• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : قصاب کو بطور مزدوری اس قربانی کے جانوروں میں سے کچھ نہ دیا جائے

حدیث نمبر : 1716
حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، قال أخبرني ابن أبي نجيح، عن مجاهد، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن علي ـ رضى الله عنه ـ قال بعثني النبي صلى الله عليه وسلم فقمت على البدن، فأمرني فقسمت لحومها، ثم أمرني فقسمت جلالها وجلودها‏.‏ قال سفيان: وحدثني عبد الكريم، عن مجاهد، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن علي رضي الله عنه قال: أمرني النبي صلى الله عليه وسلم أن أقوم على البدن، ولا أعطي عليها شيئا في جزارتها.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا مجھ کو ابن ابی نجیح نے خبر دی، انہیں مجاہد نے، انہیں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (قربانی کے اونٹوں کی دیکھ بھال کے لیے ) بھیجا۔ اس لیے میں نے ان کی دیکھ بھال کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے ان کے گوشت تقسیم کئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے ان کے جھول اور چمڑے بھی تقسیم کر دئیے۔ سفیان نے کہا کہ مجھ سے عبدالکریم نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی دیکھ بھال کروں اور ان میں سے کوئی چیز قصائی کی مزدوری میں نہ دوں۔

جیسے بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ قصائی کی اجرت میں کھال یا اوجھڑی یا سری پائے حوالہ کردیتے ہیں، بلکہ اجرت اپنے پاس سے دینی چاہئے البتہ اگر قصائی کوللّٰہ کوئی چیز قربانی میں سے دیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ( وحیدی ) صحیح مسلم میں حدیث جابر میں ہے کہ اس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ اونٹ نحر فرمائے پھر باقی پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مامور فرمادیا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : قربانی کی کھال خیرات کردی جائے گی

حدیث نمبر : 1717
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن جريج، قال أخبرني الحسن بن مسلم، وعبد الكريم الجزري، أن مجاهدا، أخبرهما أن عبد الرحمن بن أبي ليلى أخبره أن عليا ـ رضى الله عنه ـ أخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم أمره أن يقوم على بدنه، وأن يقسم بدنه كلها، لحومها وجلودها وجلالها، ولا يعطي في جزارتها شيئا‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیاکہا کہ، ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے حسن بن مسلم اور عبدالکریم جزری نے خبر دی کہ مجاہد نے ان دونوں کو خبر دی، انہیں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے خبر دی، انہیں علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کریں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کی ہر چیز گوشت چمڑے اور جھول خیرات کردیں اور قصائی کی مزدوری اس میں سے نہ دیں۔

یہ وہ اونٹ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں قربانی کے لیے لے گئے تھے، دوسری روایت میں ہے کہ یہ سو اونٹ تھے ان میں سے تریسٹھ اونٹوں کو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے نحر کیا، باقی اونٹوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نحر کر دیا۔ ( وحیدی )
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ثم اعطی علیا فنحر ما عبروا شرکہ فی ہدیہ ثم امر من کل بدنۃ ببضعۃ فجعلت فی قدر فطبخت فاکلا من لحمہا و شربا من مرقہا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقایا اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ کر دئیے اور انہوں نے ان کو نحر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی ہدی میں شریک کیا پھر ہر ہر اونٹ سے ایک ایک بوٹی لے کر ہانڈی میں اسے پکایا گیا پس آپ دونوں نے وہ گوشت کھایا اور شوربا پیا۔ یہ کل سو اونٹ تھے جن میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ اونٹ نحر فرمائے باقی حضرت رضی اللہ عنہ نے نحر کئے۔ قال البغوی فی شرح السنہ و اما اذا اعطی اجرتہ کاملۃ ثم تصدق علیہ اذا کان فقیراً کما تصدق علی الفقراءفلا باس بذلک ( فتح ) یعنی امام بغوی نے شرح السنہ میں کہا کہ قصائی کو پوری اجرت دینے کے بعد اگر وہ فقیر ہے تو بطور صدقہ قربانی کا گوشت دے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ و قد اتفقوا علی ان لحمہا لا یباع فکذلک الجلود و الجلال و اجازہ الاوزاعی و احمد و اسحاق و ابوثور ( فتح ) یعنی اس پر اتفاق ہے کہ قربانی کا گوشت بیچا نہیں جاسکتا اس کے چمڑے اور جھول کا بھی یہی حکم ہے مگر ان چیزوں کو امام اوزاعی اور احمد و اسحق اور ابوثور نے جائز کہا ہے کہ چمڑا اور جھول بیچ کر قربانی کے مستحقین میں خرچ کردیا جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : قربانی کے جانوروں کے جھول بھی صدقہ کر دیے جائیں

حدیث نمبر : 1718
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سيف بن أبي سليمان، قال سمعت مجاهدا، يقول حدثني ابن أبي ليلى، أن عليا ـ رضى الله عنه ـ حدثه قال أهدى النبي صلى الله عليه وسلم مائة بدنة، فأمرني بلحومها فقسمتها، ثم أمرني بجلالها فقسمتها، ثم بجلودها فقسمتها‏.‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے سیف بن ابی سلیمان نے بیان کیا، کہا میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن ابی لیلیٰ نے بیان کیا اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع کے موقع پر ) سو اونٹ قربان کئے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ان کے گوشت بانٹ دئیے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جھول بھی تقسیم کرنے کا حکم دیا اور میں نے انہیں بھی تقسیم کیا، پھر چمڑے کے لیے حکم دیا اور میں نے انہیں بھی بانٹ دیا۔

قربانی کے جانور کا چمڑا اس کا جھول سب غرباءو مساکین میں للہ تقسیم کر دیا جائے یا ان کو فروخت کرکے مستحقین کو ان کی قیمت دے دی جائے، چمڑے کا خود اپنے استعمال میں مصلی یا ڈول وغیرہ بنانے کے لیے لانا بھی جائز ہے۔ آج کل مدارس اسلامیہ کے غریب طلباءبھی اس مد سے امداد کئے جانے کے مستحق ہیں جو اپنا وطن اور متعلقین کو چھوڑ کر دور دراز مدارس اسلامیہ میں خالص دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں اور جن میں اکثریت غرباءکی ہوتی ہے، ایسے مد سے ان کی امداد بہت بڑا کار ثواب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : ( سورۃ حج ) میں

‏{‏وإذ بوأنا لإبراهيم مكان البيت أن لا تشرك بي شيئا وطهر بيتي للطائفين والقائمين والركع السجود * وأذن في الناس بالحج يأتوك رجالا وعلى كل ضامر يأتين من كل فج عميق * ليشهدوا منافع لهم ويذكروا اسم الله في أيام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير * ثم ليقضوا تفثهم وليوفوا نذورهم وليطوفوا بالبيت العتيق * ذلك ومن يعظم حرمات الله فهو خير له عند ربه‏}‏‏.‏

اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جب ہم نے بتلادیا ابراہیم کو ٹھکانا اس گھر کا اور کہہ دیا کہ شریک نہ کر میرے ساتھ کسی کو، اور پاک رکھ میرا گھر طواف کرنے والوں اور کھڑے رہنے والوں، اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے اور پکار لوگوں میں حج کے واسطے کہ آئیں تیری طرف پیدل اور سوار ہو کر، دبلے پتلے اونٹوں پر، چلے آتے راہوں دور دراز سے کہ پہنچیں اپنے فائدوں کی جگہوں پر اور یاد کریں اللہ کا نام کئی دنوں میں جو مقرر ہیں، چوپائے جانوروں پر جو اس نے دیئے ہیں، سو ان کو کھاؤ اور کھلاؤ برے حال فقیر کو، پھر چاہئے کہ دور کریں اپنا میل کچیل اور پوری کریں اپنی نذریں اور طواف کریں اس قدیم گھر (کعبہ ) کا، یہ سن چکے اور جو کوئی اللہ کی عزت دی ہوئی چیزوں کی عزت کرے تو اس کو اپنے مالک کے پاس بھلائی پہنچے گی۔

تشریح : اس باب میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف آیت قرآنی پر اختصار کیا اور کوئی حدیث بیان نہیں کی، شاید ان کی شرط پر اس باب کے مناسب کوئی حدیث ان کو نہ ملی ہویا ملی ہو اور کعبے کا اتفاق نہ ہوا ہو، بعض نسخوں میں اس کے بعد کا باب مذکور نہیں بلکہ یوں عبارت ہے وما یاکل من البدن و ما یتصدق بہ واؤ عطف کے ساتھ، اس صورت میں آگے جو حدیثیں بیان کی ہیں وہ اسی باب سے متعلق ہوں گی۔ گویا پہلی آیت قرآنی سے ثابت کیا کہ قربانی کے گوشت میں سے خود بھی کھانا درست ہے، پھر حدیثوں سے بھی ثابت کیا۔ ( وحیدی ) مقصود باب آیت کا ٹکڑا فکلوا منہا و اطعموا البائس الفقیر ( الحج : 28 ) ہے یعنی قربانی کا گوشت خود کھاؤ اور غریب و مساکین کو کھلاؤ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : قربانی کے جانوروں میں سے کیا کھائیں او رکیا خیرات کریں

وقال عبيد الله أخبرني نافع عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ لا يؤكل من جزاء الصيد والنذر، ويؤكل مما سوى ذلك‏.‏ وقال عطاء يأكل ويطعم من المتعة‏.
اور عبیداللہ نے کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی او رانہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ احرام میں کوئی شکار کرے اور اس کا بدلہ دینا پڑے تو بدلہ کے جانور اور نذر کے جانور سے خود کچھ بھی نہ کھائے اور باقی سب میں سے کھا لے اور عطا نے کہا تمتع کی قربانی سے کھائے اور کھلائے۔

حدیث نمبر : 1719
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن جريج، حدثنا عطاء، سمع جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ يقول كنا لا نأكل من لحوم بدننا فوق ثلاث منى، فرخص لنا النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏كلوا وتزودوا‏"‏‏. ‏ فأكلنا وتزودنا‏.‏ قلت لعطاء أقال حتى جئنا المدينة قال لا‏.‏
ہم سے مسددنے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعیدقطان نے، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاءنے، انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنی قربانی کا گوشت منیٰ کے بعد تین دن سے زیادہ نہیں کھاتے تھے، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اجازت دے دی اور فرمایا کہ کھاؤ بھی اور توشہ کے طور پر ساتھ بھی لے جاؤ، چنانچہ ہم نے کھایا اور ساتھ بھی لائے۔ ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاءسے پوچھا کیا جابر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا تھا کہ یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے، انہوں نے کہا نہیں ایسا نہیں فرمایا۔

تشریح : یعنی جابر رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے مدینہ پہنچنے تک اس گوشت کو توشہ کے طور پررکھا، لیکن مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ عطاءنے نہیں کے بدلے ہاں کہا، شاید عطا بھول گئے ہوں پہلے نہیں کہاہو پھر یاد آیا تو ہاں کہنے لگے۔ اس حدیث سے وہ حدیث منسوخ ہے جس میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1720
حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا سليمان، قال حدثني يحيى، قال حدثتني عمرة، قالت سمعت عائشة ـ رضى الله عنها ـ تقول خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لخمس بقين من ذي القعدة، ولا نرى إلا الحج، حتى إذا دنونا من مكة أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم من لم يكن معه هدى إذا طاف بالبيت ثم يحل‏.‏ قالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ فدخل علينا يوم النحر بلحم بقر فقلت ما هذا فقيل ذبح النبي صلى الله عليه وسلم عن أزواجه‏.‏ قال يحيى فذكرت هذا الحديث للقاسم‏.‏ فقال أتتك بالحديث على وجهه‏.
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا، کہا مجھ سے عمرہ نے بیان کیا، کہا میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ ہم مدینہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ذی قعدہ کے پانچ دن باقی رہ گئے تھے، ہمارا ارادہ صرف حج ہی کا تھا، پھر جب مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جن کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ بیت اللہ کا طواف کرکے حلال ہو جائےں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ پھر ہمارے پاس بقرعید کے دن گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس وقت معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے۔ یحییٰ بن سعید نے کہا کہ میں نے اس حدیث کا قاسم بن محمد سے ذکر کیا توانہوں نے کہا کہ عمرہ نے تم سے ٹھیک ٹھیک حدیث بیان کردی ہے۔ (ہر دو احادیث سے مقصد باب ظاہر ہے ) کہ قربانی کا گوشت کھانے او ربطور توشہ رکھنے کی عام اجازت ہے، خود قرآن مجید میں فکلوا منہا کا صیغہ موجود ہے کہ اسے غرباءمساکین کو بھی تقسیم کرو اور خود بھی کھاؤ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : سر منڈانے سے پہلے ذبح کرنا

حدیث نمبر : 1721
حدثنا محمد بن عبد الله بن حوشب، حدثنا هشيم، أخبرنا منصور، عن عطاء، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال سئل النبي صلى الله عليه وسلم عمن حلق قبل أن يذبح ونحوه‏.‏ فقال ‏"‏لا حرج، لا حرج‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، ان سے ہشیم بن بشیر نے بیان کیا، انہیں منصور بن ذاذان نے خبر دی، انہیں عطا بن ابی رباح نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیاجو قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے ہی سر منڈوا لے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی قباحت نہیں، کوئی قباحت نہیں۔ (ترجمہ اور باب میں موافقت ظاہر ہے )

حدیث نمبر : 1722
حدثنا أحمد بن يونس، أخبرنا أبو بكر، عن عبد العزيز بن رفيع، عن عطاء، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم زرت قبل أن أرمي‏.‏ قال ‏"‏لا حرج‏"‏‏. ‏ قال حلقت قبل أن أذبح‏.‏ قال ‏"‏لا حرج‏"‏‏. ‏ قال ذبحت قبل أن أرمي‏.‏ قال ‏"‏لا حرج‏"‏‏. ‏ وقال عبد الرحيم الرازي عن ابن خثيم أخبرني عطاء عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال القاسم بن يحيى حدثني ابن خثيم عن عطاء عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال عفان أراه عن وهيب، حدثنا ابن خثيم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال حماد عن قيس بن سعد وعباد بن منصور عن عطاء عن جابر ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبکر بن عیاش نے خبردی، انہیں عبدالعزیز بن رفیع نے، انہیں عطا بن ابی رباح نے او رانہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حضور ! رمی سے پہلے میں نے طواف زیارت کر لیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں، پھر اس نے کہا اور حضور قربانی کرنے سے پہلے میں نے سر منڈوا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی حرج نہیں، پھر اس نے کہا اور قربانی کو رمی سے بھی پہلے کر لیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔ اور عبدالرحیم رازی نے ابن خشیم سے بیان کیا، کہا کہ عطاءنے خبر دی او رانہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور قاسم بن یحییٰ نے کہا کہ مجھ سے ابن خشیم نے بیان کیا، ان سے عطاءنے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ سے۔ عفان بن مسلم صغار نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ وہیب بن خالد سے روایت ہے کہ ابن خثیم نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اور حماد نے قیس بن سعد اور عباد بن منصور سے بیان کیا، ان سے عطاءنے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔

حدیث نمبر : 1723
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الأعلى، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال سئل النبي صلى الله عليه وسلم فقال رميت بعد ما أمسيت‏.‏ فقال ‏"‏لا حرج‏"‏‏. ‏ قال حلقت قبل أن أنحر‏.‏ قال ‏"‏لا حرج‏"‏‏.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے مسئلہ پوچھا کہ شام ہونے کے بعد میں نے رمی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔ سائل نے کہا کہ قربانی کرنے سے پہلے میں نے سر منڈا لیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔

تشریح : قسطلانی نے کہا رمی کرنے کا افضل وقت زوال تک ہے اور غروب آفتاب سے قبل تک بھی عمدہ ہے اور اس کے بعد بھی جائز ہے اور حلق اور قصر اور طواف الزیارۃ کا وقت معین نہیں، لیکن یو م النحر سے ان کی تاخیر کرنا مکروہ ہے اور ایام تشرقی سے تاخیر کرنا سخت مکروہ ہے۔ غرض یوم النحر کے دن حاجی کو چار کام کرنے ہوتے ہیں رمی اور قربانی اور حلق یا قصر، ان چاروں میں سے ترتیب سنت ہے، لیکن فرض نہیں، اگر کوئی کام دوسرے سے آگے پیچھے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں جیسے کہ ان حدیثوں سے نکلتا ہے۔ امام مالک اور شافعی اور اسحاق اور ہمارے امام احمد بن حنبل سب کا یہی قول ہے اور امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس پر دم لازم آئے گا اور اگر قارن ہے تو دودم لازم آئیں گے۔ ( وحیدی ) جب شارع علیہ السلام نے خود ایسی حالتوں میں لا حرج فرما دیا تو ایسے مواقع پر ایک یا دو دم لازم کرنا صحیح نہیں ہے آج کل معلمین حاجیوں کو ان بہانوں سے جس قدر پریشان کرتے ہیں اور ان سے روپیہ اینٹھتے ہیں یہ سب حرکتیں سخت ناپسندیدہ ہیں۔ فی الواقع کوئی شرعی کوتاہی قابل دم ہو تو وہ تو اپنی جگہ پر ٹھیک ہے مگر خواہ مخواہ ایسی چیزیں از خود پیدا کرنا بہت ہی معیوب ہے۔

اس حدیث سے مفتیان اسلام کو بھی سبق ملتا ہے، جہاں تک ممکن ہو فتوی دریافت کرنے والوں کے لیے کتاب و سنت کی روشنی میں آسانی و نرمی کا پہلو اختیار کریں مگر حدود شرعیہ میں کوئی بھی نرمی نہ ہونی چاہئے۔

حدیث نمبر : 1724
حدثنا عبدان، قال أخبرني أبي، عن شعبة، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ قال قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالبطحاء‏.‏ فقال ‏"‏أحججت‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ قال ‏"‏بما أهللت‏"‏‏. ‏ قلت لبيك بإهلال كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ قال ‏"‏أحسنت، انطلق فطف بالبيت وبالصفا والمروة‏"‏‏. ‏ ثم أتيت امرأة من نساء بني قيس، ففلت رأسي، ثم أهللت بالحج، فكنت أفتي به الناس، حتى خلافة عمر ـ رضى الله عنه ـ فذكرته له‏.‏ فقال إن نأخذ بكتاب الله فإنه يأمرنا بالتمام، وإن نأخذ بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يحل حتى بلغ الهدى محله‏.‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ عثمان نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں قیس بن مسلم نے، انہیں طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بطحاءمیں تھے۔ (جو مکہ کے قریب ایک جگہ ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تو نے حج کی نیت کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تو نے احرام کس چیز کا باندھا ہے میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کی طرح باندھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے اچھا کیا اب جا۔ چنانچہ (مکہ پہنچ کر ) میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی کی، پھر میں بنو قیس کی ایک خاتون کے پاس آیا او رانہوں نے میرے سر کی جوئیں نکالی۔ اس کے بعد میں نے حج کی لبیک پکاری۔ اس کے بعد میں عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک اسی کا فتویٰ دیتا رہا پھر جب میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں کتاب اللہ پر بھی عمل کرنا چاہئے اور اس میں پورا کرنے کا حکم ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بھی عمل کرنا چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قربانی سے پہلے حلال نہیں ہوئے تھے۔

تشریح : ہوا یہ کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قربانی نہ تھی۔ جن لوگوں کے ساتھ قربانی نہ تھی گو انہوں نے میقات سے حج کی نیت کی تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو فسخ کرکے ان کو عمرہ کرکے احرام کھولنے کا حکم دیا اور فرمایا اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی ایسا ہی کرتا، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اسی کے مطابق فتویٰ دیتے رہے کہ تمتع کرنا درست ہے اور حج کو فسخ کرکے عمرہ بنا دینا درست ہے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے تمتع سے منع کیا۔ ( وحیدی ) اس روایت سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک احرام نہیں کھولا جب تک قربانی اپنی ٹھکانے نہیں پہنچ گئی یعنی منیٰ میں ذبح یا نحر نہیں کی گئی تو معلوم ہوا کہ قربانی حلق پر مقدم ہے اور باب کا یہی مطلب تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کی کتاب سے یہ آیت مراد لی و اتموا الحج و العمرۃ للہ ( البقرۃ : 196 ) اور اس آیت سے استدلال کرکے انہوں نے حج کو فسخ کرکے عمرہ بنا دینا اور احرام کھول ڈالنا ناجائز سمجھا حالانکہ حج کو فسخ کرکے عمرہ کرنا آیت کے خلاف نہیں ہے کیوں کہ اس کے بعد حج کا احرام باندھ کر اس کو پورا کرتے ہیں اور حدیث سے بھی استدلال صحیح نہیں اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہدی ساتھ لائے تھے اور جو شخص ہدی ساتھ لائے اس کو بے شک احرام کھولنا اس وقت تک درست نہیں جب تک ذبح نہ ہو لے لیکن کلام اس شخص میں ہے جس کے ساتھ ہدی نہ ہو۔ ( وحیدی ) و مطابقتہ للترجمۃ من قول عمر فیہ لم یحل حتی بلغ الہدی محلہ لان بلوغ الہدی محلہ یدل علی ذبح الہدی فلو تقدم الحلق علیہ لصار متحللا قبل بلوغ الہدی محلہ و ہذا ہو الاصل و ہو تقدیم الذبح علی الحلق و اما تاخیرہ فہو رخصۃ ( فتح
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اس کے متعلق جس نے احرام کے وقت سر کے بالوں کو جما لیا اور احرام کھولتے وقت سر منڈا لیا

یعنی گوند وغیرہ سے تاکہ گرد اور غبار سے محفوظ رہیں اس کو عربی زبان میں تلبید کہتے ہیں۔

حدیث نمبر : 1725
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، عن حفصة ـ رضى الله عنهم ـ أنها قالت يا رسول الله، ما شأن الناس حلوا بعمرة ولم تحلل أنت من عمرتك قال ‏"‏إني لبدت رأسي، وقلدت هديي، فلا أحل حتى أنحر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا وجہ ہوئی کہ اور لوگ تو عمرہ کرکے حلال ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کر لیا اورحلال نہ ہوئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کے بال جما لئے تھے اور قربانی کے گلے میں قلادہ پہنا کر میں (اپنے ساتھ ) لایا ہوں، اس لیے جب تک میں نحر نہ کرلوں گا میں احرام نہیں کھولوں گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : احرام کھولتے وقت بال منڈانا یا ترشوانا

حدیث نمبر : 1726
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب بن أبي حمزة، قال نافع كان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يقول حلق رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجته‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی، ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنا سر منڈایا تھا۔

معلوم ہوا کہ سر منڈانا یا بال کتروانا بھی حج کا ایک کام ہے

حدیث نمبر : 1727

حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏اللهم ارحم المحلقين‏"‏‏. ‏ قالوا والمقصرين يا رسول الله قال ‏"‏اللهم ارحم المحلقين‏"‏‏. ‏ قالوا والمقصرين يا رسول الله قال ‏"‏والمقصرين‏"‏‏. ‏ وقال الليث حدثني نافع ‏"‏رحم الله المحلقين ‏"‏مرة أو مرتين‏.‏ قال وقال عبيد الله حدثني نافع وقال في الرابعة ‏"‏والمقصرين‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی اور کتروانے والوں پر؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اب بھی دعا کی اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ! صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر عرض کی اور کتروانے والوں پر؟ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کتروانے والوں پر بھی، لیث نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ نے سر منڈوانے والوں پر رحم کیا ایک یا دو مرتبہ، انہوں نے بیان کیا کہ عبید اللہ نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ چوتھی مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کتروانے والوں پر بھی۔

تشریح : یعنی لیث کو اس میں شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈانے والوں کے لیے ایک بار دعا کی یا دو بار، اور اکثر راویوں کا اتفاق امام مالک کی راویت پر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈانے والوں کے لیے دو بار دعا کی اور تیسری بار کتروانے والوں کو بھی شریک کر لیا۔ عبید اللہ کی روایت میں ہے کہ چوتھی بار میں کتروانے والوں کو شریک کیا۔ بہرحال حدیث سے یہ نکلا کہ سر منڈانا بال کتروانے سے افضل ہے، امام مالک اور امام احمد کہتے ہیں کہ سارا سر منڈائے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک چوتھائی سر منڈانا کافی ہے اور امام ابویوسف کے نزدیک تین بال منڈانا کافی ہے۔ بعض شافعیہ نے ایک بال منڈانا بھی کافی سمجھا ہے اور عورتوں کو بال کترانا چاہئیے ان کو سر منڈانا منع ہے۔ ( وحیدی ) سر منڈانے یا بال کتروانے کا واقعہ حجۃ الوداع سے متعلق ہے اور حدیبیہ سے بھی جب کہ مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ سے روک دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان حدیبیہ ہی میں حلق اور قربانی کی اب بھی جو لوگ راستے میں حج عمرہ سے روک دئیے جاتے ہیں ان کے لیے یہی حکم ہے۔

حافظ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں و اما السبب فی تکریر الدعاءللمحلقین فی حجۃ الوداع فقال ابن اثیر فی النہایۃ کان اکثر من حج مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم یسق الہدی فلما امرہم ان یفسخوا الحج الی العمرۃ ثم یتحللوا منہا و یحلقوا روسہم شق علیہم ثم لما لم یکن لہم بد من الطاعۃ کان التقصیر فی انفسہم اخف من الحلق ففعلہ اکثرہم فرجح النبی صلی اللہ علیہ وسلم فعل من حلق لکونہ بین فی امتثال الامر انتہی ( یعنی سر منڈاونے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت دعا فرمائی کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکثر حاجی وہ تھے جو اپنے ساتھ ہدی لے کر نہیں آئے تھے پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حج کے فسخ کرنے اور عمرہ کر لینے اور احرام کھول دینے اور سرمنڈوانے کا حکم فرمایا تو یہ امر ان پر بار گزرا پھر ان کے لیے امتثال امر بھی ضروری تھا اس لیے ان کو حلق سے تقصیر میں کچھ آسانی نظر آئی، پس اکثر نے یہی کیا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈوانے والوں کے فعل کو ترجیح فرمائی اس لیے کہ یہ امتثال امر میں زیادہ ظاہر با ت تھی ) عربوں کی عادت بھی اکثر بالوں کو بڑھانے ان سے زینت حاصل کرنے کی تھی اور سرمنڈانے کا رواج ان میں کم تھا وہ بالوں کو عجمیوں کی شہرت کا ذریعہ بھی گردانتے اور ان کی نقل اپنے لیے باعث شہرت سمجھتے تھے۔ اس لیے ان میں سے اکثر سر منڈانے کو مکروہ جانتے اور بال کتروانے پر کفایت کرنا پسند کرتے تھے۔ حدیث بالا سے ایسے لوگوں کے لیے دعا کرنا بھی ثابت ہوا جو بہتر سے بہتر کاموں کے لیے آمادہ ہوں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ امر مرجوح پر عمل کرنے والوں کے لیے بھی دعائے خیر کی درخواست کی جا سکتی ہے یہ بھی ثابت ہوا کہ حلق کی جگہ تقصیر بھی کافی ہے مگر بہتر حلق ہی ہے۔

حدیث نمبر : 1728
حدثنا عياش بن الوليد، حدثنا محمد بن فضيل، حدثنا عمارة بن القعقاع، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏اللهم اغفر للمحلقين‏"‏‏. ‏ قالوا وللمقصرين‏.‏ قال ‏"‏اللهم اغفر للمحلقين‏"‏‏. ‏ قالوا وللمقصرين‏.‏ قالها ثلاثا‏.‏ قال ‏"‏وللمقصرين‏"‏‏. ‏
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اے اللہ ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما ! صحابہ رضی اللہ عنہم نے عر ض کیا اور کتروانے والوں کے لیے بھی (یہی دعا فرمائیے ) لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا اے اللہ ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت کر۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اور کتروانے والوں کی بھی ! تیسری مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کتروانے والوں کی بھی مغفرت فرما۔

حدیث نمبر : 1729
حدثنا عبد الله بن محمد بن أسماء، حدثنا جويرية بن أسماء، عن نافع، أن عبد الله، قال حلق النبي صلى الله عليه وسلم وطائفة من أصحابه، وقصر بعضهم‏.
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماءنے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماءنے، ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے اصحاب نے سر منڈوایا تھا لیکن بعض نے کتروایا بھی تھا۔

حدیث نمبر : 1730
حدثنا أبو عاصم، عن ابن جريج، عن الحسن بن مسلم، عن طاوس، عن ابن عباس، عن معاوية ـ رضى الله عنهم ـ قال قصرت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بمشقص‏.‏
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے حسن بن مسلم نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے بیان کیا، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ان سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قینچی سے کاٹے تھے۔

تشریح : ارکان حج کی بجاآوری کے بعد حاجی کو سر کے بال منڈانے ہیں یا کتروانے، ہر دو صورتیں جائز ہیں، مگر منڈانے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار مغفرت کی دعا فرمائی اور کتروانے والوں کے لیے ایک بار، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنداللہ اس موقع پر بالوں کا منڈوانا زیادہ محبوب ہے۔ اس روایت میں حضرت معاویہ کا بیان وارد ہوتا ہے، اس کے وقت کی تعیین کرنے میں شارحین کے مختلف اقوال ہیں۔ یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے متعلق نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہو کیوں کہ اصحاب سیر کے بیان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے بھی حج کئے ہیں۔ علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ و قد اخرج ابن عساکر فی تاریخ دمشق من ترجمۃ معاویۃ تصریح بانہ اسلم بین الحدیبیۃ و القضیۃ و انہ کان یخفی اسلامہ خوفاً من ابویہ و کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما دخل فی عمرۃ القضیۃ مکۃ خرج اکثر اہلہا عنہا حتی لا ینظرونہ و اصحابہ یطوفون بالبیت فلعل معاویۃ کان ممن تخلف بمکۃ لسبب اقتضاہ و لا یعارضہ ایضا قول سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فیما اخرجہ مسلم وغیرہ فعلناہا یعنی العمرۃ فی الشہر الحج و ہذا یومئذ کافر بالعرش بضمتین یعنی بیوت مکۃ یشیر الی معاویۃ لانہ یحمل علی انہ اخبر بما استصحب من حالہ ولم یطلع علی اسلامہ لکونہ کان یخفیہ و ینکر علی ماجوزوہ ان تقصیرہ کان فی عمرہ الجعرانۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رکب من الجعرانۃ بعد ان احرم بعمرۃ و لم یستصحب احداذ معہ الا بعض اصحابہ المہاجرین فقدم مکۃ فطاف و سعی حلق و رجع الی الجعرانۃ فاصبح بہا کبائت فخفیت عمرتہ علی کثیر من الناس کذا اخرجہ الترمذی و غیرہ و لم یعد معاویۃ فیمن کان صحبہ حینئذ و لا کان معاویۃ فیمن تخلف عنہ بمکۃ فی غزوۃ حنین حتی یقال لعلہ وجدہ بمکۃ بل کان مع القوم و اعطاہ مثل ما اعطی اباہ من الغنیمۃ مع جملۃ المولفۃ واخرج الحاکم فی الاکلیل فی اخر قصۃ غزوۃ حنین ان الذی حلق راسہ صلی اللہ علیہ وسلم فی عمرتہ التی اعتمرہا من الجعرانۃ ابوہند عبد بنی بیاضۃ فان ثبت ہذا و ثبت ان معاویۃ کان حینئذ معہ او کان بمکۃ فقصر عنہ بالمروۃ امکن الجمع بان یکون معاویۃ قصر عنہ اولا و کان الحلاق غائبا فی بعض حاجتہ ثم حضر فائرہ ان یکمل ازالۃ الشعر بالحلق لانہ افضل ففعل و ان ثبت ان ذالک کان فی عمرۃ القضیۃ و ثبت انہ صلی اللہ علیہ وسلم حلق فیہا جاءہذا الاحتمال بعینہ و حصل التوفیق بین الاخبا رکلہا و ہذا مما فتح اللہ علّی بہ فی ہذا الفتح و للہ الحمد ثم للہ الحمد ابدا ( فتح الباری )

خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سال حدیبیہ اور سال عمرۃ القضاءکے درمیان اسلام لا چکے تھے، مگر وہ والدین کے ڈر سے اپنے اسلام کو ظاہر نہیں کر رہے تھے، عمرۃ القضاءمیں جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب طواف کعبہ میں مشغول تھے تمام کفار مکہ شہر چھوڑ کر باہر چلے گئے تاکہ وہ اہل اسلام کو دیکھ نہ سکیں اس موقع پر شاید حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مکہ شریف ہی میں رہ گئے ہوں ( اور ممکن ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ بھی اسی وقت سے تعلق رکھتا ہو ) اور سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کا وہ قول جسے مسلم نے روایت کیا ہے اس کے خلاف نہیں ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عمرۃ القضاءکے موقع پر مکہ شریف کے کسی گھر میں چھت پر چھپے ہوئے تھے۔ یہ اس لیے کہ وہ اپنے اسلام کو اپنے رشتہ داروں سے ابھی تک پوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور جس نے اس واقعہ کو عمرہ جعرانہ سے متعلق بتلایا ہے وہ درست نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ اس موقع پر جو صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار نہیں ہے اور غزوہ حنین کے موقع پر انہوں نے اپنے والد کے ساتھ مال غنیمت سے مولفین میں شامل ہو کر حصہ لیا تھا۔ غزوہ حنین کے قصہ کے آخر میں حاکم نے نقل کیا ہے کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مونڈنے والا بنی بیاضہ کا ایک غلام تھا جس کا نام ابو ہند تھا، اگر یہ ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہو جائے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے یا مکہ میں موجود تھے تو یہ امکان ہے کہ انہوں نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قینچی سے کترے ہوں اور حلاق اس وقت غائب رہاہو پھر اس کے آجانے پر اس سے کرایا ہو کیوں کہ حلق افضل ہے اور اگر یہ عمرۃ القضیہ میں ثابت ہو جب کہ وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلق ثابت ہے تو یہ احتمال صحیح ہے کہ اس موقع پر انہوں نے یہ خدمت انجام دی ہو۔ مختلف روایات میں تطیبق کی یہ توفیق محض اللہ کے فضل سے حاصل ہوئی ہے۔ و للہ الحمد۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : تمتع کرنے والا عمرہ کے بعد بال ترشوائے

حدیث نمبر : 1731
حدثنا محمد بن أبي بكر، حدثنا فضيل بن سليمان، حدثنا موسى بن عقبة، أخبرني كريب، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم مكة أمر أصحابه أن يطوفوا بالبيت، وبالصفا والمروة، ثم يحلوا، ويحلقوا أو يقصروا‏.‏
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان یا، ان سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں کریب نے خبر دی، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو یہ حکم دیا کہ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرنے کے بعد احرام کھول دیں پھر سر منڈوا لیں یا بال کتروا لیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو کے لیے اختیار دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں امور جائز ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : دسویں تاریخ میں طواف الزیارۃ کرنا

وقال أبو الزبير عن عائشة، وابن، عباس ـ رضى الله عنهم ـ أخر النبي صلى الله عليه وسلم الزيارة إلى الليل‏.‏ ويذكر عن أبي حسان عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يزور البيت أيام منى‏. اور ابوالزبیر نے حضرت عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت کیا کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف الزیارۃ میں اتنی دیر کی کہ رات ہو گئی اور ابوحسان سے منقول ہے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طواف الزیارۃ منی کے دنوں میں کرتے۔

ابوالزبیر والی روایت کو ترمذی اور ابوداؤد اور امام احمد بن حنبل نے وصل کیا ہے۔ مذکورہ ابوحسان کا نام مسلم بن عبداللہ عدی ہے، اس کو طبرانی نے معجم کبیر میں اور بیہقی نے وصل کیا ہے۔

حدیث نمبر : 1732
وقال لنا أبو نعيم حدثنا سفيان، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أنه طاف طوافا واحدا، ثم يقيل ثم يأتي منى ـ يعني يوم النحر ـ‏.‏ ورفعه عبد الرزاق أخبرنا عبيد الله‏.‏
اور ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے صرف ایک طواف الزیارۃ کیا پھر سویرے سے منیٰ کو آئے، ان کی مراد دسویں تاریخ سے تھی، عبدالرزاق نے اس حدیث کا رفع (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ) بھی کیا ہے۔ انہیں عبید اللہ نے خبر دی۔

حدیث نمبر : 1733
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن جعفر بن ربيعة، عن الأعرج، قال حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت حججنا مع النبي صلى الله عليه وسلم فأفضنا يوم النحر، فحاضت صفية، فأراد النبي صلى الله عليه وسلم منها ما يريد الرجل من أهله‏.‏ فقلت يا رسول الله إنها حائض‏.‏ قال ‏"‏حابستنا هي‏"‏‏. ‏ قالوا يا رسول الله، أفاضت يوم النحر‏.‏ قال ‏"‏اخرجوا‏"‏‏. ‏ ويذكر عن القاسم وعروة والأسود عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أفاضت صفية يوم النحر‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے اعرج نے انھوں نے کہاکہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ہم نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تو دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کیا لیکن صفیہ رضی اللہ عنہا حائضہ ہوگئیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وہی چاہا جو شوہر اپنی بیوی سے چاہتا ہے، تو میں نے کہا یا رسول اللہ ! وہ حائضہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اس نے تو ہمیں روک دیا پھر جب لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! انہوں نے دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کر لیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر چلے چلو۔ قاسم، عروہ اور اسود سے بواسطہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت ہے کہ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا نے دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کیا تھا۔

تشریح : اس کو طواف الافاضہ اور طواف الصدر اور طواف الرکن بھی کہا گیا ہے، بعض روایتوں میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طواف دن میں کیا تھا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوحسان کی حدیث لا کر احادیث مختلفہ میں اس طرح تطبیق دی کہ جابر اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان یوم اول سے متعلق ہے اور حضرت ابن عباس کی حدیث کاتعلق بقایا دنوں سے ہے، یہاں تک بھی مروی ہے کہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یزور البیت کل لیلۃ ما اقام بمنیٰ یعنی ایام منیٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات مکہ شریف آکر طواف الزیارۃ کیا کرتے تھے۔ ( فتح الباری
 
Top