• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : عذاب قبر کا بیان اور اللہ تعالیٰ نے ( سورئہ انعام میں ) فرمایا

وقوله تعالى ‏{‏إذ الظالمون في غمرات الموت والملائكة باسطو أيديهم أخرجوا أنفسكم اليوم تجزون عذاب الهون‏}‏ هو الهوان، والهون الرفق، وقوله جل ذكره ‏{‏سنعذبهم مرتين ثم يردون إلى عذاب عظيم‏}‏ وقوله تعالى ‏{‏وحاق بآل فرعون سوء العذاب * النار يعرضون عليها غدوا وعشيا ويوم تقوم الساعة أدخلوا آل فرعون أشد العذاب‏}‏
اور اے پیغمبر! کاش تو اس وقت کو دیکھے جب ظالم کافر موت کی سختیوں میں گرفتار ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے کہتے جاتے ہیں کہ اپنی جانیں نکالو آج تمہاری سزا میں تم کو رسوائی کا عذاب ( یعنی قبر کا عذاب ) ہونا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ لفظ ہون قرآن میں ہوان کے معنے میں ہے یعنی ذلت اور رسوائی اور ہون کا معنی نرمی اور ملائمت ہے۔ اور اللہ نے سورہ توبہ میں فرمایا کہ ہم ان کو دوبار عذاب دیں گے۔ (یعنی دنیا میں اور قبر میں) پھر بڑے عذاب میں لوٹائے جائیں گے۔ اور سورہ مومن میں فرمایا فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لئے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جائو۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آیتوں سے قبر کا عذاب ثابت کیا ہے۔ اس کے سوا اور آیتیں بھی ہیں۔ آیت یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ اٰمَنُو بِالقَولِ الثَّابِتِ ( ابراہیم: 27 ) آخر تک۔ یہ بالاتفاق سوال قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جیسا کہ آگے مذکور ہے۔

حدیث نمبر : 1369
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن علقمة بن مرثد، عن سعد بن عبيدة، عن البراء بن عازب ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا أقعد المؤمن في قبره أتي، ثم شهد أن لا إله إلا الله، وأن محمدا رسول الله، فذلك قوله ‏{‏يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت‏}‏‏"‏‏.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا‘ کہا ہم سے شعبہ نے‘ ان سے علقمہ بن مرثد نے‘ ان سے سعد بن عبیدہ نے اور ان سے براءبن عازب رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن جب اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں۔ وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ تویہ اللہ کے اس فرمان کی تعبیر ہے جو سورئہ ابراہیم میں ہے کہ اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں ٹھیک بات یعنی توحید پر مضبوط رکھتا ہے۔

حدثنا محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبة بهذا وزاد ‏{‏يثبت الله الذين آمنوا‏}‏ نزلت في عذاب القبر‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا‘ کہا ہم سے غندر نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے یہی حدیث بیان کی۔ ان کی روایت میں یہ زیادتی بھی ہے کہ آیت ﴿ ویثبت اللہ الذین امنوا ﴾ “ اللہ مومنوں کو ثابت قدمی بخشتا ہے ” عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

حدیث نمبر : 1370
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثني أبي، عن صالح، حدثني نافع، أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أخبره قال اطلع النبي صلى الله عليه وسلم على أهل القليب فقال ‏"‏ وجدتم ما وعد ربكم حقا‏"‏‏. ‏ فقيل له تدعو أمواتا فقال ‏"‏ ما أنتم بأسمع منهم ولكن لا يجيبون‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے‘ ان سے ان کے والد نے‘ ان سے صالح نے‘ ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنویں ( جس میں بدر کے مشرک مقتولین کو ڈال دیا گیا تھا ) والوں کے قریب آئے اور فرمایا تمہارے مالک نے جو تم سے سچا وعدہ کیا تھا اسے تم لوگوں نے پالیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ مردوں کو خطاب کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کچھ ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔

حدیث نمبر : 1371
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا سفيان، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت إنما قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنهم ليعلمون الآن أن ما كنت أقول حق وقد قال الله تعالى ‏{‏إنك لا تسمع الموتى‏}‏‏"‏
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کافروں کو یہ فرمایا تھا کہ میں جو ان سے کہا کرتا تھا اب ان کو معلوم ہوا ہوگا کہ وہ سچ ہے۔ اور اللہ نے سورئہ روم میں فرمایا اے پیغمبر! تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔

حدیث نمبر : 1372
حدثنا عبدان، أخبرني أبي، عن شعبة، سمعت الأشعث، عن أبيه، عن مسروق، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن يهودية، دخلت عليها، فذكرت عذاب القبر، فقالت لها أعاذك الله من عذاب القبر‏.‏ فسألت عائشة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عذاب القبر فقال ‏"‏ نعم عذاب القبر‏"‏‏. ‏ قالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد صلى صلاة إلا تعوذ من عذاب القبر‏.‏ زاد غندر ‏"‏ عذاب القبر حق‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ کہا مجھ کو میرے باپ ( عثمان ) نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے‘ انہوں نے اشعث سے سنا‘ انہوں نے اپنے والد ابوالشعثاءسے‘ انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی۔ اس نے عذاب قبر کا ذکر چھیڑدیا او رکہا کہ اللہ تجھ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ دیا کہ ہاں عذاب قبر حق ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھی ہو اور اس میں عذاب قبر سے خدا کی پناہ نہ مانگی ہو۔ غندر نے عذاب القبر حق کے الفاظ زیادہ کئے۔

حدیث نمبر : 1373
حدثنا يحيى بن سليمان، حدثنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، أخبرني عروة بن الزبير، أنه سمع أسماء بنت أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ تقول قام رسول الله صلى الله عليه وسلم خطيبا فذكر فتنة القبر التي يفتتن فيها المرء، فلما ذكر ذلك ضج المسلمون ضجة‏.
ہم سے یحیٰی بن سلیمان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی ‘ انہوں نے سمابنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے امتحان کا ذکر کیا جہاں انسان جانچا جاتا ہے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ذکر کررہے تھے تو مسلمانوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

حدیث نمبر : 1374
حدثنا عياش بن الوليد، حدثنا عبد الأعلى، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أنه حدثهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن العبد إذا وضع في قبره، وتولى عنه أصحابه، وإنه ليسمع قرع نعالهم، أتاه ملكان فيقعدانه فيقولان ما كنت تقول في الرجل لمحمد صلى الله عليه وسلم‏.‏ فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله‏.‏ فيقال له انظر إلى مقعدك من النار، قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة، فيراهما جميعا‏"‏‏. ‏ قال قتادة وذكر لنا أنه يفسح في قبره‏.‏ ثم رجع إلى حديث أنس قال ‏"‏ وأما المنافق والكافر فيقال له ما كنت تقول في هذا الرجل فيقول لا أدري، كنت أقول ما يقول الناس‏.‏ فيقال لا دريت ولا تليت‏.‏ ويضرب بمطارق من حديد ضربة، فيصيح صيحة يسمعها من يليه، غير الثقلين‏"‏‏. ‏
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید نے بیان کیا‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور جنازہ میں شریک ہونے والے لوگ اس سے رخصت ہوتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے ( منکر نکیر ) اس کے پاس آتے ہیں‘ وہ اسے بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ اس شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن تو یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جائے گا کہ تو یہ دیکھ اپنا جہنم کاٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں تمہارے لیے جنت میں ٹھکانا دے دیا۔ اس وقت اسے جہنم اور جنت دونوں ٹھکانے دکھائے جائیں گے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ اس کی قبر خوب کشادہ کردی جائے گی۔ ( جس سے آرام وراحت ملے ) پھر قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنی شروع کی‘ فرمایا اور منافق وکافر سے جب کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا تو وہ جواب دے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں‘ میں بھی وہی کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہتے تھے۔ پھر اس سے کہا جائے گا نہ تونے جاننے کی کوشش کی اور نہ سمجھنے والوں کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے گرزوں سے بڑی زور سے مارا جائے گا کہ وہ چیخ پڑے گا اور اس کی چیخ کو جن اور انسانوں کے سوا اس کے آس پاس کی تمام مخلوق سنے گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : قبر کے عذاب سے پناہ مانگنا

حدیث نمبر : 1375
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، حدثنا شعبة، قال حدثني عون بن أبي جحيفة، عن أبيه، عن البراء بن عازب، عن أبي أيوب ـ رضى الله عنهم ـ قال خرج النبي صلى الله عليه وسلم وقد وجبت الشمس، فسمع صوتا فقال ‏"‏ يهود تعذب في قبورها‏"‏‏. ‏وقال النضر: أخبرنا شعبة: حدثنا عون: سمعت أبي: سمعت البراء، عن أبي أيوب رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے‘ کہا ہم سے شعبہ نے‘ کہا کہ مجھ سے عون بن ابی حجیفہ نے بیان کیا‘ ان سے ان کے والد ابو حجیفہ نے‘ ان سے براءبن عازب نے اور ان سے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر تشریف لے گئے‘ سورج غروب ہوچکا تھا‘ اس وقت آپ کو ایک آواز سنائی دی۔ ( یہودیوں پر عذاب قبر کی ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودی پر اس کی قبر میں عذاب ہورہا ہے۔ اور نضربن شمیل نے بیان کیاکہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ ان سے عون نے بیان کیا‘ انہوں نے اپنے باپ ابوحجیفہ سے سنا‘ انہوں نے براءسے سنا‘ انہوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

حدیث نمبر : 1376
حدثنا معلى، حدثنا وهيب، عن موسى بن عقبة، قال حدثتني ابنة خالد بن سعيد بن العاص، أنها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يتعوذ من عذاب القبر‏.‏
ہم سے معلٰی بن اسد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا‘ ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے خالد بن سعید بن عاص کی صاحبزادی ( ام خالد ) نے بیان کیا‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے سنا۔

حدیث نمبر : 1377
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو ‏"‏ اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر، ومن عذاب النار، ومن فتنة المحيا والممات، ومن فتنة المسيح الدجال‏"‏‏. ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے بیان کیا‘ ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا کرتے تھے “ اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دوزخ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے اور کانے دجال کی بلا سے تیری پناہ چاہتاہوں۔ ”

تشریح : عذاب قبر کے بارے میں علامہ شیخ سفارینی الاثری اپنی مشہور کتاب لوامع انوار البہیۃ میں فرماتے ہیں۔ ومنہاای الامور التی یجب الایمان بہا وانہا حق لا ترد عذاب القبر قال الحافظ جلال الدین السیوطی فی کتابہ “شرح الصدور فی احوال الموتی والقبور” قد ذکراللہ عذاب القبر فی القرآن فی عدۃ اماکن کما بینتہ فی الاکلیل فی اسرار التنزیل انتہی قال الحافظ ابن رجب فی کتابہ “اموال القبور” فی قولہ تعالیٰ ( فلولا اذا بلغت الحلقوم الی قولہ ان ہذا لہو الحق المبین ) عن عبدالرحمن بن ابی لیلی قال تلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہذہ الایات قال اذا کان عند الموت قیل لہ ہذا فان کان من اصحاب الیمین احب لقاءاللہ واحب اللہ لقاءوان کان من اصحاب الشمال کرہ لقاءاللہ وکرہ اللہ لقاءہ۔

وقال الامام المحقق ابن القیم فی کتاب الروح قول السائل ما الحکمۃ فی ان عذاب القبر لم یذکر فی القران صریحا مع شدۃ الحاجۃ الی معرفتہ والایمان بہ لیحذرہ الناس ویتقی فاجاب عن ذلک بوجہین مجمل ومفصل اماالمجل فان اللہ تعالیٰ نزل علی رسولہ وحیین فاوجب علی عبادہ الایمان بہما والعمل بما فیہما وہما الکتاب والحکمۃ قال تعالیٰ وانزل علیک الکتاب والحکمۃ وقال تعالیٰ ہوالذی بعث فی الامیین رسولا منہم الی قولہ ویعلمہم الکتاب والحکمۃ وقال تعالیٰ واذکرن مایتلیٰ فی بیوتکن الایۃ۔ والحکمۃ ہی السنۃ باتفاق السلف وما اخبر بہ الرسول عن اللہ فہو فی وجوب تصدیقہ والایمان بہ کما اخبربہ الرب علے لسان رسولہ فہذا اصل متفق علیہ بین اہل الاسلام لا ینکرہ الامن لیس منہم وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انی اوتیت الکتاب ومثلہ معہ قال المحقق واما الجواب المفصل فہوان نعیم البرزخ وعذابہ مذکور فی القران مواضع منہا قولہ تعالیٰ ولو تری اذ الظلمون فی غمرات الموت الایۃ وہذا خطاب لہم عند الموت قطعا وقد اخبرت الملائکۃ وہم الصادقون انہم حینئذ یجزون عذاب الہون بماکنتم تقولون علی اللہ غیرالحق وکنتم عن آیاتہ تستکبرون ولوتاخر عنہم ذلک الی انقضاءالدنیا لما صح ان یقال لہم الیوم تجزون عذاب الہون وقولہ تعالیٰ فوقاہ اللہ سیئات مامکروا الی قولہ یعرضون علیہا غدوا وعشیا الایۃ فذکر عذاب الدارین صریحا لا یحتمل غیرہ ومنہا قولہ تعالیٰ فذرہم حتی یلاقوا یومہم الذی فیہ یصعقون۔ یوم لا یغنی عنہم کیدہم شیئا ولاہم ینصرون انتہیٰ کلامہ۔
واخرج البخاری من حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدعوا اللہم انی اعوذبک من عذاب القبرو اخرج الترمذی عن علی رضی اللہ عنہ انہ قال مازلنا فی شک من عذاب القبر حتی نزلت الہکم التکاثر حتی زرتم المقابر وقال ابن مسعود اذا مات الکافر اجلس فی قبرہ فیقال لہ من ربک وما دینک فیقول لا ادری فیضیق علیہ قبرہ ثم قرا ابن مسعود فان لہ معیشۃ ضنکا قال المعیشۃ الضنک ہی عذاب القبر وقال البراءبن عازب رضی اللہ عنہ فی قولہ تعالیٰ ولنذیقنہم من العذاب الادنیٰ دون العذاب الاکبر قال عذاب القبر وکذا قال قتادۃ والربیع بن انس فی قولہ تعالیٰ سنعذبہم مرتین احدھما فی الدنیا والاخریٰ عذاب القبر۔
اس طویل عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ عذاب قبر حق ہے جس پر ایمان لانا واجب ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ تفصیلی ذکر حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب “شرح الصدور” اور “اکلیل فی اسرار التنزیل” میں موجود ہے۔ حافظ ابن رجب نے اپنی کتاب “احوال القبور” میں آیت شریفہ فَلَولاَ اِذَا بَلَغَتِ الحُلقُومَ ( الواقعہ: 83 ) کی تفسیر میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کو تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ جب موت کا وقت آتا ہے تو مرنے والے سے یہ کہا جاتا ہے۔ پس اگر وہ مرنے والا دائیں طرف والوں میں سے ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور اگر وہ مرنے والا بائیں طرف والوں میں سے ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے اور اللہ پاک اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے۔

اور علامہ محقق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں لکھا ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ اس امر میں کیا حکمت ہے کہ صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں عذاب قبر کا ذکر نہیں ہے حالانکہ یہ ضروری تھا کہ اس پر ایمان لانا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو اس سے ڈر پیدا ہو۔ حضرت علامہ نے اس کا جواب مجمل اور مفصل ہردو طور پر دیا۔ مجمل تو یہ دیا کہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دو قسم کی وحی نازل کی ہے اور ان دونوں پر ایمان لانا اور ان دونوں پر عمل کرنا واجب قرار دیا ہے اور وہ کتاب اور حکمت ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی کئی آیات میں موجود ہے اور سلف صالحین سے متفقہ طور پر حکمت سے سنت ( حدیث نبوی ) مراد ہے اب عذاب قبر کی خبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح احادیث میں دی ہے۔ پس وہ خبر یقینا اللہ ہی کی طرف سے ہے جس کی تصدیق واجب ہے اور جس پر ایمان رکھنا فرض ہے۔ ( جیسا کہ رب تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان حقیقت ترجمان سے صحیح احادیث میں عذاب قبر کے متعلق بیان کرایا ہے ) پس یہ اصول اہل اسلام میں متفقہ ہے اس کا وہی شخص انکار کرسکتا ہے جو اہل اسلام سے باہر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار رہو کہ میں قرآن مجید دیا گیا ہوں اور اس کی مثال ایک اور کتاب ( حدیث ) بھی دیا گیا ہوں۔
پھر محقق علامہ ابن قیم نے تفصیلی جواب میں فرمایا کہ برزخ کا عذاب قرآن مجید کی بہت سی آیات سے ثابت ہے اور برزخ کی بہت سی نعمتوں کا بھی قرآن مجید میں ذکر موجود ہے۔ ( یہی عذاب وثواب قبر ہے ) ان آیات میں سے ایک آیت وَلَوتَرٰی اِذِالظّٰلِمُونَ فِی غَمَرَاتِ المَوتِ الخ ( الانعام: 93 ) بھی ہے ( جس میں ذکر ہے کہ اگر تو ظالموں کو موت کی بے ہوشی کے عالم میں دیکھے ) ان کے لیے موت کے وقت یہ خطاب قطعی ہے اور اس موقع پر فرشتوں نے خبردی ہے جو بالکل سچے ہیں کہ ان کافروں کو اس دن رسوائی کا عذاب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ عذاب تمہارے لیے اس وجہ سے ہے کہ تم اللہ پر ناحق جھوٹی باتیں باندھا کرتے تھے اور تم اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔ یہاں اگر عذاب کو دنیا کے خاتمہ پر مؤخر مانا جائے تو یہ صحیح نہیں ہوگا یہاں تو “آج کا دن” استعمال کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم کو آج کے دن رسوائی کا عذاب ہوگا۔ اس آج کے دن سے یقینا قبر کے عذاب کا دن مراد ہے۔

اور دوسری آیت میں یوں مذکور ہے کہ وَحَاقَ بِاٰلِ فِرعَونَ سُوئُ العَذَابِ o اَلنَّارُ یُعرَضُونَ عَلَیہَا غُدُوًّا وَّعَشِیّاً ( المومن: 45,46 ) یعنی فرعونیوں کو سخت ترین عذاب نے گھیرلیا جس پر وہ ہر صبح وشام پیش کئے جاتے ہیں۔ اس آیت میں عذاب دارین کا صریح ذکر ہے اس کے سوا اور کسی کا احتمال ہی نہیں ( دارین سے قبر کا عذاب اور پھر قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے )

تیسری آیت شریفہ فَذَرہُم حَتیّٰ یُلٰقُوا یَومَہُم الَّذِی فِیہِ یُصعَقُونَ ( الطور: 45 ) ہے۔ یعنی اے رسول! ان کافروں کو چھوڑ دیجئے۔ یہاں تک کہ وہ اس دن سے ملاقات کریں جس میں وہ بے ہوش کردئیے جائیں گے‘ جس دن ان کا کوئی مکر ان کے کام نہیں آسکے گا اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے۔ ( اس آیت میں بھی اس دن سے موت اور قبر کا دن مراد ہے )

بخاری شریف میں حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ میں ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اللہم انی اعوذبک من عذاب القبر اے اللہ! میں تجھ سے عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور ترمذی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عذاب قبر کے بارے میں ہم مشکوک رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آیات اَلہٰکُمُ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرتُمُ المَقِابِرَ ( التکاثر: 2‘ 1 ) نازل ہوئی ( گویا ان آیات میں بھی مراد قبر کا عذاب ہی ہے ) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب کافر مرتا ہے تو اسے قبر میں بٹھایا جاتا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے تیرا رب کون ہے؟ اور تیرا دین کیا ہے۔ وہ جواب دیتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ پس اس کی قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے۔ پس حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت وَمَن اَعرَضَ عَن ذِکرِی فَاِنَّ لَہُ مَعِیشَۃً ضَنکاً ( طہ: 124 ) کو پڑھا ( کہ جو کوئی ہماری یاد سے منہ موڑے گا اس کو نہایت تنگ زندگی ملے گی ) یہاں تنگ زندگی سے قبر کا عذاب مراد ہے۔ حضرت براءبن عازب نے آیت شریفہ وَلَنُذِیقَنَّہُم مِنَ العَذَابِ الاَدنیٰ دُونَ العَذَابِ الاَکبَرِ ( السجدۃ:21 ) کی تفسیر میں فرمایا کہ یہاں بھی عذاب قبر ہی کا ذکر ہے۔ یعنی کافروں کو بڑے سخت ترین عذاب سے پہلے ایک ادنیٰ عذاب میں داخل کیا جائے گا ( اور وہ عذاب قبر ہے ) ایسا ہی قتادہ اور ربیع بن انس نے آیت شریفہ سَنُعَذِّبُہُم مَّرَّتَینِ ( التوبہ: 101 ) ( ہم ان کو دو دفعہ عذاب میں مبتلا کریں گے ) کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ کہ ایک عذاب سے مراد دنیا کا عذاب اور دوسرے سے مراد قبر کا عذاب ہے۔

قال الحافظ ابن رجب وقد تواترت الاحادیث عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی عذاب القبر یعنی حافظ ابن رجب فرماتے ہیں کہ عذاب قبر کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث مروی ہیں جن سے عذاب قبر کا حق ہونا ثابت ہے۔ پھر علامہ نے ان احادیث کا ذکر فرمایا ہے۔
جیسا کہ یہاں بھی چند احادیث مذکور ہوئی ہیں۔ باب اثبات عذاب القبر پر حضرت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لم یتعرض المصنف فی الترجمۃ لکون عذاب القبر یقع علی الروح فقط اوعلیہا وعلیٰ الجسد وفیہ خلاف شہیر عند المتکلمین وکانہ ترکہ لان الادلۃ التی یرضاہا لیست قاطعۃ فی احد الا مرین فلم یتقلد الحکم فی ذلک واکتفٰی باثبات وجودہ خلافا لمن نفاہ مطلقا من الخوارج وبعض المعتزلۃ کضرار بن عمرو وبشر المریسی ومن وافقہما وخالفہم فی ذلک اکثر المعتزلۃ وجمیع اہل السنۃ وغیرہم، اکثروا من الاحتجاج لہ وذہب بعض المعتزلۃ کالجیانی الی انہ یقع علی الکفار دون المومنین وبعض الاحادیث الاتیہ تردعلیہم ایضا ( فتح الباری ) خلاصہ یہ کہ مصنف ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے اس بارے میں کچھ تعرض نہیں فرمایا کہ عذاب قبر فقط روح کو ہوتا ہے یا روح اور جسم ہر دو پر ہوتا ہے۔ اس بارے میں متکلمین کا بہت اختلاف ہے۔ حضرت امام نے قصداً اس بحث کو چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ ان کے حسب منشاءکچھ دلائل قطعی اس بارے میں نہیں ہیں۔ پس آپ نے ان مباحث کو چھوڑ دیا اور صرف عذاب قبر کے وجود کو ثابت کردیا۔ جب کہ خوارج اور کچھ معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں جیسے ضرار بن عمرو‘ بشر مریسی وغیرہ اور ان لوگوں کی جملہ اہلسنت بلکہ کچھ معتزلہ نے بھی مخالفت کی ہے اور بعض معتزلہ جیانی وغیرہ ادھر گئے ہیں کہ عذاب قبر صرف کافروں کو ہوتا ہے ایمان والوں کو نہیں ہوتا۔ مذکور بعض احادیث ان کے اس غلط عقیدہ کی تردید کررہی ہیں۔

بہرحال عذاب قبر برحق ہے جو لوگ اس بارے میں شکوک وشبہات پیدا کریں ان کی صحبت سے ہر مسلمان کو دور رہنا واجب ہے اور ان کھلے ہوئے دلائل کے بعد بھی جن کی تشفی نہ ہو ان کی ہدایت کے لیے کوشاں ہونا بیکار محض ہے۔ وباللہ التوفیق۔
تفصیل مزید کے لیے حضرت مولانا الشیخ عبیداللہ صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ کا بیان ذیل قابل مطالعہ ہے حضرت موصوف لکھتے ہیں: باب اثبات عذاب القبر قال فی اللمعات المراد بالقبر ہہنا عالم البرزخ قال تعالیٰ ومن وراءہم برزخ الی یوم یبعثون وہو عالم بین الدنیا والاخرۃ لہ تعلق بکل منہما ولیس المراد بہ الحفرۃ التی یدفن فیہ المیت فرب میت لا یدفن کالغریق والحریق والماکول فی بطن الحیوانات یعذب وینعم ویسال وانما خص العذاب بالذکر للاہتمام ولان العذاب اکثر لکثرۃ الکفار والعصاۃ انتہی قلت حاصل ماقیل فی بیان المراد من البرزخ انہ اسم لا نقطاع الحیاۃ فی ہذا العالم المشہود ای دار الدنیا وابتداءحیاۃ اخریٰ فیبدا الشئی من العذاب او النعیم بعد انقطاع الحیاۃ الدنیویۃ فہو اول دار الجزاءثم توفی کل نفس ماکسبت یوم القیامۃ عند دخولہا فی جہنم اوالجنۃ وانما اضیف عذاب البرزخ ونعیمہ الی القبر لکون معظمہ یقع فیہ ولکون الغالب علی الموتیٰ ان یقبروا والا فالکافر ومن شاءاللہ عذابہ من العصاۃ یعذب بعد موتہ ولولم یدفن ولکن ذلک محجوب عن الخلق الامن شاءاللہ وقیل لا حاجۃ الی التاویل فان القبراسم للمکان الذی یکون فیہ المیت من الارض ولاشک ان محل الانسان ومسکنۃ بعد انقطاع الحیاۃ الدنیویۃ ہی الارض کما انہا کانت مسکنالہ فی حیاتہ قبل موتہ قال تعالیٰ الم نجعل الارض کفاتا احیاءوامواتا ای ضامۃ للاحیاءوالاموات تجمعہم وتضمہم وتحوزہم فلا محل المیت الا الارض سواءکان غریقا اوحریقا او ماکولا فی بطن الحیوانات من السباع علی الارض والطیور فی الہواءوالحیتان فی البحر فان الغریق یرسب فی الماءفیسقط الی اسفلہ من الارض اوالجبل ان کان تحتہ جبل وکذا الحریق بعدما یصیرر مادالا یستقر الاعلی الارض سواءاذریٰ فی البراو البحرو کذا الماکول فان الحیوانات التی تاکلہ لا تذہب بعد موتہا الا الی الارض فتصیر ترابا والحاصل ان الارض محل جمیع الاجسام السفلیۃ ومقرہا لا ملجا لہاالا الیہا فہی کفات لہا واعلم انہ قد تظاہرت الدلائل من الکتاب والسنۃ علی ثبوت عذاب القبرواجمع علیہ اہل السنۃ وقد کثرت الاحادیث فی عذاب القبر حتی قال غیر واحد انہا متواترۃ لا یصح علیہا التواطق وان لم یصح مثلہا لم یصح شئی من امرالدین الی اخرہ ( مرعاۃ‘ جلد: اول/ ص:130 ) مختصر مطلب یہ کہ لمعات میں ہے کہ یہاں قبر سے مراد عالم برزخ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ مرنے والوں کے لیے قیامت سے پہلے ایک عالم اور ہے جس کا نام برزخ ہے اور یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک عالم ہے جس کا تعلق دونوں سے ہے اور قبر سے وہ گڑھا مراد نہیں جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے کیونکہ بہت سی میت دفن نہیں کی جاتی ہیں جیسے ڈوبنے والا اور جلنے والا اور جانوروں کے پیٹوں میں جانے والا۔ حالانکہ ان سب کو عذاب وثواب ہوتا ہے اور ان سب سے سوال جواب ہوتے ہیں اور یہاں عذاب کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ اس کاخاص اہتمام ہے اور اس لیے کہ اکثر طور پر گنہگاروں اور جملہ کافروں کے لیے عذاب ہی مقدر ہے۔

میں کہتا ہوں کہ حاصل یہ ہے کہ برزخ اس عالم کا نام ہے جس میں دار دنیا سے انسان زندگی منقطع کرکے ابتدائے دار آخرت میں پہنچ جاتا ہے۔ پس دنیاوی زندگی کے انقطاع کے بعد وہ پہلا جزا اور سزا کا گھر ہے پھر قیامت کے دن ہر نفس کو اس کا پورا پورا بدلہ جنت یا دوزخ کی شکل میں دیا جائے گا اور عذاب اور ثواب برزخ کو قبر کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ انسان اسی کے اندر داخل ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ غالب موتی قبر ہی میں داخل کئے جاتے ہیں ورنہ کافر اور گنہگار جن کو اللہ عذاب کرنا چاہے اس صورت میں بھی وہ ان کو عذاب کرسکتا ہے کہ وہ دفن نہ کئے جائیں۔ یہ عذاب مخلوق سے پردہ میں ہوتا ہے الامن شاءاللہ
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تاویل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قبر اسی جگہ کا نام ہے جہاں میت کا زمین میں مکان بنے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مرنے کے بعد انسان کا آخری مکان زمین ہی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ ہم نے تمہارے لیے زمین کو زندگی اور موت ہر حال میں ٹھکانا بنایا ہے۔ وہ زندہ اور مردہ سب کو جمع کرتی ہے اور سب کو شامل ہے پس میت ڈوبنے والے کی ہو یا جلنے والے کی یا بطن حیوانات میں جانے والے کی خواہ زمین کے بھیڑیوں کے پیٹ میں جائے یا ہوا میں پرندوں کے شکم میں یا دریا میں مچھلیوں کے پیٹ میں‘ سب کا نتیجہ مٹی ہونا اور زمین ہی میں ملنا ہے اور جان لوکہ کتاب وسنت کے ظاہر دلائل کی بناپر عذاب قبر برحق ہے جس پر جملہ اہل اسلام کا اجماع ہے اور اس بارے میں اس قدر تواتر کے ساتھ احادیث مروی ہیں کہ اگر ان کو بھی صحیح نہ تسلیم کیا جائے تو دین کا پھر کوئی بھی امر صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا۔ مزید تفصیل کے لیے کتاب الروح علامہ ابن قیم کا مطالعہ کیا جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : غیبت اور پیشاب کی آلودگی سے قبر کا عذاب ہونا

حدیث نمبر : 1378
حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن مجاهد، عن طاوس، قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ مر النبي صلى الله عليه وسلم على قبرين فقال ‏"‏ إنهما ليعذبان، وما يعذبان من كبير ـ ثم قال ـ بلى أما أحدهما فكان يسعى بالنميمة، وأما أحدهما فكان لا يستتر من بوله‏"‏‏. ‏ قال ثم أخذ عودا رطبا فكسره باثنتين ثم غرز كل واحد منهما على قبر، ثم قال ‏"‏ لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے جریر نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے‘ ان سے مجاہد نے‘ ان سے طاؤس نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں کے مردوں پر عذاب ہورہا ہے اور یہ بھی نہیں کہ کسی بڑی اہم بات پر ہورہا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! ان میں ایک شخص تو چغل خوری کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے بچنے کے لیے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں کی قبروں پر گاڑدیا اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں ان کا عذاب کم ہوجائے۔

تشریح : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال الزین بن المنیر المراد بتخصیص ہذین الا مرین بالذکر تعظیم امرہما لا نفی الحکم عما عداہما فعلی ہذا لایلزم من ذکر ہما حصر عذاب القبر فیہما لکن الظاہر من الاقتصار علی ذکر ہما انہما امکن فی ذلک من غیرہما وقد روی اصحاب السنن من حدیث ابی ہریرۃ استنزہوا من البول فان عامۃ عذاب القبر منہ ثم اورد المصنف حدیث ابن عباس فی قصۃ القبرین ولیس فیہ للغیبہ ذکروا انما ورد بلفظ النمیمۃ وقد تقدم الکلام علیہ مستوفی فی الطہارۃ ( فتح الباری )
یعنی زین بن منیر نے کہا کہ باب میں صرف دو چیزوں کا ذکر ان کی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے گناہوں کی نفی مراد نہیں۔ پس ان کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ عذاب قبر ان ہی دو گناہوں پر منحصر ہے۔ یہاں ان کے ذکر پر کفایت کرنا اشارہ ہے کہ ان کے ارتکاب کرنے پر عذاب قبر کا ہونا زیادہ ممکن ہے۔ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے لفظ یہ ہیں کہ پیشاب سے پاکی حاصل کرو کیونکہ عام طور پر عذاب قبراسی سے ہوتا ہے۔ باب کے بعد مصنف رحمہ اللہ نے یہاں حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دو قبروں کا قصہ نقل فرمایا۔ اس میں غیبت کا لفظ نہیں ہے بلکہ چغل خور کا لفظ وارد ہوا ہے مزید وضاحت کتاب الطہارۃ میں گزر چکی ہے۔

غیبت اور چغلی قریب قریب ایک ہی قسم کے گناہ ہیں اس لیے ہر دو عذاب قبر کے اسباب ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز

باب : مردے کو دونوں وقت صبح اور شام اس کا ٹھکانا بتلایا جاتا ہے

حدیث نمبر : 1379
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي، إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة، وإن كان من أهل النار فمن أهل النار، فيقال هذا مقعدك حتى يبعثك الله يوم القيامة‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن ابی وایس نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اسے صبح وشام دکھایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت والوں میں اور جو دوزخی ہے تو دوزخ والوں میں۔ پھر کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تجھ کو اٹھائے گا۔

تشریح : مطلب یہ ہے کہ اگر جنتی ہے تو صبح وشام اس پر جنت پیش کرکے اس کو تسلی دی جاتی ہے کہ جب تو اس قبر سے اٹھے گا تو تیرا آخری ٹھکانا یہ جنت ہوگی اور اسی طرح دوزخی کو دوزخ دکھلائی جاتی ہے کہ وہ اپنے آخری انجام پر آگاہ رہے۔ ممکن ہے کہ یہ عرض کرنا صرف روح پر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ روح اور جسم ہردو پر ہو۔ صبح اور شام سے ان کے اوقات مراد ہیں جب کہ عالم برزخ میں ان کے لیے نہ صبح کا وجود ہے نہ شام کا ویحتمل ان یقال ان فائدۃ العرض فی حقہم تبشیرا رواحہم باستقرار ہافی الجنۃ مقترنۃ باجسادہا ( فتح ) یعنی اس پیش کرنے کا فائدہ مومن کے لیے ان کے حق میں ان کی روحوں کو یہ بشارت دینا ہے کہ ان کا آخری مقام قرار ان کے جسموں سمیت جنت ہے۔ اسی طرح دوزخیوں کو ڈرانا کہ ان کا آخری ٹھکانا ان کے جسموں سمیت دوزخ ہے۔ قبرمیں عذاب وثواب کی صورت یہ بھی ہے کہ جنتی کے لیے جنت کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس سے اس کو جنت کی تروتازگی حاصل ہوتی رہتی ہے اور دوزخی کے لیے دوزخ کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس سے اس کو دوزخ کی گرم گرم ہوائیں پہنچتی رہتی ہیں۔ صبح وشام ان ہی کھڑکیوں سے ان کو جنت ودوزخ کے کامل نظارے کرائے جاتے ہیں۔ یا اللہ! اپنے فضل وکرم سے ناشر بخاری شریف مترجم اردو کو اس کے والدین واساتذہ وجملہ معاونین کرام وشائقین عظام کو قبر میں جنت کی طرف سے تروتازگی نصیب فرمائیو اور قیامت کے دن جنت میں داخل فرمائیو اور دوزخ سے ہم سب کو محفوظ رکھیو۔ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : میت کا چارپائی پر بات کرنا

حدیث نمبر : 1380
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني‏.‏ وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها‏.‏ يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خدا سنتی ہے۔ اگر کہیں انسان سن پائیں تو بے ہوش ہوجائیں۔

تشریح : جنازہ اٹھائے جاتے وقت اللہ پاک برزخی زبان میت کو عطا کردیتا ہے۔ جس میں وہ اگر جنتی ہے تو جنت کے شوق میں کہتا ہے کہ مجھ کو جلدی جلدی لے چلو تاکہ جلد اپنی مراد کو حاصل کروں اور اگر وہ دوزخی ہے تو وہ گھبرا گھبرا کر کہتا ہے کہ ہائے مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس وقت اللہ پاک ان کو اس طور پر مخفی طریقہ سے بولنے کی طاقت دیتا ہے اور اس آواز کو انسان اور جنوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے۔

اس حدیث سے سماع موتی پر بعض لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید میں صاف سماع موتی کی نفی موجود ہے۔ اِنَّکَ لاَ تُسمِعُ المَوتیٰ ( النمل: 80 ) اگر مرنے والے ہماری آوازیں سن پاتے تو ان کو میت ہی نہ کہا جاتا۔ اسی لیے جملہ ائمہ ہدیٰ نے سماع موتی کا انکار کیا ہے۔ جو لوگ سماع موتی کے قائل ہیں ان کے دلائل بالکل بے وزن ہیں۔ دوسرے مقام پر اس کا تفصیلی بیان ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : مسلمانوں کی نابالغ اولاد کہاں رہے گی؟

قال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من مات له ثلاثة من الولد لم يبلغوا الحنث كان له حجابا من النار، أو دخل الجنة‏"‏‏. ‏ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ جس کے تین نابالغ بچے مرجائیں تو یہ بچے اس کے لیے دوزخ سے روک بن جائیں گے یا یہ کہا کہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔

حدیث نمبر : 1381
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن علية، حدثنا عبد العزيز بن صهيب، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما من الناس مسلم يموت له ثلاثة من الولد لم يبلغوا الحنث إلا أدخله الله الجنة بفضل رحمته إياهم‏"‏‏. ‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا‘ ان سے عبدالعزیزبن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس مسلمان کے بھی تین نابالغ بچے مرجائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحمت سے جوان بچوں پر کرے گا‘ ان کو بہشت میں لے جائے گا۔

تشریح : باب منعقد کرنے اور اس پر حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لانے سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مقصد صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جو نابالغی میں مرجائے وہ جنتی ہے‘ تب ہی تو وہ اپنے والدین کے لیے دوزخ سے روک بن سکیں گے۔ اکثر علماءکا یہی قول ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں ہوگی۔

پھر آپ نے یہ آیت پڑھی وَالَّذِینَ اٰمَنُو وَاتَّبَعَتہُم ذُرِّیَّتُہُم ( الطور: 21 ) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی اتباع کی ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ جنت میں جمع کردیں گے۔ قال النووی اجمع من یعتد بہ من علماءالمسلمین علی ان من مات من اطفال المسلمین فہو من اہل الجنۃ وتوقف بعضہم الحدیث عائشۃ یعنی الذی اخرجہ مسلم بلفظ توفی صبی من الانصار فقلت طوبیٰ لہ لم یعمل سواولم یدر کہ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اوغیر ذلک یاعائشۃ! ان اللہ خلق للجنۃ اہلا الحدیث قال والجواب عنہ انہ لعلہ نہا ہا عن المسارعۃ الی القطع من غیر دلیل اوقال ذلک قبل ان یعلم ان اطفال المسلمین فی الجنۃ ( فتح الباری ) یعنی امام نووی نے کہاکہ علماءاسلام کی ایک بڑی تعداد کا اس پر اجماع ہے کہ جو مسلمان بچہ انتقال کر جائے وہ جنتی ہے اور بعض علماءنے اس پر توقف بھی کیا ہے۔ جن کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے کہ انصار کے ایک بچے کا انتقال ہوگیا‘ میں نے کہا کہ اس کے لیے مبارک ہو اس بچے نے کبھی کوئی برا کام نہیں کیا یا یہ کہ کسی برے کام نہیں اس کو نہیں پایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اے عائشہ! کیا اس خیال کے خلاف نہیں ہوسکتا‘ بے شک اللہ نے جنت کے لیے بھی ایک مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اور دوزخ کے لیے بھی۔ اس شبہ کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ شاید بغیر دلیل کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بچے کے قطعی جنتی ہونے کا فیصلہ دینے سے منع فرمایا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید اس کا اظہار اس وقت فرمایا ہو جب کہ آپ کو اطفال المسلمین کے بارے میں کوئی قطعی علم نہیں دیا گیا تھا۔ بعد میں آپ کو اللہ پاک نے بتلادیا کہ مسلمانوں کی اولاد یقینا جنتی ہوگی۔

حدیث نمبر : 1382
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت، أنه سمع البراء ـ رضى الله عنه ـ قال لما توفي إبراهيم ـ عليه السلام ـ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن له مرضعا في الجنة‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے عدی بن ثابت نے بیان کیا‘ انہوں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہشت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے۔

اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں داخل ہوگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے کے لیے اللہ نے مزید فضل یہ فرمایا کہ چونکہ آپ نے حالت رضاعت میں انتقال فرمایا تھا لہٰذا اللہ پاک نے ان کو دودھ پلانے کے لیے جنت میں ایک انا کو مقرر فرما دیا۔ اللہم صلی علی محمد وعلی ال محمد وبارک وسلم
خاتمہ
! الحمدللہ والمنۃ کہ رات اور دن کی سفرو حضر کی متواتر محنت کے نتیجہ میں آج اس پاک ومقدس کتاب کے پانچویں پارے کے ترجمہ وتشریحات سے فراغت حاصل ہوئی۔ اس خدمت کے لیے جس قدر محنت کی گئی اسے اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے۔ یہ محض اس کا کرم ہے کہ اس نے اس محنت شاقہ کی توفیق عطا فرمائی اور اس عظیم خدمت کو یہاں تک پہنچایا۔ میری زبان میں طاقت نہیں کہ میں اس پاک پروردگار کا شکر ادا کرسکوں۔ اللہ پاک اسے قبول فرمائے اور قبول عام عطا کرے اور جہاں کہیں بھی مجھ سے کوئی لغزش ہوئی ہو کلام رسول کی اصل منشاءکے خلاف کہیں کوئی لفظ درج ہوگیا ہو‘ اللہ پاک اسے معاف کرے۔ میں نے اپنی دانست میں اس امر کی پوری پوری سعی کی ہے کہ کسی جگہ بھی اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاءکے خلاف ترجمہ وتشریح میں کوئی لفظ نہ آنے پائے پھر بھی میں حقیر نا چیز ظلوم وجہول معترف ہوں کہ خدا جانے کہاں کہاں میرے قلم کو لغزش ہوئی ہوگی۔ لہٰذا یہی کہہ سکتا ہوں کہ اللہ پاک میری قلمی لغزشوں کو معاف کرے اور میری نیت میں زیادہ سے زیادہ خلوص عطا فرمائے۔
میں نے یہ بھی خاص کوشش کی ہے کہ اختلافی امور میں مسالک مختلفہ کی تفصیل میں کسی بھی اعلیٰ وادنیٰ بزرگ‘ امام‘ محدث‘ عالم’ فاضل کی شان میں کوئی گستاخانہ جملہ قلم پر نہ آنے پائے۔ اگر کسی جگہ کوئی ایسا فقرہ نظرآئے تو امید ہے کہ علمائے ماہرین مجھ کو مطلع فرما کر شکریہ کا موقع دیں گے اور میری ہر غلطی کو بنظر اصلاح مطالعہ فرماکر مجھ کو نظر ثانی کی طرف رہنمائی فرمائیں گے۔ میرا مقصد صرف کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ہے جس سے کوئی غرض فاسد مقصود نہیں ہے‘ پھر بھی انسان ہوں‘ ضعیف البنیان ہوں‘ اپنی جملہ غلطیوں کا مجھ کو اعتراف ہے۔ ان علمائے کرام کا بے حد مشکور ہوں گا جو میری اصلاح فرماکر میری دعائیں حاصل کریں گے۔
آخر میں مَیں اپنے ان جملہ شائقین کرام کا بھی ازحد مشکور ہوں جن کی مساعی جمیلہ کے نتیجہ میں یہ خدمت یہاں تک پہنچی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک جملہ بھائیوں کو دارین کی نعمتوں سے نوازے اور اس خدمت کی تکمیل کرائے۔
وباللہ التوفیق وہو خیر الرفیق والسلام علی عباداللہ الصالحین آمین۔

ناچیز
محمد داؤد رازولد عبداللہ ( غفراللہ لہ ولوالدیہ آمین )
( دہلی ربیع الاول 1389ھ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : مشرکین کی نابالغ اولاد کا بیان

تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ہذہ الترجمۃ تشعر ایضا بانہ کان متوقفا فی ذلک وقد جزم بعد ہذا فی تفسیر سورۃ الروم بمایدل علی اختیار القول الصائر الی انہم فی الجنۃ کما سیاتی تحریرہ وقد رتب ایضا احادیث ہذا الباب ترتیبا یشیر الی المذہب المختار فانہ صدرہ بالحدیث الدال علی التوقف ثم ثنی بالحدیث المرجح لکونہم فی الجنۃ ثم ثلث بالحدیث المصر بذالک فانہ قولہ فی سیاقہ واما الصبیان حولہ فاولاد الناس قد اخرجہ فی التعبیر بلفظ اما الولدان الذین حولہ فکل مولود یولد علی الفطرۃ فقال بعض المسلمین واولاد المشرکین فقال اولاد المشرکین ویویدہ مارواہ ابویعلیٰ من حدیث انس مرفوعاً سالت ربی اللا ہین فی ذریۃ البشر ان لا یعذبہم فاعطانیہم اسنادہ حسن ( فتح الباری‘ جزئ: سادس/ص:1 )

قال ابن القیم لیس المراد بقولہ یولد علی الفطرۃ انہ خرج من بطن امہ یعلم الدین لان وللہ یقول اللہ اخرجکم من بطون امہاتکم لا تسمون شیئا ولکن المراد الفطرۃ مقتضیہ لمعرفۃ دین الاسلام ومحبتہ فنفس الفطرۃ تستلزم الاقرار والمحبۃ ولیس المراد مجرد قبول الفطرۃ لذلک لانہ لا یتغیر بتہوید الابوین مثلا بحیث یخرجان الفطرۃ عن القبول وانما المراد ان کل مولود یولد علی اقرارہ بالربوبیۃ فلو خلی وعدم المعارض لم یعدل عن ذالک الی غیرہ کما انہ یولد علی محبۃ مایلائم بدنہ من ارتضاع اللبن حتی یصرف عنہ الصارف من ثم شبہت الفطرۃ باللبن بل کانت ایاہ فی تاویل الرویا واللہ اعلم۔ ( فتح الباری‘ ج: 6ص:3 ) مختصر مطلب یہ ہے کہ یہ باب ہی ظاہر کررہا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس بارے میں متوقف تھے۔ اس کے بعد سورۃ روم میں آپ نے اسی خیال پر جزم کیا ہے کہ وہ جنتی ہیں۔ یہاں بھی آپ نے احادیث کو اسی طرز پر مرتب فرمایا ہے جو مذہب مختار کی طرف راہنمائی کررہی ہے۔ پہلی حدیث تو توقف پر دال ہے۔ دوسری حدیث سے ظاہر ہے کہ ان کے جنتی ہونے کو ترجیح حاصل ہے۔ تیسری حدیث میں اسی خیال کی مزید صراحت موجود ہے جیسا لفظ اما الصبیان فاولادالناس سے ظاہر ہے۔ اسی کو کتاب التعبیر میں ان لفظوں میں نکالا ہے لیکن وہ بچے جو اس بزرگ کے ارد گرد نظرآئے پس ہر بچہ بھی فطرت پر پیدا ہوتا ہے بعض نے کہا کہ وہ مسلمانوں کی اولاد تھی۔ اس کی تائید ابویعلٰی کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ میں نے اولاد آدم میں بے خبروں کی بخشش کا سوال کیا تو اللہ نے مجھے ان سب کو عطا فرمادیا۔

علامہ ابن قیم نے فرمایا کہ حدیث کل مولود یولد علی الفطرۃ سے مراد یہ نہیں کہ ہر بچہ دین کا علم حاصل کرکے پیدا ہوتا ہے اللہ نے خود قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ تم کو اللہ نے ماؤں کے پیٹ سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ لیکن مراد یہ ہے کہ بچے کی فطرت اس بات کی مقتضی ہے کہ وہ دین اسلام کی معرفت اور محبت حاصل کرسکے۔ پس نفس فطرت اقرار اور محبت کو لازم ہے خالی قبول فطرت مراد نہیں۔ بایں طور کہ وہ ماں باپ کے ڈرانے دھمکانے سے متغیر نہیں ہوسکتی۔ پس مراد یہی ہے کہ ہر بچہ اقرار ربوبیت پر پیدا ہوتا ہے پس اگر وہ خالی الذہن ہی رہے اور کوئی معارضہ اس کے سامنے نہ آئے تو وہ اس خیال سے نہیں ہٹ سکے گا جیسا کہ وہ اپنی ماں کی چھاتیوں سے دودھ پینے کی محبت پر پیدا ہوا ہے یہاں تک کہ کوئی ہٹانے والا بھی اسے اس محبت سے ہٹا نہیں سکتا۔ اسی لیے فطرت کو دودھ سے تشبیہ دی گئی ہے بلکہ خواب میں بھی اس کی تعبیر یہی ہے۔

حدیث نمبر : 1383
حدثنا حبان، أخبرنا عبد الله، أخبرنا شعبة، عن أبي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهم ـ قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أولاد المشركين فقال ‏"‏ الله إذ خلقهم أعلم بما كانوا عاملين‏"‏‏. ‏
ہم سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ انہیں ابوبشر جعفر نے‘ انہیں سعید بن جبیرنے‘ ان کو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کے نابالع بچوں کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب انہیں پیدا کیا تھا اسی وقت وہ خوب جانتا تھا کہ یہ کیا عمل کریں گے۔

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے علم کے موافق سلوک کرے گا۔ بظاہر یہ حدیث اس مذہب کی تائید کرتی ہے کہ مشرکوں کی اولاد کے بارے میں توقف کرنا چاہیے۔ امام احمد اور اسحاق اور اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اور بیہقی نے امام شافعی سے بھی ایسا ہی نقل کیا ہے۔ اصولاً بھی یہ کہ نابالغ بچے شرعاً غیر مکلف ہیں پھر بھی اس بحث کا عمدہ حل یہی ہے کہ وہ اللہ کے حوالہ ہیں جو خوب جانتا ہے کہ وہ جنت کے لائق ہیں یا دوزخ کے۔ مومنین کی اولاد تو بہشتی ہے لیکن کافروں کی اولاد میں جو نابالغی کی حالت میں مرجائیں بہت اختلاف ہے۔ امام بخاری کا مذہب یہ ہے کہ وہ بہشتی ہیں کیونکہ بغیر گناہ کے عذاب نہیں ہوسکتا اور وہ معصوم مرے ہیں۔ بعضوں نے کہا اللہ کو اختیار ہے اور اس کی مشیت پر موقوف ہے چاہے بہشت میں لے جائے‘ چاہے دوزخ میں۔ بعضوں نے کہا اپنے ماں باپ کے ساتھ وہ بھی دوزخ میں رہیں گے۔ بعضوں نے کہا خاک ہوجائیں گے۔ بعضوں نے کہا اعراف میں رہیں گے۔ بعضوں نے کہا ان کاامتحان کیا جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1384
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عطاء بن يزيد الليثي، أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن ذراري المشركين فقال ‏"‏ الله أعلم بما كانوا عاملين‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عطاءبن یزیدلیثی نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کے نابالغ بچوں کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے جو بھی وہ عمل کرنے والے ہوئے۔

تشریح : اگر اس کے علم میں یہ ہے کہ وہ بڑے ہوکر اچھے کام کرنے والے تھے تو بہشت میں جائیں گے ورنہ دوزخ میں۔ بظاہر یہ حدیث مشکل ہے کیونکہ اس کے علم میں جو ہوتاہے وہ ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ تو اس کے علم میں تو یہی تھا کہ وہ بچپن میں ہی مرجائیں گے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ قطعی بات تو یہی تھی کہ وہ بچپن میں ہی مرجائیں گے اور پروردگار کو اس کا علم بے شک تھا مگر اس کے ساتھ پروردگار یہ بھی جانتا تھا کہ اگر یہ زندہ رہتے تو نیک بخت ہوتے یا بدبخت ہوتے۔ والعلم عنداللہ۔

حدیث نمبر : 1385
حدثنا آدم، حدثنا ابن أبي ذئب، عن الزهري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كل مولود يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه، كمثل البهيمة تنتج البهيمة، هل ترى فيها جدعاء‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ ان سے ابن ابی ذئب نے‘ ان سے زہری نے‘ ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں بالکل اس طرح جیسے جانور کے بچے صحیح سالم ہوتے ہیں۔ کیا تم نے ( پیدائشی طورپر ) کوئی ان کے جسم کا حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے۔

تشریح : مگر بعد میں لوگ ان کے کان وغیرہ کاٹ کر ان کو عیب دار کردیتے ہیں۔ اس حدیث سے امام بخاری نے اپنا مذہب ثابت کیا کہ جب ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے تو اگر وہ بچپن ہی میں مرجائے تو اسلام پر مرے گا اور جب اسلام پر مراتو بہشتی ہوگا۔ اسلام میں سب سے بڑا جزو توحید ہے تو ہر بچہ کے دل میں خدا کی معرفت اور اس کی توحید کی قابلیت ہوتی ہے۔ اگر بری صحبت میں نہ رہے تو ضرور وہ موحد ہوں لیکن مشرک ماں باپ‘ عزیز واقرباءاس فطرت سے اس کا دل پھرا کر شرک میں پھنسا دیتے ہیں۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : ۔۔۔

اس باب کے ذیل حضرت ابن حجر فرماتے ہیں: کذا ثبت لجمیعہم الا لابی ذر وہو کالفصل من الباب الذی قبلہ وتعلق الحدیث بہ ظاہر من قولہ فی حدیث سمرۃ المذکور والشیخ فی اصل الشجرۃ ابراہیم والصبیان حولہ اولاد الناس وقد تقدم التنبیہ علی انہ اوردہ فی التعبیر بزیادۃ قالوا واولاد المشرکین فقال اولاد المشرکین سیاتی الکلام علی بقیۃ الحدیث مستوفی فی کتاب التعبیر ان شاءاللہ تعالیٰ ( فتح الباری‘ ج:1ص:3 ) یعنی تمام نسخوں میں ( بجز ابوذر کے ) یہ باب اسی طرح درج ہے اور یہ گویا پچھلے باب سے فصل کے لیے ہے اور حدیث کا تعلق سمرہ مذکور کی روایت میں لفظ والشیخ فی اصل الشجرۃ ابراہیم والصبیان حولہ اولادالناس سے ظاہر ہے اور پیچھے کہا جاچکا ہے کہ حضرت امام نے اسے کتاب التعبیر میں ان لفظوں کی زیادتی کے ساتھ روایت کیا ہے کہ کیا مشرکوں کی اولاد کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ فرمایا ہاں اولاد مشرکین کے لیے بھی اور پوری تفصیلات کا بیان کتاب التعبیر میں آئے گا۔ ( وحیدی )

یہ حققیت مسلم ہے کہ انبیاءکے خواب بھی وحی اور الہام کے درجہ میں ہوتے ہیں‘ اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اگرچہ یہ ایک خواب ہے مگر اس میں جو کچھ آپ نے دیکھا وہ بالکل برحق ہے جس کا اختصار یہ ہے کہ پہلا آپ نے وہ شخص دیکھا جس کے جبڑے دوزخی آنکڑوں سے چیرے جارہے تھے۔ یہ وہ شخص ہے جو دنیا میں جھوٹ بولتا اور جھوٹی باتوں کو پھیلاتا رہتا ہے۔ دوسرا شخص آپ نے وہ دیکھا جس کا سر پتھر سے کچلا جارہا تھا۔ یہ وہ ہے جو دنیا میں قرآن کا عالم تھا مگر عمل سے بالکل خالی رہا اور قرآن پر نہ رات کو عمل کیا نہ دن کو‘ قیامت تک اس کو یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ تیسرا آپ نے تنور کی شکل میں دوزخ کا ایک گڑھا دیکھا۔ جس میں بدکار مرد وعورت جل رہے تھے۔ چوتھا آپ نے ایک نہر میں غرق آدمی کو دیکھا جو نکلنا چاہتا تھا مگر فرشتے اس کو مار مار کر واپس اسی نہر میں غرق کردیتے تھے۔ یہ وہ شخص جو دنیا میں سود کھاتا تھا اور درخت کی جڑ میں بیٹھنے والے بزرگ حضرت سیدنا خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور آپ کے ارد گرد وہ معصوم بچے جو بچپن ہی میں انتقال کرگئے۔ وہ مسلمانوں کے ہوں یا دیگر قوموں کے اور وہ آگ بڑھکانے والاد وزخ کا داروغہ تھا۔
یہ تمام چیزیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم رؤیا میں دکھلائی گئیں اور آپ نے اپنی امت کی ہدایت وعبرت کے لیے ان کو بیان فرمادیا۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے ثابت فرمایا کہ مشرکین کی اولاد جو بچپن میں انتقال کرجائے جنتی ہے۔ لیکن دوسری روایات کی بناءپر ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ آخری بات یہ ہے کہ اگر وہ رہتے تو جو کچھ وہ کرتے اللہ کو خوب معلوم ہے۔ پس اللہ پاک مختار ہے وہ جو معاملہ چاہے ان کے ساتھ کرے ہاں مسلمانوں کی نابالغ اولاد یقینا سب جنتی ہیں جیسا کہ متعدد دلائل سے ثابت ہے۔

حدیث نمبر : 1386
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جرير بن حازم، حدثنا أبو رجاء، عن سمرة بن جندب، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى صلاة أقبل علينا بوجهه فقال ‏"‏ من رأى منكم الليلة رؤيا‏"‏‏. ‏ قال فإن رأى أحد قصها، فيقول ما شاء الله، فسألنا يوما، فقال ‏"‏ هل رأى أحد منكم رؤيا‏"‏‏. ‏ قلنا لا‏.‏ قال ‏"‏ لكني رأيت الليلة رجلين أتياني فأخذا بيدي، فأخرجاني إلى الأرض المقدسة، فإذا رجل جالس، ورجل قائم بيده كلوب من حديد ـ قال بعض أصحابنا عن موسى إنه ـ يدخل ذلك الكلوب في شدقه، حتى يبلغ قفاه، ثم يفعل بشدقه الآخر مثل ذلك، ويلتئم شدقه هذا، فيعود فيصنع مثله‏.‏ قلت ما هذا قالا انطلق‏.‏ فانطلقنا حتى أتينا على رجل مضطجع على قفاه، ورجل قائم على رأسه بفهر أو صخرة، فيشدخ به رأسه، فإذا ضربه تدهده الحجر، فانطلق إليه ليأخذه، فلا يرجع إلى هذا حتى يلتئم رأسه، وعاد رأسه كما هو، فعاد إليه فضربه، قلت من هذا قالا انطلق‏.‏ فانطلقنا إلى ثقب مثل التنور، أعلاه ضيق وأسفله واسع، يتوقد تحته نارا، فإذا اقترب ارتفعوا حتى كاد أن يخرجوا، فإذا خمدت رجعوا فيها، وفيها رجال ونساء عراة‏.‏ فقلت من هذا قالا انطلق‏.‏ فانطلقنا حتى أتينا على نهر من دم، فيه رجل قائم على وسط النهر رجل بين يديه حجارة، فأقبل الرجل الذي في النهر، فإذا أراد أن يخرج رمى الرجل بحجر في فيه، فرده حيث كان، فجعل كلما جاء ليخرج رمى في فيه بحجر، فيرجع كما كان‏.‏ فقلت ما هذا قالا انطلق‏.‏ فانطلقنا حتى انتهينا إلى روضة خضراء، فيها شجرة عظيمة، وفي أصلها شيخ وصبيان، وإذا رجل قريب من الشجرة بين يديه نار يوقدها، فصعدا بي في الشجرة، وأدخلاني دارا لم أر قط أحسن منها، فيها رجال شيوخ وشباب، ونساء وصبيان، ثم أخرجاني منها فصعدا بي الشجرة فأدخلاني دارا هي أحسن وأفضل، فيها شيوخ وشباب‏.‏ قلت طوفتماني الليلة، فأخبراني عما رأيت‏.‏ قالا نعم، أما الذي رأيته يشق شدقه فكذاب يحدث بالكذبة، فتحمل عنه حتى تبلغ الآفاق، فيصنع به إلى يوم القيامة‏.‏ والذي رأيته يشدخ رأسه فرجل علمه الله القرآن، فنام عنه بالليل، ولم يعمل فيه بالنهار، يفعل به إلى يوم القيامة‏.‏ والذي رأيته في الثقب فهم الزناة‏.‏ والذي رأيته في النهر آكلو الربا‏.‏ والشيخ في أصل الشجرة إبراهيم ـ عليه السلام ـ والصبيان حوله فأولاد الناس، والذي يوقد النار مالك خازن النار‏.‏ والدار الأولى التي دخلت دار عامة المؤمنين، وأما هذه الدار فدار الشهداء، وأنا جبريل، وهذا ميكائيل، فارفع رأسك، فرفعت رأسي فإذا فوقي مثل السحاب‏.‏ قالا ذاك منزلك‏.‏ قلت دعاني أدخل منزلي‏.‏ قالا إنه بقي لك عمر لم تستكمله، فلو استكملت أتيت منزلك‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا ہم سے جریربن حازم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابورجاءعمران بن تمیم نے بیان کیا اور ان سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ( فجر ) پڑھنے کے بعد ( عموماً ) ہماری طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کردیتا اور آپ اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے۔ ( اور وہاں سے عالم بالا کی مجھ کو سیر کرائی ) وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں ( امام بخاری نے کہا کہ ) ہمارے بعض اصحاب نے ( غالباً عباس بن فضیل اسقاطی نے موسیٰ بن اسماعیل سے یوں روایت کیا ہے ) لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آجاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہورہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سرپر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سرکو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سرپر پتھر مارتا تو سرپر لگ کروہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جاکر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہوجاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آکر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو‘ ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ( یزیدبن ہارون اور وہب بن جریر نے جریر بن حازم کے واسطہ سے وسطہ النہر کے بجائے شط النہر نہر کے کنارے کے الفاظ نقل کئے ہیں ) ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتا کہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتا کہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہورہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگارہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں اندر لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین وخوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان‘ عورتیں اور بچے ( سب ہی قسم کے لوگ ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہو ںنے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جارہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سرکچلا جارہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زنا کار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے ارد گرد والے بچے‘ لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں تم پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو‘ یہ شہداءکا گھر ہے اور میں جبرئیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سراٹھاؤ میں نے جو سراٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کرلیتے تو اپنے مکان میں آجاتے۔

تشریح : جمعہ کے دن کی موت کی فضیلت اسی طرح جمعہ کی رات مرنے کی فضیلت دوسری احادیث میں آئی ہے۔ پیر کا دن بھی موت کے لیے بہت افضل ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دن وفات پائی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسی دن کی آرزو کی مگر آپ کا انتقال منگل کی شب میں ہوا۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : پیر کے دن مرنے کی فضیلت کا بیان

تشریح : جمعہ کے دن کی موت کی فضیلت اسی طرح جمعہ کی رات مرنے کی فضیلت دوسری احادیث میں آئی ہے۔ پیر کا دن بھی موت کے لیے بہت افضل ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دن وفات پائی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسی دن کی آرزو کی مگر آپ کا انتقال منگل کی شب میں ہوا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1387
حدثنا معلى بن أسد، حدثنا وهيب، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت دخلت على أبي بكر ـ رضى الله عنه ـ فقال في كم كفنتم النبي صلى الله عليه وسلم قالت في ثلاثة أثواب بيض سحولية، ليس فيها قميص ولا عمامة‏.‏ وقال لها في أى يوم توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت يوم الاثنين‏.‏ قال فأى يوم هذا قالت يوم الاثنين‏.‏ قال أرجو فيما بيني وبين الليل‏.‏ فنظر إلى ثوب عليه كان يمرض فيه، به ردع من زعفران فقال اغسلوا ثوبي هذا، وزيدوا عليه ثوبين فكفنوني فيها‏.‏ قلت إن هذا خلق‏.‏ قال إن الحى أحق بالجديد من الميت، إنما هو للمهلة‏.‏ فلم يتوف حتى أمسى من ليلة الثلاثاء ودفن قبل أن يصبح‏.‏
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں ( والد ماجد حضرت ) ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ( ان کی مرض الموت میں ) حاضر ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تم لوگوں نے کتنے کپڑوں کا کفن دیا تھا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تین سفید دھلے ہوئے کپڑوں کا۔ آپ کو کفن میں قمیض اور عمامہ نہیں دیا گیا تھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ آپ کی وفات کس دن ہوئی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ پیر کے دن۔ پھر پوچھا کہ آج کون سا دن ہے؟ انہوں نے کہا آج پیر کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پھر مجھے بھی امید ہے کہ اب سے رات تک میں بھی رخصت ہوجاؤں گا۔ اس کے بعد آپ نے اپنا کپڑا دیکھا جسے مرض کے دوران میں آپ پہن رہے تھے۔ اس کپڑے پر زعفران کا دھبہ لگا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا میرے اس کپڑے کو دھولینا اور اس کے ساتھ دو اور ملا لینا پھر مجھے کفن انہیں کا دینا۔ میں نے کہا کہ یہ تو پرانا ہے۔ فرمایا کہ زندہ آدمی نئے کا مردے سے زیادہ مستحق ہے‘ یہ تو پیپ اور خون کی نذر ہوجائے گا۔ پھر منگل کی رات کا کچھ حصہ گزرنے پر آپ کا انتقال ہوا اور صبح ہونے سے پہلے آپ کو دفن کیا گیا۔

تشریح : سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پیر کے دن موت کی آرزو کی‘ اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے کفن کے لیے اپنے روز مرہ کے کپڑوں کو ہی زیادہ پسند فرمایا جن میں آپ روزانہ عبادت الٰہی کیا کرتے تھے۔ آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب آپ کا یہ حال دیکھا تو وہ ہائے کرنے لگیں مگر آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو بلکہ اس آیت کو پڑھو وجاءت سکرۃ الموت بالحق یعنی آج سکرات موت کا وقت آگیا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کے لیے دفتر بھی ناکافی ہے رضی اللہ عنہ وارضاہ

علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: وروی ابوداؤد من حدیث علی مرفوعاً لا تغالوا فی الکفن فانہ یسلب سریعا ولا یعارضہ حدیث جابر فی الامر بتحسین الکفن اخرجہ مسلم فانہ یجمع بینہما بحمل التحسین علی الصفۃ وحمل المغالات علی الثمن قبل وقیل التحسین فی حق المیت فاذا اوصی بترکہ اتبع کما فعل الصدیق ویحتمل ان یکون اختار ذالک الثوب بعینہ لمعنی فیہ من التبرک بہ لکونہ صار الیہ من النبی صلی اللہ علیہ وسلم اولکونہ جاہدا فیہ اوتعبد فیہ ویویدہ مارواہ ابن سعد من طریق القاسم بن محمد بن ابی بکر قال قال ابوبکر کفنونی فی ثوبی الذین کنت اصلی فیہما ( فتح الباری‘ ج: 6ص: 5 ) اور ابوداؤ نے حدیث علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ قیمتی کپڑا کفن میں نہ دو وہ تو جلد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ حدیث جابر میں عمدہ کفن دینے کا بھی حکم آیا ہے۔ عمدہ سے مراد صاف ستھرا کپڑا اور قیمتی سے گراں قیمت کپڑا مراد ہے۔ ہردو حدیث میں یہی تطبیق ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحسین میت کے حق میں ہے اگر وہ چھوڑنے کی وصیت کرجائے تو اس کی اتباع کی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے اپنے ان کپڑوں کو بطور تبرک پسند فرمایا ہو کیونکہ وہ آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوئے تھے یا یہ کہ ان میں آپ نے بڑے بڑے مجاہدے کئے تھے یا ان میں عبادت الٰہی کی تھی۔ اس کی تائید میں ایک روایت میں آپ کے یہ لفظ بھی منقول ہیں کہ مجھے میرے ان ہی دو کپڑوں میں کفن دینا جن میں میں نے نمازیں ادا کی ہیں۔

وفی ہذا الحدیث استحباب التکفین فی الثیاب البیض وتثلیث الکفن وطلب الموافقۃ فیما وقع للاکابر تبرکا بذلک وفیہ جواز التکفین فی الثیاب المغسولۃ وایثار الحی بالجدید والدفن باللیل وفضل ابی بکر وصحۃ فراستہ وثباتہ عند وفاتہ وفیہ اخذ المرءالعلم عمن دونہ وقال ابوعمر فیہ ان التکفین فی الثوب الجدید والخلق سوائ۔ یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سفید کپڑوں کا کفن دینا اور تین کپڑے کفن میں استعمال کرنا مستحب ہے اور اکابر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بطور تبرک موافقت طلب کرنا بھی مستحب ہے۔ جیسے صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم وفات پیر کے دن کی موافقت کی خواہش ظاہر فرمائی اور اس حدیث دھلے ہوئے کپڑوں کا کفن دینا بھی جائز ثابت ہوا اور یہ بھی کہ عمدہ نئے کپڑوں کے لیے زندوں پر ایثار کرنا مستحب ہے جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اور رات میں دفن کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت وفراست بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ علم حاصل کرنے میں بڑوں کے لیے چھوٹوں سے بھی استفادہ جائز ہے۔ جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی سے استفادہ فرمایا۔ ابو عمر نے کہا کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نئے اور پرانے کپڑوں کا کفن دینا برابر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : ناگہانی موت کا بیان

حدیث نمبر : 1388
حدثنا سعيد بن أبي مريم، حدثنا محمد بن جعفر، قال أخبرني هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ‏.‏ أن رجلا، قال للنبي صلى الله عليه وسلم إن أمي افتلتت نفسها، وأظنها لو تكلمت تصدقت، فهل لها أجر إن تصدقت عنها قال ‏"‏ نعم‏"‏‏. ‏
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا‘ کہا مجھے ہشام بن عروہ نے خبر دی ‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کردوں تو کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں ملے گا۔

تشریح : باب کی حدیث لاکرامام بخاری نے یہ ثابت کیا کہ مومن کے لیے ناگہانی موت سے کوئی ضرر نہیں۔ گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی ہے کیونکہ اس میں وصیت کرنے کی مہلت نہیں ملتی۔ ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے کہ ناگہانی موت مومن کے لیے راحت ہے اور بدکار کے لیے غصے کی پکڑ ہے۔ ( وحیدی
 
Top