• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : حلال کمائی میں سے خیرات قبول ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

لقوله ‏{‏ويربي الصدقات والله لا يحب كل كفار أثيم‏}‏ إلى قوله ‏{‏ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون‏}‏
کہ اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے‘ نماز قائم کی اور زکوٰة دی‘ انہیں ان اعمال کا ان کے پروردگار کے یہاں ثواب ملے گا اور نہ انہیں کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

حدیث نمبر : 1410
حدثنا عبد الله بن منير، سمع أبا النضر، حدثنا عبد الرحمن ـ هو ابن عبد الله بن دينار ـ عن أبيه، عن أبي صالح، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من تصدق بعدل تمرة من كسب طيب ـ ولا يقبل الله إلا الطيب ـ وإن الله يتقبلها بيمينه، ثم يربيها لصاحبه كما يربي أحدكم فلوه حتى تكون مثل الجبل‏"‏‏. ‏ تابعه سليمان عن ابن دينار‏. وقال ورقاء: عن ابن دينار، عن سعيد بن يسار، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم. ورواه مسلم بن أبي مريم، وزيد بن أسلم، وسهيل، عن أبي صالح، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم.‏
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا‘ انہوں نے ابوالنضر سالم بن ابی امیہ سے سنا‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا‘ ان سے ان کے والد نے‘ ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلاکر بڑھاتا ہے تاآنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ عبدالرحمن کے ساتھ اس روایت کی متابعت سلیمان نے عبداللہ بن دینار کی روایت سے کی ہے اور ورقاءنے ابن دینار سے کہا‘ ان سے سعید بن یسارنے‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس کی روایت مسلم بن ابی مریم‘ زید بن اسلم اور سہیل نے ابوصالح سے کی‘ ان سے ابوہریرہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔

تشریح : حدیث میں ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں یعنی ایسا نہیں کہ اس کا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے قوت میں کم ہو۔ جیسے مخلوقات میں ہوا کرتا ہے۔ اہلحدیث اس قسم کی آیتوں اور حدیثوں کی تاویل نہیں کرتے اور ان کو ان کے ظاہری معنی پر محمول رکھتے ہیں۔ سلیمان کی روایت مذکورہ کو خود مؤلف نے اور ابوعوانہ نے وصل کیا۔ اور ورقاءکی روایت کو امام بیہقی اور ابوبکر شافعی نے اپنے فوائد میں اور مسلم کی روایت کو قاضی یوسف بن یعقوب نے کتاب الزکوٰۃ میں اور زید بن اسلم اور سہیل کی روایتوں کو امام مسلم نے وصل کیا۔ ( وحیدی )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قال اہل العلم من اہل السنۃ والجماعۃ نومن بہذہ الاحادیث ولا نتوہم فیہا تشبیہا ولا نقول کیف یعنی اہل سنت والجماعت کے جملہ اہل علم کا قول ہے کہ ہم بلاچوں وچراں احادیث پر ایمان لاتے ہیں اور اس میں تشبیہ کا وہم نہیں کرتے اور نہ ہم کیفیت کی بحث میں جاتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : صدقہ اس زمانے سے پہلے کہ اس کا لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا

حدیث نمبر : 1411
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا معبد بن خالد، قال سمعت حارثة بن وهب، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ تصدقوا فإنه يأتي عليكم زمان يمشي الرجل بصدقته، فلا يجد من يقبلها يقول الرجل لو جئت بها بالأمس لقبلتها، فأما اليوم فلا حاجة لي بها‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن خالد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ میں نے حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے سنا‘ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ صدقہ کرو‘ ایک ایسا زمانہ بھی تم پر آنے والا ہے جب ایک شخص اپنے مال کا صدقہ لے کر نکلے گا اور کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں پائے گا۔

تشریح : جس کے پاس صدقہ لے کر جائے گا وہ یہ جواب دے گا کہ اگر تم کل اسے لائے ہوتے تو میں قبول کرلیتا۔ آج تو مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ قیامت کے قریب زمین کی ساری دولت باہر نکل آئے گی اور لوگ کم رہ جائیں گے۔ ایسی حالت میں کسی کو مال کی حاجت نہ ہوگی۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کو غنیمت جانو جب تم میں محتاج لوگ موجود ہیں اور جتنی ہوسکے خیرات دو۔اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ قیامت کے قریب ایسے جلد جلد انقلاب ہوں گے کہ آج آدمی محتاج ہے کل امیر ہوگا۔ آج اس دور میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ ساری روئے زمین پر ایک طوفان برپا ہے مگر وہ زمانہ ابھی دور ہے کہ لوگ زکوٰۃ وصدقات لینے والے باقی نہ رہیں۔

حدیث نمبر : 1412
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، حدثنا أبو الزناد، عن عبد الرحمن، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تقوم الساعة حتى يكثر فيكم المال فيفيض، حتى يهم رب المال من يقبل صدقته، وحتى يعرضه فيقول الذي يعرضه عليه لا أرب لي‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن ہر مزاعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت آنے سے پہلے مال ودولت کی اس قدر کثرت ہوجائے گی اور لوگ اس قدر مال دار ہوجائیں گے کہ اس وقت صاحب مال کو اس کی فکر ہوگی کہ اس کی زکوٰة کون قبول کرے اور اگر کسی کو دینا بھی چاہے گا تو اس کو یہ جواب ملے گا کہ مجھے اس کی حاجت نہیں ہے۔

قیامت کے قریب جب زمین اپنے خزانے اگل دے گی، تب یہ حالت پیش آئے گی۔

حدیث نمبر : 1413
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا أبو عاصم النبيل، أخبرنا سعدان بن بشر، حدثنا أبو مجاهد، حدثنا محل بن خليفة الطائي، قال سمعت عدي بن حاتم ـ رضى الله عنه ـ يقول كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاءه رجلان أحدهما يشكو العيلة، والآخر يشكو قطع السبيل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أما قطع السبيل فإنه لا يأتي عليك إلا قليل حتى تخرج العير إلى مكة بغير خفير، وأما العيلة فإن الساعة لا تقوم حتى يطوف أحدكم بصدقته لا يجد من يقبلها منه، ثم ليقفن أحدكم بين يدى الله ليس بينه وبينه حجاب ولا ترجمان يترجم له، ثم ليقولن له ألم أوتك مالا فليقولن بلى‏.‏ ثم ليقولن ألم أرسل إليك رسولا فليقولن بلى‏.‏ فينظر عن يمينه فلا يرى إلا النار، ثم ينظر عن شماله فلا يرى إلا النار، فليتقين أحدكم النار ولو بشق تمرة، فإن لم يجد فبكلمة طيبة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں سعد ان بن بشیر نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابومجاہد سعد طائی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے محل بن خلیفہ طائی نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا کہ دو شخص آئے‘ ایک فقروفاقہ کی شکایت لیے ہوئے تھا اور دوسرے کو راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت تھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاں تک راستوں کے غیر محفوظ ہونے کا تعلق ہے تو بہت جلد ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب ایک قافلہ مکہ سے کسی محافظ کے بغیرنکلے گا۔ ( اور اسے راستے میں کوئی خطرہ نہ ہوگا ) اور رہا فقروفاقہ تو قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ( مال ودولت کی کثرت کی وجہ سے یہ حال نہ ہوجائے کہ ) ایک شخص اپنا صدقہ لے کر تلاش کرے لیکن کوئی اسے لینے والا نہ ملے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہ ہوگا اور نہ ترجمان کے لیے کوئی ترجمان ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیا میں نے تجھے دنیا میںمال نہیں دیا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر نہیں بھیجا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں بھیجا تھا۔ پھر وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو آگ کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا پھر بائیں طرف دیکھے گا اور ادھر بھی آگ ہی آگ ہوگی۔ پس تمہیں جہنم سے ڈرنا چاہیے خواہ ایک کھجور کے ٹکڑے ہی ( کاصدقہ کرکے اس سے اپنا بچاؤ کرسکو ) اگر یہ بھی میسر نہ آسکے تو اچھی بات ہی منہ سے نکالے۔

یہ بھی ایک بڑا صدقہ ہے یعنی اگرخیرات نہ دے تو اس کو نرمی سے ہی جواب دے کہ اس وقت میں مجبور ہوں‘ معاف کرو‘ گھر کنا جھگڑنا منع ہے۔ ترجمان وہ ہے جو ترجمہ کرکے بندے کا کلام اللہ سے عرض کرے اور اللہ کا ارشاد بندے کو سنائے بلکہ خود اللہ پاک کلام فرمائے گا۔ اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں آواز اور حروف نہیں‘ اگر آواز اور حروف نہ ہوں تو بندہ سنے گا کیسے اور سمجھے گا کیسے؟ ( وحیدی )
اس حدیث میں یہ پیش گوئی بھی ہے کہ ایک دن عرب میں امن وامان عام ہوگا‘ چور ڈاکو عام طورپر ختم ہوجائیں گے‘ یہاں تک کہ قافلے مکہ شریف سے ( خفیر ) کے بغیر نکلا کریں گے۔ خفیر اس شخص کو کہا جاتا تھا جو عرب میں ہر ہر قبیلہ سے قافلہ کے ساتھ سفر کرکے اپنے قبیلہ کی سرحد امن وعافیت کے ساتھ پار کرا دیتا تھا وہ راستہ بھی بتلاتا اور لوٹ مار کرنے والوں سے بھی بچاتا تھا۔
آج اس چودھویں صدی میں حکومت عربیہ سعودیہ نے حرمین شریف کو امن کا اس قدر گہوارہ بنا دیا ہے کہ مجال نہیں کوئی کسی پر دست اندازی کرسکے۔ اللہ پاک اس حکومت کو قائم دائم رکھے اور حاسدین ومعاندین کے اوپر اس کو ہمیشہ غلبہ عطا فرمائے۔ ( آمین )

حدیث نمبر : 1414
حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا أبو أسامة، عن بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ليأتين على الناس زمان يطوف الرجل فيه بالصدقة من الذهب ثم لا يجد أحدا يأخذها منه، ويرى الرجل الواحد يتبعه أربعون امرأة، يلذن به من قلة الرجال وكثرة النساء‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوسامہ ( حماد بن اسامہ ) نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے برید بن عبداللہ نے‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ضرور ایک زمانہ ایسا آجائے گا کہ ایک شخص سونے کاصدقہ لے کر نکلے گا لیکن کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اور یہ بھی ہوگا کہ ایک مرد کی پناہ میں چالیس چالیس عورتیں ہوجائیں گی کیونکہ مردوں کی کمی ہو جائے گی اور عورتوں کی زیادتی ہوگی۔

قیامت کے قریب یا تو عورتوں کی پیدائش بڑھ جائے گی‘ مرد کم پیدا ہوں گے یا لڑائیوں کی کثرت سے مردوں کی قلت ہوجائے گی۔ ایسا کئی دفعہ ہوچکا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے یا کسی معمولی سے صدقہ کے ذریعے ہو

والقليل من الصدقة ‏{‏ومثل الذين ينفقون أموالهم ابتغاء مرضاة الله وتثبيتا من أنفسهم‏}‏ الآية وإلى قوله ‏{‏من كل الثمرات‏}‏
اور ( قرآن مجید میں ہے ) ﴿ ومثل الذین ینفقون اموالہم ﴾ ( ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال خرچ کرتے ہیں، سے فرمان باری ﴿ ومن کل الثمرات ﴾ تک۔

یہ آیت سورئہ بقرہ کے رکوع 35 میں ہے۔ اس آیت اورحدیث سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ صدقہ تھوڑا ہو یا بہت ہر طرح اس پر ثواب ملے گا کیونکہ آیت میں مطلق “اموالہم” کا ذکر ہے جو قلیل اورکثیر سب کو شامل ہے۔

حدیث نمبر : 1415
حدثنا عبيد الله بن سعيد: حدثنا أبو النعمان الحكم، هو ابن عبد الله البصري حدثنا شعبة، عن سليمان، عن أبي وائل، عن أبي مسعود رضي الله عنه قال: لما نزلت آية الصدقة، كنا نحامل، فجاء رجل فتصدق بشيء كثير، فقالوا: مرائي، وجاء رجل فتصدق بصاع، فقالوا: إن الله لغني عن صاع هذا، فنزلت: {الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم}. الآية.
ہم سے ابوقدامہ عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابوالنعمان حکم بن عبداللہ بصری نے بیان کیا‘ کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا‘ ان سے سلیمان اعمش نے‘ ان سے ابووائل نے اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو ہم بوجھ ڈھونے کا کام کیا کرتے تھے ( تاکہ اس طرح جو مزدوری ملے اسے صدقہ کردیا جائے ) اسی زمانہ میں ایک شخص ( عبدالرحمن بن عوف ) آیا اور اس نے صدقہ کے طورپر کافی چیزیں پیش کیں۔ اس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ آدمی ریاکار ہے۔ پھر ایک اور شخص ( ابوعقیل نامی ) آیا اور اس نے صرف ایک صاع کا صدقہ کیا۔ اس کے بارے میں لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کو ایک صاع صدقہ کی کیا حاجت ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی “ وہ لوگ جو ان مومنوں پر عیب لگاتے ہیں جو صدقہ زیادہ دیتے ہیں اور ان پر بھی جو محنت سے کماکر لاتے ہیں۔ ( اور کم صدقہ کرتے ہیں ) آخر تک۔

تشریح : یہ طعنہ مارنے والے کم بخت منافقین تھے‘ ان کو کسی طرح چین نہ تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنا آدھا مال آٹھ ہزار درہم صدقہ کردئیے تو ان کو ریاکار کہنے لگے۔ ابوعقیل رضی اللہ عنہ بچارے غریب آدمی نے محنت مزدوری سے کمائی کرکے ایک صاع کھجور اللہ کی راہ میں دی تو اس پر ٹھٹھا مارنے لگے کہ اللہ کو اس کی احتیاج نہ تھی۔

ارے مردود! اللہ کو تو کسی چیز کی احتیاج نہیں۔ آٹھ ہزار کیا آٹھ کروڑ بھی ہوں تو اس کے آگے بے حقیقت ہیں۔ وہ دل کی نیت کو دیکھتا ہے۔ ایک صاع کھجور بھی بہت ہے۔ ایک کھجور بھی کوئی خلوص کے ساتھ حلال مال سے دے تو وہ اللہ کے نزدیک مقبول ہے۔ انجیل شریف میں ہے کہ ایک بڑھیا نے خیرات میں ایک دمڑی دی۔ لوگ اس پر ہنسے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس بڑھیا کی خیرات تم سے بڑھ کرہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1416
حدثنا سعيد بن يحيى، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، عن شقيق، عن أبي مسعود الأنصاري ـ رضى الله عنه ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أمرنا بالصدقة انطلق أحدنا إلى السوق فتحامل فيصيب المد، وإن لبعضهم اليوم لمائة ألف‏.‏
ہم سے سعید بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے اور ان سے ابو مسعودانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے بازار جاکر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور اس طرح ایک مد ( غلہ یا کھجور وغیرہ ) حاصل کرتے۔ ( جسے صدقہ کردیتے ) لےکن آج ہم میں سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ ( درہم یا دینار ) موجود ہیں۔

حدیث نمبر : 1417
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال سمعت عبد الله بن معقل، قال سمعت عدي بن حاتم ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ اتقوا النار ولو بشق تمرة‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے ابواسحاق عمروبن عبداللہ سبیعی نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن معقل سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی سہی ( مگر ضرور صدقہ کرکے دوزخ کی آگ سے بچنے کی کوشش کرو )

تشریح : ان ہر دو احادیث سے صدقہ کی فضیلت ظاہر ہے اور یہ بھی کہ دور اول میں صحابہ کرام جب کہ وہ خود نہایت تنگی کی حالت میں تھے، اس پر بھی ان کو صدقہ خیرات کا کس درجہ شوق تھا کہ خود مزدوری کرتے‘ بازار میں قلی بنتے‘ کھیت مزدوروں میں کام کرتے‘ پھر جو حاصل ہوتا اس میں غرباءومساکین مسلمانوں کی امداد کرتے۔ اہل اسلام میں یہ جذبہ اس چیز کا بین ثبوت ہے کہ اسلام نے اپنے پیروکاروں میں بنی نوع انسان کے لیے ہمدردی وسلوک کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھردیا ہے۔ قرآن مجید کی آیت لَن تَنَالُو البِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ( آل عمران: 92 ) میں اللہ پاک نے رغبت دلائی کہ صدقہ وخیرات میں گھٹیا چیز نہ دو بلکہ پیاری سے پیاری چیزوں کا صدقہ کرو۔ برخلاف اس کے بخیل کی حد درجہ مذمت کی گئی اور بتلایا کہ بخیل جنت کی بو بھی نہ پائے گا۔یہی صحابہ کرام تھے جن کا حال آپ نے سنا پھر اللہ نے اسلام کی برکت سے ان کو اس قدر بڑھایا کہ لاکھوں کے مالک بن گئے۔

حدیث ولوبشق تمرۃ مختلف لفظوں میں مختلف طرق سے وارد ہوئی ہے۔ طبرانی میں ہے اجعلوا بینکم وبین النار حجابا ولوبشق تمرۃ اور دوزخ کے درمیان صدقہ کرکے حجاب پیدا کرو اگرچہ وہ صدقہ ایک کھجور کی پھانک ہی سے ہو۔ نیز مسند احمد میں یوں ہے لیتق احدکم وجہہ بالنار ولوبشق تمرۃ یعنی تم کو اپنا چہرہ آگے سے بچانا چاہئے جس کا واحد ذریعہ صدقہ ہے اگرچہ وہ آدھی کھجور ہی سے کیوں نہ ہو۔ اور مسند احمدی ہی میں حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو خطاب فرمایا یاعائشۃ استتری من النار ولوبشق تمرۃ الحدیث یعنی اے عائشہ! دوزخ سے پردہ کرو چاہے وہ کھجور کی ایک پھانک ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو۔

آخر میں علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ وفی الحدیث الحث علی الصدقۃ بماقل وماجل وان لا یحتقر ما یتصدق بہ وان الیسیر من الصدقۃ یستر المتصدق من النار ( فتح الباری ) یعنی حدیث میں ترغیب ہے کہ تھوڑا ہو یا زیادہ صدقہ بہر حال کرنا چاہیے اور تھوڑے صدقہ کو حقیر نہ جاننا چاہیے کہ تھوڑے سے تھوڑا صدقہ متصدق کے لیے دوزخ سے حجاب بن سکتا ہے۔

حدیث نمبر : 1418
حدثنا بشر بن محمد، قال أخبرنا عبد الله، أخبرنا معمر، عن الزهري، قال حدثني عبد الله بن أبي بكر بن حزم، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت دخلت امرأة معها ابنتان لها تسأل، فلم تجد عندي شيئا غير تمرة فأعطيتها إياها، فقسمتها بين ابنتيها ولم تأكل منها، ثم قامت فخرجت، فدخل النبي صلى الله عليه وسلم علينا، فأخبرته فقال ‏"‏ من ابتلي من هذه البنات بشىء كن له سترا من النار‏"‏‏. ‏
ہم سے بشربن محمد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن ابی بکر بن حزم نے بیان کیا‘ ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے مانگتی ہوئی آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے سوا اس وقت اور کچھ نہ تھا میں نے وہی دے دی۔ وہ ایک کھجور اس نے اپنی دونوں بچیوں میں تقسیم کردی اور خود نہیں کھائی۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خود کو معمولی سی بھی تکلیف میں ڈالا تو بچیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے آڑ بن جائیں گی۔

تشریح : اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس عورت نے ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے اپنی دونوں بیٹیوں کو دے دئیے جو نہایت قلیل صدقہ ہے اور باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوزخ سے بچاؤ کی بشارت دی۔ میں کہتا ہوں اس تکلف کی حاجت نہیں۔ باب میں دو مضمون تھے ایک تو کھجور کا ٹکڑا دے کر دوزخ سے بچنا‘ دوسرے قلیل صدقہ دینا۔ توعدی کی حدیث سے پہلا مطلب ثابت ہوگیا اور حضرت عائشہ کی حدیث سے دوسرا مطلب۔ انہوں نے بہت قلیل صدقہ دیا یعنی ایک کھجور۔ ( وحیدی )

اس سے حضرت عائشہ کی صدقہ خیرات کے لیے حرص بھی ثابت ہوئی اور یہ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تھا لا یرجع من عندک سائل ولوبشق تمرۃ رواہ البزار من حدیث ابی ہریرۃ ( فتح ) یعنی تمہارے پاس سے کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانا چاہیے۔ اگرچہ کھجور کی آدھی پھانک ہی کیوں نہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : تندرستی اور مال کی خواہش کے زمانہ میں صدقہ دینے کی فضیلت

وصدقة الشحيح الصحيح لقوله ‏{‏وأنفقوا مما رزقناكم من قبل أن يأتي أحدكم الموت‏}‏ الآية‏.‏ وقوله ‏{‏يا أيها الذين آمنوا أنفقوا مما رزقناكم من قبل أن يأتي يوم لا بيع فيه‏}‏ الآية‏.‏
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم کو موت آجائے۔

ان دونوں آیتوں سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ صدقہ کرنے میں جلدی کرنی چاہیے ایسا نہ ہو کہ موت آن دبوچے۔ اس وقت کف افسوس ملتا رہے کہ اگر میں اور جیتا تو صدقہ دیتا۔ یہ کرتا وہ کرتا۔ باب کا مطلب بھی قریب قریب یہی ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1419
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد، حدثنا عمارة بن القعقاع، حدثنا أبو زرعة، حدثنا أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أى الصدقة أعظم أجرا قال ‏"‏ أن تصدق وأنت صحيح شحيح، تخشى الفقر وتأمل الغنى، ولا تمهل حتى إذا بلغت الحلقوم قلت لفلان كذا، ولفلان كذا، وقد كان لفلان‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ! کس طرح کے صدقہ میں سب سے زیادہ ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس صدقہ میں جسے تم صحت کے ساتھ بخل کے باوجود کرو۔ تمہیں ایک طرف تو فقیری کا ڈر ہو اور دوسری طرف مالدار بننے کی تمنا اور امید ہو اور ( اس صدقہ خیرات میں ) ڈھیل نہ ہونی چاہیے کہ جب جان حلق تک آجائے تو اس وقت تو کہنے لگے کہ فلاں کے لیے اتنا اور فلاں کے لیے اتنا حالانکہ وہ تو اب فلاں کا ہوچکا۔

حدیث میں ترغیب ہے کہ تندرستی کی حالت میں جب کہ مال کی محبت بھی دل میں موجود ہو‘ صدقہ خیرات کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہیے نہ کہ جب موت قریب آجائے اور جان حلقوم میں پہنچ جائے۔ مگر یہ شریعت کی مہربانی ہے کہ آخر وقت تک بھی جب کہ ہوش وحواس قائم ہوں‘ مرنے والوں کو تہائی مال کی وصیت کرنا جائز قرار دیا ہے‘ ورنہ اب وہ مال تو مرنے والے کی بجائے وارثوں کا ہوچکا ہے۔ پس عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ تندرستی میں حسب توفیق صدقہ وخیرات میں جلدی کرنی چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب :۔۔۔

حدیث نمبر : 1420
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا أبو عوانة، عن فراس، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة، رضى الله عنها أن بعض، أزواج النبي صلى الله عليه وسلم قلن للنبي صلى الله عليه وسلم أينا أسرع بك لحوقا قال ‏"‏ أطولكن يدا‏"‏‏. ‏ فأخذوا قصبة يذرعونها، فكانت سودة أطولهن يدا، فعلمنا بعد أنما كانت طول يدها الصدقة، وكانت أسرعنا لحوقا به وكانت تحب الصدقة‏.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا‘ ان سے فراس بن یحیٰی ٰ نے‘ ان سے شعبی نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں نے آپ سے پوچھا کہ سب سے پہلے ہم میں آخرت میں آپ سے کون جاکر ملے گی تو آپ نے فرمایا جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہوگا۔ اب ہم نے لکڑی سے ناپنا شروع کردیا تو سودہ رضی اللہ عنہا سب سے لمبے ہاتھ والی نکلیں۔ ہم نے بعد میں سمجھا کہ لمبے ہاتھ والی ہونے سے آپ کی مراد صدقہ زیادہ کرنے والی سے تھی۔ اور سودہ رضی اللہ عنہا ہم سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاکر ملیں‘ صدقہ کرنا آپ کو بہت محبوب تھا۔

تشریح : اکثر علماءنے کہا کے طول یدہا اور کانت کی ضمیروں میں سے حضرت زینب مراد ہیں مگر ان کا ذکر اس روایت میں نہیں ہے۔ کیونکہ اس امر سے اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بیویوں میں سے سب سے پہلے حضرت زینب کا ہی انتقال ہوا تھا۔ لیکن امام بخاری نے تاریخ میں جو روایت کی ہے اس میں ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی صراحت ہے اور یہاں بھی اس روایت میں حضرت سودہ کا نام آیا ہے اور یہ مشکل ہے اور ممکن ہے یوں جواب دینا کہ جس جلسہ میں یہ سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا وہاں حضرت زینب موجود نہ ہوں اور جتنی بیویاں وہاں موجود تھیں‘ ان سب سے پہلے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔ مگر ابن حبان کی روایت میں یوں ہے کہ اس وقت آپ کی سب بیویاں موجود تھیں‘ کوئی باقی نہ رہی تھی‘ اس حالت میں یہ احتمال بھی نہیں چل سکتا۔

چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ قال لنا محمد بن عمر یعنی الواقدی ہذا الحدیث وہل فی سودۃ انما ہو فی زینب بنت جحش فہی اول نسائہ بہ لحوقا وتوفیت فی خلافۃ عمر وبقیت سودۃ الی ان توفیت فی خلافۃ معاویہ فی شوال سنۃ اربع وخمسین قال ابن بطال ہذا الحدیث سقط منہ ذکر زینب لاتفاق اہل السیر علی ان زینب اول من مات من ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ان الصواب وکانت زینب اسرعنا الخ ولکن ینکر علی ہذا التاویل تلک الروایات المتقدمۃ المصرح فیہا بان الضمیر لسودۃ وقرات بخط الحافظ ابی علی الصدفی ظاہر ہذا اللفظ ان سودۃ کانت اسرع وہو خلاف المعروف عند اہل العلم ان زینب اول من مات من الازواج ثم نقلہ عن مالک من روایتہ عن الواقدی قال یقویہ روایۃ عائشہ بنت طلحۃ وقال ابن الجوزی ہذا الحدیث غلط من بعض الرواۃ العجب من البخاری کیف لم ینبہ علیہ والا اصحابہ التعالیق ولا علم بفساد ذلک الخطابی فانہ فسرہ وقال لحوق سودۃ بہ علم من اعلام النبوۃ وکل ذلک وہم انما ہی زینب فانہا کانت اطولہن یدا بالعطاءکما رواہ مسلم من طریق عائشۃ بلفظ کان اطولنا یدا زینب لانہا کانت تعمل وتتصدق وفی روایۃ کانت زینب امراۃ صناعۃ بالید وکانت تدبغ وتخرز وتصدق فی سبیل اللہ۔
یعنی ہم سے واقدی نے کہا کہ اس حدیث میں راوی سے بھول ہوگئی ہے۔ درحقیقت سب سے پہلے انتقال کرنے والی زینب ہی ہیں جن کا انتقال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا انتقال خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ 54 میں ہوا ہے۔ ابن بطال نے کہا کہ اس حدیث میں حضرت زینب کا ذکر ساقط ہوگیا ہے کیونکہ اہل سیر کا اتفاق ہے کہ امہات المؤمنین میں سب سے پہلے انتقال کرنے والی خاتون حضرت زینب بنت حجش ہی ہیں اور جن روایتوں میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا نام آیا ہے ان میں راوی سے بھول ہوگئی۔ ابن جوزی نے کہا کہ اس میں بعض راویوں نے غلطی سے حضرت سودہ کا نام لے دیا ہے اور تعجب ہے کہ حضرت امام بخاری کو اس پر اطلاع نہ ہوسکی اور نہ ان اصحاب تعالیق کو جنہوں نے یہاں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا نام لیا ہے اور وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہی ہیں جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ہم میں سب سے زیادہ دراز ہاتھ والی ( یعنی صدقہ خیرات کرنے والی ) حضرت زینب تھیں۔ وہ سوت کاتا کرتی تھیں اور دیگر محنت مشقت دباغت وغیرہ کرکے پیسہ حاصل کرتیں اور فی سبیل اللہ صدقہ خیرات کیا کرتی تھیں۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ناپ کے لحاظ سے حضرت سودہ کے ہاتھ دراز تھے‘ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں یہی سمجھا کہ دراز ہاتھ والی بیوی کا انتقال پہلے ہونا چاہیے۔ مگر جب حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ظاہر ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہاتھوں کا دراز ہونا نہ تھی بلکہ صدقہ وخیرات کرنے والے ہاتھ مراد تھے اور یہ سبقت حضرت زینب کو حاصل تھی‘ پہلے انہی کا انتقال ہوا‘ مگر بعض راویوں نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے یہاں حضرت سودہ کا نام لے دیا۔ بعض علماءنے یہ تطبیق بھی دی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت یہ ارشاد فرمایا تھا اس مجمع میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نہ تھیں‘ آپ نے اس وقت کی حاضر ہونے والی بیویوں کے بارے میں فرمایا اور ان میں سے پہلے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا مگر اس تطبیق پر بھی کلام کیا گیا ہے۔

حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں۔ والحدیث یوہم ظاہرہ ان اول من ماتت من امہات المومنین بعد وفاتہ صلی اللہ علیہ وسلم سودۃ ولیس کذالک فتامل ولا تعجل فی ہذا المقام فانہ من مزالق الاقدام ( شرح تراجم ابواب بخاری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : سب کے سامنے صدقہ کرنا جائز ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ( سورئہ بقرہ میں ) فرمایا کہ

وقوله ‏{‏الذين ينفقون أموالهم بالليل والنهار سرا وعلانية‏}‏ إلى قوله ‏{‏ولا هم يحزنون‏}‏
جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں رات میں اور دن میں پوشیدہ طورپر اور ظاہر‘ ان سب کا ان کے رب کے پاس ثواب ملے گا‘ انہیں کوئی ڈر نہیں ہوگا اور نہ انہیں کسی قسم کا غم ہوگا۔

اس آیت سے علانیہ خیرات کرنے کا جواز نکلا۔ گو پوشیدہ خیرات کرنا بہتر ہے کیونکہ اس میں ریا کااندیشہ نہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اتری۔ ان کے پاس چار اشرفیاں تھیں۔ ایک دن کو دی‘ ایک رات کو دی‘ ایک علانیہ‘ ایک چھپ کر ( وحیدی )
یہاں حضرت امام بخاری نے مضمون باب کو مدلل کرنے کے لیے صرف آیت قرآنی کا نقل کرنا کافی سمجھا۔ جن میں ظاہر لفظوں میں باب کا مضمون موجود ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : چھپ کر خیرات کرنا افضل ہے

وقال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ورجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم شماله ما صنعت يمينه‏"‏‏. ‏ وقال الله تعالى ‏{‏وإن تخفوها وتؤتوها الفقراء فهو خير لكم‏}‏‏.‏
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیاکہ “ ایک شخص نے صدقہ کیا اور اسے اس طرح چھپایا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ” اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ اگر تم صدقہ کو ظاہر کردو تو یہ بھی اچھا ہے اور اگرپوشیدہ طورپر دو اور دو فقراءکو تو یہ بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور تمہارے گناہ مٹادے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح خبردار ہے۔ ”


یہاں حضرت امام نے مضمون باب کو ثابت کرنے کے لیے حدیث نبوی اور آیت قرآنی ہردو سے استدلال فرمایا‘ مقصد ریاکاری سے بچنا ہے۔ اگر اس سے دور رہ کر صدقہ دیا جائے تو ظاہر ہویا پوشیدہ ہر طرح سے درست ہے اور اگر ریاکا ایک شائبہ بھی نظر آئے تو پھر اتنا پوشیدہ دیا جائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ اگر صدقہ خیرات زکوٰۃ میں ریا نمود کا کچھ دخل ہوا تو وہ صدقہ وخیرات وزکوٰۃ مالدار کے لیے الٹا وبال جان ہوجائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : اگر لاعلمی میں کسی نے مالدار کو صدقہ دے دیا ( تو اس کو ثواب مل جائے گا )

حدیث نمبر : 1421
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، حدثنا أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ قال رجل لأتصدقن بصدقة‏.‏ فخرج بصدقته فوضعها في يد سارق فأصبحوا يتحدثون تصدق على سارق‏.‏ فقال اللهم لك الحمد لأتصدقن بصدقة‏.‏ فخرج بصدقته فوضعها في يدى زانية، فأصبحوا يتحدثون تصدق الليلة على زانية‏.‏ فقال اللهم لك الحمد على زانية، لأتصدقن بصدقة‏.‏ فخرج بصدقته فوضعها في يدى غني فأصبحوا يتحدثون تصدق على غني فقال اللهم لك الحمد، على سارق وعلى زانية وعلى غني‏.‏ فأتي فقيل له أما صدقتك على سارق فلعله أن يستعف عن سرقته، وأما الزانية فلعلها أن تستعف عن زناها، وأما الغني فلعله يعتبر فينفق مما أعطاه الله‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا‘ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے ( بنی اسرائیل میں سے ) کہا کہ مجھے ضرور صدقہ ( آج رات ) دینا ہے۔ چنانچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور ( ناواقفی سے ) ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آج رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ ( آج رات ) میں پھر ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ دوبارہ صدقہ لے کر نکلا اور اس مرتبہ ایک فاحشہ کے ہاتھ میں دے آیا۔ جب صبح ہوئی تو پھر لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے‘ میں زانیہ کو اپنا صدقہ دے آیا۔ اچھا آج رات پھر ضرور صدقہ نکالوں گا۔ چنانچہ اپنا صدقہ لیے ہوئے وہ پھر نکلا اور اس مرتبہ ایک مالدار کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں کی زبان پر ذکر تھا کہ ایک مالدار کو کسی نے صدقہ دے دیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! حمد تیرے ہی لیے ہے۔ ( میں اپنا صدقہ ( لاعلمی سے ) چور‘ فاحشہ اور مالدار کو دے آیا۔ ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) بتایا گیا کہ جہاں تک چور کے ہاتھ میں صدقہ چلے جانے کا سوال ہے۔ تو اس میں اس کا امکان ہے کہ وہ چوری سے رک جائے۔ اسی طرح فاحشہ کو صدقہ کا مال مل جانے پر اس کا امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے اور مالدار کے ہاتھ میں پڑجانے کا یہ فائدہ ہے کہ اسے عبرت ہو اور پھر جو اللہ عزوجل نے اسے دیا ہے‘ وہ خرچ کرے۔

تشریح : اس حدیث میں بنی اسرائیل کے ایک سخی کا ذکر ہے جو صدقہ خیرات تقسیم کرنے کی نیت سے رات کو نکلا مگر اس نے لاعلمی میں پہلی رات میں اپنا صدقہ ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا اور دوسری رات میں ایک فاحشہ عورت کو دے دیا اور تیسری شب میں ایک مالدار کو دیدیا‘ جو مستحق نہ تھا۔ یہ سب کچھ لاعلمی میں ہوا۔ بعد میں جب یہ واقعات اس کو معلوم ہوئے تو اس نے اپنی لا علمی کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی حمد بیان کی گویا یہ کہا اللہم لک الحمد ای لالی ان صدقتی وقعت بید من لا یستحقہا فلک الحمد حیث کان ذلک بارادتک ای لابار ادتی فان ارادۃ اللہ کلہا جمیلۃ یعنی یا اللہ! حمد تیرے لیے ہی ہے نہ کہ میرے لیے۔ میرا صدقہ غیر مستحق کے ہاتھ میں پہنچ گیا پس حمد تیرے ہی لیے ہے۔ اس لیے کہ یہ تیرے ہی ارادے سے ہوا نہ کہ میرے ارادے سے اور اللہ پاک جو بھی چاہے اور وہ جو ارادہ کرے وہ سب بہتر ہی ہے۔

امام بخاری کا مقصد باب یہ ہے کہ ان حالات میں اگرچہ وہ صدقہ غیر مستحق کو مل گیا مگر عنداللہ وہ قبول ہوگیا۔ حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ ناواقفی سے اگر غیر مستحق کو صدقہ دے دیا جائے تو اسے اللہ بھی قبول کرلیتا ہے اور دینے والے کو ثواب مل جاتا ہے۔
لفظ صدقہ میں نفلی صدقہ اور فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہر دو داخل ہیں۔
اسرائیل سخی کو خواب میں بتلایا گیا یا ہاتف غیب نے خبردی یا اس زمانہ کے پیغمبر نے اس سے کہا کہ جن غیر مستحقین کو تونے غلطی سے صدقہ دے دیا‘ شاید وہ اس صدقہ سے عبرت حاصل کرکے اپنی غلطیوں سے باز آجائیں۔ چور چوری سے اور زانیہ زنا سے رک جائے اور مالدار کو خود اسی طرح خرچ کرنے کی رغبت ہو۔ ان صورتوں میں تیرا صدقہ تیرے لیے بہت کچھ موجب اجر وثواب ہوسکتا ہے۔ ہذا ہو المواد
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : اگر باپ ناواقفی سے اپنے بیٹے کو خیرات دے دے کہ اس کو معلوم نہ ہو؟

حدیث نمبر : 1422
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا إسرائيل، حدثنا أبو الجويرية، أن معن بن يزيد ـ رضى الله عنه ـ حدثه قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم أنا وأبي وجدي وخطب على فأنكحني وخاصمت إليه ـ وـ كان أبي يزيد أخرج دنانير يتصدق بها فوضعها عند رجل في المسجد، فجئت فأخذتها فأتيته بها فقال والله ما إياك أردت‏.‏ فخاصمته إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ لك ما نويت يا يزيد، ولك ما أخذت يا معن‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم اسرائیل بن یونس نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوجویریہ ( حطان بن خفاف ) نے بیان کیا کہ معن بن یزید نے ان سے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے والد اور دادا ( اخفش بن حبیب ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ نے میری منگنی بھی کرائی اور آپ ہی نے نکاح بھی پڑھایا تھا اور میں آپ کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوا تھا۔ وہ یہ کہ میرے والد یزید نے کچھ دینار خیرات کی نیت سے نکالے اور ان کو انہوں نے مسجد میں ایک شخص کے پاس رکھ دیا۔ میں گیا اور میں نے ان کو اس سے لے لیا۔ پھر جب میں انہیں لے کر والد صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میرا ارادہ تجھے دینے کا نہیں تھا۔ یہی مقدمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور آپ نے یہ فیصلہ دیا کہ دیکھو یزید جو تم نے نیت کی تھی اس کا ثواب تمہیں مل گیا اور معن! جو تو نے لے لیا وہ اب تیرا ہوگیا۔

تشریح : امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا یہی قول ہے کہ اگر ناواقفی میں باپ بیٹے کو فرض زکوٰۃ بھی دے دے تو زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے اور دوسرے علماءکہتے ہیں کہ اعادہ واجب ہے اور اہلحدیث کے نزدیک بہر حال ادا ہوجاتی ہے۔ بلکہ عزیز اور قریب لوگوں کو جو محتاج ہوں زکوٰۃ دینا اور زیادہ ثواب ہے۔ سید علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے کہا کہ متعدد دلائل اس پر قائم ہیں کہ عزیزوں کو خیرات دینا زیادہ افضل ہے‘ خیرات فرض ہو یا نفل اور عزیزوں میں خاوند‘ اولاد کی صراحت ابوسعید کی حدیث میں موجود ہے۔ ( مولانا وحید الزماں )

مضمون حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر شفیق اور مہربان تھے اور کس وسعت قلبی کے ساتھ آپ نے دین کا تصور پیش فرمایا تھا۔ باپ اور بیٹے ہر دو کو ایسے طور سمجھا دیا کہ ہر دو کا مقصد حاصل ہوگیا اور کوئی جھگڑا باقی نہ رہا۔ آپ کا ارشاد اس بنیادی اصول پر مبنی تھا۔ جو حدیث انما الاعمال بالنیات میں بتلایا گیا ہے کہ عملوں کا اعتبار نیتوں پر ہے۔
آج بھی ضرورت ہے کہ علماءوفقہاءایسی وسیع الظرفی سے کام لے کر امت کے لیے بجائے مشکلات پیدا کرنے کے شرعی حدود میں آسانیاں بہم پہنچائیں اور دین فطرت کا زیادہ سے زیادہ فراخ قلبی کے ساتھ مطالعہ فرمائیں کہ حالات حاضرہ میں اس کی شدید ضرورت ہے۔ فقہاءکا وہ دور گزر چکا جب وہ ایک ایک جزئی پر میدان مناظرہ قائم کردیا کرتے تھے جن سے تنگ آکر حضرت شیخ سعدی کو کہنا پڑا
فقیہاں طریق جدل ساختند
لم لا نسلم درانداختند
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : خیرات داہنے ہاتھ سے دینی بہتر ہے

حدیث نمبر : 1423
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال حدثني خبيب بن عبد الرحمن، عن حفص بن عاصم، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ سبعة يظلهم الله تعالى في ظله يوم لا ظل إلا ظله إمام عدل، وشاب نشأ في عبادة الله، ورجل قلبه معلق في المساجد، ورجلان تحابا في الله اجتمعا عليه وتفرقا عليه، ورجل دعته امرأة ذات منصب وجمال فقال إني أخاف الله، ورجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم شماله ما تنفق يمينه، ورجل ذكر الله خاليا ففاضت عيناه‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے بیان کیا عبیداللہ عمری سے‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمن نے حفص بن عاصم سے بیان کیا‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ( عرش کے ) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا وار کوئی سایہ نہ ہوگا۔ انصاف کرنے والا حاکم‘ وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جوان ہوا ہو‘ وہ شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگارہے‘ دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں‘ اسی پر وہ جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے‘ ایسا شخص جسے کسی خوبصورت اور عزت دار عورت نے بلایا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں‘ وہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ شخص جو اللہ کو تنہائی میں یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگ جائیں۔

تشریح : قیامت کے دن عرش عظیم کا سایہ پانے والے یہ سات خوش قسمت انسان مرد ہوں یا عورت ان پر حصر نہیں ہے۔ بعض احادیث میں اور بھی ایسے نیک اعمال کا ذکر آیا ہے جن کی وجہ سے سایہ عرش عظیم مل سکے گا۔ بعض علماءنے اس موضوع پر مستقل رسالے تحریر فرمائے ہیں اور ان جملہ اعمال صالحہ کا ذکر کیا ہے جو قیامت کے دن عرش الٰہی کے نیچے سایہ ملنے کا ذریعہ بن سکیں گے۔ بعض نے اس فہرست کو چالیس تک بھی پہنچادیا ہے۔

یہاں باب اور حدیث میں مطابقت اس متصدق سے ہے جو راہ للہ اس قدر پوشیدہ خرچ کرتا ہے کہ دائیں ہاتھ سے خرچ کرتا ہے اور بائیں کو بھی خبر نہیں ہوپاتی۔ اس سے غایت خلوص مراد ہے۔
انصاف کرنے والا حاکم چودھری‘ پنچ‘ اللہ کی عبادت میں مشغول رہنے والا جو ان اور مسجد سے دل لگانے والا نمازی اور دو باہمی الٰہی محبت رکھنے والے مسلمان اور صاحب عصمت وعفت مرد یا عورت مسلمان اور اللہ کے خوف سے آنسو بہانے والی آنکھیں یہ جملہ اعمال حسنہ ایسے ہیں کہ ان پر کاربند ہونے والوں کو عرش الٰہی کا سایہ ملنا ہی چاہیے۔ اس حدیث سے اللہ کے عرش اور اس کے سایہ کا بھی اثبات ہوا جو بلا کیف وکم وتاویل تسلیم کرنا ضروری ہے۔ قرآن پاک کی بہت سی آیات میں عرش عظیم کا ذکر آیا ہے۔ بلا شک وشبہ اللہ پاک صاحب عرش عظیم ہے۔ اس کے لیے عرش کا استواءاور جہت فوق ثابت اور برحق ہے جس کی تاویل نہیں کی جاسکتی اور نہ اس کی کیفیت معلوم کرنے کے ہم مکلف ہیں۔

حدیث نمبر : 1424
حدثنا علي بن الجعد، أخبرنا شعبة، قال أخبرني معبد بن خالد، قال سمعت حارثة بن وهب الخزاعي ـ رضى الله عنه ـ يقول سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ تصدقوا، فسيأتي عليكم زمان يمشي الرجل بصدقته فيقول الرجل لو جئت بها بالأمس لقبلتها منك، فأما اليوم فلا حاجة لي فيها‏"‏‏.
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی‘ کہا کہ مجھے معبد بن خالد نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ صدقہ کیا کرو پس عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا ( کوئی اسے قبول کرلے مگر جب وہ کسی کو دے گا تو وہ ) آدمی کہے گا کہ اگر اسے تم کل لائے ہوتے تو میں لے لیتا لیکن آج مجھے اس کی حاجت نہیں رہی۔

ثابت ہوا کہ مرد مخلص اگر صدقہ زکوٰۃ علانیہ لے کر تقسیم کے لیے نکلے بشرطیکہ خلوص وللہیت مد نظر ہوتو یہ بھی مذموم نہیں ہے۔ یوں بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے ریا ونمود سے بچنے کے لیے پوشیدہ طورپر صدقہ زکوٰۃ خیرات دی جائے
 
Top