• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : مسجد میں خیمہ لگانا

حدیث نمبر : 2034
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة بنت عبد الرحمن، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم أراد أن يعتكف، فلما انصرف إلى المكان الذي أراد أن يعتكف إذا أخبية خباء عائشة، وخباء حفصة، وخباء زينب، فقال ‏"‏آلبر تقولون بهن‏"‏‏. ‏ ثم انصرف، فلم يعتكف، حتى اعتكف عشرا من شوال‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے او رانہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کا ارادہ کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ تشریف لائے ( یعنی مسجد میں ) جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کا ارادہ کیا تھا۔ تو وہاں کئی خیمے موجود تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی، حفصہ رضی اللہ عنہا کا بھی اور زینب رضی اللہ عنہا کا بھی، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ انہوں نے ثواب کی نیت سے ایسا کیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور اعتکاف نہیں کیا بلکہ شوال کے عشرہ میں اعتکاف کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : کیا معتکف اپنی ضرورت کے لیے مسجد کے دروازے تک جا سکتا ہے؟

حدیث نمبر : 2035
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني علي بن الحسين ـ رضى الله عنهما ـ أن صفية، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته أنها جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوره في اعتكافه في المسجد، في العشر الأواخر من رمضان، فتحدثت عنده ساعة، ثم قامت تنقلب، فقام النبي صلى الله عليه وسلم معها يقلبها، حتى إذا بلغت باب المسجد عند باب أم سلمة مر رجلان من الأنصار، فسلما على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لهما النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏على رسلكما إنما هي صفية بنت حيى‏"‏‏. ‏ فقالا سبحان الله يا رسول الله‏.‏ وكبر عليهما‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إن الشيطان يبلغ من الإنسان مبلغ الدم، وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہیر نے بیان کیا کہ مجھے امام زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی، او رانہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مسجد میں آئیں تھوڑی دیر تک باتیں کیں پھر واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں پہنچانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ جب وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے دروزے سے قریب والے مسجد کے دروازے پر پہنچیں، تو دو انصاری آدمی ادھر سے گزرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی سوچ کی ضرورت نہیں، یہ تو ( میری بیوی ) صفیہ بنت حیی ( رضی اللہ عنہا ) ہیں۔ ان دونوں صحابیوں نے عرض کیا، سبحان اللہ ! یا رسول اللہ ! ان پر آپ کا جملہ بڑاشاق گزرا۔ آپ نے فرمایا کہ شیطان خون کی طرح انسان کے بدن میں دوڑتا رہتا ہے۔ مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے۔

تشریح : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ معتکف ضروری کام کے لیے مقام اعتکاف سے باہر نکل سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ اس لیے نکلے کہ وہ اکیلی رہ گئی تھیں۔ کہتے ہیں کہ ان کا مکان بھی مسجد سے دور تھا، بعض روایتوں میں ان دیکھنے والوں کے متعلق ذکر ہے کہ انہوں نے آگے بڑھ جانا چاہا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقت حال سے آگاہ فرمانے کے لیے ان کو بلایا۔ معلوم ہوا کہ کسی ممکن شک کو دور کر دینا بہرحال اچھا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف کا اور بیسویں کی صبح کو آپ کا اعتکاف سے نکلنے کا بیان

حدیث نمبر : 2036
حدثني عبد الله بن منير، سمع هارون بن إسماعيل، حدثنا علي بن المبارك، قال حدثني يحيى بن أبي كثير، قال سمعت أبا سلمة بن عبد الرحمن، قال سألت أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ قلت هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر ليلة القدر قال نعم، اعتكفنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم العشر الأوسط من رمضان ـ قال ـ فخرجنا صبيحة عشرين، قال فخطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صبيحة عشرين فقال ‏"‏إني أريت ليلة القدر، وإني نسيتها، فالتمسوها في العشر الأواخر في وتر، فإني رأيت أني أسجد في ماء وطين، ومن كان اعتكف مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فليرجع‏"‏‏. ‏ فرجع الناس إلى المسجد، وما نرى في السماء قزعة ـ قال ـ فجاءت سحابة فمطرت، وأقيمت الصلاة، فسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطين والماء، حتى رأيت الطين في أرنبته وجبهته‏.‏
مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے ہارون بن اسماعیل سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم سے علی بن مبارک نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے سنا، انہوں نے کہامیں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا، میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ! ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا تھا، ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر بیس کی صبح کو ہم نے اعتکاف ختم کر دیا۔ اسی صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا کہ مجھے شب قدر دکھائی گئی تھی، لیکن پھر بھلا دی گئی، اس لیے اب اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے ( خواب میں ) دیکھا ہے کہ میں کیچڑ، پانی میں سجدہ کر رہا ہوں او رجن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( اس سال ) اعتکاف کیا تھا وہ پھر دوبارہ کریں۔ چنانچہ وہ لوگ مسجد میں دوبارہ آگئے۔ آسمان میں کہیں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا کہ اچانک بادل آیا اور بارش شروع ہو گئی۔ پھر نماز کی تکبیر ہوئی اورر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیچڑ میں سجدہ کیا۔ میں نے خود آپ کی ناک اور پیشانی پر کیچڑ لگا ہوا دیکھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : کیا مستحاضہ عورت اعتکاف کرسکتی ہے؟

حدیث نمبر : 2037
حدثنا قتيبة، حدثنا يزيد بن زريع، عن خالد، عن عكرمة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت اعتكفت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم امرأة من أزواجه مستحاضة، فكانت ترى الحمرة والصفرة، فربما وضعنا الطست تحتها وهى تصلي‏.‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے ایک خاتون ( ام سلمہ رضی اللہ عنہا ) نے جو مستحاضہ تھیں، اعتکاف کیا۔ وہ سرخی اور زردی ( یعنی استحاضہ کا خون ) دیکھتی تھیں۔ اکثر طشت ہم ان کے نیچے رکھ دیتے اور وہ نماز پڑھتی رہتیں۔

تشریح : مستحاضہ وہ عورت جس کو حیض کا خون بطور مرض ہر وقت جاری رہتا ہو، ایسی عورت کو نماز پڑھنی ہوگی۔ مگر اس کے لیے غسل طہارت بھی ضروری ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے۔ ازواج مطہرات میں سے ایک محترمہ بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا جو اس مرض میں مبتلا تھیں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا تھا۔ اسی سے حضرت امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مضمون ثابت فرمایا ہے بعد میں جب آپ نے بعض ازواج مطہرات کے بکثرت خیمے مسجد میں اعتکاف کے لیے دیکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دور کرا دیا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : عورت اعتکاف کی حالت میں اپنے خاوند سے ملاقات کر سکتی ہے

حدیث نمبر : 2038
حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثني الليث، قال حدثني عبد الرحمن بن خالد، عن ابن شهاب، عن علي بن الحسين ـ رضى الله عنهما ـ أن صفية، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته‏.‏ حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن علي بن الحسين كان النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد، وعنده أزواجه، فرحن، فقال لصفية بنت حيى ‏"‏لا تعجلي حتى أنصرف معك‏"‏‏. ‏ وكان بيتها في دار أسامة، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم معها، فلقيه رجلان من الأنصار، فنظرا إلى النبي صلى الله عليه وسلم ثم أجازا وقال لهما النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏تعاليا، إنها صفية بنت حيى‏"‏‏. ‏ قالا سبحان الله يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏إن الشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم، وإني خشيت أن يلقي في أنفسكما شيئا‏"‏‏. ‏
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی ( دوسری سند ) اور امام بخاری نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ( اعتکاف میں ) تھے آپ کے پاس ازواج مطہرات بیٹھی تھیں۔ جب وہ چلنے لگیں تو آپ نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جلدی نہ کر، میں تمہیں چھوڑنے چلتا ہوں۔ ان کا حجرہ دار اسامہ رضی اللہ عنہ میں تھا، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے تو دو انصاری صحابیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی۔ ان دونوں حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا او رجلدی سے آگے بڑھ جانا چاہا۔ لیکن آپ نے فرمایا ٹھہرو ! ادھر سنو ! یہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا ہیں ( جو میری بیوی ہیں ) ان حضرات نے عرض کی، سبحان اللہ ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا کہ شیطان ( انسان کے جسم میں ) خون کی طرح دوڑتا ہے اورمجھے خطرہ یہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی بات نہ ڈال دے۔

تشریح : یہ حدیث طرق مختلفہ کے ساتھ کئی جگہ گزر چکی ہے اور حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے بہت سے مسائل کے لیے استنباط فرمایا ہے۔

علامہ ابن حجر اس کے ذیل میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔
و فی الحدیث من الفوائد جواز اشتغال المعتکف بالامور المباحۃ من تشییع زائرہ و القیام معہ و الحدیث مع غیرہ و اباحۃ خلوۃ المعتکف بالزوجۃ و زیارۃ المراۃ المعتکف و بیان شفقتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی امتہ و ارشادہم الی ما یدفع عنہم الاثم و فیہ التحرز من التعرض لسوءالظن و الاحتفاظ من کید الشیطان و الاعتذار و قال ابن دقیق العیدو ہذا متاکد فی حق العلماءو من یقتدی بہ فلایجوز لہم ان یفعلوا فعلاً یوجب سوءالظن بہم و ان کان لہم فیہ مخلص لان ذالک سبب الی ابطال الانتفاع بعلمہم و من ثم قال بعض العلماءینبغی للحاکم ان یبین للمحکوم علیہ وجہ الحکم اذا کان حافیا نفیا للتہمۃ و من ہہنا یظہر خطاءمن یتظاہر بمظاہر السوءو یعتذر بانہ یجرب بذالک علی نفسہ و قد عظم البلاءبہذا الصنف و اللہ اعلم و فیہ اضافۃ بیوت ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم الیہن و فیہ جواز خروج المراۃ لیلا وفیہ قول سبحان اللہ عند العجب الخ ( فتح الباری )

مختصر مطلب یہ کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً یہ کہ معتکف کے لیے مباح ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں کو کھڑا ہو کر ان کو رخصت کرسکتا ہے اور غیروں کے ساتھ بات بھی کرسکتا ہے۔ اور اس کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت بھی مباح ہے یعنی اس سے تنہائی میں صرف ضروری اور مناسب بات چیت کرنا، اور اعتکاف کرنے والے کی عورت بھی اس سے ملنے آسکتی ہے اور اس حدیث سے امت کے لیے شفقت نبوی کا بھی اثبات ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے ارشاد پر بھی دلیل ہے جو کہ امت سے گناہوں کے دفع کرنے سے متعلق ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ بدگمانی اور شیطانی مکروں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔ ابن دقیق العید نے کہا کہ علماءکے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ان کے حق میں لوگ بدگمانی پیدا کرسکیں، اگرچہ اس کام میں ان کے اخلاص بھی ہو، مگر بدگمانی پیدا ہونے کی صورت میں ان کے علوم کا انتفاع ختم ہوجانے کا احتمال ہے۔ اسی لیے بعض علماءنے کہا کہ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ مدعی علیہ پر جو اس نے فیصلہ دیا ہے اس کی پوری وجوہ اس کے سامنے بیان کردے تاکہ وہ کوئی غلط تہمت حاکم پر نہ لگا سکے۔ اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی شخص بطور تجربہ بھی کوئی برامظاہرہ نہ کرے۔ ایسی بلائیں آج کل عام ہو رہی ہیں اور اس حدیث میں بیوت ازواج النبی کی اضافت کا بھی جواز ہے اور رات میں عورتوں کا گھروں سے باہر نکلنے کا بھی جواز ثابت ہے اور تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنے کا بھی ثبوت ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : اعتکاف والا اپنے اوپر سے کسی بدگمانی کو دور کرسکتا ہے

حدیث نمبر : 2039
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال أخبرني أخي، عن سليمان، عن محمد بن أبي عتيق، عن ابن شهاب، عن علي بن الحسين ـ رضى الله عنهما ـ أن صفية، أخبرته‏.‏ حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال سمعت الزهري، يخبر عن علي بن الحسين، أن صفية ـ رضى الله عنها ـ أتت النبي صلى الله عليه وسلم وهو معتكف، فلما رجعت مشى معها، فأبصره رجل من الأنصار، فلما أبصره دعاه فقال ‏"‏تعال هي صفية ـ وربما قال سفيان هذه صفية ـ فإن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم‏"‏‏. ‏ قلت لسفيان أتته ليلا قال وهل هو إلا ليل
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے بھائی نے خبر دی، انہیں سلیمان نے، انہیں محمد بن ابی عتیق نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے کہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی ( دوسری سند ) اور ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا۔ وہ علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے خبر دیتے تھے کہ صفیہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں آئیں۔ آپ اس وقت اعتکاف میں تھے۔ پھر جب وہ واپس ہونے لگیں تو آپ بھی ان کے ساتھ ( تھوڑی دور تک انہیں چھوڑنے ) آئے۔ ( آتے ہوئے ) ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ان پر پڑی، توفوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا، کہ سنو ! یہ ( میری بیوی ) صفیہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ ( سفیان نے ہی صفیہ کے بجائے بعض اوقات ہذہ صفیۃ کے الفاظ کہے۔ ( اس کی وضاحت اس لیے ضرور ی سمجھی ) کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ میں ( علی بن عبداللہ ) نے سفیان سے پوچھا کہ غالباً وہ رات کو آتی رہی ہوں گی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ رات کے سوا اور وقت ہی کونسا ہوسکتا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : اعتکاف سے صبح کے وقت باہر آنا

باب کی حدیث اس پر محمول ہے کہ آپ نے راتوں کے اعتکاف کی نیت کی تھی نہ دنوں کی۔ گویا غروب آفتاب کے بعد اعتکاف میں گئے اور صبح کو باہر آئے، اگر کوئی دنوں کے اعتکاف کی نیت کرے تو طلوع فجر ہوتے ہی اعتکاف میں جائے اور غروب آفتاب کے بعد نکل آئے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2040
حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن ابن جريج، عن سليمان الأحول، خال ابن أبي نجيح عن أبي سلمة، عن أبي سعيد،‏.‏ قال سفيان وحدثنا محمد بن عمرو، عن أبي سلمة، عن أبي سعيد،‏.‏ قال وأظن أن ابن أبي لبيد، حدثنا عن أبي سلمة، عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ قال اعتكفنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم العشر الأوسط، فلما كان صبيحة عشرين نقلنا متاعنا فأتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من كان اعتكف فليرجع إلى معتكفه فإني رأيت هذه الليلة، ورأيتني أسجد في ماء وطين‏"‏‏. ‏ فلما رجع إلى معتكفه، وهاجت السماء، فمطرنا فوالذي بعثه بالحق لقد هاجت السماء من آخر ذلك اليوم، وكان المسجد عريشا، فلقد رأيت على أنفه وأرنبته أثر الماء والطين‏.‏
ہم سے عبدالرحمن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح کے ماموں سلیمان احول نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے۔ سفیان نے کہا او رہم سے محمد بن عمرو نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے، سفیان نے یہ بھی کہا کہ مجھے یقین کے ساتھ یاد ہے کہ ابن ابی لبید نے ہم سے یہ حدیث بیان کی تھی، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کے لیے بیٹھے۔ بیسویں کی صبح کو ہم نے اپنا سامان ( مسجدسے ) اٹھا لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ جس نے ( دوسرے عشرہ میں ) اعتکاف کیا ہے وہ دوبارہ اعتکاف کی جگہ چلے، کیوں کہ میں نے آج کی رات ( شب قدر کو ) خواب میں دیکھا ہے میں نے یہ بھی دیکھا کہ میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر جب اپنے اعتکاف کی جگہ ( مسجد میں ) آپ دوبارہ آگئے تو اچانک بادل منڈلائے، اور بارش ہوئی۔ اس ذات کی قسم جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ! آسمان پر اسی دن کے آخری حصہ میں ابر ہوا تھا۔ مسجد کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی ( اس لیے چھت سے پانی ٹپکا ) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز صبح ادا کی، تو میں نے دیکھا کہ آپ کی ناک اور پیشانی پر کیچڑ کا اثر تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : شوال میں اعتکاف کرنے کا بیان

حدیث نمبر : 2041
حدثنا محمد، أخبرنا محمد بن فضيل بن غزوان، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة بنت عبد الرحمن، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف في كل رمضان، وإذا صلى الغداة دخل مكانه الذي اعتكف فيه ـ قال ـ فاستأذنته عائشة أن تعتكف فأذن لها فضربت فيه قبة، فسمعت بها حفصة، فضربت قبة، وسمعت زينب بها، فضربت قبة أخرى، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغد أبصر أربع قباب، فقال ‏"‏ما هذا‏"‏‏. ‏ فأخبر خبرهن، فقال ‏"‏ما حملهن على هذا آلبر انزعوها فلا أراها‏"‏‏. ‏ فنزعت، فلم يعتكف في رمضان حتى اعتكف في آخر العشر من شوال‏.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو محمد بن فضیل بن غزوان نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہیں عمرو بنت عبدالرحمن نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں اعتکاف کیا کرتے۔ آپ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اس جگہ جاتے جہاں آپ کو اعتکاف کے لیے بیٹھنا ہوتا۔ راوی نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی آپ سے اعتکاف کرنے کی اجازت چاہی۔ آپ نے انہیں اجازت دے دی، اس لیے انہوں نے ( اپنے لیے بھی مسجد میں ) ایک خیمہ لگا لیا۔ حفصہ رضی اللہ عنہا ( زوجہ مطہرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سنا تو انہوں نے بھی ایک خیمہ لگالیا۔ زینب رضی اللہ عنہا ( زوجہ مطہرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سنا تو انہو نے بھی ایک خیمہ لگا لیا۔ صبح کو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر لوٹے تو چار خیمے نظر پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقت حال کی اطلاع دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہوں نے ثواب کی نیت سے یہ نہیں کیا، ( بلکہ صرف ایک دوسری کی ریس سے یہ کیا ہے ) انہیں اکھاڑ دو۔ میں انہیں اچھا نہیں سمجھتا، چنانچہ وہ اکھاڑ دیئے گئے اور آپ نے بھی ( اس سال ) رمضان میں اعتکاف نہیں کیا۔ بلکہ شوال کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : اعتکاف کے لیے روزہ ضروری نہ ہونا

حدیث نمبر : 2042
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، عن أخيه، عن سليمان، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، عن عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ أنه قال يا رسول الله إني نذرت في الجاهلية أن أعتكف ليلة في المسجد الحرام‏.‏ فقال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏أوف نذرك‏"‏‏. ‏ فاعتكف ليلة‏.‏
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے بھائی ( عبدالحمید ) سے، ان سے سلیمان نے، ان سے عبیداللہ بن عمر نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، ان سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے پوچھا، یا رسول اللہ ! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات کا مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اپنی نذر پوری کر۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رات بھر اعتکاف کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : اگر کسی نے جاہلیت میں اعتکاف کی نذر مانی پھر وہ اسلام لایا

باب کی حدیث میں آپ نے ایسی نذر کے پورا کرنے کا حکم دیا، معلوم ہوا کہ نذر اور یمین حالت کفر میں صحیح ہو جاتی ہے اور اسلام کے بعد بھی اس کا پورا کرنا لازم ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2043
حدثنا عبيد بن إسماعيل، حدثنا أبو أسامة، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، أن عمر ـ رضى الله عنه ـ نذر في الجاهلية أن يعتكف في المسجد الحرام ـ قال أراه قال ـ ليلة قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏أوف بنذرك‏"‏‏. ‏
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں اعتکاف کی نذر مانی تھی، عبید نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے رات بھر کا ذکر کیا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کر۔
 
Top