری زبان سے نکلا۔ ( مقدمہ تیسیرالباری، ص: 27-28 )
صاحب ایضاح البخاری ( دیوبند ) نے بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو ایک مجتہد تسلیم کیا ہے۔ جیسا کہ اسی کتاب کے مقدمہ پر مرقوم ہے۔ مگر دوسری طرف کچھ ایسے متعصب بھی موجود ہیں جن کا مشن ہی یہ ہے کہ جس طور بھی ممکن ہو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی تخفیف و تنقیص وتجہیل کی جائے۔
ایسے حضرات کو یہ حدیث قدسی یادرکھنی چاہئیے من عادیٰ لی ولیا فقد اذنتہ بالحرب اللہ کے پیارے بندوں سے عداوت رکھنے والے خدا سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں اور نتیجہ دیکھ لیں کہ اس جنگ میں ان کو کیا حاصل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اللہ کے پیارے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے فدائی تھے۔
یہ عرض کردینا بھی ضروری ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی اپنی جگہ پر امت کے لیے باعث صدفخر ہیں۔ ان کی مجتہدانہ مساعی کے شکریہ سے امت کسی صورت میں بھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ مگران کی تعریف اور توصیف میں ہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تنقیص و تجہیل کرنا شروع کردیں، یہ انتہائی غلط قدم ہوگا۔ اللہ ہم سب کو نیک سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔
حضرت امام بخاری قدس سرہ کے مناقب کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ وہ نہ صرف محدث، فقیہ، مفسر بلکہ ولی کامل بھی تھے۔ خدا پر ستی اور استغراق کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ نماز کی حالت میں آپ کو زنبور نے سترہ بار کاٹا اور آپ نے نماز میں اف تک نہ کی۔ نماز کے بعدلوگوں نے دیکھا کہ سترہ جگہ زنبور کا ڈنک لگا اور جسم کا بیشتر حصہ سوج گیا ہے۔ آپ کی سخاوت کا ہرطرف چرچا تھا خصوصاً طلبائے اسلام کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے، اسی لیے علمائے معاصرین میں سے بہت بڑی تعداد کا یہ متفقہ قول ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کو علماء پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی کہ مردوں کو عورتوں پر حاصل ہے، وہ اللہ پاک کی آیات قدرت میں سے زمین پر چلنے پھرنے والی ایک زندہ نشانی تھے، ( رحمۃ اللہ علیہ )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ مناقب حضرت امام بخاری کے مشائخ اور ان کے زمانہ کے علماءکے بیان کردہ ہیں اگر ہم بعد والوں کے بھی اقوال نقل کریں توکاغذ ختم ہوجائیں گے اور عمرتمام ہوجائے گی مگر ہم ان سب کو نہ لکھ سکیں گے۔ مطلب یہ کہ بے شمار علماء نے ان کی تعریف کی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب حقیقی اسلام پر کوئی نہ ہو
إذا لم يكن الإسلام على الحقيقة وكان على الاستسلام أو الخوف من القتل‏,‏ لقوله تعالى ‏{‏قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا أسلمنا‏}‏‏.‏ فإذا كان على الحقيقة فهو على قوله جل ذكره ‏{‏إن الدين عند الله الإسلام‏}‏ ‏{‏ومن يبتغ غير الإسلام دينا فلن يقبل منه‏}‏
بلکہ محض ظاہر طور پر مسلمان بن گیا ہو یا قتل کے خوف سے تو ( لغوی حیثیت سے اس پر ) مسلمان کا اطلاق درست ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ جب دیہاتیوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے آپ کہہ دیجیئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ظاہر طور پر مسلمان ہو گئے۔ لیکن اگر ایمان حقیقتاً حاصل ہو تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد ( بے شک دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے ) کا مصداق ہے۔ آیات شریفہ میں لفظ ایمان اور اسلام ایک ہی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

حدیث نمبر : 27
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن سعد، رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطى رهطا وسعد جالس، فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا هو أعجبهم إلى فقلت يا رسول الله ما لك عن فلان فوالله إني لأراه مؤمنا‏.‏ فقال ‏"‏ أو مسلما‏"‏‏. ‏ فسكت قليلا، ثم غلبني ما أعلم منه فعدت لمقالتي فقلت ما لك عن فلان فوالله إني لأراه مؤمنا فقال ‏"‏ أو مسلما‏"‏‏. ‏ ثم غلبني ما أعلم منه فعدت لمقالتي وعاد رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال ‏"‏ يا سعد، إني لأعطي الرجل وغيره أحب إلى منه، خشية أن يكبه الله في النار‏"‏‏. ‏ ورواه يونس وصالح ومعمر وابن أخي الزهري عن الزهري‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انھیں عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے والد سعد رضی اللہ عنہ سے سن کر یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو کچھ عطیہ دیا اور سعد وہاں موجود تھے۔ ( وہ کہتے ہیں کہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہ دیا۔ حالانکہ وہ ان میں مجھے سب سے زیادہ پسند تھا۔ میں نے کہا حضور آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا حالانکہ میں اسے مومن گمان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن یا مسلمان؟ میں تھوڑی دیر چپ رہ کر پھر پہلی بات دہرانے لگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوبارہ وہی جواب دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سعد! باوجود یہ کہ ایک شخص مجھے زیادہ عزیز ہے ( پھر بھی میں اسے نظر انداز کر کے ) کسی اور دوسرے کو اس خوف کی وجہ سے یہ مال دے دیتا ہوں کہ ( وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے اور ) اللہ اسے آگ میں اوندھا ڈال دے۔ اس حدیث کو یونس، صالح، معمر اور زہری کے بھتیجے عبداللہ نے زہری سے روایت کیا۔

تشریح : آیت کریمہ میں بنواسد کے کچھ بدویوں کا ذکر ہے جو مدینہ میں آکر اپنے اسلام کا اظہار بطور احسان کررہے تھے، اللہ نے بتایا کہ یہ ہمارا احسان ہے نہ کہ تمہارا۔ حضرت سعدنے اس شخص کے بارے میں قسم کھاکر مومن ہونے کا بیان دیا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ ایمان دل کا فعل ہے کسی کو کسی کے باطن کی کیا خبر، ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا حکم لگاسکتے ہو۔ اس باب اور اس کے ذیل میں یہ حدیث لاکرامام بخاری رحمہ اللہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اسلام عنداللہ وہی قبول ہے جو دل سے ہو۔ ویسے دنیاوی امور میں ظاہری اسلام بھی مفید ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ایمان اور اسلام شرعی میں اتحاد ثابت کررہے ہیں اور یہ اسی مجتہدانہ بصیرت کی بنا پر جو اللہ نے آپ کی فطرت میں ودیعت فرمائی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سلام پھیلانا بھی اسلام میں داخل ہے

وقال عمار ثلاث من جمعهن فقد جمع الإيمان الإنصاف من نفسك، وبذل السلام للعالم، والإنفاق من الإقتار‏.‏
عمار نے کہا کہ جس نے تین چیزوں کو جمع کر لیا اس نے سارا ایمان حاصل کر لیا۔ اپنے نفس سے انصاف کرنا، سلام کو عالم میں پھیلانا اور تنگ دستی کے باوجود راہ اللہ میں خرچ کرنا۔

حدیث نمبر : 28
حدثنا قتيبة، قال حدثنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، عن أبي الخير، عن عبد الله بن عمرو، أن رجلا، سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم أى الإسلام خير قال ‏"‏ تطعم الطعام، وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انھوں نے یزید بن ابی حبیب سے، انھوں نے ابوالخیر سے، انھوں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کھانا کھلائے اور ہر شخص کو سلام کرے خواہ اس کو تو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں بھی مرجیہ کی تردید فرما رہے ہیں کہ اسلام کے معمولی اعمال صالحہ کو بھی ایمان میں شمار کیا گیا ہے۔ لہٰذا مرجیہ کا مذہب باطل ہے۔ کھانا کھلانا اور اہل اسلام کو عام طور پر سلام کرنا الغرض جملہ اعمال صالحہ کو ایمان کہا گیا ہے اور حقیقی اسلام بھی یہی ہے۔ ان اعمال صالحہ کے کم وبیش ہونے پر ایمان کی کمی وبیشی منحصرہے۔

اپنے نفس سے انصاف کرنا یعنی اس کے اعمال کا جائزہ لیتے رہنا اور حقوق اللہ وحقوق العباد کے بارے میں اس کا محاسبہ کرتے رہنا مراد ہے اور اللہ کی عنایات کا شکرادا کرنا اور ا س کی اطاعت وعبادت میں کوتاہی نہ کرنا بھی نفس سے انصاف کرنے میں داخل ہے۔ نیز ہر وقت ہرحال میں انصاف مدنظر رکھنا بھی اسی ذیل میں شامل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : خاوند کی ناشکری کے بیان میں اور ایک کفر کا ( اپنے درجہ میں ) دوسرے کفر سے کم ہونے کے بیان میں
فيه عن أبي سعيد الخدري عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
بارے میں وہ حدیث جسے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر : 29
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابن عباس، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أريت النار فإذا أكثر أهلها النساء يكفرن‏"‏‏. ‏ قيل أيكفرن بالله قال ‏"‏ يكفرن العشير، ويكفرن الإحسان، لو أحسنت إلى إحداهن الدهر ثم رأت منك شيئا قالت ما رأيت منك خيرا قط‏"‏‏. ‏
اس حدیث کو ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، وہ امام مالک سے، وہ زید بن اسلم سے، وہ عطاء بن یسار سے، وہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔ کہا گیا حضور کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔

تشریح : حضرت امام المحدثین قدس سرہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ کفر دوطرح کا ہوتا ہے ایک تو کفرحقیقی ہے جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔ دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے۔ مگریہ کفر حقیقی سے کم ہے۔ ابو سعید والی حدیث کتاب الحیض میں ہے۔ اس میں یہ ہے کہ آپ نے عورتوں کو صدقے کا حکم دیا اور فرمایاکہ میں نے دوزخ میں زیادہ تر تم کو دیکھا ہے۔ انھوں نے پوچھا کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اور خاوند کا کفر یعنی ناشکری کرتی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث بڑی لمبی ہے۔ جو بخاری کی کتاب الکسوف میں ہے، یہاں استدلال کے لیے حضرت امام نے اس کا ایک ٹکڑا ذکر کردیا ہے۔

امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفی ہذاالحدیث وعظ الرئیس المروس وتحریضہ علی الطاعۃ ومراجعۃ المتعلم العالم والتابع المتبوع فیماقالہ اذا لم یظہر لہ معناہ الخ معنی اس حدیث کے تحت ضروری ہوا کہ سردار اپنے ماتحوں کو وعظ ونصیحت کرے اور نیکی کے لیے ان کو رغبت دلائے اور اس سے یہ بھی نکلا کہ شاگرد اگر استاد کی بات پورے طور پر نہ سمجھ پائے تو استاد سے دوبارہ دریافت کرلے اور اس حدیث سے ناشکری پر بھی کفر کا اطلاق ثابت ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ معاصی سے ایمان گھٹ جاتا ہے۔ اس لیے کہ معاصی کو بھی کفر قرار دیا گیا ہے مگر وہ کفر نہیں ہے جس کے ارتکاب سے دوزخ میں ہمیشہ رہنا لازم آتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتوں کا ایمان جیسے خاوند کی ناشکری سے گھٹ جاتا ہے، ویسے ہی ان کی شکر گزاری سے بڑھ بھی جاتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔
حضرت امام نے کفردون کفر کا ٹکڑا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے لیا ہے جو آپ نے آیت کریمہ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الکافرون ( المائدۃ: 44 ) کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ ( اور جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے سوایسے لوگ کافر ہیں ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں وہ کفر مراد نہیں ہے جس کی سزا خلود فی النار ہے۔ اس لیے علماءمحققین نے کفر کو چار قسمو ں پر تقسیم کیا ہے ( 1 ) کفربالکل انکار کے معنی میں ہے، یعنی اللہ پاک کا بالکل انکار کرنا اس کا وجود ہی نہ تسلیم کرنا، قرآن مجید میں زیادہ تر ایسے ہی کافروں سے خطاب کیا گیا ہے۔ ( 2 ) کفرجحود ہے یعنی اللہ کو دل سے حق جاننا مگر اپنے دنیاوی مفاد کے لیے زبان سے اقرار بھی نہ کرنا، مشرکین مکہ میں سے بعض کا ایسا ہی کفرتھا، آج بھی ایسے بہت لوگ ملتے ہیں۔ ( 3 ) کفرعناد ہے یعنی دل میں تصدیق کرنا زبان سے اقرار بھی کرنا مگر احکام الٰہی کو تسلیم نہ کرنا اور توحید ورسالت کے اسلامی عقیدہ کو ماننے کے لیے تیار نہ ہونا، ماضی وحال میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ ( 4 ) کفرنفاق ہے یعنی زبان سے اقرار کرنا مگر دل میں یقین نہ کرنا جیسا کہ آیت شریف واذا قیل لہم آمنوا کما آمن الناس قالوا انومن کما آمن السفہآء ( البقرۃ: 13 ) میں مذکو رہے۔ ( یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ) جب ان سے کہا جائے کہ تم ایسا پختہ ایمان لاؤ جیسا کہ دوسرے لوگ ( انصار ومہاجرین ) لائے ہوئے ہیں توجواب میں کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیا ہم بھی بے وقوفوں جیسا ایمان لے آئیں۔ یاد رکھو یہی ( منافق ) بے قوف ہیں۔ لیکن ان کو علم نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : گناہ جاہلیت کے کام ہیں

ولا يكفر صاحبها بارتكابها إلا بالشرك لقول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنك امرؤ فيك جاهلية‏"‏‏. ‏ وقول الله تعالى ‏{‏إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء‏}‏
اور گناہ کرنے والا گناہ سے کافر نہیں ہوتا۔ ہاں اگر شرک کرے تو کافر ہو جائے گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر سے فرمایا تھا تو ایسا آدمی ہے جس میں جاہلیت کی بو آتی ہے۔ ( اس برائی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کافر نہیں کہا ) اور اللہ نے سورۃ نساء میں فرمایا ہے بے شک اللہ شرک کو نہیں بخشے گا اور اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے وہ بخش دے۔ ( سورۃ حجرات میں فرمایا ) اور اگر ایمانداروں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو ( اس آیت میں اللہ نے اس گناہ کبیرہ قتل و غارت کے باوجود ان لڑنے والوں کو مومن ہی کہا ہے )

حدیث نمبر : 30
حدثنا عبد الرحمن بن المبارك، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا أيوب، ويونس، عن الحسن، عن الأحنف بن قيس، قال ذهبت لأنصر هذا الرجل، فلقيني أبو بكرة فقال أين تريد قلت أنصر هذا الرجل‏.‏ قال ارجع فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار‏"‏‏. ‏ فقلت يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال ‏"‏ إنه كان حريصا على قتل صاحبه‏"‏‏. ‏
ہم سے بیان کیا عبدالرحمن بن مبارک نے، کہا ہم سے بیان کیا حماد بن زید نے، کہا ہم سے بیان کیا ایوب اور یونس نے، انھوں نے حسن سے، انھوں نے احنف بن قیس سے، کہا کہ میں اس شخص ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کی مدد کرنے کو چلا۔ راستے میں مجھ کو ابوبکرہ ملے۔ پوچھا کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا، اس شخص ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کی مدد کرنے کو جاتا ہوں۔ ابوبکرہ نے کہا اپنے گھر کو لوٹ جاؤ۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل تو خیر ( ضرور دوزخی ہونا چاہیے ) مقتول کیوں؟ فرمایا “ وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا۔ ” ( موقع پاتا تو وہ اسے ضرور قتل کر دیتا دل کے عزم صمیم پر وہ دوزخی ہوا )

تشریح : اس بات کا مقصد خوارج اور معتزلہ کی تردید ہے جوکبیرہ گناہ کے مرتکب کوکافر قرار دیتے ہیں۔ احنف بن قیس جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مددگاروں میں تھے۔ جب ابوبکرہ نے ان کو یہ حدیث سنائی تووہ لوٹ گئے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوبکرہ نے اس حدیث کو مطلق رکھا۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بلاوجہ شرعی دومسلمان ناحق لڑیں اور حق پر لڑنے کی قرآن میں خود اجازت ہے۔ جیسا کہ آیت فان بغت احدٰھماعلی الاخری ( الحجرات: 9 ) سے ظاہر ہے اس لیے احنف اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور انھوں نے ابوبکرہ کی رائے پر عمل نہیں کیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضروری مدنظر رکھنا چاہئیے۔

حدیث نمبر : 31
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن واصل الأحدب، عن المعرور، قال لقيت أبا ذر بالربذة، وعليه حلة، وعلى غلامه حلة، فسألته عن ذلك، فقال إني ساببت رجلا، فعيرته بأمه، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا أبا ذر أعيرته بأمه إنك امرؤ فيك جاهلية، إخوانكم خولكم، جعلهم الله تحت أيديكم، فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل، وليلبسه مما يلبس، ولا تكلفوهم ما يغلبهم، فإن كلفتموهم فأعينوهم‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے اسے واصل احدب سے، انھوں نے معرور سے، کہا میں ابوذر سے ربذہ میں ملا وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی جوڑا پہنے ہوئے تھا۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ میں نے ایک شخص یعنی غلام کو برا بھلا کہا تھا اور اس کی ماں کی غیرت دلائی ( یعنی گالی دی ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم کر کے مجھ سے فرمایا اے ابوذر! تو نے اسے ماں کے نام سے غیرت دلائی، بے شک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ ( یاد رکھو ) ماتحت لوگ تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے ( اپنی کسی مصلحت کی بنا پر ) انھیں تمہارے قبضے میں دے رکھا ہے تو جس کے ماتحت اس کا کوئی بھائی ہو تو اس کو بھی وہی کھلائے جو آپ کھاتا ہے اور وہی کپڑا اسے پہنائے جو آپ پہنتا ہے اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔

تشریح : حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ہیں بہت ہی بڑے زاہد عابد تھے۔ ربذہ مدینہ سے تین منازل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے، وہاں ان کا قیام تھا۔ بخاری شریف میں ان سے چودہ احادیث مروی ہیں۔ جس شخص کو انھوں نے عاردلائی تھی وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے اور ان کو انھوں نے ان کی والدہ کے سیاہ فام ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوذر ابھی تم میں جاہلیت کا فخر باقی رہ گیا۔ یہ سن کر حضرت ابوذر اپنے رخسار کے بل خاک پر لیٹ گئے۔ اور کہنے لگے کہ جب تک بلال میرے رخسار پر اپنا قدم نہ رکھیں گے۔ مٹی سے نہ اٹھوں گا۔

حلہ دوچادروں کو کہتے ہیں۔ جو ایک تہمد کی جگہ اور دوسری بالائی حصہ جسم پر استعمال ہو۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو آپ نے تنبیہ فرمائی لیکن ایمان سے خارج نہیں بتلایا۔ ثابت ہوا کہ معصیت بڑی ہو یا چھوٹی محض اس کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں ہوتا۔ پس معتزلہ وخوارج کا مذہب باطل ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص معصیت کا ارتکاب کرے اور اسے حلال جان کرکرے تواس کے کفر میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ حدودِالٰہی کا توڑنا ہے، جس کے لیے ارشادِ باری ہے ومن یتعد حدوداللہ فاولئک ہم الظلمون ( البقرۃ: 229 ) جو شخص حدودِ الٰہی کو توڑے وہ لوگ یقینا ظالم ہیں۔ شیطان کو اس ذیل میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس نے خدا کی نافرمانی کی اور اس پر ضد اور ہٹ دھرمی کرنے لگا خدا نے اسی کی وجہ سے اسے مردود و مطرودقرار دیا۔
پس گنہگاروں کے بارے میں اس فرق کا ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بعض ظلم بعض سے ادنیٰ ہیں

حدیث نمبر : 32
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، ح‏.‏ قال وحدثني بشر، قال حدثنا محمد، عن شعبة، عن سليمان، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال لما نزلت ‏{‏الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم‏}‏ قال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أينا لم يظلم فأنزل الله ‏{‏إن الشرك لظلم عظيم‏}‏‏.‏
ہمارے سامنے ابوالولید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ( اسی حدیث کو ) بشر نے بیان کیا، ان سے محمد نے، ان سے شعبہ نے، انھوں نے سلیمان سے، انھوں نے علقمہ سے، انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب سورہ انعام کی یہ آیت اتری جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان میں گناہوں کی آمیزش نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو بہت ہی مشکل ہے۔ ہم میں کون ایسا ہے جس نے گناہ نہیں کیا۔ تب اللہ پاک نے سورہ لقمان کی یہ آیت اتاری کہ بے شک شرک بڑا ظلم ہے۔

تشریح : پوری آیت میں بظلم کے آگے اولئک لہم الامن وہم مہتدون کے الفاظ اور ہیں یعنی امن ان ہی کے لیے ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔معلوم ہوا کہ جو مؤحد ہوگا اسے ضرور امن ملے گا گوکتنا ہی گنہگار ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گناہوں پر بالکل عذاب نہ ہوگا جیسا کہ مرجیہ کہتے ہیں۔ حدیث اور آیت سے ترجمہ باب نکل آیا کہ ایک گناہ دوسرے گناہ سے کم ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام میں ظالم کا لفظ شرک و کفرو معاصی سب ہی پر عام تھا۔ اسی لیے ان کو اشکال پیدا ہوا۔ جس پر آیت کریمہ سورۃ لقمان والی نازل ہوئی اور بتلایاگیا کہ پچھلی آیت میں ظلم سے شرک مراد ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں نے ایمان کے ساتھ ظلم عظیم یعنی شرک کا اختلاط نہ کیا۔ ان کے لیے امن ہے۔ یہاں ایمان کی کمی وبیشی بھی ثابت ہوئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : منافق کی نشانیوں کے بیان میں

حدیث نمبر : 33
حدثنا سليمان أبو الربيع، قال حدثنا إسماعيل بن جعفر، قال حدثنا نافع بن مالك بن أبي عامر أبو سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ آية المنافق ثلاث إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان ابوالربیع نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن جعفر نے، ان سے نافع بن ابی عامر ابوسہیل نے، وہ اپنے باپ سے، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔

تشریح : ایک روایت میں چارنشانیاں مذکور ہیں، چوتھی یہ کہ اقرار کرکے دغاکرنا، ایک روایت میں پانچویں نشانی یہ بتلائی گئی ہے کہ تکرار میں گالی گلوچ بکنا، الغرض یہ جملہ نشانیاں نفاق سے تعلق رکھتی ہیں جس میں یہ سب جمع ہوجائیں اس کا ایمان یقینا محل نظرہے مگر احتیاطاً اس کو عملی نفاق قرار دیا گیا ہے جو کفر نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اعتقادی منافقین کی مذمت ہے جن کے لیے کہا گیا ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار یعنی منافقین دوزخ کے سب سے نیچے طبقے میں داخل ہوئے۔

حدیث نمبر : 34

حدثنا قبيصة بن عقبة، قال حدثنا سفيان، عن الأعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن عمرو، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أربع من كن فيه كان منافقا خالصا، ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا اؤتمن خان وإذا حدث كذب وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر‏"‏‏. ‏ تابعه شعبة عن الأعمش‏.‏
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے یہ حدیث بیان کی، ان سے سفیان نے، وہ اعمش بن عبیداللہ بن مرہ سے نقل کرتے ہیں، وہ مسروق سے، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ ( بھی ) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ ( وہ یہ ہیں ) جب اسے امین بنایا جائے تو ( امانت میں ) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب ( کسی سے ) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب ( کسی سے ) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔ اس حدیث کو شعبہ نے ( بھی ) سفیان کے ساتھ اعمش سے روایت کیا ہے۔

تشریح : پہلی حدیث میں اور دوسری میں کوئی تعارض نہیں۔ اس لیے کہ اس حدیث میں “ منافق خالص ” کے الفاظ ہیں، مطلب یہ ہے کہ جس میں چوتھی عادت بھی ہو کہ لڑائی کے وقت گالیاں بکنا شروع کرے تو اس کا نفاق ہرطرح سے مکمل ہے اور اس کی عملی زندگی سراسر نفاق کی زندگی ہے اور جس میں صرف ایک عادت ہو، تو بہرحال نفاق تو وہ بھی ہے۔ مگرکم درجے کا ہے۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ایمان کی کمی وبیشی ثابت کرنا ہے جوان احادیث سے ظاہر ہے نیز یہ بتلانا بھی کہ معاصی سے ایمان میں نقصان آ جاتا ہے۔
ان احادیث میں نفاق کی جتنی علامتیں ذکر ہوئی ہیں وہ عمل سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی مسلمان ہونے کے بعد پھرعمل میں نفاق کا مظاہرہ ہو اور اگرنفاق قلب ہی میں ہے یعنی سرے سے ایمان ہی موجود نہیں اور محض زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کررہا ہے تو وہ نفاق تویقینا کفروشرک ہی کے برابرہے۔ بلکہ ان سے بڑھ کر۔ آیت شریفہ ان المنفقین فی الدرک الاسفل من النار ( النساء: 145 ) یعنی منافقین دوزخ کے نیچے والے درجے میں ہوں گے۔یہ ایسے ہی اعتقادی منافقوں کے بارے میں ہے۔ البتہ نفاق کی جو علامتیں عمل میں پائی جائیں، ان کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ قلب کا اعتقاد اور ایمان کا پودا کمزورہے اور اس میں نفاق کا گھن لگاہوا ہو خواہ وہ ظاہری طور پر مسلمان بناہوا ہو، اس کو عملی نفاق کہتے ہیں۔ نفاق کے معنی ظاہر وباطن کے اختلاف کے ہیں۔ شرع میں منافق اس کو کہتے ہیں جس کا باطن کفر سے بھرپور ہو اور ظاہر میں وہ مسلمان بناہوا ہو۔ رہا ظاہری عادات مذکورہ کا اثر سو یہ بات متفق علیہ ہے کہ محض ان خصائل ذمیمہ سے مومن منافق نہیں بن سکتا۔ وہ مومن ہی رہتا ہے۔ امانت سے مراد امانت الٰہی یعنی حدوداسلامی ہیں۔ اللہ نے قرآن پاک میں اسی کے بارے میں فرمایا ہے۔ انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال ( الاحزاب: 72 ) یعنی ہم نے اپنی امانت کو آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا مگرانھوں نے اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر اس بار امانت کے اٹھانے سے انکار کردیا۔مگرانسان نے اس کے لیے اقرار کرلیا۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ کتنا بڑا بوجھ ہے اس کے بعد باہمی طور پر ہرقسم کی امانت مرادہیں، وہ مالی ہوں یاجانی یا قولی، ان سب کو ملحوظ خاطر رکھنا اور پورے طور پر ان کی حفاظت کرنا ایمان کی پختگی کی دلیل ہے۔ بات بات میں جھوٹ بولنا بھی بڑی مذموم عادت ہے۔ خدا ہر مسلمان کو بچائے۔ آمین
 
Top